بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

اللهم العن الشقيّ الأعظم والملحد المشرك المجتذم، رئيس اهل الظلم، عدوَّ الله وعدوَّ الوليّ، الملعون بالنّص الجليّ، غاصب حقّ فاطمة الزهراء یا بنت محمد۔

حضرت سلیم ابن قیس ایک بلند مرتبہ، گرانقدر اور قابلِ اعتماد ثقہ انسان تھے۔ ان کے مقام کے لیے برقی کی اس بات پر گواہی کہ وہ اولیاء اور امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کے بزرگ اصحاب میں سے تھے اور اس طرح سے علّامہ حلّی ؒ نے بھی ان کی عدالت کا حکم دیا ہے۔
کتابِ غیبت میں نعمانی کے قول کی بنیاد پر ،کتابِ سلیم اصولِ معتبر میں سے بلکہ ان میں سے سب سے بڑےاصول ہیں ، اس کا سارا محتویٰ صحیح ہے اور یا معصوم علیہ السلام سے یا ایسے شخص سے ہے جس کی روایت کی تصدیق اور اسے قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے.
وسائل الشیعہ کے مؤلف نے کتاب کے اختتام میں کہا ہے کہ : کتاب سلیم قابل اعتماد کتابوں میں سے ہے کہ جس کے قرائن اس کے ثبوت پر قائم ہیں اور یہ کتاب مؤلفین سے تواتر کی حدّ تک پہنچی ہے، یا ہم یہ جانتے ہیں کہ اس کتاب کی نسبت اس کے مؤلفین کی طرف صحیح ہے ،اس طرح سے کہ اس میں کسی قسم کا شک باقی نہیں رہتا.
آیت اللہ العظمی شاہرودی فرماتے ہیں کہ اس کتاب کے بعض نسخوں میں ،دو مطالب پائے جاتے ہیں : ایک یہ کہ آئمہ تیرہ ہیں ،البتہ اس نسخہ میں غلطیاں موجود ہیں جس پر صاحبِ وسائل نے فرمایا کہ:
"کتاب سلیم میں سے جو نسخہ ہم تک پہنچا ہے اس میں کسی قسم کا فساد نہیں پایا جاتا اور شاید جعل کیا گیا فاسد نسخہ اس کے علاوہ ہو ۔اور اسی وجہ سے وہ نسخہ مشہور نہیں ہوا اور ہم تک نہیں پہنچا۔”
اور شاید مراد یہ ہو کہ آئمہ علیہم السلام پیغمبر صلّی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم کے ساتھ ملا کر تیرہ عدد ہیں ،جیسا کہ دوسرے نسخوں میں ہے کہ آئمہ فرزندانِ اسماعیل میں سے ہیں اور پیغمبر صلّی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم کے ساتھ تیرہ عدد ہیں.
دوسرا یہ کہ اس کتاب میں محمد ابن ابی بکر کی اپنے باپ کو ان کی موت کے وقت نصیحت ،شامل ہے جبکہ ان کی عمر تین سال سے بھی کم تھی لیکن یہ چیز بھی اس کتاب کو خدشہ دار نہیں کرتی ،کیوں کہ ہم زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ نسخہ مخدوش ہے لیکن دوسرے نسخے اس طرح کے مطالب اور باتوں سے خالی ہیں.
بعض بزرگ رجالی علماء نے جیسے میرزا نے رجالِ کبیر میں کہا ہے :
جو کچھ ہم تک پہنچا ہے (کتابِ سلیم میں سے) اس بات کو بیان کررہا ہے کہ محمد ابن ابی بکر نے اپنے باپ کی موت کے وقت نصیحت کی ،اور یہ چیز ممکن ہے اور اس کتاب کے جعلی ہونے کے حکم پر دلالت نہیں کررہی۔
اسی طرح سے ” تفرشی ” نے کتابِ”نقد الرجال” کے حاشیہ میں کہا ہے :سلیم کی احادیث میں سے زیادہ تر ،شیعہ اور سنی کتابوں میں دوسرے طریقوں سے بھی روایت ہوئی ہیں ،اور یہ بات خود اس کتاب کی صحت پر دلالت کررہی ہے ۔
اجماع علمائے شیعہ کا اس پر اعتقاد ہے جن میں سے کچھ کے نام پیش کر رہا ہوں ۔
1- عمر بن ابی سلمہ ( المتوفی ۸۳ ھ )
2- ابو طفیل عامر ابن واثلہ الکنانی ( المتوفی ۱۰۰ ھ )
3- مہشور تاریخ نویس ابو الحسن علی بن الحسین المسعودی ( المتوفی ۳۴۶ ھ )
4- محمد بن اسحاق المعروف ابن ندیم ( المتوفی ۳۸۰ ھ)
5- شیخ عبد العباس احمد بن علی النجاشی ( المتوفی ۴۵۰ ھ)
6- شیخ جلیل ابو عبد اللہ محمد بن ابراھیم النعمانی ( المتوفی ۴۶۲ ھ)
7- حافظ محمد بن شھر آشوب ( المتوفی ۵۸۸ ھ)
8- سید جمال الدین احمد بن موسی الطاوس ( المتوفی ۶۷۷ ھ)
9- علامہ محمد تقی مجلسی ( المتوفی ۱۰۷۰ ھ )
10- شیخ محمد بن الحسن الحر العاملی ( المتوفی ۱۱۰۴ ھ)
11- سید محمد تفرشی ( المتوفی گیاہوی صدی )
12- سید ھاشم البحرانی ( المتوفی ۱۱۰۷ ھ )
13- علامہ الحجہ مولا محمد باقر مجلسی ( المتوفی ۱۱۱۱ھ )
14- علامہ حیدر علی الشیروانی ( علامہ مجلسی کا نواسہ )
15- آیت اللہ العظمیٰ سید میر حامد حسین الھندی
16- آیت اللہ العظمیٰ سید محمد خوانسواری
17- آیت اللہ العظمیٰ الحاج مرزا حسین نوری
18- آیت اللہ العظمیٰ محمد ھاشم الخراسانی
19- آیت اللہ العظمیٰ الحاج شیخ عباس قمی
20- آیت اللہ العظمیٰ شیخ عبد اللہ مامقانئ
21- آیت اللہ العظمیٰ سید حسین بن محمد رضا البروجردی
22- آیت اللہ العظمیٰ مرزا محمد المدرس الخیابانی
23- آیت اللہ العظمیٰ الحاج آغا بزرگ طہرانی
24- آیت اللہ العظمیٰ سید حسن صدر
25- آیت اللہ العظمیٰ شیخ عبد الحسین الامینی النجفی
26- آیت اللہ العظمیٰ سید محمد صادق بحار العلوم
27- آیت اللہ العظمیٰ سید شھاب الدین مرعشی نجفی
28- آیت اللہ العظمیٰ شاہرودی
وغیرہ ۔۔
آیت اللہ العظمیٰ خوئی کے نزدیک تو رجال الغضائری بھی ثابت نہیں لیکن معترض جواد رضوی اس کتاب کو معتبر مانتے ہیں۔
اب رہی بات شیخ مفید کی تو شیخ مفید نے تصحیح الاعتقاد کے آخر میں لکھا ہے:
اور وہ کہ جس سے ابو جعفر (ع) نے تعلق پیدا کیا ہے یعنی سلیم کی حدیث کہ جس میں رجوع کیا ہے اس کتاب کی طرف ابان بن ابو عیاش کی روایت سے سلیم کی طرف منسوب ہے اس کا معنیٰ و مفہوم تو صحیح ہے لیکن اس کتاب پر وثوق نہیں اور اس کے بہت سے مطالب پر عمل جائز نہیں ، کیونکہ اس میں مطالب کا خلط ملط اور تدلیس ہوئی ہے ، اور متدین شخص کو اس کی ہر چیز پر عمل کرنے سے اجتناب برتنا اور ساری کتاب پر اعتماد نہیں کرنا چاھئیے۔
(تصحیح الاعتقاد ۔۔۔۱۲۶)

اب بات ہو جائے روای ابان بن ابی عیاش پر ۔۔

محترم قارئین ، اہل سنت علماء کی مجبوری ہے کہ ایسے راوی کو کیسے قبول کر سکتے ہیں جس نے وہ تمام روایات نقل کی ہیں جس میں مولا علیؑ کی ولایت و خلافت کو ابوبکر وعمر کا غصب کرنا، جنابِ سیدہؑ کے گھر پر عمر کا حملہ ، جنابِ محسن کی شھادت ، ابوبکر کا فدک چھین لینا، ان اصحاب کا نام لے کر مذمتی روایات نقل کرنا جنہوں نے اہل بیت پر ظلم کیا ۔۔ وغیرہ ۔۔اگر اہل سنت ایسے راوی کو مان لیں گے تو پھر ان کے پاس بچے گا ہی کیا؟؟؟ تو آسان ترین حل یہی نکلا کہ اسے جھٹلا دیا جائے تاکہ ان سب سے جان چھٹ جائے ۔

آپ تب حیران ہوتے ہیں جب اس روای پر جرح کو پڑھتے ہیں کہ آخر یہ غیرِ ثقہ کیسے ہے ۔۔ جتنے بھی علماء اہل سنت ہیں سب نے جو اسباب لکھے وہ یہ ہیں کہ اس کا حافظہ کمزور تھا، یہ رافضی شیعہ تھا، متروک الحدیث تھا لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اس کے کردار کے بارے میں لکھا کہ وہ ایک نیک انسان تھا ۔۔ جیسا کہ امام ابو حاتم رازی جو کہ مشہور اہل سنت عالم ہے جسے حافظ الحدیث کا خطاب بھی دیا گیا اور یہ امام بخاری و مسلم کے زمانے میں تھا۔ جس کی تصنیفات میں طبقات التابعين، كتاب الزينة ، تفسير القرآن العظيم ، أعلام النبوة اور الجامع فی الفقہ جیسی معتبر کتب شامل ہیں ۔

تو یہی اہل سنت عالم ابو حاتم رازی اپنی رجالی کتاب الجرح والتعديل میں اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ ابان بن ابی عیاش نیک آدمی تھا مگر اس کا حافظہ ضعیف تھا۔

جبکہ خود بڑے بڑے علماء اہل سنت نے اس راوی سے اپنی کتابوں میں احادیث نقل کی ہیں جیسے امام حاکم نیشاپوری نے اپنی کتاب المستدرك على الصحيحين میں اور خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد میں ۔۔ وغیرہ وغیرہ

من أصبح والدنيا أكبر همه فليس من الله في شيء ، ومن لم يتق الله فليس من الله في شيء ۔۔۔۔۔

حوالے ملاحظہ فرمائیں:

(المستدرك على الصحيحين، جلد 4، ص 317 ، حديث رقم 8002)

(والخطيب في تاريخه جلد 9 ، ص 373 )

تو محترم قارئین جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ آج بھی جو شخص ولایت علی ؑ کا اقرار کرے اور رسول اللہ کے بعد اہل بیت کو افضل جانے، مصائب اہل بیت بیان کرے اور اس پر آنسو بہائے اسے آج بھی یہ حضرات کائنات کا غلیظ ترین کافر ، شیعہ کافر کہتے نہیں تھکتے تو ابان بن ابی عیاش کو کیونکر قبول کریں گے ۔۔

اب رہی یہ بات کہ ابان کو مرحوم آیت اللہ العظمیٰ سید خوئی نے ضعیف شمار کیا ہے تو بھائی وہاں پر آغا خوئی نے جرح مفصل نہیں کی بلکہ صرف ضعیف لکھا ہے.

جرح مفصل کا مطلب یہ ہوا کہ اس میں ضعف کی وجہ ہی بیان نہیں کی ۔۔ جبکہ انہوں نے فقط اقوال کو نقل کیا ہے ۔۔ ملاحظہ فرمائیں
22- أبان بن أبي عياش فيروز:

عده الشيخ في رجاله من أصحاب السجاد(ع)(10) و الباقر(ع)(36) و الصادق(ع)(190)، و قال- عند ذكره في أصحاب الباقر ع- تابعي ضعيف، و عند ذكره في أصحاب الصادق(ع): البصري تابعي. و قال ابن الغضائري: أبان بن أبي عياش- و اسم عياش هارون- تابعي، روى عن أنس بن مالك، و روى عن علي بن الحسين(ع)، ضعيف لا يلتفت إليه، و ينسب أصحابنا وضع كتاب سليم بن قيس إليه. و ذكره البرقي في أصحاب السجاد(ع)و في أصحاب الباقر(ع)من أصحاب الحسن(ع)و الحسين(ع). و يأتي في سليم ما يتعلق بكتابه.

( معجم رجال الحديث نویسنده : الخوئي، السيد أبوالقاسم جلد : 1 صفحه : 129)

اس میں خود سید خوئی کی رائے کہاں ہے ؟

اور اگر مان بھی لیں کہ سید خوئی کے نزدیک ابان ضعیف ہے تو بھی اجماع محدثین سے یہ ضعف باطل ہو جائے کیونکہ جمہور علماء تشیع نے ابان کو ثقہ شمار کیا ہے.

آغا خوئی نے فقط اسے ضعیف لکھا ہے جبکہ وہ خود کتاب سلیم کے مولف یعنی حضرت سلیم بن قیس کو ثقہ مانتے ہیں تو یہ بھی ثابت ہے کہ سلیم بن قیس نے یہ کتاب ابان بن ابی عیاش کو دی جو معصومین سے تصدیق کے لیے مدینہ لے کر گیا۔۔

اب اگر سلیم بن قیس ثقہ ہیں تو یہ بات کیسے قبول کی جا سکتی ہے کہ وہ عظیم صحابی امیرالمومنینؑ کے جن کے پاس اسرارِ آل محمدؑ کا کتابی نسخہ ہو وہ ایسے شخص کے حوالے کریں جس میں کسی بھی قسم کا ضعف پایا جائے؟

ذرا سوچیئے یعنی سلیم بن قیس کا کتاب ابان کو دینا ہی ان کے ثقہ ہونے پر سب سے بڑی دلیل ہے

سید خوئی اس کے بعد تسلسل میں مزید لکھتے ہیں ۔۔

طبقته في الحديث
روى أبان بن أبي عياش عن سليم بن قيس، أو سليم بن قيس الهلالي، و روى عنه عمر بن أذينة، أو ابن أذينة. الكافي: الجزء 1، الكتاب 2، باب استعمال العلم 13، الحديث 1، و باب المستأكل بعلمه و المباهي به 14، الحديث 1، و الجزء 2، الكتاب 1، باب البداء 131، الحديث 3، و باب دعائم الكفر و شعبه 167، الحديث 1، و باب أدنى ما يكون به العبد مؤمنا 179، الحديث 1، و التهذيب:

یعنی روى أبان بن أبي عياش عن سليم بن قيس، أو سليم بن قيس الهلالي ۔۔
ابان بن ابی عیاش نے روایت کو سلیم بن قیس سے نقل کیا ہے ۔۔

سید خوئی کا یہ اقرار ہی کافی ہے کہ ابان نے سلیم سے روایت نقل کی ہیں تو ابان کی ثقایت پر دلیل قائم ہو گئی

أن راوي كتاب سليم بن قيس هو أبان بن أبي عياش، وهو ضعيف على ما مر، فلا يصح الاعتماد على الكتاب، بل قد مر عن العقيقي أنه….

معجم رجال الحديث – السيد الخوئي – ج ٩ – الصفحة ٢٣٤

یہ دوسری جگہ سید خوئی نے لکھا ۔۔ لیکن یہاں بھی جرح مفصل نہیں کی بس ضعیف لکھ دیا جبکہ ضعف کی وجہ ہمیں وہی سمجھ آتی ہے جو میں نے اوپر بیان کی کہ سید نے اقوال کو نقل کیا ہے ۔۔

اور یہ خاص ایک روایت کو لے کر آیت اللہ خوئی نے بات کی ہے وہ تیرہ آئمہ والی روایت پر..

جبکہ تمام شیعہ محدثین کا اس بات پر اجماع ہے کہ اصحابِ اجماع سے جو احادیث نقل ہوئی ہیں وہ سب صحیح السند ہیں کیونکہ اصحاب اجماع خود بھی ثقہ ہیں اور جس سے حدیث نقل کرتے ہیں وہ بھی ثقہ ہوتا ہے جن میں حماد بن عیسیٰ، عثمان بن عیسیٰ ، عمر بن اذنیہ و ابراہیم بن عمر الیمانی وغیرہ اصحابِ اجماع میں شامل ہیں اور ان اصحاب اجماع نے ابان بن ابی عیاش سے روایات نقل کی ہیں تو ان حضرات کا ابان سے نقل کرنا اس کے ثقہ ہونے کی دلیل ہے ۔

تو محترم قارئین اَصْحاب اِجْماع، علم رجال میں شیعوں کی ایک اصطلاح ہے جس سے مراد راویوں کا ایک ایسا گروہ ہے جن پر علم رجال کے ماہرین کو نہایت وثوق اور بھروسہ ہو۔ مشہور کے مطابق ان کی تعداد اٹھارہ ہے۔ جن میں امام محمد باقر(ع) سے لے کر امام رضا(ع) تک کے اصحاب شامل ہیں۔ علم رجال کے تمام علماء انہیں قابل بھروسہ سمجھتے ہوئے ان پر اعتماد کرتے ہیں اور انہی میں سے حماد بن عیسیٰ جہنی و عثمان بن عیسیٰ شامل ہیں جنہوں نے 1500 سے زائد احادیث نقل کی ہیں جن میں اکثر احکام سے متعلق ہیں اور یہی معتبر ترین روای عقائدی احادیث بھی نقل کرتے ہیں جو آج تک شیعہ حوزہ میں پڑھائی جاتی ہیں ۔ مثال کر طور پر کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد جو کہ علامہ حلی کی تالیف ہے اس میں عقائدی حدیث بھی ابان بن ابی عیاش سے مروی ہے ۔

اس پر اگر کھل کر لکھوں تو پوری ایک کتاب تشکیل دینا پڑھ جائے گی تو مختصر کرتے ہوئے یہ کہوں گا کہ ابان بن ابی عیاش کو جیسے علماء اہل سنت نے جھوٹا اور خائن لکھا ہے ویسے ہی حماد بن عیسیٰ کو بھی یہ حضرات کذاب لکھتے ہیں تو کچھ ہمارے شیعہ جو سطحی مطالعہ سے اخذ کر بیٹھے ہیں کہ ابان بن ابی عیاش ثقہ نہیں تو ان کے لیے یہ سب تھوڑی تفصیل سے ذکر کیا کہ فوری کسی نتیجے پر نہ پہنچ جایا کریں اور شیعہ مخالفین کے جھانسے میں نہ آجایا کریں جبکہ مرزاحسین نوری اور آیت اللہ العظمیٰ مامقانی جیسے بزرگ علماء کے نزدیک ابان ایک ثقہ و صدوق راوی ہے ۔

والسلام، ابوعبداللہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے