محرر : مولانا شیخ تقی ہاشمی النجفی (حوزہ علمیہ نجف اشرف)

سوال: ہر مجتہد اپنی توضیح المسائل کے شروع میں لکھتا ہے کہ اس میں دیے گئے مسائل پر عمل کرنے سے آپ کا ذمہ ان شاء اللہ بری ہو جائے گا یعنی وہ ضمانت لے رہا ہے جبکہ قرآن کہتا ہے کہ قیامت کے دن کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا ، تو اب بتائیں قرآن کی مانیں یا مجتہد کی مانیں ؟

جواب:
سوال کی وضاحت کرنے کے بعد ہم جواب کی طرف آتے ہیں:

سوال کی وضاحت:
جو بھی فتویٰ دیتا ہے تو اگر وہ غلط ہوا تو مجتہد کا یہ کہنا ہے کہ تم ضامن نہیں ہو بلکہ میں خود ضامن ہوں ، یعنی آپ کی گردن چھوٹ جائے گی اور میں آپ کی ضمانت دوں گا۔ اس جملے کا واضح مطلب یہی ہے کہ مقلد حضرات جو غلطی کریں گے اس کا گناہ مجتہد کی گردن پر ہوگا چونکہ اس نے ہی ان کو غلط بتایا تھا، لہذا مقلد خوش ہو جاتا ہے کہ چلو مجھے تو گناہ نہیں ہوگا، میرا گناہ مجتہد کی گردن پر ۔
جبکہ قرآن مجید کی سورہ انعام اور اس کے علاوہ بھی دیگر مقامات پر یہ واضح آیت موجود ہے:
وَ لا تَزِرُ وازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرى‏ (انعام 164)
اور کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔
تو پس تقلید ایک دھوکا ہے اور قرآن کے خلاف ہے ، لہذا فقہاء کی تقلید نہ کرو اور خود سے آیت یا روایت پڑھ کر دین سمجھو۔
جواب:
آپ سے ہم سوال کرتے ہیں:
اگر کوئی سچا پکا مؤمن یا قابل اعتماد مسلمان آپ سے کہے کہ یہ حلال گوشت ہے، آپ کھا لیں اور آپ نے اس کی بات پر اعتماد کرتے ہوئے وہ گوشت کھا لیا اور بعد میں پتہ چلا کہ وہ تو حرام تھا یا قیامت کے دن پتہ چلا کہ وہ حرام تھا تو کیا آپ نے جو حرام گوشت کھانے والا گناہ کیا ہے اس کا عذاب آپ کو ملے گا یا جس نے آپ کو غلط خبر دی اس کو عذاب ملے گا؟
آپ واضح طور پر کہیں گے کہ:
بھائی مجھے کیوں عذاب ملے ، میں نے جان بوجھ کر تھوڑا ہی حرام گوشت کھایا ہے ، مجھے تو اس قابل اعتماد مؤمن یا مسلمان نے کہا تھا کہ یہ حلال ہے تو میں نے کھا لیا ، اب وہ اس کا ذمہ دار ہے ۔
ہم کہیں گے کہ:
کیوں جناب؟!وہ کیوں آپ کا گناہ اٹھائے ؟ قرآن کے مطابق کوئی کسی کا بوجھ اور گناہ نہیں اٹھاتا لہذا آپ نے خود اپنا گناہ اٹھانا ہے ۔
تو مزید آپ وضاحت کریں گے کہ:
دیکھو بھائی میں نے کوئی گناہ ہی نہیں کیا ، گناہ تو تب ہوتا کہ جب مجھے پتہ ہوتا کہ یہ حرام گوشت ہے ، مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا کہ یہ حرام گوشت ہے بلکہ میں نے تومؤمن کی بات پر اعتماد کیا اور اسے حلال سمجھا ، لہذا میں نے گناہ ہی نہیں کیا ، چونکہ لاعلمی میں جو حرام گوشت کھا لیا جائے اس کا گناہ نہیں ہوتا۔ پس جب میں نے گناہ ہی نہیں کیا تو عذاب اور بوجھ کیسا؟
تو ہم کہیں گے کہ میرے محترم!
یہی بات مجتہد کے فتوے کی بھی ہے ، جب آپ نے مجتہد کے بارے میں تحقیق کی اور آپ کو پتہ چلا کہ وہ جوانی سے ہی محمد و آل محمد کے علوم پڑھ رہا ہے اور پڑھا رہا ہے اور وہ نیک اور عادل انسان ہے اور وہ دین کے مسئلے میں ہمیشہ محنت اور علم سے قرآن و حدیث سے نکال کر رہنمائی فراہم کرتا ہے تو اس صورت میں آپ نے اس پر اعتماد کر لیا اور اس کے کہنے کے اوپر واجب اور حلال یا حرام سمجھا ۔اب قیامت کے دن پتہ چلا کہ ایک نیک اور عادل اور عالم مجتہد نے جو بتایا تھا وہ غلط تھا اور یہ کام تو حرام تھا تو یہ آپ کا گناہ نہیں ہوگا بلکہ جس نے آپ کو غلط خبر دی ہے یہ اس کے ذمے ہوگا ۔
اب آپ کہیں گے کہ قبلہ یہ تو ساری عقلی باتیں ہیں ہمیں قرآن و حدیث سے دکھاؤ ۔
تو جناب عالی قرآن کی ایک آیت کو لے کر حکم لگا دینا کہاں کا انصاف ہے ، آپ کو چاہئے کہ دیگر آیات کا بھی مطالعہ کریں تاکہ آپ کےلئے بات واضح ہو سکے ۔
بہرحال ہم آپ کی خدمت میں آیت اور روایات پیش کر دیتے ہیں :
قرآن مجید کی آیت کہ انسان دوسروں کو بوجھ بھی اٹھائے گا:
اللہ تعالیٰ سورہ نحل میں ارشاد فرماتا ہے:
لِيَحْمِلُوا أَوْزارَهُمْ كامِلَةً يَوْمَ الْقِيامَةِ وَ مِنْ أَوْزارِ الَّذينَ يُضِلُّونَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ أَلا ساءَ ما يَزِرُونَ (نحل25)
یہ لوگ قیامت کے دن اپنا سارا بوجھ اور کچھ ان کا بوجھ بھی اٹھائیں گے جنہیں وہ لاعلمی کی حالت میں گمراہ کرتے ہیں دیکھو! کتنا برا بوجھ ہے جو یہ اٹھا رہے ہیں۔
اب آیت واضح بتلا رہی ہے کہ قیامت کے دن کچھ لوگ اپنا بھی پورا بوجھ اٹھائیں گے اور ان لوگوں کا بھی بوجھ اٹھائیں گے کہ جن کو انہوں نے لاعلمی کی حالت میں گمراہ کیا ۔تو پس گمراہ ہونے والے تو بیچارے لاعلم تھے ، لہذا ان کا بوجھ بھی قرآن کے مطابق گمراہ کرنے والے کی گردن پر ہوگا۔
اب آپ بتائیں کہ کیا یہ آیت پہلی والی آیت سے ٹکرا گئی؟
جواب: نہیں ، چونکہ پہلی عام ہے اور یہ خاص ہے اور قرآن میں عام و خاص موجود ہیں ۔ پہلی عمومی بات کر رہی تھی کہ کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور یہ آیت خصوصی کیس ڈسک کر رہی ہے کہ نہیں اگر کوئی کسی کو گمراہ کر دے تو جو اس کی وجہ سے گناہ میں پڑا اس کا بوجھ بھی گمراہ کرنے والے کو اٹھانا پڑے گا۔
پس دین اسلام کو بیان کرنے والا ہر راوی ، ہر مفتی اور ہر عالم ذمہ دار ہوتا ہے۔

اور اسی بات کو احادیث کی کتابوں میں بھی بیان کیا گیا ہے کہ مفتی یعنی فتویٰ دینے والا آپ کا ضامن (ذمہ دار) ہوتا ہے ، بلکہ اصول کافی اور دیگر کتابوں میں پورے پورے باب باندھے گئے ہیں کہ المفتی ضامن۔

ہم چند ایک احادیث آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں :
پہلی روایت:
عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَجَّاجِ قَالَ: كَانَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع قَاعِداً فِي حَلْقَةِ رَبِيعَةِ الرَّأْيِ فَجَاءَ أَعْرَابِيٌّ فَسَأَلَ رَبِيعَةَ الرَّأْيِ عَنْ مَسْأَلَةٍ فَأَجَابَهُ فَلَمَّا سَكَتَ قَالَ لَهُ الْأَعْرَابِيُّ أَ هُوَ فِي عُنُقِكَ فَسَكَتَ عَنْهُ رَبِيعَةُ وَ لَمْ يَرُدَّ عَلَيْهِ شَيْئاً فَأَعَادَ عَلَيْهِ الْمَسْأَلَةَ فَأَجَابَهُ بِمِثْلِ ذَلِكَ فَقَالَ لَهُ الْأَعْرَابِيُّ أَ هُوَ فِي عُنُقِكَ فَسَكَتَ رَبِيعَةُ فَقَالَ لَهُ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع هُوَ فِي عُنُقِهِ قَالَ أَوْ لَمْ يَقُلْ وَ كُلُّ مُفْتٍ ضَامِنٌ.( الكافي (ط – الإسلامية)، ج‌7، ص: 409)
عبد الرحمن بن حجاج کہتا ہے کہ ایک دفعہ امام صادق علیہ السلام ربیعہ رای کی محفل میں بیٹھے تھے تو ایک بدو آیا اور اس نے ربیعہ سے کوئی مسئلہ پوچھا تو ربیعہ نے اسے جواب دیا ، جب وہ خاموش ہوگیا تو بدو نے اس سے کہا کہ کیا یہ جواب تمہاری گردن پر ہے(یعنی کیا تم اس کی ذمہ داری لیتے ہو) تو ربیعہ خاموش رہا اور اس نے کچھ جواب نہ دیا ، تو بدو نے دوبارہ وہی مسئلہ پوچھا تو اس نے وہی پہلے والا جواب دیا ، تو پس پھر بدو نے اس سے کہا کہ تم اس کی ذمہ داری لیتے ہو تو پھر بھی ربیعہ خاموش رہا ۔ تو امام صادق علیہ السلام نے بدو سے فرمایا کہ یہ اس کی گردن پر ہے ، یہ کہے یا نہ کہے اور ہر فتویٰ دینے والا ضامن (ذمہ دار) ہوتا ہے ۔
پس اس روایت میں مولا علیہ السلام نے واضح بتلا دیا کہ فتویٰ دینے والا آپ کا ضامن ہوتا ہے ، اگر وہ غلط بتا رہا ہے تو اسے عذاب ہوگا۔
دوسری روایت:
عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ قَالَ قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ ع مَنْ أَفْتَى النَّاسَ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَ لٰا هُدىً مِنَ اللَّهِ لَعَنَتْهُ مَلَائِكَةُ الرَّحْمَةِ وَ مَلَائِكَةُ الْعَذَابِ وَ لَحِقَهُ وِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِفُتْيَاهُ.( الكافي (ط – الإسلامية)، ج‌7، ص: 409)
امام ابو جعفر علیہ السلام نے فرمایا:
جو لوگوں کو بغیر علم اور اللہ کی ھدایت کے بغیر فتویٰ دیتا ہے تو اس پر رحمت کے فرشتے بھی لعنت کرتے ہیں اور عذاب والے فرشتے بھی لعنت کرتے ہیں اور فتویٰ دینے والے کو اس کے فتویٰ پر عمل کرنے والے کا بوجھ دے دیا جاتا ہے ۔

اس روایت کے آخری جملے پر غور فرمائیں کہ جو اس کے فتوے پر عمل کر رہا ہے اس کا بوجھ اس مفتی کو دے دیا جاتا ہے ۔

اور معصوم کے اس فرمان سے یہ بھی حقیقت کھل کر سامنے آگئی کہ جو بھی فتویٰ اگر علم اور اللہ کی دی گئی ھدایت کے بغیر ہوگا تو ایسے فتویٰ دینے والے پر لعنت ہوتی ہے ، لیکن اگر فتویٰ اللہ کی ھدایت یعنی قرآن و سنت کی روشنی میں ہو اور علم کی بنیاد پر ہو تو ایسا فتویٰ دینا غلط نہیں ہے بلکہ باعث اجر و ثواب ہے چونکہ یہ لوگوں کی دین کی طرف بلانا اور اس نصیحت کی طرف بلانا ہے کہ جو اللہ نے اپنے حبیب ﷺ پر نازل فرمائی تو پس جو اس فتویٰ سے انکار کرے گا تو درحقیقت وہ قرآن و سنت میں بیان کی گئی اللہ کی نصیحت اور حکم سے انکار کرے گا تو اس فتویٰ پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے وہ گمراہی میں پڑ جائے گا اور اپنے گناہ کا بوجھ اسے قیامت کے دن خود اٹھانا پڑے گا اور اسی بات کو قرآن مجید نے یوں بیان فرمایا ہے:
كَذَالِكَ نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنبَاءِ مَا قَدْ سَبَقَ وَ قَدْ ءَاتَيْنَاكَ مِن لَّدُنَّا ذِكْرًا(99)مَّنْ أَعْرَضَ عَنْهُ فَإِنَّهُ يحمِلُ يَوْمَ الْقِيَمَةِ وِزْرًا (طہ 100)
(اے رسول) اسی طرح ہم آپ سے گزشتگان کی خبریں بیان کرتے ہیں اور ہم نے آپ کو اپنے حال سے ایک نصیحت عطا کی ہے۔ جو اس سے منہ توڑے گا پس بروز قیامت وہ یقینا ایک بوجھ اٹھائے گا۔
خدا ہم سب مؤمنین کو آپس میں اتحاد و اتفاق عطا فرمائے اور اپنے اختلافی مسائل کو علمی انداز اور خوش اسلوبی سے حل کرنے کی توفیق دے ۔ آمین
اللھم صل علی محمد و آل محمد وعجل فرجہم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے