Connect with us

علومِ حدیث

نص اور نص میں تعارض

تعریف

نص اور نص میں تعارض کا شمار ادلہ لفظی میں تعارض کی اقسام میں ہوتا ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ ایسی دو دلیلِ لفظی میں تعارض ہو جن کا مدلول قطعی ہو، یعنی دونوں دلیلوں کا مدلول اس قدر روشن اور واضح ہو کہ ان کے طرفِ مخالف کا احتمال نہ ہو۔

نص اور نص میں تعارض امکان نہ ہونا

علماء اصول معتقد ہیں کہ دو نص جوکہ قطعی الصدور ہوں کے درمیان تعارض کا ہونا ممکن نہیں ہے کیونکہ معصومؑ سے دو ایسے امر کا صادر ہونا ممک نہیں ہے جن میں تنافی و ٹکراؤ پایا جائے اور وہ قطعی الصدور ہوں۔

پس اگر کبھی کسی مورد میں نص اور نص میں تعارض کی تعبیر استعمال میں لائی جائے تو اس سے مراد اصطلاحی تعارض یعنی تعارضِ مستمر نہیں ہے۔ بلکہ اس سے مراد تعارض صوری اور غیر حقیقی تعارض ہے۔ لہذا ان دو دلیلوں کو باہم جمع کیا جائے گا یا ان کی تاویل کی جائے ، مثلا ان دو میں سے ایک ناسخ اور دوسری منسوخ شمار ہو گی۔

علم اصول میں نص کا معنی

اصول فقہ میں نص دو معنی میں استعمال ہوتا ہے:
۱۔ بعض اوقات نص کتبی اور لفظی دلیل کے معنی میں آتا ہے جوکہ آیات اور روایات کو شامل ہوتا ہے۔
۲۔ بعض اوقات نص ظاہر کے مقابلے میں آتا ہے۔ اس مقام میں نص کا یہی معنیِ دوم مراد ہے۔ [۱][۲][۳][۴][۵][۶]

حوالہ جات
۱. ↑ صدر، محمد باقر، دروس فی علم الاصول، ج۲، ص۵۴۱۔
۲. ↑ خضری، محمد، اصول الفقہ، ص۴۱۲۔
۳. ↑ مشکینی، علی، تحریر المعالم، ص۲۰۶۔
۴. ↑ حیدری، علی نقی، اصول الاستنباط، ص۲۰۹۔
۵. ↑ حیدری، علی نقی، اصول الاستنباط، ص۲۳۳۔
۶. ↑ جزایری، محمدجعفر، منتہی الدرایۃ فی توضیح الکفایۃ، ج۵، ص۱۴۶۔

مأخذ

فرہنگ‌نامہ اصول فقہ، تدوین توسط مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، ص۳۴۱، مقالہِ تعارض نص و نص سے یہ تحریر لی گئی ہے۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

دفاع تشیع

کیا (فاطمه بضعه مني) والی حدیث شیعہ کتب میں صحیح السند نقل ہوئی ہے؟

سوال کی وضاحت:

اہل سنت کی کتابوں میں حدیث (فاطمة بضعة مني) رسول خدا صلي الله عليه وآله سے معتبر سند کے ساتھ نقل ہوئی ہے ۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ حدیث شیعوں کی کتابوں میں بھی صحیح سند نقل ہوئی ہے ؟

اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ حدیث شیعہ کتب میں تواتر کے ساتھ نقل ہوئی ہے یا نہیں ؟ مہربانی وضاحت کے ساتھ اس کا جواب دیں۔

مختصر جواب

شیعہ کتابوں میں ایک سرسری تحقیق کے مطابق کہا جاسکتا ہے یہ حدیث شیعہ کتب میں صحیح سند نقل ہوئی ہے۔ یہ روایت مختلف طرق سے نقل ہوئی ہے اور اس کی متعدد اسناد بھی ہیں، لہذا اس حدیث کا شمار متواتر احادیث میں سے ہوتا ہے۔اس اعتبار سے اس کی سند معتبر ہے اور مزید تحقیق کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔

اس روایت کے بارے میں کچھ وضاحتی نکات:

اس روایت کے بارے میں تحقیق اور اس کے اسناد کی بحث میں داخل ہونے سے پہلے چند اہم نکات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے آگے چل کر حدیث کی وضاحت میں یہ نکات ہمارے کام آئیں گے۔

پہلا نكته:صدور حدیث کی مختلف مناسبات۔

اس حدیث کے مختلف طرق اور اسناد کی تحقیق سے یہ پتہ چلتا ہے کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے بارے میں رسول اللہ (ص) کا یہ کلام مختلف مناسبتوں میں بیان ہوا ہے۔

1.مجاہد کے نقل کے مطابق رسول اللہ (ص) نے ایک دن گویا آپ حضرت فاطمہ زہراء(س) کی شناخت کرانا ہی چاہتے تھے ، آپ گھر سے جناب فاطمہ (س) کا ہاتھ پکڑ کر باہر لوگوں کے درمیان تشریف لے آئیں اور فرمایا : جو فاطمہ(س) کو پہچانتا ہے وہ سو پہچانتا ہےجو انہیں نہیں پہچانتا ہے وہ جان لے کہ فاطمہ (س) میرے وجود کا حصہ اور وہ میرے پہلو میں میرا دل ہے۔

من عرف هذه فقد عرفها، ومن لم يعرفها هي فاطمة بنت محمد، وهي بضعة مني، وهي قلبي الذ ي بين جنبي…

  1. اس حدیث کو بیان کرنے کی ایک اور مناسبت یہ بھی ہے کہ ایک دن رسول اللہ (ص) نے اپنے اصحاب کے اجتماع میں یہ سوال کیا: عورت کس حالت میں اپنے اللہ سے زیادہ نذدیک ہوتی ہے؟ دوسرے نقل کے مطابق آپ نے فرمایا :عورت کے لئے کیا چیز سب سے زیادہ بہتر ہے؟ اور جب اصحاب جواب نہیں دے پائے تو جناب امیر المومنین (ص) گھر تشریف لائے اور اس سوال کو جناب فاطمہ زہراء (ص) کے سامنے بیان فرمایا، تو آپ نے حضرت علی(ع) کو جواب دیا: نہ وہ نامحرم مرد کو دیکھے اور نہ نامحرم مرد انہیں دیکھے۔

حضرت علی(ع) نے جب یہ جواب رسول اللہ (ص)کی خدمت میں پیش کیا تو اس وقت آپ نے یہ جملہ ارشاد فرمایا: فاطمہ(ع) میرے وجود کا حصہ ہے ۔

3.امیر المومنین (ع)کے دشمنوں نے یہ غلط افواہ پھلایا کہ انہوں نے ابوجہل کی بیٹی سے رشتہ مانگا ہے۔یہ خبر جناب فاطمہ (ع) تک پہنچی اور رسول اللہ (ص) بھی اس خبر سے آگاہ ہوئے ۔ آپ (ص) ممبر پر تشریف لے گئے اور جناب فاطمہ (ع) کے بارے میں یہ جملہ ارشاد فرمایا۔

اہل سنت کے علماء کے نطریے کے مطابق اس حدیث کا اصلی مخاطب حضرت علی (ع) ہیں کیونکہ آپ نے ہی اس حدیث کو بیان کرنے کا موقع فراہم کیا ۔

لیکن شیعہ کتابوں میں ہے کہ امام صادق عليه السلام نے ایک تفصیلی حدیث میں اس واقعے کو ایک جعلی واقعہ اور آپ کے دشمنوں کی طرف سے آپ پر ایک تہمت قرار دیا ہے۔

لیکن بہر صورت، اصل بات صحیح ہے کہ حضور پاک (ص) نے اس حدیث کو لوگوں کے اجتماع میں بیان فرمایا ہے اور حقیقت میں آپ اس حدیث کو اس طرح بیان کر کے لوگوں کو یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ اے لوگو! اس قسم کی جعلی داستانوں کے ذریعے فاطمہ(س) کی دل آزاری مت کرو۔

  1. ایک دن ایک نابینا مرد حضرت فاطمہ زہراء (س) کی اجازت سے آپ کے گھر آیا۔حضرت فاطمہ(س) نے پردہ کیا ۔اس پر رسول اللہ (ص) نے پوچھا : آپ نے پردہ کیوں کیا،جبکہ یہ نابینا ہے؟ تو زہرا(س) نے جواب میں فرمایا: وہ اگر مجھے نہیں دیکھتا ہے تو میں تو اسے دیکھتی ہوں۔یہاں پر رسول اللہ (ص) نےیہ حدیث بیان فرمایا ۔ أشهد أنك بضعة مني.میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ میرے وجود کا حصہ ہے۔
  2. ابن عباس سے منقول ہے کہ ایک دن حضرت امیر المومنین ،جناب فاطمہ زہرا اور حسنین علیہم السلام اصحاب کے درمیان تشریف لائے۔ان میں سے جو بھی داخل ہوتے رسول اللہ (ص) کی آنکھیں اشکبار ہوتیں۔ جب اصحاب نے اس کی وجہ پوچھی تو آپ نے ان میں سے ہر ایک پر آنے والی مصیبتوں کو بیان فرمایا اور حضرت فاطمہ (ع) کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا: وَأَمَّا ابْنَتِي فَاطِمَةُ فَإِنَّهَا سَيِّدَةُ نِسَاءِ الْعَالَمِينَ مِنَ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ وَهِيَ بَضْعَةٌ مِنِّي…

لیکن میری بیٹی فاطمہ(س) بے شک اولین سے آخرین تک تمام عالمین کی خواتین کی سردار ہیں۔

  1. ابن عباس کی ایک روایت کے مطابق رسول اللہ (ص) نے حجة الوداع سے واپسی پر مسجد میں اصحاب سے اپنے اہل بیت کے بارے میں نیکی کی سفارش کرتے ہوئے جناب فاطمہ (ع) کے بارے میں بیان فرمایا:

فَإِنَّ فَاطِمَةَ بَضْعَةٌ مِنِّي وَ وَلَدَيْهَا عَضُدَايَ وَ أَنَا وَ بَعْلُهَا كَالضَّوْءِ۔

  1. ایک اور روایت کے مطابق جناب ابو ذر غفاري فرماتے ہیں:جس بیماری کے بعد رسول اللہ (ص) کی وفات ہوئی اسی بیماری کے دوران رسول اللہ (ص) کے حکم سے میں جناب فاطمہ(ع) کو حضور کے پاس لے آیا۔رسول اللہ (ص) نے ان سے مخاطب ہوکر فرمایا: آپ اہل بیت میں سے پہلا نفر ہے جو سب سے پہلے مجھ سے ملاقات کرئے گی۔ آپ نے جناب زہرا(ع) پر آنے والی مصیبتوں کے بارے میں آگاہی دی اور میری طرف رخ کر کے فرمایا:يَا أَبَا ذَرٍّ إِنَّهَا بَضْعَةٌ مِنِّي فَمَنْ آذَاهَا فَقَدْ آذَانِي.

8.اہل سنت کی کتابوں میں اس حدیث کو بیان کرنے کی ایک اور وجہ بیان ہوئی ہے وہ یہ کہ ابولبابہ نے اپنے آپ کو مسجد کے دروازے کے ساتھ باندھا اور قسم کھائی کہ جب تک رسول اللہ (ص) تشریف لاکر اسے رہا نہ کھولیں ، وہ اسی حالت میں باقی رہے گا ۔جناب فاطمہ(ع) اس بندش کو کھولنے تشریف لائیں لیکن اس نے قبول نہیں کیا۔ رسول اللہ (ص) نے اس موقع پر فرمایا: انما فاطمة بضعة مني.

اس روایت کے الفاظ یہ ہیں:

قال ابن دحية في (مرج البحرين): سئل العالم الكبير أبو بكر بن داود بن علي رحمه الله تعالي: من أفضل خديجة أم فاطمة رضي الله عنهما؟ فقال: (ان فاطمة بضعة مني) ولا أعدل ببضعة رسول الله صلي الله عليه وسلم أحدا.

وقال السهيلي: وهذا استقراء حسن ويشهد بصحة هذا الاستقراء أن أبا لبابة حين ربط نفسه، وحلف أن لا يحله الا رسول الله صلي الله عليه وسلم فجاءت فاطمة لتحله فأبي لاجل قسمه، فقال رسول الله صلي الله عليه وسلم: (انما فاطمة بضعة مني).

ابن دحيه نے مرج البحرين میں نقل کیا ہے کہ جب بزرگ عالم دین ابو بكر بن داود بن علي سے یہ سوال ہوا کہ حضرت خديجه افضل ہیں یا جناب فاطمه؟ انہوں نے جواب میں کہا : رسول خدا (ص) نے فرمایا ہے: فاطمہ میرے وجود کا حصہ ہے۔کوئی بھی رسول اللہ (ص) کے وجود کے حصے کا ہم پلہ نہیں ہوسکتا۔

سهيلي لکھتے ہیں : یہ اچھا استقراء اور نتیجہ گیری ہے۔ اس نتیجہ گیری کی صحت پر ابولبابه کی داستان گواہ ہے کہ اس نے اپنے آپ کو مسجد کے دروازے سے باندھا اورقسم کھائی تھی کہ جب تک رسول اللہ (ص) خود تشریف لاکر نہ کھولیں میں اسی حالت میں رہوں گا۔اسے کھولنے جناب فاطمہ تشریف لائیں لیکن چونکہ اس نے قسم کھا رکھی تھی اس وجہ سے قبول نہیں کیا۔ اس پر رسول اللہ (ص) نے فرمایا:فاطمہ میرے وجود کا حصہ ہیں ۔

الصالحي الشامي، محمد بن يوسف (متوفاي942هـ)، سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد، ج10، ص328، تحقيق: عادل أحمد عبد الموجود وعلي محمد معوض، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت، الطبعة: الأولي، 1414هـ.

یہ حدیث اہل سنت کے دیگر درج ذیل منابع میں بھی نقل ہوئی ہے ۔

۱۔المقريزي، تقي الدين أحمد بن علي بن عبد القادر بن محمد (متوفاي845 هـ)،إمتاع الأسماع بما للنبي صلي الله عليه وسلم من الأحوال والأموال والحفدة والمتاع، ج10، ص274، تحقيق وتعليق محمد عبد الحميد النميسي، ناشر: منشورات محمد علي بيضون دار الكتب العلمية ـ بيروت، الطبعة الأولي، 1420 ه ـ 1999م .

۲۔الحلبي، علي بن برهان الدين (متوفاي1044هـ)، السيرة الحلبية في سيرة الأمين المأمون، ج2، ص674، ناشر: دار المعرفة – بيروت – 1400.

۳۔الدمشقي الباعوني الشافعي، شمس الدين أبي البركات محمد بن أحمد، (متوفاي871هـ)، جواهر المطالب في مناقب الإمام علي بن أبي طالب عليه السلام، ج1، ص152، تحقيق: الشيخ محمد باقر المحمودي، ناش : مجمع إحياء الثقافة الإسلامية – قم – ايران، چاپ: الأولي1415

دوسرا نكته: لفظ«بضعة» کے معنی:

«فاطمة بضعة مني» یہ ایک ایسا با معنی جملہ ہے جس میں میں ایک گہرا مطلب مضمر ہے یہ اس حقیقت کا واضح ثبوت دیتا ہے کہ رسول اللہ(ص) کی نگاہ میں حضرت زہرا (ع) کے لئے ایک خاص مقام تھا۔

فيومي نے «مصباح المنير»میں لفظ «بضعة» کا یوں معنی کیا ہے :

البَضعَةُ: القِطْعَةُ من اللحْمِ و الجمعُ (بَضْعٌ و بَضَعَاتٌ و بِضَعٌ و بِضَاعٌ) ..

«بضعة» یعنی گوشت کا ایک ٹکڑا ۔ یہ لفاظ مفرد ہے اس کا جمع (بَضْعٌ و بَضَعَاتٌ و بِضَعٌ و بِضَاعٌ) ہے۔

الفيومي، أحمد بن محمد بن علي المقري (متوفاي770هـ )، مصباح المنير في غريب الشرح الكبير للرافعي، ص: 51، محل نشر: بيروت، دار النشر: المكتبة العلمية، بي تا.

ایک اور لغت شناس ،ابن منظور نے لفظ «بضعه» کو پڑھنے کے مختلف طریقے یوں بیان کیا ہے:

: بضع: بَضَعَ اللحمَ يَبْضَعُه بَضْعاً و بَضَّعه تَبْضِيعاً: قطعه، والبَضْعةُ: القِطعة منه؛ تقول: أَعطيته بَضعة من اللحم إِذا أَعطيته قِطعة مجتمعة، هذه بالفتح،.. و في الحديث: فاطِمةُ بَضْعة منِّي ، من ذلك، وقد تكسر، أَي إِنها جُزء مني كما أَن القِطْعة من اللحم،

« بَضَعَ اللحمَ»؛ يعني گوشت کاٹا. «بَضْعةُ» کا معنی گوشت کا ایک ٹکڑا ہے اور جب یہ کہے کہ میں نے گوشت کا ایک ٹکڑا اس کو دیا،یہ کہنا اس صورت میں صحیح ہے کہ جب آپ نے گوشت کا ایک ٹکڑا اسے دیا ہو ۔ بضعۃ کا معنی ہے اس صورت میں ہے کہ جب باء کو زبر کے ساتھ پڑھا جائے اور رسول اللہ (ص) کی حدیث «فاطِمةُ بَضْعة منِّي» اسی معنی میں ہے۔

کبھی یہ لفظ باء کی کسرہ(بِضْعةُ) کے ساتھ بھی آتا ہے۔اس کا معنی یہ ہے کہ فاطمہ(س) میرا ایک جزء ہے۔جس طرح سے گوشت کا ایک ٹکڑا باقی گوشت کا جزء ہوتا ہے۔

الأفريقي المصري، جمال الدين محمد بن مكرم بن منظور (متوفاي711هـ)، لسان العرب، ج 8، ص 13، ناشر: دار صادر – بيروت، الطبعة: الأولي.

ابن اثير نے اس حدیث کا یوں معنی کیا ہے:ِ

وفي الحديث فاطمة بضعة مني البضعة بالفتح: القطعة من اللحم وقد تكسر أي أنها جزء مني كما أن القطعة من اللحم جزء من اللحم .

حدیث میں ہے «فاطمة بضعة مني» بضعه باء کے زبر کے ساتھ ہو تو اس کا معنی گوشت کا ایک ٹکڑا ہے۔کبھی یہ باء کے زیر کے ساتھ آتا ہے ۔اس کا معنی یہ ہے کہ فاطمہ میرے بدن کا ایک جزء ہے۔ جیساکہ گوشت کا ایک ٹکڑا اس گوشت کا ایک جزء ہے جس سے اس کو جدا کیا ہے۔

ابن أثير الجزري، ابوالسعادات المبارك بن محمد (متوفاي606هـ)، النهاية في غريب الحديث والأثر، ج1، ص133، تحقيق: طاهر أحمد الزاوي – محمود محمد الطناحي، ناشر: المكتبة العلمية – بيروت – 1399هـ – 1979م.

لہذا، لفظ «بضعة» باء کے زیر کے ساتھ ہو تو یہ بدن کا ایک حصہ اور ایک جزء کے معنی میں ہے۔ جب رسول اللہ(ص) فرماتے ہیں: «فاطمة بضعة مني»تو اس کا معنی یہ ہے کہ فاطمہ میرے وجودکا حصہ اور میرے بدن ایک جزء ہے۔

یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ (ص)حدیث کے دوسرے حصے میں فرماتے ہیں:

جس نے فاطمہ کو تکلیف دی اس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف پہنچائی اس نے اللہ کو تکلیف پہنچائی ۔

یا یوں فرمایا: جس نے ان کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا،جس نے مجھے ناراض کیا اس نے اللہ کو ناراض کیا یا دوسری تعبیر کے مطابق :فاطمہ کی رضا میری رضا ہے اور میری رضا اللہ کی رضا ہے۔

اس معنی میں غور کرنے سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ جن لوگوں نے رسول اللہ (ص) کی رحلت کے بعد حضرت فاطمہ (ع) سے ان کا حق چھین کر ، انہیں مار کر ، ان کے گھر کو آگ لگاکر اور ان کے بچے کو سقط کر کے انہیں تکلیف پہنچائی اور ان حرکات کی وجہ سے اللہ اور اللہ کے رسول (ص) کے غضب کا مستحق قرار پائے اور در حقیقت ان لوگوں نے اللہ اور اللہ کے رسول (ص) کو تکلیف پہنچائی ہے۔

تفصيلي جواب : روايات کے طرق اور اسناد۔

شیعوں کی کتابوں میں یہ حدیث مختلف اسناد کے ساتھ نقل ہوئی ہے جس کا سلسلہ اصحاب، ائمہ اطھار (ع) اور آخر میں رسول اللہ (ص) تک جا پہچنتا ہے۔

ہم اس تحقیق کے اس حصے میں مطلوبہ حدیث کے مختلف طرق اور اسناد کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

۱۔پہلی روایت: امام صادق (ع) سے معتبر سند کے ساتھ (فاطمة بضعة مني، فمن آذاها فقد آذاني )

یہ حدیث امام صادق عليه السلام سے معتبر سند کے ساتھ نقل ہوئی ہے۔امام صادق(ع) کی اس روایت کے مطابق ابوبکر اور عمر حضرت فاطمہ زہراء(ع ) کے پاس آئے اور اس موقع پر آپ نے اس حدیث کے صحیح ہونے کا ان سے اعتراف لیا اور حدیث سے استناد کر تے ہوئے ان کے سامنے احتجاج کیا۔

ابو جعفر محمد بن جرير طبري کہ جن کا تعلق شیعہ علماء میں ہوتا ہے،انہوں نے معتبر سند کے ساتھ اس حدیث کو نقل کیا ہے:

43 – حدثني أبو الحسين عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ هَارُونَ بْنِ مُوسَي التَّلَّعُكْبَرِيِّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ هَمَّامٍ عَنْ أَحْمَدَ الْبَرْقِيِّ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَي عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي نَجْرَانَ عَنِ ابْنِ سِنَانٍ عَنِ ابْنِ مُسْكَانَ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ قُبِضَتْ فَاطِمَةُ عليها السلام فِي جُمَادَي الْآخِرَةِ يَوْمَ الثَّلَاثَاءِ لِثَلَاثٍ خَلَوْنَ مِنْهُ سَنَةَ إِحْدَي عَشْرَةَ مِنَ الْهِجْرَةِ وَ كَانَ سَبَبُ وَفَاتِهَا أَنَّ قُنْفُذاً مَوْلَي عُمَرَ لَكَزَهَا بِنَعْلِ السَّيْفِ بِأَمْرِهِ فَأَسْقَطَتْ مُحَسِّناً وَ مَرِضَتْ مِنْ ذَلِكَ مَرَضاً شَدِيداً وَ لَمْ تَدَعْ أَحَداً مِمَّنْ آذَاهَا يَدْخُلُ عَلَيْهَا وَ كَانَ الرَّجُلَانِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله سَأَلَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ عليه السلام أَنْ يَشْفَعَ لَهُمَا إِلَيْهَا فَسَأَلَهَا أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ عليه السلام فَلَمَّا دَخَلَا عَلَيْهَا قَالا لَهَا كَيْفَ أَنْتِ يَا بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ قَالَتْ بِخَيْرٍ بِحَمْدِ اللَّهِ ثُمَّ قَالَتْ لَهُمَا مَا سَمِعْتُمَا النَّبِيَّ يَقُولُ فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّي فَمَنْ آذَاهَا فَقَدْ آذَانِي وَ مَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَي اللَّهَ قَالا: بَلَي. قَالَتْ: فَوَ اللَّهِ لَقَدْ آذَيْتُمَانِي قَالَ فَخَرَجَا مِنْ عِنْدِهَا عليه السلام وَ هِيَ سَاخِطَةٌ عَلَيْهِمَا.

امام صادق عليه السلام نے فرمایا: حضرت فاطمه عليها السّلام کی رحلت بدھ کے دن،سنہ ۱۱ ہجری اور ۳ جمادي الثاني کو ہوئی اور آپ کی وفات کی وجہ وہ چوٹ تھی کہ جو عمر کے غلام قنفذ کے ہاتھوں لگی تھی۔ اسی چوٹ کی وجہ سے محسن سقط ہوا۔ اسی وجہ سے آپ سخت بیمار ہوئیں۔

حضرت زہراء نے خودکو تکلیف پہنچانے والوں میں سے کسی کو اپنے پاس آنے کی اجازت نہیں دی۔

وہ دونوں(ابو بكر و عمر)،جو پیغمبر (ص)کے اصحاب میں سے تھے،حضرت علی (ع) کے پاس آئے اور آپ سے جناب فاطمہ (ع) کے پاس سفارش کرنے اور ان سے ملاقات کی اجازت لینے کی درخواست کی۔حضرت نے ان دونوں کے لئے ملاقات کی اجازت لی۔وہ دونوں حضرت فاطمہ (ع) کے پاس گئے اور کہا: اے رسول خدا (ص) کی بیٹی! آپ کی حالت کیسی ہے؟ حضرت فاطمہ(ع) نے جواب میں فرمایا:اللہ کا شکر ہے میں ٹھیک ہوں ۔پھر آپ نے ان سے کہا:کیا رسول اللہ (ص) سے یہ بات نہیں سنی کہ آپ نے فرمایا: فاطمہ میرے وجود کا حصہ ہے اور جس کسی نے ان کو تکلیف پہنچائی اس نے مجھے تکلیف پہنچائی اور جس نے مجھے تکلیف پہنچائی اس نے اللہ کو تکلیف پہنچائی؟ ان دونوں نے جواب میں کہا : ہاں ہم نے یہ بات رسول اللہ (ص) سے سنی ہے۔پھر آپ نے فرمایا: اللہ کی قسم تم دونوں نے مجھے تکلیف پہنچائی ہے۔ وہ دونوں آپ کے پاس سے اٹھ کر چلے گئے،جبکہ جناب فاطمہ (ع)ان سے ناراض تھیں۔

الطبري، ابي جعفر محمد بن جرير بن رستم (متوفاي قرن پنجم)، دلائل الامامة، ص135، تحقيق: قسم الدراسات الإسلامية – مؤسسة البعثة، ناشر: مركز الطباعة والنشر في مؤسسة البعثة، قم، چاپ: الأولي1413

اس حدیث کی سند کے بارے میں شیعہ علماء کی نظر:

شیعہ علماء کی نظر میں یہ ایک معتبر حدیث ہے،جیساکہ شیعہ بزرگ علماء میں سے بعض نے اس حدیث کو صحیح السند حدیث قراردیا ہے۔

مرحوم شيخ عباس قمي لکھتے ہیں:

وروي محمد بن جرير الطبري الإمامي بسند معتبر عن أبي بصير ، عن أبي عبد الله عليه السلام قال : قبضت فاطمة عليها السلام في جمادي الآخرة يوم الثلاثاء لثلث خلون منه سنة إحدي عشرة من الهجرة ، وكان سبب وفاتها أن قنفذ مولي عمر لكزها بنعل السيف أمره فأسقطت محسنا …

محمد بن جرير طبري امامی نے معتبر سند کے ساتھ اس حدیث کو ابو بصير سے اور نہوں نے امام صادق عليه السلام سے نقل کیا ہے …

القمي، الشيخ عباس(متوفاي1359هـ)، بيت الأحزان، ص189، ناشر: دار الحكمة – قم – إيران، چاپخانه: أمير، سال چاپ: 1412

نیز سيد هاشم هاشمي اس سند کے معتبر ہونے کے بارے میں لکھتے ہیں :

ويؤيده أيضا ما في البحار ج 43 ، باب 7 ، رقم 11 عن دلائل الإمامة للطبري بسند معتبر عن الصادق عليه السلام : (وكان سبب وفاتها ان قنفذا مولاه لكزها بنعل السيف بأمره فأسقطت محسنا).

طبري نے اپنی کتاب دلائل الامامة میں معتبر سند کے ساتھ امام صادق عليه السلام سے ایک روایت نقل ہے۔۔۔ جس سے بحار میں موجود واقعہ{جناب زہرا(ع) کی وفات کا سبب قنفذ کی لگائی ہوئی چوٹ تھی۔۔۔} کی تصدیق ہوتی ہے۔

حوار مع فضل الله حول الزهراء (س)، السيد هاشم الهاشمي، ص 310 ، طبق برنامه مكتبة اهل البيت.

سيد جعفر مرتضي عاملي اس روایت کو نقل کرنے کے بعد اس کی سند کے صحیح ہونے کے بارے میں لکھتے ہیں:

وسند الرواية صحيح . اس روایت کی سند صحیح ہے۔

العاملي، السيد جعفر مرتضي (معاصر)، مأساة الزهراء عليها السلام شبهات وردود، ج2، ص 66، ناشر: دار السيرة بيروت – لبنان، الطبعة: الثانية، 1418هـ ـ 1997م.

مرحوم آيت الله خوئي نے بھی اس روایت کی سند صحیح ہونے کا اقرار کیا ہے:

عن دلائل الإمامة للطبري بسند معتبر عن الصادق ( ع ) . . . وكان سبب وفاتها أن قنفذا مولي الرجل لكزها بنعل السيف بأمره فأسقطت محسنا.

صراط النجاة – الميرزا جواد التبريزي ، ج 3 ، ص441، طبق برنامه مكتبة اهل البيت

اس روایت کے اہم نکات:

اس معتبر اور صحیح السند حدیث میں چند اہم مطالب مضمر ہیں:

پہلا مطلب: اہل سقيفه کا حضرت زہراء (ع) کے گھر پر هجوم اور عمر کے غلام قنفذ کا حضرت زھراء کو ضربت لگانا۔

وَ كَانَ سَبَبُ وَفَاتِهَا أَنَّ قُنْفُذاً مَوْلَي عُمَرَ لَكَزَهَا بِنَعْلِ السَّيْفِ بِأَمْرِهِ

دوسرا مطلب: ضربت کے سلسلے میں قنفذ نے براہ راست عمر بن خطاب سے اجازت لی، ظاہر ہے جس نے یہ دستور دیا وہ بھی اس قتل میں شریک اور حضرت فاطمہ زہرا(ع) کا قاتل شمار ہوگا۔ وَ كَانَ سَبَبُ وَفَاتِهَا أَنَّ قُنْفُذاً مَوْلَي عُمَرَ لَكَزَهَا بِنَعْلِ السَّيْفِ بِأَمْرِهِ.

تیسرا مطلب: حضرت محسن کا اس ھجوم کی وجہ سے سقط ہونا:

فَأَسْقَطَتْ مُحَسِّناً

چوتھا مطلب: حضرت زہرا (ع) کی بیماری کا اس ہجوم کی وجہ سے شدت اختیار کرنا:

وَ مَرِضَتْ مِنْ ذَلِكَ مَرَضاً شَدِيداً.

پانچواں مطلب: حضرت زهرا (ص) کا ابو بكر اور عمر سے آخری عمر تک تکلیف اور دکھ پہنچانے کی وجہ سے ناراض رہنا:

فَخَرَجَا مِنْ عِنْدِهَا عليه السلام وَ هِيَ سَاخِطَةٌ عَلَيْهِمَا.

چھٹا مطلب ان دونوں کو معلوم تھا کہ جناب فاطمہ (ص) رسول اللہ (ص) کے جگر کا ٹکڑا ہے اور یہ بھی معلوم تھا کہ ان کو تکلیف پہنچانا رسول اللہ (ص) کو تکلیف پہنچانے کے مترادف ہے،لیکن اس کے باوجود حضرت فاطمہ(ص)کے حق کو غصب کیا، ان کے گھر ہر حملہ کیا اور انہیں مارا۔

وَ كَانَ الرَّجُلَانِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله سَأَلَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ عليه السلام أَنْ يَشْفَعَ لَهُمَا إِلَيْهَا … ثُمَّ قَالَتْ لَهُمَا مَا سَمِعْتُمَا النَّبِيَّ يَقُولُ فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّي فَمَنْ آذَاهَا فَقَدْ آذَانِي وَ مَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَي اللَّهَ قَالا: بَلَي. قَالَتْ: فَوَ اللَّهِ لَقَدْ آذَيْتُمَانِي …

دوسری روايت: امام علي (ع) رسول خدا صلي الله عليه وآله و سے نقل کرتے ہیں (إنها بضعة مني)

آنحضرت صلي الله عليه وآله و سلم نے اصحاب کے درمیان ایک مقابلہ کا انعقاد کیا اور ان سے یہ سوال کیا کہ عورتوں کے پردے کی حفاظت اور ان کو نامحروم سے بچنے کے لئے کیا کرنا زیادہ بہتر ہے؟

اصحاب اس سوال کا جواب نہیں دے سکے۔ امیر المومنین(ع) نے یہ سوال حضرت فاطمہ (ع)سے پوچھااور ان کے جواب کو رسول اللہ (ص) تک پہنچایا۔اس وقت پیامبر رحمت (ص) نے جناب فاطمہ کی تعریف کی اور انہیں «إنها بضعة مني» سے پکارا اور ان کے علمی مقام کو سب پر واضح فرمایا؛

قاضي نعمان مغربي نے اس حدیث کو اس طرح نقل کیا ہے:

( 793 ) وعن علي (ع) أنه قال : قال لنا رسول الله (صلي الله عليه وآله) : أي شئ خير للمرأة ؟ فلم يجبه أحد منا ، فذكرت ذلك لفاطمة (عليه السلام) فقالت : ما من شئ خير للمرأة من أن لا تري رجلا ولا يراها ، فذكرت ذلك لرسول الله (صلي الله عليه وآله) فقال : صدقت ، إنها بضعة مني .

علي عليه السلام نے فرمایا :رسول خدا صلي الله عليه وآله نے ہم سے سوال کیا : عورت کے لئے کیا چیز سب سے بہتر ہے؟کوئی صحابی اس کا جواب نہ دے سکے۔میں نے اس سوال کو جناب فاطمہ(ع) کے سامنے بیان کیا ۔آپ نے جواب میں فرمایا: عورت کے لئے کوئی چیز اس سے بہتر نہیں ہے کہ وہ کسی مرد کو نہ دیکھے اور کوئی مرد اسے نہ دیکھے ۔حضرت علی فرماتے ہیں : میں نے یہ جواب رسول اللہ (ص) تک پہنچایا۔آپ نے فرمایا:انہوں نے صحیح کہا۔ بے شک فاطمہ میرے وجود کا حصہ ہے۔

المغربي، القاضي النعمان (متوفاي 363هـ)، دعائم الإسلام، ج2، ص215، تحقيق : آصف بن علي أصغر فيضي، ناشر : دار المعارف – القاهرة، سال چاپ : 1383 – 1963 م

محمد بن سليمان كوفي نے اس حدیث کو مندرجہ ذیل سند کے ساتھ ،پہلی حدیث کی نسبت زیادہ تفصیل سے نقل کیا ہے۔

680 – [ حدثنا ] أبو أحمد قال : حدثنا غير واحد عن أبي غسان مالك بن إسماعيل منهم علي بن عبد الواحد العسكري قال : حدثنا قيس بن الربيع قال : حدثنا عبد الله بن عمران [ عن علي بن زيد ] بن جدعان عن سعيد بن المسيب : عن علي (ع) قال : قال رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم : أي شئ خير للمرأة ؟ فلم يجبه أحد قال : فرجعت فذكرت ذلك لفاطمة قالت : فما أجابه إنسان ؟ قلت: لا . قالت : ليس شئ خيرا للمرأة [من] أن لا يراها الرجل ولا تراه. قال : [فرجعت إلي النبي] فأخبرته بما قالت فاطمة [ف ] قال : فاطمة بضعة مني أو مضغة مني.

مناقب الامام أمير المؤمنين علي بن أبي طالب، الكوفي القاضي، محمد بن سليمان (متوفاي قرن سوم)، ج 2، ص 211، تحقيق: محمد باقر المحمودي محل نشر: قم، ناشر: مجمع احياء الثقافة الاسلامية، الطبعة الأولي 1412

مرحوم شيخ حر عاملي نے اس حدیث کو مرحوم طبرسي سے اس طرح نقل کیا ہے:

( 25510 ) 3 الحسن الطبرسي في (مكارم الأخلاق) عن النبي صلي الله عليه وآله ان فاطمة قالت له في حديث: خير للنساء أن لا يرين الرجال، ولا يراهن الرجال، فقال صلي الله عليه وآله فاطمة مني.

الحر العاملي، محمد بن الحسن (متوفاي1104هـ)، تفصيل وسائل الشيعة إلي تحصيل مسائل الشريعة، ج14، ص172، تحقيق و نشر: مؤسسة آل البيت عليهم السلام لإحياء التراث، الطبعة: الثانية، 1414هـ.

تیسری روایت : امام باقر عليه السلام سے منقول ہے (ان فاطمة بضعة)

رسول خدا صلي الله عليه وآله کے اصحاب سے سوال اور حضرت زهرا سلام الله عليها کی طرف سے جواب کا یہی واقعہ،امام باقر عليه السلام سے نقل ہوا ہے اور اس کو قطب راوندي نے اس طرح نقل کیا ہے۔

قال جعفر بن محمد ، عن أبيه (عليهما السلام) : إِنَّ فَاطِمَةَ بنت رسول الله (صلي الله عليه وآله) دَخَلَ عَلَيْهَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ عليه السلام وَ بِهِ كَآبَةٌ شَدِيدَةٌ فَقَالَتْ فَاطِمَةُ يَا عَلِيُّ مَا هَذِهِ الْكَآبَةُ فَقَالَ عَلِيٌّ عليه السلام سَأَلَنَا رَسُولُ اللَّهِ صلي الله عليه وآله عَنِ الْمَرْأَةِ مَا هِيَ قُلْنَا عَوْرَةٌ فَقَالَ فَمَتَي تَكُونُ أَدْنَي مِنْ رَبِّهَا فَلَمْ نَدْرِ فَقَالَتْ فَاطِمَةُ لِعَلِيٍّ عليه السلام ارْجِعْ إِلَيْهِ فَأَعْلِمْهُ أَنَّ أَدْنَي مَا تَكُونُ مِنْ رَبِّهَا أَنْ تَلْزَمَ قَعْرَ بَيْتِهَا فَانْطَلَقَ فَأَخْبَرَ رَسُولَ اللَّهِ بِمَا قَالَتْ فَاطِمَةُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ إِنَّ فَاطِمَةَ بَضْعَةٌ مِنّي.

ایک دن علي عليه السّلام سخت پریشانی کے عالم میں حضرت فاطمہ(ع) کے پاس گھر تشریف لائے، حضرت فاطمه (ع) نے سوال کیا : یا علي (ع)! اس غم اور پریشانی کی وجہ کیا ہے؟

حضرت علي (ع) نے فرمایا: رسول خدا صلّي اللَّه عليه و آله و سلّم نے ہم سے یہ پوچھا کہ عورت کیا چیز ہے؟ ہم نے کہا : عورت ایک ایسا عنصر ہے کہ جسے دوسروں کی نگاہوں کے سامنے ظاہر نہیں ہونا چاہئے۔رسول اللہ (ص) نے پوچھا: عورت کس حالت میں اللہ کے زیادہ قریب ہوسکتی ہے؟ حضرت علی(ع) فرماتے ہیں: ہم اس کا جواب نہیں دے سکے۔ جناب فاطمہ(ع) نے فرمایا:یا علی !رسول اللہ(ص) کے پاس جاکر ان سے کہیں : عورت اس وقت اللہ سے زیادہ قریب ہوجاتی ہے کہ جب وہ گھر میں ہی رہے۔رسول خدا صلّي اللَّه عليه و آله و سلّم نے جب یہ جواب سنا تو فرمایا:یقینا فاطمہ میرے وجود کا حصہ ہے۔

الراوندي، فضل الله (متوفاي571هـ)، النوادر، ص119، تحقيق: سعيد رضا علي عسكري، ناشر: مؤسسة دار الحديث الثقافية – قم، چاپخانه: دار الحديث، طبق مكتبة اهل البيت

چوتھی روايت: خود حضرت زهرا (س) سے (فاطمة بضعة مني۔ فمن آذاها فقد آذاني)

رسول خدا صلي الله عليه وآله کی وفات کے بعد بہت جلد اس زمانے کے ناحق حکمرانوں نے رسول اللہ(ص) کی طرف سےاہل بیت کے بارے میں کی ہوئی وصیت کو فراموش کیا اور آپ کی بیٹی کے گھر ہجوم لے گئے۔ گھر کے اس دروازے کو جلایا جس سے جبرائیل اجازت کے بغیر داخل نہیں ہوتے تھے اور ان سب سے سخت بات یہ ہے کہ ان لوگوں نے صديقه طاهره سلام الله عليها کے پہلو بھی زخمی کیا۔

اسی ھجوم کے نتیجے میں آپ بیمار پڑ گئیں اور جب ابوبکر اور عمر نے یہ دیکھا کہ آپ ان سے ناراض ہیں۔ تو انہوں نےحضرت فاطمہ(ع) سے ملاقات کی اجازت لینے کیلئے امام علی(ع) کو واسطہ بننے کی درخواست کی۔

لیکن کیونکہ حضرت زهرا(ع) اپنے زمانے کے امام حضرت امیر المومنین(ع) کی مطيع تھیں،لہذا ان دونوں کو ملاقات کی اجازت دے دی ۔اسی روایت کے مطابق جناب سیدہ(ع) نے اسی حدیث سے احتجاج فرمایا اور ان دونوں نے بھی اس بات کا اعتراف کیا کہ انہوں نے رسول اللہ (ص) سے یہ حدیث سنی ہے ۔ اس ملاقات کے واقعے کو سليم بن قيس هلالي { جو امیر المومنین(ع)کے وفادار اصحاب میں سے ہے} نے یوں نقل کیا ہے:

قالت : نشدتكما بالله هل سمعتما رسول الله صلي الله عليه وآله يقول: (فاطمة بضعة مني، فمن آذاها فقد آذاني)؟ قالا: نعم. فرفعت يدها إلي السماء فقالت: (اللهم إنهما قد آذياني، فأنا أشكوهما إليك وإلي رسولك. لا والله لا أرضي عنكما أبدا حتي ألقي أبي رسول الله وأخبره بما صنعتما، فيكون هو الحاكم فيكما).

فاطمه زهرا سلام الله عليها نے فرمایا: تم دونوں کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتی ہوں: کیا یہ بات رسول اللہ (ص) سے سنی ہے کہ آپ نے فرمایا:فاطمہ میرے وجود کا حصہ ہے جس نے انہیں تکلیف پہنچائی اس نے مجھے تکلیف پہنچائی؟ان دونوں نے جواب دیا: جی ہم نے یہ سنی ہے۔

اس وقت جناب فاطمہ (ع) نے ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کر کے فرمایا:اے اللہ!ان دونوں نے مجھے ستایا اور مجھے تکلیف پہچائی۔ میں ان دونوں کے بارے میں تیرے اور تیرے رسول کے حضور شکایت کرتی۔ پھر ان دونوں سے خطاب کر کے فرمایا: اللہ کی قسم میں تم دونوں سے کبھی بھی راضی نہیں ہوں گی،یہاں تک کہ میں اپنے بابا سے ملاقات کروں اور جو کچھ تم دونوں نے میرے ساتھ ظلم کیا ہے وہ انہیں بتادوں گی۔پھر آنحضرت تم دونوں کے بارے میں فیصلہ کریں گے۔

الهلالي، سليم بن قيس (متوفاي80هـ)، كتاب سليم بن قيس الهلالي، ص 392، ناشر: انتشارات هادي ـ قم ، الطبعة الأولي، 1405هـ

پانچویں روايت: امام صادق (ع) سے إِنَّ فَاطِمَةَ بَضْعَةٌ مِنِّي فَمَنْ آذَاهَا فَقَدْ آذَانِي وَمَنْ سَرَّهَا فَقَدْ سَرَّنِي۔

اس روايت میں امام صادق(ع)،اس داستان کے جعلی ہونے کو بیان کرتے ہیں کہ جس میں امیر المومنین (ع) کی طرف ابوجہل کی بیٹی سے رشتہ مانگنے کی نسبت دی گئی ہے اور اس داستان کا ذکر صحیح بخاری میں موجود ہے۔

اس جھوٹی داستان کے مطابق جب امیرالمومنین(ع) نے ابوجہل کی بیٹی کا رشتہ مانگا اور یہ خبر جناب فاطمہ زہرا(س) نے سنی تو آپ اداس ہوئیں اور رسول اللہ (ص) کے پاس ان کی شکایت کی ۔پیغمبر اکرم (ص) منبر پر تشریف لے گئے اور جناب امیر (ع)کے اس اقدام کی مذمت میں یہ ارشاد فرمایا: فاطمہ میرے وجود کا حصہ ہے جس نے انہیں تکلیف پہنچائی اس نے مجھے تکلیف پہنچائی۔

راوي نے امام صادق (ع)سے پوچھا : کہ کیا یہ واقعہ صحیح ہے؟

امام صادق (ع)نے فرمایا: لوگوں کے منہ بند تو نہیں کرسکتے۔کیا تمہیں معلوم نہیں کہ لوگوں نے رسول اللہ(ص) کی طرف کیا کیا نامناسب نسبتیں دیں۔کیا امیر المومنین(ع) کی طرف یہ نسبت نہیں دی کہ آپ نے ابوجہل سے اس کی بیٹی کا رشتہ مانگا اور رسول اللہ(ص) نے آپ کی مذمت میں یہ روایت بیان فرمائی؟

اس روايت کا متن شيخ صدوق رحمة الله علیہ کے نقل کے مطابق یہ ہے:

أَبِي عَنِ ابْنِ قُتَيْبَةَ عَنْ حَمْدَانَ بْنِ سُلَيْمَانَ عَنْ نُوحِ بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ عَنْ صَالِحٍ عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ: قَالَ الصَّادِقُ جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ عليهما السلام:…

قَالَ عَلْقَمَةُ فَقُلْتُ لِلصَّادِقِ عليه السلام يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ! إِنَّ النَّاسَ يَنْسُبُونَنَا إِلَي عَظَائِمِ الْأُمُورِ وَقَدْ ضَاقَتْ بِذَلِكَ صُدُورُنَا فَقَالَ عليه السلام: يَا عَلْقَمَةُ إِنَّ رِضَا النَّاسِ لَا يُمْلَكُ وَأَلْسِنَتَهُمْ لَا تُضْبَطُ وَكَيْفَ تَسْلَمُونَ مِمَّا لَمْ يَسْلَمْ مِنْهُ أَنْبِيَاءُ اللَّهِ وَرُسُلُهُ وَحُجَجُ اللَّهِ عليهم السلام أَ لَمْ يَنْسُبُوا يُوسُفَ عليه السلام إِلَي أَنَّهُ هَمَّ بِالزِّنَا أَ لَمْ يَنْسُبُوا أَيُّوبَ عليه السلام إِلَي أَنَّهُ ابْتُلِيَ بِذُنُوبِهِ أَ لَمْ يَنْسُبُوا دَاوُدَ عليه السلام إِلَي أَنَّهُ تَبِعَ الطَّيْرَ حَتَّي نَظَرَ إِلَي امْرَأَةِ أُورِيَا فَهَوَاهَا وَأَنَّهُ قَدَّمَ زَوْجَهَا أَمَامَ التَّابُوتِ حَتَّي قُتِلَ ثُمَّ تَزَوَّجَ بِهَا….

وَمَا قَالُوا فِي الْأَوْصِيَاءِ أَكْثَرُ مِنْ ذَلِكَ أَ لَمْ يَنْسُبُوا سَيِّدَ الْأَوْصِيَاءِ عليهم السلام إِلَي أَنَّهُ كَانَ يَطْلُبُ الدُّنْيَا وَالْمُلْكَ وَأَنَّهُ كَانَ يُؤْثِرُ الْفِتْنَةَ عَلَي السُّكُونِ وَأَنَّهُ يَسْفِكُ دِمَاءَ الْمُسْلِمِينَ بِغَيْرِ حِلِّهَا وَأَنَّهُ لَوْ كَانَ فِيهِ خَيْرٌ مَا أُمِرَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ بِضَرْبِ عُنُقِه أَ لَمْ يَنْسُبُوهُ إِلَي أَنَّهُ عليه السلام أَرَادَ أَنْ يَتَزَوَّجَ ابْنَةَ أَبِي جَهْلٍ عَلَي فَاطِمَةَ عليها السلام وَأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلي الله عليه وآله شَكَاهُ عَلَي الْمِنْبَرِ إِلَي الْمُسْلِمِينَ فَقَالَ إِنَّ عَلِيّاً يُرِيدُ أَنْ يَتَزَوَّجَ ابْنَةَ عَدُوِّ اللَّهِ عَلَي ابْنَةِ نَبِيِّ اللَّهِ أَلَا إِنَّ فَاطِمَةَ بَضْعَةٌ مِنِّي فَمَنْ آذَاهَا فَقَدْ آذَانِي وَمَنْ سَرَّهَا فَقَدْ سَرَّنِي وَمَنْ غَاظَهَا فَقَدْ غَاظَنِي . …

علقمه کہتا ہے: میں نے امام صادق (ع) سے عرض کیا : فرزند رسول ! لوگ ہماری طرف برے کاموں کی نسبت دیتے ہیں۔ ان کی وجہ سے ہمارے سینے تنگ یوچکے ہیں اور ہمیں بہت دکھ ہوتا ہے۔ امام نے فرمایا: علقمہ! لوگوں کی رضایت تو حاصل کرنا ممکن نہیں اور ان کی زبانوں کو لگام تو نہیں دے سکتے۔تم لوگ کیسے ایسی چیزوں سے بچ سکتے ہیں جس سے انبیاءاور اوصیاء نہ بچ سکے ۔ کیا جناب یوسف(ع) کی طرف یہ نسبت نہیں دی گئی کہ (معاذاللہ )آپ نے زنا کا ارادہ کیا تھا؟ کیا جناب ایوب(ع) کے بارے میں یہ نہیں کہا گیا کہ آپ اپنے گناہوں کی وجہ سے مصیبتوں میں گرفتار ہوئے؟ کیا حضرت داود پیغمبر (ع) کے بارے میں یہ نہیں کہا گیا کہ آپ نے ایک پرندے کا پیچھا کیا اور آپ کی نظر اوریا کی بیوی پر پڑی، آپ ان پر فریفتہ ہوگئے اور اس عورت کو حاصل کرنے کے لئے اس کے شوہر کو جنگ میں تابوت کے آگے بھیجا اور جب وہ مارا گیا تو اس کی بیوی سے شادی کرلی؟

کیا لوگوں نے حضرت رسول اللہ(ع) کے بارے میں یہ نہیں کہا کہ آپ اپنے چچا کے بیٹےعلی(ع) پر خاص نظر رکھتے ہیں اور خواہشات نفسانی کی پیروی میں بات کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ اللہ نے ان لوگوں کے جھوٹ سے پردہ اٹھایا اور اس آیت کو نازل فرمایا: وَ ما يَنْطِقُ عَنِ الْهَوي إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْي يُوحي ؟…

اوصیاء کے بارے میں تو اس سے بھی زیادہ ناروا نسبتیں دی گئیں۔کیا سید الاوصیاء علی ابن ابی طالب(ع) کے بارے میں یہ نہیں کہا گیا کہ آپ دنیوی خلافت اور حکومت کے پہچھے ہیں ۔ آپ ہمیشہ فتنہ اور انتشار پھلانے کے چکر میں رہتے ہیں ، آپس میں آرام و سکون سے رہنے کو پسند نہیں کرتے اور آپ مسلمانوں کے خون کو عذر شرعی کے بغِیر گراتے تھے، اگر آپ کوئی اچھا آدمی ہوتا تو خالد بن ولید کو آپ کے قتل کا حکم نہیں دیا جاتا۔کیا ان پر یہ الزام نہیں لگایا کہ آپ جناب فاطمہ(س) کی موجودگی میں ابوجہل کی بیٹی سے شادی کرنا چاہتے تھے اور پیغمبر اکرم (ص) نے منبر سے لوگوں کے سامنے آپ کی شکایت کی اور فرمایا: لوگو! علی نے یہ ارادہ کیا ہے کہ وہ خدا کے دشمن کی بیٹی کو رسول اللہ(ص)کی بیٹی کے ساتھ جمع کرنا چاہتا ہے لوگو! خبردار رہنا ؛ فاطمہ میرے وجود کا حصہ ہے جس نے انہیں تکلیف پہنچائی اسے نے مجھے تکلیف پہنچائی ہےاور جس نے ان کو خوشنود کیا اس نے مجھے خوشنود کیا اور جس نے انہیں ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا ۔

الصدوق، أبو جعفر محمد بن علي بن الحسين (متوفاي381هـ)، الأمالي، ص 165، تحقيق و نشر: قسم الدراسات الاسلامية – مؤسسة البعثة – قم، الطبعة: الأولي، 1417هـ.

قابل غور نکتہ :

اس روایت کے مطابق جناب امیر(ع) کی طرف سے ابوجہل کی بیٹی سے رشتہ مانگنے کا واقعہ،آپ کے دشمنوں کی طرف سے بنائی ہوئی ایک جھوٹی داستان تھی۔لیکن رسول اللہ(ص) نے اس حدیث کو بیان کرنے کے ذریعے ان الزام تراشی کرنے والوں کو یہ انتباہ کیا کہ جھوٹی باتوں کے ذریعے میری بیٹی کی دل آزاری نہ کرئے۔

چھٹی روایت : امام صادق (ع): (أشهد أنك بضعة مني)

اس حدیث کے سبب صدور میں ایک اور واقعہ ذکر ہوا ہے جس کے مطابق رسول اللہ (ص) نے جناب فاطمہ(ع) کے مقام و منزلت کو بیان کرنے کا موقع فراہم کیا اور یہ واقعہ اس طرح ہے: ایک دن ایک نابینا شخص جناب فاطمہ (ع) کی اجازت سے آپ کے گھر آیا تو آپ نے چادر پہن کر اس کا استقبال کیا ۔رسول اللہ (ص) نے جب یہ منظرہ دیکھا تو آپ نے پوچھا : کیوں آپ نے سرپر چادر رکھی جبکہ یہ شخص نابینا ہے اور آپ کو دیکھنے سے قاصر ہے ؟جناب فاطمہ(ع) نے جواب میں فرمایا:اگر وہ نابینا ہے تو میں تو اسے دیکھتی ہوں اور وہ میری بو سونگھ سکتا ہے.یہی موقع تھا کہ رسول اللہ (ص) نے اپنی بیٹی کی تعریف میں وہ مشہور جملہ ارشاد فرمایا:

قاضي نعمان مغربي نے اس روایت کو درج ذیل الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے:

( 792 ) وعن جعفر بن محمد (ع) أنه قال: استأذن أعمي علي فاطمة (ع) فحجبته. فقال لها النبي (ع): لم تحجبينه وهو لا يراك ؟ قالت: يا رسول الله: إن لم يكن يراني فإني أراه وهو يشم الريح . فقال رسول الله : أشهد أنك بضعة مني.

امام صادق(ع) نے فرمایا: ایک نابینا شخص جناب فاطمہ (ع) سے ملاقات کی غرض سے حضرت کے گھر گیا اوران سے گھر میں داخل ہونے کی اجازت مانگی ۔ آپ نے چادر پہن کر اس کا استقبال کیا ۔رسول اللہ (ص) نے جب یہ منظر دیکھا تو آپ نے پوچھا : کیوں آپ نے سرپر چادر رکھی جبکہ یہ شخص نابینا ہے اور یہ شخص آپ کو نہیں دیکھ سکتا ہے ؟جناب فاطمہ(ع) نے جواب میں فرمایا:اگر وہ نابینا ہے تو میں تو اسے دیکھتی ہوں اور وہ میری بو سونگھ سکتا ہے.رسول اللہ(ع) نے فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ میرے وجود کا حصہ ہے۔

المغربي، القاضي النعمان (متوفاي 363هـ)، دعائم الإسلام، ج2 ، ص 215، تحقيق : آصف بن علي أصغر فيضي، ناشر : دار المعارف – القاهرة، سال چاپ : 1383 – 1963 م

ابن حاتم عاملي نے اس روایت کو ذیل کی سند کے ساتھ امام امام صادق(ع) سے نقل کیا ہے:وحدث موسي بن إسماعيل، قال : حدثني أبي، عن أبيه، عن جده جعفر بن محمد، عن أبيه، عن جده علي بن الحسين (عليه السلام): إن فاطمة بنت رسول الله (صلي الله عليه وآله) استأذن عليها أعمي فحجبته ، فقال النبي (صلي الله عليه وآله): يا فاطمة لم حجبتيه وهو لا يراك؟ فقالت: يا رسول الله إن لم يكن يراني فأنا أراه وهو يشم الريح. فقال لها النبي (صلي الله عليه وآله) : أشهد أنك بضعة مني.

العاملي، الشيخ جمال الدين يوسف بن حاتم بن فوز (متوفاي664هـ)، الدر النظيم، ص 457، ناشر: مؤسسة النشر الاسلامي التابعة لجماعة المدرسين، قم المشرفة. بي تا.

یہی روایت اهل سنت کی کتابوں میں بھی نقل ہوئی ہے۔ مثلا مناقب ابن مغازلي شافعي میں یہ روایت نقل ہوئی ہے:

مناقب الإمام علي بن أبي طالب عليه السلام، ص: 304

ساتویں روایت : ابن عباس سے منقول ہے: (وهي بضعة مني، وهو نور عيني، وهي ثمرة فؤادي)

ابن عباس کی روایت کئی اسناد کے ساتھ نقل ہوئی ہے:

پہلی سند :

اس سند کے مطابق ابن عباس کہتے ہیں : جناب امیر المومنین ،جناب فاطمه زهرا اور امام حسن و حسین عليهم السلام پیغمبر کی خدمت میں آئے۔ آپ نے پہلے ان سب کے بارے میں گفتگو کی اور پھر ہر ایک کے بارے میں کچھ فرمایا اور جناب فاطمہ زہرا(ع) کے بارے میں یوں فرمایا: وَهِيَ بَضْعَةٌ مِنِّي وَهِيَ نُورُ عَيْنِي وَهِيَ ثَمَرَةُ فُؤَادِي وَهِيَ رُوحِيَ الَّتِي بَيْنَ جَنْبَيَّ.

اس روایت کے الفاظ یہ ہیں :

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مُوسَي الدَّقَّاقُ رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْكُوفِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا مُوسَي بْنُ عِمْرَانَ النَّخَعِيُّ عَنْ عَمِّهِ الْحُسَيْنِ بْنِ يَزِيدَ النَّوْفَلِيِّ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلي الله عليه وآله كَانَ جَالِساً ذَاتَ يَوْمٍ إِذْ أَقْبَلَ الْحَسَنُ عليه السلام فَلَمَّا رَآهُ بَكَي ثُمَّ قَالَ إِلَيَّ إِلَيَّ يَا بُنَيَّ فَمَا زَالَ يُدْنِيهِ حَتَّي أَجْلَسَهُ عَلَي فَخِذِهِ الْيُمْنَي ثُمَّ أَقْبَلَ الْحُسَيْنُ عليه السلام فَلَمَّا رَآهُ بَكَي ثُمَّ قَالَ إِلَيَّ إِلَيَّ يَا بُنَيَّ فَمَا زَالَ يُدْنِيهِ حَتَّي أَجْلَسَهُ عَلَي فَخِذِهِ الْيُسْرَي ثُمَّ أَقْبَلَتْ فَاطِمَةُ عليها السلام فَلَمَّا رَآهَا بَكَي ثُمَّ قَالَ إِلَيَّ إِلَيَّ يَا بُنَيَّةِ فَأَجْلَسَهَا بَيْنَ يَدَيْهِ ثُمَّ أَقْبَلَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ عليه السلام فَلَمَّا رَآهُ بَكَي ثُمَّ قَالَ إِلَيَّ إِلَيَّ يَا أَخِي فَمَا زَالَ يُدْنِيهِ حَتَّي أَجْلَسَهُ إِلَي جَنْبِهِ الْأَيْمَنِ فَقَالَ لَهُ أَصْحَابُهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا تَرَي وَاحِداً مِنْ هَؤُلَاءِ إِلَّا بَكَيْتَ أَ وَ مَا فِيهِمْ مَنْ تُسَرُّ بِرُؤْيَتِهِ فَقَالَ صلي الله عليه وآله وَ الَّذِي بَعَثَنِي بِالنُّبُوَّةِ وَ اصْطَفَانِي عَلَي جَمِيعِ الْبَرِيَّةِ إِنِّي وَ إِيَّاهُمْ لَأَكْرَمُ الْخَلْقِ عَلَي اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ مَا عَلَي وَجْهِ الْأَرْضِ نَسَمَةٌ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْهُمْ أَمَّا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ عليه السلام فَإِنَّهُ أَخِي وَ شَقِيقِي وَ صَاحِبُ الْأَمْرِ بَعْدِي وَ صَاحِبُ لِوَائِي فِي الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ …

وَ أَمَّا ابْنَتِي فَاطِمَةُ فَإِنَّهَا سَيِّدَةُ نِسَاءِ الْعَالَمِينَ مِنَ الْأَوَّلِينَ وَ الْآخِرِينَ وَ هِيَ بَضْعَةٌ مِنِّي وَ هِيَ نُورُ عَيْنِي وَ هِيَ ثَمَرَةُ فُؤَادِي وَ هِيَ رُوحِيَ الَّتِي بَيْنَ جَنْبَيَّ وَ هِيَ الْحَوْرَاءُ الْإِنْسِيَّةُ مَتَي قَامَتْ فِي مِحْرَابِهَا بَيْنَ يَدَيْ رَبِّهَا جَلَّ جَلَالُهُ ظَهَرَ نُورُهَا لِمَلَائِكَةِ السَّمَاءِ كَمَا يَظْهَرُ نُورُ الْكَوَاكِبِ لِأَهْلِ الْأَرْضِ وَ يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ لِمَلَائِكَتِهِ يَا مَلَائِكَتِي انْظُرُوا إِلَي أَمَتِي فَاطِمَةَ سَيِّدَةِ إِمَائِي قَائِمَةً بَيْنَ يَدَيَّ تَرْتَعِدُ فَرَائِصُهَا مِنْ خِيفَتِي وَ قَدْ أَقْبَلَتْ بِقَلْبِهَا عَلَي عِبَادَتِي أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ آمَنْتُ شِيعَتَهَا مِنَ النَّارِ وَ أَنِّي لَمَّا رَأَيْتُهَا ذَكَرْتُ مَا يُصْنَعُ بِهَا بَعْدِي كَأَنِّي بِهَا وَ قَدْ دَخَلَ الذُّلُّ بَيْتَهَا وَ انْتُهِكَتْ حُرْمَتُهَا وَ غُصِبَتْ حَقَّهَا وَ مُنِعَتْ إِرْثَهَا وَ كُسِرَ جَنْبُهَا [وَ كُسِرَتْ جَنْبَتُهَا] وَ أَسْقَطَتْ جَنِينَهَا وَ هِيَ تُنَادِي يَا مُحَمَّدَاهْ فَلَا تُجَابُ وَ تَسْتَغِيثُ فَلَا تُغَاثُ فَلَا تَزَالُ بَعْدِي مَحْزُونَةً مَكْرُوبَةً بَاكِيَةً تَتَذَكَّرُ انْقِطَاعَ الْوَحْيِ عَنْ بَيْتِهَا مَرَّةً وَ تَتَذَكَّرُ فِرَاقِي أُخْرَي وَ تَسْتَوْحِشُ إِذَا جَنَّهَا اللَّيْلُ لِفَقْدِ صَوْتِيَ الَّذِي كَانَتْ تَسْتَمِعُ إِلَيْهِ إِذَا تَهَجَّدْتُ بِالْقُرْآنِ ثُمَّ تَرَي نَفْسَهَا ذَلِيلَةً بَعْدَ أَنْ كَانَتْ فِي أَيَّامِ أَبِيهَا عَزِيزَةً فَعِنْدَ ذَلِكَ يُؤْنِسُهَا اللَّهُ تَعَالَي ذِكْرُهُ بِالْمَلَائِكَةِ فَنَادَتْهَا بِمَا نَادَتْ بِهِ مَرْيَمَ بِنْتَ عِمْرَانَ فَتَقُولُ يَا فَاطِمَةُ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفاكِ وَ طَهَّرَكِ وَ اصْطَفاكِ عَلي نِساءِ الْعالَمِينَ يَا فَاطِمَةُ اقْنُتِي لِرَبِّكِ وَ اسْجُدِي وَ ارْكَعِي مَعَ الرَّاكِعِينَ.

ثُمَّ يَبْتَدِئُ بِهَا الْوَجَعُ فَتَمْرَضُ فَيَبْعَثُ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ إِلَيْهَا مَرْيَمَ بِنْتَ عِمْرَانَ تُمَرِّضُهَا وَ تُؤْنِسُهَا فِي عِلَّتِهَا فَتَقُولُ عِنْدَ ذَلِكَ يَا رَبِّ إِنِّي قَدْ سَئِمْتُ الْحَيَاةَ وَ تَبَرَّمْتُ بِأَهْلِ الدُّنْيَا فَأَلْحِقْنِي بِأَبِي فَيَلْحَقُهَا اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ بِي فَتَكُونُ أَوَّلَ مَنْ يَلْحَقُنِي مِنْ أَهْلِ بَيْتِي فَتَقْدَمُ عَلَيَّ مَحْزُونَةً مَكْرُوبَةً مَغْمُومَةً مَغْصُوبَةً مَقْتُولَةً فَأَقُولُ عِنْدَ ذَلِكَ اللَّهُمَّ الْعَنْ مَنْ ظَلَمَهَا وَ عَاقِبْ مَنْ غَصَبَهَا وَ ذَلِّلْ مَنْ أَذَلَّهَا وَ خَلِّدْ فِي نَارِكَ مَنْ ضَرَبَ جَنْبَهَا حَتَّي أَلْقَتْ وَلَدَهَا فَتَقُولُ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ ذَلِكَ آمِينَ …

ابن عباس کہتا ہے : ایک دن رسول اللہ(ص) بیٹھے ہوئے تھے اتنے میں جناب حسن(ع) تشریف لائے۔ آپ نے انہیں دیکھا تو رونا شروع کیا اور فرمایا: میرے پاس آئے، میرے پاس آئے اے میرے بیٹے! ان کو اپنے قریب بلا کر اپنے دائیں زانو پر بٹھایا۔ پھر جناب حسین(ع) تشریف لے آئے ۔ آپ نے انہیں دیکھ کر گریہ کیا ، ان سے بھی فرمایا: میرے پاس آئے میرے پاس آئے اے میرے بیٹے! ان کو اپنے قریب بلا کر اپنے بائیں زانو پر بٹھایا۔پھر جناب فاطمہ(ع) تشریف لائیں۔انہیں بھی اپنے پاس بلا کر سامنے بٹھایا۔ پھر جناب امیر المومنین (ع) تشریف لائے انہیں دیکھا تو رویا ۔ ان کو بھی اپنےقریب بلایا اور اپنے دائیں پہلو کے پاس بٹھایا۔

اصحاب نے سوال کیا :یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان سب کو دیکھ کر آپ روئے۔ ان میں سے کوئی ایسا نہیں جسے دیکھ کر آپ ہنسے؟ فرمایا : اس ذات کی قسم جس نے مجھے مبعوث کیا اور مجھے ہی چن لیا ۔میں اور یہ ساری ہستیاں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محترم افراد میں سے ہیں۔اور اس زمین پر ان سے زیادہ میرے نزدیک زیادہ محبوب کوئی نہیں۔

لیکن علی بن ابی طالب علیہ السلام جو میرا بھائی اور میرا ساتھی ہے اور میرے بعد اس مقام کے مالک ہیں اور دنیا اور آخرت میں میرا پرچم دار ہیں۔۔۔۔۔۔۔

میری بیٹی فاطمہ (س) اول سے آخر تک کی تمام عالمین کی عورتوں کی سردار ہیں۔میرے وجود کا حصہ اور میری نور چشم ہیں،میرے دل کا چین اور میرے جسم میں میری روح ہیں، فاطمہؑ انسانی شکل میں ایک حور ہیں۔ آپ جب بھی محراب عبادت میں پروردگار کی بارگاہ میں کھڑی ہوتی ہیں تو آپ کے نور سے آسمان کے فرشتے اس طرح منور ہوجاتے ہیں جس طرح آسمان کے تارے اہل زمین کو منورکرتے ہیں۔

اللہ فرشتوں سے یوں کہتا ہے : میرےفرشتو!میری کنیز فاطمہ کو دیکھو؛جو میرے حضور میں کھڑی ہیں اور ان کا دل میرے خوف سے لرز رہا ہے اور خشوع و خضوع کے ساتھ میری عبادت کر رہی ہیں۔ میرے فرشتو گواہ رہنا میں ان کے شیعوں کو جہنم کی آگ سے نجات دوں گا۔

پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم فرماتے ہیں : کیونکہ جب میری نظر ان پر پڑی تو مجھے وہ چیزیں یاد آگئیں جو میرے بعد ان پر گزرے والی تھی ۔ جب میں نے فاطمہ کو دیکھا تو مجھے ایک دم سے وہ تمام مظالم یاد آ گئے کہ جو میرے بعد اس پر ڈھائے جائیں گے۔ گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ خواری انکے گھر میں داخل ہوئی ہے، انکی حرمت کو پامال کیا گیا ہے، اسکے حق کو غصب کیا گیا ہے،انکی میراث کو اس سے روکا گیا ہے، انکے پہلو کی ہڈی توڑ دی گئ ہے اور انہوں نے بچے کو سقط کیا ، جبکہ وہ بار بار ندا اور فریاد کر رہی ہو گی: وا محمداه !

لیکن کوئی بھی اسکی فریاد سننے والا نہیں ہو گا، وہ مدد کے لیے پکار رہی ہو گی، لیکن کوئی بھی اسکی مدد نہیں کرے گا۔میرے بعد ہمیشہ غمزدہ، رنجیدہ اور گریاں رہے گی۔کبھی ان کے گھر سے وحی کے منقطع ہونے کو یاد کرے گی کبھی میری جدائی کو یاد کرے گی اور رات کو میری نماز تہجد کے وقت قرآن کی تلاوت کی آواز نہ سننے کی وجہ سے خوفزدہ ہوگی اورمیرے بعد اپنے آپ کو حقیر محسوس کرے گی جبکہ بابا کے دورمیں وہ عزیز اور صاحب عزت تھی۔

جب آپ کی یہ حالت ہوگی تو اللہ آپ کو فرشتوں سے مانوس کرے گا جس طرح سے مریم بنت عمران کو فرشتوں کے ذریعے آواز آئی تھی ۔

اے فاطمہ بے شک خدا نے آپ کو چنا ہے اور آپ کو پاک کیا ہے اور آپ کو تمام عالمین کی عورتوں پر فضیلت دی ہے اے فاطمہ اپنے پروردگار کی اطاعت و بندگی کیجئے اور رکوع اور سجدہ کرنے والوں کیساتھ رکوع اور سجدہ کیجئے۔

اور آپ کا درد شروع ہوگا اور آپ مریض ہوجائے گی۔ اللہ جناب مریم بنت عمران کو بھیجے گا تاکہ وہ آپ کی عیادت اور تیمار داری کرے اور آپ کو اس بیماری کی حالت میں دلاسہ دے۔یہی موقع ہوگا کہ جناب فاطمہ کہے گی اے میرے رب میں دنیا کی زندگی سے تھک چکی ہوں اور لوگوں سے تنگ آچکی ہوں۔تو مجھے میرے والد گرامی سے ملا دے۔پھر اللہ عز وجل انہیں مجھ سے ملا دے گا۔

وہ میرے خاندان میں سے سب سے پہلے مجھ سے آ کر ملے گی، اس حال میں میرے پاس آئے گی کہ وہ بہت محزون، غمگین اور شہید کی گئی ہو گی۔

یہ دیکھ کر میں کہوں گا کہ: خداوندا جس نے بھی اس پر ظلم کیا ہے، اس پر لعنت فرما، عذاب کر اس کو کہ جس نے اسکے حق کو غصب کیا ہے، ذلیل و خوار کر اسکو کہ جس نے اسے ذلیل کیا ہے اور جہنم میں ہمیشہ ہمیشہ رکھ ، جس نے اسکے پہلو کو زخمی کر کے اسکے بچے کو سقط کیا ہے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و آلہ وسلم کی اس لعنت و نفرین کو سن کر ملائکہ آمین کہیں گے۔

الصدوق، ابوجعفر محمد بن علي بن الحسين (متوفاي381هـ)، الأمالي، ص176، تحقيق و نشر: قسم الدراسات الاسلامية – مؤسسة البعثة – قم، الطبعة: الأولي، 1417هـ.

دوسری سند : إن فاطمة بضعة مني ، وهي نور عيني ، وثمرة فؤادي ، يسوءني ما ساءها

دوسری سند معمولی فرق کے ساتھ ابن عباس سے یوں نقل ہوئی ہے:

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ زِيَادِ بْنِ جَعْفَرٍ الْهَمَدَانِيُّ رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ هَاشِمٍ قَالَ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سَلَمَةَ الْأَهْوَازِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدٍ الثَّقَفِيُّ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُوسَي ابْنِ أُخْتِ الْوَاقِدِيِّ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو قَتَادَةَ الْحَرَّانِيُّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْعَلَاءِ الْحَضْرَمِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلي الله عليه وآله كَانَ جَالِساً ذَاتَ يَوْمٍ وَ عِنْدَهُ عَلِيٌّ وَ فَاطِمَةُ وَ الْحَسَنُ وَ الْحُسَيْنُ عليهم السلام فَقَالَ اللَّهُمَّ إِنَّكَ تَعْلَمُ أَنَّ هَؤُلَاءِ أَهْلُ بَيْتِي وَ أَكْرَمُ النَّاسِ عَلَيَّ فَأَحِبَّ مَنْ أَحَبَّهُمْ وَ أَبْغِضْ مَنْ أَبْغَضَهُمْ وَ وَالِ مَنْ وَالاهُمْ وَ عَادِ مَنْ عَادَاهُمْ وَ أَعِنْ مَنْ أَعَانَهُمْ وَ اجْعَلْهُمْ مُطَهَّرِينَ مِنْ كُلِّ رِجْسٍ مَعْصُومِينَ مِنْ كُلِّ ذَنْبٍ وَ أَيِّدْهُمْ بِرُوحِ الْقُدُسِ مِنْكَ .

پھر آپ نے فرمایا: اے علی آپ میری امت کا امام اور میرے بعد میرے جانشین ہیں۔ آپ مومنین کو جنت کی طرف لے جانے کے لئے راہنما ہیں۔ گویا میں اپنی بیٹی فاطمہ کو دیکھ رہا ہوں کہ آپ نور کی ایک سواری ہر سوار ہیں ۔آپ کی دائیں طرف ۷۰ ہزار فرشتے ،بائیں طرف بھی ۷۰ ہزار فرشتے ،آپ کے سامنے اور پیچھے ۷۰ ہزار فرشتے ہوں گے اور میری امت کی ان عورتوں کو جنت کی طرف راہنمائی کر رہی ہوں گی جو عورتیں پانچ وقت کی نماز پڑھتی ہوں، ماہ رمضان کے روضے رکھتی ہوں، اللہ کے گھر کی زیارت کرتی ہوں،مال کا زکات ادا کرتی ہوں اپنے شوہر کی اطاعت کرتی ہوں،میرے بعد علی ابن ابی طالب کی پیروی کرتی ہوں،یہ عورتیں میری بیٹی فاطمہ کی شفاعت سے جنت میں جائیں گی۔ آپ جنت کی عورتوں کی سردار ہیں ؛ سوال کیا یا رسول اللہ صلی اللہ ولیہ و آلہ وسلم! کیا جناب فاطمہ اپنے زمانے کی عورتوں کی سردار ہیں؟ فرمایا : وہ عمران کی بیٹی مریم تھیں جو اپنے زمانے کی عورتوں کی سردار تھیں ۔لیکن میری بیٹی اولین و آخرین کی تمام عورتوں کی سردار ہیں۔ آپ ہی ہیں کہ جب آپ محراب عبادت میں کھڑی ہوتی ہیں تو ستر ہزار اللہ کے مقرب فرشتے ان کو سلام دیتے ہیں اور جو آواز جناب مریم کو دی تھی وہی فرشتے آپ کو نداء دیں گے ۔ اے فاطمہ بے شک خدا نے آپ کو چنا ہے اور آپ کو پاک کیا ہے اور آپ کو تمام عالمین کی عورتوں پر فضیلت دی ہے۔

ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَي عَلِيٍّ عليه السلام فَقَالَ يَا عَلِيُّ إِنَّ فَاطِمَةَ بَضْعَةٌ مِنِّي وَ هِيَ نُورُ عَيْنِي وَ ثَمَرَةُ فُؤَادِي يَسُوؤُنِي مَا سَاءَهَا وَ يَسُرُّنِي مَا سَرَّهَا وَ إِنَّهَا أَوَّلُ مَنْ يَلْحَقُنِي مِنْ أَهْلِ بَيْتِي فَأَحْسِنْ إِلَيْهَا بَعْدِي وَ أَمَّا الْحَسَنُ وَ الْحُسَيْنُ فَهُمَا ابْنَايَ وَ رَيْحَانَتَايَ وَ هُمَا سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَلْيُكْرَمَا عَلَيْكَ كَسَمْعِكَ وَ بَصَرِكَ ثُمَّ رَفَعَ صلي الله عليه وآله يَدَهُ إِلَي السَّمَاءِ فَقَالَ اللَّهُمَّ إِنِّي أُشْهِدُكَ أَنِّي مُحِبٌّ لِمَنْ أَحَبَّهُمْ وَ مُبْغِضٌ لِمَنْ أَبْغَضَهُمُ وَ سِلْمٌ لِمَنْ سَالَمَهُمْ وَ حَرْبٌ لِمَنْ حَارَبَهُمْ وَ عَدُوٌّ لِمَنْ عَادَاهُمْ وَ وَلِيٌّ لِمَنْ وَالاهُ.
ابن عباس نقل کرتے ہیں : ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تشریف فرماتھے اور ان کے پاس حضرت علی ،فاطمہ اور حسنین علیہم السلام بھی تشریف فرماتھے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : اے اللہ تو جانتا ہے کہ یہی میرے اہل بیت ہیں اور یہی میرے نذدیک سب سے زیادہ محبوب لوگ ہیں،ان کے دوستوں کو تو بھی دوست رکھے، ان کے دشمنوں سے دشمنی رکھے،جو ان کے ساتھ مہربانی سے پیش آتے ہیں ان کے ساتھ مہربانی کرے اور جو ان سے برائی کرے تو بھی ان کے ساتھ ایسا ہی کرے۔ ان کی مدد کرنے والوں کی مدد کرے اور انہیں پلیدی سے پاک رکھے اور انہیں ہر قسم کے گناہوں سے دور رکھے اور روح القدس کے ذریعے ان کی تائید فرماتے رہے ۔

پھر آپ نے حضرت علی کی طرف رخ کر کے فرمایا: اے علی فاطمہ میرے وجود کا حصہ ہے۔،فاطمہ میری نور نظر اور میرے دل کا چین ہے جو ان کے ساتھ برا کرے اس نے میرے ساتھ براکیا کیا ہے ۔

فاطمہ میرے اہل بیت میں سے سب سے پہلی شخصیت ہے جو مجھ سے ملاقات کرے گی۔پس میرے بعد ان کے ساتھ اچھائی سے پیش آئیں۔

اور حسن و حسین میرے دو بیٹے اور میرے دو پھول ہیں ، آپ دونوں جنت کے جوانوں کے سردار ہیں پس اپنے کان اور آنکھوں کی طرح ان دونوں کا خیال رکھے۔

اس کے بعد آپ ص نے اپنے ہاتھ کو آسمان کی طرف بلند فرمایا: اے اللہ تو گواہ رہنا؛ جو ان سے محبت کرئے، میں بھی ان سے محبت کرتا ہوں اور میں میری ان سے دشمنی ہے جو ان سے دشمنی کرئے اور جو ان سے صلح اور اچھائی کے ساتھ پیش آئے میں بھی ان سے صلح اور اچھائی کے ساتھ پیش آتا ہوں۔

الصدوق، ابوجعفر محمد بن علي بن الحسين (متوفاي381هـ)، الأمالي، ص575، تحقيق و نشر: قسم الدراسات الاسلامية – مؤسسة البعثة – قم، الطبعة: الأولي، 1417هـ.

آٹھویں روایت : ابن عباس سے (فاطمة بضعة مني، وولداها عضدي)

شاذان بن جبرئيل قمي نے ایک اور روایت ابن عباس سے نقل کیا ہے كه رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حجة الوداع سے واپسی کے بعد اصحاب سے اپنے اہل بیت کے بارے میں سفارش کی اور حضرت زہراء علیہما سلام کے بارے میں فرمایا :فاطمة بضعة مني. اس روایت کے الفاظ ؛

(حديث علي أبو ذرية النبي)

بِالْإِسْنَادِ يَرْفَعُهُ إِلَي ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ قَالَ لَمَّا رَجَعْنَا مِنْ حَجَّةِ الْوَدَاعِ جَلَسْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلي الله عليه وآله فِي مَسْجِدِهِ فَقَالَ أَ تَدْرُونَ مَا أَقُولُ لَكُمْ قَالُوا اللَّهُ وَ رَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ مَنَّ عَلَي أَهْلِ الدِّينِ إِذْ هَدَاهُمْ بِي وَ أَنَا أَمُنُّ عَلَي أَهْلِ الدِّينِ إِذْ أَهْدِيهِمْ بِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ابْنِ عَمِّي وَ أَبِي ذُرِّيَّتِي أَلَا وَ مَنِ اهْتَدَي بِهِمْ نَجَا وَ مَنْ تَخَلَّفَ عَنْهُمْ ضَلَّ وَ غَوَي أَيُّهَا النَّاسُ اللَّهَ اللَّهَ فِي عِتْرَتِي وَ أَهْلِ بَيْتِيفَإِنَّ فَاطِمَةَ بَضْعَةٌ مِنِّي وَ وَلَدَيْهَا عَضُدَايَ وَ أَنَا وَ بَعْلُهَا كَالضَّوْءِ اللَّهُمَّ ارْحَمْ مَنْ رَحِمَهُمْ وَ لَا تَغْفِرْ لِمَنْ ظَلَمَهُمْ ثُمَّ دَمَعَتْ عَيْنَاهُ وَ قَالَ كَأَنِّي أَنْظُرُ الْحَال.

ابن عباس کہتے ہیں: حجة الوداع سے واپسی کے بعد اور ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ نے اصحاب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: جانتے ہو کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں؟اصحاب نے جواب دیا: اللہ اور اللہ کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ فرمایا : اللہ نے دینداروں پر احسان کیا ہے کیونکہ میرے ذریعے ان کی ہدایت کی۔میں دینداروں پر احسان کرتا ہوں کیونکہ میں نے علی ابن ابی طالب کے ذریعے ان کی ہدایت کی۔ علی میرے چچا زاد بھائی اور میرے بیٹوں کے باپ ہیں جو بھی ان کے وسیلے سے ہدایت پائے وہ کامیاب ہےجو بھی ان سے روگردانی کرے وہ گمراہ ہے۔

لوگو میری عترت اہل بیت کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو، فاطمہ میرے وجود کا حصہ ہے میرے دو بیٹے میرے دو بازو ہیں، میں اور فاطمہ کے شوہر دو درخشان نور ہیں۔ اے اللہ جو ان ہر رحم کرے تو بھی ان پر رحم کرے۔جو ان پر ظلم و ستم کرئے تو اسے نہ بخش دئے۔ اس موقع پر آپ کی آنکھیں آنسوں سے بھر چکی تھی گویا میں دیکھ رہا تھا کہ ان پر کیا گزرنے والی ہے ۔

القمي، سديد الدين شاذان بن جبرئيل (متوفاي 660هـ) الروضة في فضائل أمير المؤمنين ( عليه السلام )، ص 168، تحقيق : علي الشكرچي، چاپ : الأولي، سال چاپ : 1423

نویں روایت : ابو ذر غفاري ، رسول خدا (ص)سے إِنَّهَا بَضْعَةٌ مِنِّي فَمَنْ آذَاهَا فَقَدْ آذَانِي

اس روایت کا ایک اور سبب صدور جناب ابوذر غفاری سے نقل ہوئی ہے وہ یہ ہے؛ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بستر بیمار پر تھے تو اس وقت فاطمہ زہرا علیہا السلام کو بلایا اور آپ کو خبر دی کہ آپ اہل بیت میں سے پہلی شخصیت ہے جو سب سے پہلے مجھ سے ملاقات کرے گی۔ انہیں ان پر آنے والی مصیبتوں کا ذکر کیااور پھر مجھ سے فرمایا: يَا أَبَا ذَرٍّ إِنَّهَا بَضْعَةٌ مِنِّي فَمَنْ آذَاهَا فَقَدْ آذَانِي.

اس روایت کے متن کو مرحوم خزاز قمي نے یوں نقل کیا ہے :

حَدَّثَنَا الْقَاضِي أَبُو الْفَرَجِ الْمُعَافَي بْنُ زَكَرِيَّا الْبَغْدَادِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ هَمَّامِ بْنِ سُهَيْلٍ الْكَاتِبُ قَالَ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مُعَافًي السَّلْمَاسِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَامِرٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَاهِرٍ عَنْ عَبْدِ القُدُّوسِ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ حَنَشِ بْنِ الْمُعْتَمِرِ قَالَ قَالَ أَبُو ذَرٍّ الْغِفَارِيُّ رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْهِ دَخَلْتُ عَلَي رَسُولِ اللَّهِ صلي الله عليه وآله فِي مَرَضِهِ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ فَقَالَ يَا أَبَا ذَرٍّ ايتِنِي بِابْنَتِي فَاطِمَةَ قَالَ فَقُمْتُ وَ دَخَلْتُ عَلَيْهَا وَ قُلْتُ يَا سَيِّدَةَ النِّسْوَانِ أَجِيبِي أَبَاكِ قَالَ فلبت [فَلَبِسَتْ ] منحلها [جِلْبَابَهَا] وَ أَبْرَزَتْ [اتَّزَرَتْ ] وَ خَرَجَتْ حَتَّي دَخَلَتْ عَلَي رَسُولِ اللَّهِ صلي الله عليه وآله فَلَمَّا رَأَتْ رَسُولَ اللَّهِ صلي الله عليه وآله انْكَبَّتْ عَلَيْهِ وَ بَكَتْ وَ بَكَي رَسُولُ اللَّهِ صلي الله عليه وآله لِبُكَائِهَا وَ ضَمَّهَا إِلَيْهِ ثُمَّ قَالَ يَا فَاطِمَةُ لَا تَبْكِيِنَّ فِدَاكِ أَبُوكِ فَأَنْتِ أَوَّلُ مَنْ تَلْحَقِينَ بِي مَظْلُومَةً مَغْصُوبَةً وَ سَوْفَ يَظْهَرُ بَعْدِي حَسِيكَةُ النِّفَاقِ وَ سَمَلَ جِلْبَابُ الدِّينِ وَ أَنْتِ أَوَّلُ مَنْ يَرِدُ عَلَيَّ الْحَوْضَ قَالَتْ يَا أَبَهْ أَيْنَ أَلْقَاكَ قَالَ تَلْقَيْنِي عِنْدَ الْحَوْضِ وَ أَنَا أَسْقِي شِيعَتَكِ وَ مُحِبِّيكِ وَ أَطْرُدُ أَعْدَاءَكِ وَ مُبْغِضِيكِ قَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ أَلْقَكَ عِنْدَ الْحَوْضِ قَالَ تَلْقَيْنِي عِنْدَ الْمِيزَانِ قَالَتْ يَا أَبَهْ وَ إِنْ لَمْ أَلْقَكَ عِنْدَ الْمِيزَانِ قَالَ تَلْقَيْنِي عِنْدَ الصِّرَاطِ وَ أَنَا أَقُولُ سَلِّمْ سَلِّمْ شِيعَةَ عَلِيٍّ قَالَ أَبُو ذَرٍّ فَسَكَنَ قَلْبُهَا ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صلي الله عليه وآله فَقَالَ يَا أَبَا ذَرٍّ إِنَّهَا بَضْعَةٌ مِنِّي فَمَنْ آذَاهَا فَقَدْ آذَانِي أَلَا إِنَّهَا سَيِّدَةُ نِسَاءِ الْعَالَمِينَ وَ بَعْلَهَا سَيِّدُ الْوَصِيِّينَ وَ ابْنَيْهَا الْحَسَنَ وَ الْحُسَيْنَ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَ إِنَّهُمْ إِمَامَانِ إِنْ قَامَا أَوْ قَعَدَا وَ أَبُوهُمَا خَيْرٌ مِنْهُمَا وَ سَوْفَ يَخْرُجُ مِنْ صُلْبِ الْحُسَيْنِ تِسْعَةٌ مِنَ الْأَئِمَّةِ مَعْصُومُونَ قَوَّامُونَ بِالْقِسْطِ وَ مِنَّا مَهْدِيُّ هَذِهِ الْأُمَّةِ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَكَمِ الْأَئِمَّةُ بَعْدَكَ قَالَ عَدَدَ نُقَبَاءِ بَنِي إِسْرَائِيلَ.

جیش بن معتمر نے،جناب ابوذر غفاری سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ[ص] جس بیماری کی وجہ سے دنیا سے چلے گئے ، اسی بیماری کے دوران مجھ سے کہا : اےابوذر میری بیٹی فاطمہ کو میرے پاس بلا لاو۔ میں ان کے پاس گیا اور عرض کیا :اے عورتوں کی سردار ،رسول اللہ[ص] آپ کو بلا رہے ہیں، تشریف لائیں ۔آپ اپنا لباس بہن کر گھر سے نکلیں۔ رسول اللہ[ص] کے پاس پہنچیں اور جب رسول اللہ[ص] کو اس حالت میں دیکھا تو خود کو ان پر گرا دیا اور رونے لگیں آپ کو روتی دیکھ کر پیغمبر[ص] نے بھی گریہ کیا اور فاطمہ کو اپنے سینے سے لگا لیا۔ اور فرمایا : آپ کے والد آپ پر قربان ہو ،آپ نہ روئیں ۔کیونکہ آپ وہ پہلا شخص ہے کہ جو مجھ سے ملاقات کرئے گی جبکہ آپ پر ظلم کیا ہوگا اور آپ کے حق کو غصب کیا ہوگا۔اتنی جلدی لوگوں کی دشمنیاں اور کینے اور نفاق ظاہر ہوں گے اور دین کے لباس کو اتار دو گے۔

پس آپ پہلا شخص ہے جو حوض پر مجھ سے ملاقات کروگی۔عرض کیا اے والد گرامی کہاں ملاقات ہوگی ؟فرمایا : حوض کوثر پر ،میں اپ کے شیعوں اور دوستوں کو سیراب کروں گا اور آپ کے دشمنوں اور جن لوگوں نے آپ کو غصہ دلایا ان کو حوض سے دور کروں گا۔ عرض کیا : یا رسول اللہ [ص] اگر حوض پر ملاقات نہ ہوئی تو کہاں ملاقات ہوگی؟ فرمایا : میران کے پاس۔ عرض کیا: یا رسول اللہ[ص] ! اگر میزان پر ملاقات نہ ہو تو ؟ فرمایا:صراط پر ملاقات ہوگی۔ پھر رسول اللہ [ص] نے فرمایا: میں اللہ سے عرض کروں گا:اے اللہ !علی کے شیعوں کو جہنم کی آگ سے محفوظ فرما۔

جناب ابوذر کہتے ہیں : یہاں جناب زہرا [ع] کے دل کو چین آیا۔پھر رسول اللہ[ص] نے مجھ سے فرمایا: اے اباذر فاطمہ میرے وجود کا حصہ ہے جس نے انہیں ستایا اس نے مجھے ستایا ۔ آگاہ رہنا ، فاطمہ اولین و آخرین کی عورتوں کی سردار ہیں۔ ان کا شوہر اوصیاء کے سردار ہیں اور ان کے دوبیٹے جنت کے جوانوں کے سردار ہیں،یہ دو امام ہیں چاہے قیام کریں یا قیام نہ کریں۔ ان کے والد ان دونوں سے افضل ہیں۔ بہت جلد اللہ حسین [ص] کے صلب سے نو معصوم ،امین اور عدالت کے ساتھ قیام کرنے والے امام پیدا کرئے گا۔ سوال کیا :یا رسول اللہ[ص] ان کی کتنی تعداد ہوگی؟ فرمایا : نقباء بنی اسرائیل کی تعداد کے برابر ۔

الخزاز القمي الرازي، أبي القاسم علي بن محمد بن علي (متوفاي400هـ)، كفاية الأثر في النص علي الأئمة الاثني عشر، ص38، تحقيق: السيد عبد اللطيف الحسيني الكوه كمري الخوئي، ناشر: انتشارات ـ قم، 140هـ .

دسویں روایت: جابر بن عبد الله انصاري سے (أَلَا إِنَّكِ بَضْعَةٌ مِنِّي مَنْ آذَاكِ فَقَدْ آذَانِي)
جابر بن عبد الله انصاري نے بھی نقل کیا ہے کہ رسول خدا صلي الله عليه وآله جب دنیا سے جارہے تھے اس وقت فاطمه زهرا سلام الله عليها تشریف لائیں اور رونے لگیں ۔لیکن رسول اللہ[ص] انہیں دلاسہ دیتے رہے اور ان سے کافی باتیں کی۔ ان باتوں میں سے بعض یہ ہیں:آگاہ رہو آپ میرے وجود کا حصہ ہیں جو آپ کو تکلیف پہنچائے اس نے یقینا مجھے تکلیف پہنچائی ۔

أَلَا إِنَّكِ بَضْعَةٌ مِنِّي مَنْ آذَاكِ فَقَدْ آذَانِي.

صاحب كفاية الاثر ،خزاز قمي کے نقل کے مطابق روایت کا متن یہ ہے:

أَخْبَرَنَا أَبُو الْمُفَضَّلِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الشَّيْبَانِيُّ رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ غَالِبٍ الْأَزْدِيُّ بابارح [بِأَرْتَاحَ ] قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْغَنِيُّ الْحَسَنُ بْنُ مَعَالِي قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ هَمَّامٍ الْحِمْيَرِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ حَدَّثَنَا شَرِيكُ الدِّينِ بْنُ الرَّبِيعِ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ حَسَّانَ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيِّ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلي الله عليه وآله فِي الشِّكَايَةِ الَّتِي قُبِضَ فِيهَا فَإِذَا فَاطِمَةُ عِنْدَ رَأْسِهِ قَالَ فَبَكَتْ حَتَّي ارْتَفَعَ صَوْتُهَا فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صلي الله عليه وآله طَرْفَهُ إِلَيْهَا فَقَالَ حَبِيبَتِي فَاطِمَةُ مَا الَّذِي يُبْكِيكِ قَالَتْ أَخْشَي الضَّيْعَةَ مِنْ بَعْدِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ يَا حَبِيبَتِي لَا تَبْكِيِنَّ فَنَحْنُ أَهْلُ بَيْتٍ أَعْطَانَا اللَّهُ سَبْعَ خِصَالٍ لَمْ يُعْطِهَا قَبْلَنَا وَ لَا يُعْطِهَا أَحَداً بَعْدَنَا لَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ وَ أَحَبُّ الْخَلْقِ إِلَي اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ هُوَ أَنَا أَبُوكِ وَ وَصِيِّي خَيْرُ الْأَوْصِيَاءِ وَ أَحَبُّهُمْ إِلَي اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ هُوَ بَعْلُكِ وَ شَهِيدُنَا خَيْرُ الشُّهَدَاءِ وَ أَحَبُّهُمْ إِلَي اللَّهِ وَ هُوَ عَمُّكِ وَ مِنَّا مَنْ لَهُ جَنَاحَانِ فِي الْجَنَّةِ يَطِيرُ بِهِمَا مَعَ الْمَلَائِكَةِ وَ هُوَ ابْنُ عَمِّكِ وَ مِنَّا سِبْطَا هَذِهِ الْأُمَّةِ وَ هُمَا ابْنَاكِ الْحَسَنُ وَ الْحُسَيْنُ وَ سَوْفَ يُخْرِجُ اللَّهُ مِنْ صُلْبِ الْحُسَيْنِ تِسْعَةً مِنَ الْأَئِمَّةِ أُمَنَاءَ مَعْصُومِينَ وَ مِنَّا مَهْدِيُّ هَذِهِ الْأُمَّةِ إِذَا صَارَتِ الدُّنْيَا هَرْجاً وَ مَرْجاً وَ تَظَاهَرَتِ الْفِتَنُ وَ تَقَطَّعَتِ السُّبُلُ وَ أَغَارَ بَعْضُهُمْ عَلَي بَعْضٍ فَلَا كَبِيرٌ يَرْحَمُ صَغِيراً وَ لَا صَغِيرٌ يُوَقِّرُ كَبِيراً فَيَبْعَثُ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ عِنْدَ ذَلِكِ مَهْدِيَّنَا التَّاسِعَ مِنْ صُلْبِ الْحُسَيْنِ عليه السلام يَفْتَحُ حُصُونَ الضَّلَالَةِ وَ قُلُوباً غُفْلًا يَقُومُ بِالدِّرَّةِ فِي آخِرِ الزَّمَانِ كَمَا قُمْتُ بِهِ فِي أَوَّلِ الزَّمَانِ وَ يَمْلَأُ الْأَرْضَ عَدْلًا كَمَا مُلِئَتْ جَوْراً.

عِنْدَ ذَلِكِ مَهْدِيَّنَا التَّاسِعَ مِنْ صُلْبِ الْحُسَيْنِ عليه السلام يَفْتَحُ حُصُونَ الضَّلَالَةِ وَ قُلُوباً غُفْلًا يَقُومُ بِالدِّرَّةِ فِي آخِرِ الزَّمَانِ كَمَا قُمْتُ بِهِ فِي أَوَّلِ الزَّمَانِ وَ يَمْلَأُ الْأَرْضَ عَدْلًا كَمَا مُلِئَتْ جَوْراً.

يَا فَاطِمَةُ لَا تَحْزَنِي وَ لَا تَبْكِي فَإِنَّ اللَّهَ أَرْحَمُ بِكِ وَ أَرْأَفُ عَلَيْكِ مِنِّي وَ ذَلِكِ لِمَكَانِكِ مِنِّي وَ مَوْضِعِكِ فِي قَلْبِي وَ زَوَّجَكِ اللَّهُ زَوْجاً هُوَ أَشْرَفُ أَهْلِ بَيْتِكِ حَسَباً وَ أَكْرَمُهُمْ نَسَباً وَ أَرْحَمُهُمْ بِالرَّعِيَّةِ وَ أَعْدَلُهُمْ بِالسَّوِيَّةِ وَ أَنْصَرُهُمْ بِالْقَضِيَّةِ وَ قَدْ سَأَلْتُ رَبِّي عَزَّ وَ جَلَّ أَنْ تَكُونِي أَوَّلَ مَنْ يَلْحَقُنِي مِنْ أَهْلِ بَيْتِي أَلَا إِنَّكِ بَضْعَةٌ مِنِّي مَنْ آذَاكِ فَقَدْ آذَانِي.

قَالَ جَابِرٌ فَلَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صلي الله عليه وآله فَاعْتَلَّتْ فَاطِمَةُ دَخَلَ إِلَيْهَا رَجُلَانِ مِنَ الصَّحَابَةِ فَقَالا لَهَا كَيْفَ أَصْبَحْتِ يَا بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ قَالَتْ اصْدُقَانِي هَلْ سَمِعْتُمَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلي الله عليه وآله يَقُولُ فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّي فَمَنْ آذَاهَا فَقَدْ آذَانِي قَالا نَعَمْ قَدْ سَمِعْنَا ذَلِكِ مِنْهُ فَرَفَعَتْ يَدَيْهَا إِلَي السَّمَاءِ وَ قَالَتْ اللَّهُمَّ إِنِّي أُشْهِدُكَ أَنَّهُمَا قَدْ آذَيَانِي وَ غَصَبَا حَقِّي ثُمَّ أَعْرَضَتْ عَنْهُمَا فَلَمْ تُكَلِّمْهُمَا بَعْدَ ذَلِكَ وَ عَاشَتْ بَعْدَ أَبِيهَا خَمْسَةً وَ تِسْعِينَ يَوْماً حَتَّي أَلْحَقَهَا اللَّهُ بِه .

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بستر بیمار پرتھے تو اس دوران جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا آپ کے سرہانے ہر موجود تھیں۔جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا زور سے رونے لگیں ۔اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان آپ کی طرف رخ کیا اور فرمایا : اے میری پیاری بیٹی کیوں روتی ہو؟فرمایا : آپ آپ کے بعد اپنے حق کے ضائع ہونے سے ڈرتی ہوں۔ فرمایا : اے میری پیاری مت روئیں، ہم وہ خاندان ہیں جس کو اللہ نے ایسی سات خصلتیں دی ہیں جو نہ پہلے کسی کو اللہ نے دی ہے نہ بعد میں کسی کو دے گا۔ نبیوں کے سلسلے کو ختم کرنے والا اور اللہ کی مخلوقات میں سے سب سے زیادہ افضل مخلوق، میں آپ کا باپ ہوں اور میرا وصی اور جانشین اوصیاء میں سے سب سے افضل اور اللہ کے نذدیک ان میں سب سے زیادہ محبوب ہیں اور وہ تیرا شوہر ہیں اور ہمارے شہید شہداء میں سب سے بہتر اور سب سے زیادہ اللہ کے نذدیک محبوب ہے اور وہ آپ کے چچا ہیں۔

جس کو اللہ نےجنت میں ملائکہ کے ساتھ پرواز کرنےکے لئے دو پر دئے وہ آپ کاچچا زاد بھائی ہے ۔ اس امت کے دو نواسے ہم میں سے ہیں اور وہ آپ کے بیٹے حسن اور حسین ہیں اور عنقریب اللہ ان کے صلب سے نو امام پیدا کرے گا جو امین اور معصوم ہوں گے۔اس امت کے مہدی ہم میں سے ہیں۔جب دنیا میں ہر جگہ بے نظمی اور لاقانونیت ہوگی اور فتنے سب جگہ سر اٹھائیں گے اور امید کی راہیں بند ہو جائے گی۔لوگ ایک دوسرے کو لوٹنے لگیں گے، بڑے چھوٹوں پر رحم نہیں کریں گے اور چھوٹے بڑوں کا احترام کرناچھوڑدیں گے ۔ تو اس وقت اللہ ہمارے مہدی کو بھیجے گا کہ جو حسین کی نسل سے نواں فرزند ہوں گے اور آپ گمراہی کے مضبوط قلعوں کو فتح کریں گے اور بند تالوں کو کھول دیں گے، مشکلات کو آسان کریں گے۔ دین خدا کے ساتھ آخری زمانے میں قیام کریں گےاور زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے جس طرحزمین ظلم و ستم سے بھر چکی ہوگی۔

اے فاطمہ پریشان نہ ہوں اور نہ روئیں ۔یقینا اللہ تجھ پر مجھ سے زیادہ رحم کرنے والا اور مہربان ہے اور یہ سب میرے نذدیک آپ کے مقام و میرے دل میں آپ کی منزلت کی وجہ سے ہے۔ اللہ نے آپ کی شادی اس سے کرا دی جو حسب کے لحاظ سے خاندان میں سب سے زیادہ شرافت رکھنے والا ہے اور نسب و منصب کے لحاظ سے سب سے زیادہ محترم اور اپنی رعیت پر سب سے زیادہ رحم دل اور مساوات و برابری قائم کرنے میں سب سے زیادہ عادل اور قضاوت کرنے میں سب سے زیادہ باریک بین ہیں۔

اے فاطمہ میں نے اللہ سے دعا کی ہے کہ تجھ کو میرے خاندان میں سب سے پہلے مجھ سے ملاقات کرنے والی قراردے۔ یاد رکھنا : تو میرے وجود کا حصہ ہے جس نے آپ کو تکلیف پہنچائی گویا اس نے مجھے تکلیف پہنچائی ہے۔

جابر نقل کرتے ہیں : کہ جب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دنیا سے چلے گئے اور فاطمہ زہراء مریض ہوگئیں تو اصحاب میں سے دو بندے آئے اور کہنے لگے: اے پیغمبر کی بیٹی آپ کی حالت کیسی ہے؟ جناب فاطمہ نے ان دونوں سے فرمایا: کیا تم دونوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے یہ بات سن رکھی ہے؟ کہ آپ نے فرمایا تھا: فاطمہ میرے وجود کا حصہ ہے جس نے ان کو تکلیف ہینچائی اس نے مجھے تکلیف پہنچائی ؟ انہوں نے جواب دیا : ہاں ہم نے یہ بات سنی ہے۔اس وقت جناب فاطمہ علیہا السلام نے ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کر کے فرمایا: اے میرے رب تو گواہ رہنا ان دونوں نے مجھے تکلیف پہنچائی اور میرے حق کو غصب کیا۔ اس کے بعد پھر ان دونوں سے منہ پھیر لیا اور ان سے بات نہیں کی ۔

اپنے والد کے بعد ایک نقل کے مطابق ۷۵ دن اور دوسرے نقل کے مطابق ۴۰ دن اور ایک نقل کے مطابق چھے ماہ تک زندہ رہیں یہاں تک کہ اللہ نے انہیں اپنے والد سے ملایا ۔

الخزاز القمي الرازي، أبي القاسم علي بن محمد بن علي (متوفاي400هـ)، كفاية الأثر في النص علي الأئمة الاثني عشر، ص65، تحقيق: السيد عبد اللطيف الحسيني الكوه كمري الخوئي، ناشر: انتشارات ـ قم، 140هـ .

جابر بن عبد الله انصاري نے ایک اور روایت بھی نقل کیا ہے اس کے مطابق رسول خدا صلي الله عليه وآله نے جناب فاطمہ سے خطاب میں فرمایا: فاطمة مهجتي، وابناها ثمرة فؤادي.

شاذان بن جبرئيل قمي کے نقل کے مطابق اس روایت کا متن یہ ہے :

بالإسناد – يرفعه – إلي الصادق (عليه السلام)، عن أبيه، عن جده، عن أبيه الحسين (عليه السلام)، عن جابر بن عبد الله الأنصاري قال: قال رسول الله (صلي الله عليه وآله وسلم): فاطمة مهجتي، وابناها ثمرة فؤادي، وبعلها نور بصري، والأئمة من ولدها أمنائي وحبلي الممدود فمن اعتصم بهم فقد نجي، ومن تخلف عنهم فقد هوي.

جابر بن عبد الله انصاري کہتے ہیں : رسول خدا صلي الله عليه وآله نے فرمایا: فاطمہ میرے دل کا خون اور ان کے بیٹے میرے دل کے میوے ہیں ۔ان کے شوہر میری آنکھوں کا نور ہیں ۔انکے بیٹوں کی اولاد میرے امانتدار اور ایسی کھینچی ہوئی رسی ہیں کہ جو بھی اسے تھامے رہے گا وہ نجات پائیں گے اور جو اسے چھوڑ دے گا وہ نابود ہوجائے گا ۔

القمي، سديد الدين شاذان بن جبرئيل (متوفاي 660هـ) الروضة في فضائل أمير المؤمنين ( عليه السلام )، ص 156، تحقيق : علي الشكرچي، چاپ : الأولي، سال چاپ : 1423

ابن منظور نے لفظ «مُهْجَتي» کا اس طرح معنی کیا ہے :

المُهْجَةُ: دم القلب، و لا بقاء للنَّفْسِ بعد ما تُراقُ مُهْجَتُها

مجهه: دل کا ایساخون ہے کہ جس کے بہہ جانے کے بعد کوئی زندہ نہیں رہتا۔

الأفريقي المصري، جمال الدين محمد بن مكرم بن منظور (متوفاي711هـ)، لسان العرب، ج 2، ص370، ناشر: دار صادر – بيروت، الطبعة: الأولي.

جابر بن عبد اللہ انصاری سے ایک اور نقل میں ہے : فاطمة قلبي وابناها ثمرة فؤادي:

شاذان قمي نے اس روایت کو یوں نقل کیا ہے:

(وبالاسناد) عن الإمام جعفر عليه السلام عن أبيه عن جده الحسين عليه السلام عن جابر بن عبد الله الأنصاري قال قال رسول الله صلي الله عليه وآله فاطمة قلبي وابناها ثمرة فؤادي وبعلها نور بصري والأئمة من ولدها أمنائي وحبلها الممدود فمن اعتصم بهم نجا ومن تخلف عنهم هوي .

رسول خدا صلي الله عليه وآله نے فرمایا : فاطمه میرا قلب اور ان کے بیٹے میرے دل کے پھل ہیں۔ ان کے شوہر میری آنکھوں کا نور ہیں اور ان کی اولاد میں سے دین کے پیشوا میرے امین اور وہ کھینچی ہوئی رسی ہے اگر کوئی اسے تھامے رہے تو وہ نجات پائے گا اور جو ان سے منہ پھیر لے وہ وہ نابود ہوجائے گا۔

القمي، شاذان بن جبرئيل، (متوفاي 660هـ) الفضائل، ص 146، ناشر: منشورات المطبعة الحيدرية ومكتبتها – النجف الأشرف، ال چاپ : 1381 – 1962 م

گیارہویں روایت : سعد بن ابي وقاص سے (فاطمة بضعة مني، من سرها فقد سرني)

ایک اور صحابی جناب سعد بن ابي وقاص سے بھی یہ حدیث نقل ہوئی ہے۔یہ حدیث شيخ مفيد کی کتاب امالي میں اس طرح سے ہے:

2 – قال : أخبرني أبو الحسن علي بن خالد المرغي قال : حدثنا أبو القاسم الحسن بن علي بن الحسن الكوفي قال: حدثنا جعفر بن محمد بن مروان الغزال قال: حدثنا أبي قال: حدثنا عبد الله بن الحسن الأحمسي قال: حدثنا خالد بن عبد الله، عن يزيد بن أبي زياد، عن عبد الله بن الحارث بن نوفل قال: سمعت سعد بن مالك يعني ابن أبي وقاص يقول: سمعت رسول الله صلي الله عليه وآله يقول: فاطمة بضعة مني، من سرها فقد سرني، ومن ساءها فقد ساءني، فاطمة أعز البرية علي.

سعد بن مالك یعنی وہی سعد بن ابی وقاص کہتے ہیں : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا : فاطمه سلام اللہ علیہا میرے وجود کا حصہ ہے جس نے ان کو خوشنود کیا اس نے مجھے خوشنود کیا اور جو انہیں ناراض کرئے اس نے مجھے ناراض کیا، فاطمہ میرے نذدیک سب سے زیادہ عزیز ہے۔

الشيخ المفيد، محمد بن محمد بن النعمان ابن المعلم أبي عبد الله العكبري، البغدادي (متوفاي413 هـ)، الأمالي، ص260، تحقيق: الحسين أستاد ولي – علي أكبر الغفاري، ناشر: دار المفيد للطباعة والنشر والتوزيع – بيروت، الطبعة: الثانية، 1414هـ – 1993 م.

اس حدیث کو اسی سند کے ساتھ شيخ طوسي نے بھی نقل کیا ہے:

الطوسي، الشيخ ابوجعفر، محمد بن الحسن بن علي بن الحسن (متوفاي460هـ)، الأمالي، ص24، تحقيق : قسم الدراسات الاسلامية – مؤسسة البعثة، ناشر: دار الثقافة ـ قم ، الطبعة: الأولي، 1414هـ

بارہویں روایت : مجاهد سے (وهي بضعة مني، وهي قلبي الذي بين جنبي)

مجاهد جو کہ تابعین{وہ لوگ جنہوں نے اصحاب کو دیکھا ہو اور ان سے روایت نقل کی ہو} میں سے ہے۔ انہوں نے ایک واقعہ کے ضمن میں اس حدیث کا ایک اور سبب صدور بیان کیا ہے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جناب فاطم سلام اللہ علیہا کا تعارف کرنے کے لئے یہ جملہ ارشاد فرمایا ۔ اس روایت کا متن یہ ہے۔

وعن مجاهد قال: خرج رسول الله (صلي الله عليه وآله وسلم) وقد أخذ بيد فاطمة (عليها السلام) وقال: من عرف هذه فقد عرفها، ومن لم يعرفها هي فاطمة بنت محمد، وهي بضعة مني، وهي قلبي الذي بين جنبي، فمن آذاها فقد آذاني ومن آذاني فقد آذي الله – جل وعلا .

مجاهد کہتا ہے : رسول خدا صلي الله عليه وآله گھر سے جناب فاطمہ علیہ السلام کے ہاتھ پکڑے باہر تشریف لائے اور فرمایا : جو بھی فاطمہ کو پہچانتا ہے سو پہچانتا ہے، جو نہیں پہچانتا وہ پہچان لے کہ فاطمہ محمد کی بیٹی ہیں ۔ فاطمہ میرے وجود کا حصہ ہے۔یہ میرے بدن میں میرا دل ہے۔لہذا جو انہیں تکلیف پہنچائے اس نے مجھے تکلیف پہنچائی، جس نے مجھے تکلیف پہنچائی اس نے اللہ عز وجل کو تکلیف پہنچائی ہے۔

الحلي، حسن بن سليمان (متوفاي قرن 8هـ)، المختصر، ص234، تحقيق : سيد علي أشرف، ناشر: انتشارات المكتبة الحيدرية ، چاپخانه : شريعت، سال چاپ : 1424 – 1382 ش

المجلسي، محمد باقر (متوفاي1111هـ)، بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار، ج 43 ص54، تحقيق: محمد الباقر البهبودي، ناشر: مؤسسة الوفاء – بيروت – لبنان، الطبعة: الثانية المصححة، 1403هـ – 1983م

یہ روایت مجاہد سے اہل سنت کی کتابوں میں بھی نقل ہوئی ہے.

تیرویں روایت: مكحول نے امیر المومنین (ع)سے نقل کیا ہے (وهي بضعة مني)

مكحول جو کہ رسول خدا صلي الله عليه وآله کے اصحاب میں سے ہے، انہوں نے حضرت امیر المومنین سے ایک طولانی روایت نقل کیا ہے اور یہ روایت حضرت امیر نے اپنی صفات اور خصوصیات کے بیان میں ارشاد فرمایا ہے ، اس حدیث میں امام اپنی خصوصیات بیان کرتے ہیں اور اپنی سترہویں خصوصیت اور فضیلت کے بیان میں کہتے ہیں : اللہ نے حضرت زهرا سلام الله عليها کہ جو رسول اللہ کے وجود کا حصہ ہے،ان کی شادی مجھ سے کرادی۔

شیخ صدوق کے نقل کے مطابق آپ کے اس کلام کا متن یہ ہے۔

1 1 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَطَّانُ وَ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ السِّنَانِيُّ وَ عَلِيُّ بْنُ مُوسَي الدَّقَّاقُ وَ الْحُسَيْنُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ هِشَامٍ الْمُكَتِّبُ وَ عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْوَرَّاقُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ قَالُوا حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ أَحْمَدُ بْنُ يَحْيَي بْنِ زَكَرِيَّا الْقَطَّانُ قَالَ حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَبِيبٍ قَالَ حَدَّثَنَا تَمِيمُ بْنُ بُهْلُولٍ قَالَ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حُكَيْمٍ عَنْ ثَوْرِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ مَكْحُولٍ قَالَ قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ عليه السلام لَقَدْ عَلِمَ الْمُسْتَحْفَظُونَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ مُحَمَّدٍ ص أَنَّهُ لَيْسَ فِيهِمْ رَجُلٌ لَهُ مَنْقَبَةٌ إِلَّا وَ قَدْ شَرِكْتُهُ فِيهَا وَ فَضَلْتُهُ وَ لِي سَبْعُونَ مَنْقَبَةً لَمْ يَشْرَكْنِي فِيهَا أَحَدٌ مِنْهُمْ قُلْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ فَأَخْبِرْنِي بِهِنَّ فَقَالَ عليه السلام إِنَّ أَوَّلَ مَنْقَبَةٍ لِي أَنِّي لَمْ أُشْرِكْ بِاللَّهِ طَرْفَةَ عَيْنٍ وَ لَمْ أَعْبُدِ اللَّاتَ وَ الْعُزَّي،…ح

وَأَمَّا السَّابِعَةَ عَشْرَةَ فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ زَوَّجَنِي فَاطِمَةَ وَ قَدْ كَانَ خَطَبَهَا أَبُو بَكْرٍ وَ عُمَرُ فَزَوَّجَنِي اللَّهُ مِنْ فَوْقِ سَبْعِ سَمَاوَاتِهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلي الله عليه وآله هَنِيئاً لَكَ يَا عَلِيُّ فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ زَوَّجَكَ فَاطِمَةَ سَيِّدَةَ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَ هِيَ بَضْعَةٌ مِنِّي فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَ وَ لَسْتُ مِنْكَ فَقَالَ بَلَي يَا عَلِيُّ وَ أَنْتَ مِنِّي وَ أَنَا مِنْكَ كَيَمِينِي مِنْ شِمَالِي لَا أَسْتَغْنِي عَنْكَ فِي الدُّنْيَا وَ الْآخِرَة.

مكحول کہتے ہیں : أمير المؤمنين علي بن أبي طالب عليه السّلام نے فرمایا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب میں سے جو لوگ مطالب کو ٹھیک سے یاد کرتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ان میں سے کوئِی بھی ایسا نہیں ہے جس کے لئے کوئی فضیلت ہو اور میں اس فضیلت میں شریک نہ ہوں اور اس فضیلت میں اس پر میں برتری نہ رکھتا ہوں۔لیکن میرے ۷۰ ایسی فضیلتیں ہیں کہ ان میں سے کوئی بھی ان فضائل میں میرا شریک نہیں ۔

میں نے عرض کیا مجھے ان خصوصیات اور فضائل سے آگاہ فرمائیں ۔اس وقت انہوں نے فرمایا:میری پہلی فضیلت یہ ہے کہ میں نے ایک لمحہ {ہلک جھبکنے}کے لئے بھی کسی کو اللہ کاشریک نہیں ٹہرایا اور لات وعزا کی پرستش نہیں کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لیکن سترہویں فضیلت یہ ہے کہ اللہ نے فاطمہ زہرا کو میری زوجہ قراردی،باوجود اسکے کہ ابوبکر اور عمر نے بھی ان کا رشتہ طلب کیا ۔لیکن اللہ نے سات آسمانوں کے اوپر میری ان سے شادی کرادی۔

پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سلم نے فرمایا: اے علی آپ کو مبارک ہو ۔ کہ اللہ نے فاطمہ کہ جو جنت کی عورتوں کی سردار اور میرے وجود کا حصہ ہے، ان کی شادی آپ سے کردی ۔میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیا میں آپ سے نہیں ہوں}آپ کے وجود کا حصہ نہیں ہوں ؟ } فرمایا کیوں نہیں اے علی تم مجھ سے ہے اور میں آپ سے،جس طرح میرے دائیں اور بائیں ہاتھ ہیں۔ میں دنیا اور آخرت میں آپ سے بے نیاز نہیں ہوں۔

يَا عَلِيُّ وَ أَنْتَ مِنِّي وَ أَنَا مِنْكَ كَيَمِينِي مِنْ شِمَالِي لَا أَسْتَغْنِي عَنْكَ فِي الدُّنْيَا وَ الْآخِرَة.

الصدوق، ابوجعفر محمد بن علي بن الحسين (متوفاي381هـ)، الخصال، ص573، تحقيق، تصحيح وتعليق: علي أكبر الغفاري، ناشر: منشورات جماعة المدرسين في الحوزة العلمية في قم المقدسة، سال چاپ 1403 – 1362

چودہویں روایت : عمرو بن ابي المقدام اور زياد بن عبد الله نے امام صادق (ع )سے نقل کیا ہے: (فاطمة بضعة مني وانا منها)

اس روایت میں ابوجہل کی بیٹی سے رشتے کی جھوٹی کہانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:ایک شقی انسان کے واسطے سے یہ خبر جب جناب فاطمہ(ع ) تک پہنچی تو آپ غمگین ہوئیں۔ آپ رسول اللہ (ص)کے گھر تشریف لے گئیں ۔جب حضرت علی (ع )گھر آئے تو حضرت فاطمہ(ع ) کو نہیں دیکھا آپ مسجد میں جاکر سوگئے اس وقت رسول اللہ(ص ) ،حضرت فاطمہ (ع )اور بچوں کے ساتھ حضرت امیر کے پاس تشریف لائے ۔اس وقت ابوبکر اور عمر بھی وہاں تھے ۔رسول اللہ(ص ) نے علی (ع )سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

يَا عَلِيُّ أَ مَا عَلِمْتَ أَنَّ فَاطِمَةَ بَضْعَةٌ مِنِّي وَ أَنَا مِنْهَا فَمَنْ آذَاهَا فَقَدْ آذَانِي وَ مَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَي اللَّهَ. یا علی(ع ) کیا آپ کو یہ معلوم نہیں کہ فاطمہ(ع ) میرے وجود کا حصہ ہے اور میں ان کے وجود کا حصہ ہوں اور جو انہیں تکلیف پہنچائے اس نے گویا مجھے تکلیف پہنچائی ہے جو مجھے تکلیف پہنچائے اس نے اللہ کو تکلیف پہنچائی ہے۔ حضرت علی(ع ) نے فرمایا : یا رسول اللہ (ص )میں یہ جانتا ہوں ۔رسول اللہ(ص ) نے فرمایا : تو پھر کیوں آپ نے ایسا کیا {ابوجہل کی بیٹی کا رشتہ مانگا} فرمایا ؛ حتی میں نے اس کا تصور بھی نہیں کیا ہے۔ رسول اللہ (ع )نے آپ کی بات کی تصدیق کی ،جناب فاطمہ(ع ) بھی خوشحال ہوئیں ۔

اس روايت کا متن :

2 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ أَحْمَدَ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَي عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي الْمِقْدَامِ وَ زِيَادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالا أَتَي رَجُلٌ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام فَقَالَ لَهُ يَرْحَمُكَ اللَّهُ هَلْ تُشَيَّعُ الْجَنَازَةُ بِنَارٍ وَ يُمْشَي مَعَهَا بِمِجْمَرَةٍ أَوْ قِنْدِيلٍ أَوْ غَيْرِ ذَلِكَ مِمَّا يُضَاءُ بِهِ قَالَ فَتَغَيَّرَ لَوْنُ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام مِنْ ذَلِكَ وَ اسْتَوَي جَالِساً ثُمَّ قَالَ إِنَّهُ جَاءَ شَقِيٌّ مِنَ الْأَشْقِيَاءِ إِلَي فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صلي الله عليه وآله فَقَالَ لَهَا أَ مَا عَلِمْتِ أَنَّ عَلِيّاً قَدْ خَطَبَ بِنْتَ أَبِي جَهْلٍ فَقَالَتْ حَقّاً مَا تَقُولُ فَقَالَ حَقّاً مَا أَقُولُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَدَخَلَهَا مِنَ الْغَيْرَةِ مَا لَا تَمْلِكُ نَفْسَهَا وَ ذَلِكَ أَنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَي كَتَبَ عَلَي النِّسَاءِ غَيْرَةً وَ كَتَبَ عَلَي الرِّجَالِ جِهَاداً وَ جَعَلَ لِلْمُحْتَسِبَةِ الصَّابِرَةِ مِنْهُنَّ مِنَ الْأَجْرِ مَا جَعَلَ لِلْمُرَابِطِ الْمُهَاجِرِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ قَالَ فَاشْتَدَّ غَمُّ فَاطِمَةَ مِنْ ذَلِكَ وَ بَقِيَتْ مُتَفَكِّرَةً هِيَ حَتَّي أَمْسَتْ وَ جَاءَ اللَّيْلُ حَمَلَتِ الْحَسَنَ عَلَي عَاتِقِهَا الْأَيْمَنِ وَ الْحُسَيْنَ عَلَي عَاتِقِهَا الْأَيْسَرِ وَ أَخَذَتْ بِيَدِ أُمِّ كُلْثُومٍ الْيُسْرَي بِيَدِهَا الْيُمْنَي ثُمَّ تَحَوَّلَتْ إِلَي حُجْرَةِ أَبِيهَا فَجَاءَ عَلِيٌّ فَدَخَلَ حُجْرَتَهُ فَلَمْ يَرَ فَاطِمَةَ فَاشْتَدَّ لِذَلِكَ غَمُّهُ وَ عَظُمَ عَلَيْهِ وَ لَمْ يَعْلَمِ الْقِصَّةَ مَا هِيَ فَاسْتَحَي أَنْ يَدْعُوَهَا مِنْ مَنْزِلِ أَبِيهَا فَخَرَجَ إِلَي الْمَسْجِدِ يُصَلِّي فِيهِ مَا شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ جَمَعَ شَيْئاً مِنْ كَثِيبِ الْمَسْجِدِ وَ اتَّكَأَ عَلَيْهِ فَلَمَّا رَأَي النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله مَا بِفَاطِمَةَ مِنَ الْحُزْنِ أَفَاضَ عَلَيْهَا مِنَ الْمَاءِ ثُمَّ لَبِسَ ثَوْبَهُ وَ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَلَمْ يَزَلْ يُصَلِّي بَيْنَ رَاكِعٍ وَ سَاجِدٍ وَ كُلَّمَا صَلَّي رَكْعَتَيْنِ دَعَا اللَّهَ أَنْ يُذْهِبَ مَا بِفَاطِمَةَ مِنَ الْحُزْنِ وَ الْغَمِّ وَ ذَلِكَ أَنَّهُ خَرَجَ مِنْ عِنْدِهَا وَ هِيَ تَتَقَلَّبُ وَ تَتَنَفَّسُ الصُّعَدَاءَ فَلَمَّا رَآهَا النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله أَنَّهَا لَايُهَنِّيهَا النَّوْمُ وَ لَيْسَ لَهَا قَرَارٌ قَالَ لَهَا قُومِي يَا بُنَيَّةِ فَقَامَتْ فَحَمَلَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله الْحَسَنَ وَ حَمَلَتْ فَاطِمَةُ الْحُسَيْنَ وَ أَخَذَتْ بِيَدِ أُمِّ كُلْثُومٍ فَانْتَهَي إِلَي عَلِيٍّ عليه السلام وَ هُوَ نَائِمٌ فَوَضَعَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله رِجْلَهُ عَلَي رِجْلِ عَلِيٍّ فَغَمَزَهُ وَ قَالَ قُمْ يَا أَبَا تُرَابٍ فَكَمْ سَاكِنٍ أَزْعَجْتَهُ ادْعُ لِي أَبَا بَكْرٍ مِنْ دَارِهِ وَ عُمَرَ مِنْ مَجْلِسِهِ وَ طَلْحَةَ فَخَرَجَ عَلِيٌّ فَاسْتَخْرَجَهُمَا مِنْ مَنْزِلِهِمَا وَ اجْتَمَعُوا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صلي الله عليه وآله فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلي الله عليه وآله يَا عَلِيُّ أَ مَا عَلِمْتَ أَنَّ فَاطِمَةَ بَضْعَةٌ مِنِّي وَ أَنَا مِنْهَا فَمَنْ آذَاهَا فَقَدْ آذَانِي وَ مَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَي اللَّهَ وَ مَنْ آذَاهَا بَعْدَ مَوْتِي كَانَ كَمَنْ آذَاهَا فِي حَيَاتِي وَ مَنْ آذَاهَا فِي حَيَاتِي كَانَ كَمَنْ آذَاهَا بَعْدَ مَوْتِي قَالَ فَقَالَ عَلِيٌّ بَلَي يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ فَمَا دَعَاكَ إِلَي مَا صَنَعْتَ فَقَالَ عَلِيٌّ وَ الَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ نَبِيّاً مَا كَانَ مِنِّي مِمَّا بَلَغَهَا شَيْ ءٌ وَ لَا حَدَّثَتْ بِهَا نَفْسِي فَقَالَ النَّبِيُّ صَدَقْتَ وَ صَدَقَتْ فَفَرِحَتْ فَاطِمَةُ عليها السلام بِذَلِكَ وَ تَبَسَّمَتْ حَتَّي رُئِيَ ثَغْرُهَا فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ إِنَّهُ لَعَجَبٌ لِحِينِهِ مَا دَعَاهُ إِلَي مَا دَعَانَا هَذِهِ السَّاعَةَ . ….

عمرو بن مقدام اور زياد بن عبد اللَّه سے منقول ہے کہ ایک آدمی امام جعفر صادق(ع) کے پاس آیا اور کہنے لگا: اللہ آپ پر اپنی رحمت نازل کرئے، کیا کسی کا تشیع جنازہ آگ کی روشنی کے ساتھ کرسکتا ہے؟ یا آگ اور قندیل یا کسی ایسی چیز کو لے کر جنازہ کے ساتھ جاسکتا ہےکہ جو روشنی دیتی ہو۔

راوی کہتا ہے کہ :ان باتوں سے امام کے چہرے کا رنگ متغیر ہوا اور ٹھیک سے بیٹھ گئے اور پھر فرمایا: ایک شقی انسان رسول اللہ(ص ) کی بیٹی جناب فاطمہ(ع ) کے پاس آیا اور ان سے کہا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ علی(ع ) نے ابوجہل کی بیٹی سے رشتہ مانگا ہے؟ جناب فاطمہ(ع ) نے عرض کیا : کیا سچ بول رہے ہو؟اس نے تین دفعہ کیا کہ میں سچ کہہ رہا ہوں۔ جناب فاطمہ(ع) غیرت میں آگئیں اور آپ اپنےاحساسات پر کنڑول نہیں کرپائیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ نے عورتوں لئے غیرت اور مردوں کے لئے جہاد لکھ دیا ہے۔ عورتوں کے لئے اگر صبر اور تحمل سے کام لیں تو ان کے لئے سرحد کی حفاظت کرنے اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کا اجر و ثواب لکھ دیا جاتا ہے۔

امام نے فرمایا: فاطمہ(ع ) اس سے غمگین ہوگئیں اور سوچ میں پڑ گئیں، یہاں تک کہ رات ہوگئی،آپ نے امام حسن(ع ) کو دائیں کندھے پر اور امام حسین کو بائیں کندھے پر اور ام کلثوم کے بائیں ہاتھ کو پکڑ کر اپنے والدبزرگوار کے گھر تشریف لے گئیں۔ اسی دوران حضرت علی(ع ) گھر میں آئے اور فاطمہ(ع) کو گھر میں نہیں پایا تو آپ پریشان ہوئے امام علی(ع ) اصل ماجراسے باخبرنہیں تھے اور ان کے والد گرمی کے گھر جاکر آواز دینے سے شرما رہے تھے لہذا مسجد میں گئے،چند رکعات نماز ادا کیں اور مسجد کی کچھ مٹی جمع کر کے اس پر لیٹ گئے۔ رسول اللہ (ص)نے جب فاطمہ(ع ) کو اس حالت میں دیکھی تو انہیں پانی پلایا اور لباس پہن کر مسجد تشریف لے گئےاور نماز کے رکوع اور سجود میں مشغول ہوگئے اور ہر دو رکعت نماز ادا کرنے کے بعد اللہ سے فاطمہ زہرا (ع )کے غم و اندوہ کو کم کرنے کی دعا کرتے،کیونکہ آپ گھر سے نکلتے وقت ان کو پریشان حال میں دیکھ چکے تھے،آپ نے یہ دیکھا تھا کہ ان کو نیند نہیں آرہی تھیں اور بے سکونی کی حالت میں تھیں۔

رسول اللہ(ص ) نے فرمایا :بیٹی اٹھے۔ رسول اللہ(ص ) نے امام حسن(ع ) کو اور جناب فاطمہ(ع ) نے امام حسین (ع )کو اٹھایا اور ام کلثوم کا ہاتھ پکڑا اور امام علی(ع ) کے پاس پہنچ گئے۔رسول اللہ(ع ) نے اپنے پیروں سے امام علی(ع ) کے پاوں کو مارا اور انہیں اٹھا کر فرمایا:اے ابوتراب اٹھو ،کیوں ایک انسان کے دل کو بے قرار اور بے سکون کیا ہے؟ اٹھو اور ابوبکر ، عمر اور طلحہ کو ان کے گھر سے بلا کر لے آو ۔حضرت علی(ع ) اٹھے اور ان سب کو ان کے گھروں سے بلا کر رسول اللہ(ع )کی خدمت میں لایا۔ رسول اللہ (ع ) نے فرمایا: اے علی کیا آپ کو معلوم نہیں کہ فاطمہ میرے وجود کا حصہ ہے اور میں ان کے وجود کا حصہ ہوں، جس نے ان کو تکلیف پہنچائی اس نے مجھے تکلیف پہنچائی اور جس نے مجھے تکلیف پہنچائی اس نے اللہ کو تکلیف پہنچائی اور جو بھی میرے بعد انہیں تکلیف پہنچائے گا وہ ایسا ہے جیسے اس نے مجھے میری زندگی میں تکلیف پہنچائی ہے اور جس نے میری زندگی میں انہیں تکلیف پہنچائی گویا اس نے مرنے کے بعد مجھے تکلیف پہنچائی ہے۔

اس وقت امام علی(ع) نے فرمایا:جی یا رسول اللہ(ص)؛ اس وقت رسول اللہ (ص )نے فرمایا: آپ نے ایسا کام کیوں کیا ؟امام نےفرمایا : اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث برسالت فرمایا، جو بات فاطمہ تک پہنچی ہے میں نے ہرگز ایسا اقدام نہیں کیا ہے ،یہاں تک کی میں نے ایسا سوچا بھی نہیں ہے۔ پيامبر صلّي اللَّه عليه و آله نے فرمایا: آپ نے سچی بات کی ہے۔ آپ نے سچی بات کی ہے۔جناب فاطمہ بھی خوشحال ہوئی اور اظہار مسرت فرمائی یہاں تک کہ آپ کے دانت ظاہر ہوئے ۔ ان دونوں نے ایک دوسرے سے کہا : عجیب بات ہے کہ رات کے اس وقت ہمیں کیوں بلایا تھے ؟…

الصدوق، ابوجعفر محمد بن علي بن الحسين (متوفاي 381هـ)، علل الشرائع، ج 1، ص 186، تحقيق وتقديم : السيد محمد صادق بحر العلوم، ناشر : منشورات المكتبة الحيدرية ومطبعتها – النجف الأشرف، الطبع: 1385 – 1966 م

پندرویں روایت: عمر بن عبد العزيزسے : (إنما فاطمة بضعة مني)

قاضي نعمان مغربي،نے عمر ابن عبد العزیز سے نقل کیا ہے ،وہ یہ کہتا تھا : بعض اصحاب سے سنا ہے ، رسول اللہ نے نے فرمایا: إنما فاطمة بضعة مني.

[ 977 ] حسن بن عبد الله ، عن جعفر بن محمد عليه السلام ، أنه قال : جاء سهل بن عبد الرحمان إلي عمر بن عبد العزيز فقال : إن قومك يقولون إنك تؤثر عليهم ولد فاطمة . فقال له عمر : سمعت الثقة من أصحاب رسول الله صلي الله عليه وآله تخبر عنه حتي كأني سمعته منه أنه قال : إنما فاطمة بضعة مني، يرضيني ما أرضاها ويسخطني ما أسخطها ، فوالله إني لحقيق أن أطلب رضاء رسول الله صلي الله عليه وآله [ ورضاه ] ورضاءها في ولدها .

[ وقد علموا أن النبي يسره * مسرتها جدا ويشني اغتمامها ]

سهل بن عبد الرحمان، عمر بن عبد العزيز کے پاس آیا اور کہا : اپ کی قوم والے کہتے ہیں کہ آپ فاطمہ کی اولاد کو اپنی قوم کی اولاد پر برتری دیتے ہیں۔عمر بن عبد العزیز نے کہا: میں نے رسول اللہ (ص) کے قابل اعتماد اصحاب سے یہ سنا ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا:فاطمہ میرے وجود کا حصہ ہے جو انہیں خوشنود کرتا ہے وہ مجھے بھی خوشنود کرتا ہے اور جو انہیں ناراض کرتا ہے وہ مجھے بھی ناراض کرتا ہے ۔

عمر ابن عبد العزیز نے کہا : اللہ کی قسم ؛ بہتر یہ ہے کہ میں اللہ کو راضی کروں اور فاطمہ کی رضا بھی ان کی اولاد کی رضا میں ہے۔

التميمي المغربي، أبي حنيفة النعمان بن محمد (متوفاي363 هـ)، شرح الأخبار في فضائل الأئمة الأطهار، ج3، ص59، تحقيق: السيد محمد الحسيني الجلالي، ناشر: مؤسسة النشر الاسلامي ـ قم، الطبعة: الثانية، 1414 هـ.

آخری نکتہ : شیعہ علماء کی نظر میں یہ روایات متواتر ہیں

«فاطمة بضعة مني» والی روایت شیعہ کتابوں میں متعدد اسناد کے ساتھ نقل ہوئی ہے ہم نے ان اسناد کو یہاں نقل کیا شیعہ علماء کی نظر میں یہ روایت متواتر ہے۔لہذا اس کی سند کی تحقیق بھی ضروری نہیں ہے ۔ اس روایت کی صحت کے بارے میں بعض علماء کے اقوال کو ہم نے نقل کیا ہے ۔بحث کے اس حصے میں ہم شیعہ علماء میں سے بعض کے ایسے اقوال نقل کرتے ہیں کہ جن میں انہوں نے اس روایت کے قطعی اور متواتر ہونے کو ذکر کیا ہے ۔

  1. علامه مجلسي (متوفاي1111هـ)

علامه مجلسی نے اس روایت سے جناب فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی عصمت پر استدلال کیا ہے اور اس روایت کو متواتر قرار دیا ہے:

نقول : لا شك في عصمة فاطمة عليها السلام ، أما عندنا فللاجماع القطعي المتواتر، والأخبار المتواترة الآتية في أبواب مناقبها عليها السلام، وأما الحجة علي المخالفين فبآية التطهير الدالة علي عصمتها، ..

وبالاخبار المتواترة الدالة علي أن إيذاء الرسول صلوات الله عليهما، وأن الله تعالي يغضب لغضبها ويرضي لرضاها ، … فمنها :

1 – ما رواه البخاري في صحيحه في باب مناقبها عليها السلام عن المسور بن مخرمة أن رسول الله صلي الله عليه وسلم قال: فاطمة بضعة مني فمن أغضبها أغضبني.

ہم کہتے ہیں : جناب فاطمه عليها السلام کی عصمت میں کوئی شک نہیں ہے؛ اس سلسلے میں ہماری ایک دلیل اجماع ہے جو یقینی اور متواتر طور پر نقل ہوا ہے ۔

دوسری دلیل وہ احادیث ہیں کہ جن کو بعد میں ان کے مناقب کے ابواب میں ہم ذکر کریں گے۔

لیکن ہمارے مخالفین کے لئے ان کی عصمت پر ہماری ایک دلیل آیۃ تطہیر ہے کہ جو ان کی عصمت پر دلالت کرتی ہے ۔ایک دلیل وہ متواتر روایات ہیں کہ جو دلالت کرتی ہیں کہ ان کو تکلیف دینا ،رسول اللہ (ص) کو تکلیف پہنچانا ہے اور ان کے راضی ہونے سے اللہ بھی راضی ہوتا ہے اور ان ناراضگی سے اللہ بھی ناراض ہوتا ہے …

انہیں روایات میں سے ایک وہی روایت ہے جس کو بخاری نے اپنی کتاب میں ، جناب زہرا سلام اللہ علیہا کے مناقب کے باب میں مسور بن مخرمہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : فاطمہ میرے وجود کا حصہ ہے جس نے انہیں تکلیف پہنچائی اس نے مجھے تکلیف پہنچائی۔

المجلسي، محمد باقر (متوفاي1111هـ)، بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار، ج 29، ص336، تحقيق: محمد الباقر البهبودي، ناشر: مؤسسة الوفاء – بيروت – لبنان، الطبعة: الثانية المصححة، 1403هـ – 1983م.

  1. محقق بحراني (متوفاي1186هـ)

محقق بحراني اس سلسلے میں لکھتا ہے :

ومن الظاهر البين أن الأمر الذي يشق عليها يؤذيها ، وايذاؤها محرم بالاتفاق ، لأنه إيذاء لرسول الله صلي الله عليه وآله بالخبر المتفق عليه بين الخاصة والعامة فاطمة بضعة مني ، يؤذيني ما يؤذيها.

ان واضح اور آشکار کاموں میں سے جو حضرت زهرا سلام اللہ علیہا پرسخت گزرے ،آپ کو تکلیف پہنچایا تھا ، انہیں تکلیف دینا سب کے نذدیک حرام ہے کیونکہ اس روایت کے مطابق جس کو خاصہ اور عامہ سب نے متفقہ طور پر نقل کیا ہے وہ یہ ہے کہ انہیں تکلیف پہنچانا ،پیغمبر کو تکلیف پہنچانا ہے اور وہ یہ روایت ہے : فاطمہ میرے وجود کا حصہ ہے جس نے انہیں تکلیف پہنچائی اس نے مجھے تکلیف پہنچائی .

البحراني، الشيخ يوسف، (متوفاي1186هـ)، الحدائق الناضرة في أحكام العترة الطاهرة، ج 23، ص552، ناشر : مؤسسة النشر الإسلامي التابعة لجماعة المدرسين بقم المشرفة، طبق برنامه مكتبه اهل البيت.

  1. كاشف الغطاء: (متوفاي1228هـ)

انہوں نے بھی اس روایت کے متواتر ہونے کو واضح طور پر بیان کیا ہے :

وروي في حقها ما تواتر نقله بين الفريقين عن النبي صلي الله عليه وآله أنه قال فاطمة بضعة مني من اذاها فقد آذاني ومن آذاني فقد اذي الله وقال الله تعالي الذين يؤذون الله ورسوله أولئك يلعنهم الله ويلعنهم اللاعنون.

حضرت زهرا سلام الله عليها کے بارے میں شیعہ اور اہل سنت نے تواتر کے ساتھ نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : فاطمہ میرے وجود کا حصہ ہے جس نے انہیں تکلیف پہنچائی اس نے مجھے تکلیف پہنچائی اور جس نے مجھے تکلیف پہنچائی اس نے اللہ کو تکلیف پہنچائی اور اللہ نے فرمایا : جو اللہ کو اور اللہ کے رسول کو تکلیف پہنچائے ان پر اللہ بھی لعنت کرتا ہے اور تمام لعنت کرنے والے بھی لعنت کرتے ہیں۔

كاشف الغطاء، الشيخ جعفر (متوفاي 1228هـ)، كشف الغطاء عن مبهمات شريعة الغراء، ج1، ص12، ناشر : انتشارات مهدوي – اصفهان، طبق برنامه مكتبة اهل البيت.

  1. آيت الله العظمي وحيد خراساني:

اہل تشيع کے مجتہدوں میں سے حضرت آيت الله العظمي وحيد خراساني نے آیۃ مباهله کے سلسلے میں اپنا یہ تجزیہ پیش کرنے کے بعد کہ یہ آیت حضرت زهرا سلام الله عليها کی عصمت پردلالت کرتی ہے، یہ کہا ہے شیعہ سنی سب نے س روایت کے صحیح ہونے کو بیان کیا ہے :

ومما يؤكد ذلك الحديث الذي رواه العامة والخاصة، واعترفوا بصحته أن رسول الله (صلي الله عليه وآله وسلم) قال: فاطمة بضعة مني، فمن أغضبها أغضبني.

جو چیزیں اس مطلب کی تأكيد کرتی ہیں ان میں سے ایک شیعہ اور سنی دونوں کے نقل کردہ وہ روایت ہے جس کے صحیح ہونے پر سب نے اعتراف کیا ہے اور وہ روایت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : فاطمہ سلام اللہ علیہا میرے وجود کا حصہ ہے جس نے انہیں ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا ۔

منهاج الصالحين – الشيخ وحيد الخراساني، ج 1 ، ص 193، طبق برنامه مكتبة اهل البيت.

  1. فاضل مسعودي (ہم عصر )

محقق اور استاد جناب مسعودی نے «الاسرار الفاطمية» میں اس روایت کے شیعہ اور اہل سنت کے نذدیک متواتر ہونے کو بیان کیا ہے :

واستدل الكثير من العامة والخاصة بأفضلية فاطمة عليها السلام علي مريم وخصوصا ما تواتر عن أبيها رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم م الخاصة والعامة بقوله صلي الله عليه وآله وسلم فاطمة بضعة مني ، فمن أغضبها أغضبني فهذا الحديث من المتواترات وفيه دلالة علي كونها من نور الرسول الأعظم محمد صلي الله عليه وآله وسلم وكونها لحمه ودمه فهو خاتم الرسل فإنه تكون ابنته أفضل من ابنة عمران .

اهل سنت اور شيعه کے بہت سے علماء نے حضرت فاطمه سلام الله عليها کا جناب مريم سلام اللہ علیہا سے افضل ہونے پر اس روایت سے استدلال کیا ہے جو تواتر کے ساتھ ان کے والد گرامی جناب سول خدا صلي الله عليه وآله سے شیعہ اور اہلسنت دونوں نے نقل کیا ہے : فاطمہ سلام اللہ علیہا میرے وجود کا حصہ ہے جس نے انہیں ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا ۔

یہ متواتر روایات میں سے ہے ۔یہ دلالت کرتی ہے کہ حضرت زهرا کہ پيامبر اعظم صلي الله عليه و آلہ وسلم کے نور نظر وہ آنحضرت کے گوشت اور خون سے ہے ؛ لہذا رسول اللہ صلی اللہ نبیوں کے سلسلے کو ختم کرنے والا ہے اور آپ کی بیٹی جناب مریم بنت عمران سے افضل ہیں۔

  • الشيخ محمد فاضل المسعودي (محقق معاصر) الأسرار الفاطمية، ص218، ناشر : مؤسسة الزائر في الروضة المقدسة لفاطمة المعصومة عليها السلام للطباعة والنشر ، قم.

نتيجه:

اولا: «بضعة مني والی روایت شیعہ منابع میں صحیح سند نقل ہوئی ہے؛

ثانيا: شیعہ سنی علماء نے اس روایت کے یقینی اور متواتر روایات میں سے ہونے پر اتفاق کیا ہے؛

ثالثا: اس روایت کی ۸ شان صدور کو ہم نے نقل کیا، ان کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ مقصد تھا کہ لوگوں کو اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نذدیک جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا کیا مقام ہے۔

آپ کو مقصد لوگوں کو انہیں تکلیف پہنچانے سے دور رکھنے کا حکم دینا اور یہ بتانا تھا کہ جناب فاطمہ سلام علیہا کو تکلیف دینے والوں کی دشمنی کی حد کیا ہے {یعنی جو انہیں تکلیف پہنچائے وہ حقیقت میں اللہ کا دشمن ہے کیونکہ ان کی راضگی سے اللہ ناراض اور غضبناک ہوتا ہے }

Continue Reading

دفاع تشیع

احادیث نبوی کو بیان کرنے اور سمجھنے میں صحابہ کی غلط فہمی

بسم الله الرحمن الرحیم

مکتبِ صحابہ کا سب سے بنیادی مسئلہ علماء اور ان کے بزرگوں کے درمیان ہونے والے درگیری اور جھگڑے ہیں۔ یہ تنازعات ان میں سے بعض میں فکری، اخلاقی اور روحانی انحرافات کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ان تنازعات کی سب سے اہم وجہ سنت نبوی کے بارے میں ان کا اختلاف ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد، آپ کے صحابہ کرام میں مذہبی حقائق کی وضاحت میں شدید اختلاف تھا۔ ان تنازعات میں سے ایک بلی کو مارنے پر عورت کے جہنمی ہونے کا ہے۔

بخاری نے اپنی صحیح میں ابوہریرہ اور عبداللہ بن عمر سے اس طرح روایت کی ہے:

3140 – حدثنا نصر بن علي أخبرنا عبد الأعلى حدثنا عبيد الله بن عمر عن نافع عن ابن عمر رضي الله عنهما : عن النبي صلى الله عليه و سلم قال: دخلت امرأة النار في هرة ربطتها فلم تطعمها ولم تدعها تأكل من خشاش الأرض. قال وحدثنا عبيد الله عن سعيد المقبري عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه و سلم مثله

عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک عورت جہنم کی آگ میں اس لیے داخل ہوئی کہ اس نے بلی کو باندھا اور اسے کھانا نہیں کھلایا اور اسے زمین کے کیڑے مکوڑے جیسی کوئی چیز کھانے نہیں دی۔ یہ روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ابوہریرہ سے مروی ہے۔

بخاري جعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله، الجامع الصحيح المختصر، ج 3، ص 1205، ناشر: دار ابن كثير ، اليمامة – بيروت، چاپ سوم، 1407 – 1987، شش جلدی، به همراه تعليق د. مصطفى ديب البغا

اسی سلسلے میں احمد بن حنبل ایک مستند سند کے ساتھ مسند میں نقل کرتے ہیں:

10738 – حدثنا عبد لله حدثني أبي ثنا سليمان بن داود يعني الطيالسي ثنا أبو عامر الخزاز عن سيار عن الشعبي عن علقمة قال: كنا عند عائشة فدخل أبو هريرة فقالت : أنت الذي تحدث ان امرأة عذبت في هرة لها ربطتها فلم تطعمها ولم تسقها فقال: سمعته منه يعني النبي صلى الله عليه و سلم قال عبد الله: كذا قال أبي. فقالت: هل تدري ما كانت المرأة ان المرأة مع ما فعلت كانت كافرة وان المؤمن أكرم على الله عز و جل من أن يعذبه في هرة فإذا حدثت عن رسول الله صلى الله عليه و سلم فانظر كيف تحدث تعليق شعيب الأرنؤوط : إسناده حسن.

علقمہ کہتے ہیں: جب ابوہریرہ داخل ہوئے تو ہم عائشہ کے ساتھ تھے۔ عائشہ نے اس سے کہا: کیا تم وہ ہو جس نے یہ بیان کیا کہ عورت کو بلی کے باندھنے اور اسے کھانا اور پانی نہ دینے کی سزا دی جاتی ہے؟ ابوہریرہ نے کہا: ہاں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ عبداللہ بن عمر نے بھی کہا: میرے والد نے بھی یہی کہا تھا۔

عائشہ نے کہا: کیا تم جانتے ہو وہ عورت کیسی تھی جس نے یہ کیا؟ اس کے علاوہ وہ عورت کافر تھی! [کفر کی سزا کی وجہ عورت تھی، بلی کو قید اور قتل نہیں] بے شک ایک مومن خدا کے نزدیک اتنا قیمتی ہے کہ اسے بلی کی سزا نہیں ملتی۔ جب بھی آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرو تو احتیاط سے کام لیا کرو کہ آپ کیسے روایت کرتے ہیں!

الشيباني، أحمد بن حنبل أبو عبدالله، مسند الإمام أحمد بن حنبل،ج2، ص 519 و ج2، ص507، ناشر: مؤسسة قرطبة، قاهرة، شش جلدي، احاديث به همراه تعليقات دكتر شعيب الأرنؤوط

هيثمي، نور الدين علي بن أبي بكر، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، ج10، ص 311، ناشر: دار الفكر، بيروت – 1412 ق، 10 جلد

مندرجہ بالا دو اقتباسات کے سلسلے میں، کئی سوالات ہیں:

1: عائشہ کی تنقید کے مطابق، عمر، عبداللہ بن عمر اور ابو ہریرہ جیسے صحابہ نے سوال میں حدیث نبوی کو غلط نقل کیا ہے اورقید "اس عورت کا ایمان اور کفر” – جو روایت کو سمجھنے میں بہت اہم اثر ڈالتا ہے – انہوں نے حوالہ نہیں دیا ہے۔ اس بنا پر عائشہ، ابوہریرہ، عبداللہ بن عمر اور ان کے والد پر غلط فہمی یا خراب یادداشت یا حدیث بیان کرنے میں درستگی کا الزام ہے۔ اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کیا ہم ان تینوں صحابہ کی روایتوں کے دیگر واقعات پر اعتماد کر سکتے ہیں؟ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ بہت سی قیود کا مشاہدہ نہیں کیا گیا؟ یا انہوں نے روایت بیان کرنے میں خاطر خواہ توجہ نہیں دی؟!

دو: کیا آپ عائشہ کی تنقید کو قبول کرتے ہیں؟ کیا اس عورت کی جہنمی ہونے کی وجہ اس کا کفر ہے؟ کیا بلی کو مارنا اس عورت کو جہنم میں نہیں ڈالتا؟ ادھر عائشہ نے خود اعتراف کیا کہ بلی کو مارنا بھی اسے جہنم بنانے میں کارگر ہے۔ اگر اس عورت کے جہنم میں جانے کی وجہ صرف اس کا کفر ہے تو وہ ہر حال میں جہنم میں ہے اور بلی کو مارنے یا نہ مارنے کا اس کے جہنم میں داخل ہونے سے کوئی تعلق نہیں! اس کے باوجود عائشہ کی ابوہریرہ، عبداللہ بن عمر اور دوسرے خلیفہ پر تنقید سے عائشہ کی روایت کے بارے میں غلط فہمی ظاہر ہوتی ہے، اور وہ ان تینوں لوگوں کے بارے میں صحیح ہیں۔ عائشہ کی اس غلط فہمی سے کیا آپ ان سے اپنا فقہ اور دین حاصل کر سکتے ہیں؟!

3: کیا آپ یہ قبول کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایک شخص کو بلی کو مارنے پر جہنم میں لے جائے گا، جبکہ صحیح بخاری اور آپ کی دیگر روایات کی کتابوں میں بہت سی احادیث موجود ہیں؟ اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی گناہ کرتا ہے جیسے زنا، چوری، شراب نوشی وغیرہ۔ وہ صرف یہ کہہ کر جنت میں جائے گا کہ "لا اله الا الله”! مثال کے طور پر بخاری فرماتے ہیں:

5489 – حدثنا أبو معمر حدثنا عبد الوارث عن الحسين عن عبد الله بن بريدة عن يحيى بن يعمر حدثه أن أبا الأسود الديلي حدثه أن أبا ذر رضي الله عنه حدثه قال : أتيت النبي صلى الله عليه و سلم وعليه ثوب أبيض وهو نائم ثم أتيته وقد استيقظ فقال: ما من عبد قال لا إله إلا الله ثم مات على ذلك إلا دخل الجنة. قلت وإن زنى وإن سرق ؟ قال: وإن زنى وإن سرق . قلت وإن زنى وإن سرق ؟ قال: وإن زنى وإن سرق . قلت: وإن زنى وإن سرق ؟ قال وإن زنى وإن سرق على رغم أنف أبي ذر

ابوذر بیان کرتے ہیں کہ میں ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفید کپڑا اوڑھے سو رہے تھے۔ چند لمحوں کے بعد میں پھر اس کے پاس پہنچا جب وہ بیدار تھا تو انہوں نے کہا: کوئی بندہ ایسا نہیں جو کہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اسی پر مرتا ہے سوائے اس کے جو جنت میں داخل ہو گا۔ میں نے کہا: "چاہے وہ زنا اور چوری کرے؟” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: "چاہے وہ زنا کرے اور چاہے چوری کرے!” [دوبارہ حیرت سے] میں نے کہا: "چاہے وہ زنا اور چوری کرے؟” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "چاہے وہ زنا کرے اور چاہے چوری کرے!” [تیسری بار حیرت سے] میں نے کہا: "چاہے وہ زنا اور چوری کرے؟” اس نے کہا: ہاں! تیری مرضی کے خلاف چاہے وہ زنا کرے اور چاہے چوری کرے!

بخاري جعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله، الجامع الصحيح المختصر، ج 5، ص 2193، ناشر: دار ابن كثير ، اليمامة – بيروت، چاپ سوم، 1407 – 1987، شش جلدی، به همراه تعليق د. مصطفى ديب البغا

چار: تم نے دیکھا! اہلسنت کی احادیث کے مطابق خدا ایک کافر کو صرف ایک بلی کو مارنے کی بنا پر جہنم کی آگ میں بھیجے گا۔ لیکن دوسری طرف مسلمان کی طرف سے صرف "لا اله الا الله” کہنے سے، اسے جنت میں لے جایا جائے گا، چاہے اس کے پاس زنا، چوری، شراب نوشی وغیرہ کا سیاہ اور شرمناک عمل ہو۔ کیا چوری، زنا اور شراب پینا بدعنوانی اور بدصورتی ہے یا بلی کو مارنا؟ جن لوگوں کو زنا اور چوری سے نقصان پہنچا ہے ان کے حقوق کا کیا بنے گا؟ کیا زناکاروں اور چوروں کے لیے نقصان پہنچانے والوں کے حقوق کی تلافی کیے بغیر جنت میں داخل ہونا عدل، انصاف اور حکمت الٰہی سے مطابقت رکھتا ہے؟

سلفی اور وہابی جریان جو بہت سے اعمال و افعال کو ایمان اور کفر کی حقانیت میں شامل سمجھتے ہیں، ان کے پاس ان روایات کا کیا جواب ہے کہ یہ کہہ کر کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں، ان کا تعلق جنت سے ہے؟

پانچ: شیعہ علماء کے مقبول عقیدہ کے مطابق جہنم میں تنہائی کا اصل سبب کفر ہے۔ لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ جو لوگ جہنم میں ہمیشہ رہیں گے، ان کے اعمال کفر کی طرف لوٹ جائیں گے، اور درحقیقت یہ لوگ کافروں میں سے ہیں۔ اگر کوئی مومن ہے اور خدا کی معرفت رکھتا ہے تو وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں نہیں رہے گا، لیکن اگر وہ کسی وجہ سے جہنم میں چلا جائے، جیسے کہ انسانوں یا کسی جانور کے ساتھ ظلم کیا ہے تو سزا پانے اور پاک ہونے کے بعد، وہ رہا ہو کر جنت میں چلا جائےگا ہے۔

Continue Reading

علومِ حدیث

حدیث (روایت)

قول، فعل یا تقریرِ معصومؑ کو حدیث کہتے ہیں۔ اس کو خبر، سنت اور روایت سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔

حدیث کے لغوی معنی
عربی لغت کے قدیم ترین مصدر کتاب العین میں حدیث کا لغوی معنی ہر نئی اور جدید چیز کے وارد ہوئے ہیں، جیسے شَابٌ حَدَثٌ؛ یعنی نوجوان لڑکا، شابة حَدَثَة، یعنی نوجوان لڑکی۔ [۱] احمد بن فارس نے تحریر کیا ہے کہ حدیث کے اصلی حروف ح ـ د ـ ث ہیں جس کے لغوی معنی کسی چیز کے موجود نہ ہونے کے بعد رونما ہونے کے ہیں، مثلا کہا جاتا ہے کہ فلاں چیز موجود نہیں تھی پھر وہ وجود میں آئی۔[۲] ابن منظور بیان کرتے ہیں کہ ہر اس کلام کو حدیث کہتے ہیں جو بولنے والا زبان پر لاتا ہے، قرآن کریم کی آیت و اِذْ اَسَّرَ النّبیُ اِلی بَعْضِ اَزْواجِهِ حَدِیۡثاً؛ اور نبیؐ نے اپنی بعض ازواج کو جب رازدارانہ طور پر بات بتائی،[۳] میں لفظِ حدیث اسی معنی میں آیا ہے۔ [۴][۵]

مجمع البحرین میں فخر الدین طریحی نے بھی حدیث کو کلام کا مترادف قرار دیا ہے۔ [۶] فیومی کلمہ حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ بولی جانی والی اور نقل کی جانے والی چیزوں کو حدیث کہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ حدیثِ رسولؐ کو حدیث کہتے ہیں۔ [۷] معروف لغوی و نحوی فرّاء نے تحریر کیا ہے کہ حقیقت میں لفظِ احادیث کا مفرد کلمہِ أحدوثۃآتا ہے، اس لیے حدیث کو اس کی مفرد قرار دینا خلافِ قیاس ہے۔ صاحب کشاف نے احادیث کو اسم جمع قرار دیا ہے۔[۸] عصر حاضر کے بعض محققین نے کلمہ حدیث کے بارے میں علماء لغت کے اقوال نقل کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اس کلمہ کے معنی کسی چیز معدوم ہونے کے بعد وجود میں آنے کے ہیں، فرق نہیں پڑتا یہ جواہر و اعراض میں ایسا ہو یا اقوال وافعال میں۔ [۹] پس لغت کے اعتبار سے ہر نئی چیز کو جدید من الاشیاءحدیث کہتے ہیں۔ نیز اس چیز کو بھی حدیث کہتے ہیں جو عدم کے بعد وجود میں آئے، حدوث امر بعد ان لم یکن؛ یعنی کسی امر کا نہ ہونے کے بعد رونما ہونا۔ انہی لغوی معانی کی مناسبت سے ہر کلام پر حدیث کا اطلاق ہوتا ہے۔

← عبد اللہ مامقانی کی نگاہ میں

معروف رجالی عبد اللہ مامقانی لفظِ حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: وجود الشيء بعدما كان معدوما ضد القديم؛ حدیث یعنی شیء کے معدوم ہونے کے بعد اس کا موجود ہونا، قدیم کی ضد حدیث کہلاتی ہے، اسی طرح روایت میں وارد ہوا ہے: إیّاکم ومحدثات الامور؛ امور کے ایجاد کرنے سے بچو، ابن فارس نے تحریر کیا ہے کہ اس کا مطلب یہ بنے گا کہ اس کا مطلب ہے کہ اس سے بچو جو نہ کتاب میں ہے نہ سنت میں اور نہ ہی اجماع میں۔[۱۰][۱۱][۱۲][۱۳]

حدیث کے اصطلاحی معنی
علماء اور محدثین نے حدیث کی متعدد تعریفیں بیان کی ہیں۔ ذیل میں ہم حدیث کی چند اصطلاحی تعریفیں ملاحظہ کرتے ہیں:

← شہید ثانی کی نگاہ میں

شہید ثانی خبر اور حدیث کو مترادف قرار دینے کے بعدفرماتے ہیں کہ خبر سے مراد وہی حدیث ہے جس کا اطلاق قول رسولؐ، قولِ امامؑ ،قول صحابی اور قول تابعی پر ہوتا ہے، اسی طرح ان کے فعل اور تقریر کو بھی حدیث کہتے ہیں۔ واضح رہے کہ حدیث کا مذکورہ معنی زیادہ مشہور اور اس کے لغوی معنی کے ساتھ زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ [۱۴] یہ بات واضح ہے کہ شہید ثانی کی یہ تعریف حدیث کے لغوی معنی کو مدنظر رکھتے ہوئے کی گئی ہے اور اکثر علماء اہل سنت نے بھی حدیث کی یہی تعریف بیان کی ہے جس کے مطابق خبر اور حدیث آپس میں مترادف ہیں۔

← شیخ بہائی کی نگاہ میں

شیخ بہائی اپنے رسالہ الوجیزۃ میں حدیث کی اصطلاحی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: الحديث كلام يحكى قول المعصوم أو فعله أو تقريره؛ حدیث اس کلام کو کہتے ہیں جو معصومؑ کے قول کی حکایت کرے اور اس کے فعل کی اور اس کی تقریر کی۔ [۱۵] البتہ شیخ بہائی کی مذکورہ تعریف جامع اور مانع نہ ہونے کی بناء پر قابل اعتراض قرار دی گئی ہے۔ یہ تعریف اس اعتبار سے جامع نہیں ہے کیونکہ وہ احادیث جو بالمعنی نقل کی گئی ہیں وہ مذکورہ تعریف سے خارج ہو جاتی ہیں جبکہ انہیں حدیث شمار کیا جاتا ہے۔ اسی طرح یہ تعریف مانع نہیں ہے کیونکہ قدیم فقہاءِ امامیہ نے اپنی کتب میں متعدد احادیث معصومؑ کی اسانید کو حذف کر کے فتاوی و اقوال کی شکل میں تحریر کیا ہے۔ اب یہ اقوال اور فتاوی اگرچے احادیث بلا اسانید ہیں لیکن علمی طور پر فتاوی یا اقوال کہلاتے ہیں۔ شیخ بہائی کی مذکورہ تعریف قدماء کے اس نوعیت کے فتاوی اور اقوال کو بھی شامل ہو رہی ہے جبکہ اس کو حدیث کی تعریف سے خارج ہونا چاہیے۔ قدماء کی اس روش کے مصادیق ہمیں متعدد فقہی کتب میں نظر آتے ہیں، جیسے علی بن بابویہ کی شرائع، شیخ صدوق کی المقنع اور الہدایہ وغیرہ۔ شیخ بہائی حدیث کی تعریف کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ولو قيل الحديث قول أو حكاية قوله أو فعله أو تقريره لم يكن بعيدا وأمّا نفس الفعل والتّقرير عليهما اسم السّنة لا الحديث؛ اگرچے قول یا ان کے قول یا ان کے فعل یا ان کی تقریر سے حکایت کو حدیث کہا جاتا ہے، البتہ بذاتِ خود فعل اور تقریر ہر دو کو سنت کہتے ہیں نہ کہ حدیث۔ [۱۶]

← میرزا قمی کی نگاہ میں

میرزا قمی اصولی اعتبار سے حدیث کا جائزہ لیتے ہوئے نقل کرتے ہیں کہ قول ،فعل اور تقریر معصومؑ سے حکایت کو حدیث قرار دیا ہے۔[۱۷] آیت اللہ مامقانی نے بھی اپنی کتاب مقباس الہدایۃ میں حدیث کے بارے میں مختلف اقوال اور نظریات ذکر کرنے کے بعد تحریر کرتے ہیں: وذكر جمع من أصحابنا أن الحديث في الاصطلاح هو ما يحكي قول المعصوم أو فعله أو تقريره؛ ہمارے اصحاب کی ایک جماعت نے ذکر کیا ہے کہ اصطلاح میں حدیث سے مراد وہ ہے جو قولِ معصومؑ یا اس کے فعل یا اس کی تقریر سے حکایت کرے۔[۱۸] حدیث کی مذکورہ تعریف شیعہ علماء اور محدثین کے نزدیک صحیح اور مشہور ترین تعریف ہے۔

← جلال الدین سیوطی کی نگاہ میں

سیوطی نے علماء اور محدثین کی نظر میں حدیث کی تعریف اس طرح سے بیان کی ہے کہ رسول اللہؐ، صحابہ اور تابعین کے قول ،فعل اور تقریر کو حدیث کہتے ہیں۔ نیز ان علماء نے خبر کو حدیث کا مترادف قرار دیا ہے۔ چنانچہ حدیث اور خبر ہر دو کا اطلاق حدیث کی تینوں اقسام یعنی حدیث مرفوع (جو رسول اللہؐ کی طرف منسوب ہو)، حدیث موقوف (جو صحابی کی طرف منسوب ہو) اور حدیث مقطوع (جو تابعی کی طرف منسوب ہو) پر یکساں طور ہوتا ہے۔البتہ اہل سنت کے ہاں مذکورہ تعریف کے علاوہ دیگر تعریفیں بھی بیان کی گئی ہیں جن میں خبر اور حدیث میں فرق بھی بیان کیا گیا ہے۔ تدریب الراوی میں سیوطی نے ان تمام اقوال کو رقم کیا ہے جس کے بعد یہ تبصرہ کیا ہے کہ رسول اللہؐ کی طرف منسوب چیز کو حدیث کہتے ہیں، جبکہ ان کے علاوہ صحابی اور تابعین وغیرہ کی طرف منسوب چیزوں کو خبر کہا جاتا ہے۔ چنانچہ جو شخص سنت کے درس و تدریس اور نقل وکتابت میں مشغول ہو اس کو محدث کہا جاتا ہے اور تاریخ، واقعات اور حوادث کے نقل کرنے والے کو اخباری کہا جاتا ہے۔[۱۹][۲۰]

بعض اہل سنت محققین قائل ہیں کہ ابتداء میں حدیث کی اصطلاح کا اطلاق فقط رسول اللہؐ کے قول پر ہوتا تھا لیکن آپؐ کی رحلت کے بعد اس کے معنی میں وسعت آ گئی اور آنحضرتؐ سے منقول ہر چیز کو حدیث کہا جانے لگا۔ لہذا رسول اللہؐ کے قول، ان کے فعل اور تقریر کو حدیث سے تعبیر کیا جانے لگا۔ [۲۱] ابن حجر عسقلانی نے بیان کیا ہے کہ شریعت کی اصطلاح میں ہر وہ شیء جو رسول اللہؐ کی طرف منسوب ہو حدیث کہلاتی ہے اور آنحضرتؐ کے قول و فعل و تقریر وغیرہ کو حدیث کہنا درحقیقت قرآن اور حدیث میں فرق کرنے کی خاطر ہے۔ کیونکہ حدیث کی ضد قدیم ہے اور قرآن کریم قدیم ہے۔[۲۲]

حدیث کو حدیث کہنے کی وجہ تسمیہ

کلامی و حدیثی کتب میں وارد ہونے والے اقوال و آراء سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل سنت کے اکثر علماء قرآن کریم کے قدیم ہونے کے قائل ہیں۔ اس بناء پر انہوں نے قرآن کے مقابلے میں رسول اللہؐ کے توسط سے آنے والے احکام کو حدیث کہاہے۔ ان کی نظر میں چونکہ کلامِ الہی قدیم ہے اس لیے اس سے فرق کرنے کے لیے کلامِ رسولؐ کو حدیث کہہ دیا گیا ہے۔[۲۳] ممکن ہے کہ رسول اللہؐ اور امام کے قول کو بھی اسی وجہ سے حدیث کہہ دیا گیا ہو۔ کیونکہ معصومؑ کا قول الہی قوانین اور تشریعِ اسلامی کے اعتبار سے تازگی اور جدت کو لیے ہوئے ہے۔ نیز اسی معنی جدت، تازگی اور طروات کو ملاحظہ کرتے ہوئے خود قرآن کریم کو بعض آیاتِ مبارکہ میں حدیث کہا گیا ہے۔ درج ذیل آیات میں قرآن کریم کو حدیث سے تعبیر کیا گیا ہے:
۱۔ اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَديثِ؛ اللہ نے اس بہترین حدیث (کلام ) کو نازل کیا۔[۲۴]
۲۔ فَلْيَأْتُوا بِحَديثٍ مِثْلِهِ إِنْ كانُوا صادِقين‌؛ اگر وہ سچے ہیں تو انہیں چاہیے کہ وہ اس کی مثل کلام لے کر آئیں۔ [۲۵]
۳۔ فَبِأَيِّ حَديثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُون‌؛ اس کے بعد آخر وہ کس کلام پر ایمان لائیں گے۔ [۲۶]
۴۔ فَذَرْني‌ وَ مَنْ يُكَذِّبُ بِهذَا الْحَديثِ؛ جو اس حدیث (کلام) کا انکار کرتا ہے اسے آپ مجھے پر چھوڑ دیجیے۔ [۲۷]

← حدیث کو حدیث کہنے کی دیگر وجوہ

بعض[۲۸] نے یہ احتمال دیا ہے کہ حدیث میں چونکہ حروف قہری طور پر پے در پے اور یکے بعد دیگرے آتے ہیں اور بعد والا حرف پہلے والے حرف کے بعد وجود میں آتا ہے اس لیے اس کو حدیث کہہ دیا جاتا ہے۔ بعض نے یہ احتمال بھی دیا ہے کہ حدیث کو اس لیے حدیث کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے ذریعے سامع کے دل میں نئے علوم اور معانی ایجاد ہوتے ہیں۔ لیکن یہ بات محققین کی نظر میں درست نہیں ہے کیونکہ یہ بعض اہل سنت کا نظریہ ہے کہ حدیث میں چونکہ تازگی، طراوت اور جدت ہوتی ہے اس لیے اس کو حدیث کہا جاتا ہے یا کلامِ الہی قدیم ہے جس سے فرق کرنے کے لیے مقابل کلام کو حدیث کہا گیا ہے۔

← حدیث کا خبر کے معنی میں آنا

بعض اوقات حدیث خبر کے معنی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ لفظِ خبر سے مراد مُخۡبَر بِہِلیا جاتا ہے۔ تاج العروس میں خبر کی تعریف اس طرح سے وارد ہوئی ہے کہ دوسرے سے نقل کی جانے والی چیز کو خبر کہتے ہیں۔ اہل عرب نے اس میں لذاتہِ صدق اور کذب کی قید اضافہ کیا ہے۔ محدثین نے خبر کو حدیث کا مترادف قرار دیا ہے۔ [۲۹]

← قابل توجہ نکتہ

اس طرف توجہ رہنی چاہیے کہ علماءِ لغت عموما ایک لفظ کے مواردِ استعمال کو اپنی لغت کی کتابوں میں ذکر کرتے ہیں۔ لفظ کے استعمال میں ان کی توجہ اس طرف نہیں ہوتی کہ ایک لفظ کے لغوی معنی اور اس کے مصادیق میں کیا فرق ہے، چنانچہ وہ بعض اوقات مصادیق کو لغوی معنی قرار دے دیتے ہیں، مثلا خبر کا ظاہری طور پر معنی دوسر ے کو مطلع اور باخبر کرنا ہے، جیساکہ المصباح المنیر و المنجد وغیرہ مذکور ہے۔ اسی طرح الخَبِیۡرجوکہ اسماء الہی میں سے ہے کے معنی علم رکھنے والا بیان کیے گئے ہیں۔ یہی معنی قرآن کریم میں وارد ہوا ہے: وَكَيْفَ تَصْبِرُ عَلى‌ ما لَمْ تُحِطْ بِهِ خُبْرا؛ اور بھلا آپ کیسے اس پر صبر کر سکتے ہیں جس کے بارے میں آپ کو علم نہیں ہے۔[۳۰] مفسرین نے اس آیت کریمہ کی تفسیر خبر کا معنی علم کیا ہے۔ پس رسول اللہؐ کے قول کو خبر قرار دینا اس کے مضمون اور مُخۡبَر بِہِ(جس چیز کے بارے میں خبر دی گئی ہے) کی وجہ سے ہے۔

سنت کا حدیث کے ساتھ تعلق

قول ،فعل اور تقریر معصوم کو سنت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لفظِ سنت کے اصلی حروف س- ن – ن ہیں جس کے لغوی معنی پسندیدہ راستے کے ہیں۔ یہ کلمہ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر ذکر ہوا ہے، جیسے: فَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّـهِ تَبْدِیلاً؛ آپ ہر گز اللہ کی سنت میں تبدیلی نہیں پائیں گے۔ [۳۱]اسی طرح ایک اور آیت میں ارشاد ہوتا ہے: سُنَّةَ مَنْ قَدْ أَرْسَلْنا قَبْلَكَ مِنْ رُسُلِنا؛ آپ سے قبل ہم نے اپنے رسولوں میں سے جن کو بھیجا ان کی سنت۔[۳۲] بعض اوقات یہی کلمہ پسندیدہ راستے کی بجائے ناپسندیدہ چیزوں کے معنی میں بھی آتا ہے لیکن اس صورت میں کلام میں ایسا قرینہ قائم کرنا ضروری ہے جس کی وجہ سے ناپسندیدہ کا معنی لیا جا سکے، جیساکہ نبی اکرمؐ سے منقول ایک حدیث میں وارد ہوا ہے: وَمَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً سَيِّئَةً، فَعُمِلَ بِهَا بَعْدَهُ، كُتِبَ عَلَيْهِ مِثْلُ وِزْرِ مَنْ عَمِلَ بِهَا؛ اور جس نے اسلام میں بری سنت ایجاد کی پھر اس سنت کے مطابق عمل انجام دیا گیا ہے تو سنت ایجاد کرنے والے کے لیے وہی لکھ دیا جائے گا جو اس سنت پر عمل کرنے والے کے لیے قرار پایا ہے۔[۳۳] اس حدیث میں سنت کے لفظ کے ساتھ سیئہ کی قید ذکر کی گئی ہے۔

← لفظ سنت کا علم فقہ میں استعمال

محدثین کی اصطلاح میں سنت سے مراد معصومؑ کا راستہ اور ان کے اقوال وافعال وتقریرات ہیں، جیساکہ حدیث مبارک میں وارد ہوا ہے:مَنْ‌ رَغِبَ‌ عَنْ‌ سُنَّتِي‌ فَلَيْسَ مِنِّي‌؛ جس نے میری سنت سے روگردانی کی وہ مجھ سے نہیں ہے۔ [۳۴] اسی طرح علم فقہ میں لفظِ سنت اسی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ نیز علم فقہ میں سنت کا لفظ بدعی کے مقابل بھی استعمال ہوا جیساکہ طلاق کی اقسام ذکر کی جاتی ہیں: طلاقِ سنی اور طلاق بدعی۔ نیز لفظِ سنت بعض اوقات مستحب کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، مثلا کہتے ہیں کہ نماز میں قنوت سنت ہے۔ مذکور بیان کردہ مطالب سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ سنت کا اطلاق واجب اور مستحب ہر دو پر کیا جاسکتا ہے اور اسی معنی کو قول ،فعل اور تقریر معصومؑ کہتے ہیں۔ نیز اس کو خبر، حدیث اور روایت سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ چنانچہ بعض علماء نے اپنی حدیث کی کتابوں کے نام سنن رکھے ہیں، جیسے سنن نسائی، سنن ابن ماجہ، سنن بیہقی وغیرہ۔

روایت کا حدیث کے ساتھ تعلق

فخر الدین طریحی نے مجمع البحرین میں ذکر کیا ہے کہ اصطلاح میں روایت اس خبر کو کہتے ہیں جس کی نسبت معصومؑ پر ختم ہو۔ روایت لغت کے لحاظ سے روی البعیر الماء ای حملهسے ماخوذ ہے جس کے معنی اٹھانے اور نقل کرنے کے ہیں۔ اور روای کو راوی کہنے کی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ حامل اور ناقل حدیث ہوتا ہے۔ [۳۵]اسی طرح وہ سب معانی جو رویکے مادہ سے ماخوذ ہیں حمل و نقل کے ساتھ مناسبت رکھتے ہیں، جیساکہ ریانسیراب ہونے کے معنی میں آتا ہے،یوم الترویۃاس دن کو کہتے ہیں جو دن حاجی حضرات اپنا کھانا پینا اٹھا کر میدان عرفات میں گزارتے ہیں۔ امیر المومنینؑ کا خطبہ شقشقیہ میں وارد ہوا ہے: وَطَفِقْتُ أَرْتَئِي‌ بَيْنَ‌ أَنْ أَصُولَ بِيَدٍ جَذَّاء أی تفکرت فی الامر فوجدت الصبر اولی؛ یعنی میں نے اس امر میں خوب تفکر کیا اور صبر کرنے کو سب سے بہتر پایا۔ [۳۶] امام علیؑ کے کلام لفظ أَرۡتَائِیوارد ہوا ہے جس کا معنی فکر کو اٹھانا اور حمل کرنا ہے۔ پس روایت کے معنی کھانا پینا ، زاد راہ اور فکر ونظر اور حدیث اٹھانے اور نقل کرنے کے ہیں۔

حدیث کا اثر کے ساتھ تعلق

اثر عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی جوہری نے ان الفاظ میں ذکر کیے ہیں: اثرت الحدیث اذا ذکرته غیرک. و منه قیل حدیث مأثور ای ینقله خلف عن سلف؛ اثرت الحدیث یعنی جب آپ نے اپنے غیر کا ذکر کیا، اسی سے کہا جاتا ہے: حدیثِ مأثور یعنی وہ حدیث جس کو بعد والوں نے اسلاف سے نقل کیا ہے۔[۳۷]

صاحب قاموس تحریر کرتے ہیں کہ نقل الحدیث و روایتهیعنی حدیث کو نقل اور روایت کرنا۔ المنجد اور مجمع البحرین میں بھی یہی معنی بیان کیے گئے ہیں۔ شیخ بہائی اپنی کتاب الوجیزہ میں فرماتے ہیں کہ حدیث کا مترادف اثر ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اثر کا معنی حدیث سے وسیع تر ہے ۔ بعض دیگر نے اثر کو صحابہ کے ساتھ مختص کیا ہے اور حدیث کو رسول اللہؐ کے ساتھ۔ لیکن اثر کے لغوی اور اصطلاحی معنی ایک ہی ہیں، کیونکہ اس کے استعمال کے موارد اور مصادیق سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے معنی کسی چیز کے باقی ماندہ کے ہیں۔ اس لحاظ سے علم حدیث میں اثر کے معنی اسلاف اور بالخصوص رسول اللہؐ کے اقوال اور افعال کے باقی ماندہ کے ہوں گے۔ [۳۸]

تحمل حدیث کے صیغے

لفظِ حدیث کو باب تفعیل میں استعمال کیا جاتا ہے، مثلا حَدّثَهُ بکذا وَحَدَّثَه کذا أَی أَخۡبَرَهُ بِهِ؛ میں اس کو فلاں کے متعلق بتایا یعنی میں اس کو اس کی خبر دی۔ اسی طرح کلمہِ خبر ہے لیکن لفظِ خبر باب افعال اور باب تفعیل ہر دو ابواب سے آتا ہے، مثلا خَبَّرَه و أَخۡبَرَه الشیء أی أنباه به۔ راوی جب اپنے شیخ سے حدیث سننے میں تنہا ہو تو وہ حَدَّثَنِیکہہ کر حدیث ذکر کرتا ہے۔ نیز اگر سننے والے اس کے علاوہ دیگر افراد بھی ہوں تو اس صورت میں راوی حَدَّثَنَاکہہ کر حدیث نقل کرتا ہے۔ اسی طرح کلمہ أخبرکو مفرد ہونے کی صورت میں راوی أَخۡبَرَنِیکہہ کر نقل کرتا ہے۔ لیکن جمع کی صورت میں أَخۡبَرَنَاکہہ کر حدیث کو نقل کرتا ہت۔ جوامعِ حدیثی جیسے کتبِ اربعہ وغیرہ معصومینؑ کے زمانے کے بعد تدوین ہوئی ہیں جس کی وجہ سے ایک حدیث ان کتب کے مؤلفین تک کئی واسطوں کے ذریعے پہنچتی ہے۔ لہذا راوی یا حدیث نقل کرنے والا جب حدیث بیان کرتا ہے تو حدّثنااور أَخۡبَرَنایا حدّثنییا أَخبرنیوغیرہ کہہ کر نقل کرتا ہے۔

تحدیث کے صیغوں کو مختصر کرنے کا طریقہ

متقدمین کی روش یہ تھی کہ وہ حَدَّثَنَا وأَخۡبَرَنَاوغیرہ کو مکمل لکھتے تھے لیکن متاخرین نے اپنی کتب حدیث میں ان کلمات کو مختصر کر کے ان کے لئے رموز اور اشارات استعمال کیے ہیں، جیسے : حدّثنامیں (ثنا) یا فقط ( نا ) لکھتے ہیں اور أَخۡبَرَنَامیں (انا) استعمال کرتے ہیں۔

تحویل سند کی علامت

کوئی محدث جب کسی حدیث کو دو یا دو سے زیادہ اسانید کے ساتھ نقل کرتا ہے تو وہ ایک سند سے دوسری سند کی طرف منتقل ہونے کی صورت میں (ح) لکھے گا جو حیلولہ ،تحویل یا انتقال پر دلالت کرے گا۔ اسی طرح سند میں (قال )جو تکرار ہوتا ہے اسکو حذف کردیا جاتا ہے اورفقط ایک (قال)کو باقی رہنے دیا جاتا ہے جیسے: محمد بن یعقوب قال، حدثنی علی بن ابراهیم قال، قال حدثنی أَبِي ابراهیم بن هاشم…اس قسم کی اسانید میں عموما پہلے قَالَکو حذف کر دیا جاتا ہے ۔

سند کے فقط آخری راوی کو ذکر کرنے کا طریقہ

محدثین حدیث کو مختصر کرنے کیلئے ایک اور طریقے کو بروئے کار لاتے ہیں وہ یہ کہ حدیث کو نقل کرنے والے راویوں میں سے فقط آخری راوی کا نام ذکر کرلیتے ہیں اسکے بعد متن ذکر کرتے ہیں باقی ماندہ سند کو ذکر نہیں کرتے ،جیسے : صحیحہ زرارہ ، صحیحہ محمد بن مسلم ، یا موثقہ سکونی وغیرہ۔ واضح رہے اس طریقہ کے مطابق نقل ہونے والی احادیث ایک جیسے نہیں ہوتی بلکہ ممکن ہے اسطرح منقول حدیث متصل اور مسند ہو اور ممکن ہے مرسل اور ضعیف کے حکم میں ہو ، یعنی اگر حدیث مشہور کتب جیسے کتب اربعہ سے منقول ہو تو مسند اور متصل شمار ہوگی اور انکے علاوہ دیگر کتب سے منقول ہو تو مرسل شمار ہوگی ۔ اختصار سند کی خاطر محدثین کے ہاں ایک اور طریقہ بھی رائج ہے وہ یہ کہ اگر متعدد احادیث ایک ہی راوی سے منقول ہوں تو پہلی حدیث میں پوری سند کو ذکر کردی جاتی ہے اسکے بعدوالی احادیث میں فقط و بهذا الاسنادکہہ کردوبارہ سند کا تکرار نہیں کیا جاتا۔ اختصار سند کے بارے میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے اسکا مشاہدہ شیخ صدوق کی کتاب من لا یحضرہ الفقیہ اور شیخ طوسی کی تہذیب الأحکام میں واضح طور کیا جا سکتا ہے۔

کتب اربعہ میں اسانید ذکر کرنے کی روش

صاحب معالم فرماتے ہیں کہ یہ بات جاننا ضروری ہے کہ کتب اربعہ کے مصنفین کی سند ذکر کرنے کی روش ایک جیسی نہیں ہے بلکہ ہر ایک نے اسانید ذکر کرنے کے لئے ایک خاص طریقہ اختیار کیا ہے، مثلا ثقۃ الاسلام کلینی پوری سند کو ذکر کرتے ہیں۔ البتہ اگر حدیث معنی کے اعتبار سے یکساں ہوں جوکہ متعدد اسانید کے ساتھ ایک ہی مقام پر وارد ہوئی ہے تو شیخ کلینی ما قبل حدیث کی سند پر اکتفا کرتے ہیں۔ شیخ صدوق اکثر و بیشتر احادیث کو بغیر سند اور مرسل ذکر کرتے ہیں لیکن اپنی کتاب کے آخر میں مشیخہ کے نام سے انہوں نے تمام راویوں کو ذکر کر دیا ہے جس کتاب میں موجود ہر حدیث کی کامل سند میسر آ جاتی ہے۔

شیخ طوسیؒ کی روش شیخ کلینیؒ اور شیخ طوسیؒ دونوں سے مختلف ہے یعنی وہ کبھی پوری سند کو ذکر کرتے ہیں اور کھبی کھبار سند کے کچھ حصے کو ذکر کرتے ہیں اور اسکے ابتداء کو حذف کرتے ہیں جسکو حدیث کی اصطلاح میں( تعلیق) کہتے ہیں ، لیکن شیخ طوسی ؒنے تہذیب الاحکام اور الاستبصار میں اس بات کی وضاحت کی ہے کہ جس حدیث کی سند کے پہلے حصہ کو ذکر نہیں کیا ہے وہ اسی صاحب کتاب کی جانب سے ہے کہ جسکی کتاب سے مذکورہ حدیث اخذ کی گئی ہے ،اور اپنی کتاب فہرست میں اصحاب کتب حدیث تک اپنی سند اور طریق کو بیان کیا ہے۔[۳۹] صاحب معالم نے بھی اپنی کتاب منتقی الجمان میں شیخ طوسیؒ کی اصحاب کتب اور اصول حدیث تک طریق اور سند کو تفصیل سے ذکر کیا ہے۔

حوالہ جات
۱. ↑ فراہیدی، خلیل، کتاب العین، ج ۳، ص ۱۷۷۔
۲. ↑ ابن فارس، احمد بن فارس، معجم مقاییس اللغۃ، ج ۲، ص ۳۶۔
۳. ↑ تحریم/سوره۶۶، آیت ۳۔
۴. ↑ ابن منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، ج ۹، ص ۲۳۷۔
۵. ↑ طبرسی، فضل بن حسن، مجمع‌ البیان، ج ۱۰، ص ۵۸۔
۶. ↑ طریحی، فخر الدین بن محمد، مجمع البحرین، ج ۱، ص ۴۷۰۔
۷. ↑ فیومی، احمد بن محمد، المصباح المنیر، ج ۱، ص ۶۸۔
۸. ↑ قاسمی، جمال‌ الدین، قواعد التحدیث، ص۶۱۔
۹. ↑ مصطفوی، حسن، التحقیق فی کلمات القرآن، ج ۲، ص ۱۷۷۔
۱۰. ↑ مامقانی، عبد الله، مقباس الہدایۃ، ج ۱، ص ۵۶۔
۱۱. ↑ طریحی، فخر الدین بن محمد، مجمع البحرین، ج ۱، ص ۳۷۰۔
۱۲. ↑ ابن اثیر، مبارک بن محمد، النہایۃ فی غریب الحدیث والاثر، ج ۱، ص ۳۵۰۔
۱۳. ↑ ابن فارس، احمد بن فارس، معجم مقاییس اللغۃ، ج ۲، ص ۳۶۔
۱۴. ↑ شہید ثانی، علی بن احمد، الرعایۃ فی علم الدرایۃ، ص ۵۰۔
۱۵. ↑ شیخ بہائی، محمد بن حسین، الوجیزہ فی الدرایۃ، ص ۴۔
۱۶. ↑ شیخ بہائی، محمد بن حسین، الوجیزة فی الدرایۃ، ص ۴۔
۱۷. ↑ میرزا قمی، ابو القاسم بن محمد، قوانین الاصول، ص ۴۰۹۔
۱۸. ↑ مامقانی، عبد الله، مقباس الهدایة، ج ۱، ص ۵۷۔
۱۹. ↑ سیوطی، عبد الرحمن بن ابی بکر، تدریب الراوی، ج ۱، ص ۲۳۔
۲۰. ↑ شہید ثانی، علی بن احمد، الرعایۃ فی علم الدرایہ، ص ۵۰۔
۲۱. ↑ عبد المجید، محمود، الاتجاہات الفقہیہ عند اصحاب الحدیث فی القرن الثالث الہجری، ص ۱۲-۱۳۔
۲۲. ↑ عسقلانی، ابن حجر، فتح الباری فی شرح صحیح البخاری، ج ۱، ص ۱۷۳۔
۲۳. ↑ عسقلانی، ابن حجر، فتح الباری فی شرح صحیح البخاری، ج ۱، ص ۱۷۳۔
۲۴. ↑ زمر/سوره ۳۹، آیت ۲۳۔
۲۵. ↑ طور/سوره ۵۲، آیت ۳۴۔
۲۶. ↑ مرسلات/سوره ۷۷، آیت ۵۰۔
۲۷. ↑ القلم/سوره ۶۸، آیت ۴۴۔
۲۸. ↑ قاسمی، جمال‌ الدین، قواعد التحدیث، ص ۶۱۔
۲۹. ↑ زببدی، مرتضی، تاج العروس، ج ۱۱، ص ۱۲۵۔
۳۰. ↑ کہف/سوره ۱۸، آیت ۶۸۔
۳۱. ↑ فاطر/ سوره ۳۵، آیت ۴۳۔
۳۲. ↑ اسراء/سوره ۱۷، آیت ۷۷۔
۳۳. ↑ نیشاپوری، مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، ج ۴، ص ۲۰۵۹۔
۳۴. ↑ محدث نوری، حسین بن محمد، مستدرک الوسائل، ج ۳، ص ۲۸۹۔
۳۵. ↑ طریحی، فخر الدین، مجمع البحرین، ج ۲، ص ۲۵۶۔
۳۶. ↑ عبده، محمد، شرح نہج‌ البلاغۃ، ج۱، ص۲۶۔
۳۷. ↑ جوہری، اسماعیل بن حماد، الصحاح تاج اللغۃ، ج ۲، ص ۵۷۴۔
۳۸. ↑ شیخ بہائی، محمد بن حسین، الوجیزۃ، ص ۴۔
۳۹. ↑ عاملی، حسن بن زین العابدین، منتقی الجمان، ج۱، ص ۲۱۔

Continue Reading

Newsletter

Get the best tech deals, reviews, product advice, competitions, unmissable tech news and more!

زیادہ پڑھے جانے والی پوسٹس