سوال ۔ علماء امامیہ کے نزدیک کتاب شرح نہج البلاغہ لابن ابی الحدید المعتزلی کی کیا حیثیت ہے ؟؟

الجواب : السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

ابن ابی الحدید ،اصول (اعتقادات ) میں معتزلی اور فروع (فقہ ) میں حنفی ہے اور اس کی کتاب شرح نہج البلاغہ تمام شروحات میں بہترین اور عمدہ ہے اس میں ان گنت فوائد علمی ہیں مگر بعض چیزیں ایسی بھی تحریر کی ہیں جن سے موافقت نہیں ہوسکتی ۔اس کتاب میں ابن ابی حدید نے مردود روایات کو بھی نقل کر دیا  ہے اور غیر مقبول اقوال سے احتجاج بھی کیا اور ہمارے بزرگ علماء پر رد بھی کیا جیسے سید مرتضی علم الہدی (رح) کی وہ مباحثِ کلامیہ جن کا تعلق امامت کے ساتھ ہے ۔

ـــــــــــــــــــــــــ

سوال : کیا شرح نہج البلاغہ لابن ابی الحدید المعتزلی میں موجود عبارات سے اہل سنت پہ احتجاج کرنا درست ہے ؟؟؟ کیونکہ بعض کلامی اور اعتقادی کتب میں ایسا دیکھنے کو ملا ہے اور دوسری طرف کیا علماء امامیہ پہ اس کے ذریعے احتجاج کرنا درست ہے ؟؟ کیونکہ بہت سارے لوگوں نے جیسے  احسان الٰہی ظہیر ( اگرچہ اس نے بہت سارے حقائق کو چھپایا) اس کے ذریعے علماء امامیہ پہ احتجاج کیا ۔پس فرمائیے کہ اہل سنت پہ احتجاج کیسے درست ہے اور اگر کوئی اس کے ذریعے اہل تشیع پہ حجت قائم کرے تو اسکی حیثیت کیا ہے  ۔بہت بہت شکریہ

جواب ۔۔

علم مناظرہ میں ایک قاعدہ کلیہ اور منہج ہے جسے منہج التزام کہا جاتا ہے ( یعنی جس کا مدِ مقابل گروہ پہلے سے ملتزم ہو اُسی سے استناد اور دلیل پیش کرنا )۔ اور التزام کے کئی طرق اور مراتب ہیں ان طرق میں سے ایک طریقہ مدمقابل کو وہ دلائل پیش کرنا  ہیں جو اس کے مذھب کے علماء نے تحریر کیے ہوں اور یہ طریقہ تب قابل قبول ہوتا ہے جب  مدمقابل اور عالم ( جس کی کتاب سے روایت پیش کی جا رہی ہے ) کا مذھب ایک ہو ۔

اور یہ بات ثابت اور مسلم ہے کہ ابن ابی الحدید اعتقادات میں معتزلی تھا اور فقہ و فروع میں حنفی ہے پس علماء شیعہ کے لیے اس کی کتب سے اہل سنت پہ احتجاج کرنا درست ہے کیونکہ یہ طے ہے کہ وہ اہل سنت میں سے تھا ۔پس اس سے یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ مخالف کا اس کی کتب سے احتجاج کرنا درست نہیں ہے اگرچہ اس کا شمار تاریخ و ادب میں ان علماء میں سے ہوتا ہے جو معتدل مزاج اور غیر متعصب تھے پس واضح ہوا کہ شرح نہج البلاغہ سے اہل تشیع پہ احتجاج کرنا علمی طریقہ کار نہیں ہے اور جو احسان الٰہی ظہیر نے کیا وہ انتہائی غیر علمی ہے کیونکہ اس کا مذھب شیعہ نہیں تھا۔ احسان الٰہی ظہیر اس نکتہ اور مغالطہ کی طرف متوجہ تھا اسی لیے وہ اور اسکے پیروکار بن ابی الحدید المعتزلی کے شیعہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور ان عبارتوں سے تمسک کرتے ہیں جو علماء شیعہ بطور دلیل پیش کرتے ہیں حوادث اور واقعات وغیرہ جہاں کہیں بھی ابن حدید نے انصاف کی باتیں کی ہیں احسان الٰہی ظہیر اور اس کے پیروکار اسی کی بنیاد پہ اس کو شیعہ کہتے ہیں جبکہ کسی شخص کے شیعہ ہونے کےلئے کافی نہیں ہے جبکہ علماء نے اس کی حالات زندگی میں اس کا مذھب ذکر کیا اور اس نے اپنی کتاب میں بھی اپنی مذھب کی تصریح کردی ۔

ــــــــــــــــــــــــــــــ

جواب پہ تعلیقہ

سوال: ابن ابی الحدید کا شمار بغداد کے معتزلی علماء میں ہوتا ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کے بعد  مولا علی علیہ السلام کی تمام امت پہ افضلیت کے قائل ہیں اور جہاں تک اس کے فقہی نکتہ نظر کا تعلق ہے تو وہ فروع میں  شافعی مسلک کا پیروکار تھا اور  شرح نہج البلاغہ کو غور سے پڑھنے والا یہ بات دیکھے گا کہ اس کو اہل بیت ؑ اور امیر المومنین علی علیہ السلام سے محبت اور ولاء تھی  اور اہل بیت اطہار ؑ کا ذکر بڑے احترام اور تقدس سے کرتا تھا اس کے قصائد سبعہ علویات اس بات پہ واضح دلیل ہیں میری تحقیق کے مطابق بعید نہیں کہ اس نے حقیقت کو درک کیا ہو بعض ایسی وجوہات جو ہمارے علم میں نہیں ان کی بنیاد پہ اس شخص نے اپنے مذھب کا اظہار نہ کیا ہو ۔

جواب : جی بالکل اس میں شک نہیں کہ ابن ابی الحدید المعتزلی اہل بیت ؑ سے محبت رکھتے تھا مگر ان کی کتاب شرح نہج البلاغہ اور قصائد کو ملاحظہ کرنے سے علم ہوتا ہے کہ وہ اہل سنت ہی تھا  کیونکہ بہت سارے مواقع پہ وہ شیخین کا دفاع کرتا ہے اور ایسا دفاع کہ اگر شیخین خود بھی ہوں تو ایسا دفاع نہ کر پاتے جبکہ اپنے قصائد میں ایک قوم کے نزدیک غلو کی حد تک تعریف اور مدح ستائش کرتا ہے بہر حال جو اس کی کتاب شرح نہج البلاغہ کو دقت سے پڑھے گا  وہ لازمی اس نتیجہ پہ پہنچے گا کہ اس کے ذریعے اہل سنت پہ احتجاج و التزام بالکل درست ہے ۔

ــــــــــــــــــــــــــــــ

ابن ابی الحدید المعتزلی شیعہ نہیں تھا

سوال : مجھے حیرانگی ہو رہی ہے کہ آپ پہ یہ  بات کیسے مخفی رہی، کتب اہل سنت سے استشھاد میں آپ سے ایک اہم بات مخفی رہ گئی یہ بات کہ آپ نے ان علماء کے مصادر کا ذکر کیا جو اسے اہل سنت میں شمار نہیں کرتے   بلکہ بعض اوقات  شیعہ میں  شمار کرتے  ہیں اور  یہ بات آپ بہتر جانتے ہیں کہ مخالف سے استشھاد میں فائدہ مند نہیں ہے ۔

 (یہ سوال در اصل مولاعلی ؑ کی تفصیل در کتب اہل سنہ کے باب سے ہے اور اسی سے متصل ہے ہم نے یہاں موضوع سے مناسبت کی بنا پہ شامل کیا ہے )

برادر محترم ملاحظہ فرمائیے آپ نے فرمایا کہ اسی مقام پہ ابن ابی حدید معتزلی کی عبارت پیش کرنا کافی ہے جو اس نے شرح نہج البلاغہ کے مقدمہ میں درج کی ابن ابی الحدید نے تصریح کی ہے کہ علی علیہ السلام ان دونوں سے بھی اور باقی تمام امت سے بھی افضل ہے اور پھر آپ نے مشھور عبارت الحمد للّٰہ الذی ۔۔۔۔حمد اس ذات کی جس نے مفضول کو فاضل پہ مقدم کیا۔۔۔پیش کی ۔

اب میری بات سنیے ابن ابی الحدید معتزلی سنی نہیں تھا بلکہ وہ غالی شیعہ تھا پھر بعد میں معتزلی ہوگیا ہم اس بات کے اثبات میں بعض شیعہ علماء کے اقوال نقل کرتے ہیں

آپ کے بزرگ عالم شیخ خوانساری کہتے ہیں ۔۔عزالدین بن ابی الحسن بن ابی الحدید المدائنی ۔۔۔صاحب شرح نہج البلاغہ المشھور ۔۔ان کا شمار کبار فضلاء اور اہل تحقیق میں ہوتا ہے ان بزرگ ہستیوں میں سے ایک ہیں جو علم کے سمندر شمار ہوتے ہیں آپ اہل بیت اطہار ؑ کے موالیین میں سے تھے ۔۔۔جو کہ دینداری میں آپ کی بلند منزل پہ بڑی دلیل ہے اور امیر المومنینؑ سے غلو کی حد تک محبت پہ بھی دلیل ہے آپ کی شرح نہج البلاغہ انہتائی نفیس وعجیب اور جامع ہے اور بہت ہی عمدہ مطالب پہ مشتمل ہے ( روضات الجنات للخوانساری، ج 5 ،ص 20,21 )

اور شیخ قمی اپنی کتاب الکنی القاب میں کہتے ہیں ۔۔۔ابن ابی الحدید مدائن میں پیدا ہوئے اور مدائن کی اکثریت شیعہ یا غالی تھے ابن ابی الحدید بھی انہی کے راہ پہ چلے انہی کا مذھب قبول کیا  اور آپ کی مشھور نظم قصائد سبعہ علویات بھی انہی کے روش کے مطابق ہے اور اس میں غلو اور تشیع جھلکتی ہے ۔۔۔پھر شیخ قمی نے بعض اشعار کو ذکر کرکے غلو کا حکم بھی لگایا ہے ۔۔پھر بعد میں یہ بغداد آگئے اور معتزلی ہوگیے اور صاحب نسخہ السحر کے مطابق شرح نہج البلاغہ کے اکثر حصہ میں آپ معتزلی تھے ( یعنی بشتر حصہ معتزلی ہونے کے بعد لکھا ) اس سے پہلے آپ غالی شیعہ تھے اور آپ کی وفات 655 ھ بغداد میں ہوئی آیہ اللہ علامہ حلی رح نے اپنے بابا کے وساطت سے آپ سے روایت لی ( الکنی والقاب ج 1 ص 185 )

جواب:

آپ نے جو یہ فرمایا کہ ابن ابی الحدید شیعہ تھا یہ بات چند امور کی بنا پہ قابل قبول اور درست نہیں ہے :

1- ابن ابی الحدید نے سید مرتضی علم الہدیؒ (جو کہ شیعہ مذھب کا ستون شمار ہوتے ہیں مترجم ) پہ رد کیا اور خلفاء ثلاثہ کی خلافت کا دفاع کیا اور اس کو شرعی خلافت ثابت کرنے کی کوشش کی اور اپنی کتاب کی بہت ساری جگہوں پہ شیعہ مخالف نظریہ کی تائید کی جو کہ کسی طور پہ کوئی شیعہ بھی  نہیں کرتا کجا ایں کہ کوئی مولاعلی ؑ سے غلو کی حد تک چاہنے والا کرے ۔سوچیے کہ علی ؑ سے اس حد تک محبت کرنے والا غالی شیعہ خلافت کو مولا علی ؑ کے لیے ثابت کرے گا یا کسی دوسرے کے لیے ۔۔۔؟؟

2-  ابن ابی الحدید نے خود کئی مقام پہ تصریح کی کہ وہ شیعہ یا امامی نہیں ہے اس قول کے ذریعے کہ و اصحابنا ۔۔۔اما اصحابنا ۔۔۔۔اقوال اصحابنا ۔۔۔عند اصحابنا ۔۔۔من اصحابنا ۔۔۔ذکرہ اصحابنا ۔۔۔۔جب شیعہ رائے کے مخالف رائے قائم کی ۔۔۔یعنی شیعہ رائے پیش کرنے  کے بعد کہا کہ شیعہ تو یہ کہتے ہیں مگر ہمارے علماء یہ کہتے ہیں ۔۔یا شیعہ کے نزدیک ایسے ہے ہمارے علماء کے نزدیک ایسے ہے ۔۔۔یا شیعہ علماء نے یہ ذکر کیا جب کہ ہمارے علماء نے یہ ذکر کیا ۔۔۔اس سے بڑی کسی کے غیر شیعہ ہونے کی کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ وہ خود کو اور اپنے علماء کو شیعہ کے مخالف شمار کرتا ہے ؟؟ پس یہاں تو تشیع بھی نظر نہیں آتی کجا ایں کہ ہم اسے غالی کہیں ۔

3- ابن ابی الحدید نے شیعہ رائے کو یوں ذکر کیا ۔۔۔تزعم الشیعہ ۔۔۔شیعہ یہ گمان کرتے ہیں کہ رسول اللہ۔۔۔۔الخ ۔ رائے ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں اور میرے نزدیک اس میں کوئی اشکال نہیں ہے پس اگر وہ شیعہ ہوتا تو خود کو شیعہ اعتقادات و نظریات سے جدا نہ کرتا اور نا ہی یہ کہتے کہ میری نزدیک ۔۔۔۔

4- نہج البلاغہ میں ابن ابی الحدید کہتے ہیں ۔۔اگر آپ کہیں کہ یہ نص ہے مولاعلی ؑ کی امامت پہ تو معتزلہ اس کا کیا جواب دیں گے ؟؟؟ تو میں ( بن ابی الحدید ) کہتا ہوں کہ ممکن ہے کہ اس سے مراد ہو کہ مولا علی ؑ فتویٰ اور احکام شرعیہ میں امام ہوں نا کہ خلافت میں۔ پس علی علیہ السلام ابن ابی الحدید کے نزدیک فقیہ ہیں نا کہ امام ایسا امام کہ جس پہ رسول اللہ ﷺنے نص فرمائی ہو۔اس عبارت میں ملاحظہ کیجیے کہ ابن ابی الحدید اس شخص کو جواب دیتا ہے جو مولا علی ؑ کی خلافت کو نص مانتا ہے جبکہ مولا علی ؑ کی خلافت بنص کا انکار کرنا شیعہ عقائد میں نہیں ہے بلکہ شیعہ مخالف عقائد میں سے ہے اور یہ کہنا کہ مولا علی ؑ ایک فقیہ تھے( معاذاللہ )  کسی شیعہ کا کلام قطعا نہیں ہو سکتا ۔۔پس بہت سارے ایسے قرائن ہیں جن کی بنیاد پہ ہم یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ وہ شیعہ نہیں تھا ۔تفصیل کے لیے خود اسی کی کتاب شرح نہج البلاغہ ملاحظہ فرمائیے بالخصوص پہلی چار جلدیں ۔

اب بات یہ کہ کلام خوانساری کا کیا کریں ؟؟؟

تو عرض ہے کہ جناب خوانساریؒ نے اپنے حدس اور اجتھاد پہ بھروسہ کرتے ہوئے یہ بات کی ہے اور یہ بات واضح ہے کہ علمِ تراجم میں اس نقل پہ اعتماد نہیں کیا جاتا جس کی بنیاد حدس اور اجتھاد ہو بلکہ وہ نقل شدہ چیز قابل اعتماد ہوتی ہے جس کی بنیاد حس ہو اور ہم نے اپنی چار قرائن جو ذکر کیے جن کی بنا پہ ہم کہتے ہیں کہ خوانساری نے اپنے حدس کی بھروسہ کیا جو کہ قابل اعتماد نہیں ہے ۔

اور دوسری بات کہ خوانساری ؒنے یہ نہیں کہا کہ وہ امامیہ تھا بلکہ انہوں نے کہا کہ وہ موالی تھا پس یہ لفظ ایسا ہے جس کی تاویل ہو سکتی ہے ( لفظ موالی تو شیعہ سے زیادہ وسعت رکھتا ہے باعتبار استعمال بہت سارے لوگ ہیں جو یقینی طور پہ شیعہ نہیں مگر محب اہل بیتؑ ہیں اور نواصب اور دشمنان اہل بیت ؑ کی عادت رہی ہے کہ جس نے اہل بیتؑ سے محبت کی فورا ًاسے رافضی اور شیعہ کہنا شروع کردیا تاکہ اس کی بات بے اثر ہو جائے )

اور جو کلام آپ نے جناب قمی ؒ کی طرف منسوب کیا ہے تو یہ نسبت درست نہیں ہے۔ آپ نے جانے انجانے میں دھوکہ و فریب کی کوشش کی ہے دراصل یہ کلام شرح نہج البلاغہ کے محقق محمد ابو الفضل ابراھیم کا ہے جس کو آپ نے کنی و القاب کے حوالے سے پیش کیا ۔میرزاقمی نے تو خود ان کے معتزلی ہونے گواہی دی ہے جیسا کہ میرزا کہتے ہیں کہ ابن ابی الحدید کا مذھب اعتزال تھا جو کہ خود اس نے اپنے قصائد میں گواہی دی ہے وہ قصائد جو اس نے حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کی شان میں کہے ۔۔ورائت دین الاعتزال ۔۔۔اور میں نے معتزلی مذھب اختیار کیا اور آپ کے لیے ہر اس چیز کو چھوڑ دیا جس میں تشیع پایا جاتا ہے ۔

آخر میں ہم یہ بیان کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ شیعہ اور محب میں فرق ہے ؛ شیعہ وہ ہوتا ہے جو آئمہ اہل بیتؑ کو قابل اتباع سمجھتا ہے اور واجب الاطاعت مانتا ہے جبکہ محب وہ ہوتا ہے جو اہل بیت ؑ سے فقط بغض نہیں رکھتا ہم کچھ ایسے لوگوں کا ذکر کرتے ہیں جو اہل بیت ؑ سے محبت رکھتے ہیں مگر شیعہ نہیں ہیں جیسا کہ سلیمان قندوزی حنفی محب اہل بیت ؑ ہے مگر شیعہ نہیں ہے ،امام حاکم نیشاپوری,امام نسائی ،امام عبد الرزاق الصنعانی،الکنجی الشافعی ،اور کثیر تعداد میں ایسے لوگ ہیں جن کی اہل بیت ؑ سے محبت تو امر مسلم ہے مگر شیعہ نہیں ہیں ۔پس ایسے شخص کے کلام سے احتجاج کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے جو اہل بیت ؑ کا محب تو ہے پرمطیع و متبع نہیں ہے پس آپ چونکہ محب اور شیعہ میں فرق نہیں کر پائے اس لئے آپ کو یہ وھم ہوا ہے ۔

یہاں ایک اور چیز کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے کہ جو بھی اہل بیت ؑ سے محبت کرتا ہے اس پہ رفض اور تشیع کی تہمت لگانا بہت پرانا وطیرہ ہے ایسا بہت سارے سنی رجالیوں نے کیا ہے کہ جو بندہ بھی اہل بیتؑ سے محبت کرتا ہے اس پہ رفض اور تشیع کی تہمت لگا کر اسکی روایات رد کردی جاتی ہیں،یہ بات اس شخص پر بالکل واضح ہے جو اہل سنت کی کتب رجالی کو اچھی طرح سمجھتا ہے مزید کلام کی ضرورت نہیں ہے ۔

ــــــــــــــــــــــــــــــ

جواب پہ تعلیقہ

میں یہ بات مانتا ہوں کہ ابن ابی الحدید شیعہ نہیں تھا مگر میرے ذہن میں ایک سوال اکثر پیدا ہوتا ہے کہ اس نے شیعہ عالم کی جمع کردہ کتاب کی شرح کیوں کی اور کتاب بھی وہ جو شیعہ کتب  میں بلند درجہ رکھتی ہے قرآن کریم کے بعد اس کو خاصی اہمیت حاصل ہے ( بعض لوگوں کا خیال ہے کہ قرآن مجید کے بعد شیعہ کی سب سے مستند و معتبر کتاب نہج البلاغہ ہے ۔مگر یہ بات بلادلیل اور کمزور ہے ۔کیونکہ نہج البلاغہ کے مدارک و منابع میں شیعہ سنی دونوں کتب شامل ہیں ۔۔اسکی جمع کا معیار بلاغت ہے نہ کہ فقہی معیار ۔۔۔ہمارے کسی بزرگ عالم نے اس کے تمام مندرجات کے صحیح ہونے کا دعویٰ نہیں کیا بلکہ اس میں بعض چیزیں ایسی ہیں جو شیعہ موقف کے برعکس ہیں ۔۔پس اس بات میں تو شک نہیں کہ نہج البلاغہ ایک عظیم اور بہت عمدہ کتاب ہے لیکن اس کو مکمل معتبر سمجھنا یا اس کے ذریعے شیعہ پہ احتجاج کرنا درست نہیں ہے  جیسا کہ بعض مدعی تحقیق ایسا کرتے ہیں ۔مترجم )

میرے نزدیک تو ابن ابی الحدید کا ایسا کرنا غیر منطقی ہے مثلا ًیہ بات معقول نہیں کہ کوئی شیعہ عالم کتاب صحیح بخاری کی شرح لکھ دے کیونکہ نہ یہ ہماری کتاب ہے نہ ہمارے نزدیک معتبر ہے پس ابن ابی الحدید کا ایسا کرنا انتہائی عجیب کام ہے ۔مجھے اس سوال نے کافی پریشان کیا ہوا ہے برائے مہربانی اس کا جواب عنایت فرمائیں

جواب :

ابن ابی الحدید کا شمار بغداد کے معتزلی علماء میں کیا جاتا ہے اور بغداد کے معتزلہ کی اکثریت مولا علی علیہ السلام سے محبت رکھتے تھی بلکہ مولا علیؑ کی باقی تمام امت پہ افضلیت کے بھی قائل تھے اگرچہ وہ آپؑ کی ولایت اور امامت بالنص کے قائل نہیں تھے۔ ابن ابی الحدید نے مدائن میں پرورش پائی جہاں لوگوں کا عام رجہان تشیع کی طرف تھا اسی لیے ابن الحدید نے مولاعلیؑ کی شان میں مشھور قصائد علویات بھی لکھے پس بعید نہیں کہ اس کے دل میں مولا علی ؑ کی نسبت سے نہج البلاغہ کا ایک خاص مقام ہو اور ہو بھی کیوں نا یہ امیر المومنینؑ سید الفصحاء کا کلام ہے !

اور پھر دنیا بلاغت میں آج تک کسی شخص نے اس کی اہمیت اور مقام و منزلت کا انکار نہیں کیا اور نا ہی اس میں جود حکم ،دروس اور علوم پہ حرف گیری کی ہے حتی بعض نے کتاب اللہ کے بعد سب سے بڑا درجہ اسے دیا ( اگرچہ ہماری نظر اس سے مختلف ہے ) پس اس اہمیت دینے میں ابن ابی الحدید اکیلا نہیں ہے اس کتاب کے بلند پایہ ہونے اور کماحقہ پہچاننے میں ابن ابی الحدید کے علاوہ  بہت سارے علماء اہل سنت بلکہ غیر مسلم محققین بھی شامل ہیں ۔

پھر یہ کہ ابن ابی الحدید وزیر ابن العلقمی کے دور میں تھے اور بن العلقمی کی شیعت مشھور ہے اسی نے ابن ابی الحدید سے نہج البلاغہ کی شرح لکھنے کو کہا جیسا کہ اس بات کا ذکر خود ابن ابی الحدید نے مقدمہ شرح نہج البلاغہ میں کیا ہے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــ

جواب پہ تعلیقہ ۔

کتاب روضہ المتقین، ج ،2 ص 498  پر موجود اس عبارت سے کیا مراد ہے کہ جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ ابن ابی الحدید  شیعہ تھا لیکن اس نے اپنی شیعت کو مخفی رکھا ۔کتاب روضہ کی عبارت یہ ہے کہ ۔۔جن شخصیات کو تفصیلی کہا جاتا ہے انہی میں سے  ابن ابی الحدیداور خوانی ہیں جو ان کے کلام سے سمجھا جاتا ہے لیکن بعض جگہوں پہ ان دونوں نے شیعت کی تصریح کی ہے اور ان دونوں سے اور ان جیسوں سے ایسا ہی ظن ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کے ظاہر حال سے لگتا ہے کہ یہ لوگ مذھب حقہ پہ تھے لیکن ان کے لیے ظالم حکومت کی موجودگی میں اظہار ممکن نہیں تھا پس اسی لیے انہوں  اظہار نہیں کیا تاکہ افضلیت کا اظہار کرسکیں لیکن عوام کی نسبت یہ اظہار ممکن تھا ۔

جواب:

ہم نے پچھلے سوال کے جواب میں کچھ ایسی نصوص پیش کی جو کہ ابن ابی الحدید کی عدم شیعت پہ دلالت کرتی ہیں بلکہ ہم نے کچھ ایسی نصوص بھی ذکر کی کہ جن میں اسکے غیر شیعہ ہونے کی صراحت موجود ہے پس ہم نہیں جانتے کہ وہ کیسی نصوص ہیں جن سے آپ کو لگ رہا ہے کہ وہ شیعہ تھا اور اگر فرض کریں ایسی عبارات ہیں بھی تو ہمیں انہی کے ساتھ ملا کر کوئی خاطر خواہ نتیجہ نکالنا چاہیے اگرچہ ہمارے نزدیک راجح بات یہی ہے کہ اگر ایسی نصوص ہوں بھی صحیح تو بھی ان نصوص کے مقابلے میں کمزور ہیں جو ہم نے ذکر کی ہیں جو کہ ابن ابی الحدید کے غیر شیعہ ہونے پہ دلالت کرتی ہیں۔

پھر جو یہ کہا گیا کہ ظالم حکومت کی وجہ سے ابن ابی الحدید کے لیے تشیع کا اظہار ممکن نہیں تھا یہ بات تاریخی شواہد سے سازگار نہیں ہے کیونکہ تشیع توبغداد میں  علی الاعلان اور قوت کے ساتھ موجود تھی اور کرخ تو پورے کا پورا شیعہ تھا اور وزیر ابن علقمہ بھی شیعہ تھا حلہ ،نجف اور کربلا بھی شیعہ تھا بلکہ ان میں بہت سارے علوی ایسے تھے جو بالکل واضح تشیع کا اظہار کرتے تھے جیسا کہ ابن طاؤوس کہ جن کو خلیفہ نے وزارت کے لیے طلب کیا تو انہوں نے انکار کردیا بہت سارے ایسے لوگ تھے جو    ( دشمنان اہل بیت ؑ ) سے اس زمانہ میں مولا علی ؑ کے در مقدس پہ اعلانیہ برائت کرتے تھے ۔

ــــــــــــــــــــــــــــــ

ابن ابی الحدید کے متعلق کلام

سوال :  آپ کے جوابات سے یہ بات ثابت ہوئی کہ ابن ابی الحدید معتزلی عقاید رکھتا تھا اور فقھاً حنفی تھا اس لیے امامی شخص کے لیے خصم مخالف پہ اس کے کلام سے احتجاج کرنا درست ہے  اور مدمقابل کے لیے اس کے کلام سے شیعہ پہ احتجاج کرنا درست نہیں ہے اگرچہ اس کا شمار بارز علماء اور بلند پایہ غیر متعصب تاریخ دانوں میں ہوتا ہے ۔

لیکن ہم عامہ ( یعنی اہل سنت ) کے لیے کیسے اس عبارت کی تفسیر کرینگے جو  روضات الجنات؛ جلد 5 ص 19  میں آئی ہے کہ جب ابن ابی الحدید کے حالات کا ذکر ہوا کہ بن ابی الحدید کا شمار ان اکابر فضلاء متبحر علماء میں ہوتا ہے جو اہل بیت اطہار ؑ سے محبت رکھتے تھے اگرچہ ان کا ظاہری مذھب اہل سنت ہی تھا لیکن وہ منصف مزاج تھے ۔۔۔۔اسی طرح جناب قمی کا قول بھی جو الکنی القاب جلد 1 ص 185 میں وارد ہوا ہے ؟؟

جواب :

اولاً۔

کسی بھی شخص کے حالات ،مذہب و فرقہ کے متعلق فیصلہ کرنا اس صورت درست ہے جب تمام رجالیوں کے اقوال پہ تحقیق کی جائے ،تمام قرائن و شواہد جمع کئیے جائیں اور خود اس شخص کے اپنے کلام جو اس کے مؤلفات میں موجود ہو اس کو دیکھا جائے کہ وہ خود اپنے بارے اپنے مذھب کے بارے کیا کہتا ہے اور خود کو کس فرقہ سے منسوب کرتا ہے پس کسی ایک یا دو اقوال کی وجہ سے کسی شخص کےفرقہ کا فیصلہ کرنا ممکن نہیں بالخصوص جب قول کسی متاخر کا ہو  ۔( علم تراجم اور جرح والتعدیل   میں متقدم اور متاخر کی کے اقوال میں فرق بیان ہوا ہے تحقیق کے شائقین رجوع فرمائیے مترجم )

ثانیاً۔

ابن ابی الحدید کے مذھب اور عقیدہ کے بارے  میں قطعی قول یہی ہے کہ وہ معتزلی تھا اس بات پہ اس کے مشھور زمانہ اشعار بہترین دلائل ہیں اور جس نے بھی اس کے حالات لکھے اس نے بھی اس چیز کا اعتراف کیا ۔

ہاں یہ بات ہے کہ وہ بغداد کے مدرسہ اعتزالیہ ( یعنی جو معتزلہ کا مدرسہ تھا ) میں پڑھتا تھا جن کا عام رجحان اور محبت مولا علی ؑ سے تھی اور ان کے دشمنوں سے بیزار  تھے۔ اسی لیے اس مدرسہ کے بزرگ اعلام کے شیعہ علماء سے بہت اچھی تعلقات تھے لیکن محبت اور میلان کو علمی اور تحقیقی معنی میں شیعہ نہیں کہا جاتا اور اگرچہ  یہ تعبیر علماء اہل سنت کی کتب رجال میں کئی سنی رجال کے لیے آپ کو ملے گی بالخصوص حنابلہ ایسا کرتے ہیں کہ میلان رکھنے والا کو شیعہ کہہ دیتے تھے اور باالاخص نواصب بھی ایسا کرتے ہیں یہ لوگ ہر شخص کو جو مولا علی ؑ کی کوئی بھی فضیلت روایت کرے اسے فوراً شیعہ کہہ کر متھم کر دیتے ہیں جیسا کہ یہ حاکم ،نسائی ،عبدالرزاق وغیرہ کے لیے کہتے ہیں کہ وہ شیعہ تھے ۔

ثالثاً ۔

اور جو کلام صاحبِ روضات الجنات کا آپ نے پیش کیا اگر وہ کلام آپ نے مکمل پڑھا ہوتا تو آپ کو پتہ چلتا وہ بھی یہی فرما رہے ہیں جو ہم نے عرض کیا کہ وہ مولاعلی ؑ سے محبت کرتا تھا اور معتزلی تھا اگرچہ انہوں نے موالی کا لفظ استعمال کیا ہے جو کہ غیر شیعہ کی نسبت دقیق تعبیر نہیں ہے کیونکہ یہ لفظ شیعان علی ؑ کی پہچان بن چکا ہے چونکہ لغت کے اعتبار سے یہ لفظ محبت اور میلان کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے لیکن اصطلاح میں ہمارے نزدیک تبرائی کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔آپ صاحب روضات کا کلام مکمل پڑھیے آپ پہ حقیقت حال روشن ہوگی ۔

رابعا ً۔

جو کلام آپ نے قمی ؒ کی طرف منسوب کیا تو وہ شیخ قمی کا کلام نہیں ہے اور الکنی القاب میں۔ یہ کلام۔ہمیں کہیں نہیں ملا ہاں یہ عبارت موجود ہے کہ بن ابی الحدید 655 میں بغداد میں فوت ہوئے علامہ حلیؒ نے اپنے بابا ؒکے واسطے سے ان سے روایت لی اس کے علاوہ جو کلام ذکر کیا گیا تو وہ شرح نہج البلاغہ کے شروع میں ابن ابن الحدید کے حالات سے اخذ کیا گیا ہے پس قمی ؒ کا کلام بھی بعینہ وہی بتا رہا ہے جو ہم نے عرض کیا ۔

خامساً ۔

اب رہی یہ بات کہ کیا اہل سنت کو اس کے کلام سے الزامی جواب دینا درست ہے؟؟ تو یہ الزام بالکل درست ہے کیونکہ اس کی سنیت اور معتزلیت ثابت ہے پس اس کےذریعے مخالف کے منہ بند کیے جا سکتے ہیں اگرچہ آج کل کے حق مخالف لوگ اس کو شیعت کی طرف نسبت دیتے ہیں تاکہ اس کے کلام کے ملزم ہونے سے بچ سکیں لیکن اس کا جواب واضح ہے محتاج بیان نہیں ہے۔

بہر حال ابن ابی الحدید کے بارےمیں کلام اس کے کلام کے ذریعے الزامی جواب دینا اور احتجاج کرنا یہ تمام کلام ہر اس شخص کے بارےمیں ہوتا ہے جس نے بھی فضائل اہل بیتؑ میں کوئی کتاب لکھی ہو یا اہل بیت ؑکے فضائل کی احادیث اپنی کتب میں شامل کی ہوں ۔تو اہل سنت علماء ایسے لوگوں کو شیعت کی طرف نسبت دینا شروع کر دیتے ہیں، جنابلہ شیعہ کی طرف نسبت دیتے ہیں وہابی اور ناصبی  ایسے لوگوں کی سنیت سے انکار کردیتے ہیں، شیعہ ان کو سنیت کی طرف ہی منسوب کرتے ہیں انکے حالات کے بارے میں لکھی گئی کتب پہ اعتماد کرتے ہوئے جو کتب اصحاب الرجال نے لکھی جیسے ذھبی ،ابن حجر ، جو بندہ ان کے اپنے مذھب پہ بھی ہو اسے بھی فقط اس لیے شیعہ کہنا شروع کردیتے ہیں کہ اس نے فضائل اہل بیت ؑ کو روایت کیا تاکہ اس کی روایات کے ملزم ہونے سے بچ سکیں۔ گویا ایسے لوگ دونوں فرقوں میں برزخ کی  سی حیثیت رکھتے ہیں ۔

یہی حال ہر اس شخص کا ہے جو کوئی ایسے بات یا روایت ذکر کرے جس سے اہل بیتؑ کی محبت ظاہر ہوتی ہو یا اہل بیت ؑ کا میلان ظاہر ہوتا ہو ۔ہم نے کافی سارے ایسے علماء کا ذکر کیا ہے  علم الرجال اور کتب کے عنوان کے تحت ۔۔رجوع فرمائیں

ــــــــــــــــــــــــــــــ

ابن ابی الحدید اہل سنت کی نظر میں

سوال : میں نے کتاب دفاع عن السنہ میں ایک طویل حدیث جو  عمر سے ابوبکر اور ابو موسیٰ اشعری اور مغیرہ بن شعبہ کے آپس میں تعلقات کی بابت تھے صاحب کتاب اس کو کلام جدید قرار دیتا ہے اور یہ روایت ابن ابی الحدید کی کتاب شرح نہج البلاغہ سے لی گئی ہے ،پس سوال یہ ہے کہ کیا اہل سنت کے ہاں یہ کتاب معتبر شمار ہوتی ہے ؟؟؟

جواب:

اہل سنت کے علماء رجال جرح و تعدیل میں  ایک منہج پہ چلتے ہیں اور اس کی اہم  اساس وہ روایات جو مولا علی ؑکی شان یا فضائل میں نقل ہوں  پس وہ کسی راوی کی تضعیف یا جھوٹے ہونے کا معیار ان روایات پر بناتے ہیں جو وہ مولا علی ؑ کے فضائل میں نقل کرے ۔

مثال کے طور پہ آپ کتاب ۔۔الموضوعات لابن الجوزی یا ۔۔اللآلی المصنوعہ فی احادیث الموضوعہ لسیوطی پڑھ لیں بلکہ تھذیب التھذیب لابن حجر ۔۔کتاب میزان الاعتدال لذھبی اور اس جیسی کئی کتب دیکھیں آپ کو یہ بات نظر آئے گی کہ کسی راوی کی زیادہ تر وجہ اس کا مولا علی ؑکے فضائل میں روایت کرنا ہے ۔

جب آپ ان کی رجالی کتب میں نظر کرینگے تو آپ ان کے میزانِ توثیق یا تضعیف پر حیران رہ جائینگے

مثلا ایک راوی ہیں جن کا نام احمد بن الازھر نیشاپوری ہے ابن حجر نے تھذیب میں اسکی مدح اور محدثین سے اسکی توثیق نقل کرنے کے بعد کہا ہے کہ احمد بن یحیی بن زھیر کہتے ہیں کہ جب ابو ازھر عبد الرزاق سے فضائل میں کوئی روایت کرے یعنی عن معمر عن الزھری عن عبیداللہ عن ابن عباس قال نظر النبی صلی اللہ علیہ وآلہ الی علی ع فقال انت سید فی الدنیا سید فی الآخرۃ ۔۔الحدیث جب یہ حدیث نقل کی تو یحیی کہنے لگا کون ہے کذاب نیشاپوری جو عبد الرزاق سے یہ حدیث نقل کر رہا ہے تو ابو الازھر کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ میں ہوں تو یحیی ہنسنے لگا اور کہا تو کذاب نہیں ہے اور کہنے لگا یہ تیرا نہیں تیرے غیر کا گناہ ہے ۔

اب یہ راوی اہل سنت میں سے ہے صرف اس لیے جھوٹ کی طرف نسبت دے رہے ہیں کہ اس نے یہ فضائل والی روایت کی ہے

اسی کی مثل عبدالرزاق الصنعانی الحافظ ہیں جن کی کتاب  مصنف مشھور ہے  اور انکا شمار اہل سنت کے بزرگ علماء میں ہوتا ہے لیکن جب بھی یہ انکا ذکر کریں فورا کہیں گے کہ وہ شیعہ تھے ابوداود کہتے ہیں کہ عبد الرزاق معاویہ پہ اعتراض کرتے تھے اور عجلی کہتے ہیں کہ وہ ثقہ تھے اور ان میں تشیع پائی جاتی تھی ۔

آپ ملاحظہ فرمائیے کہ اہل بیتؑ سے روایت کرنے والے کے متعلق انکا یہ عقیدہ ہے شاید اسی لیے حاکم نیشاپوری کی تشیع میں اختلاف کرتے ہیں اور بعض کا انکی شیعت پہ اصرار صرف اس لیے کہ انہوں نے مولاعلیؑ کے فضائل میں وہ حدیثیں نقل کی جن سے شیخین اپنی صحیحین میں غافل تھے ۔

پس اب آپ خود سوچیے کہ جو شخص مولاعلی ؑ کے فضائل ذکر کرے انکے مناقب کا بیان کرے اور انکے مخالف کے عیب ذکر کرکے طعن کرے تو کیا یہ لوگ اسکی توثیق کرینگے اور اس سے روایت لیں گے ؟؟

یہی حال ابن ابی الحدید کا ہے یہ لوگ کبھی بھی ابن الحدید کو معتبر نہیں سمجھیں گے اسی وجہ سے جیسے ہر اس شخص کو جو مولا علی ؑ کے فضائل نقل کرے معتبر نہیں سمجھتے ۔

اسی لیے شعبی نے کہا تھا کہ ۔۔میں علی ؑ کے بارے کیا کہوں کہ اگر ہم علی ؑ سے محبت کریں تو دنیا ہاتھ سے چلی جائے اور اگر بض رکھیں تو دین !

پس اب آپ کے نزدیک اس بات کی کیا حیثیت رہ گئی کہ اہل سنت اس کتاب یا راوی کے بارے کیا کہتے ہیں معتبر ہے یا نہیں جبکہ آپ کو ان کے معیار کا پتہ چل گیا کہ کس بنیاد پہ وہ جرح و تعدیل کرتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے