سلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

سوال ۔عرض خدمت یہ ہے کہ حدیث ثقلین کہ جس میں "سنتی ”  کا لفظ آیا ہے اس حدیث کے تمام مصادر ذکر فرما دیں؟

جواب : برادر محترم توفیق رحال صاحب

سلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

یہ حدیث سنتی یا سنة نبیہ کے الفاظ کے ساتھ بعض مصادر میں چند طرق سے وارد ہوئی ہے ہم ان چند کے ذکر پہ اکتفاء کریں گے جنہوں نے اس کو سند کے ساتھ ذکر کیا ہے سوائے موطا امام مالک کے (یعنی اگرچہ امام مالک نے بغیر سند کے ہی ذکر کیوں نہیں کیا پھر بھی ہم امام مالک کی کتاب والی روایت ذکر کرتے ہیں ) اس لیے کہ جن کتابوں نے اس حدیث کو ذکر کیا ان میں سب سے قدیمی کتاب مؤطا امام مالک ہی ہے لیکن مالک نے بغیر سند کے ہی ذکر کیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے ۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ  کی نسبت سے ہم تک یہ حدیث آئی ہے لیکن روایت کا طریق ثابت نہیں ہے اور اس کے ناقابل احتجاج ہونے پہ اجماع قائم ہے کیونکہ ہوسکتا ہے یہ حدیث من گھڑت یا جھوٹی ہو ۔

اور شیخ محدث ناصر الدین البانی نے اس کی سند پہ معضل کا حکم لگایا ہے اور معضل حدیث وہ ہوتی ہے جس کے سلسلہ سند سے دو یا دو سے زیادہ روایت ساقط ہوں

موطاء کے علاؤہ باقی جن میں سند ذکر ہے تو وہ طرق درج ذیل ہیں

  1. حاکم نیشاپوری نے مستدرک جلد 1 ص 93 میں ابن عباس سے مرفوعا روایت کی ہے (مرفوع روایت وہ ہوتی ہے کہ جس میں رسول اللہ ﷺ کی ذات کی طرف روایت کی نسبت ہو یعنی رفع کا حکم اس نسبت کی وجہ سے ہوتا ہے چاہے سند متصل ہو یا منقطع ، مرسل ہو یا معضل فرق نہیں پڑتا۔ اگر روایت میں نسبت موجود ہے تو وہ نسبت کے لحاظ سے مرفوع ہی کہلائے گی ۔ مترجم ) کہ میں ایسی چیز چھوڑے جا رہا ہوں کہ اگر تم نے اس کو تھام کیا تو کبھی بھی گمراہ نہیں ہونگے اور وہ چیز اللہ کی کتاب اور تمہارے نبی ﷺ کی سنت ہے ۔

اس کی سند ناقابل قبول ہے کیونکہ اس میں ایک راوی عکرمہ ہے کہ جس پہ جھوٹے ہونے کا الزام ہے اور اس بات پہ بھی متھم ہے کہ وہ خارجی ہے (ویسے بھی عکرمہ کی ناصبیت اہل علم پہ واضح اور روشن ہے ۔ مترجم )

اسی سند میں ایک راوی ابواویس ہے اس پہ بھی جھوٹ کی تہمت ہے اسی طرح اس کا بیٹا اسماعیل بن ابی اویس بھی جھوٹا ہے اگرچہ بعض نے ان کا دفاع کرنے کی کوشش کی ہے کیونکہ یہ صحیح کے راوی ہیں

  1. دوسری روایت بھی حاکم کی مستدرک جلد 1 ص 93 میں درج ہے اور یہ روایت ابوھریرہ سے ہے جو اس کو نبی پاک ﷺ کی طرف نسبت دیتے ہیں کہ بے شک میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں تم میرے بعد (ان کی وجہ سے ) ہرگز گمراہ نہ ہو گے اللہ کی کتاب اور میری سنت ہے یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نا ہونگے یہاں تک کہ میرے پاس حوض پر وارد ہوں گے۔

یہ سند بھی ناقابل اعتبار ہے اس کی سند میں صالح بن موسیٰ الطلحی ہے جس کے ضعیف ہونے پہ اتفاق ہے ۔ابن اس کے بارے میں کہتے ہیں "لیس بشی” یعنی اس کی روایت کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ دوسری روایت کے مطابق بن معین اس کے بارے کہتے ہیں کہ "لیس بثقہ” یعنی یہ قابل اعتبار بندہ نہیں ہے، ابو حاتم اس کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ شخص منکر الحدیث تھا اور ثقات سے بہت زیادہ مناکیر نقل کرتا تھا ۔ بخاری کہتے ہیں منکر الحدیث تھا ۔ نسائی کہتے ہیں اس کی احادیث لکھنے کے قابل نہیں اور ایک جگہ پہ کہتے ہیں اس کی حدیث چھوڑ دیں ۔

ابو نعیم کہتے ہیں یہ متروک راوی ہے مناکیر نقل کرتا تھا ۔

پھر دوسری بات کہ حدیث کے اس طریق میں یا تحریف کی گئی ہے یا کچھ لکھنے میں غلطی ہوئی ہے (یعنی نسخہ برداری کرتے ہوئے الفاظ تبدیل ہوئے ہیں – مترجم ) کیونکہ امام بزار نے اسی سند سے روایت کی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں اللہ کی کتاب  و نسبی ۔۔ یعنی میری اولاد اس میں لفظ "سنتی ” نہیں ہے

  1. خطیب بغدادی نے اپنی کتاب الفقیہ والمتفقہ جلد 1 ص 94 میں ابو سعید الخدری سے مرفوعا نقل کیا ہے کہ بے شک میں تمہارے درمیان دو ہم وزن چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ایک اللہ کی کتاب دوسری میری سنت ہے

یہ سند بھی قابل قبول نہیں کیونکہ اس سند میں سیف بن عمر التمیمی ہے جس کا جھوٹ ، حدیث گھڑنا ، حکایات و واقعات اور شخصیات کو اپنے پاس سے بنا کر پیش کرنا واضح اور مشھور ہے

ابو حاتم اس کے بارے کہتے ہیں کہ یہ متروک الحدیث ہے، ابوداود کہتے ہیں کہ اس کی احادیث کی کوئی حیثیت نہیں ہے، ابن حبان کہتے ہیں کہ یہ ثقہ اور بلند پایا راویوں کے طرف نسبت دیکر من گھڑت دمروسیات نقل کرتا تھا اور ابن حبان نے اس کے متعلق ابن نمیر کا قول نقل کیا ہے کہ سیف احادیث گھڑتا تھا اور اس پہ زندیق ہونے کا اتہام تھا۔ دارقطنی نے بھی متروک کہا اور حاکم کہتے ہیں اس پہ زندیق ہونے کی تہمت ہے اور روایت کے باب میں یہ ساقط ہے ابونعیم کہتے ہیں کہ اپنے دین میں متھم تھا اور زندیق ہونے کا بھی اس پر الزام ہے اور یہ اس قابل نہیں کہ اس سے روایات لی جائیں ۔

اس کے ساتھ ساتھ اسی سند میں ایک اور ضعیف راوی بھی موجود ہیں اور وہ شعیب بن ابراھیم التمیمی ہے

  1. کتاب طبقات المحدثین باصبھان کی جلد 2 ص 288 میں ابو الشیخ نے بھی انس بن مالک سے مرفوعا نقل کیا ہے کہ باتحقیق میں ﷺ تم میں ایسی چیز چھوڑے جا رہا ہوں کہ اگر ان کو پکڑے رکھوگے تو کبھی بھی گمراہ نہیں ہو گے ایک اللہ کی کتاب اور دوسری اس کے نبی کی سنت ہے

اسکی کی سند بھی درجہ اعتبار سے ساقط ہے اور ناقابل قبول ہے کیونکہ اسکی سند میں ھشام بن سلمان ہے کہ جس کی تضعیف کرتے ہوئے ابن حبان کہتے ہیں شدید قسم کا منکر الحدیث ہے، ثقات سے کثرت کے ساتھ  منکر روایات نقل کرنے میں منفرد ہے (یعنی اکیلا ہے کسی  اور روایت یا راوی سے اس کی تائید نہیں ہوتی  ) اسکی تو ان روایات سے احتجاج ممکن نہیں جو ثقہ راویوں سے موافق ہو تو جس میں یہ منفرد ہو اور موافق نہ ہو ان سے احتجاج کیسے ہوسکتا ہے

اور یہاں پہ یہ یزید رقاشی سے روایت کر رہا ہے اور ابن عدی کہتے ہیں کہ اس کی روایت یزید رقاشی سے محفوظ نہیں ہیں پھر ابن عدی نے اسکی تضعیف بھی کی ہے

اسی سند میں یزید رقاشی بھی موجود ہے جو کہ سخت مطعون ہے ۔ اس کے متعلق شعبہ کہتے ہیں کہ یزید رقاشی سے روایت کرنے سے بہتر ہے میں مقطوع روایت کرلوں اور ایک دوسری جگہ کہتے ہیں یزید رقاشی سے روایت کرنے سے بہتر ہے بندہ زنا کرلے ،ابو احمد الحاکم اور فسوی کہتے ہیں متروک الحدیث ہے اسی طرح امام نسائی نے بھی ایک اور جگہ پہ کہا کہ یہ ثقہ نہیں ہے، ابن مسعود ،دارقطنی ،برقانی اور بن معین نے بھی اسکی تضعیف کی ہے ۔

پس یہ بات واضح ہوگئی کہ اس حدیث کی کوئی بھی سند ایک نہیں جو قابل اطمینان ہو اور اس سے احتجاج کیا جا سکتا ہو اگرچہ اس کے طرق متعدد ہیں مگر ہر طریق دوسرے سے ضعیف تر ہے ان تمام میں متھم راوی موجود ہیں

اللہ نگہبان


جواب پہ تعلیقہ /علی / کویت

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

خدا آپ کو جزائے خیر عطاء کرے آپ نے ذکر کیا کہ شیخ البانی نے سنتی والی حدیث کو ضعیف قرار دیا لیکن میں نے سلسلہ الاحادیث الصحیحہ میں دیکھا ہے کہ شیخ البانی کہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے اور حقیقی علم تو اللہ کے پاس ہے ۔ تو کیا آپ ہے لیے ممکن ہے کہ آپ اس مصدر کے بارے کچھ معلومات فراہم کردیں ؟

الجواب ۔

برادر محترم علی صاحب

سلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

برادر آپ نے جو ابھی ذکر کیا کہ شیخ البانی نے آپ کی معلومات کے مطابق سلسلہ احادیث میں اس پہ صحت کا حکم لگایا مگر آپ نے جلد نمبر، صفحہ نمبر اور باب ذکر نہیں کیا ۔ یہ چند ملاحظات ہیں امید ہے آپ کے لیے فائدہ مند ہونگے ۔

ہمارے علم میں نہیں کہ سلسلہ احادیث صحیحہ میں و سنتی والی حدیث کو بعنوان مستقل ذکر کیا ہو اگر ذکر کیا بھی تو مشھور حدیث جس میں وعترتی کے الفاظ ہیں اس کے ضمن میں ذکر کیا ۔

دوسری بات "وسنتی” کے الفاظ سے متعدد طرق سے یہ حدیث آئی ہے جو کہ ضعیف ہیں ہم نے اس میں سے ایک طریق نقل کیا اورالشیخ البانی کا کلام بھی اسی پہ پیش کیا ہے کہ یہ حدیث امام مالک نے مرسلا ذکر کی ہے اور مرسل اور بلاسند حدیث قابل قبول نہیں ہوتی اس کے بارے البانی کہتے ہیں ۔۔ یہ حدیث معضل ہے حدیث معضل وہ ہوتی ہے جس کے سلسلہ سند سے دو یا دو سے زیادہ راوی ساقط ہوں جب معضل سے احتجاج ممکن نہیں تو اس حدیث سے کیسے ممکن ہو جس کی سند ہی نہیں۔ البانی نے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے پس اس معلومات کے ساتھ آپ تامل کریں اس حدیث کہ جس میں عترتی یا اہل بیتی کا لفظ آیا ہے ( میں تمہیں خدا کا خوف دلاتا ہوں اہل بیتؑ کے متعلق ، میں تمہیں اللہ کا خوف دلاتا ہوں اہل بیتؑ کے متعلق ، میںﷺ تمہیں اللہ کا خوف دلاتا ہوں اہل بیتؑ کے متعلق۔ پس عربی ذوق اور فطرت سلیمہ گواہی دے گی یہ حدیث ،بالخصوص ان تاکیدات کے ساتھ صحیح اور سالم ہے اور اس کی تقویت ہی کئی خواہد ،مختلف اسانید ،اور بہت سارے طرق بھی قائم ہیں ۔)

ص 355اور ,356,اور 357,اور 358 ان تمام میں صفحات میں البانی نے  احمد اور طبرانی اور ابن ابی عاصم  سے و عترتی پہ صحت کا حکم لگایا ہے  اور احمد ،طحاوی اور طبرانی سے علی بن ربیعہ کے طریق سے نقل کرتے ہویے کہا ہے کہ اس کے اسناد صحیح اور رجالِ صحیح کے رجال ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اس حدیث کے خواہد ،مقویات اور مویدات اور طرق بھی ذکر کیے جیسا کہ ابن عباس سے ہیں جنہیں طرق کہا کہ یہ مضبوط شاہد ہے

تیسری بات ۔ اس کے بعد البانی ان کا ذکر کرتے ہیں جنہوں نے اس حدیث کو ضعیف کہا پھر وہ اس بابت ان تمام کا رد کرتے ہیں جنہوں نے سنداً یا متناً اس حدیث کی تضعیف کی اس کے بعد البانی اپنی طرف سے مالک کی نقل کردہ روایت کو حدیث وعترتی کے ذریعے تقویت دینے کی کوشش کرتے ہیں اور اس لفظ سے جو سند و متن کا اصل محور ہے لفظ عترتی اور اصل ،قوی اور معتمد کو فرع اورغیر صحیح پہ حمل کرتے ہیں اور اسے شاھد قرار دیتے ہیں جبکہ اہل علم و حدیث کے نزدیک یہ قطعاً جائز نہیں ہے اور جو طریقہ انہوں نے تاویل کا استعمال کیا وہ یہ کہ لفظ اہل بیت کی تاویل کی کہ اس سے مراد اہل بیت ہیں کیونکہ متمسک بالسنہ نہیں بلکہ مقصود حدیث خود سنت ہے اسی طرح ثقلین کی بھی اپنے پاس سے تاویل کردی جبکہ یہ اپنے پاس سے اضافہ اور اصل حدیث پہ جرات ہے

چوتھی بات .اب تک کی تمام گفتگو سے واضح ہوا کہ البانی نے جو کوشش کی ہے وہ اہل حدیث و اہل فن کے مطابق تام اور درست نہیں ہے اور نہ ہی البانی کے لیے ممکن ہے کہ وہ ضعیف حدیث کو اس طریقہ سے صحیح کریں اور قوی قرار دے

پس حدیث وعترتی بذات صحیح اور قوی حدیث ہے اور جو اس کی اسانید کمزور ہیں وہ صحیح کے ذریعے قوی ہو جائینگی اور ان شواہد کے زریعے جن سے ضعیف حدیث کو قوی کیا جاتا ہے  واجب ہے کہ اسی  معنی اور مضمون میں ظھور کے اعتبار سے کیا جائے۔ صحیح قاعدہ یہ ہے کہ اگر حدیث وسنتی کو قوی کرنا ہے تو وہ قوی شواہد لیکر آئیے جس میں بعینہ یہ معنی و مضمون پایا جائے تاکہ ضعیف قوی قرار پاسکے ناکہ کسی دوسرے معنی والی صحیح حدیث سے یہ کوشش کی جائے ۔ یہ زیادتی ہے کہ آپ صحیح حدیث سے جسے چاہیں اپنی مرضی سے قوی کرتے جائیں (چاہے وہ قاعدہ کلیہ کے مطابق ہو یا نا ہو ) بلکہ یہ ظلم اور ھوی نفس کی پیروی ہے

یہ تمام باتیں تو باعتبار سند تھی

اگر البانی انصاف سے کام لیتے تو ضروری تھا کہ وہ سنتی والی کمزور متن و سند والی حدیث کو وعترتی والی حدیث کی حمل کرتے اور اس کی تفسیر و عترتی کے مطابق کرتے اور ان میں جمع کرکے ایسے تفسیر کرتے کہ وسنتی سے مراد وہ سنت ہے جو اہل بیتؑ سے منقول ہو یہ بہتر بھی ہے ذوق سلیم کے مطابق بھی ہے ظھور اور جمع ظرفی کے قواعد سے سازگار بھی ہے ۔خلاصہ یہ کہ البانی نے سنتی والی حدیث کے ضعیف ہونے کا اقرار کیا مگر جو تاویل پیش کی ہم اس سے اتفاق نہیں کرتے پس جو اس نے اعتراف کیا وہ ہم لے لیتے ہیں اور جو تاویل کی اس کو اسی پہ چھوڑتے ہیں ۔

اللہ نگہبان


جواب پہ تعلیقہ / صالح /سعودیہ

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

سوال ۔ کیا حدیث "وسنتی” متعدد طرق ہونے کی وجہ سے حد تواتر تک نہیں پہنچے گی ؟؟ کیونکہ اگر تواتر تک پہنچ گئی تو اسناد کے روات پہ بحث کی ضرورت ہی نہیں ہوگی جو کہ واضح اور طے شدہ بات ہے ۔

اللہ آپ کی نماز و روزہ قبول کرے ۔امین

جواب ۔برادر محترم صالح صاحب

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

جو طرق اور اسانید ذکر کی گئی ہیں وہ حد تواتر تک نہیں پہنچتی کیونکہ حاکم نے مرفوعا نقل کیا اور اسی طرح خطیب بغدادی نے بھی۔ اور سند مکمل تب ہوتی ہے جب اس کے راویوں کے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ تک تمام طبقات کو ذکر کیا جائے جبکہ اس حدیث و سنتی کی بابت یہ بات ثابت کرنا ممکن نہیں ہے ۔

بلکہ حد تواتر تک جو حدیث پہنچتی ہے وہ حدیث کتاب اللہ وعترتی ہے کیونکہ شیعہ سنی مصادر میں اس کے بہت سارے طرق ہیں اس حدیث کے اہل سنت کے ہاں 39 طرق ہیں اور شیعہ کے ہاں 82 احادیث ہیں ملاحظہ فرمائیے (الاصول العامہ لفقہ المقارن 165 )

اللہ نگہبان


جواب پہ تعلیقہ / الشیخ احمد / موریتانیا

کیا ان طرق کے علاؤہ کچھ اور طرق نہیں جن سے "وسنتی” والی روایت کو مضبوط کیا جا سکے ؟

الجواب ۔

برادر محترم الشیخ احمد صاحب

جو طرق ہم نے ذکر کئے یا تخریج کئے ہیں یہ آپ کو ایک ساتھ کہیں نہیں ملیں گے بلکہ شیخ البانی کہ جسے خاتمہ المحدثین اور محدث العصر جیسے خطاب دئیے جاتے ہیں انہوں نے بھی تین طرق ذکر کرنے پہ اکتفاء کیا ہے حدیث ثقلین کہ جس میں کتاب اللہ وعترتی کے الفاظ ہیں کی تخریج کرتے ہوئے اور اس کو بنفسہ اور طرق کے اعتبار سے صحیح قرار دیتے ہوئے البانی نے حدیث وسنتی پہ جلد 4 ص 357 سلسلہ احادیث صحیحہ  میں حدیث رقم 1761 پہ بات کرتے ہوئے کہتے ہیں اس کے اور بھی شواہد ہیں  حدیث ابو ھریرہ  دار قطنی (ص529)  اور حاکم  (جلد 1ص 93 ) اورخطیب بغدادی (الفقیہ والمتفقہ جلد 1 ص 56 ) کے ہاں اور حدیث ابن عباس فقط حاکم کے ہاں اور اسے صحیح قرار دیا ۔ذھبی اور عمرو بن عوف نے بھی اس کی موافقت کی ہے ابن عبد البر کے نزدیک (جامع بیان العلم جلد 2 ص 24 ، 110   ) یہ اگرچہ یہ الگ الگ تو ضعیف ہیں مگر ایک دوسرے سے ملکر قوی ہو جاتے ہیں اور پھر ابن عباس کی حدیث کو اختیار کیا ۔

ہم کہتے ہیں آخری روایت جس عمرو بن عوف کے طریق سے ہے یہ بعینہ موطا کا طریق ہے ۔۔۔۔( جس کی بابت ہم بات کر چکے ہیں )

اللہ نگہبان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے