بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمدُ للہ ربّ العالمين.. والصلاة والسلام على رسول اللہ سيد الخلائق وخاتم النبيين محمد وعلى أهل بيته الطيبين الطاهرين

 

السلام عليكم مومنين و مومنات..

ایامِ فاطمیہ میں یہ بات میرے نوٹس میں آئی کہ جہاں اہل سنت کی جانب سے حق زہرا سلام اللہ علیہا کے عنوان پر خلفاء کا دفاع ممكن نہیں ہو پاتا وہاں ان کی جانب سے امامتِ ابوبکر کو موضوع بنا کر اس پر بحث شروع کر دی جاتی ہے .

 

تو سوچا کیوں نا اس غیر منطقی اور غیر علمی استدلالِ اہل سنت پر بھی حیدری قفل لگا کر اسے مکمّل طور پر سیل کر دیا جائے..

 

قارئین کرام.. میں اپنے اسٹائل سے تھوڑا ہٹ کر تحریر لکھوں گا تاکہ مخالفین کی جانب سے ہیٹ اسپیچ کا ایشو بنا کر فیس بُک پر پابندی سے بچا جا سکے کیونکہ ان بیچارو کے پاس اب یہی ایک ہتھیار بچا ہے جس سے یہ اپنے ناحق پیروں کا دفاع کر رہے ہیں.

 

چلیں تو پھر خلافت پر ڈاکہ ڈالنے کے لئے مبینہ صدیق اکبر کی افسانوی نمازِ جماعت کا پوسٹ مارٹم شروع کرتا ہوں دعاء صنمی قریش کو دل میں دہرا کر….

 

تحریر کے پہلے حصے میں براہ راست ان روایات کا رد پیش کروں گا جس سے اس فرسودہ اصول پر دلیل قائم کی جاتی ہے کہ پہلے خلیفہ نے حکمِ رسول اللہ (ص) پر نمازِ جماعت کی امامت کی..

 

پھر دوسرے حصے میں اس فرسودہ اصولِ خلافت کو اہل سنت کی اپنی کتابوں سے عقلی و منطقی انداز میں رد کروں گا..

 

سب سے پہلے ان جماعتی روایات میں سے بطورِ نمونہ ایک روایت پیش خدمت ہے اور وہ بھی صحیح بخاری سے ۔۔۔ ملاحظہ فرمائیں

 

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ : ” لَمَّا ثَقُلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَ بِلَالٌ يُوذِنُهُ بِالصَّلَاةِ ، فَقَالَ : مُرُوا أَبَا بَكْرٍ أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ ، فَقُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ أَسِيفٌ وَإِنَّهُ مَتَى مَا يَقُمْ مَقَامَكَ لَا يُسْمِعُ النَّاسَ فَلَوْ أَمَرْتَ عُمَرَ ، فَقَالَ : مُرُوا أَبَا بَكْرٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ ، فَقُلْتُ لِحَفْصَةَ : قُولِي لَهُ إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ أَسِيفٌ وَإِنَّهُ مَتَى يَقُمْ مَقَامَكَ لَا يُسْمِعُ النَّاسَ فَلَوْ أَمَرْتَ عُمَرَ ، قَالَ : إِنَّكُنَّ لَأَنْتُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُفَ مُرُوا أَبَا بَكْرٍ أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ ، فَلَمَّا دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ وَجَدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَفْسِهِ خِفَّةً ، فَقَامَ يُهَادَى بَيْنَ رَجُلَيْنِ وَرِجْلَاهُ يَخُطَّانِ فِي الْأَرْضِ حَتَّى دَخَلَ الْمَسْجِدَ ، فَلَمَّا سَمِعَ أَبُو بَكْرٍ حِسَّهُ ذَهَبَ أَبُو بَكْرٍ يَتَأَخَّرُ فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى جَلَسَ عَنْ يَسَارِ أَبِي بَكْرٍ ، فَكَانَ أَبُو بَكْرٍ يُصَلِّي قَائِمًا وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي قَاعِدًا يَقْتَدِي أَبُو بَكْرٍ بِصَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ مُقْتَدُونَ بِصَلَاةِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ”

 

ترجمہ :

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابومعاویہ محمد بن حازم نے بیان کیا، انہوں نے اعمش کے واسطے سے بیان کیا، انہوں نے ابراہیم نخعی سے، انہوں نے اسود سے، انہوں نے عائشہ سے۔ آپ نے بتلایا کہ` نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ بیمار ہو گئے تھے تو بلال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کی خبر دینے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوبکر سے نماز پڑھانے کے لیے کہو۔ میں نے (یعنی عائشہ نے) کہا کہ یا رسول اللہ! ابوبکر ایک نرم دل آدمی ہیں اور جب بھی وہ آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے لوگوں کو آواز نہیں سنا سکیں گے۔ اس لیے اگر عمر سے کہتے تو بہتر تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوبکر سے نماز پڑھانے کے لیے کہو۔

پھر میں نے حفصہ سے کہا کہ تم کہو کہ ابوبکر نرم دل آدمی ہیں اور اگر آپ کی جگہ کھڑے ہوئے تو لوگوں کو اپنی آواز نہیں سنا سکیں گے۔ اس لیے اگر عمر سے کہیں تو بہتر ہو گا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ صواحب یوسف سے کم نہیں ہو۔ ابوبکر سے کہو کہ نماز پڑھائیں۔ جب ابوبکر نماز پڑھانے لگے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض میں کچھ ہلکا پن محسوس فرمایا اور دو آدمیوں کا سہارا لے کر کھڑے ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں زمین پر نشان کر رہے تھے۔ اس طرح چل کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے۔ جب ابوبکر نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آہٹ پائی تو پیچھے ہٹنے لگے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ سے روکا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر کے بائیں طرف بیٹھ گئے تو ابوبکر کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے اور رسول اللہ بیٹھ کر۔ ابوبکر، رسول اللہ کی اقتداء کر رہے تھے اور لوگ ابوبکر کی اقتداء۔

 

حوالہ: صحيح البخاري، كِتَاب الْأَذَانِ ، بَابُ الرَّجُلُ يَأْتَمُّ بِالإِمَامِ وَيَأْتَمُّ النَّاسُ بِالْمَأْمُومِ، حدیث نمبر 713

 

تو دیکھا آپ قارئین نے، نماز جماعت کی شکل تک بگاڑ دی ابوبکر کی خلافت کو ثابت کروانے کے چکر میں اور وہ بھی معاذاللہ رسول اکرم کی موجودگی میں ۔۔ ۔تف ہے

 

یہ کیسی نمازِ جماعت ہے کہ جس میں فقط ابوبکر ، رسول اکرم کی اقتداء میں نماز پڑھ رہا ہے اور باقی تمام مجمع ابوبکر کی اقتداء میں ۔۔۔ ہیں جی ؟؟؟؟ حد ہے قسم سے ۔۔

 

اور رسول اللہ کی موجودگی میں ان کے حکم دینے کے بعد عائشہ صاحبہ کو یہ جرات کیسے ہوئی کہ وہ رسول کے حکم پر اپنی رائے کو مقدم کر کے انہیں مشورہ دیں ؟؟؟

 

اور جب رسول نے حکم دے دیا کہ ابوبکر جا کر پڑھا دے تو پھر رسول کو اپنی ہی لائی ہوئی شریعت کا معاذاللہ علم نہیں تھا کہ ایسی بیماری کی حالت میں جماعت میں شرکت ضروری نہیں بلکہ گھر میں فرادی بھی انجام دی جا سکتی ہے ؟؟ اگر علم تھا تو اہل سنت ہمیں بتائیں کہ ابوبکر کو بھیجنے کے بعد پھر رسول اکرم کیوں مسجد تشریف لے گئے؟؟

 

یہاں بخاری نے ایک اور خیانت کی کہ ان دو اشخاص کا نام تک کھا گیا کہ جن کا سہارا لے کر رسول اللہ مسجد تشریف لے گئے یعنی امام علیؑ اور عباس ۔۔ خیر ایک بات بخاری نے پوری ایمانداری سے نقل کر دی کہ رسول نے عائشہ اور حفضہ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ تم "صواحب یوسف ” ہو یعنی یوسف کے ساتھ والی عورتوں کی طرح ہو کہ دل میں کچھ ہے، ظاہر میں کچھ اور کر کچھ اور رہی ہو۔ یعنی بزبان رسالت، ان دونوں کے نفاق اور عدالت کا کھلا اظہار ۔۔

 

خیر۔۔ قارئین کرام ۔۔ ابوبکر کی مبینہ جماعت کروانے کے سلسلے میں تقرباً 72 کے لگ بھک روایات ، اہل سنت کتابوں میں موجود ہیں۔ جن میں کثیر تعداد صحابہ کے اقوال ہیں ناکہ فرمانِ رسول ﷺ ۔

 

اور جتنی بھی روایات ہیں ان کی سند خود اہل سنت علماء رجال کے ہاں قابل قبول نہیں یعنی مرسل روایات ہیں اور نا صرف سند بلکہ متنِ روایت بھی بری طرح سے مخدوش و مردود ہے۔

 

اب یہاں کسی مخالف کو یہ کیڑا کاٹ جائے کہ دیکھا آپ نے خود ہی لکھ دیا کہ 72 روایات ہیں تو ثابت ہوا کہ یہ حدیثِ متواتر ہے۔۔

 

تو ان جہلاء کے لیے جواب یہ ہے کہ حدیث کو حدِ تواتر تک لانے کے لیے حدیث کا زیادہ ہونا شرط نہیں ہوتا بلکہ اس حدیث کا زیادہ اصحاب سے وارد ہونا شرط ہے۔ یعنی ایک ہی متن کی حدیث الگ الگ اصحاب سے روایت ہو تو وہ حدیثِ متواتر ہے ۔

 

جبکہ ابو بکر کی یہ روایات، عائشہ ،انس ، ابوموسیٰ اشعری ، ابن عمر ، عبداللہ بن مسعود ، ابن عباس، بریدہ، عبد اللہ بن زمعہ، سالم بن عبدے اور حمزہ بن عبداللہ بن عمر سے مروی ہیں جو قطعاً تواتر پر دلیل نہیں بن سکتیں بلکہ سب کی سب احاد پر مشتمل ہیں یعنی خبر واحد پر۔

 

مزید کھول کر لکھوں تو بخاری میں عائشہ، ابو موسیٰ، ابن عمر اور حمزہ سے اس روایت کو لیا گیا ہے اور عائشہ سے عروہ ، اسود اور عبیداللہ بن عتبہ سے ۔۔

 

اور اگر صحیح مسلم کو دیکھیں تو اس میں بھی عائشہ، ابو موسیٰ سے بالکل بخاری کی طرح نقل ہوئی البتہ ایک دو جگہوں پر حمزہ اور ابن عمر نے عائشہ سے روایت کی ہیں۔

 

مسند احمد بن حنبل میں دیکھیں تو کچھ اضافہ ملتا ہے جیسے ابن عباس، انس ، بریدہ اور عبداللہ بن زمعہ وغیرہ

 

جبکہ سنن نسائی میں ابن مسعود ، ابن ماجہ میں سالم بن عبید اور حمزہ بن عبداللہ سے روایات کو نقل کیا گیا ہے ۔

 

اب ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ عائشہ تو چلیں گھر میں موجود تھیں تو ان سے روایت نقل ہو گئی لیکن باقی وہ اصحاب بھی کیا گھر میں تھے جنہوں نے براہ راست روایت کو نقل کیا ناکہ عائشہ سے ؟؟

کیا یہ بات سمجھ میں آنے والی ہے ؟؟

 

تو جی یہ تھی تواتری ٹولے کو مکمل پھکی ۔۔ امید ہے ہاضمہ بہتر ہو گیا ہوگا۔۔ اب آگے چلتے ہیں۔۔

 

چلیں جی اوپر بطورِ مثال پیش کی گئی بخاری کی حدیث کا اب ہلکا پھلکا رجالی پوسٹ مارٹم ہو جائے ۔۔

 

حدیث کا راوی ابو معاویہ ۔۔

ابو معاویہ کا پورا نام ابو معاویہ محمد بن حازم الضرير ہے جس کے بار میں امام مزی لکھتے ہیں:

 

قال عباس الدوري، عن يحيي بن معين: ليس بثقة .

 

یعنی یہ ثقہ نہیں ہے

 

حوالہ : تهذيب الكمال، جلد 12، صفحہ 364

 

حدیث کا ایک اور راوی اعمش پے ۔۔

اعمش کا پورا رجالی نام سليمان بن مهران الاعمش ہے جس کے بارے میں ابن حجر عسقلانی نے لکھا کہ یہ تدلیس کرتا تھا اور تدلیس، قبیح اور عدالت کے لیے مضر ہے ۔۔ عبارت ملاحظہ فرمائیں

 

سليمان بن مهران الأعمش وكان يدلس وصفه بذلك النسائي والدارقطني وغيرهم

 

حوالہ : طبقات المدلّسين، ابن حجر( 852 هـ )، صفحہ 33

 

قارئین یہ جماعتی حدیث کے 10 طرق کو بخاری نے اپنی صحیح میں جمع کیا ہے اب اگر ایک ایک حدیث پیش کرنے بیٹھ گیا تو تحریر ہاتھ سے نکل کر کتابی شکل اختیار کر لے تبھی اختصار کے پیش نظر فقط بخاری کے ان راویان پر رجالی رد ہو جائے جو تمام 10 روایات میں موجود ہیں ۔۔

 

ابو معاویہ اور اعمش کو تو اوپر ٹیکہ لگا دیا مزید کی ویکسینشن اب شروع کرتا ہوں ۔۔ ۔

 

بخاری میں موجود روایاتِ جماعتِ ابوبکر کے راویان اہل سنت جرح و تعدیل کے کلینک میں۔۔

 

– ابراهيم بن يزيد نخعي

یہ مدلسین میں سے ہے ، حاكم نيشاپوری نے انہیں مدلسین کے چوتھے طبقہ سے قرار دیا ہے .

 

– يحيي بن سليمان

 

يحيى بن سليمان ، وعنه البخاري ، وجماعة . وثقه بعض الحفاظ . قال أبو حاتم : شيخ . وقال النسائي : ليس بثقة . وقال ابن حبان . ربما أغرب .

 

نسائی نے کہا ہے یہ ثقه نہیں اور غریب روایات نقل کرتا ہے ۔

 

ميزان الاعتدال، ذهبي( 747 هـ )، جلد 4، صفحہ 382

 

– ابن شهاب زُهْري

 

زهری، یہ بھی بنی امیہ کی حدیث فیکٹری کے ملازمین میں سے تھا .

 

تاريخ مدينة دمشق ، ابن عساكر ( 571 هـ ) ، ج 42 ، ص 228 ـ تهذيب التهذيب ، ابن حجر (852 هـ ) ، ج 4 ، ص 197 ـ سير أعلام النبلاء ، ذهبي ( 748هـ ) ، ج 5 ، ص 337 ـ سير أعلام النبلاء ، ذهبي (748 هـ )، ج 5 ، ص 331 ـ تهذيب الكمال ، مزي ( 742 هـ ) ، ج 5 ، ص 88 و تاريخ الإسلام ، الذهبي ( 748 هـ ) ، ج 9 ، ص 92 ـ

 

ابن حجر نے بھی لکھا کہ زهری بھی مدلس تھا .

 

تعريف اهل التقديس بمراتب الموصوفين بالتدليس، ابن حجر عسقلاني، ص109، شماره 102/36.

 

ابن ابی الحدید نے لکھا کہ زهری، امام على عليہ السلام سے روگرداں تھا .

 

شرح نهج البلاغة ، ابن أبي الحديد ( 656 هـ ) ، ج 4 ، ص 102

 

– عبد الملك بن عمير

 

اہل سنت کی کتب رجال میں اس کے بارے میں یوں نقل ہوا ہے :

 

«رجل مدلس» ، «ضعيف جدا» ، «كثير الغلط» ، «مضطرب الحديث جدا» ، «مخلّط» ، «ليس بحافظ».

 

امام مزی نے تهذيب الكمال اور ابن حجر نے تهذيب التهذيب میں ذکر کیا ہے :

 

وقال علي بن الحسن الهسنجاني: سمعت أحمد بن حنبل يقول: عبد الملك بن عمير مضطرب الحديث جدا مع قلة روايته

 

– ابو موسي اشعری

 

اس کی زندگی کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا رویہ امیرالمومنین علیہ السلام کے ساتھ اچھا نہیں تھا . صفین کے بعد تحکیم کے مسئلے میں امیر المومنین علیہ السلام کو خلافت سے خلع کرنے میں اس کا بھی کردار تھا ۔

 

جیساکہ صحیح مسلم کی روایت کے مطابق خلیفہ دوم نے استذان کے مسئلے میں اس کے قول پر اعتماد نہیں کیا ،لہذا اس سے بھی اس کی روایت کے عدم اعتبار کی تائید ہوتی ہے ۔

 

صحيح مسلم نيشابوري( 261 هـ ) ، ج 6 ، ص178

 

– انس بن مالک

 

اس پر بنیادی الزام جھوٹ بولنا ہے جیسے اس نے حديث غدير چھپائی کہ جس کا قصہ امام بلازری نے کچھ یوں نقل کیا :

 

قال علي علي المنبر: انشد [نشدت] الله رجلا سمع رسول الله صلي الله عليه وسلم يقول يوم غدير خم: اللهم وال من والاه وعاد من عاداه إلا قام فشهد وتحت المنبر أنس بن مالك والبراء بن عازب وجرير بن عبد الله [البجلي] فأعادها فلم يجبه أحد. فقال: اللهم من كتم هذه الشهادة وهو يعرفها فلا تخرجه من الدنيا حتي تجعل به آية يعرف بها. قال: فبرص أنس وعمي البراء ورجع جرير أعرابيا بعد هجرته فأتي السراة فمات في بيت أمه بالسراة.

 

على [عليه السلام ] نے مسجد کے منبر پر لوگوں کے اجتماع سے خطاب میں فرمایا: میں تم لوگوں کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کہ جس نے بھی غدیر کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے: «اللهم وال من والاه وعاد من عاداه» وہ اٹھے اور گواہی دی. أنس بن مالك ، براء بن عازب اور جرير بن عبد الله [بجلي] منبر کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے ،یہ لوگ خاموش رہے ،امیر المومنین علیہ السلام نے دوبارہ سوال کیا ،لیکن ان لوگوں نے جواب نہیں دیا ، یہاں تک کہ امیر المومنین علیہ السلام نے اس طرح نفرین کی :

اے اللہ جو جاننے کے باوجود گواہی نہیں دیتا ،مرنے سے پہلے اس پر ایسی نشانی ظاہر کر کہ جو اس کی پہچان بن جائے، راوی نقل کرتا ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام کے اس نفرین کے بعد انس بن مالک برض اور براﺀ کی بیماری میں مبتلا ہوا اور اندھا ہوگیا اور جریر بھی عرفہ کے اطراف میں موجود اپنی والدہ کے گھر پہنچتے ہیں دنیا سے چلا گیا ۔

 

حوالہ : أنساب الأشراف بلاذري، ج2، ص 156 و 157.

 

امام ابن قتيبہ دینوری نے كتاب المعارف، ص251 میں نقل کیا کہ :

 

أنس بن مالك كان بوجهه برص وذكر قوم: إن عليا رضي الله عنه سأله عن قول رسول الله: اللهم وال من والاه ، وعاد من عاداه . فقال : كبرت سني ونسيت ، فقال علي: إن كنت كاذبا فضربك الله بيضاء لا تواريها العمامة.

 

انس بن مالك کے چہرے پر برص ظاہر ہوا . بعض لوگوں نے کہا ہے : امير المؤمنين عليه السّلام نے رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلّم کے اس کلام «اللهم وال من والاه ، وعاد من عاداه» کے بارے میں پوچھا ، تو اس اجتماع میں انس بھی تھا ،انہوں نے جواب دیا : میں اب بوڑھا ہو گیا ہوں مجھے یہ یاد نہیں ہے ۔ امير المؤمنين عليه السّلام نے فرمایا : اگر جھوٹ بولا ہے تو اللہ تجھ کو برض کی بیماری میں مبتلا کرے ،یہاں تک کہ عمامہ کے ذریعے سے بھی اسے نہ چھپا سکے۔

 

خیر انس کے بارے میں اتنا بہت ہے اب آگے چلتے ہیں۔۔

 

– ابو معمّر: عبد الله بن عمرو بن أبي الحجاج أبو معمر المنقري البصري

 

امام رازی نے اس کے بارے میں لکھا

 

أنه لم يكن يحفظ وكان له قدر عند اهل العلم.

 

مطلب اس کا حافظہ بہت کمزور تھا ۔۔

 

الجرح والتعديل، رازي ( 327 هـ )، ج 5، ص 119

 

– هشام بن عروه بن زبير بن عوام

 

ابن حجر نے اسے مدلس لکھا ہے

 

هشام بن عروة بن الزبير بن العوام الأسدي ثقة فقيه ربما دلس

 

… یہ مدلس تھا ۔۔

 

تقريب التهذيب، ابن حجر( 852 هـ )، ج2، ص267 .

 

امام مزی نے لکھا کہ یہاں تک امام مالک بھی اس سے راضی نہیں تھے

 

قال عبد الرحمان بن يوسف بن خراش : كان مالك لا يرضاه.

 

مالک اس سے راضی نہیں تھا .

 

تهذيب الكمال، مزي (742 هـ )، ج 30، ص 239 .

 

اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ابن حجر نے اس کو «طبقات المدلّسين» میں ذکر کیا ہے .

 

طبقات المدلسين، ابن حجر( 852 هـ )، ص 26

 

– عروه بن زبير

اہل بیت کے دشمنوں میں سے تھا ،معاویہ کے پارٹی کا بندہ تھا اور روایت جعل کرنے والوں میں اس کا شمار ہوتا تھا

 

– اب آخر میں بچیں مسلمانوں کی امی عائشہ ۔۔

 

اگر امی عائشہ پر اس وقت قلم کو حرکت دے دی تو یہ تحریر مجھے یہاں ہی ختم کرنا پڑے گی اور امی جی کی شخصیت پر سیر حاصل بحث کرنا پڑے گی جو یقیناً تحریر کی شکل میں نہیں بلکہ بھاری بھرکم کتاب میں ڈھل جائی گی۔۔

 

تو قارئین یہاں امی عائشہ کی عدالت پر خود اُسی حدیث سے رسول اکرم کا ارشاد نقل کر دیتا ہوں جس کا تذکرہ میں اوپر کر چکا ہوں ۔۔ دوبارہ سے ملاحظہ فرمائیں کہ کیوں امی عائشہ ہمارے لیے ثقہ نہیں ۔۔

 

إِنَّكُنَّ لَأَنْتُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُفَ۔۔۔۔۔

رسول نے عائشہ اور حفضہ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ تم "صواحب یوسف ” ہو یعنی یوسف کے ساتھ والی عورتوں کی طرح ہو کہ دل میں کچھ ہے، ظاہر میں کچھ اور کر کچھ اور رہی ہو۔ یعنی بزبان رسالت، ان دونوں کے نفاق کا کھلا اظہار۔

 

اب مختصر کرتا ہوں کیونکہ دوسرے حصے کی جاب بھی بڑھنا ہے اور تحریر واقعاً طویل ہو چکی ۔۔

 

اب یہاں اس روایت کو نقل کر کے اس کی سند کو تار تار کرتا ہوں جو بخاری کے بعد سب سے زیادہ پیش کی جاتی ہے یعنی موطا امام مالک سے ۔۔ ملاحظہ فرمائیں

 

وَحَدَّثَنِي عَنْ مَالِكٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ – صلي الله عليه وسلم – خَرَجَ فِي مَرَضِهِ، فَأَتَي فَوَجَدَ أَبَا بَكْرٍ وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي بِالنَّاسِ، فَاسْتَأْخَرَ أَبُو بَكْرٍ، فَأَشَارَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ – صلي الله عليه وسلم – أَنْ كَمَا أَنْتَ، فَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ – صلي الله عليه وسلم – إِلَي جَنْبِ أبِي بَكْرٍ، فَكَانَ أَبُو بَكْرٍ يُصَلِّي بِصَلاَةِ رَسُولِ اللَّهِ – صلي الله عليه وسلم – وَهُوَ جَالِسٌ، وَكَانَ النَّاسُ يُصَلُّونَ بِصَلاَةِ أبِي بَكْرٍ.

 

رسول اللہ صلي اللّه عليه وآله وسلم بیماری کی حالت میں گھر سے نکلے اور مسجد میں داخل ہوئے ۔ دیکھا ،ابوبکر نماز کی جماعت کرا رہا ہے اور لوگ اس کی اقتدا میں نماز ادا کر رہے ہیں اور جب ابوبکر کو پتہ چلا تو پیچھے ہٹا ،آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اشارہ کیا اور اپنی جگہ پر رہنے کا حکم دیا ،پھر آپ ابوبکر کے پاس بیٹھے ،ابوبکر نے رسول صلى اللّه عليه وآله وسلم کی اقتدا میں نماز ادا کی جبکہ لوگ اس وقت ابوبکر کی اقتدا میں نماز پڑھ رہے تھے ۔۔۔۔مالک نے ھشام بن عروۃ سے نقل کیا ہے۔

 

حوالہ : الموطّأ، مالك (متوفی 179 هـ )، جلد 1، صفحہ 136

 

جی تو اب دیکھتے ہیں کہ اس امام مالک کے موطا پر دیگر اہل سنت طوطے کیا بیان کرتے ہیں

 

– امام ابن عبدالبر نے اس حدیث کو مرسل قرار دیا ہے

 

هذا مرسل في الموطأ

 

موطا کی روایت مرسل ہے

 

حوالہ : الاستذكار، ابن عبد البر( 463 هـ )، جلد 2، صفحہ 175

 

امام عبدالبر دوسری کتاب التمہید میں بھی لکھتے ہیں ۔۔

 

لم يختلف عن مالك فيما علمت في إرسال هذا الحديث

 

موطا کی روایت کے مرسل ہونے میں اختلاف نہیں ہے .

 

التمهيد، ابن عبد البر( 463 هـ )،جلد 22، صفحہ 315

 

اب اس روایت کے راویان کو دیکھ لیتے ہیں ۔۔

 

– هشام بن عروه بن زبير بن عوام

 

اس پر اوپر بیان کر چکا ہوں کہ مدلس تھا ۔۔

 

– عروه بن زبير

اس پر بھی بیان ہو چکا کہ یہ دشمن علیؑ تھا اور معاویہ کی پارٹی کا کارندہ تھا ۔۔

 

اب لگے ہاتھوں ابن ماجہ کی حدیث بھی پیش کر دوں تاکہ معلوم ہو سکے کہ دراصل رسول اللہ نے امامت کروانے کے لیے کس کو بلایا تھا اور کس طرح سے عائشہ نے مخالفت کی اور کس طرح سے بخاری بھائی نے نام تبدیل کیے۔۔ ملاحظہ فرمائیں

 

لَمَّا مَرِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَضَهُ الَّذِي مَاتَ فِيهِ كَانَ فِي بَيْتِ عَائِشَةَ فَقَالَ ادْعُوا لِي عَلِيًّا قَالَتْ عَائِشَةُ نَدْعُو لَكَ أَبَا بَكْرٍ قَالَ ادْعُوهُ قَالَتْ حَفْصَةُ يَا رَسُولَ اللَّهِ نَدْعُو لَكَ عُمَرَ قَالَ ادْعُوهُ قَالَتْ أُمُّ الْفَضْلِ يَا رَسُولَ اللَّهِ نَدْعُو لَكَ الْعَبَّاسَ قَالَ ادْعُوهُ فَلَمَّا اجْتَمَعُوا رَفَعَ رَأْسَهُ فَلَمْ يَرَ عَلِيًّا فَسَكَتَ…

 

جب رسول اللہ صلى اللّه عليه وآله وسلم اس بیماری میں مبتلا ہوئے جس میں آپ کی وفات ہوئی، اس وقت آپ عائشہ کے گھر میں تھے، آپ صلى اللّه عليه وآله وسلم نے فرمایا: ”علی کو کو بلاؤ“ عائشہ نے کہا: اللہ کے رسول ! کیا ہم ابوبکر کو بلا دیں؟ آپ صلى اللّه عليه وآله وسلم نے فرمایا: ”انہیں بلاؤ“ حفصہ نے کہا: اللہ کے رسول ! کیا عمر کو بلا دیں؟ آپ نے فرمایا: ”بلا دو“، ام الفضل نے کہا: اللہ کے رسول! کیا ہم عباس کو بلا دیں؟ آپ صلى اللّه عليه وآله وسلم نے فرمایا: ”ہاں“ جب سب لوگ جمع ہو گئے تو رسول اللہ صلى اللّه عليه وآله وسلم نے اپنا سر اٹھا کر ان لوگوں کی طرف دیکھا اور علی نظر نہیں آئے تو آپ خاموش ہو گئے ۔

 

حوالہ : سنن ابن ماجه، جلد 1 ، صفحہ 391 ، انٹرنیشنل حدیث نمبر 1235

 

جی تو حق شناس قارئین دیکھ لیا آپ نے کہ کس قدر دو نمبری کی گئی اور کس طرح سے خلافت کو زبردستی ابوبکر کے گلے میں ڈالا گیا اور کس طرح سے ابوبکر کی صاحب زادی نے توہین رسول کی کہ رسول کو بار بار تکرار کرنا پڑی اور آخر میں رسول نے حضرت یوسفؑ والی سخت ترین تعبیر استعمال کر کے امت پر بنت ابوبکر کی عدالت کو آشکار کر دیا ۔۔

 

میرے ذہن میں اتنا کچھ چل رہا ہے افففف کیسے روکوں خود کو ۔۔ تحریر کو زیادہ طویل بھی نہیں ہونے دینا ۔۔

 

چلیں جی اب کچھ منطقی باتیں ہو جائیں اور عقلی و منطقی انداز میں بھی اس جماعتی روایت کا رد ہو جائے ۔۔

 

نمبر ون ۔۔۔

اگر بالفرض محال اس حدیث کو مان بھی لیں تو پھر اہل سنت کے اس اصول کا کیا بنے گا کہ رسول اللہ نے کسی کو خلیفہ قرار نہیں دیا بلکہ اس کی ذمہ داری امت پر چھوڑی کہ وہ اجماع کر کے اپنا رہبر خود چن لیں ؟؟؟؟ ہے کوئی جواب ؟؟؟

 

نمبر ٹو ۔۔۔

اگر جماعت پڑھانے سے کسی کو خلافت کا حق مل جاتا ہے تو پھر مبینہ صدیق نے تو فقط ایک بار ہی پڑھائی جبکہ امیرالمومنین امام علی علیہ السلام نے 4 ماہ تک رسول کی نیابت میں مسجد نبوی میں امام جماعت رہے اور نا صرف امام جماعت بلکہ رسول کے مقرر کردہ والی مدینہ ! تو اس طرح امام علیؑ کے لیے ابوبکر کے مقابلے میں خلافت کا حق زیادہ قابل قبول ہوا؟؟

 

نمبر تھری —

چلیں امام علیؑ سے تو آپ کا شجراتی مسئلہ ہے لیکن دیگر اصحاب کو تو آپ مانتے ہیں تو ہمیں بتائیں کہ ابن امّ مكتوم ، ابي حذيفه اورعبد الرحمن بن عوف وغیرہ کے بارے میں کیا رائے ہیں کیونکہ ان لوگون نے بھی جماعت کے فرائض انجام دیے ۔۔

 

ابن ام مکتوم کے بارے میں آپ کے علماء لکھتے ہیں

 

– حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْعَنْبَرِيُّ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا ابْنُ مَهْدِيٍّ حَدَّثَنَا عِمْرَانُ الْقَطَّانُ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ -صلي الله عليه وسلم- اسْتَخْلَفَ ابْنَ أُمِّ مَكْتُومٍ يَؤُمُّ النَّاسَ وَهُوَ أَعْمَي.

 

… نبی اکرم نے ابن امّ مكتوم کو جو ایک نابينا شخص تھا اس کو امامت کے لئے جانشین بنایا .

 

حوالہ : سنن أبي داود، جلد 1، صفحہ 143

 

– ابن حجر نے تو اور کھل کر لکھا کہ

قال ابن عبد البر روي جماعة من أهل العلم بالنسب والسير أن النبي صلي الله عليه وسلم استخلف بن أم مكتوم ثلاث عشرة مرة

 

نبی اکرم ﷺ نے ابن مکتوم کو تیرہ (13) مرتبہ نماز کے لئے اپنا جانشین بنایا …

 

كتاب الإصابة في تمييز الصحابة [ابن حجر العسقلاني] ج 4، ص 495

 

– ابن کثیر نے لکھا کہ

 

في غزوة تبوك هذه صلي رسول الله صلي الله عليه وسلم خلف عبد الرحمن بن عوف صلاة الفجر

 

تبوك کی جنگ میں رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلّم نے عبدالرحمن بن عوف کے پیچھے صبح کی نماز پڑھی ۔۔

 

البداية والنهاية ، ابن كثير( 744 هـ ) ، ج 5 ، ص 28

 

– سالم مولي ابی حذيفه کے بارے میں بخاری میں موجود ہے کہ

 

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ قَالَ حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ عِيَاضٍ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ لَمَّا قَدِمَ الْمُهَاجِرُونَ الأَوَّلُونَ الْعُصْبَةَ – مَوْضِعٌ بِقُبَاءٍ – قَبْلَ مَقْدَمِ رَسُولِ اللَّهِ – صلي الله عليه وسلم – كَانَ يَؤُمُّهُمْ سَالِمٌ مَوْلَي أَبِي حُذَيْفَةَ

 

جس وقت مہاجرین کا پہلا گروہ قباء کی جگہ پہنچا تو رسول اللہ صلي الله عليه وآله وسلّم کی مدینہ آمد سے پہلے مولي ابي حذيفه جماعت کے فرائض انجام دے رہے تھے ۔.

 

صحيح بخاري، ج 1 ، ص 170 ، كتاب الاذان ، باب العبد و المولي

 

اگر آپ کی طرف سے کسی کو امام جماعت کا کام سونپنا آپ کے بعد آپ کے جانشین بننے کی دلیل ہے تو جناب سالم تو آپ کے مدینہ آنے سے پہلے کافی عرصہ تک یہ فریضہ انجام دیتے رہے ؟؟

 

– ذرا ہمیں یہ تو سمجھائیں کہ جب بیماری کی حالت میں رسول اکرم ﷺ نے مولا علیؑ کے بارے میں کچھ لکھنا چاہا تو کہا کہ رسول اللہ (معاذاللہ) ہذیان کہہ رہے ہیں لیکن اسی حال میں جب ابوبکر کو امام جماعت بنا رہے ہیں تو نہ ہی یہاں ہذیان کی تہمت بلکہ یہ خلافتِ ابوبکر پر دلیل بن گئی واہ واہ ۔۔ کیسے ؟

 

– دوسرا سوال یہ کہ تاریخی شواہد کے مطابق رسول اللہ اسامہ کو لشکر کا سپہ سالار مقرر کرنے کے ایک دن بعد بیمار ہوئے اور جب رسول خدا نے اسامہ کو حکم دیا کہ سپاہ کی تیاری کے لیے مدینہ سے باہر جاکر آمادہ ہوجائے اس وقت آپ نے مہاجر و انصار اور ابوبکر و عمر کو اسامہ کی لشکر سے ملحق ہونے کا حکم دیا تھا اور اسامہ سے مخالفت کرنے والوں پر نفرین کی تھی ۔

 

یہ پورا واقعہ آپ جا کر فتح باری اور تاریخ الامم و الملوک میں دیکھ سکتے ہیں

 

تو کیا یہ ممکن ہے کہ رسول اللہ نے ایک وقت میں ابوبکر کے لیے دو الگ الگ حکم صادر فرمائے ہوں اور دونوں حکم ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہوں؟ مطلب ایک جانب سے انہیں اسامہ کےلشکر سے ملحق ہونے کے لیے مدینہ سے باہر جانے کا حکم دیا ہو اور دوسری جانب سے اسے امام جماعت کے فرائض کا حکم دیا ہو ؟

 

بھئی اگر رسول اللہ کی نگاہ میں ابوبکر خلافت کا حقدار تھا تو جیش اسامہ میں شامل نہ ہو کر وہ کیوں نفرین رسول کا حقدار بنا ؟؟ کیا رسول جس پر نفرین کریں وہ خلافت کا حقدار ہو سکتا ہے؟؟؟

 

– اگر ابوبکر کو رسول نے جماعت کا کہہ کر خلیفہ بنا ہی دیا تھا تو پھر عمر بن خطاب اس سے انکاری کیوں ہے ؟؟؟

 

بخاری اور مسلم میں عبد اللّه بن عمر سے روایت ہے کہ

 

عن عبدالله بن عمر قال: قيل لعمر: ألا تستخلف؟ فقال: إن أستخلف فقد استخلف من هو خير منّي: أبو بكر، وإن أترك فقد ترك من هو خير منّي: رسول اللّه صلي اللّه عليه وسلم.

 

اگر میں خلیفہ منتخب کروں تو یہ ابوبکر کا طریقہ کار ہے کہ جو مجھ سے بہتر ہے ،انہوں نے خلیفہ انتخاب کیا اور اگر میں خلیفہ انتخاب نہ کروں تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا طریقہ ہے اور آپ مجھ سے بہتر تھے ،آپ نے خلیفہ منتخب نہیں فرمایا۔

 

صحيح بخاري، ج 4، ص2256، ح 7218، كتاب الأحكام، باب الاستخلاف 51 ـ صحيح مسلم، ج 3 ، ص1454، ح 1823،كتاب الإمارة، باب الاستخلاف وتركه.

 

جواب دو بھائی ۔۔۔ کچھ تو بولو کیوں سانپ سونگھ گیا ۔۔ ہاہاہاہا

 

– اگر یہ خلافت پر دلیل ہے تو پھر آپ کے امام نووی اور امام ابن کثیر اسے قبول کیوں نہیں کرتے ؟؟ ملاحظہ فرمائیں:

 

امام نووی نے صحيح بخاری کی شرح میں اس روایت کے ذیل میں لکھا

 

وفي هذا الحديث دليل علي أنّ النبي صلي اللّه عليه وسلم لم ينصّ علي خليفة، وهو إجماع أهل السنّة وغيرهم.

 

یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کسی کی خلافت پر تصریح نہیں فرمائی اور اس پر اہل سنت اور دوسروں کا اجماع ہے۔

 

صحيح مسلم، بشرح النووي، جلد 12 ، صفحہ 205 .

 

ابن كثير بھی یوں ریجیکٹ کرتے ہیں ۔۔

 

إنّ رسول اللّه صلي اللّه عليه وسلم لم ينصّ علي الخلافة عيناً لأحد من الناس ، لا لأبي بكر كما قد زعمه طائفة من أهل السنّة، ولا لعليّ كما يقوله طائفة من الرافضة.

 

رسول اللہ نے کسی کی خلافت پر تصریح نہیں فرمائی ہے، نہ ابوبکر کی خلافت پر ،جیساکہ اہل سنت کے ایک گروہ کا یہ نظریہ ہے اور نہ علیؑ کی خلافت پر کہ بعض شیعہ اس چیز کا اعتقاد رکھتے ہیں ۔

 

البداية والنهاية، ابن كثير، جلد 5، صفحہ 219

 

المختصر کہ یہ مبینہ صدیق کی جماعتی روایات اس قدر تعارض کا شکار ہیں کہ ابن ابی الحدید بھی اپنے شک کو چھپا نہیں سکا اور لکھ بیٹھا:

 

وهذا یوهم صحّة ما تقوله الشیعة من أنّ صلاة أبي بکر کانت عن أمر عایشة؛

 

یہ شیعوں کے قول کو ثابت کرتا ہے کہ رسول کی جگہ نماز پڑھانے کا حکم عائشہ کا تھا۔

 

پھر آگے لکھتا ہے کہ میں نے اپنے استاد سے پوچھا:

آپ کی نظر میں نماز کا حکم عائشہ کی طرف سے تھا ؟ انہوں نے جواب دیا: میں نہیں کہتا لیکن علی یہی کہتے ہیں میری اور علی کی ذمہ داری الگ ہے علی وہاں حاضر تھے اور میں وہاں حاضر نہیں تھا۔۔

 

تو ثابت ہوا کہ ابوبکر کی جماعتی روایت قطعاً اس کے خلیفہ ہونے پر دلیل نہیں اور یہ ایک افسانے سے زیادہ کچھ نہیں کیونکہ ایسا حکم رسول اکرم نے دیا ہی نہیں تھا بلکہ اس کام کے لیے مولائے کائنات امام علی علیہ السلام کو بلانے کا حکم دیا تھا جس کا پاس نہ کرتے ہوئے بنتِ ابوبکر توہینِ رسول کی مرتکب ہوئیں اور بقول ابن ابی الحدید کے ۔۔ یہ حکم تو خود عائشہ نے دیا تھا ناکہ رسول اللہ نے ۔۔

 

والسلام ،

کلبِ در فاطمہؑ #ابوعبداللہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے