شہرت کی وجہ سے سند کے ضعف یا روایت کی دلالت کا جبران انجبار خبر کہلاتا ہے۔ اصول فقہ میں باب تعادل و تراجیح اور علم الدرایۃ میں خبر واحد کے ذیل میں اس سے بحث ہوتی ہے۔

۱ – سندِ حدیث کے ضعف کا جبران
۲ – روایت کو شہرت کے ساتھ تقویت کی شرائط
۳ – ضعف دلالت کا جبران
۴ – حوالہ جات
۵ – مأخذ

سندِ حدیث کے ضعف کا جبران

مشہور فقہاء قائل ہیں کہ اگر ایک روایت جس کی سند ضعیف ہے کے مطابق مشہور کا عمل ثابت ہو تو شہرتِ عملی اس حدیث کی سند کے ضعف کا جبران کا باعث بن جائے گی اور یہ حدیث معتبر کہلائے گی جس کے مطابق عمل کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح اگر مشہور کسی روایت سے روگردانی کریں اور حدیث کے صحیح ہونے کے باوجود اس پر عمل نہ کریں تو مشہور کا صحیح السند روایت سے اعراض کرنا اور اس پر عمل نہ کرنا اس حدیث کے ضعیف ہونے کا باعث قرار پائے گا۔ کیونکہ حجیتِ خبر کا ملاک اس خبر کا معصومؑ سے صادر ہونے کا اطمینان اور وثاقت کا حصول ہے اور یہ تب حاصل ہوتا ہے جب خبر یا حدیث کی شہرت سے مطابقت ثابت ہو۔

روایت کو شہرت کے ساتھ تقویت کی شرائط

۱. شہرت قدماء کے نزدیک ثابت ہو، کیونکہ قدماء آئمہ معصومینؑ کے زمانے کے نزدیک تھے۔ اس لیے ان کے نزدیک شہرت کا حاصل ہونا معنی رکھتا ہے۔
۲. مشہور کا اس روایت کے اوپر اعتماد و استناد کرنا اور اس روایت کے مطابق عمل مشہور کا ثابت ہونا۔[۱][۲][۳]
اگر مشہور کا فتوی ضعیف السند روایت کے مضمون سے مطابقت رکھتا ہے تو اس سے روایت کے ضعف کا جبران ہو جائے گا اگرچے یہ ثابت نہ ہو کہ مشہور نے فتوی دیتے ہوئے اس روایت پر اعتماد کیا تھا۔ اس مسئلہ میں بعض اصولیوں نے اختلاف کیا ہے اور مشہور کے فتوی کا اس روایت پر اعتماد کرنے کے اثبات کو شرط قرار دیا ہے۔ کیونکہ یہ احتمال پایا جاتا ہے کہ ممکن ہے کہ قدماء کے دور میں یہ حدیث موجود ہو لیکن انہوں نے اس حدیث کی بجائے معتبر حدیث پر اعتماد کرتے ہوئے فتوی دیا ہو اور وہ روایت ہم تک نہ پہنچی ہو جس پر انہوں نے استناد کیا تھا۔ جبکہ یہ ضعیف روایت ہم تک پہنچ گئی۔ لہذا بعض علماء کے نزدیک ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ قدماء نے فتوی اسی ضعیف حدیث کے مضمون کے مطابق دیا ہے۔[۴]

ضعف دلالت کا جبران

فقہاء میں یہ مسئلہ اختلافی ہے کہ اگر فقہاء نے ایک فتوی دیا ہو اور وہ فتوی کسی ضعیف روایت کے مطابق ہو تو کیا اس فتوی کا ضعیف روایت کے مضمون کے مطابق ہونے سے ضعیف روایت کو تقویت حاصل ہو جاتی ہے یا حاصل نہیں ہوتی؟[۵]

حوالہ جات

۱. ↑ شیخ مظفر، محمد رضا مظفر، اصول فقہ، ج۲، ص۲۲۱۔
۲. ↑ مکارم شیرازی، ناصر، انوار الاصول ج۳، ص۵۸۷۔
۳. ↑ حکیم، سید محمد تقی، الاصول العامۃ، ج۱، ص۲۲۱۔
۴. ↑ شیخ انصاری، مرتضی، فرائد الاصول ج۱، ص۵۸۷-۵۹۰۔
۵. ↑ شیخ انصاری، مرتضی، فرائد الاصول ج۱، ص۵۸۷۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے