امیر المومنین (علیہ السلام)
عنده علم الكتاب” فقط امام علی علیہ السلام”
بسم اللہ الرحمن الرحیم
قارئین ایک محترم بھائی کی جانب سے مسلسل سورہ رعد کی آیت 43 کہ جس میں ارشاد ہوتا ہے کہ وَيَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَسْتَ مُرْسَلًا ۚ قُلْ كَفَىٰ بِاللَّهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ وَمَنْ عِندَهُ عِلْمُ الْكِتَابِ
ترجمہ : اور یہ ک اف- ر کہتے ہیں کہ آپ رسول نہیں ہیں کہہ دیجئے کہ ہمارے اور تمہارے درمیان رسالت کی گواہی کے لئے خدا کافی ہے اور وہ شخص کافی ہے جس کے پاس پوری کتاب کا علم ہے.
اس آیت میں عنده علم الكتاب یعنی وہ جس کے پاس پوری کتاب کا علم ہے وہ کون ہیں کی تفسیر جاننا چاہتے ہیں ۔
شیعہ منابع میں تو بلا شک اس سے مراد حضرت امیر المومنین امام علی علیہ السلام کی ذات مقدس ہے جس پر فقط ایک حدیث سے استدلال کر کے اہل سنت منابع کی طرف آؤں گا کیونکہ اگر شیعہ روایات لکھنے بیٹھا تو جواب کافی طولانی ہو جا ئے گا ۔
اس آیت کی تفسیر سے متعلق جب امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال ہوا تو آپ نے فرمایا
الذي عنده علم الكتاب هو أمير المؤمنين عليه السلام .
وہ کہ جسکے پاس کتاب (قرآن) کا علم ہے، وہ امير المؤمنين علی (ع) ہیں۔
تفسير القمي ، ج 1 ، ص 367
قارئین آپ سب جانتے ہی ہیں کہ کس طرح سے غیروں نے ہر فضائل امیرالمومنین علیہ السلام کو توڑ مروڑ کر کبھی اپنے شیخین کے گلے میں باندھنے کی کوشش کی تو کہیں شیخین پر بس نہیں چلا تو اسے کسی غیر معروف صحابی سے جوڑ دیا۔
لیکن ان خائن کارستانیوں کے باوجود بھی وہ اہل بیت کے فضائل کو لے کر ہمیشہ منہ کی کھاتے آئے ہیں کیونکہ جن کے ذکر کو خدا خود بلند کرے اسے کوئی بھی اپنی پست پھونکوں سے بھجا نہیں سکتا۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ اس آیت کے ساتھ ان امیہ کی چوسی ہڈیوں نے کیا کرنے کی کوشش کی ۔۔
قارئین کرام آپ یقین مانیں گے کہ اس عظیم آیت میں موجود امام علی کی جگہ مکتب خلفاء کے ناہنجارو نے تاریخ میں مشکوک بنی قینقاع کاایک یہودی عالم جو کہ شہادت رسول اکرم سے فقط دو سال پہلے اسلام لایا اس کو فضیلت کی مالا پہناکر اپنے نجس نطفوں پر گواہ بنا کر اپنے ہی چوتھے خلیفہ کی فضیلت پر ڈاکہ مارا..
قارئین یہ وہی مبینہ صحابی ہے جس کو دشمنِ علی ہونے پر خلفاء کی جانب سے اپنے مشیروں میں بڑا مقام دیا گیا اور عثمان بن عفان تو اس کا خاص معتقد تھا اسی وجہ سے اس نے امیرالمومنین علیہ السلام کی ظاہری خلافت کو بھی قبول نہ کیا اور جا کر معاویہ کے دسترخوان پر حرام خوری جاری رکھی.
اس نے اپنی خوبصورت بیوی کو فقط اس لیے طلاق دی تاکہ معاویہ اپنے نجس بیٹے یزید کی شادی اس سے کروا سکے. اسی وجہ سے بنی امیہ نے ابن سلام کی سیرت اور صفات کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے اقرار کی وجہ سے اس کو فضل و کرم کا مالک مانتے تھے اور قرآن کریم کی آیات کے نزول کو ان کی شان میں شمار کیا ہے.
المختصر کہ بنی امیہ کی طرف سے عبداللہ بن سلام جیسے یہودیوں کی فضیلت اور علمی حیثیت کے بارے میں جو احادیث شائع ہوئی ہیں ان میں یہ حدیث بھی ہےکہ چار لوگوں سے علم حاصل کرو : ابی الدرداء ، سلمان ، ابن مسعود اور عبداللہ بن سلام..
یہ تھا مختصر تعارف اب آگے چلتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کیا یہ امیہ کے پالتو جانور سورہ رعد کی اس آیت کو اس یہودی کے فضائل میں شمار کرانے میں کامیاب ہو سکے یا نہیں..
اہل سنت منابع میں سورہ رعد کی تفسیر..
پہلی روایت…
٣٩٣٩٨ – عن أبي عمر زاذان، عن ابن الحنفية، في قوله: {ومَن عندَه علم الكتاب}، قال: هو علي بن أبي طالب۔
ترجمہ : ابن عباس اور ابن حنفيہ سے اسی آيت کے بارے میں سوال ہوا تو انھوں نے کہا: جسکے پاس کتاب کا علم ہے، وہ علی ابن ابی طالب ہیں۔
٣٩٤٠٤ – عن أبي مريم، حدثني عبد الله بن عطاء، قال: كنتُ جالسًا مع أبي جعفر في المسجد، فرأيت ابن عبد الله بن سلام جالِسًا في ناحيةٍ، فقلتُ لأبي جعفر: زعموا أنّ الذي عنده علم الكتاب عبد الله بن سلام. فقال: إنّما ذلك علي بن أبي طالب
ترجمہ : ابو مریم سے مروی ہے کہ مجھ سے عبداللہ بن عطا نے بیان کیا، انہوں نے کہا: میں ابو جعفر کے ساتھ مسجد میں بیٹھا ہوا تھا، میں نے ابن عبداللہ بن سلام کو ایک طرف بیٹھے ہوئے دیکھا، تو میں نے ابو جعفر سے کہا: اس نے دعویٰ کیا ہے کہ جس کے پاس کتاب کا علم تھا وہ عبداللہ بن سلام ہے۔ تو انہوں نے فرمایا: وہ علی بن ابی طالب ہیں۔
حوالہ : كتاب موسوعة التفسير المأثور، جلد 12، صفحہ 171
یہی حدیث مزید سند سے ثعلبی نے بھی اپنی تفسیر میں نقل کی ہے :
أخبرنا أبو بكر محمد بن الحسين السميعي بحلب حدثني الحسين بن إبراهيم بن الحسين الجصاص. أخبرنا الحسين بن الحكم حدثنا سعيد بن عثمان عن أبي مريم وحدثني بن عبد الله ابن عطاء قال: كنت جالسا مع أبي جعفر في المسجد فرأيت ابن عبد الله بن سلام جالسا في ناحية فقلت لأبي جعفر: زعموا أنّ الذي عِنْدَهُ عِلْمُ الْكِتابِ عبد الله بن سلام. فقال: إنما ذلك علي بن أبي طالب (رضي الله عنه)
حوالہ : الكشف والبيان عن تفسير القرآن [الثعلبي]، جلد٥، ص ٣٠٣
اور اب مسلمانوں کے پہلے خلیفہ ابوبکر کی نسل سے اہل سنت کے بڑے عالم امام ابن جوزی جس کے متعلق ذھبی نے لکھا کہ اس کے ہاتھ پر ایک لاکھ لوگ تائِب ہوئے اور بیس ہزار غیرمسلموں نے اسلام قبول کیا اور اسے محدث، مفسر اور علامہ کے القاب سے نوازا۔
یہی ابن جوزی اپنے بارے میں لکھتا ہے کہ میرے زمانے تک رسول اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہ وسلَّم سے روایت شُدہ کوئی بھی حدیث میرے سامنے بیان کی جائے تو میں بتا سکتا ہوں کہ یہ صحت و ضعف کے کس درجے پر ہے۔
تو قارئین اہل سنت کے اسی جلیل القدر امام سے بھی یہی روایت مروی ہے ملاحظہ فرمائیں:
أحمد بن مفضل حدثنا مندل بن علي عن إسماعيل بن سلمان عن أبي عمر زاذان عن ابن الحنيفة وَمَنْ عِنْدَهُ عِلْمُ الْكِتابِ قال: هو علي بن أبي طالب (رضي الله عنه)
ترجمہ : احمد بن مفضل سے مروی ہے کہ جنابِ حنفیہ نے فرمایا جس کے پاس کتاب کا علم ہے وہ علی ابن ابی طالب ہیں ۔
حوالہ : زاد المسير لابن الجوزي، جلد٤، ص ٢٥٢
اب اہل سنت کے دوسرے بڑے عالم امام قرطبی کہ جس کے متعلق ذہبی لکھتا ہے: آپ مختلف فنون میں نہایت تامہ رکھنے والے اور علم میں متبحر امام ہیں۔ آپ کی بڑی مفید تصانیف ہیں جو آپ کے کثرت علم اور زیادتی فضل پر دلالت ہیں۔ آپ کی تفسیر کو شہرت نصیب ہوئی یہ تفسیر اپنے معنی میں کامل ہے۔ اس میں ایسی چیزیں ہیں جو آپ کی امامت، ذکاوت اور کثرت علم پر دال ہیں۔
تو قرطبی نے بھی اسی حدیث کو اپنی تفسیر الجامع لاحکام القرآن کی جلد 9 کے صفحہ 336 پر بیان کیا ہے
اسی حدیث کا تیسرا طرق بھی ہے جس کو ایک اور اہل سنت کے بڑے عالم امام حسکانی کہ جس کے بارے میں ذھبی نے لکھا:
الحسكاني القاضى المحدث أبو القاسم عبيد الله بن عبد الله بن احمد بن محمد بن احمد بن محمد بن حسكان القرشى العامري النيسابوري الحنفي الحاكم ويعرف بابن الحذاء الحافظ شيخ متقن ذو عناية تامة بعلم الحديث
کہ حسکانی صاحب، قاضی ، محدث ، حافظ اور علم الحدیث میں گہری دلجسپی رکھنے والے ایک ماہر شیخ تھے ۔۔
نوٹ : یہاں ذھبی کا قول اس لیے لکھا کہ اب اہل سنت حضرات ان کو بھی فضائل اہل بیت بیان کرنے کے جرم میں شیعوں کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں ۔
امام حسکانی نے بھی اپنی شہرہ آفاق کتاب شواهد التنزيل کی جلد اول کے صفحہ ٤٠١ پر یہی روایت نقل کی ہے ۔
اسی طرح اہل سنت کے ایک عالم ابن مغازلی جوکہ شافعیوں کے بڑے آئمہ میں سے ایک ہیں وہ لکھتے ہیں :
٣٥٨ – أخبرنا أحمد بن محمد بن طاوان إذناً أن أبا أحمد عمر بن عبد الله بن شوذب أخبرهم قال: حدثنا محمد بن جعفر بن محمد العسكري، حدثنا محمد بن عثمان، حدثنا إبراهيم بن محمد بن ميمون، حدثنا علي بن عابس قال: دخلت أنا وأبو مريم على عبد الله بن عطاء قال أبو مريم: حدث علياً بالحديث الذي حدثثني عن أبي جعفر، قال: كنت عند أبي جعفر جالساً إذ مر عليه ابن عبد الله بن سلام قلت: جعلني الله فداك هذا ابن الذي عنده علم من الكتاب، قال: لا، ولكنه صاحبكم علي بن أبي طالب الذي نزلت فيه آيات من كتاب الله عز وجل {الذي عنده علمٌ من الكتاب}، {أفمن كان على بينةٍ من ربه ويتلوه شاهدٌ منه}، {إنما وليكم الله ورسوله}، الآية.
حوالہ : كتاب مناقب لابن المغازلي، ص 380، رقم الحديث: 358
مزے کی بات یہ ہے کہ مغازلی نے اس روایت کو إنما وليكم الله ورسوله کے ضمن میں لکھا ہے ۔
امام ابن عطیہ نے بھی اس آیت مقصود امیرالمومنین علیہ السلام کو لیا ہے :
أبي بن كعب: ٣/ ٣١٩ ٤٣: وَمَنْ عِنْدَهُ عِلْمُ الْكِتابِ: ومن عنده: علي بن أبي طالب- أبيّ بن كعب- ابن عباس: ٣/ ٣٢٠ ومن عنده علم الكتاب: علي بن أبي طالب-
حوالہ : ابن عطية المحرر الوجيز في تفسير الكتاب العزيز، جلد 6، ص 57
یہ امیہ کے پالتو کتے کچھ بھی کر لیں لیکن کبھی بھی اہل بیت علیہم السلام کے فضائل پر ہمارے ہوتے ہوئے ڈاکہ مارنے پر کامیاب نہیں ہو سکتے کیونکہ فقط یہی ایک آیت نہیں بلکہ اس آیت میں امیرالمومنین علیہ السلام پر دیگر اہل سنت احادیث سے بھی تائید ہوتی ہے.
نمونے کے طور پر کچھ بیان کیے دیتا ہوں..
ابن طفيل نے ایک روايت کو امير المومنين علی علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ:
ابن يونس أخبرنا أبو بكر بن عياش عن نصير عن سليمان الأحمسي عن أبيه قال قال علي عليه السلام : و الله ما نزلت آية إلا و قد علمت فيما نزلت و أين نزلت و علي من نزلت إن ربي و هب لي قلبا عقولا و لسانا طلقا .
خدا کی قسم میں ہر آیت کے بارے میں جانتا ہوں کہ وہ کس کے بارے میں اور کہاں اور کس پر نازل ہوئی، بے شک میرے پروردگار نے مجھے فہیم قلب اور بلیغ زبان بخشی ہے۔
ایک اور روايت میں ابی طفيل نے نقل کیا ہے کہ امير المؤمنين علیہ السلام نے فرمایا:
أخبرنا عبد الله بن جعفر الرقي أخبرنا عبيد الله بن عمرو عن معمر عن و هب بن أبي دبي عن أبي الطفيل قال قال علي عليه السلام : سلوني عن كتاب الله فإنه ليس من آية إلا و قد عرفت بليل نزلت أم بنهار في سهل أم في جبل .
مجھ سے کتاب خدا کے بارے میں سوال پوچھو کہ بے شک خدا کی قسم ہر آیت کے بارے میں مجھے علم ہے کہ وہ دن کو نازل ہوئی ہے یا رات کو، صحرا میں نازل ہوئی ہے یا پہاڑ پر۔
الطبقات الكبري ، محمد بن سعد بن منيع أبو عبدالله البصري الزهري الوفاة : 230 ، ج 2 ، ص 338 . دار النشر : دار صادر بيروت .
اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا کہ اہل سنت کے امام ابن جوزی نے اس آیت من عنده علم الكتاب کی تفسیر و مصداق کے بارے میں لکھا.
أنه علي بن أبي طالب
اس آيت سے مراد امير المومنين علی (ع) ہیں۔
آگے لکھتا ہے..
جہنوں نے اس آیت کا مصداق عبد اللہ ابن سلام کو قرار دیا ہے وہ باطل ہے کیونکہ یہ سوره مكی ہے اسلیے عبد اللہ ابن سلام سے اس آیت کا کوئی تعلق نہیں ہے، شعبی نے نقل کیا ہے کہ عبد اللہ ابن سلام کے بارے میں قرآن کی کوئی آیت نازل نہیں ہوئی۔
عبارت ملاحظہ فرمائیں :
هو عبد الله بن سلام ؟ قال : و كيف ، و هذه السورة مكية ؟ و أخرج ابن المنذر عن الشعبي قال : ما نزل في عبد الله بن سلام رضي الله عنه شيء من القرآن .
حوالہ :
ابن الجوزي ، أبو الفرج ، 508هـ 597 ،6 – 1201 . زاد المسير ، ج 4 ص 16
السُّيوطي ، جلال الدين ، 849 – 911 هـ، 1445 – 1505 ، الدر المنثور ، ج 6 ، ص 30 .
تو قارئین ہمیشہ کی طرح جیت فقط اور فقط حجت خدا کی ہوتی اور ثابت ہوا کہ نبوت پر ایسا گواہ جس کے پاس پورے قرآن کا علم ہے وہ رسول اللہ کے بھائی امام علی علیہ السلام ہیں.
والسلام
#ابوعبداللہ
رابطہ : facebook.com/iamAbuabdullah.zaidi