امیر المومنین (علیہ السلام)
مولا علی علیہ السلام کی خانہ کعبہ میں ولادت پر شیعہ اور اہل سنت کے علماﺀ کا اجماع
مولای متقیان، امیرالمؤمنن، حضرت علی بن أبی طالب صلوات الله و سلامه علیهما ۱۳ رجب ، ۳۰ عام الفیل کو خانه کعبه میں پیدا ہوئے. کعبہ میں آپ کی ولادت کی بحث فریقین کے نذدیک ایک مسلم اور واضح مسئلہ ہے، جیساکہ فریقین کی کتابوں میں اس سلسلے میں مراجعہ کریں تو بات روشن ہوجاتی ہے ۔
ہم اس تحریر میں شیعہ اور اھل سنت کے بعض علماء کے اس سلسلے میں اقوال کو ذکر کریں گے اور اس مسئلے کو سب کے لئے واضح کر دیں گے ۔ اگرچہ اس تحریر کو اھل سنت کی کتابوں کے حوالے پیش کرنا مقصد ہے لیکن شروع میں بعض شیعہ علماء کے اقوال اور نام کا بھی ذکر کرتے ہیں ۔
مولا علی علیہ السلام کی کعبہ میں ولادت کے بارے شیعہ علماء کے اقوال :
اس حصے میں ہم بعض شیعہ علماء کے نظریے اور اقوال کو ذکر کرتے ہیں :
- شيخ صدوق رحمه الله :
انہوں نے امام علي عليه السلام کی کعبہ میں ولادت کو اپنی تین کتابوں میں نقل کیا ہے ۔ اسی طرح نجاشي، "مولد أمير المؤمنين عليه السلام "نامی کتاب کو شيخ صدوق سے نقل کرتے ہیں (رجال النجاشي – ص 392). سيد بن طاووس نے "مولد مولانا علي عليه السلام بالبيت” کے عنوان سے شیخ صدوق سے نقل کیا ہے . (اليقين باختصاص مولانا علي عليه السلام بإمرة المؤمنين، ، ص: 191)
- شيخ مفيد رحمه الله:
شیخ مفید کہ جو شیعہ بزرگ علماء میں سے ہیں ، آپ اس سلسلے میں فرماتے ہیں:
ولد بمكة في البيت الحرام يوم الجمعة الثالث عشر من رجب سنة ثلاثين من عام الفيل ولم يولد قبله ولا بعده مولود في بيت الله تعالى سواه إكراما من الله تعالى له بذلك وإجلالا لمحله في التعظيم .
حضرت امير المؤمنين علي بن ابى طالب عليه السّلام جمعه کے دن ، ۱۳ رجب ،۳۰عام الفيل کو مکہ میں اللہ کے گھر میں پیدا ہوئے . ان سے پہلے اور ان کے بعد کوئی کعبہ میں پیدا نہیں ہوئے اور یہ اللہ کے پاس امام علي عليه السلام کے مقام اور عظمت کے بلندی کی وجہ سے ہے .
الشيخ المفيد ، أبي عبد الله محمد بن محمد بن النعمان العكبري البغدادي (متوفاي413هـ) ، الإرشاد في معرفة حجج الله علي العباد ، ج 1 ، ص 5 ، تحقيق : مؤسسة آل البيت عليهم السلام لتحقيق التراث ، ناشر : دار المفيد للطباعة والنشر والتوزيع – بيروت ، الطبعة : الثانية ، 1414هـ – 1993 م
- شيخ طوسي رحمه الله:
شیخ الطائفه نے اس سلسلے میں لکھا ہے :
وُلِدَ بِمَكَّةَ فِي الْبَيْتِ الْحَرَامِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ لِثَلَاثَ عَشْرَةَ خَلَتْ مِنْ رَجَبٍ بَعْدَ عَامِ الْفِيلِ بِثَلَاثِينَ سَنَة.
آپ جمعہ کے دن ،۱۳ رجب ، ۳۰ عام الفيل کو مکہ میں اللہ کے گھر میں پیدا ہوئے ۔
الطوسي، الشيخ ابوجعفر، محمد بن الحسن بن علي بن الحسن (متوفاى460هـ)، تهذيب الأحكام، ج 6 ص 19، تحقيق: السيد حسن الموسوي الخرسان، ناشر: دار الكتب الإسلامية ـ طهران، الطبعة الرابعة،1365 ش .
- سيد رضي رحمه الله:
مرحوم سید رضی نے مولا کی اس فضیلت کے بیان میں لکھا ہے :
ولد ع بمكة في البيت الحرام لثلاث عشرة ليلة خلت من رجب بعد عام الفيل بثلاثين سنة و لا نعلم مولودا ولد في الكعبة غيره.
آپ جمعہ کے دن ،۱۳ رجب ، ۳۰ عام الفيل کو مکہ میں اللہ کے گھر میں پیدا ہوئے ۔
ان کے علاوہ کسی اور کی ولادت خانہ کعبہ میں نہیں ہوئی ہے .
الشريف الرضي، خصائص الأئمة، ص 39، ناشر: مجمع البحوث الإسلامية – الآستانة الرضوية المقدسة
- ابن بطريق رحمه الله:
ابن بطریق کہ جو شیعہ امامی بزرگ علماء میں سے ہیں ،آپ اس سلسلے میں لکھتے ہیں:
ولد بمكة في بيت الله الحرام سنة ثلاثين من عام الفيل يوم الجمعة الثالث عشر من رجب ، ولم يولد قبله ولا بعده مولود في بيت الله تعالى سواه ، منا من الله سبحانه وتعالى عليه بذلك واجلاء لمحله في التعظيم.
آپ جمعہ کے دن ،۱۳ رجب ، ۳۰ عام الفيل کو مکہ میں اللہ کے گھر میں پیدا ہوئے ۔
. ان کے علاوہ ، ان سے پہلے اور ان کے بعد کسی اور کی ولادت اللہ کے گھر میں نہیں ہوئی ہے ۔ اور یہ ان اپ اللہ کا خصوصی احسان اور ان کے مقام اور عظمت کی بلندی کی خاطر ہے ۔
ابن البطريق، عمدة عيون صحاح الاخبار في مناقب إمام الأبرار، ص 24 ، مؤسسة النشر الإسلامي التابعة لجماعة المدرسين بقم المشرفة، جمادي الأولى 1407.
- طبرسي رحمه الله:
مرحوم طبرسی نے اس سلسلے میں لکھا ہے :
وُلِدَ بِمَكَّةَ فِي الْبَيْتِ الْحَرَامِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ الثَّالِثَ عَشَرَ مِنْ شَهْرِ اللَّهِ الْأَصَمِّ رَجَبٍ بَعْدَ عَامِ الْفِيلِ بِثَلَاثِينَ سَنَةً وَ لَمْ يُولَدْ قَطُّ فِي بَيْتِ اللَّهِ تَعَالَى مَوْلُودٌ سِوَاهُ لَا قَبْلَهُ وَ لَا بَعْدَهُ وَ هَذِهِ فَضِيلَةٌ خَصَّهُ اللَّهُ تَعَالَى بِهَا إِجْلَالًا لِمَحَلِّهِ وَ مَنْزِلَتِهِ وَ إِعْلَاءً لِقَدْرِهِ.
آپ جمعہ کے دن ،۱۳ رجب ، ۳۰ عام الفيل کو مکہ میں اللہ کے گھر میں پیدا ہوئے ۔
آپ سے پہلے اور آپ کے بعد کسی کی ولادت اللہ کے گھر میں نہیں ہوئی ہے . یہ ایسی فضیلت ہے جو اللہ نے حضرت علی علیہ السلام کو مقام ، مرتبہ اور منزلت دینے کے لئے انہیں عطاء کی ہے ۔
الطبرسي، أبي علي الفضل بن الحسن (متوفاى548هـ)، إعلام الورى بأعلام الهدى، ج 1 ص 306، تحقيق و نشر: تحقيق مؤسسة آل البيت عليهم السلام لإحياء التراث ـ قم، الطبعة : الأولى، 1417هـ
- ابن شهر آشوب رحمه الله:
ابن شهر آشوب نے حضرت علی سلام الله علیه کے کعبہ کی ولادت کے بارے میں لکھتے ہیں :
ليس المولود في سيد الأيام يوم الجمعة في الشهر الحرام في البيت الحرام سوى أمير المؤمنين عليه السلام.۔
امام علي عليه السلام کے علاوہ کوئی اور ایسا نہیں ہے کہ جو بافضیلت دنوں {روز جمعہ اور ماہ رجب }میں اللہ کے گھر میں پیدا ہوئے ہو .
ابن شهرآشوب، رشيد الدين أبي عبد الله محمد بن علي السروي المازندراني (متوفاى588هـ)، مناقب آل أبي طالب، ج 2 ص 200، تحقيق: دکتر یوسف البقاعی، ناشر: دار الضواء.
- قطب راوندي رحمه الله:
قطب راوندی لکھتے ہیں :
ولقد ولد في بيت الله الحرام ولم يولد فيه أحد[غيره].
امام علي عليه السلام ، اللہ کے گھر میں پیدا ہوئے اور آپ کے علاوہ کوئی اور اللہ کے گھر میں پیدا نہیں ہوا۔
الراوندي، قطب الدين (متوفاى573هـ)، الخرائج والجرائح، ج 2 ص 888، تحقيق ونشر: مؤسسة الإمام المهدي عليه السلام ـ قم، الطبعة: الأولى، 1409هـ.
- علامه حلي رحمه الله:
شیعہ مشهور متکلم ، مرحوم علامه حلی رضوان الله تعالی علیه نے اس سلسلے میں لکھا ہے :
ولد أمير المؤمنين ع يوم الجمعة الثالث عشر من شهر رجب بعد عام الفيل بثلاثين سنة في الكعبة و لم يولد أحد سواه فيها لا قبله و لا بعده.
آپ جمعہ کے دن ،۱۳ رجب ، ۳۰ عام الفيل کو مکہ میں اللہ کے گھر میں پیدا ہوئے ۔
سوای آپ کے کوئی آپ سے پہلے اور آپ کے بعد ،اللہ کے گھر میں پیدا نہیں ہوئے .
الحلي، الحسن بن يوسف بن المطهر (متوفاي726 هـ)، كشف اليقين في فضائل أمير المؤمنين، ص 17، تحقيق: حسين الدرگاهي أبا محمد حسن حسين آبادي، محل نشر: تهران، بينا، الطبعة الأولى 1411 ه – 1991 م.
- شیخ یوسف بحرانی رحمه الله:
شیخ یوسف بحرانی جو صاحب حدائق کے نام سے مشھور ہیں ، آپ اس سلسلے میں لکھتے ہیں :
ولد بمكة في البيت الحرام ولم يولد فيه أحد قبله ولا بعده وهي فضيلة خص بها عليه الصلاة والسلام وكان ذلك يوم الجمعة لثلاث عشر ليلة خلت من رجب.
امام علي عليه السلام اللہ کے گھر میں پیدا ہوئے ،آپ کے سوا کوئی اور آپ سے پہلے اور آپ کے بعد اللہ کے گھر میں پیدا نہیں ہوئے ،یہ فضیلت آپ کے ساتھ مخصوص ہے. اور وااقعہ جمعہ کے دن ،۱۳ رجب کو پیش آیا ۔
البحراني، الشيخ يوسف، (متوفاي1186هـ)، الحدائق الناضرة في أحكام العترة الطاهرة، ج 17 ص 432 و 433، ناشر : مؤسسة النشر الإسلامي التابعة لجماعة المدرسين بقم المشرفة، طبق برنامه مكتبه اهل البيت.
اگرچہ شیعہ علماء کے اس سلسلے میں نظریات بہت ہیں لیکن ہم یہاں اسی مقدار پر اکتفاء کرتے ہیں اور اب اھل سنت کے علماء کے اقوال نقل کرتے ہیں ۔
امام کی کعبہ میں ولادت کے سلسلے میں اھل سنت کے علماء کے نظریات:
اس فصل میں ہم حضرت علی علیہ السلام کی خانہ کعبہ میں ولادت کے سلسلے میں اھل سنت کے علماء کی نظر پیش کرتے ہیں۔
- حاكم نيشابوري:
حاکم نیشابوری کہ جو اھل سنت کے بزرگ میں سے ہیں ،آپ حضرت امیر سلام الله علیه کی خانہ کعبہ میں ولادت کے بارے میں تواتر کا ادعا کرتے ہیں :
فقد تواترت الأخبار أن فاطمة بنت أسد ولدت أمير المؤمنين علي بن أبي طالب كرم الله وجهه في جوف الكعبة.
متواتر اخبار سے ثابت ھے کہ فاطمہ بنت اسد علیہا السلام نے مولاعلی بن ابی طالب علیہ السلام کو عین کعبہ کے اندر جنم دیا ھے۔
المستدرک علی الصحیحین، ج3، ص550
- سبط ابن جوزي:
آپ بھی بھی اھل سنت کے ان علماء میں سے ہیں جنہوں نے خانہ کعبہ میں امیر المومنین ع کی ولادت کا اعتراف کیا ہے ۔
وروي أن فاطمة بنت أسد كانت تطوف بالبيت وهي حامل بعلي (ع) فضربها الطلق ففتح لها باب الكعبة فدخلت فوضتعه فيها .
نقل ہوا ہے کہ فاطمه بنت أسد ، حاملہ تھی اور اللہ کے گھر کا طواف کر رہی تھی ، درد ذہ شروع ہوا ، اللہ کے گھر کا دروازہ ان کے لئے کھل گیا ،آپ داخل ہوگئی اور آپ کے فرزند کعبہ میں پیدا ہوئے ۔.
تذکرة الخواص، ص
- حلبي شافعي:
برهان الدین حلبی نے بھی اللہ کے گھر میں حضرت علی سلام الله علیه کی ولادت کا کہا ہے :
وفي السنة الثلاثين من مولده صلي الله عليه وسلم ولد علي بن أبي طالب کرم الله وجهه في الکعبة.
پيامبر اکرم صلي الله عليه و آله کی ولادت کے ۳۰ سال بعد حضرت علي بن أبي طالب کرم الله وجه کی ولادت خانہ کعبہ میں ہوئی .
السيرة الحلبية، ج3، ص485
- فاكهي:
محمد بن اسحاق فاکهی مکی نے اخبار مکة میں نقل کیا ہے :
وأول من ولد في الكعبة من بني هاشم من المهاجرين : علي بن أبي طالب ـ رضي الله عنه ـ
بنی ھاشم اور مھاجرین میں سے سب سے پہلے حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے ۔
أخبار مکة، ج 3 ص 226
- الشيخ أبو زكريا الأزدي:
ازدی نے بھی اس سلسلے میں کہا ہے :
وكان ولد في الكعبة ولم يولد فيها خليفة غير أمير المؤمنين علي بن أبي طالب عليه السلام .
حضرت علی علیہ السلام خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے ،سوای آپ کے کوئی اور خلیفہ اللہ کے گھر میں پیدا نہیں ہوئے .
تاریخ موصل، کتاب الثالث عشر، ص 58
- آلوسی:
آلوسی نے عینیه عبدالباقی عمری افندی {جو خلیفه دوم کی اولاد میں سے ہے} کے اشعار کی شرح لکھی ہے اور اس کا نام سرح الخریده الغیبیه فی شرح القصیده العینیه رکھا ہے ۔ اس میں افندی کے شعر کو اس طرح نقل کیا ہے :
۔أنت العلیُ اَلّذی فَوقَ الْعُلَی رُفِعا
آپ بلند مرتبہ کا مالک ہیں اور بلند مرتبہ والے نے آپ کو بلندی عطاء کی ہے ۔
بِبَطْنِ مَکهَ عِندَ البَیتِ إذْ وُضِعا
آپ کو مکہ میں کعبہ کے اندر قرار دیا ۔
آلوسی آگے چل کر ابیات افندی کی شرح میں لکھتے ہیں:
و فی کون الامیر کرم الله وجهه ولد فی البیت، امر مشهور فی الدنیا وذکرفی کتب الفریقین السنه و الشیعه.
یہ جو بات ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کی ولادت اللہ کے گھر میں ہوئی ہے یہ مشھور بات ہے اور یہ شیعہ اور اھل سنت کی کتابوں میں یہ ذکر ہے ۔
سرح الخریدة، ص 3 و 15
آلوسی، کی باتوں میں دقت کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اھل سنت کے ایک بڑے عالم ہونے کے اعتبار سے یہ کہہ رہے ہیں کہ اللہ کے گھر میں آپ کی ولادت ایک مشھور بات ہے اور شیعہ اور اھل سنت کی کتابوں میں اس مسئلے کو خاص اھمیت حاصل ہے.
- ابن صباغ مالكي:
ابن صباغ، کہ جو مالکی مذهب کے علماء میں سے ہے ،آپ حضرت علی علیه السلام کی اس فضیلت کے بارے میں لکھتے ہیں:
ولد علي ( عليه السلام ) بمكة المشرفة بداخل البيت الحرام في يوم الجمعة الثالث عشر من شهر الله الأصم رجب الفرد سنة ثلاثين من عام الفيل قبل الهجرة بثلاث وعشرين سنة ، وقيل بخمس وعشرين ، وقبل المبعث باثني عشرة سنة ، وقيل بعشر سنين . ولم يولد في البيت الحرام قبله أحد سواه ، وهي فضيلة خصه الله تعالي بها إجلالا له وإعلاء لمرتبته وإظهارا لتكرمته .
مولا علی (ع) 13 رجب ، 30 عام الفیل اور ہجرت سے 23 سال ہیلے مکہ شریف میں خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے ، آپ کے علاوہ کوئی کعبہ میں پیدا نہیں ہوا . یہ آپ کی فضیلت ہے اور یہ اللہ نے آپ کے مقام کو بلند کرنے اور آپ کی عظمت اور بزرگی کو بیان کرنے کے لئے ہے ۔
الفصول المهمة، ص 29
ابن صباغ مالکی بھی یہ اعتراف کرتے ہیں کہ یہ فضیلت آپ کے ساتھ مخصوص ہے اور یہ اللہ کی طرف سے آپ کے مقام و مرتبہ اور عظمت اور شرافت کے بیان کے لئے مخصوص فضیلت ہے ۔
- گنجي شافعي:
حافظ گنجي،آپ شافعی مذهب کے علماء میں سے آپ كفاية الطالب میں لکھتے ہیں : ولد أمير المؤمنين علي بن أبي طالب بمكة في بيت الله الحرام ليلة الجمعة لثلاث عشرة ليلة خلت من رجب سنة ثلاثين من عام الفيل ولم يولد قبله ولا بعده مولود في بيت الله الحرام سواه إكراما له بذلك ، وإجلالا لمحله في التعظيم .
مولا علی (ع) 13 رجب ، 30 عام الفیل ، کو مکہ میں، خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے ، آپ کے علاوہ کوئی کعبہ میں پیدا نہیں ہوا . یہ آپ کی فضیلت ہے اور اللہ نے آپ کے مقام کو بلند کرنے اور آپ کے عظمت اور بزرگی کو بیان کرنے کے لئے ہے ۔
كفاية الطالب، ص 405-406
گنجی شافعی کے کلمات میں دقت کرنے سے بھی یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ فضیلت آپ کے علاوہ کسی اور کو نصیب نہیں ہوئی ہے ۔
- صفوري شافعي:
صفوری شافعی بھی اھل سنت کے علماء میں سے ہیں آپ بھی اپنی دو کتابوں میں حضرت علی علیه السلام کی کعبه میں ولادت کو بیان کرتے ہیں جیساکہ کتاب فصول المهمة میں یوں لکھتے ہیں:
ورأيت في الفصول المهمة في معرفة الأئمة بمكه المشرفة شرفها الله تعالي لأبي الحسن المالكي أن عليا ولدته امه بجوف الكعبة شرفها الله تعالي وهي فضيلة خصه الله تعالي بها وذلك أن فاطمة بنت أسد رضي الله عنها أصابها شدة الطلق فأدخلها أبوطالب الي الكعبة فطلقت طلقة واحدة فوضعته يوم الجمعة في رجب سنة ثلاثين من عام الفيل…
فصول المهمه في معرفة الأئمه بمكهء المشرفه کہ جس کو لکھنے ولا ابو الحسن مالكي ہے ۔ میں نے اس کتاب میں دیکھا ہے کہ علي (عليه السلام) کی والدہ نے انہیں کعبہ کے اندر دنیا میں جنم دیا اور یہ ایسی فضیلت ہے کہ جو اللہ نے صرف انہیں دی ہے ۔
یہ واقعہ اس طرح سے ہے کہ فاطمه بنت أسد رضي الله عنها کو جب درد حمل شروع ہوا تو ، ابو طالب انہیں خانہ كعبه کے اندر لے گیا ، اور اچانک درد ذہ شروع ہوا اور بچہ دنیا میں آیا . یہ ولادت جمعه کے دن 13 رجب 30 عامل الفیل کو ہوئی ۔
نزهة المجالس، ص 159
انہوں نے اسی طرح کتاب "مختصر المحاسن المجتمعة مطابق” میں مذکورہ بات بات کو اس طرح نقل کیا ہے
رأيت في الفصول المهمة في معرفة الائمة لبعض المالکية أن عليا رضي الله عنه ولدته أمه فاطمة بجوف الکعبة، وهي فضيلة خصه الله تعالي بها، وذلک أن أمه اشتد بها الطلق، فاتي بها أبو طالب واسمه عبد مناف، وأدخلها الکعبة فطلقت طلقة واحدة، فوضعته يوم الجمعة، في شهر رجب، سنة ثلاثين من عام الفيل، بعد أن تزوج النبي صلي الله وسلم خديجة رضي الله عنها بثلاث سنين.
۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ واقعہ حضور ص کے جناب خدیجہ سے شادی کے تین سال بعد پیش آیا ۔۔
مختصر المحاسن المجتمعة، ص156
- مسعودي:
اھل سنت کے ہی عالم مسعودی نے اس سلسلے میں لکھا ہے ؛
وروي أن فاطمة بنت أسد لما حملت بأمير المؤمنين (علیه السلام) کانت تطوف بالبيت فجاءها المخاض وهي في الطواف فلما اشتد بها دخلت الکعبة فولدته في جوف البيت.
نقل ہوا ہے که فاطمه بنت اسد حاملہ تھی اور آپ طواف کر رہی تھی ، درد ذہ شروع ہوا تو آپ کعبہ میں داخل ہوئی اور حضرت علی علیہ السلام کو دنیا میں لایا ،
اثبات الوصية، ص 142
انہوں نے مروج الذھب میں بھی لکھا ہے :
وكان مولده في الكَعبة .
حضرت علی علیہ السلام کی ولادت کعبہ میں ہوئی ۔
مروج الذهب، ج 2 ص 273
- زرندي :
حنفی عالم ، زرندی اس سلسلے میں لکھتا ہے :
وولد کرم الله وجهه في جوف الکعبة …
حضرت علي بن أبي طالب کرم الله وجه کعبہ کے اندر دنیا میں آئے .
معارج الوصول، ص49
ایک اور جگہ پر لکھتے ہیں :
وأمه فاطمة بنت أسد ابن هاشم بن عبد مناف وهي أول هاشمية ولدت لهاشمي روي انه لما ضربها المخاض أدخلها أبو طالب الكعبة بعد العشاة فولدت فيها علي بن أبي طالب (رض).
[حضرت علي عليه السلام] کی ماں فاطمه بنت اسد ولد هاشم ولد عبد مناف ، آپ وہ پہلی ھاشمی خاتون ہیں جنہوں نے ھاشمی فرزند کو دنیا میں لایا ۔جب درد ذہ شروع ہوا تو ابوطالب نے رات کے شروع میں ہی انہیں کعبہ کے اندر لایا اور حضرت علي بن أبي طالب [علیه السلام] دنیا میں آئے ۔
نظم درر السمطين، ص76
- امير صنعاني:
آپ بھی اھل سنت کے علماء میں سے ہیں ،آپ اس سلسلے میں لکھتے ہیں ؛
وأما مولده فولد بمکة المشرفة في البيت الحرام سنة ثلاثين من عام الفيل في اليوم الجمعة الثالث [عشر] من رجب.
آپ کی ولادت مکہ مشرفہ میں، خانہ کعبہ کے اندر ، جمعہ کے دن ، ۱۳ رجب ، ۳۰ عامل الفیل کو ہوئی ،
الروضة الندية، ص36
- ديار بکري:
دیار بکری نے ” تاریخ الخمیس ” نامی کتاب میں اس واقعے کو ذکر کیا ہے :
و في السنة الثلاثين من مولده صلي الله عليه وسلم ولد علي بن أبي طالب رضي الله عنه في الکعبة.
پيامبر اکرم صلي الله عليه [و آله] وسلم،کی ولادت کے ۳۰ سال بعد علي بن أبي طالب [علیه السلام] کعبہ میں پیدا ہوئے .
تاريخ الخميس، ج1، ص379
- محمد بن عبدالواحد موصلي:
موصلی نے لکھا ہے :
ومولده في الکعبة المعظمة، ولم يولد بها سواه في طلقة واحدة.
حضرت علي عليه السلام کعبه معظمه میں پیدا ہوئے اور آپ کے علاوہ کوئی اور کعبہ میں پیدا نہیں ہوئے اور آپ درد ذہکے پہلے درد کے ساتھ دنیا میں آئے ۔
النعيم المقيم لعترة النبأ العظيم، ص 55
- بستي:
بستی معتزلی العقیدة اور اھل سنت کے عالم ہیں ،آپ حضرت علی کی ولادت اور بنی ھاشم کی عورتوں کی عادت کے بارے میں لکھتے ہیں :
فقد علمنا في الصحيح من الروايات عند جميع أهل البيت، أن فاطمة بنت أسد قالت: لما قرب ولادتي بعلي، کانت العادة في نساء بني هاشم أن يدخلن البيت ويمسحن بطونهن بحيطانه فيخف عليهن الوضع، فخرجت مع جنيني
وليس في الموضع أشرف من هذا والولد الطاهر مولود في أشرف البقاء من أکرم الفضائل، وليس هذا للمشايخ ولا لأحد نعرفه.
ثم له في المسجد خاصية ومزية، لا يشارکه فيها أحد وهو أنه ولد في الکعبة.
تحقیقی بات یہ ہے تمام اهل بيت عليهم السلام کے نذدیک صحیح روایات سے ہم نے یہ جان لیا ، که فاطمه بنت اسد نے نقل ہے: اس وقت بنی ھاشم کی عورتوں کی عادت یہ تھی کہ وہ اللہ کے گھر میں داخل ہوتیں اور اپنے پیٹ کو اللہ کے گھر کی دیواروں سے مس کرتیں تاکہ پچے کی پیدائش میں آسانی ہو اور اس کے بعد اپنے گھر میں آگر بچے کو جنم لیتی۔ لیکن میں اپنے بیٹے کے ساتھ اللہ کے گھر سے باھر نکلی۔
کوئی بھی جگہ کعبہ سے زیادہ بافضیلت نہیں ہے اور یہ پاک فرزند بافضیلت ترین جگہ میں متولد ہوئی اور یہ فضیلت اور منزلت انہیں سے مخصوص ہے ، یہ کسی اور عظیم انسان کو نصیب نہیں ہوئی ۔
اور حضرت علي عليه السلام کو بھی مسجد سے ایک خاص رشتہ اور تعلق ہے کہ کوئی ان کے ساتھ اس میں شریک نہیں آپ وہ ہیں جو کعبہ میں پیدا ہوئے .
المراتب، ص 151
بستی معتزلی کے کلمات سے چند مطالب بطور نتیجہ :
1.بنی ھاشم کی عورتویں بچہ جننے کے وقت اللہ کے گھر کی دیواروں سے اپنے شکم کو مس کرتی تھیں ۔
2.کعبه اس وقت لوگوں کے لئے خاص کر بنی ھاشم کے لئے ایک مقدس جگہ تھی۔
- حضرت علی علیه السلام کی ولادت کعبه میں ہوئی ہے.
- اس وقت بھی کعبه بافضیلت مکان تھا کہ عورتیں تبرک کے لئے وہاں جاتی تھیں ۔
5.حضرت علی علیہ السلام کی کعبہ میں ولادت ایک ایسی فضیلت ہے کہ جس میں کوئی بھی آپ کے ساتھ شریک نہیں .
- ابن مغازلي:
ابن مغازلی شافعی نے بھی حضرت علی سلام الله علیه کی ولادت کے واقعے کو امام سجاد علیه السلام سے اس طرح نقل کیا ہے :
أخبرنا أبو طاهر محمد بن علي بن محمد البيع، قال: أخبرنا أبو عبد الله أحمد بن محمد بن عبد الله بن خالد الكاتب، قال: حدثنا أحمد بن جعفر بن محمد بن سلم الختلي قال: حدثني عمر بن أحمد بن روح، حدثني أبو طاهر يحيى بن الحسن العلوي، قال: حدثني محمد بن سعيد الدارمي حدثنا موسى بن جعفر، عن أبيه، عن محمد بن علي، عن أبيه علي بن الحسين، قال: كنت جالساً مع أبي ونحن زائرون قبر جدنا عليه السلام، وهناك نسوان كثيرة، إذ أقبلت امرأة منهن فقلت لها: من أنت يرحمك الله؟ قالت: أنا زيدة بنت قريبة بن العجلان من بني ساعدة. فقلت لها: فهل عندك شيئاً تحدثينا؟ فقالت: إي والله حدثتني أمي أم العارة بنت عبادة بن نضلة بن مالك بن عجلان الساعدي .. أنها كانت ذات يوم في نساءٍ من العرب إذ أقبل أبو طالب كئيباً حزيناً، فقلت له: ما شأنك يا أبا طالب؟ قال: إن فاطمة بنت أسد في شدة المخاض، ثم وضع يديه على وجهه. فبينا هو كذلك، إذ أقبل محمد صلى الله عليه وسلم فقال له: ((ما شأنك يا عم؟)) فقال: إن فاطمة بنت أسد تشتكي المخاض، فأخذ بيده وجاء وهي معه فجاء بها إلى الكعبة فأجلسها في الكعبة، ثم قال: ((اجلسي على اسم الله!)) قال: فطلقت طلقة فولدت غلاماً مسروراً، نظيفاً، منظفاً لم أر كحسن وجهه، فسماه أبو طالب علياً وحمله النبي صلى الله عليه وسلم حتى أداه إلى منزلها. قال علي بن الحسين عليهم السلام: فوالله ما سمعت بشيء قط إلا وهذا أحسن منه.
موسي بن جعفر نے اپنے والد امام صادق سے ، انہوں نے امام سجاد سلام الله عليهم اجمعين سے نقل کیا ہے : میں ایک دن ہمارے جد جناب رسول خدا صلي الله عليه و آله کی زیارت کے لئے گئے ہم وہاں بیٹھے ہوئے تھے اور بہت سی عورتیں بھی وہاں تھیں ، ان میں سے ایک نے ہماری طرف رخ کیا ،میں نے ان سے کہا : تم پر اللہ کی رحمت ہو ،تم کون ہو ؟ جواب دیا : میں زيدة بنت قريبة بنت عجلان ہوں ، قبیلہ بنی اسد سے ،میں نے کہا: کیا کوئی ایسی بات ہے جو ہمیں بتائے ؟. اس نے کہا : جی ہاں ؛ اللہ کی قسم میری ماں ، ام العارة بنت عبادة بن نضلة بن مالک بن عجلان الساعدي … وہ ایک دن عرب کی عورتوں کے ساتھ تھی اس وقت دیکھا کہا که ابوطالب رو رہے تھے اور غمگین تھے ۔ میں نے ان سے کہا : ابوطالب !کیا مسئلہ ہے؟ جواب دیا : فاطمه بنت اسد کو زچگی کے شدید درد کا سامنا ہے اور یہ کہہ کر اپنے ہاتھوں کو چہرے پر رکھا۔ اسی وقت پيامبر صلي الله عليه و آله آئے اور فرمایا : چچا کیا مسئلہ ہے ؟ ابوطالب نے کہا : فاطمه بنت اسد کو زچگی کے شدید درد کا سامنا ہے . اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جناب ابوطالب کا ہاتھ پکڑا اور فاطمہ بنت اسد بھی ساتھ تھی ، انہیں کعبہ کے پاس لے آئے اور کہا : اللہ کے نام کے ساتھ بیٹھ جاو ،انہوں نے بھی ایسا کیا اور پہلے ہی درد سے بچہ دنیا میں آیا کہ جو نہایت خوبصورت ،پاک و پاکیزہ تھا۔ اس بچے سے زیادہ خوبصورت بچہ نہیں دیکھی ، ابوطالب نے اس کا نام علي رکھا اور پيامبر صلی الله علیه وآله نے گھر تک انہیں ساتھ لایا . امام سجاد عليه السلام نے فرمایا : اللہ کی قسم جو باتیں سنی تھی یہ ان سب سے زیادہ خوبصورت ہے ۔
مناقب حضرت علي عليه السلام لابن مغازلي شافعي، ص 58-59
- جويني:
جوینی بھی شافعي مذهب کے علماء میں سے ہیں ، آپ بھی اس سلسلے میں لکھتے ہیں :
354- روي أنها لما ضربها المخاض اشتد وجعها فأدخلها أبوطالب الکعبة بعد العتمة فولدت فيها علي وقيل لم يولد في الکعبة إلا علي.
نقل ہوا ہے کہ جب جناب فاطمہ بن اسد کو درد زچگی شروع ہوا تو ابو طالب نے رات کے شروع میں انہیں کعبہ میں لایا اور حضرت علی علیہ السلام دنیا میں آئے ۔اور یہ کہا جاتا ہے کہ ؛ ان کے علاوہ کسی اور کی ولادت کعبہ میں نہیں ہوئی.
فرائد السمطين، ج1، ص425-426
- بسنوي:
بسنوي نے بھی ” محاضرات الاوائل ” میں القاب کی بحث میں حضرت امیرالمؤمنن علیه السلام کے سلسلے میں لکھا ہے :
أول من لقب في صباه باسم الاسد في الاسلام من الصحب الکرام وهو الحيدر من أسماء الاسد سيدنا علي بن أبي طالب رضي الله عنه کان أبو أمه غائبا حين ولدته داخل الکعبة وهي فاطمة بنت أسد لقبته أمه تفاؤلا باسم أبيه وکان من أعيان بني هاشم وهي أول هاشمية ولدت هاشميا وهو أقرب الخلفاء نسبا الي رسول الله صلي الله عليه وسلم ابن عمه وزوج أفضل بناته رضي الله عنهن.
صحابہ میں سے وہ پہلا بچہ کہ جس کو بچپنے میں ہی شیر کہا وہ سیدنا حضرت علي بن أبي طالب کی ذات ہیں ، ان کا نام حیدر ہے کہ جو شیر کے ناموں میں سے ہے ،ان کی کعبہ میں ولادت کے وقت ان کا نانا دنیا میں نہیں تھا لہذا ان کی مان فاطمہ بنت اسد نے اپنے بابا کے نام پر ان کا نام اسد رکھا ، حضرت علي عليه السلام] بني هاشم کے بزرگوں میں سے تھے اور فاطمہ بنت اسد وہ پہلی ھاشمی خاتون ہے جنہوں نے ایک ھاشمی فرزند کو جنم دیا ۔حضرت علي عليه السلام نسب کے اعتبار سے خلفاء میں سے سب زیادہ پيامبر صلي الله عليه و آله کے نذدیک ہیں ،آپ ان کے چچا کےبیٹے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی اس بیٹی کے شوھر ہیں کہ جو بیٹی ساری عورتوں سے زیادہ بافضیلت تھی ۔
محاضرة الاوائل ومسامرة الاواخر، ص79
بسنوی کے کلمات میں دقت سے بھی چند نکات واضح ہوجاتے ہیں :
- حضرت علی علیه السلام، کا خصوصی نام اسد ہے جو شیر کے معنی میں ہے .
2.آپ کی ولادت کعبہ میں ہوئی .
3.حضرت علی علیه السلام بنی هاشم کے بزرگوں میں سے تھے اور آپ کے والد اور والدہ دونوں ھاشمی تھے.
4.حضرت علی علیه السلام نسب کے اعتبار سے باقی اصحاب اور خلفاء میں سب سے زیادہ پیامبر اکرم صلی الله علیه و آله کے نذدیک اور آپ آنحضرت کے داماد ہیں ۔
- شبلنجي:
مؤمن بن حسن شبلنجی شافعی نے ” نورالابصار ” میں لکھا ہے :
ولد رضي الله عنه بمکة داخل البيت الحرام علي قول يوم الجمعة ثالث عشر رجب الحرام سنة ثلاثين من عام الفيل قبل الهجرة بثلاث وعشرين سنة.
حضرت علي عليه السلام کعبہ کے اندر اور ایک نظریے کے مطابق جمعہ کے دن ۱۳ رجب اور ۳۰ عام الفیل کو ہجرت سے ۲۳ سال پہلے دنیا میں تشریف لائے ۔
نور الابصار، ص158
- خواجه نصر الله هندی:
خواجه نصر الله هندی نے بھی کعبہ میں آپ کی ولادت کی تصریح کی ہے :
والمشهور فی ولادة الأمیر عندنا هو أن أهل الجاهلیة کانت عاداتهم أن یفتحوا باب الکعبة فی یوم الخامس عشر من رجب ویدخلونها للزیارة، فممن دخل فاطمة، فوافقت الولادة ذلک الیوم.
ہم اھل سنت کے ہاں حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی ولادت کے بارے میں مشھور یہ ہے کہ آپ کعبہ میں پیدا ہوئے ، عرب کی رسومات میں سے ایک یہ تھا کہ ۱۵ رجب کو کعبہ کے دروازے کھول دیتے اور اس میں داخل ہوتے اور زیارت کرتے اور فاطمہ بنت اسد ان لوگوں میں سے ہے جو کعبہ میں داخل ہوئی اور بچے کو کعبہ میں ہی دنیا میں لائی ۔
السیوف المشرقة ومختصر الصواقع المحرقة،ص204۔
- عبد العزیز دهلوی:
اسی طرح عبد العزیز دهلوی بھی ان افراد سے ہے جنہوں نے امیر المؤمنین علیه السلام کی کعبه میں ولادت کو بیان کیا ہے:
والصحیح فی ذلک أن عادة الجاهلیة أن یفتح باب الکعبة فی الیوم الخامس عشر من رجب ویدخلون جمیعهم للزیارة وکانت العادة أن النساء یدخلن قبل الرجال بیوم أو یومین وقد کانت فاطمة قریبة الوضع فاتفق أن ولدت هناک لما أصابها من شدة المزاحمة والمجاذبة.
صحیح بات یہ ہے کہ عرب کی جاھلی رسم یہ تھی کہ وہ ۱۵ رجب کو کعبہ کے دروازے کھول دیتے اور سب اندر سے کعبہ کی زیارت کرتے ۔ عورتوں کی عادت یہ تھی کہ اس تاریخ سے ایک یا دو دن پہلے کعبہ میں داخل ہوتیں ، فاطمہ بنت اسد حاملہ تھی اور اتفاق ایسا ہوا کہ بچہ جننے کے وقت رش کی وجہ سے آپ نے بچے کو جن لیا ۔
مختصر التحفة الاثنی عشریة،ص48
- ولی الله دهلوی:
مشھور عالم ولی اللہ دھلوی نے اس سلسلے میں لکھا ہے :
:حضرت مولا علی علیہ السلام کی ولادت کے وقت آپ علیہ السلام کے جو مناقب ظاہر ھوئے ان میں سے ایک یہ ھے کہ کعبہ معظمہ کے اندر آپ کی ولادت ھوئی۔ امام حاکم نے فرمایا : متواتر اخبار سے ثابت ھے کہ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کو آپکی والدہ فاطمہ بنت اسد نے خانہ کعبہ کے اندر میں جنم دیا۔
إزالة الخفاء عن خلافة الخلفاء، ج 4 ص 262
23.جنابي
ابو مصطفي جنابي دسویں صدی کے اھل سنت کے عالم ہیں ، آپ اميرالمؤمنين سلام الله عليه کی ولادت کے بارے میں لکھتا ہے :
ويقال کانت ولادته في داخل الکعبة.
نقل ہوا ہے کہ حضرت علي بن ابي طالب سلام الله عليهما] کعبہ میں پیدا ہوئے .
البحر الزخار والعيلم التيار للجنابي (متوفاي 999 هـ)، ص 255، مخطوط.
- صالح الغامدي صالح بن عبد الله الغامدي دور حاضر کے سلفي عالم نے اميرالمؤمنين سلام الله عليه کی ولادت کے بارے میں لکھا ہے : أمه فاطمة بنت أسد بن هاشم بن عبد مناف. ولدته في جوف الکعبة وهي أول هاشمية ولدت لهاشمي. آپ کی ماں ، فاطمه بنت اسد بنت هاشم ولد عبد مناف ہیں. انہوں نے حضرت اميرالمؤمنين سلام الله عليه کو کعبہ میں جننا، آپ بنی ھاشم کی وہ پہلی خاتون ہیں کہ جنہوں نے ھاشمی بچہ جننا ۔ الاکتفاء في اخبار الخلفاء، ج 1 ص 480 25 . عباس محمود عقاد آپ بھی عصر حاضر کے مصنفین میں سے ہیں ، ولادت اميرالمؤمنين سلام الله کے بارے میں لکھتے ہیں ؛ ولد علي في داخل الکعبة. [حضرت] علي [سلام الله عليه] کعبہ اندر دنیا میں آئے ۔ عبقرية الإمام علي، ص 43
- محمد عمر سربازي: آپ بھی ایران کے صوبہ بلوچستان کے علاقہ کوہ ون کے اھل سنت کے علماء میں ہیں ،آپ مولا علی کی اس فضیلت میں بارے میں لکھتے ہیں :
حضرت علي المرتضي رضي الله عنه جناب رسول اکرم صلي الله عليه وسلم کے چچا زاد بھائی ہیں ، آپ 13 رجب اور امام جعفر صادق رضي الله عنه کی ایک روایت ک مطابق ۷ شعبان کو ہجرت سے ۲۳ سال پہلے خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے ۔
پرسش و پاسخ هاي ارزشمند براي جوانان، ص 104
نکته: ۷ شعبان والا قول غیر مشھور قول ہے ۔
- مصطفی سباعی:
آپ بھی عصر حاضر کے اھل سنت کے لکھاری ہیں ، آپ نے امام علی علیہ السلام کے بارے میں ” زندگانی حضرت علی رضی الله عنه” کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ہے ۔ اس میں انہوں نے امام کی ولادت کے بارے میں لکھا ہے:
رسول خدا صلی الله علیه و سلم کی ولادت کے ۲۳ سال بعد حضرت علی کعبہ میں پیدا ہوئے.
زندگانی حضرت علی رضی الله عنه، ص 8
- سیف الله مدرس گرجی:
آپ بھی عصر حاضر کے اهل سنت کے مصفنین میں سے ہیں ، ایک کتاب { مختصری از باور های اهل سنت} نامی کتاب میں آپ کی ولادت کے بارے میں لکھا ہے:
آپ 13 رجب کو رسول اللہ ص کی ولادت کے ۳۰ سال بعد دنیا میں آئے اور (601 میلادی) کو مکہ میں اللہ کے گھر میں آپ کی ولادت ہوئی۔.
مختصری از باور های اهل سنت، ص 98
- محمد حسيب قادري:
آپ بھی اھل سنت کے معاصر مصنفین میں سے ہیں ، انہوں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے ؛
ولادت با سعادت
سیدنا حضرت علی مرتضی علیہ السلام حضور کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت کے تیسویں سال دنیا میں آئے ،یوں آپ حضور کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ۳۰ سال چھوٹے ہیں ، آپ کی ولادت خانہ کعبہ میں ہوئی ، حضور کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کے منہ میں اپنا لعاب دھن ڈالا اور حضور نبی کریم ص نے آپ کا نام علی رکھا ۔ جس وقت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نبوت کا اعلان کیا اس وقت آپ کی عمر دس سال تھی۔
سيرت حضرت سيدنا علي المرتضي رضي الله عنه، ص27
30.عبدالرحمن محبی:
انہوں نے کتاب فضائل حج کہ جو مولوی محمد زکریا کی تالیف ہے اور عبدالرحمن محبی کا ترجمہ اور مولوی عبدالحمید کی تقریظ کے ساتھ یہ چھاپ ہوئی ہے، اس کتاب کے حاشیے میں شیعہ اور سنی علماء سے نقل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ کی ولادت کعبہ میں ہوئی ہے :
بہت سے شیعہ اور اھل سنت کے علماء نے حضرت علی علیہ السلام کی ولادت کو کعبہ کے اندر قرار دیا ہے ۔
فضائل حج، ص 112
نتیجه:
مولای متقیان، أمیر المؤمنن، صدیق اکبر، فاروق اعظم، اسد الله الغالب، حضرت علی بن أبی طالب سلام الله علیه کی ولادت با سعادت کعبه معظمه میں ہوئی،اھل سنت کے علماء کے واضح بیان کے مطابق کہ جن میں سے ۲۵ کے اعتراف کو حوالے کے ساتھ ہم نے یہاں نقل کیا ،لہذا یہ مسئلہ ایک مسلم اور ناقابل انکار حقیقت ہے اور یہ بھی یہاں واضح ہوا کہ یہ فضیلت صرف انہیں حاصل ہے کوئی اور اس امتیاز اور فضیلت میں آپ کے شریک نہیں ہے ۔۔