عربی زبان میں عریضہ درخواست یا شکایت نامے کو کہتے ہیں اور اس کےلئے ہمارے ہاں اردو میں لفظ عرضی بھی بولا جاتا ہے لیکن روایات اہل بیت علیہم السلام میں عریضہ کےلئے رقعہ کا لفظ بولا گیا ہے اور یہ رقعہ کا لفظ بھی اردو میں استعمال ہوتا ہے جیسا کہ ہمارے بزرگ خط یا چٹھی کو رقعہ کہا کرتے تھے ۔

بہرحال لفظ رقعہ بولیں یا عریضہ بولیں دونوں کا ایک ہی مطلب ہے کہ زبان سے بولنے کی بجائے اپنے حالات کو لکھا جائے اور لکھ کر مانگا جائے۔
یوں تو اللہ تعالیٰ ہمارے بہت قریب ہے شہ رگ حیات سے بھی زیادہ قریب ہے ،وہ ہمارے دلوں کے حال کو بھی جانتا ہے لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ہمیں زبان سے دعا مانگنے کا حکم دیا ہے اور روایات اہل بیت علیہم السلام سے یہ بات واضح ہے کہ اللہ کو بندے کا مانگنا بہت پسند ہے ۔

یقینا ًچھوٹی چھوٹی حاجت کو بھی اللہ سے مانگنا انسان کو اللہ کے سامنے منگتا اور فقیر بنا دیتا ہے اور یہ بہت ہی اعلی ٰصفت ہے جو کہ اللہ کو بہت پسند ہے ۔
جس طرح اللہ سے زبان کے ذریعے دعا مانگی جاتی ہے اسی طرح روایات اہل بیت علیہم السلام میں یہ بات بھی موجود ہے کہ اپنے اللہ سے کاغذ میں لکھ کر بھی دعا مانگو ، اپنے سارے حالات کاغذ میں لکھو اور محمد و آل محمد علیہم السلام کا واسطہ دے کر اللہ سے لکھ کر حاجات طلب کرو۔
پس جس طرح یہ اعتراض غلط ہے کہ جب اللہ ہمارے دل تک ی بات کو سنتا ہے تو ہم زبان سے بول کر کیوں مانگیں اسی طرح یہ اعتراض بھی غلط ہے کہ جب اللہ ہماری حالت دیکھ رہا ہے تو ہم کیوں لکھ کر اس سے مانگیں۔
یہ طریقے اہل بیت علیہم السلام کے سکھائے ہوئے ہیں تاکہ انسان اپنے اللہ سے جڑا رہے اور ہر وقت ہر دم اپنی چھوٹی سی چھوٹی ضرورت میں بھی خود اللہ کا محتاج اور اس کا فقیر سمجھے اور مسلسل اپنے دل ، زبان اور لکھنے کے ذریعے اللہ سے مناجات کرتا رہے ۔

علامہ مجلسی رح نے اپنی کتاب بحار الانوار کی جلد 99 میں باب نمبر 10 اسی عنوان سے باندھا ہے محمد و آل محمد علیہم السلام کا واسطہ دے کر کاغذ پر لکھ کر اللہ سے حاجات طلب کرو ۔

اس باب علامہ مجلسی رح چند روایات اہل بیت علیہم السلام ذکر کی ہیں کہ جو ہم اس مقالہ میں ترجمہ کر کے مؤمنین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں ۔ باب کا نام:
باب ۱۰ کتابة الرقاع للحوائج إلی الأئمة صلوات الله علیهم و التوسل و الاستشفاع بهم فی روضاتهم المقدسة و غیرها
ترجمہ:باب10 :حاجات کےلئے آئمہ علیہم السلام کی طرف عریضے لکھنا اور ان سے توسل و طلب شفاعت کرنا ان کے مقدس روضوں وغیرہ میں
اس باب میں کچھ روایات ایسی ہیں کہ جن میں عریضہ (رقعہ) کے اندر اللہ تعالیٰ سے دعا کی جارہی ہے اور اہل بیت علیہم السلام سے شفاعت کی حاجت مانگی جا رہی ہے اور کچھ ایسی روایات بھی ہیں کہ جن میں اللہ سے حاجات طلب کی جا رہی ہیں اور واسطہ محمد و آل محمد علیہم السلام کا دیا جا رہا ہے یعنی اللہ کو عریضہ لکھا جا رہا ہے۔

پہلی روایت امام صادق علیہ السلام سے:

عریضہ(رقعہ) میں اہل بیت علیہم السلام سے شفاعت مانگنا
وَ رُوِیَ عَنِ الصَّادِقِ علیه السلام أَنَّهُ قَالَ: مَنْ قَلَّ عَلَیْهِ رِزْقٌ أَوْ ضَاقَتْ مَعِیشَتُهُ أَوْ کَانَتْ لَهُ حَاجَةٌ مُهِمَّةٌ مِنْ أَمْرِ دُنْیَاهُ وَ آخِرَتِهِ فَلْیَکْتُبْ فِی رُقْعَةٍ بَیْضَاءَ وَ یَطْرَحْهَا فِی الْمَاءِ الْجَارِی عِنْدَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَ تَکُونُ الْأَسْمَاءُ فِی سَطْرٍ وَاحِدٍ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِیمِ الْمَلِکِ الْحَقِّ الْمُبِینِ مِنَ الْعَبْدِ الذَّلِیلِ إِلَی الْمَوْلَی الْجَلِیلِ سَلَامٌ عَلَی مُحَمَّدٍ وَ عَلِیٍّ وَ فَاطِمَةَ وَ الْحَسَنِ وَ الْحُسَیْنِ وَ عَلِیٍّ وَ مُحَمَّدٍ وَ جَعْفَرٍ وَ مُوسَی وَ عَلِیٍّ وَ مُحَمَّدٍ وَ عَلِیٍّ وَ الْحَسَنِ وَ الْقَائِمِ سَیِّدِنَا وَ مَوْلَانَا صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَیْهِمْ أَجْمَعِینَ رَبِّ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَ الْخَوْفُ فَاکْشِفْ ضُرِّی وَ آمِنْ خَوْفِی بِحَقِّ مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَ أَسْأَلُکَ بِکُلِّ نَبِیٍّ وَ وَصِیٍّ وَ صِدِّیقٍ وَ شَهِیدٍ أَنْ تُصَلِّیَ عَلَی مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ اشْفَعُوا لِی یَا سَادَاتِی بِالشَّأْنِ الَّذِی لَکُمْ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنَّ لَکُمْ عِنْدَ اللَّهِ لَشَأْناً مِنَ الشَّأْنِ فَقَدْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ یَا سَادَاتِی وَ اللَّهُ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ فَافْعَلْ بِی یَا رَبِّ کَذَا وَ کَذَا
امام صادق علیہ السلام سے روایت کی گئی ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا:
جس کا رزق تھوڑا ہو یا معیشت تنگ ہو جائے یا اس کےلئے اپنی دنیا اور آخرت کی مہم حاجت ہو تو وہ سفید عریضہ (رقعہ)میں لکھے اور سورج کے طلوع ہوتے وقت اسے جاری پانی میں ڈال دے اور نام ایک ہی سطر میں اس طرح لکھے:
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِیمِ الْمَلِکِ الْحَقِّ الْمُبِینِ مِنَ الْعَبْدِ الذَّلِیلِ إِلَی الْمَوْلَی الْجَلِیلِ سَلَامٌ عَلَی مُحَمَّدٍ وَ عَلِیٍّ وَ فَاطِمَةَ وَ الْحَسَنِ وَ الْحُسَیْنِ وَ عَلِیٍّ وَ مُحَمَّدٍ وَ جَعْفَرٍ وَ مُوسَی وَ عَلِیٍّ وَ مُحَمَّدٍ وَ عَلِیٍّ وَ الْحَسَنِ وَ الْقَائِمِ سَیِّدِنَا وَ مَوْلَانَا صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَیْهِمْ أَجْمَعِینَ رَبِّ
) اور پھر یوں دعا لکھے ۔ ترجمہ دعا)اے میرے پالنے والے مجھے تکلیف اور خوف نے پکڑ لیا ہے محمد و آل محمد ؑکے صدقے میری تکلیف کو ختم فرما اور خوف سے امان عطا فرما ۔ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں ہر نبی، ہر وصی ، ہر شھید اور ہر صدیق کا واسطہ دے کر تو محمد و آل محمد ؑپر درود نازل فرما اے ارحم الراحمین۔
(پھر یہ لکھے) اشْفَعُوا لِی یَا سَادَاتِی بِالشَّأْنِ الَّذِی لَکُمْ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنَّ لَکُمْ عِنْدَ اللَّهِ لَشَأْناً مِنَ الشَّأْنِ فَقَدْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ یَا سَادَاتِی وَ اللَّهُ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ فَافْعَلْ بِی یَا رَبِّ کَذَا وَ کَذَا
ترجمہ:اے میرے سادات گرامی (محمد و آل محمد علیہم السلام ) میرے لئے شفاعت فرمائیں ، آپ کو اس مقام و شرف کا واسطہ جو آپ کا اللہ کے ہاں ہے ۔ اے میرے سادات گرامی مجھے تکلیف نے جکڑ لیا ہے اور اللہ ارحم الراحمین ہے اے میرے رب میری یہ یہ حاجت پوری فرما۔
غور طلب نکتہ:اس عریضہ میں غور طلب نکتہ یہ ہے کہ حاجات اللہ سے مانگی جا رہی ہیں اور محمد و آل محمد علیہم السلام کو اپنی تکلیف بتا کر ان سے شفاعت مانگی جا رہی ہے۔

دوسری روایت امام حسن عسکری علیہ السّلام سے:
اللہ کو عریضہ لکھنا اور امام حسین علیہ السلام کی ضریح میں ڈالنا:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ الْحِمْیَرِیِّ قَالَ: کُنْتُ عِنْدَ مَوْلَایَ أَبِی مُحَمَّدٍ الْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ الْعَسْکَرِیِّ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَیْهِ إِذْ وَرَدَتْ إِلَیْهِ رُقْعَةٌ مِنَ الْحَبْسِ مِنْ بَعْضِ مَوَالِیهِ یَذْکُرُ فِیهَا ثِقْلَ الْحَدِیدِ وَ سُوءَ الْحَالِ وَ تَحَامُلَ السُّلْطَانِ وَ کَتَبَ إِلَیْهِ یَا عَبْدَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ یَمْتَحِنُ عِبَادَهُ لِیَخْتَبِرَ صَبْرَهُمْ فَیُثِیبَهُمْ عَلَی ذَلِکَ ثَوَابَ الصَّالِحِینَ فَعَلَیْکَ بِالصَّبْرِ وَ اکْتُبْ إِلَی اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ رُقْعَةً وَ أَنْفِذْهَا إِلَی مَشْهَدِ الْحُسَیْنِ بْنِ عَلِیٍّ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَیْهِ وَ ارْفَعْهَا عِنْدَهُ إِلَی اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ ادْفَعْهَا حَیْثُ لَا یَرَاکَ أَحَدٌ
عبد بن جعفر حمیری کہتا ہے کہ میں اپنے مولا امام حسن عسکری صلوات اللہ علیہ کے پاس تھا تو اس وقت آپ کے پاس آپ کے چاہنے والے ایک قیدی کا خط آیا کہ جس میں اس نے لوہے کے بھار اور بری حالت اور بادشاہ کے ظلم کا ذکر کیا تھا تو امام علیہ السلام نے اس کی طرف لکھا کہ اللہ عزوجل اپنے بندوں کا امتحان لیتا ہے تاکہ ان کے صبر کو آزما سکے اور اس پر انہیں صالحین کا ثواب عطا کرتا ہے پس تم صبر کرو اور اللہ عزوجل کو ایک عریضہ (رقعہ) لکھو اور اسے امام حسین علیہ السلام کے روضے کی طرف لے جاؤ اور اسے اللہ کی طرف بلند کرو اور اس طرح ڈال دو کہ تمہیں کوئی نہ دیکھ رہا ہو
وَ اکْتُبْ فِی الرُّقْعَةِ: إِلَی اللَّهِ الْمَلِکِ الدَّیَّانِ الْمُتَحَنِّنِ الْمَنَّانِ ذِی الْجَلَالِ وَ الْإِکْرَامِ وَ ذِی الْمِنَنِ الْعِظَامِ وَ الْأَیَادِی الْجِسَامِ وَ عَالِمِ الْخَفِیَّاتِ وَ مُجِیبِ الدَّعَوَاتِ وَ۔۔۔۔۔۔۔۔
اور رقعہ (عریضہ) میں یہ لکھو: ۔۔۔(اوپر عربی متن)
پھر اس کے بعد کافی لمبی دعا امام نے تعلیم فرمائی کہ جس کے اندر اللہ سے محمد و آل محمد ؑکا واسطہ دے کر مانگنے کی دعا ان الفاظ میں لکھنے کا حکم دیا:
فَإِنِّی أَسْأَلُکَ وَ أَتَوَجَّهُ إِلَیْکَ وَ أَتَوَسَّلُ إِلَیْکَ وَ أَتَقَرَّبُ إِلَیْکَ وَ أَسْتَشْفِعُ إِلَیْکَ وَ أُقْسِمُ عَلَیْکَ یَا مَنْ لَا مَسْئُولَ غَیْرُهُ وَ لَا رَبَّ سِوَاهُ بِجَاهِ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ رَسُولِکَ وَ بِجَاهِ أَوْلِیَائِکَ وَ خِیَرَتِکَ وَ أَصْفِیَائِکَ وَ أَحِبَّائِکَ مِنْ خَلْقِکَ عَلَی أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ وَ فَاطِمَةَ وَ الْحَسَنِ وَ الْحُسَیْنِ وَ عَلِیِّ بْنِ الْحُسَیْنِ وَ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ وَ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ وَ مُوسَی بْنِ جَعْفَرٍ وَ عَلِیِّ بْنِ مُوسَی وَ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ وَ عَلِیِّ بْنِ مُحَمَّدٍ وَ الْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ وَ الْخَلَفِ الصِّدْقِ الصَّالِحِ صَاحِبِ زَمَانِکَ وَ الْقَائِمِ بِحُجَّتِکَ وَ أَمْرِکَ وَ عَیْنِکَ فِی عِبَادِکَ مِنْ وُلْدِ نَبِیِّکَ صَلَوَاتُکَ عَلَیْهِمْ أَجْمَعِینَ وَ سَلَامُکَ وَ رَحْمَتُکَ وَ بَرَکَاتُکَ خَالِصاً

تیسری روایت امام محمد باقر علیہ السلام سے:
عریضہ میں اللہ سے حاجات طلب کرنا اور محمد و آل محمد علیہم السلام کا واسطہ دینا
رُوِیَ عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ الْأَوَّلِ علیه السلام أَنَّهُ قَالَ: إِذَا دَهِمَکَ أَمْرٌ یُهِمُّکَ أَوْ عَرَضَ لَکَ حَاجَةٌ یَعْلَمُ اللَّهُ سُبْحَانَهُ حَقِیقَتَهَا وَ صَدَقَ الْقَوْلُ فِیهَا فَهُوَ عَالِمٌ بِالْغُیُوبِ وَ خَفِیَّاتِ الْأُمُورِ فَکُنْ طَاهِراً وَ صُمْ یَوْمَ الْخَمِیسِ أَصْبِحْ یَوْمَ الْجُمُعَةِ فَاکْتُبْ فِی رُقْعَةٍ مَا أَنَا ذَاکِرُهُ لَکَ بِمِدَادٍ أَوْ بِحِبْرٍ وَ اطْوِ الْوَرَقَةَ وَ اعْمِدْ إِلَی وَسَطِ الْبَحْرِ فَاسْتَقْبِلِ الْقِبْلَةَ وَ سَمِّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ جَلَالُهُ وَ صَلِّ عَلَی رَسُولِ اللَّهِ صلی الله علیه و آله وَ عَلَی آلِهِ الْأَبْرَارِ وَ قُلْ اللَّهُ لِکُلِّ شَیْ ءٍ وَ ارْمِ بِهَا فِی الْبَحْرِ فَإِنَّ اللَّهَ جَلَّتْ عَظَمَتُهُ یَقْضِی حَاجَتَکَ وَ یَکْفِیکَ بِقُدْرَتِهِ تَکْتُبُ سُورَةَ الْحَمْدِ وَ آیَةَ الْکُرْسِیِّ إِلَی قَوْلِهِ هُمْ فِیها خالِدُونَ وَ الم اللَّهُ لا إِلهَ إِلَّا هُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ إِلَی قَوْلِهِ وَقُودُ النَّارِ وَ قُلِ اللَّهُمَّ مالِکَ الْمُلْکِ إِلَی قَوْلِهِ بِغَیْرِ حِسابٍ وَ۔۔۔۔۔۔
امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی گئی ہے کہ امام علیہ السلام نے فرمایا:
جو تمہیں کوئی اہم مسئلہ درپیش ہو یا کوئی حاجت پیش آجائے ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس کی حقیت جانتا ہے اور اس میں بات سچی ہے پس وہ غیب اور پوشیدہ معاملات کا جاننے والا ہے۔
تم پاک ہو جاؤ اور جمعرات کو روزہ رکھو اور جمعے کی صبح رقعہ (عریضہ) میں وہی لکھو جو میں بیان کروں گا ، روشنائی یا سیاہی سے ، اور دریا کے درمیان میں جاؤ ، رخ قبلہ کی طرف کرو ، اللہ عزوجل کا نام لو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ان کی نیک آل پر درود بھیجو اور کہو کہ ہرشیئ کےلئے اللہ ہے اور یہ رقعہ دریا میں ڈال دو ، بیشک اللہ تعالی کی عظمت بہت بلند ہے وہ تمہاری حاجت کو پورا کر دے گا اور اپنی قدرت سے تمہارے لئے کافی ہو جائے گا، تم الحمد سورہ اور آیت الکرسی وھم خالدون تک لکھنا ۔۔۔
(آخر روایت تک)
اس کے اس رقعہ میں اعلیٰ مضمون پر مشتمل دعا لکھنے کا امام علیہ السلام نے حکم دیا کہ جس کے اندر محمد و آل محمدؑ سے توسل کے یہ الفاظ بھی شامل ہیں:
وَ سَلَامٌ عَلَی آلِ یَاسِینَ فِی الْعَالَمِینَ مُحَمَّدٍ وَ عَلِیٍّ وَ فَاطِمَةُ وَ الْحَسَنِ وَ الْحُسَیْنِ وَ عَلِیٍّ وَ مُحَمَّدٍ وَ جَعْفَرٍ وَ مُوسَی وَ عَلِیٍّ وَ مُحَمَّدٍ وَ عَلِیٍّ وَ الْحَسَنِ وَ حُجَّتِکَ یَا رَبِّ عَلَی خَلْقِکَ اللَّهُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ یَا رَبِّ لِأَنَّکَ أَنْتَ إِلَهِی وَ خَالِقِی وَ إِلَهُ الْأَوَّلِینَ وَ الْآخِرِینَ لَا إِلَهَ غَیْرُکَ وَ لَا مَعْبُودَ سِوَاکَ أَتَوَجَّهُ إِلَیْکَ بِحَقِّ هَذِهِ الْأَسْمَاءِ الَّتِی إِذَا دُعِیتَ بِهَا أَجَبْتَ وَ إِذَا سُئِلْتَ بِهَا أَعْطَیْتَ إِلَّا صَلَّیْتَ عَلَیْهِمْ أَجْمَعِینَ وَ فَعَلْتَ بِی کَذَا وَ کَذَا
پھر امام علیہ السلام نے فرمایا:
وَ تَکْتُبُ ذِکْرَ حَاجَتِکَ فِی الْوَرَقَةِ وَ تُصَلِّی عَلَی مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَ رَحْمَةُ اللَّهِ وَ بَرَکَاتُهُ عَلَی أَهْلِ الْبَیْتِ وَ عَلَی أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ الْمُنْتَجَبِینَ الْأَخْیَارِ الَّذِینَ لَا غَیَّرُوا وَ لَا بَدَّلُوا وَ لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَلِیِّ الْعَظِیمِ وَ حَسْبُنَا اللَّهُ وَ نِعْمَ الْوَکِیلُ.
تم اپنے حاجت کو بھی اس ورقہ میں لکھو اور محمد و آل محمد پر دروو بھیجو ۔۔
(آخر روایت تک)

چوتھی روایت امام صادق علیہ السلام سے:
عریضہ لکھ کر اللہ سے محمد و آل محمد علیہم السلام کے واسطہ سے حاجات طلب کرنا
عَنِ الصَّادِقِ علیه السلام: إِذَا کَانَ لَکَ حَاجَةٌ إِلَی اللَّهِ تَعَالَی أَوْ خِفْتَ شَیْئاً فَاکْتُبْ فِی بَیَاضٍ بَعْدَ الْبَسْمَلَةِ اللَّهُمَّ إِنِّی أَتَوَجَّهُ إِلَیْکَ بِأَحَبِّ الْأَسْمَاءِ إِلَیْکَ وَ أَعْظَمِهَا لَدَیْکَ وَ أَتَقَرَّبُ وَ أَتَوَسَّلُ إِلَیْکَ بِمَنْ أَوْجَبْتَ حَقَّهُ
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ جب تمہں اللہ تعالیٰ سے کوئی حاجت مانگنی ہو یا کسی بات سے ڈر ہو تو ایک سفید ورقے میں بسم اللہ کے بعد یہ لکھو:
اللَّهُمَّ إِنِّی أَتَوَجَّهُ إِلَیْکَ بِأَحَبِّ الْأَسْمَاءِ إِلَیْکَ وَ أَعْظَمِهَا لَدَیْکَ وَ أَتَقَرَّبُ وَ أَتَوَسَّلُ إِلَیْکَ بِمَنْ أَوْجَبْتَ حَقَّهُ عَلَیْکَ بِ مُحَمَّدٍ وَ عَلِیٍّ وَ فَاطِمَةَ وَ الْحَسَنِ وَ الْحُسَیْنِ وَ الْأَئِمَّةِ علیهم السلام وَ تُسَمِّیهِمْ اکْفِنِی کَذَا وَ کَذَا
ترجمہ: اے اللہ میں تیری طرف تیرے نزدیک پسندیدہ اور عظیم ناموں کے واسطہ سے متوجہ ہوتا ہوں اور ان ہستیوں کے واسطے سے تیرے قریب ہوتا ہوں اور تجھ سے توسل کرتا ہوں کہ جن کا حق تو نے واجب کیا ہے ، محمد و علی و فاطمہ و حسن و حسین اور آئمہ علیہم السلام کا واسطہ۔
اور تم آئمہ کے نام لو اور کہو: اے اللہ تو اس اس حاجت کو پورا کر دے۔
پھر امام علیہ السلام نے فرمایا:
ثُمَّ تَطْوِی الرُّقْعَةَ وَ تَجْعَلُهَا فِی بُنْدُقَةِ طِینٍ وَ تَطْرَحُهَا فِی مَاءٍ جَارٍ أَوْ بِئْرٍ فَإِنَّهُ تَعَالَی یُفَرِّجُ عَنْکَ
پھر اس رقعہ (عریضہ) کو طے کر کے مٹی کے اندر بند کر کے جاری پانی یا کنوئیں میں ڈال دو بیشک اللہ تعالیٰ تمہاری حاجت کو پورا فرما دے گا۔

ایک اہم سوال اور اس کا جواب:
سوال:کیا ان روایات اور ان جیسی دیگر روایات کی سند تام ہے تاکہ ان پر اعتماد کیا جا سکے؟
جواب: مستحب اعمال کو ثابت کرنے کےلئے روایات کی سند کا مکمل ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ متقدمین کے ہاں ایک قاعدہ مشہور ہے (کہ جو صحیح السند روایات سے ثابت ہے) جس کا نام قاعدۃ تسامح فی ادلۃ السنن ہے یعنی مستحب اعمال کو ثابت کرنے والی روایات میں سختی کی ضرورت نہیں بلکہ ضعیف اور مرسلہ روایات سے بھی مستحب ثابت ہوجاتا ہے ۔ جبکہ متاخرین کے ہاں یہ قاعدہ ثابت نہیں ہے لیکن اس کے باوجود ان کےنزدیک اگر یہ عمل رجاء مطلوبیت کے قصد سے انجام دیا جائے تو ثواب یقینی طور پر ملے گا چاہے وہ عمل حقیقت میں ثابت نہ بھی ہو ،رجاء مطلوبیت کا مطلب یہ ہے کہ انسان اس امید پر عمل انجام دے کہ ہو سکتا ہے کہ معصومین علیہم السلام نے اس عمل کا کہا ہو تو اگرچہ اس عمل کا معصومین علیہم السلام نے نہ بھی کہا ہو تو تب بھی اس کا ثواب مل جائے گا ۔
جیسا کہ صحیح السند روایات یعنی اخبار من بلغ میں یہ بات واضح طور پر موجود ہے اور شیخ حر عاملی رح نے وسائل الشیعہ ج اول میں پورا باب اس پر باندھا ہے:
وسائل الشيعة ؛ ج‏1 ؛ ص80
بَابُ اسْتِحْبَابِ الْإِتْيَانِ بِكُلِّ عَمَلٍ مَشْرُوعٍ رُوِيَ لَهُ ثَوَابٌ عَنْهُمْ ع‏
ہر جائز عمل کو انجام دینا مستحب ہوتا ہے کہ جس کے ثواب کے متعلق معصومین علیہم السلام سے روایت کی گئی ہو۔

تفصیل کےلئے وسائل الشیعہ کا یہ باب ملاحظہ فرمائیں۔ مقالے کے اختصار کی خاطر ہم ان روایات کے تذکرے کو چھوڑ رہے ہیں۔

تحریر: ابو حیدر (متعلم حوزہ علمیہ نجف اشرف )

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے