ایک تاریخی حقیقت ہے کہ عمر بن خطاب  نے حضرت زھراء سلام اللہ علیہا کے دروازے پہ یہ جرات کی تھی جو روایات اس پورے واقعہ کے بارے میں آئی ہیں ان کی چند اقسام یہ ہیں

کچھ روایات آپ کے درِ اقدس پہ ہجوم کو بیان کرتی ہیں

طبری اپنی سند سے نقل کرتے ہیں کہ زیاد بن کلیب کہتا ہے:

ذكرالطبري: باسناده عن زياد بن كليب قال: أتي عمر بن الخطاب منزل عليّ وفيه طلحة والزبير ورجال من المهاجرين فقال: واللّه لأحرقنّ عليكم أو لتخرجنّ إلي البيعة»، فخرج عليه الزبير مصلتاً بالسيف فعثر فسقط السيف من بده فوثبوا عليه فأخذوه

عمر بن خطاب، حضرت علی علیہ السلام کے گھر پہ آیا جہاں گھر طلحہ، زبیر اور کچھ  مہاجرین موجود تھے۔ عمر بولا اللہ کی قسم میں گھرمیں تم پہ آگ لگا دونگا اگر باہر نکل کے ہماری بیعت نہیں کرو گے، پس حضرت زبیر تلوار لہراتے باہر نکلے لڑکھڑائے اور ان کے ہاتھ سے تلوار گر گئی تو لوگوں نے آگے بڑھ کر انہیں پکڑ لیا ۔

تاریخ طبری، جلد 2 ص 443

ابن ابی الحدید نے سلمہ بن عبد الرحمن سے نقل کیا کہ

وابن أبي الحديد: عن سلمة بن عبد الرحمان قال: فجاءعمر اليهم فقال: «والذي نفسي بيده لتخرجنّ إلي البيعة أو لأحرقنّ البيت عليكم .

عمر بن  خطاب ان کی طرف آیا اور کہنے لگا؛ خدا کی قسم یا تو تم لوگ بیعت کے لیے نکل آؤ یا میں تمہارے گھر کو آگ لگا دونگا ۔۔

شرح نہج البلاغہ، جلد 1ص 174 اور جلد 2 ص 45

کچھ روایات یہ بتاتی ہیں کہ عمرلکڑیاں اور آگ لے کر حضرت خاتون جنت سلام اللہ علیہا  کے دروازے پہ آیا اور ہجوم کے وقت لوگوں نے رکنے کی بھی پرواہ نہیں کی ( مطلب گھر جو جلا دیا )

ابن قتیبہ دینوری کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب نے کہا

وقال عمر: والذي نفس عمر بيده لتخرجنّ أو لأحرقنّها علي من فيها! فقيل له: يا أباحفص إنّ فيها فاطمة!! فقال: وإن

خدا کی قسم یا تم باہرآؤ یا میں علیؑ اور علیؑ کے ساتھ جتنے لوگ ہیں سب کو جلا دونگا کہا گیا کہ اے خطاب کے بیٹے اسی گھر میں فاطمہؑ بھی ہیں تو کہنے لگا چاہے فاطمہ بھی ہوں ( یعنی پھر بھی آگ لگا دونگا)

الامامہ والسیاسہ جلد 1 ص 12 ،اعلام النساء لعمر رضاکحالہ جلد 4 ص114

بعض یہ کہتی ہیں کہ عمراور سیدہ زھراء سلام اللہ علیہا کے درمیان صرف لفظی تلخ کلامی ہوئی

بلاذری اپنی اسناد سے سلیمان تیمی اور بن عون سے نقل کرتے ہیں کہ

إنّ أبابكر أرسل إلي علي(عليه السلام)يريد البيعة فلم يبايع، فجاء عمر ومعه فتيلة فتلقّته فاطمة علي الباب، فقالت فاطمة: يابن الخطاب! أتراك محرقاً عليّ بابي؟ قال نعم: وذلك أقوي فيما جاء به أبوك.

حضرت ابوبکر نے حضرت علیؑ کی طرف بندہ بھیجا کہ آکے ہماری بیعت کریں مگر علی علیہ السلام نے بیعت نہیں کی پس عمر آیا تو اس کے ہاتھ میں جلتا شعلہ تھا کہ دروازے پہ ان سے جناب زھراء ملی حضرت زھراء سلام اللہ علیہا نے کہا اے عمر کیا تو ہمارے گھر کو آگ لگا دے گا ؟ تو عمر بولا ہاں  ضرور آگ لگاؤں کا اور یہ قوی ہے اس میں جو آپ کے بابا لائے ۔

الانساب الاشراف جلد1 ص586

ابولفداء لکھتے ہیں

فأقبل عمر بشيء من نار علي أن يضرم الدار، فلقيته فاطمة رضي اللّه عنها وقالت: إلي أين يابن الخطاب؟ أجئت لتحرق دارنا؟ قال: نعم.

عمر بن خطاب اگے بڑھا اس کے ہاتھ میں گھر جلانے کا سامان تھا کہ اس سے جناب سیدہؑ نے کہا کہ اے عمر کہاں آیے ہو کیا تم اس لیے آئے ہو کہ گھرکو جلا دو تو عمر نے کہا ہاں میں گھر کو جلانے آیا ہوں ۔

تاریخ ابولفداء جلد 1 ص 164

ابن عبد البر لکھتے ہیں کہ

الذين تخلّفوا عن بيعة أبي بكر: عليّ والعباس، والزبير، وسعد بن عبادة، فأمّا علي والعباس والزبير فقعدوا في بيت فاطمة حتّي بعث اليهم أبو بكر عمر بن الخطاب ليخرجوا من بيت فاطمة وقال له: إن أبوا فقاتلهم. فأقبل عمر بقبس من نار علي أن يضرم عليهم الدار فلقيته فاطمة فقالت: يابن الخطاب! أجئت لتحرق دارنا؟ قال: نعم

وہ لوگ جنہوں نے ابوبکر کی بیعت نہیں کی وہ حضرت علیؑ ،عباس ،زبیر ،سعد بن عبادہ تھے حضرت علیؑ، عباس اور زبیر حضرت علی علیہ السلام کے گھر میں بیٹھے تھے کہ ابوبکر نے عمر کو بھیجا کہ گھر سے باہر آئیں اور ساتھ یہ بھی کہا کہ اگر وہ نکلنے سے انکار کردیں تو انہیں قتل کردینا پس عمر بن خطاب آیا اوراس کے ہاتھ میں جلتے شعلے تھے پس اس سے حضرت زھراء کی دروازے پہ ملی اور کہا اے ابن خطاب تو ہمارے گھر کو جلانے آیا ہے تو عمر کہنےلگے ہاں ۔
العقد الفرید جلد 5 ص 12 طبعہ مکتبہ الریاض الحدیثہ

کچھ یہ بتاتی ہیں کہ عمر نے حضرت زھراء کو مارا

شہرستانی، جاحظ سے نقل کرتے ہیں

إنّ عمر ضرب بطن فاطمة عليها السلام يوم البيعة حتّي ألقت الجنين من بطنها وكان عمر يصيح: إحرقوا دارها بمن فيها، وماكان في الدار غير عليّ وفاطمة والحسن والحسين وزينب(عليهم السلام).

عمر بن خطاب نے بیعت والے دن حضرت زھراء کے بطن اطہر پہ ضرب ماری کہ اس کے سبب ان کا بچہ سقط ہو گیا اور عمر چلا رہے تھے کہ گھر کو گھر والوں سمیت آگ لگاؤ اور گھر میں علی، فاطمہ، حسن، حسین اور زینب علیھم السلام موجود تھے ۔

الملل والنحل جلد 1 ص 57 طبعہ بیروت دار المعرفۃ

مسعودی کہتے ہیں

فهجموا عليه وأحرقوا بابه، واستخرجواه منه كرهاً، وضغطوا سيّدة النساء بالباب حتّي أسقطت محسناً.

لوگ اس گھر پہ جمع ہوئے اور دروازے کو آگ لگا دی علیؑ کو زبردستی باہر نکالا اور دروازہ سیدہؑ پہ گرایا کہ ان کا محسن نامی بچہ سقط ہو گیا۔

اثبات الوصیہ 143

ابن حجر کہتے ہیں

إنّ عمر رفس فاطمة حتّي أسقطت بمحسن

عمر بن خطاب  نے سیدہ زھراء کو ٹھوکر ماری ( استغفرُللہ ۔۔۔) کہ آپ کا محسن سقط ہوگیا ۔

لسان المیزان جلد 1 ص 268

صفدی کہتے ہیں

إنّ عمر ضرب بطن فاطمة يوم البيعة حتّي ألقت المحسن من بطنها

عمر بن خطاب نے سیدہ زھراء کے بطن اطہر پہ ضرب ماری کہ ان کا محسن سقط ہو گیا ۔

الوافی بالوفیات جلد 5 ص 347

اور یہ روایت اہل سنت کی کتب میں کئی طرق سے آئی ہے کہ پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ نے حضرت زھراء کے لیے فرمایا ۔اللہ تعالیٰ فاطمہ کی رضا میں راضی اور فاطمہؑ کے غضب میں غضبناک ہوتا ہے ۔

عن علي رضي اللّه عنه قال: قال رسول اللّه صلي اللّه عليه وآله وسلم لفاطمة: «إنّ اللّه يغضب لغضبك، ويرضي لرضاك . هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه

  • حضرت علیؑ سے روایت ہے کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا اے فاطمہ اللہ تیرے غضب سے غضبناک اور تیرہ رضا میں راضی ہے ۔المستدرک جلد 3 ص 153
  • جمع الزوائد جلد 9 ص 203
  • الآحاد والمثانی لضحاک جلد 5 ص 363
  • الذریہ الطاہرہ النبویہ لدولابی 119
  • المعجم الکبیر للطبرانی جلد 1 ص 108 ، جلد 22ص 401
  • نظم درر السمطین لزرندی الحنفی ص 178
  • الکامل لعبد اللہ بن عدی جلد 2 ص 351
  • تاریخ مدینہ و دمشق جلد 3 ص 156
  • اسد الغابہ جلد جلد 5 ص 522
  • تاریخ بغداد جلد 2 ص 140 ،ص141
  • میزان الاعتدال جلد 2 ص 492
  • اصابہ جلد 8 ص 265,266
  • تھذیب التھذیب جلد 22 ص 392
  • سبل الھدی والرشاد لصالحی الشامی جلد 11 ص 44

مسور بن مخرمہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ فاطمہؑ میرا حصہ ہے جس نے اسے اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی

صحیح بخاری جلد 4 ص 210 ،(710 ح 3714 ) کتاب فضائل الصحابہ باب 15 باب فضائل فاطمہ بنت النبی علیھا الصلاہ والسلام۔

اور یہ تاریخی مسلم حقیقت ہے کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا خلیفہ ثانی اور ان کے مددگاروں پہ غضبناک اس دنیا سے گئیں

بخاری روایت کرتے ہیں کہ فاطمہ زھراء سلام اللہ علیہا ابو بکر پہ غضبناک ہوئی اور دربار سے چلی گئی مرتے دم تک ابوبکر سے کلام نہیں کیا

بخاری جلد 4 ص 42 ش 2862

ابن قتیبہ کی نقل کے مطابق حضرت زھراء سلام اللہ علیہا نے ان دونوں ( ابوبکر و عمر ) کو کہا کہ میں ہر نماز پہ بعد تمہارے لیے بد دعا کرونگی ۔۔

خدا کی قسم میں نماز کے بعد تمہارے لیے بد دعا کرونگی۔

الامامہ والسیاسہ جلد 1 ص31 تحقیق الشیری

جہاں تک شیعہ مصادر کا تعلق ہے تو شیعہ مصادر میں یہ قضیہ مسلمات میں سے ہے ہم صرف ایک روایت کے ذکر پہ اکتفاء کرتے ہیں ۔۔

حضرت زھراء سلام اللہ علیہا کی وفات کا سبب یہ ہے کہ عمر کے غلام قنفذ نے عمر کے حکم سے تلوار کی میان سے آپ کو ضرب ماری محسنؑ شھید ہوگئے اور آپ اس وجہ سے شدید بیمار ہوئیں آپ کو اذیت دینے والے آپ کے پاس آتے بھی تو آپ ان سے کلام نہ کرتیں ۔

دلائل الامامہ جلد 2 ،دلائل سے ہی بحار میں نقل ہوا بحار الانوار جلد 8 ص 230 ، 232 (ط کمپانی ) جلد 30 ص 290تا 295 ، مثالب النواصب ص 371,374 ،418,419 , الصراط المستقیم جلد 3 ص 25 ، مطارح النظر فی شرح الباب حادی عشر 109

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے