(عرضِ مترجم: یہ مضمون پروفیسر کارولینسايج کی کتاب ”پیٹریاٹک آیت اللہ  کے دوسرے باب کا ترجمہ ہے۔ اس کتاب میں فاضل پروفیسر نے نجف کے مراجعِ اربعہ، بالخصوص دنیا بھر کےاہلِ تشیع کے مرجعِ اعلیٰ آیت اللہ سیستانی،کی جمہوری جدوجہد پر تحقیق کی ہے۔ حوالہ جات آن لائن نسخے میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ آیت اللہ سیستانی کے نمائندے حامد الخفاف کی تدوین کردہ کتاب ”النصوص الصادرہ“، طبع ششم، بیروت، سنہ 2015ء کے حوالے مضمون میں شامل کئے گئے ہیں۔)

20جنوری 2003 کو، عراق پر امریکی حملے کےآغاز سے دو ماہ پہلے، بش انتظامیہ نے پینٹاگون کو عراق کی سیاسی اور معاشی تنظیمِ نو کے عمل کی نگرانی کیلئے تعمیرِ نو اور انسانی امداد کا ادارہ (او آر ایچ اے) قائم کرنے کا حکم دیا۔ اس ادارے کے سربراہ جے گارنر کو بتایا گیا تھا کہ ان کی ماموریت آسان اور مختصر ہو گی۔ محکمہ دفاع کے نائب معتمد برائے حکمت عملی،ڈوگلس فیتھ نے کہا کہ نوے دن میں ایک عبوری حکومت قائم کر کے  سفارتی تعلقات بحال اور امریکی فوج کا انخلا شروع کر دیا جائے گا۔بش انتظامیہ امریکی عوام کو بتاتی رہی تھی کہ عراق پر طویل مدت کیلئے قبضہ برقرار رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہو گی کیوں کہ عراقی عوام امریکی فوج کا آزاد کنندگان کی طرح استقبال کریں گے۔ خیال یہ تھا کہ صدام حسین کے بعدتعمیر نو کے امریکی منصوبوں کی کوئی مخالفت نہ ہو گی۔ اس کے اقتدار سے محروم ہونے کے بعد عراق امریکہ کے سامنے ایک صاف تختی کی طرح ہو گا۔ شروع میں گارنر بعث پارٹی کو استحکام اور امن کو قائم رکھنے کیلئے باقی رکھنا چاہتا تھا تاکہ پہلے سے موجود ریاستی انتظامیہ کو ساتھ لے کر چلے، لیکن یہ رائے امریکی محکمہ دفاع کے سینئر عہدیداروں اور نائب صدر کے ہاں غیر مقبول تھی۔ ان اداروں میں امریکی حملے کے منصوبہ ساز بعد از صدام کی عراقی ریاست کی شکل گیری میں ان عراقیوں کے ساتھ مل کر چلنا چاہتے تھے جنہیں صدام کے زمانے میں وطن چھوڑنا پڑا تھا۔

21اپریل 2003ء میں، جنگ شروع ہونے کے ایک ماہ بعد، گارنر کو اس ذمہ داری سے سبکدوش کر کے اس ادارے کو تحلیل کر دیا گیا اور 11 مئی کو نیدر لینڈ میں امریکہ کے سابق سفیر اور محکمۂ خارجہ کے سینئر افسر پال بریمر کی سربراہی میں سلطۃ الائتلاف المؤقتہ (کوالیشن پرویژنل اتھارٹی ؛سی پی اے) کے نام سے ایک نیا ادارہ قائم کیا گیا۔ 28 جون 2004ء میں عبوری حکومت کے قیام تک سی پی اے نے عراق پر بلا شرکت غیرے حکومت کی۔سابقہ تارکین وطن اور دو کرد جماعتوں کے مشوروں پر چلتے ہوئے ایک وائسرائے کے انداز میں بریمر نے بہت سے مثالیت پسندی پر مبنی فیصلے کئے جو عراق کے سماجی اور سیاسی حقائق کی بابت کم علمی اور لا تعلقی کا مظہر تھے۔ فرامین میں عراقی ریاست سےبعثی اثرات کا صفایا اور عراقی فوج کے کور کمانڈرز کو منصبوں سے ہٹانا سر فہرست تھا۔ بریمر نے بعثی اثرات کے خاتمے کے عمل پرپوری لگن سے کام کیا کہ جس کے نتیجے میں ہزاروں فوجی افسروں کو تنخواہوں اور مراعات سے محروم کر کے مستقبل میں سرکاری نوکریوں کیلئے نااہل قرار دیا گیا۔وہ عراقیوں کی اکثریت کی رائے معلوم کرنے کے کسی طریقہٴ کار کو وضع کئے بغیرمعیشت کے بڑے حصے کو نجی ملکیت میں دینے، اعلیٰ تعلیم کے نظام کی تنظیمِ نو اور آزاد جمہوری ریاست کے قیامکے قائل تھے۔ ان منصوبوں پر عمل درآمد کی ذمہ داری سی پی اے کے ذیلی افسران اور پرائیویٹ کنٹریکٹرز کے کندھوں پر تھی جن میں سے اکثر کے پاس اس قسم کے کاموں کا کوئی تجربہ نہ تھا اور ان میں سے کچھ تو محض نظریاتی طور پر بریمرسے اتفاق رکھنے کی بدولتچنے گئے تھے [1]۔

بریمرنے عراق گورننگ کونسل کو ان منصوبوں کا عراقی چہرہ قرار دیا۔ ایک ایسا ڈھانچہ جسے انہوں نے یہ سوچ کر تخلیق کیا تھا کہ اس میں عراق کے تمام نسلی اور مذہبی گروہوں کی نمائندگی ہونی چاہئیے۔ارکان کوان کی سیاسی سوچ یا پیشہ وارانہ مہارت کی بجائے گروہی تعلقات کی وجہ سے چنا گیا تھا۔ اگرچہ اس کونسل کے پاس اختیارات بہت کم تھے لیکن اس کی ترکیب نے اس روایت کی بنیاد رکھی کہ صدام کے بعد کے عراق میں آزاد جمہوریت شناخت کے خطوط پر چلے گی۔اس نظام میں ملک کی سیاسی اور انتظامی طاقت مذہبی اور نسلی بنیادوں پر تفویض ہونا تھی۔

بش انتظامیہ اور میڈیا کے مرکزی دھارے سے تعلق رکھنے والے مبصرین کی طرح بریمر نے بھی فرض کر لیا تھا کہ آمریت کے عادی عراقی لوگ امریکہ کا ترتیب دیا گیا تعمیرِ نو کا منصوبہ من و عن تسلیم کر لیں گے۔ اس مفروضے میں بہت خامیاں تھیں۔ اگلے پندرہ مہینوں میں جیسے جیسے بریمر نے عراق کی تشکیلِ نو کا کام آگے بڑھایا، انہیں متعدد حلقوں کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ بریمر کیلئے شاید سب سے زیادہ تعجب آور بات آیت اللہ سیستانی کی ان منصوبوں کے خلاف شدید مزاحمت تھی، کہ جس میں باقی تین مراجع ان کے ساتھ تھے۔ جیسا کہ اپنی کتاب کے سابقہ ابواب میں دیکھا جا چکا ہے، امید یہ تھی کہ آیت اللہصاحبان صدیوں پرانی سکوت کی روش پر عمل پیرا ہو کر سیاست سے کنارہ کش رہیں گے۔ اس کے برعکس وہ نہایت دلچسپی سے سیاسی عمل کا جائزہ لیتے رہتے تھے اور جب ضروری سمجھتے مداخلت کرتے تھے۔ عام غلط فہمی کے برعکس آیت اللہصاحبانصدام کے بعد کے عراق میں عوام کے حق حاکمیت، مساوات، شفافیت اور جمہوریت کے بارے میں ہونے والی بحثوں میں مرکزی اہمیت رکھتے ہیں۔ [2]

اگرچہ اس باب میں ہماری توجہ آیت اللہ سیستانی پر ہو گی لیکن باقی تینوں مراجع نے جمہوری عمل کے سلسلے میں ان کے ہر اہم فتوے اور اعلامیے کی تائید کی۔ انہوں نے آیت اللہ سیستانی کےانتخابات اور جمہوری ریاست کے جواز کو قائم کرنے کے اقدام کے علاوہ 2014ء میں نوری المالکی کو تیسری بار انتخاب لڑنے سے روکنے جیسے فیصلوں کی تائید کی۔ اس باب میں آیت اللہ سیستانی پر تمرکز کرنے کا مقصد قاری کو ان کے مدبرانہ کردار کی اہمیت کا احساس دلانا ہے۔ انہوں نے ہمیشہ حوزہٴ نجف کی روح اور طرز عمل کے مرکزی نمائندے کا کردار ادا کیا، اگرچہ وہ اس میں اکیلے نہ تھے۔ اس باب کوترتیبِ زمانی کے ساتھ پیش کرنے کا مقصد قاری کو اس راستے کی سیر کرانا ہے جس پر چلتے ہوئے عراقی سیاست آیت اللہ سیستانی کے گردمتشکل ہوئی۔ یہ باب اور آیت اللہ سیستانی کا کردار قاری کو نجف اور بطور کلی عراق کی سیاسی ثقافت سے روشناس کرائےگا۔ یہ اجمالی عکاسی عراق کی جمہوریت، فرقہ بندی اور مذہبی کرداروں کے بارے میں کچھ غلط فہمیوں کے خاتمے میں مدد دیتی ہے۔ اس کی بہترین مثال آیت اللہ سیستانی کا کام ہے۔

آیت اللہ سیستانی اور ان کے ساتھی مراجع نے سیاسی مداخلت کرتے وقت ”عراقی عوام کی مرضی“ کا پاس کیا، یہ اصطلاح وہ اکثر استعمال کرتے ہیں، اور اسی اصول کو انہوں نے عراق کے سیاسی عمل کی مشروعیت کی بنیاد قرار دیا۔ جمہوریت کے بارے میں ان کا نظریہ نہ تو مغرب سے لیا گیا تھا نہ ہی، غیر ملکی مبصرین کی رائے کے برعکس، ایران سے لیا گیا تھا، بلکہ یہ نظریۂ جمہوریت قومی وحدت، تکثر پسندی ، عوامی قبولیت، ووٹ کی تکریم اور انسانی حقوق جیسےہمہ گیر تصورات سے مالا مال تھا۔انہوں نے بڑی دقت سے فرقہ وارانہ نظامِ حکومت کے خلاف عوامی غم و غصے کو درست سمت میں موڑ دیا۔ سر انجام یہ امریکی نہیں بلکہ آیت اللہصاحبان تھے جنہوں نے 2003ء کے بعد عراق کی نوزائیدہ جمہوریت کی پاسبانی کی۔

چنانچہ یہ باب آیت اللہ سیستانی کے 2003ء کے بعد کے حالات میں ظاہر ہونے والے نظریات کی لطافتوں اور باریکیوں کو نمایاں کر کے دکھاتا ہے۔ 2003ء سے 2006ء تک کے عبوری دور میں انہوں نے اس بات کو یقینی بنانے کیلئے بہت کام کیا کہ ریاست کی بنیاد مضبوط جمہوری اقدار اور روایات پر قائم ہو۔

ریاست میں تبدیلی کے موضوع پر تحقیق کرنے والےعقلاء کے ہاں عبوری دور میں”جمہوریت کا استحکام“ ایک نازکتصور ہے۔ اس کی فہم پر اجماع نہیں ہو سکا ہے۔ استحکام سے میری مراد یہ ہے کہ عراق میں ادارے بن گئے تھے: ایک باقاعدہ آئین لکھا گیا تھا، نئی سیاسی جماعتیں ابھر آئی تھیں، جیسے تیسے پارلیمانی سیاست شروع ہو گئی تھی، انتخابات ہوا کرتے تھے، اور قیادت میں تبدیلی آتی رہتی تھی۔ میں اس اصطلاح کو استعمال کرتے ہوئے جمہوریت کی مضبوطی یا ریاست کے بکھرنے جیسی چیزوں کے بارے میں پیشگی کوئی مفروضہ قائم نہیں کرتی۔میرا اس اصطلاح کو استعمال کرنے کا مقصد ان دو ادوار میں فرق کرنا ہے، ایک وہ عبوری دور کہ جب عراق امریکہ کے ماتحت تعمیرِ نو کے عمل سے گزر رہا تھا اور دوسرا وہ جب اقتدار عراقیوں کو منتقل کیا جا چکا تھا، اگرچہ امریکی فوج دسمبر2011ء کے بعد نکلی۔ میری تحقیق2003ء سے 2016ء کے درمیانی عرصے میں محدود ہے، اگرچہ مجھے معلوم ہے کہ ریاست میں استحکام پیدا ہونے کا عمل کئی عشروں پر محیط ہوتا ہے۔مزید یہ کہ میں 2007ء سے 2009ء کے درمیان عراق میں امریکی سفیر رہنے والے ریان کروکرکے اس بیان کو سنجیدہ لیتی ہوں کہ ”ہم ان کے سیاسی نظام کی بافت میں اس طرح سلے ہوئے ہیں کہ ہمارے بغیر اس نظام کا چلنا ممکن نہ ہو گا۔“[3]

اگرچہ آیت اللہ سیستانی عراق کی سیاست کے سب سے طاقتور کردار ثابت ہوئے ہیں، لیکن جمہوریت پر ان کا پختہ ایمان اس بات کا سبب ہوا کہ وہ جمہوری عمل میں کبھی خلل نہ ڈالیں چاہے یہ ان کی آنکھوں کے سامنے ناکامیوں سے بھی دوچار ہوتا رہے.

عبوری دور کا آغاز

بریمر صاحب شروع میں یہ سوچتے تھے کہ وہ عراقیوں کی اکثریت کی پرواہ کئے بغیر تعمیرِ نو کے منصوبوں پر عمل درآمد کر لیں گے۔ اس فہم کیلئے ان کا تکیہ احمد الجلبي اور ایاد علاوی جیسے سابقہ تارکین وطن کے ساتھ ساتھ کرد رہنماؤں پر تھا کہ جو نسلی اورمسلکی بنیادوں پر طاقت کی تقسیم چاہتے تھے۔نئے نظام کی بنیاد تشخص کی سیاست پر رکھی جا رہی تھی، جس میں معاہدے اور اتحاد برابر کے شہری ہونے اور قومی منصوبوں سے لگاؤ کی بجائے فرقہ وارانہ شناخت کی بنیاد پر قائم ہونے تھے۔بریمر کے عراقی ساتھی یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ نظام سنی عرب اقلیتکی آمریت کے دوبارہ آ جانے کا خطرہ ٹال دے گا۔ لیکن ایک دفعہ یہ نظام رسمی حیثیتاختیار کر لیتا تو یہ فرقہ وارانہ نمائندگی کو بھی رواج دیتا اور مستقبل کی سیاسی ثقافت انہی سانچوں میں ڈھلتی۔

عراق کے مستقبل کیلئے عبوری دور نہایت اہم تھا، کہ جس میں نئی ریاست کے خد و خال واضح ہونے تھےاور یہ آنے والے عشروں میں ہونےو الےآئینی عمل کی آزمائش کا مرحلہ بھی تھا۔صدام کی شکست کے بعد ریاست کے پرانے اداروں کی جگہ نئے ادارے لے رہے تھے، نئی فوج اور پولیس بنانے کے ساتھ ساتھنئے سیاسی ادارے بھی قائم ہوئے۔ بریمریہ سوچ رہے تھے کہ عراق میں ادارہ سازی مکمل ہونے سے پہلے وہ فرمان جاری کر کے حکومت چلا سکتے ہیں۔ انہوں نے سی پی اے کو ملک کا نیا آئین بنانے کا اختیار سونپ دیا۔ یہ متنازع اقدام تھا کیونکہ اس کے پہلے مسودے کیقابل اعتراض چیزوں میں یہ تجویز بھی شامل تھی کہ وہ جماعتیں جنہوں نے امریکی حملے کی مخالفت کی تھی، الیکشن میں شمولیت کی اہل نہ ہوں گی۔ پس بریمر نے عراقیوں کی ایک مجلس بنا کر انہیں ایک قومی منشور تدوین کرنے کا اختیار دیا اور عراق کی خود مختاری کو التوا میں ڈالا۔

جونہی آئین کے بارے میں بریمرکا منصوبہ ذرائع ابلاغ میں نشر ہوا، 26 جون 2003ء کو آیت اللہ سیستانی اپنے مشہور ”جمہوری فتویٰ“ کے ساتھ سیاسی منظر نامے پر نمودار ہوئے۔ ان سے کچھ مقلدین نے سی پی اے کی طرف سے مجلسِآئین ساز کے ارکان کی تقرری کی بابت سوال پوچھا تھا، جن کو تمام سماجی اور سیاسی قیادتوں سے مشاورت کے بعد ایک مسودہ تیار کر کے ریفرنڈم کیلئے پیش کرنا تھا۔ آیت اللہ سیستانی نے جواب میں کہا:

”بسم اللہ الرحمن الرحیم

ان طاقتوں کے پاس مجلسِ آئین سازکے ارکان کی تقرری کا اختیار نہیں ہے۔اس بات کی بھی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ یہ مجلس ایک ایسا آئین تیار کرے گی جو عراقی عوام کے مفادات کے مطابق ہو گا اور عراق کی قومی شناخت، کہ جس کا انحصار دینِ اسلام اور اعلیٰ معاشرتی اقدار پر ہے، کی ترجمانی کرے گا۔ مذکورہ منصوبہ کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔ سب سے پہلے عام انتخابات کا انعقاد کیا جانا چاہئیے تاکہ ووٹ کی اہلیت رکھنے والے ہر عراقی شہری کو یہ موقعہ ملے کہ وہ اپنی نمائندگی کیلئےتأسيسي مجلسِ آئین ساز کے رکن کا انتخاب کر سکے۔اس کے بعد تیار شدہ مسودے کو عوامی ریفرنڈم کیلئے پیش کیا جا سکتا ہے۔سب مومنین کو اس اہم مقصد پر اصرار کرنا چاہئیے اور اس کو حاصل کرنے کیلئے بہترین انداز میں کوشش کرنی چاہئیے۔ خدا سب کی بہتری اور سود مندی کی طرف رہنمائی کرے!

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

مہر و دستخط

علی الحسینی السیستانی

26 جون 2003ء“ [4] [النصوص الصادرہ، صفحہ 35، 36]

اس فتوے میں آیت اللہ سیستانی نے ان مراحل کی نشاندہی کی جن سے گزر کر عراق جمہوریت سے ہمکنار ہو سکتا تھا۔ انہوں نے تقرری کے بجائے براہ راست انتخابات پر زور دیا تاکہ ”ہر عراقی“ایک متخب شدہ مجلسِ نمائندگان کیلئے رائے دینے کا مجاز ہو۔سال بھر”ایک فرد، ایک ووٹ“ کے اصول پر عام انتخابات کے اسلوب پر زور دینے کا سلسلہ جاری رہا۔

عوام کی رائے کو شامل کرنے پر آیت اللہ سیستانی کی یہ تاکید ”جمہوری فتویٰ“ دینے سے پہلے بھی موجود تھی۔ 3 مئی 2003ء کو جب ان سے ایسا ہی ایک سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا تھا:

”عراق میں حکومت کے نظام کا فیصلہ عوام نے کرنا ہے۔ مرجع کا ملک کی حکومت اور اقتدار میں کوئی کردار نہیں ہو گا۔“ (المرجعیہ لا تمارس دوراً فی السلطہ والحکم)

اور اس سوال کے جواب میں کہ کیا وہ شیعوں کو سی پی اے کے ساتھ تعاون کرنے کا کہیں گے، انہوں نے کہا:

”ہم ایسی حکومت بننے کا راستہ ہموار کرنا چاہتے ہیں جو عراقی عوام کے ارادے کا مظہر ہو اور تمام فرقوں اور نسلوں کو شامل کرتی ہو۔“ [5](الذی نریدہ ہو ان یفسح المجال لتشکیل حکومۃ منبعثۃ من ارادۃ الشعب العراقی بجمیع طوائفہ و اعراقہ[النصوص الصادرہ، صفحہ 22، 23])

انہوں نے کسی ایک فرقےکو ترجیح نہیں دی نہ ہی شیعوں کی اس بنیاد پر طرف داری کی کہ وہ عددی اکثریت تھے۔وہ صدام حسین کے زمانے میں سنی عربوں کو باقی سب پر ترجیح دینے کے آمرانہ اقدامات کے پیش نظربہت احتیاط اور تدبر سے کام لیتے تھے۔اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے وہ یہ سمجھتے تھےکہ صدام کا ”تقسیم کرو اور حکومت کرو“ والا طرز عمل اب سی پی اے کی شکل میں دوبارہ مسلط کیا جا رہا تھا، جو کہ عراق پر انگریزی قبضے کی یادگار تھا۔

آیت اللہ سیستانی کے ان بیانات کاڈرامائی اثر ہوا۔ انہوں نے اہم جمہوری بیانیے کو عوامی حلقوں میں زیر بحث بنا دیا اور اکثر اوقات بریمر کے منصوبوں کو ناکام بنا دیا۔ بریمر کاہر اہم فرمان پر دستخطکرنے کا خصوصی اختیار صدام حسین کے اس مشہور قول کی یاد دلاتا تھا کہ ”اگر میں کاغذپر لکھ دوں تو وہ قانون ہو گا۔“ [6] ایک وائسرائے کے طور پر بریمر ایک دستخط کے ساتھ پرانے قوانین کو منسوخ اور نئے قوانین کا اطلاق کر سکتا تھا۔ [7]عراقی عوام آمرانہ متلون مزاجی کے عادی تھے لیکن آیت اللہ سیستانی جمہوری آئین کی پابند حکومت (مشروطہ)قائم کرنے کا عزم کر چکے تھے۔ انہیں پتا تھا کہ آمریت کے خاتمے کیلئے انہیں سیاسی رقابت اور عوامی شمولیت، سماجی ذمہداریوں،موثر انتخابات،اور نئی ریاست کی عوامی مقبولیت پر زور دینا اور ان میں التوا کی صورت میں پیدا ہونے والے خطرات سے آگاہ کرتے رہنا تھا۔

ریاست میں تحول پر تحقیق کرنے والےعقلاء کے روایتی خیال کی پیروی کرتے ہوئے بریمریہ سمجھ رہے تھے کہ جمہوریت کی طرف جانے میں انتخابات سے آغاز کرنا خطرناک ہو گا۔ بریمر کا منصوبہ ایک فری مارکیٹ والی سرمایہ دارانہ جمہوریت قائم کرنا تھا۔بریمر کے اقدامات میں ریاستی کاروباروں کو عوامی ملکیت میں دینے کی تجویز بھی شامل تھی۔ انہوں نے کہا: ”اگر ہم ان کی معیشت کی اصلاح نہ کریں تو ہمارے سیاسی تحول کے منصوبے جتنے بھی اچھے ہوں، کام نہیں کریں گے۔ “ انہیں ایک فری ٹریڈ زون بنانے کا خیال بھی تھا جس سے عالمی برادری کو فائدہ ہو۔ مجوزہ نمونے میں یہ فرض کیا گیا تھا کہ ایک نئی تاجر برادری کی مدد سے سرمایہ داری کی طرف حرکت ایک متوسط طبقہ پیدا کرنے کو یقینی بنائے گی۔ یہ طبقہ سیاسی اصلاحات اور جمہوریت کے قیام میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔ انتخابات کے بجائے بازار کو اہمیت دی جا رہی تھی۔ [8]

اس عمل کے نتیجے میں، کہ جسے سیموئیل ہنٹنگٹن نے جمہوریت کی تیسری لہر کہا تھا، 1990ء کی دہائی تکدنیا میں سو کے قریب نوزائیدہجمہوریتیں وجود میں آ چکی تھیں۔ ان سب میں انتخابات ہوتے تھے لیکن وہ ”آزاد جمہوریتیں“ نہیں تھیں کیوں کہ ان میں مہذبآزادیوں اور انسانی حقوق کا کما حقہ خیال نہیں رکھا جاتا تھا۔ فرید ذکریا جیسے نقادوں نے اس نکتے کو اٹھایا کہ انتخابات پر زور دینے سے ترقی پذیر دنیا میں ”بے روح جمہوریت“کو فروغ ملتا ہے۔ پس انتخابات کو التواء میں ڈالنا ہو گا۔یہ بیانیہ غیر سیاسی آزادیوں کا احترام کرنے والی آمریت کو ایسی جمہوریت پر فوقیت دیتا تھا جس میں مہذبآزادیوں پر قدغن لگائی جائے۔ زکریا نے آگے چل کر کہا کہ سعودی عرب کی طرح کی ریاستوں کو یکدم جمہوری بنانے کا نتیجہ ”جیفرسن کی جمہوریت“ نہیں بلکہ ”طالبان کی ملائیت“ ہو گا۔ انہوں نے عرب حکمرانوں کو آمر قرار دیا لیکن ایسے آمر جو انتخابات سے برآمد ہونے والے حکمران سے زیادہ لبرل، بردبار اور تکثر پسندتھے۔ انہوں نے خاص طور پر اس خدشے کی نشاندہی کی کہ اخوانی جماعتیں انتخابات میں شامل تو ہوں گی لیکن ان کو جمہوریت کے بغض میں ”ایک ووٹ، ایک بار“ کا نمونہ بنا کر رکھ دیں گی۔عبوری دور سے گزارنے والے معاشروں کی مثال کے طور پر انہوں نے بوسنیا کی صورت حال کو آزادیوں کی ضمانت دینے والی جمہوریت کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا جہاں ڈیٹون کے امن معاہدےکے ایک سال بعد لوگ ووٹ دینے گئے اور اس عمل کا نتیجہ نسلی تعصبات کو بڑھاوا دینے کی صورت میں نکلا۔ انہوں نے کہا کہ مشرقی تیمور اور افغانستان میں قومی ریاست کی تشکیل کو لمبے عرصے تک طول دینے کا عمل ایک بہتر نمونہ ہے۔انہوں نے عبوری دور کیلئے پانچ سال تجویز کئے جن میں سیاسی اصلاحات اور اداروں کی تعمیر کا عمل مکمل کیا جائے اور پھر قومی سطح پر کثیر الجماعتی انتخابات کرائےجائیں۔ [9] وہ عراق میں التواء کے قائل تھے، جسے مقامی آبادی اور عراق کے امور کے ماہرین مسائل کی جڑ سمجھ رہے تھے۔ زکریا کے موقف کی بنیاد اس مفروضے پر تھی کہ مغربی دنیا میں فردی آزادیوں اور جمہوریت کے درمیان ایک مضبوط تعلق بن چکا تھا جو دنیا کے دوسرے حصوں میں وجود نہیں رکھتا تھا۔

یہ محتاط سوچ امریکی حلقوں میں عام تھی اور ریاست میں تبدیلی کے عمل کے آیت اللہ سیستانی کی خواہش کے مطابق مکمل طور پر عراقی بننے میں رکاوٹ تھی۔ مثال کے طور پر ایک سابقہ انتظامی عہدیدار نے کسی نجی بیان میں کہا تھا کہ وائٹ ہاؤس کردوں اور سنی عربوں کو ویٹو کی طاقت دے کر عراق میں شیعہ ملائیت (ولایتِ مطلقہٴ فقیہ) کا راستہ روکنا چاہتا ہے۔ اس نے کہا، ”یہاں جیفرسن کی جمہوریت نہیں بننے والی“ اور ”یہ سوچنا حماقت ہو گی کہ عراقی لوگ (اخوانی) اسلامکی ملاوٹ کے بغیرایک آئین لکھ سکتے ہیں اور ایک جمہوریت بنا سکتے ہیں۔“ [10] پس اگرچہ علمی حلقوں میں فرید زکریا کے تصور کا بہترین انداز میں رد کیا جا چکا تھا، لیکن ہنوز مقتدر حلقوں میں اور عملی میدان میں یہ احساس حاوی تھا کہ آزادی ناکام ہو جائے گی۔ مفروضہ یہ تھا کہ عراق کی شیعہ اکثریت کو آزاد چھوڑ دیا گیا تو وہ ایک مذہبی سیاست دان کے پیچھے لگ کے ایک ”بے روح جمہوریت“ قائم کریں گے۔ وہ اس بات سے غافل تھے کہ وہاں طاقت کسی ایک جگہ مرکوز نہ تھی اور اگرچہ شیعوں میں مذہبی سیاسی عزائم رکھنے والی جماعتیں تھیں لیکن کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ سب ایک ہی ہدف رکھتی تھیں۔تعمیرِ نو کے سارے منصوبوں پر انسداد کی سوچ چھائی ہوئی تھی۔ اس میں شیعیت کو یکساں اور بسیطفرض کیا گیا تھا اور یہ سمجھا جا رہا تھا کہ شیعوں کی سب جماعتیں (اخوان المسلمین کی طرح) مذہبی عقائد کا سیاسی استعمال کرتی تھیں۔ ان خیالات کو سمجھنے کیلئے خاص احتیاطکی ضرورت ہے۔ خاص طور پر ”بے روح جمہوریت“ کی بار بار دہرائی جانے والی بات کہ جس میں یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ شیعہ تحرک ”تھامس جیفرسن کی جمہوریت“ کا الٹ ہے، کئی مغالطے لئے ہوئے ہے۔

کیا عراقی عوام امریکہ دشمنی پر مبنی ایرانی نظام کو اپنا لیں گے؟ کیا وہ اقلیتوں کے حقوق کا احترام کریں گے؟ممکن ہے کہ بریمر کے ذہن پر یہ سوال چھائےہوں لیکن آیت اللہ سیستانی ان پر غور کرنے کو تیار نہ تھے۔آیت اللہ سیستانی کا انتخابات کے بارے میں عقیدہ، جسے انہوں نے عوامی مقبولیت کے ساتھ بھی جوڑ دیا، ان محققین کی آراء سے ہم آہنگ تھا جو جمہوری عمل کا دوسرا رخ دیکھ رہے تھے۔مثلاً مارک پلاٹنر صاحب کا کہنا تھا کہ جمہوریت اور مہذب آزادی میں تاریخی طور پر کوئی رشتہ وجود نہیں رکھتا ہے۔ مہذب آزادیوں کے احترام کے نظریئے کی جائے پیدائش جدید انگلستان ہے کہ جس میں انیسویں صدی تک ووٹ ڈالنا ایک بڑے محدود حلقےکا حق سمجھا جاتا تھا۔ پلاٹنر صاحب جان لاک کی کتاب ”سیکنڈ ٹریٹائز آف گورنمنٹ“کوانسانی مساوات اور اکثریت کی رائے کے احترامپر زور دینے کی وجہ سے فردی آزادیوں کے احترام کی سوچ کا مصدرمانتےہیں۔پس سیاسی طاقت کا ماٴخذ آزادی اور برابری سے ہمکنار ہونے والے افراد کی رضایت ہے۔لاک کے فکری نظام میں سیاسی ڈھانچے اور طرزِ حکومت کے انتخاب میں سب کی مرضی شاملہونا ضروری ہے۔ چنانچہ مہذب آزادی کا نظریہ”عوام کی حاکمیت پر بے چوں و چرا یقین رکھتا ہے “، یہی نکتہآیت اللہ سیستانی بار بار اٹھا رہے تھے۔ [11] پلاٹنر صاحب انتخابات کی بنیاد رکھنے پر زور دیتے ہیں کیوں کہ کلی طور پر جن ممالک میں انتخابات باقاعدگی سے منعقد ہوتے ہیں وہ فردی آزادیوں کے احترام میں ان سے بہتر ہیں جن کے ہاں ایسا نہیں ہوتا، اور جن ممالک میں سماجی آزادیوں کااحترام کیا جاتا ہے ان میںانتخابات میں دھاندلی کا امکان بھی کم ہوتا ہے۔وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جب جمہوری ادارے بن جائیں تو مہذب آزادی اور انتخابی جمہوریت میں ایک اٹوٹ رشتہ اور قریبی تعلق قائم ہو جاتا ہے۔ [12] ریاستوں کو جمہوریت کی منزل حاصل کرنے کیلئے مغرب کے راستوں پر چلنا ضروری نہیں ہے۔ پلاٹنر صاحب کو اس بات سے اتفاق نہیں تھا کہ کچھ خاص عبوری مراحلمیں مغربی ممالک کو ”مرحلہ وار جمہوریت“ کی حمایت کرنی چاہئیے۔ کسی اصول کے تحت بھیانتخابات پر قدغنکو قبول نہیں کیا جا سکتا اور انتخابات کے سوا حکمران کے تعین کا کوئی اور جائز طریقہ نہیں ہے۔اسی طرح اس مفروضے کی بھی کوئی بنیاد نہیں کہ اگر مسلمان معاشروں کو آیت اللہ سیستانی کے بتائے ہوئے طریقے پر اپنے ادارے بنانے کی آزادی دی جائے تو وہ انسانی حقوق کے تحفظ کو ووٹ نہیں دیں گے یا شخصی آزادیوں کے تحفظ کی طاقت نہیں رکھتے ہوں گے۔ان بحثوں سے مستشرقین کے تعصب کی بو آتی ہے اور اس لب و لہجہ کی جو برطانوی استعماری دور کی پالیسی سازگرٹروڈ بیل نےاپنے باپ کے نام خط میں استعمال کیا ہے کہ اقتدار ان ”عجیب و غریب لوگوں“ کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔ آیت اللہ سیستانی اس قسم کے مفاہیم کے دوبارہ احیا کے خلاف ڈٹ گئے۔

2 جولائی 2003ء میں آیت اللہ سیستانی ایک بار پھر سیاسی منظر نامے پر ظاہر ہوئے اورانتخابات کے طریقۂ کارکے بارے میں ایک مفصل بیان جاری کر کے متحیر کر دیا۔جون میںجاری کئے گئے فتوے کے ضمن میں ان سے پوچھا گیا تھا کہ ووٹ دینے والوں کی اہلیت اور نمائندگان کے انتخاب کے بارے میں وہ کیا کہنا چاہیں گے۔ انہوں نے جواب میں کہا کہ مجلسِ آئین ساز کے ارکان ”ووٹ کی اہلیت رکھنے والے عراقی شہریوںکی مرضی سے منتخب ہونے چاہئیں“ اور یہ کہ ”ووٹنگ کی شرائط و مقررات کا تعین کر کے سب پر شفاف انداز میں ایک جیسا اطلاق کیا جائے۔“ آگے چل کر انہوں نے کہا کہ مشرقی تیمور میں اقوامِ متحدہ کی زیرِ نگرانی اسی قسم کے انتخابات کا انعقاد کیا گیا تھا اور اس بات پر تعجب کا اظہار کیاکہ ”عراق کے معاملے میں اس قسم کا بندوبست کیوں نہیں کیا جا سکتا؟“ انہوں نے واضح کیا کہ”بلا واسطہ انتخابات کا کوئی نعم البدل نہیں ہو سکتا۔“آئین کی اشاعت کے بعد انتخابات ہونے کا انتظار کرنا ممکن نہیں ہو گا کیوں کہ ایک ایسی مجلس کے ہاتھوں لکھا گیاآئین ”جو عوام کی طرف سے منتخب نہیں کی گئی، قابلِ قبول نہیں ہو گا۔“انہوں نے کہا کہ ان کا کامتو بس ”عراقی عوام کو کسی تاخیر یالیت و لعل کے بغیر حقِ حکمرانی واپس دلوانےکا راستہ ہموار کرنا ہے ۔“ [13][النصوص الصادرہ، صفحہ 40، 41]

آیت اللہ سیستانی کے فتوے سے بریمر کے قدم لڑکھڑا گئے، اگرچہ وائسرائے کو آیت اللہ سیستانی کی غیر رسمی طاقت کا درست اندازا لگانے میں کئی ماہ اور لگے۔ 13 جولائی 2003ء میں سی پی اے نے پچیس ارکان پر مشتمل عراقی گورننگ کونسل کا اعلان کیا جسے عراقی ریاست کی تعمیرِ نو کی ذمہ داری سونپی گئی۔ اس میں ملک کے بڑے نسلی اور مذہبی گروہوں کی نمائندگی تھی (تیرہ شیعہ، پانچ سنی عرب، پانچ سنی کرد، ایک آشوری مسیحی اور ایک ترکمانی)۔ بعد میں تین خواتین کو بھی شامل کیا گیا۔اگرچہ اس کا مقصد عراقی عوام کی نمائندگی کرنا تھا، اس میںفرقہ وارانہ اور نسلی تنوع کی عکاسی کی گئی۔ مزید یہ فرض کیا گیا تھا کہ سیاسی نمائندگی یوں حصوں میں بٹی ہونی چاہئیے۔خلاصہ یہ کہ عراقی گورننگ کونسل دراصل عراق کے بارے میں خود عراقی عوام کے بجائے سی پی اے کے زاویۂ نگاہ کی ترجمانی کرتی تھی۔ شاید بریمر کا خیال تھا کہ اس طرح کی ”نمائندہ“ مجلس ایک مقبول بندوبست ہو گی۔ وہ شدید غلط فہمی کا شکار ہوئے تھے۔ پچیس میں سے چوبیس ارکان آیت اللہ سیستانی سے ملنے نجف چلے گئے اور ہر ایک نے ان کی اس بات کو مان لیا کہ انتخابات سے پہلے کوئی عبوری آئین نہ لکھا جائے۔

آیت اللہ سیستانی اور دوسروں کے دباؤ کے نتیجے میں بریمر کو یہ ماننا پڑا کہ عراقی گورننگ کونسل محض ایک عبوری حکومت ہو گی جس کا کام موقت طور پر انتظامی معاملات کو سنبھالنا اور سی پی اے اور اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندوں کے ساتھایک مشاورتی اورتعاونی کردار ادا کرنا ہو گا۔سی پی اے کے چھٹے فرمان کے مطابق سی پی اے اور عراق گورننگ کونسل کو تمام معاملات میں باہمی تعاون اور مشاورت سے چلنا تھا۔ عراقی گورننگ کونسل، جو بظاہر عراق کی آبادی کی نمائندگی کرتی تھی،نےانتخابات کے انعقاد، آئین لکھے جانے اور مستقل حکومت کے بننے تک ملک کا انتظام سنبھالنا تھا۔لیکن جلد ہی یہ بات واضح ہو گئی کہ ایسے مقبول ادارے بنانا مشکل تھا جن کی جڑیں عراقی معاشرے میں پیوست ہوں اور امریکی تسلط کے زیر سایہ ریاست سازی کا عمل مشکلات میں گھرا رہے گا، اور اس پہ طرّہ یہ کہآیت اللہ سیستانی ان مسائل پر نکتہ چینی کریں گے۔ اگرچہ رسمی طور پر طاقت بریمر کے ہاتھ میں تھی لیکن غیر رسمی سیاست ان سوالوں کے گرد گھومتی تھی۔

آیت اللہ سیستانی کی دلچسپی نئی ریاست کی عوامی مقبولیت میں تھی۔ جیسا کہ اپنی کتاب کے چوتھے باب میں میں اشارہ کر چکی ہوں، وہ سیاست کی تفصیلات سے خود کو دور رکھتے تھے، اور امریکہ، کہ جس کو ہمیشہ وہ ”قابض طاقت“ کہتے تھے، سے بھی فاصلہ قائم رکھتے تھے۔ اس عرصے میں ان سے سوال کیا گیا کہ کیا انہیں عراقی گورننگ کونسل میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے اور کیا وہ امریکہ سے مذاکرات کر رہے ہیں؟ان کے دفتر نے اس کونسل میں شرکت کے امکان کو رد کیا اور کہا کہ ”مرجع عالی اور قابض حکومت کے درمیان اس کونسل کی تشکیل یا عراق سے تعلق رکھنے والے کسی موضوع پر کوئی رابطہ نہیں ہے“ اور یہ کہ ان تک اس کونسل کے بارے میں ”کوئی معلومات نہیں پہنچائی گئیں۔“[14][النصوص الصادرہ، صفحہ 42]

دوسرے بیانات میں آیت اللہ سیستانی نے کہا کہ وہ ”امریکہ کے مقاصد کے بارے میں تشویش کا شکار ہیں۔“ [15][النصوص الصادرہ، صفحہ 33]جب بھی پوچھا گیا کہ کیا انہوں نے بش انتظامیہ سے بات چیت کی ہے تو ان کا جواب نفی میں تھا۔ در حقیقت انہوں نے کبھی امریکہ کا نام استعمال نہیں کیا بلکہ ہمیشہ ”قابض طاقت“ یا ”قابض حکومت“ کی اصطلاح استعمال کی۔انہوں نے کئی مواقع پر واضح کیا کہ یہ القاب ان کا فتویٰ نہیں تھے بلکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی رسمی اصطلاحات تھیں (جنہیں بریمر بھی استعمال کر چکے تھے)۔ [16][النصوص الصادرہ، صفحہ 45]وہ اکثر امریکی اقدامات پر تبصرہ کرنے یا امریکیوں کو اپنی غلطیوں کی اصلاح پر مشورہ دینے سے گریز کرتے تھے۔ وہ امریکہ کے بارے میں بہت کم بولے، اسی طرح جیسے انہوں نے مقتدیٰ الصدر یا جہادی گروہوں کو رسمی شناخت دینے سے انکار کیا تاکہ وہ اپنی حد میں رہیں۔

آیت اللہ سیستانی کی فکر میں اقوام متحدہ کا ادارہ کافی نمایاں ہے۔ (عرض مترجم: اس کی وجہ یہ ہے کہ اقوام متحدہبین الاقوامی امورِ حسبہ کی مدیریت کرتا ہے)۔ اپنے تمام بیانات میں آیت اللہ نے واضح کیا کہ ”عبوری دور میں عراق کے امن اور استحکام کی ذمہ داری اقوام متحدہ پر ہے“ اور یہ کہ عراقیوں کو اپنے ملک پر ”حقِ حاکمیت“ لوٹانے کو ممکن بنانے کے مراحل پر ”نظارت“ اور ”نگرانی“ کے سلسلے میں اس ادارے کا کردار بہت اہم ہے۔ [17][النصوص الصادرہ، صفحہ 58]انہوں نے ہمیشہ تصریح کی کہ عراق میں موجود تمام افواج کو ”اقوام متحدہ کی چھتری تلے“ ہی کام کرنا چاہئیے۔ [18][النصوص الصادرہ، صفحہ 65] چونکہ سلامتی کونسل نے حملے اور قبضے کی اجازت نہیں دی تھی، لہذا آیت اللہسیستانیکیلئے اس بات کی کوئی اہمیت نہ تھی کہ بعد میں اقوام متحدہ نے عراق میں اپنے اہلکار بھیجے۔ جب بھی ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ امریکی موجودگی کی تائید کرتے ہیں تو وہ کہتے”ہم کیسے قبضے کی تائید کر سکتے ہیں؟“ [19][النصوص الصادرہ، صفحہ 71] اور یہ کہ وہ امریکی افواج اور اس کے اتحادیوں، جیسے پولینڈ، کی افواج میں ”کسی فرق کے قائل نہیں ہیں۔“ [20][النصوص الصادرہ، صفحہ 63] یہ سب عراق کیلئے اس وجہ سے اجنبی تھے کہ یہ ایک ایسے فوجی حملے کا حصہ بنے جسے آیت اللہ خوداور عالمی برادری ناجائز سمجھتی تھی۔ جب عراق میں جاپانی فوج کی ممکنہ آمد کے بارے میں سوال کیا گیا تو آیت اللہ سیستانی نے جواب میں کہا: ”عراقی عوام اس کی آمد کو اسی صورت خوش آئند سمجھ سکتے ہیں اگر یہ عمل اقوام متحدہ کی چھتری تلے انجام دیا جائے“ اور اگر یہ ”عام انتخابات کیلئے حالات کو سازگار بناتی ہیں۔“ [21][النصوص الصادرہ، صفحہ 47] (لیکن جاپان نے بھی اقوام متحدہ کی منظوری کے بغیر اپنے دستے بھیجے۔) آیت اللہ نے ہمیشہ اقوام متحدہ کو قانونی اعتبارکی علامت کے طور پر پیش کیا۔

آیت اللہ سیستانی سے بار ہا عراق سے امریکی افواج کے انخلا کے وقت اور اس میں اقوام متحدہ کے کردار کے بارے میں سوال کیا گیا ۔ وہ معمولاً اس بات سے آغاز کرتے کہ روزِ اول سے ہی امریکی موجودگیناجائز تھی، جس کی وجہ سے کسی بھی دورانیے کا قبضہ جائز نہیں ہے۔ اگر ملک کے تحفظ کیلئے بیرونی افواج کی ضرورت ہے توآیت اللہ سیستانی کے نزدیک یہ کام اقوام متحدہ کے ”زیرِ سایہ“ ہونا چاہئیے۔ [22] [النصوص الصادرہ، صفحہ 65]اس کے علاوہ کوئی طریقہ جائز نہ ہو گا۔ وہ عراق میں فرانس کے کردار سے راضی تھے کہ انہوں نے اقوام متحدہ کے راستے سے کام کیا تھا جو ان کے مطابق ”عراقی عوام کے مفادات سے ہم آہنگ تھا۔“ [23][النصوص الصادرہ، صفحہ 65] پروفیسر جولیون ہوورث نے بھی فرانس کو اس کی عالمی معاہدے کرنے کی صلاحیت اور اقوام متحدہ کی مرکزیت پر زور دینے اور عراق پر حملے سے پہلے تفتیش کے عمل کیلئے عالمی برادری کی حمایت اکٹھی کرنے کی وجہ سے”بین الاقوامی قانون کا مدافع“ قرار دیا تھا۔ [24]

آیت اللہ سیستانی نے عراق کی بابت اقوام متحدہ کی ذمہ داریوں پر بھی بہت توجہ دی۔ انہوں نے یہاستدلال قائم کیا کہ چونکہ اقوام متحدہ نے نئی عراقی ریاست کو تسلیم کر لیا تھا، اسے یہاں کے سیاسی عمل پر اس وقت تک نظارت بھی کرنی چاہئیے جب تک اس کو استحکام اور عوامی مقبولیت حاصل نہ ہو جائے۔ [25][النصوص الصادرہ، صفحہ 101] یہاں اور دوسرے مواقع پر ان کی زبان میں ابہام تھا لیکن ایک خاص منطق ان کے بیانات میں مشترک تھی: مشروعیت تبھی حاصل ہو گی جب سیاسی ڈھانچہ ”ہر فرقے اور نسل سے تعلق رکھنے والے عراقیوں کی منشا“ کے مطابق قائم ہو جائے گا۔ [26][النصوص الصادرہ، صفحہ 22]

عراق کی خود مختاری کی طرف سفر

نومبر 2003ءمیں سی پی اے نے عراق کی خود مختاری کی طرف حرکت کا منصوبہ پیش کیا۔15 نومبر کو جس معاہدے پر دستخط کئے گئے اس میں ٹرانزیشنل ایڈمنسٹریٹو لاء(عبوری انتظامی دستور)کا مسودہ بھی شامل تھاجو ایک موقت قانون تھا، اور عراق کے ہر صوبے میں ایک رائے شماری کی تجویز تھی تاکہ عبوری پارلیمان بنائی جائے۔ وہ پارلیمان جون 2004ء کو عبوری حکومت کا سربراہ چنے گی۔ آیت اللہ سیستانی نے تشویش کا اظہار کیا۔ پہلی بات تو یہ تھی کہ معاہدے سے قبضے کے تسلسل کا تاثر ملتا تھا جس کا مطلب اسے جائز ماننا بھی تھا۔ دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ عبوری پارلیمان انتخابات کے بجائے رائے شماری سے چنی جانی تھی۔ آیت اللہ سیستانی نے جون میں فتویٰ دے کر انتخابی جمہوریت کی بات تو منوا لی تھی لیکن بریمر اس فتوے میں موجود طریقہ کار پر عمل نہیں کر رہے تھے۔ [27] آیت اللہ سیستانی نے کئی پیغامات میں بلا واسطہ عام انتخابات کے طریقے پر زور دیا تھا لیکن بریمر سن نہیں رہے تھے، یا یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ جو چاہیں گے کر لیں گے۔اب آیت اللہ کو یہ پریشانی لاحق ہو گئی کہ رائے شماری سے اس قسم کے افراد چنے جا سکتے ہیں جو ”قوم کے منتخب کردہ بچے “ نہ ہوں۔ انہوں نے اس اصطلاح کے ساتھ ”بیلٹ باکس“ کی اصطلاح پر زور دینا شروع کر دیا تاکہ ریاست کی تشکیل کے عمل میں سابقہ تارکین وطن کے غیر متناسب اثر و رسوخ اور ایک غیر ملکی قابض قوت کے تسلطکو نمایاں کریں۔آیت اللہ سیستانی نے کہا کہ ”یہ طریقۂ کارناجائز ہے۔“ [28][النصوص الصادرہ، صفحہ 53] مقامی جمہوریت کا بیانیہ ان کا بہترین ہتھیار ثابت ہوا۔ [29]

آیت اللہ سیستانی نے ”ایک فرد، ایک ووٹ“ کے نظام کا مطالبہ کیا جس میں اظہار رائے کا میدانوسیع تر ہو گا جو اس اہم عبوری دور کیلئے ضروری ہے۔ 27 نومبر 2003ء کو آیت اللہ سیستانی نے عوام کے حقِ خود ارادیت کے بارے میں اپنا فتویٰ ایک صحافی انتھونی شدید کو دیا: ”عبوری مقننہ کے ارکان کے چناؤ کا طریقہ ایک ایسی پارلیمان کی تشکیل کو یقینی نہیں بنا سکتا جو عراقی عوام کی صحیح نمائندگی کر سکتی ہو۔“ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ طریقۂ کار کو ”ایک ایسے طریقے سے بدلنا چاہئیے جو اس کو یقینی بنائے، یعنی انتخابات!“ صرف یہی چیز ایک ایسی پارلیمان کے وجود میں آنے کییقین دہانی کرا سکتی ہے جو ”عراقی عوام کے ارادے کا مظہر ہو گی اور ان کی صحیح انداز میں نمائندگی کر سکتی ہو گی اور اسی طرح اس کی مشروعیت کا بھی تحفظ ہو گا۔“ [30][النصوص الصادرہ، صفحہ 84] اسی فتوے میں آیت اللہ سیستانی نے انتخابات میں ووٹرز کے شناختی کارڈ نہ ہونے کی صورت میں ان کے راشن کارڈ کو شناخت کیلئے استعمال کرنے کا مشورہ بھی دیا۔

15 نومبر کے معاہدے پر قائم رہتے ہوئےامریکہ نے کہا کہ ایسے آزاد اور شفاف انتخابات کی تیاری کیلئے وقت کافی نہیں ہے جو 30 جون 2004ء سے پہلے اقتدار ایک عبوری عراقی حکومت کے حوالے کرنے کو ممکن بنا سکیں۔ [31] آیت اللہ سیستانی نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان سے رائے طلب کی۔ اقوام متحدہ، واحد بیرونی ادارہ جس کی مداخلت کوآیت اللہ سیستانی (بین الاقوامی مقننہ کے طور پر) جائز اور منصفانہسمجھتے تھے، کو دعوت دے کر انہوں نے تدبر کا مظاہرہ کیا جس نے انہیں دلیل کےمحاذ پر پیش قدمی کرنے میں واشنگٹن پر فوقیت دی۔ بریمر کو بھی معلوم تھا کہ عراق میں قومی ریاست بنانے کے عمل میں وہ اقوام متحدہ سے بے نیاز نہ تھے۔ در حقیقت عراق پر حملے کے وقت اقوام متحدہ کی مخالفت کرنے کے باوجود اب امریکہ کو اس عالمی ادارے کی طرف واپس آنا پڑا تھا، جزوی طور پر اس لئے کہ بہت سے ملک عراق میں نئی قومی ریاست بنانے کے عمل میں اقوام متحدہ کی قرارداد کے بغیر شامل ہونے پر رضامند نہ تھے۔لیکن آیت اللہ سیستانی سی پی اے پر دباؤ ڈال کر یہ بات سامنے لانا چاہتے تھے کہ سی پی اے انتخابات کروانا ہی نہیں چاہتی۔ وہ مسلسل عبوری حکومت کے ناجائز ہونے اور مقامی حمایت سے محروم ہونے جیسی حقیقت کو بیانکرتے رہے۔ اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری کوفی عنانآیت اللہ سیستانی کے نام عراقی گورننگ کونسل کے صدر عدنان پچاچی کے ہاتھوں ایک خط ارسال کر چکے تھے جس میں انہوں نے جلدی انتخابات کروانے کی مخالفت میں مشورہ دیا تھا۔ آیت اللہ کیلئے کسی تحقیقاتی کمیشن بنائے اور معاملے کو پرکھے بنا دئیے گئے مشورے کی کوئی حیثیت نہ تھی چاہے اسے اقوام متحدہ نے ہی تیار کیا ہو۔ انہوں نے اقوام متحدہ پر مزید کچھ کرنے کیلئے دباؤ ڈالا اور بالآخر کامیاب ہوئے۔ سی پی اے کو مجبوراً اقوام متحدہ کے وفد، جس کی قیادت لاٴخضر براہیمی کر رہے تھے،سے پوچھنا پڑا کہ عبوری حکومت کیلئے جلد انتخابات کے امکان پر اپنی رائے دیں۔آیت اللہ سیستانی نے نہ صرف امکان کا علمی جائزہ لئے جانے کا مطالبہ کیا بلکہ وفد سے چاہا کہ ”سب پہلوؤں پر تحقیق کریں“ اور عبوری قومی کونسل میں عراقی عوام کی نمائندگی کیلئے”متبادل طریقۂ کار وضع کریں۔“ [32][النصوص الصادرہ، صفحہ 86] بریمر کو بھی انتخابات کو 30جون تک ملتوی کرنے کیلئے اقوام متحدہ کی حمایت درکار تھی۔

بڑے پیمانے پر تحقیق کرنے کے بعد لاٴخضر براہیمی نے نتیجہ نکالا کہ انتخابات سال 2004ء کے اواخر یا سال 2005ء کے اوائل میں ہی منعقد ہو سکتے ہیں۔ آیت اللہ سیستانی نے فیصلے کو قبول کر لیا۔ اپنے بیان میں انہوں نے کہا: ”(اقوام متحدہ کی) رپورٹ نے جامع حکومت کے قیام کا راستہ ہموار کر دیا ہے جو بلا واسطہ قومی انتخابات پر مبنی ہو گی“ ۔ آگے چل کر انہوں نے کہا کہ اس رپورٹ نے 15 نومبر کے معاہدے میں موجود ”اہم نقائص“ کی نشاندہی کی، اور پھر انہوں نے ان نقائص کو ایک ایک کر کے لکھ دیا۔ انہوں نے نتیجہ نکالا کہ اب عبوری حکومت کا کام عارضی قوانین بنانا رہ گیا تھا اور یہ ”غیر منتخب سرکار“ 2005ء کو ختم ہو جائے گی۔ [33][النصوص الصادرہ، صفحہ 106] انہوں نے اقوام متحدہ سے اس عمل پر نظارت کی ضمانت حاصل کر لی۔ اس بیان نے اس بات کو بھی یقینی بنا دیا کہ امریکی اقدامات کی بابت اقوام متحدہ کی تشخیص عوام میں نشر ہو جائے۔

تاہم آیت اللہ سیستانی حد سے زیادہ مخالفت نہیں کرتے تھے۔ درحقیقت انہوں نے امریکہ کے ریاست سازی کے منصوبے کو سبوتاژ نہ کر کے ایک اعتبار سے اسکی مدد بھی کی۔جس وقت انہوں نے اقوام متحدہ کی سفارشات کو منظور کیا، بصرہ میں عوام ان کے جلد انتخابات کروانے کے مطالبے کے حق میں مظاہرہ کر رہے تھے۔ کئی مظاہرین نےبینروں پر ”کلا کلا امریکہ“کے نعرے لکھ رکھے تھے۔ اس اعلان سے پہلےآیت اللہ سیستانی کے دفتر کے ایک عہدیدار نے امریکیوں سے کہا تھا کہ وہ مجوزہ عبوری حکومت کے خلاف ایک فتویٰ جاری کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ البتہ امریکہ اپنے منصوبوں کو بدلنے میں تاٴمل کا شکار تھا، اس بات کو اہمیت دئیے بنا کہ جنگ کے آغاز میں آیت اللہ سیستانی کے ہی ایک فتوے نے صدام کی شکست کو تیز تر کیا تھا اور اگر آیت اللہ چاہتے تو امریکہ کی مشکلات میں اضافہ کر سکتے تھے مگر وہ جانتے تھے کہکمزور عراقی حکومت امریکی مدد کے بغیر کام نہیں کر سکے گی۔ امریکی حملے پر ناپسندیدگی کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنے مقلدین کو قانون کی پاسداری، لڑائی اورلوٹ مار سے دوری اور جہادی تنظیموں میں شمولیتسے پرہیز کی نصیحت کی تھی۔ وہ ہمیشہ سماجی ضابطے میں رہ کر کام کرتے تھے۔

8 مارچ 2004ء کو ٹرانزیشنل ایڈمنسٹریٹو لاء (عبوری انتظامی دستور) منظور ہوا جو نئی حکومت کے قیام تک موثر رہا اور مئی 2006ء میں بننے والے مستقل آئین نے اسکی جگہ لی۔اسے صدام کی شکست کی پہلی برسی کے موقع پر عراقی اور امریکی قیادت کی طرف سے ایک بڑی کامیابی گردانا گیا۔ یہ ایک مثالی دستاویز تھی کہ جس میں کلی نکات بیان کئے گئے تھے جو لکھنے والوں کے خیال میں مستقل آئین کے رہنما اصول بنیں گے۔ اس میں جدید ریاست کے بہت سے عناصر ترکیبی تھے، جیسے: حقوق کا بیان، فوج پر عوامی بالا دستی، احتساب کا نظام، وغیرہ۔ اس میں انسانی حقوق کے تحفظ اور جمہوریت کے احترام کی شقیں شامل کی گئی تھیں۔ اس میں ریاست کی مختلف شاخوں میں اختیارات کی تقسیم اور قانون کی حکومت کی تعریف بیان کی گئی تھی۔ اس میں مفاہمت کا پہلو بھی تھا: عربی کے علاوہ کردی زبان کوبھی رسمیزبان قرار دیا گیا تھا، اس کے ساتھ ساتھ کرد قومیت کو بھی تسلیم کیا گیا تھا۔ کرد جمہوری پارٹی کے سربراہ مسعود بارزانی نے کہا کہ آئین نے کردوں کو برابر کا شہری ہونے کا احساس دلایا ہے، نہ دوسرے درجے کے شہری ہونے کا، اوراپنے لوگوں کی کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے وہ کردی زبان میں تقریر چھوڑ کر عربی بولنےلگے۔ [34]

اگرچہ آیت اللہ سیستانی عبوری حکومت کو ناجائز کہنے پر مصر تھے لیکن انہوں نے اپنی توجہ عبوری انتظامی دستور کی تفصیلات کی جانب مبذول کی۔ وقت کے ساتھ ساتھ وہ اپنے خدشات کی جزئیات بیان کرنے لگے۔ ایک خدشہ یہ تھا کہ ”گروہی مفادات کی مداخلت“ آئینی عمل کی مقبولیت کو کم کر دے گی۔ [35](بل ان من المؤکدان المصالح الشخصیۃ والفئویۃ و العرقیۃ والحسابات الحزبیۃ والطائفیۃ ستتدخل بصورۃاو باخری فی عملیۃ الاختیار،  و یکون المجلس المشکّل فاقداً للشرعیہ[النصوص الصادرہ، صفحہ 76])مثال کے طور پر عبوری انتظامی دستور میں صدارتی شوریٰ بنائی گئی جو تین ارکان؛ ایک کرد، ایک سنی عرب اور ایک شیعہ عرب؛ پر مشتمل ہو گی۔ یہ نسلی اور مذہبی اختلاف کو نمایاں کرنے والا ڈھانچہ تھا جو عراق کو فرقہ پرست حکمرانی کی دلدل میں پھنسانے کیلئے کافی تھا۔ آیت اللہ سیستانی نے تنبیہ کی کہ نسلی اور مذہبی گروہ بندی سے چپک جانے سے شوریٰ فیصلے کرنے کے قابل نہ رہے گی اور ”ملک کے اتحاد“ کو نقصان پہنچے گا۔ [36][النصوص الصادرہ، صفحہ 110]

آیت اللہ سیستانی نے اقوام متحدہ سے رجوع کیا اور اس فرقہ وارانہ تقسیمِ اقتدار کے خلاف احتجاج کیا جسے انہوں نے تمام عراقیوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے والا عمل قرار دیا۔ انہوں نے لاٴخضر براہیمی کے نام خط لکھا جس میں ایک ایک کر کے اپنی شکایات بیان کیں۔ اس بار ان کا لہجہ پہلے سے زیادہ سخت تھا۔ انہوں نے کہا کہ عبوری انتظامی دستورپر بہت سی ”قیود“ عائد کی گئی ہیں اور شقوں کو اس پر ”تھونپا“ گیا ہے جو ”بہت خطرناک“ طرزِ عمل ہے کہ جس کا ازالہ کرنا ہو گا۔صدر کے عہدے پر(تین افراد کی) شوریٰ کو بٹھانا عوام کی خواہشات کے مطابق نہیں ہے جیسا کہ ”رائے عامہ کے بارے کی گئی اندازہ گیری اور دستخطی مہم میں لاکھوں افراد کی شرکت“ سے ظاہر ہوتا ہے کہ جن میں یا تو عبوری دستور کو مسترد کیا گیا ہے یا اس میں تبدیلیوں کا مطالبہ کیا گیا ہے۔یہ بات کہ ”جب تک تینوں ارکان میں اتفاق نہ ہو“، جو کہ اختلاف رائے کی صورت میں بعید تھا، صدارتی شوریٰ کو کوئی قدماٹھانے کے لائق نہ چھوڑے گی۔تعطل کا لازمہ بیرونی قوت، جیسے امریکہ، کی مداخلت ہو گا۔آیت اللہ سیستانی نے خبردار کیا کہ نسلی اور مذہبی تفریق پر مبنی نظام مستقبل میں عراق کے ”عدم استحکام، تقسیم اور ٹکڑے ٹکڑے ہونے“ کا سبب بنے گا۔ [37][النصوص الصادرہ، صفحہ 111 تا 113] تاہم انہوں نے عبوری انتظامی دستور کے خلاف کوئی فتویٰ نہیں دیا۔ بظاہر اس وقت وہ مذاکرات کے ذریعے اپنا ہدف حاصل کرنا چاہتے تھے۔

آیت اللہ سیستانی نے بریمر کی اس بات میں خاص طور پر مخالفت کی کہ عراق میں آزاد اور شفاف انتخابات کیلئے 30 جون2004ء کی ڈیڈ لائن تک مناسب حالات پیدا نہیں ہو سکتے۔ آیت اللہ نے اس کے برعکس کے حق میں دلائل اکٹھے کئے۔ مثال کے طور پر صدارتی شوریٰ کی تجویز کے خلافاندازہ گیری کا عمل اور عراقی معاشرے میں گردش کرنے والی عرضداشتیں عراقی عوام کے سیاسی بلوغ کا اظہار تھیں۔ یوں آیت اللہ نے ثابت کیا کہ وہ ملکی سیاست کے رجحانات سے باخبر تھے۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ عالمی برادری کو عبوری انتظامی دستور کو تسلیم نہیں کرنا چاہئیے اور کہا کہ یہ بات اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل تک بھی پہنچائی جائے۔ [38][النصوص الصادرہ، صفحہ 111 تا 113] اقوام متحدہ میں قرارداد نمبر 1546 کی منظوری سے قبل جون میں ایک اور خط لکھ کر انہوں نے جہاں جنوری 2005ءتک قومی انتخابات اور خودمختاری کی واپسی کے احتمال کو خوش آئند قرار دیا وہیں بڑے واضح الفاظ میں عبوری انتظامی دستور کا ذکر قرارداد میں شامل نہ کئے جانے کا مطالبہ کیا، کیوں کہ یہ ایک عارضی دستاویز تھی جو ”غیر ملکی قبضے کے دوران لکھی گئی“ تھی اور ”(بین الاقوامی) قانون کے خلاف“ تھی اور ”عوام کی اکثریت کی طرف سے مسترد شدہ“ تھی۔ [39][النصوص الصادرہ، صفحہ 112] فی الواقع قرارداد نمبر 1546 میں عبوری انتظامی دستور کا کوئی ذکر نہ کیا گیا۔

بنیادی طور پر آیت اللہ سیستانی نے عبوری انتظامی دستور کو وقتی طور پر اس لئے مشروع سمجھا تاکہ مملکت کی وحدت کو قائم رکھا جا سکے اور عام انتخابات کی تاریخ طے کرنے اور حتمی آئین کی تیاری جیسے اہداف کی طرف سفر جاری رکھا جا سکے۔تاہم ابھی کچھ مسائل موجود تھے۔ اس عارضی دستور میں وفاقی طرز کا ڈھانچہ پیش کیا گیا تھا: دراصل یہ عراق کو ایک وفاقی ریاست قرار دیتا تھا جس میں قابلِ ذکر اختیارات صوبوں کو منتقل کئے گئے تھے۔دوسروں کی مخالفت کے باوجود کرد نمائندے عارضی دستور میں یہ شق شامل کرنے میں کامیاب رہے تھے کہ کوئی سے تین صوبےدو تہائی اکثریت سے اگر کسی قانون کی مخالفت کریں تو وہ حتمی آئین کا حصہ نہیں بنے گا۔ چونکہ عراق کے تین صوبوں؛ سلیمانیہ، اربیل اور دہوک؛ میں کرد آبادی کی اکثریت ہے، لہٰذا اس شق نے عملاًکردوں کو حتمی آئین پر ویٹو کی طاقت دے دی، جو قومی انتخابات کے بعد لکھا جانا تھا۔ انہیں اس وقت تکپیشمرگہ (لفظی مطلب: وہ جو موت کے سامنے آتے ہیں) نامی لشکر رکھنے کی بھی اجازت دی گئی جب تک اس کی حیثیت کا تعین نہیں ہو جاتا۔ دوسرے لشکروں، جیسے شیعہ ملیشیاؤں، کی حیثیت کے بارے میں عبوری دستور میں کچھ نہ تھا۔ آیت اللہ سیستانی سبھی لشکروں کو ایک نظر سے دیکھتےتھے، اورصرف ریاستی عسکری اداروں کو ہی جائز سمجھتے تھے۔ (لسنا مع تشکل مثل هذه المیلیشیات، و تاکیدنا علی دعم القوۃ الوطنیۃ العراقیۃ [النصوص الصادرہ، صفحہ 71]) عبوری دستور میں یہ شق بھی شامل تھی کہ 2005ء کے آغاز میں انتخابات سے پہلے اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی جا سکے گی۔ [40]

آیت اللہ سیستانی نے اس معاملے پر ملی نکتہ نظر سے بات کی، جو باقی مسائل پر ان کے موقف سے ہم آہنگ تھی۔ وہ طاقت کی تقسیم اور اس سے مملکت کی وحدت کو لاحق خطرات پر پریشان تھے۔ آیت اللہ سیستانی کی نظر میں ”کردوں“ اور ”سنیوں“ کو آئینی طور پر غیر بنانے سے بھی بڑا خطرہملی شیرازہ بکھرنے اور وطن کی تقسیم کاتھا۔ یہ منہجان کے عراق محور طرزِ فکر کے ساتھ ہم آہنگ تھی جو وہ 2003ءسے اپنائے ہوئے تھے۔چنانچہ انہوں نے ضبطِ نفس کا شاندار مظاہرہ کیا، اگرچہ کردوں نے نئے سیاسی بندوبست میں اپنے حق سے زیادہ طاقت حاصل کر لی تھی۔ وہ وفاق سے متعلق سوالاتپر یا تو غیر جانبدار رہے یا جواب دینے سے پرہیز کیا۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا: ”وفاقیت کی اساس اور اسکی موزوں اقسام پر عراقی عوام کی رائے سے فیصلہ ہوگا“ اور ”اس وقت تک کسی تشہیر سے اجتناب برتا جائے گا ۔“ وہ اس عمل پر اثر انداز ہونے سے گریز کر رہے تھے۔ انہوں نے قارئین کو یقین دہانی کرائی کہ جن ماہرین کو کام سونپا جائے گا وہ”عراق کی وطنی وحدت اور اس کی سب قومی اکائیوں اور نسلی گروہوں کے حقوق کے تحفظ کا بہترین قاعدہ“ ڈھونڈ نکالیں گے۔ [41][النصوص الصادرہ، صفحہ 100 تا 103] انہوں نے فرقہ واریت کی مخالفت اور ملی وحدت کو ہر ممکن وسعتکے ساتھ بیان کر دیا۔اسی طرح جمہوریت کے بارے میں ان کی گفتگو ہمیشہ سب کو شامل کرنے والی ہوتی تھی اور انہوں نے کبھی کسی گروہ کو براہ راست اپنا مخاطب قرار نہ دیا۔ جب ان پر شیعہ اکثریت کے بارے میں تبصرہ کرنے کیلئے دباؤ ڈالا گیا، جو واضح عددی اکثریت کے بل بوتے پر حاکم گروہ بن سکتے تھے، آیت اللہ سیستانی نے سب شیعوں کو ایک جیسا اورباقیوں سے الگ گروہ سمجھنے کی مخالفت کی۔ انہوں نے کسی امتیاز کے بغیر (شہری کی حیثیت میں)شیعوں کو باقی عراقیوں کے برابر قرار دیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ شیعوں کی ضروریات ”باقی عراقی شہریوںجیسی“ تھیں جن میں ”کسی فرقہ وارانہ امتیاز کے بغیر حقوق کا پورا ہونا“ شامل تھا۔ [42](امّا ما یریدہ الشیعۃ فہو لایختلف عمایریدہ سائر الشعب العراقی[النصوص الصادرہ، صفحہ 45])انہوں نے کسی قسم کی عسکری تنظیم بنانے کی مخالفت کی، چاہے اس کا مقصد مقدس شہروں کی حفاظت ہی کیوں نہ ہو۔ انہوں نے درجنوں فتوےتمام عسکریت پسند گروہوں کو غیر شرعی ہونے پر جاری کئے۔ [43][النصوص الصادرہ، صفحہ 51] جہاں تک طرزِ حکمرانی کی بات تھی، انہوں نے کہا کہ اس کا فیصلہ سب کو مل کر، سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر اور ملی استقلال کو مد نظر رکھ کر، کرنا ہو گا۔  یہی پلاٹنر صاحب کے نظریۂ جمہوریت کی روح ہے۔

آیت اللہ سیستانی کوئی تجربہ کار سیاست دان نہ تھے لیکن وہ ایک سیاسی حس رکھتے تھے جس سے وہ ریاست کی بنیاد بننے والی دستاویز اور اداروں کے گہرے مضمرات کو سمجھ سکتے تھے۔ اے جی سی اور عبوری انتظامی دستور کی ساختاری فرقہ واریت نے ملکی سطح پر بھی اور خطے میں بھی اثرات مرتب کرنے تھے۔یہ 2004ء کے ابتدائی ایامتھے جب عبوری انتظامی دستور نافذ ہوا، اور اس وقت وطن کی سلامتی کوخانہ جنگی یا دہشتگردی کے خطرات لاحق ہونے کی بات کوئی نہیں کر رہا تھا لیکن آیت اللہ سیستانی فرقہ وارانہ بنیادوں پر ریاست کی تشکیل میں چھپے خطرات کیپیش بینی کرنے میں کامیاب رہے۔البتہ وہ اس میں تنہا نہ تھے: خطے کے ماہرین نے لبنانی طرز کی تقسیم اقتدار کی خامیوں اور اس کے عراق کیلئے خطرناک ہونے کے بارے میں پہلے سے مقالے لکھ رکھے تھے۔ بطورِ کلیتقسیم کی بابت آیت اللہ سیستانی کےانتباہات کا رخ کردوں کی جانب نہیں بلکہ ریاست کی سالمیت اور آئینی عمل کی مقبولیت کی طرف تھا۔ درحقیقت ان کے بیانات کا بیشتر حصہ فرقہ وارانہ جنگ کے خطرات کے بارے میں ہوتا تھا جو آگے چل کر عراقی ریاست کو لاحق ہونے والے تھے۔ شیعہ سنی تقسیم کے بارے میں ان کے خیالات کی بنیاد یہ تھی کہ :”اگر بیرونی ہاتھ عراق کے معاملات میں دخل نہ دے تو عوام آپس میں بہتر طریقے سے ہم آہنگ اور یکسو ہو جائیں گے۔“ [44] [النصوص الصادرہ، صفحہ 65]آیت اللہ سیستانینے ریاست کا شیرازہ بکھرنے کے بارے میں پہلے سے انتباہ کر دیا تھا کیوں کہ وہ عبوری ڈھانچے اور عملی تشدد میں موجود تعلق کو سمجھ رہے تھے، اسلئے نہیں کہ وہ کسی خاص نسلی گروہ کے مخالف تھے۔ ان کا پیغام کسی کے خلاف نہ تھا: وہ گروہ جنہیں سیاسی عمل میں حصہ نہ دیا گیا وہ تشدد کا راستہ اختیار کر رہے تھے۔ یہ نسخہ سانحے کو ہی جنم دے سکتا تھا۔

انتخابات اور ایک نیا آئین

30جنوری 2005ءکو انتخابات کی تاریخ قرار دئیے جانے کے بعد آیت اللہ سیستانی نے دوبارہ اپنی توجہ سیاست پر مرکوز کی۔بہت کچھ داؤ پر لگ چکا تھا۔ دو سو پچھتر رکنی پارلیمان نے دائمی آئین تدوین کرنا تھا اور 15 اکتوبر 2005ء میں ریفرنڈم کے ذریعے نئے آئین کی توثیق تکعبوری حکومت بنا کر سب آئینی ذمہ داریاں پوری کرنی تھیں۔اس کے بعد دسمبر 2005ء میں مستقل آئین کے تحت پہلی پارلیمان بنائے جانے کیلئے دوبارہ انتخابات ہونے تھے۔10 اکتوبر 2004ء کو آیت اللہ سیستانی سے ان کے مقلدین نے سوال کیا کہ انتخابات کےمعاملے میں ان کی ذمہ داری کیا ہے؟ انہوں نے جوابی فتوے میں بتایا کہ انہیں کیا کرنا چاہئیے۔ انہوں نے تمام مرد و خواتین شہریوں سے کہا کہ وہ ووٹر لسٹ میں اپنے نام کے اندراج کی تصدیق کریں، اور اس کام میںایک دوسرے کی مدد کیلئے انجمن سازی کی تلقین کی اور کہا کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ”ہر عراقی شرکت کرے۔“ [45] (بمشارکۃ جمیع العراقیین[النصوص الصادرہ، صفحہ 131])عراقی سماج پر تحقیق کرنے والے ایک ماہر کے مطابق یہ ”عوامی جمہوریت کیلئے علمائے دین کے اعلیٰ ترین عزم کا اظہار تھا جس کی عراق کی حالیہ تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔“ [46]اس ’ووٹ دو‘ فتوے میں صرف مقلدین کے بجائے سب عراقیوں کو مخاطب کیا گیا تھا۔

آیت اللہ سیستانی نے ووٹ دینے کو شرعی ذمہ داری قرار دیا۔ انکی دلیل یہ ہو سکتی ہے کہ اس سے تمام عراقیوں کو ایک ایسی ریاست بنانے کیلئےمل کر چلنےکا موقع ملے گا جس میں سب برابر ہوں، جس کیلئےوہ ایک سال سے انتھک کوشش کر رہے تھے۔اس مرتبہ انہوں نے، ماضی کے برعکس، بار بار فتویٰ جارینہ کیا۔سیاسی عمل کی جزئیات میں مداخلت سے پرہیز کے عزم پر ثابت قدمرہتے ہوئے انہوں نے واضح کیا کہ وہ راستہ ہموار کریں گے مگر سفرپر اثر انداز نہیں ہوں گے۔ اس طرح اکتوبر میں دیا گیا فتویٰ سب عراقیوں سے انتخابات  میں شرکت کی درخواست تھی۔ جب جنوری 2005ء کے انتخابات نزدیک آ گئے تو یہ امید کی جا رہی تھی کہ آیت اللہ سیستانی ایک اور بیان جاری کریں گے یا کم از کمشیعہ تنظیموں کے اتحاد، ائتلاف العراقي الموحد، کی حمایت کریں گے۔ [47] وہ اپنا وزن ان کے پلڑے میں ڈال کر بادشاہ گر بن سکتے تھے۔ لیکن اگر انہوں نے اس اتحاد کی حمایت کا اعلان کیا ہوتا یا جنوری کے انتخابات کی بابت فتویٰ یا فتوے دئیے ہوتے تو مبصرین اور مقامی سیاست دانوں نے ان کو شک کی نگاہ سے دیکھنا تھا، انہیں فرقہ پرست سمجھنا تھا۔ ذارئع ابلاغ نے ایسی خبریں چلائیں جن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ آیت اللہ سیستانی نے ائتلافکی حمایت کی ہے۔ لیکن ان کے اس دعوے کی تصدیق کیلئے کوئی ثبوت موجود نہیں۔ [48]

یہ سوال کہ آیا آیت اللہ سیستانی ائتلاف کی حمایت کرتے ہیں یا نہیں، صحافیوں اور تجزیہ نگاروں کیلئے ایک اہم موضوعِ بحث تھا۔بہت سے محققین اس بات پر متفق تھے کہ انہوں نے ائتلاف کی حمایت کی ہے، بلکہ فتوے کو ایک اور انداز میں سمجھا جائے تو ان کیلئے”دعا“ کی ہے۔ تاہم اگلی سطر میں انہوں نے کہا کہ وہ انتخابات میں حصہ لینے والی سب سیاسی جماعتوں کی ”تائید“ کرتے ہیں۔ جب ان سے وضاحت طلب کی گئی تو انہوں نے کہا کہ جماعتوں کو ان کا نام یا نفوذ اپنے مفاد کیلئے استعمال نہیں کرنا چاہئیے۔ تاہم ان کے کئی نمائندوں اور شاگردوں نے ائتلاف کی حمایت کی، جس سے محققین نے یہ تاثر لیا کہ2005ء میں آیت اللہ سیستانی اس کی حمایت کرنے جارہے ہیں۔ 16 دسمبر 2004ء کو آیت اللہ سیستانی نے اس معاملے پر ایک سوال کا جواب دیا۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ وہ اس اتحاد کی کامیابی کیلئے دعا گو ہیں، لیکن وہ انتخابات میں حصہ لینے والی سب جماعتوں کی حمایت کرتے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ انہوں نے باقی جماعتوں پر فوقیت دیتے ہوئے کسی ایک سیاسی جماعت کے حق میںکوئی فتویٰ جاری نہیں کیا اور اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ کچھ لوگ ووٹ حاصل کرنے کیلئے ان کا نام استعمال کر رہے تھے۔ [49] انتخابات کے فوراً بعد آیت اللہ سیستانی کے نمائندے حامد الخفاف نے ان کا بیان جاری کیا جس میں آئین اور سیاسی عمل کے بارے میں افواہوں کی تردید کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ انہوں نے نہ تو کوئی نیا بیان جاری کیا ہے نہ ہی ان کی ”سابقہ آراء“میں حالیہ دنوں میں کوئی تبدیلی آئی ہے۔ انہوں نے مستقل آئین اور عراقیوں کی قومی شناخت کے تحفظکے بارے میں اپنے سابقہ موقف کو باقی رکھا۔ وہ قومی اکٹھ میں عوامی نمائندوں کے ترتیب کردہ بنیادی نکات کے حامی رہے۔ ائتلاف نے اپنی انتخابی مہم کے دوران آیت اللہ کی بڑی بڑی تصاویر سب شہروں میں، یہاں تک کہ پولنگ سٹیشنوں  پر بھی،آویزاں کی تھیں۔آیت اللہنے کہا  کہ ”جو لوگ ان سے محبت کرتے ہیں وہ ایسا کام نہ کریں۔“ [50][النصوص الصادرہ، صفحہ 141] ان کے رد عمل کا مطلب یہ تھا کہ وہ اپنے آپ کو سیاسی عمل سے دور رکھنا چاہتے تھے۔ یہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ خطے کے تمامیت خواہ آمر ہمیشہ اپنی بڑی بڑی تصویریں شہر بھر میں آویزاں کرواتے ہیں تاکہ اپنے آپ کو ظلِ الٰہی اور طلسماتی شخصیتکے طور پر منوائیں۔ یہ انداز آیت اللہ سیستانی کیلئے کوئی کشش نہیں رکھتا تھا۔ انہوں نے ہمیشہ سیاست پر اثر انداز ہونے اور اس میں عملی حصہ لینے کے بیچ موجود حد کا خیال رکھا۔ اب کچھ نہ کرنے کا وقت تھا۔

جنوری کے انتخابات جوں جوں قریب آنے لگے، ایسے وقت میں جب عراقی عوام کو پر جوش ہونا چاہئیے تھا، تشویشناک انداز میں دہشتگردی میں اضافہ ہونے لگا اور اس نے فرقہ وارانہ رنگ پکڑ لیا۔ ائتلاف اور کرد جماعتوں نے انتخابات میں واضح برتری حاصل کر لی لیکن سنی عربوں نے انتخابات میں کم حصہ لیا۔ وہ آبادی کاتقریباً 20تھے لیکن صرف دو فیصد ووٹ دینے گئے۔ سنی عرب علاقوں میں تشدد عام تھا اور اس کی وجہ سے بہت سے سنی گروہوں، جیسےہيئہ علماء المسلمين، نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔(عرضِ مترجم: عرب عراقیوں میں اہلسنت اقلیت میں ہیں لیکنپچھلے اسی سال سے عراق میں آمروں کی حکومتوں نے ان کو خصوصی مراعات دے کر شیعہ عرب اور سنی کرد شہریوں کو محروم رکھا تھا تاکہ عوام کو تقسیم کر کے آسانی سے حکومت کی جا سکے۔ اب صدام کے اقتدار سے الگ کئے جانے اور جمہوریت کے آنے کو سنی عربوں کی مراعات کیلئے خطرہ بنا کر پیش کیا جا رہا تھا۔)

اہلسنت عربوں کی کم شرکت نے سارے عمل کی مقبولیت کو خطرے میں ڈال دیا جس نے انتخابات جیتنے والوں پر دباؤ ڈالا کہ وہ سنی عربوں کو مستقبل میں آئین لکھنے کے عمل میں شریک ہونے پر راضی کریں۔ (سنی علاقوں میں کم ووٹ کاسٹ ہونے کی وجہ سے)275 کامیاب امیدواروں میں صرف 17 سنی عرب تھے۔ چھ ماہ بعد، جون 2005ء میں، آیت اللہ سیستانی نے انتخابی عمل میں ایسی تبدیلیاں کرنے پر زور دیا جو آئندہ بننے والی اسمبلیوں میں سنی عربوں کی کما حقہم نمائندگی کو یقینی بنا سکیں۔آیت اللہ سیستانی نے تجاویز بھی مرتب کیں جو جنوری کے انتخابات میں اپنائے گئے نظام کا متبادل ہو سکتی ہوں۔ اس طرح قومی انتخابات میں ووٹر ملک گیر فہرستوں کے بجائے صوبائی سطح پر بننے والی فہرستوں میں سے اپنے نمائندگان چن سکیں گے۔ نئی صوبہ محورتجویز ماننے سےنشستوں کی تعداد کو آبادی کے تناسب سے ہم آہنگ کرنا ممکن ہو گا۔ اس طرح ووٹ ڈالے جانے کی شرح کا اثر نہیں ہو گا۔آیت اللہ سیستانی نے واضح کیا کہ اس نئے انتخابی نظام کی اہمیت یہ ہے کہ یہ عراق کی نازک سیاسی صورتحال کی عکاسی کرتا ہے۔ وہ اس لئے یہ اقدام اٹھا رہے تھے کہ ماضی میں ”بہت سی غلطیاں ہوئیں۔“ ہمیشہ کی طرح آیت اللہ سیستانی نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ”سب شہریوں کو“ جمہوریت میں حصہ لیناچاہئیے۔ [51]

مئیمیں نئی حکومت کے آغاز کے بعد آئین لکھنے والوں میں باقی ماندہ اختلافی نکات پر بحث شروع ہوئی۔سب سے زیادہ جس نکتے پر بحث ہوئی وہ وفاقیت اور عراق کی متعدد علاقوں میں تقسیم کا خطرہ تھا۔ وفاقی طرز حکومت کے بارے میں مسودہ کردوں نے تیار کیا تھا اور مرحوم آیت اللہ باقر الحکیم کی جماعت المجلس الاعلى الا سلامی العراقی،نے اسکی حمایت کی تھی۔ آیت اللہ سیستانی نے ان بحثوں میں دخل نہ دیا اور مختلف گروہوں کو مذاکرات کرنے دئیے۔وہ اس لئے خاموش نہ تھے کہ یہ بحث اہمیت نہ رکھتی تھی، بلکہ اس لئے کہ گروہوں کو اپنا اختلاف خود حل کرنا تھا۔ جیسا کہ وہ امریکہ یا عراقی گورننگ کونسل کی مداخلت کو پسند نہیں کرتے تھے، اسی طرح وہ یہ سمجھتے تھے کہ انہیں بھی مداخلت نہیں کرنی چاہئیے۔ جمہوری طور پر منتخب شدہ سیاسی جماعتوں کے سیاسی نظام کے ساتھ تعامل میں ان جماعتوں کے ارتقاءکا احتمال کافی زیادہ تھا۔جیسا کہ آگے چل کر ہوا، آیت اللہ سیستانی کی پیش بینی کے مطابقمستقل آئین کے نکات پر علاقائی اور نسلی بنیادوں پر مفاہمت پیدا ہوئی۔ سب گروہوں کے حقوق کے تحفظ کا خیال عبوری انتظامی دستور میں بھی رکھا گیا تھا، اس دستاویز کو مشہور ماہر قانون اینڈریوآراتو نے ”موزوں پیرہن“ سے تعبیر کیا تھا جس کے آگے چل کر اچھے سیاسی اثرات مرتب ہوئے۔ [52]

مستقل آئین میں وفاقی طرز پرکردوں کے علاقائی خودمختاری کے بہت سے مطالبے تسلیم کئے گئے، جنہیں ”اقالیم“ کی صورت میں بیان کیا گیا۔کردوں نے عبوری انتظامی دستور میں دئیے گئے سب اختیارات کو دوبارہ حاصل کر لیا اور ان کے علاوہ بھی مرکز پر کچھ امتیازات حاصل کر لئے۔آئین کی شق 117 نے کردوں کے تین صوبوں دہوک، اربیل اور سلیمانیہ کو قانونی طور پر علیحدہ علاقہ تسلیم کیا جو ”حکومتِاقلیمِ کردستان“ کے ماتحت ہوں گے۔اس حکومت کے پاس وفاقی قوانین کے اطلاق میں تبدیلی کرنے کا حق تھا، سوائے ان مخصوص شقوں کے جو وفاق کا خاصہ ہیں، اور اس کو اپنی حفاظت کیلئے ایک نیم فوجی لشکر رکھنے کی بھی اجازت تھی۔اس کے ساتھ ساتھ اس حکومت کے پاس بیرون ملک سفارت خانے کھولنے کا حق بھی تھا۔آئین کی شق 4 میں عربی کے ساتھ ساتھ کردی زبان کو بھیقومی زبان تسلیم کیاگیا۔جنوری 2005ء میں جب صوبائی انتخابات ہوئے تو کردستان کی قومی اسمبلی کیلئے بھی انتخابات برپا ہوئے، جو حکومتِ اقلیمِ کردستان کی الگ پارلیمنٹ کی حیثیت رکھتی تھی۔ کردستان قومی اسمبلی نے 12 جنوری 2005ء کومسعود بارزانی صاحب کو کردستان کا صدر منتخب کیا۔ [53] مولانا سید عبد العزیز الحکیم، جو عراق کے جنوب میں خودمختاری کے حامی تھے، نے ایک دھماکہ دار بیان جاری کرتے ہوئے جنوب کے نو شیعہ اکثریت والے صوبوں کے لئے ایک اقلیم قائم کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ وہ ایک ایسی علاقائی اکائی کا تصور پیش کر رہے تھے جیسی کردوں کو شمال میں حاصل ہوئی تھی۔ یہ وزیر اعظم ابراہیم جعفری کی سوچ سے اختلاف تھا، جو مرکز کو زیادہ طاقتور دیکھنا چاہتے تھے اور ان نو صوبوں کو الگ الگ حیثیت دینا چاہتے تھے۔ [54]ان صوبوں میں عراق کی آدھی آبادی اور اسی فیصد تیل پایا جاتا ہے۔ [55] اس کا مطلب تھا کہ یہ ایک شیعہ شناخت کا علاقہ بن جائے گا اور ایسیاکائی بھی بن سکتا ہے جو مرکز پر بہت زیادہ اثر ڈال سکتا ہو۔ کردوں نے طاقت کے اس ارتکاز کو رد کرنا تھا اور سنی عربوں میں یہ احساس پیدا ہونا تھا کہ وہ درمیان میں کمزور اور بے بس رہ جائیں گے۔ ان کیلئے وفاقی طرز کی ریاست میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ مولانا حکیم کا پیش کردہ تصورآیت اللہ سیستانی کی خواہش سے انحراف تھا جو ریاست کے نزدیک تمام عراقیوں کی برابری کے قائل تھے۔یہ بیان آیت اللہ کے عراق کی وحدت کے تصور سے بھی ٹکراتا تھا اور اس نے دوبارہ عراق کی ”سرد تقسیم“ کی بحث کو زندہ کر دیا۔ [56]اہم بات یہ ہے کہ سید عبد العزیز الحکیم کا تصور شیعہ سوچ کی نمائندگی نہیں کرتا تھا۔شیعہ عوام کی اکثریت مضبوط مرکز دیکھنا چاہتی تھی اور صرف کردوں کیلئے جزوی وفاقیتکی قائل تھی۔ [57]سال بھر کیلئے بصرہ کے شیعوں میں قریبی علاقوںکی ایک اقلیم کیلئے کبھی کبھی تحریک اٹھتی رہی لیکن اس چھوٹی اکائی کے حق میں بھی عوامی حمایت بہت کم رہی۔ مقتدیٰ الصدر اور حزب الدعوه بھی مضبوط مرکز کے قائل تھے۔ 2007ء تک سید عبد العزیز الحکیم کی جماعت مجلس اعلیٰ کا وفاقیتاور ایک بڑے شیعہ اقلیم کے بارے میں جوش بھی مدہم پڑ گیا۔ اب مجلس اعلیٰ نے بھی ”عراقی عوام کی رائے“ کو اپنے بیانیے کا مرکز بنا لیا۔ [58] واضح تھا کہ عوام کی اکثریت کے وفاقیت کو پسند نہ کرنے کی وجہ سے انہیں اپنا موقف بدلنا پڑا ہے۔

لیکن ”تجزیہ طلبی“ کی اصل بنیاد وفاقی طرز کے آئین میں استعمال ہونے والی زبان کی ساخت تھی جس کے بارے میں آیت اللہ سیستانی ہمیشہ خبردار کرتے رہے تھے۔ آئین کی شق 118 میں کہا گیا تھا کہ اگر صوبوں کی ایک سادہ اکثریت الگ اکائیاں بنانا چاہے تو انہیں اس کا حق ہو گا۔ در حقیقت آئین کی شق 112 تا 117 کی تشریح نے مستقبل میں مختلف اکائیوں کی شکل میں ممکنہ تقسیم کی ضمانت دی تھی۔ آنے والے چند سالوں میں عراقیوں میں اقالیم کی ساخت اوران کے اختیارات، خصوصاً تیل اور سرحدوں پر تجارت کے معاملات، پر بحث ہونی تھی۔ آیت اللہ سیستانی نے جس طرح انتخابات میں جزئی بحثوں میں حصہ نہ لیا تھا اسی طرح وفاقیت کے سوال پر بھی جزئیات سے الگ رہے۔در حقیقت جب آئین کا مسودہ تیار ہو گیا تو تمام تر مسائل کے باوجود آیت اللہ سیستانی نے اس کی مخالفت نہ کی۔ انہوں نے عراق کے تمام شہریوں سے درخواست کی کہ وہ ریفرنڈم میں آئین کے حق میں ووٹ دیں ”اگرچہ کچھ خامیاں دور نہیں ہو سکی ہیں۔“ [59]

15 اکتوبر 2005ء کو (ریفرنڈم کے ذریعے) آئین نافذ  کر دیا گیا۔ اس وقت تک آیت اللہ سیستانی کردوں اور مجلس اعلیٰ کی سیاسی نظام میں زیادہ سے زیادہ طاقتحاصل کرنے کی ضد سے تنگ آ چکے تھے۔ ایک مقلد نے 15 دسمبر 2005ء میں 275 رکنی ارکان نمائندگان کے چناؤ کیلئےآنے والے انتخابات کے بارے میں سوال کیا۔ان انتخابات میں نشستیں آبادی کے تناسب کے حساب سے تقسیم کی گئی تھیں تاکہ اہلسنت کی نمائندگی کو یقینی بنایا جا سکے۔ سنی عربوں نے جنوری 2005ء کے انتخابات میں نہایت کم ووٹ ڈالے تھے لیکن دسمبر کے انتخابات میں بہت سوں نے شرکت کی اگرچہ وفاقیت کی شقوں کے خلاف ان میں ناراضی پائی جاتی تھی۔ انہوں نے انتخابات کا بائیکاٹ اس معاہدے کی بنا پر نہیں کیا کہ پہلی پارلیمان کے ماتحت  آئین پر نظرِ ثانی کیلئے ایک کمیٹی بنائی جائے گی جو ترامیم کی تجاویز تیار کرے گی جنہیں ایک واضح اور سادہ انداز میں اپنایا جا سکے۔ دسمبر میں سنی عربوں نے 275 میں سے 60 نشستیں جیت لیں۔

آیت اللہ سیستانی نے ایک مختصر فتویٰ دیا جس میں زور دیا کہ سب مرد اور خواتین ووٹ دیں اور انتخابات میں عوام کی ”پر زور“ شرکت کی امید ظاہر کی۔ انہوں نے ووٹرز کو یہ نصیحت بھی کی کہ اپنی ووٹ کو ضائع ہونے یا تقسیم ہونے سے بچائیں۔ [60](وعلی المواطنین- رجالاً و نساءاً – ان یشارکوا فیہامشارکۃ واسعۃ[النصوص الصادرہ، صفحہ 148])اس سیاسی رسہ کشی کے ماحول میں اس نصیحت کو ائتلاف العراقي الموحد کی ملفوف حمایت سمجھا گیا جو جنوری کی نسبت دسمبر میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب رہا۔ [61] ائتلاف یوں بھی اکثریت کی نمائندگی کرتا تھا، چنانچہ اس کی جیت کوئی تعجب کی بات نہ تھی۔ تاہم اگرچہ اس اتحاد میں مضبوط مرکز کے حق میں کچھ بلند آوازیں موجود تھیں لیکن انہیں اہمیت نہیں دی جاتی تھی۔ ائتلاف کی حکمت عملی عراق کی تمام آوازوں کی عکاسی نہیں کرتی تھی، بلکہ صرف حزبِ اقتدار کی نمائندگی کرتی تھی، وہ افراد جو امریکی حملے سے پہلے اور بعد میں امریکی انتظامیہ سے رابطے میں تھے۔ اس رابطے نے شیعہ موقف کے بارے میں امریکیوں کو اس غلط فہمی میں مبتلا کیا کہ شیعہ عوام وفاقیت کے قائل ہیں۔ مئی 2006ء میں امریکی سینیٹر جو بائیڈن کی طرف سے عراق کی ”سرد تقسیم“ کا منصوبہ پیش کرنے پر اس رابطے کا بھی ایک اثر ہو سکتا ہے۔ بائیڈن کے منصوبے ”ایک عراق اور تین اکائیاں“میںمسئلہ یہ تھا کہ عراق کا آئین وفاقیت کو عراق کی حکمرانی کے ایک کلی اصول کے طور پر قبول نہیں کرتا تھا۔کردستان کے سوا کوئی اور وفاقی اکائی بنانا عوام کی منشاء پر چھوڑ دیا گیا تھا جسے ریفرینڈم کے ذریعے متعین کیا جانا تھا۔ بائیڈن صاحب کا بیان عراقی آئین کے خلاف تھا، جو غیر ملکیوں کو عراقی ریاست کے ڈھانچے پر اثر انداز ہونے کا حق نہیں دیتا، نئی وفافی اکائیاں عراقی عوام نے ”نچلی سطح پر“ طے کرنی ہیں۔ [62]

وفاقیت آیت اللہ سیستانی کی نظر میں عراقی آئین کےریاست کی تقسیم کا طریقۂ کار متعین کرنے تکمحدود نہ تھی۔ عراق کے حصے بخرے ہونا اس طویل تاریخ نگاری کا تسلسل ہوتا کہ جس کے مطابق عراقمیں مختلف لوگوں کو اکٹھا کر دیا گیا تھا، جوایک واحد قومی شناخت نہیں رکھتے تھے۔ یہ وہ بیانیہ ہے جو عراقی ریاست کو مصنوعی بندوبست سمجھتا ہے اور آیت اللہ سیستانی اس کو کھوکھلا ثابت کرنا چاہتے تھے۔اگر حقیقت آیت اللہ سیستانی کے بیانیے سے ہم آہنگ تھی اور عراقی اپنی قومی ریاست میں متحد تھے، تو آئین ایسی مقبول تحریکوں کو ایندھن فراہم نہیں کر سکتا تھا جو عراق کو مختلف اکائیوں بانٹ دیں۔ یہاں تک کہ اگر مرکزی حکومت مفسد اور غیر مقبول بھی ہوتی ، ایسا مسئلہ جس کی طرف آیت اللہ سیستانی نے نوری المالکی کی حکومت میں کئی مرتبہ توجہ کی، تو بھی وفاقی طرز کی ریاست کے مطالبےکو عوامی پذیرائی حاصل نہ ہوتی ۔سچ یہ ہے کہ زوال عراقیوں کی وطن دوستی میںنہیں آیا، بلکہ حکومت کیاس سیاست کی حمایت میں کمی آئی جو آیت اللہ سیستانی کی طرف سے کی جانے والی تاریخ کی تفسیر سے ہم آہنگ نہ تھی۔

البتہ آیت اللہ سیستانی یہ سمجھتے تھے کہ خواص عوامی امنگوں کو نظر انداز کر کے سیاست کو اپنے مفاد کے مطابق بدل سکتے ہیں۔ چنانچہ وہ ریاست کے ایسے ڈھانچے پر زور دیتے تھے جس میں عوام کا سیاسی عمل میں زیادہ سے زیادہ دخل ممکن ہو سکے۔ آیت اللہ سیستانی کی نظر میں دائمی آئین میں خامیاں تھیں لیکن انہوں نےاس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ عبوری انتظامی دستور میں سرکاری مناصب کو واضح نسلی اور مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنےوالی شقوں کو ہٹا دیا گیا تھا۔

مذہب، بالخصوص اسلام کا آئین اور ریاست میں مقام دوسرا اہم معاملہ تھا جس پر آئین کے متن پر ہونے والی بحث میں بہت اختلاف ہوا۔ تاہم آیت اللہ سیستانی کی حکمت عملی اور ترجیحات میں اس بحث کو اولویت نہیں دی گئی۔ ان کے فتوے، بیانات اور اعلانات میں مذہبی کارڈاستعمال ہوتا نظر نہیں آیا۔ لیکن قدامت پسند تنظیمیں، جیسے مجلس الاعلیٰ وغیرہ، اس سلسلے میں آئین میں خاص زبان اور ذاتی زندگی کے قوانین میں فقہ کو نمایاںکرنا چاہتی تھیں۔ یہ لوگ نہ تو حوزہ علمیہ کی نمائندگی کرتے تھے نہ ہی فقہی معاملات میں مرجع  تھے۔ کئی پہلوؤں سے آیت اللہ سیستانی کا مذہبی کارڈ کھیلنے سے اجتناب کرنا چارلس ٹیلرکی رائے سے قریب ہے کہ جدید دور کے مسائل پر اسلام کی رائے ہر فرد کے نزدیک الگ ہے، اور جدت کے ساتھ یہ انفرادیت بڑھتی ہے۔ آیت اللہ سیستانی کیلئے ممکن نہ تھا کہ وہ آئین کے مذہبی پہلوؤں پر ایسی رائے دیں جو سب شیعہ اہلِ نظر کی نمائندگی کا حق ادا کر سکے، نہ ہی ان پر ایسا کرنے کی ذمہ داری تھی کیوں کہ وہحوزہ علمیہ کے سربراہتھے۔ تاہم ان کا عکس العمل مذہب سے بالکل لاتعلق اور مکمل سیکولرریاست کے حق میں بھی نہیں تھا۔ ایسا کرنا ان کی اسلام کو معاشرے کی اخلاقی بنیاد کے طور پر باقی رکھنے کی ذمہ داری کے خلاف جاتا۔ اس آئینی بحث میں آیت اللہ سیستانی کا مطمع نظر اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ اکثریت کی قومی شناخت جمہوری اصولوں سے ہم آہنگ اور محفوظ رہے۔

آئین میں اسلامی دفعاتکے معاملے نے امریکی اور دوسرے مغربی صحافیوں اور پالیسی سازوں میں بہت ابہام پیدا کیا۔ شیعہ مراجع اور ان کے ”شرعی قوانین پر مبنی آئین“ کو لاگو کرنے کے عزائم کے بارے میں قیاس آرائیاں 2003ءسے ہی شروع ہو چکی تھیں۔ جنوری 2005ء کے انتخابات کے بعد اس سوال پر کہ اسلام کے بارے میں نظریہ پردازی کی شکل کیا ہو گی،بعض اوقات قرائن کی طرف اشارہ کئے بغیر بھی بحث جاری رہی۔ [63]کچھ محققین نے کہا کہ ”آیت اللہ سیستانی اور دوسرے مراجع مذہبیت کو عراقی آئین کا حصہ بنانے پر سارا زور صرف کر دیں گے۔“ یہ سمجھا جا رہا تھا کہ ”وہ اگر ہر بات میں مداخلت نہیں کر رہے تو وہ مناسب موقع کی تلاش میں ہیں۔“ [64] تاہم یہ مباحث مستقل آئین کی تدوین سے پہلے ہی شروع ہو چکی تھیں۔

سب سے زیادہ تحفظات آئین کی دوسری دفعہ کے بارے میں تھے، جو یہ ہے:

اول: اسلام ریاست کا سرکاری مذہب ہے اور قانون کا بنیادی ماٴخذ ہے۔

(ا) کوئی قانون جواسلام کے مسلم اصولوں کے خلاف ہو، نہیں بن سکتا۔

(ب)جمہوریت کے اصولوں کے خلاف کوئی قانون نہیں بن سکتا۔

(ج) کوئی ایسا قانون جو اس آئین میں بیان کئے گئے بنیادی حقوق اور آزادیوں کے منافی ہو، نہیں بنایا جا سکتا۔

دوم: یہ آئین عراقی عوام کی اکثریت کے اسلامی تشخص کی ضمانت دیتا ہے اور سب شہریوں کے مذہبی حقوق کے تحفظ اور عقیدے و عمل کی آزادی یقینی بناتا ہے۔۔۔۔ [65]

یہ زبان نہ صرف مبہم تھی، بلکہ بعض مبصرین کیلئے یہ تضادات پر مبنی تھی کیوں کہ یہ روز مرہ کی حکمرانی کے لئے کوئی رہنما اصول فراہم نہیں کرتی تھی نہ ہی عدالتوں کو مقدمات کے فیصلے میں کوئی مدد دیتی تھی۔ بہر حال اس کا مقصد ایسی کوئی واضح رہنمائی فراہم کرنا تھا ہی نہیں۔ باقی عرب ممالک کے دساتیر اور عراق کے سابقہ آئین کی مشابہ دفعات کی طرح ان دفعات نے اسلام کے ریاستی مذہب ہونے کا رسمی اعلان کیا، جو مذہب اور ثقافت کے احترام کا اظہار تھا۔ دوسرے عرب ممالک میں بھی ان باتوں پر آئینی مباحث ہوئی تھیں کہ آیا اسلام قوانین کا ایک ماٴخذ ہے یا اسلام ہی قوانین کا واحد ماٴخذ ہے؟ مثال کے طور پر مصر میں 1972ءمیں آئین کی دوسری شق میں ”اسلامی فقہ کے اصول قانون سازی کا ایک ذریعہ ہیں“ کی جگہ ترمیم کر کے یہ لکھا گیا کہ”اسلامی فقہ کے اصول قانون سازی کا اہم ترین ذریعہ ہیں۔“ جناب ناتھن براؤن، مشرق وسطیٰ کے دساتیر کے ماہر، نے احتمال ظاہر کیا تھا کہ یہ ترمیم حکومت کی طرف سے مذہبی کارڈ کو استعمال کرنے کیلئے کی گئی تھی۔ اگرچہ یہ ترمیم اس وقت کی گئی جب مصر کا سپریم کورٹ (محكمۃ الدستوريۃ العليا)اپنی آزاد حیثیت برقرار کر چکا تھا اور شریعت کی اپنی تشریح نافذ کرنے کے قابل ہو چکا تھا۔ البتہ براؤن کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے اس ترمیم کو مصر کے آئین کی حدود واضح کرنے کیلئے استعمال نہیں کیا۔ اس کے بعد آنے والے فیصلوں سے پتا چلا کہ فقہ کو ایک مستقل قانون کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ [66]

اگر یہ مثال اور علاقے کی کے دوسرے دساتیر کی ایسی مثالیں کوئی اشارہ دیتی ہیں تو یہ ہے کہ عراقی آئین کی پہلی اور دوسری دفعات میں استعمال ہونے والی زبان اپنی اصل میں (اقلیتوں کیلئے)کوئی خوفناک چیز نہیں ہے۔ [67] اسے سمجھنے کیلئے ہمیں عدالتوں کے مجموعی کردار اور علاقے میں مذہب کی بنیاد پر سیاست کرنے والوں کو سمجھنا ہو گا، جو یہاں ”شیعہ تنظیمیں“ ہیں جیسے مجلس اعلیٰ کے کارکنان جنہوں نے آئین کا مسودہ تیار کرنے میں حصہ لیا۔ آئین کے کچھ نقاد چاہتے تھے کہ اس میں کوئی ابہام اور تضاد نہیں ہونا چاہئیے اور کچھصنفی تاثر والےجملوں، جیسے ”ہم نے آدمؑ کے بیٹوں کو فضیلت دی“ پر بھی اعتراض ہواکہ اسمیںبیٹوں کے ساتھ بیٹیاں کیوں نہیں ہیں۔محقق شاک ہانیش نے لکھا کہ آئین کی وہ دفعات جن میں انسانی حقوق کے احترام جیسے اصولوں کا ذکر ہے نا قابل عمل ہوں گی اگر انہیں فقہ کے تابع رہنے والی شق کا پابند بنایا جائے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ مسلمانوں کی سب مذہبی تبلیغ، حقوق اور مساوات کے جدید تصورات کے برعکس ہے۔ ان کے تجزئیے کے مطابق یہ دستاویز قدیم فقہ کی تائید کرنے کی وجہ سے”قدامت پسندانہ اور حتیٰ رد عمل کی نفسیات کا عکس“ تھی۔ہانیش صاحب کے خیال میں تاریخ میں اسلامی حکومتوں کے طرز عمل کی روشنی میںیہ ابہام ”حریت اور جمہوریت کے تصور کی جدید تشریح کی مخالفت“ کا راستہ ہموار کرتا ہے۔ حنش صاحب کا تجزیہ آئین کیسطر بہ سطر نقد پر مشتمل تھا تاکہ یہ ثابت کیا جائے کہ آئینی دفعات مبہم اور متضاد ہیں۔ انہوں نے یہ بھی ثابت کرنا چاہا کہ انسانی حقوق اور معاشرے میں خواتین کے کردار کے معاملے میں آئین کلی طور پر عقب ماندگی کی طرف ایک قدم تھا۔ ان کے مطابقاس کا سبب وہ رکاوٹیں اور پابندیاں تھیں جو اسلام کے نام پر قوانین کی تشریح پر لگادی گئی تھیں۔ لیکن ہانیش صاحب اور کچھ دوسرے دانشوروں کا تجزیہ مذہبی لوگوںکی شمولیت کے اہداف کے بارے میں قیاس آرائیوںاور طاقت حاصل کرنے کے بعد ان کے رویّے میں تبدیلی آ جانے کی پیش بینی جیسے اوہامپر کھڑا ہے۔ [68]

دستاویز کو مبہم کے بجائے لچکدار کہنا زیادہ مفید ہے، جیسا کہ محقق حیدر حمودی صاحب نے کہا ہے۔ ان کے مطابق متن کی زبان جان بوجھ کر انتخاب کی گئی تھی تاکہ آئین میں ارتقاء اور وقت کے مطابق بہتری آنے کی گنجائش رکھی جا سکے۔ آئین کو لچکدار ہونا چاہئیے تاکہ وہ سیاسی رجحانات سے بالاتر ہو اور جوںجوں ریاست کے قدم جمتے جائیں، اس کی مقبولیت میں اضافہ ہو۔ [69] حیدر حمودی صاحب کے مطابق آئین کی کچھ تشریحات میں غلطی وہاں پر ہے جہاں”آئینی اور دستوری تبدیلی کا جامد اور رسمی تصور“ اپنایا گیا، جس کے مطابق آئین میں تبدیلی صرف تحریری ترمیم کے ذریعے آتی ہے۔ حمودی صاحب نے امریکی آئین کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ قانون دانوں نے آئین کی تشریح کے مسلسل ارتقاء کا تصور دیا ہے: سماجی اور سیاسی تبدیلی ہو گی، اور نئے اور پرانے سیاسی نظاموں میں اس تبدیلی کے ساتھ چلنے کیلئےآئین کی زبان لچک د ار ہونی چاہئیے۔اگر حمودی صاحب کی نظر سے دیکھا جائے تو یہ آئین سب سیاسی رجحانات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو مل کر چلنے کی اجازت دیتا ہے لیکن اسے سیاسی ثقافت اور ”عوامی مقبولیت“ کا دھیان رکھنا ہے جو آیت اللہ سیستانی نے کرشماتی طور پر عوام کو ووٹ دینے پر آمادہ کر کے تخلیق کی تھی۔ مثال کے طور پر برقعے پر پابندی کی قرارداد نہایت غیر مقبول ہو گی۔ چنانچہ حمودی صاحب کہتے ہیں کہ یہ زبان مکالمے کی ایسی فضا فراہم کرتی ہے جو مباحث کو عراق کی مقبول آوازوں سے ہم آہنگکر سکے۔ وہ کہتے ہیں کہ سوچنا چاہئیے کہ اگر مسودہ لچکدار نہ ہوتا تو ایسی صورت میں کیا ہوتا؟ اول تو اس میں ہر انتخابات کے بعدترامیم ہوتی رہتیں، دوسرے ریاست میں مذہب کے مقام کےتعین کے بارے میں مستقل تعطل جاری رہتا۔

حمودی صاحب کی آئینی فہم ہمیں آیت اللہ سیستانی کی طرف سے آئین کی تیاری اور اس میںمذہب کے کردار پر خاموش رہنے کی حکمت سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ آیت اللہ سیستانی نے دفعات تجویز نہ کر کے آئین کیجزئیات میں مداخلت کرنے سے پرہیز کیا لیکن اس کلی قاعدے کو واضح انداز میں بیان کیا کہ میثاق میں اسلامی اصولوں کو شامل کیا جائے۔حمودی صاحب نے ہی 2009ء میں مراجع سے ملاقاتوں کے بعد ان کے بیانیے کو ”نجف منترا“ کا نام دیا جس سے مراداقتدار کی سیاست میں حصہ لئے بنا شہریوں کی رہنمائی کا عزم تھا۔ چنانچہ یہ قابلِ فہم تھا کہ آیت اللہ سیستانی سیاسی عمل کی کلیات کے بارے میں تو متعدد فتاویٰ جاری کر کے اپنے سیاسی موقف کی وضاحت کریں لیکن ”سیاسی عمل کی جزئیات“ میں مداخلت نہ کریں۔

ریاست میں مذہب کے کردار کے بارے میں آیت اللہ سیستانی کے فتاویٰ کو اکٹھا کر کے ہم اس موضوع پر ان کے موقف کو سمجھ سکتے ہیں، جو اس عمل کے آغاز سے پہلے بھی دئیے جا چکے تھے۔ 2003ء میں انہوں نے ایک ایسے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ حکومت جو ”اکثریت کی مرضی“ سے منتخب ہو گی اسے اکثریت کے مذہب کا احترام کرنا ہی ہو گا اور وہ ”عوام کی لگائی گئی قیود کے خلاف نہیں کرے گی۔“ اگلا سوال عراق کو درپیش سب سے بڑے خطرے کے بارے میں تھا، آیت اللہ سیستانی نے کہا ”اس کی ثقافتی شناخت، جو اسلام کے ارکان میں سے ہے، کے مٹ جانے کا خطرہ۔“ [70][النصوص الصادرہ، صفحہ 33] دوسرے سوالات میں آیت اللہ سیستانی سے پوچھا گیا تھا کہ کیا حکومت ایرانی طرز کی ہو گی اور کیا یہ ”اسلامی خلافت“ ہو گی؟ انہوں نے کہا کہ ایرانی طرز کی حکومتِ فقیہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، لیکن انہوں نے واضح کیا کہ حکومت کو ”اسلام کا احترام“ کرنا ہو گا کیوں کہ یہ اکثریت کا مذہب ہے۔ [71](اماتشکیل حکومۃ دینیۃ علی اساس فکرۃ ولایۃ الفقیہ المطلقۃ فلیس وارداً[النصوص الصادرہ، صفحہ 47]) اسی فتوے میں انہوں نے کہا کہ حکومت کو اسلامی تعلیمات کے منافی کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہئیے۔ لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ کوئی نظامِ حکومت مسلط نہیں کر سکتے اور اس کا فیصلہ عوامی آراء کی روشنی میں ہو گا جو عام انتخابات کے ذریعے ظاہر ہوں گی۔ ان کے نزدیک ان کی ذمہ داری ”ان (عوامی آراء کے اظہار) کیلئے راستہ ہموار کرنا“ ہے۔ [72][النصوص الصادرہ، صفحہ 71، 72] آیت اللہ سیستانی مذہب کے کردار کو معاشرے کی اخلاقی بنیاد کے طور پر دیکھ رہے تھے لیکن یہ بتانے سے گریز کر رہے تھے کہ اس میں کیا کچھ شامل ہے۔

2003ء میں مجوزہ مجلس قانون ساز کے بارے میں ان کے فتوے کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ قابض قوتوں کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ انتخابات کرائے بغیر اراکین کو تعینات کرے۔لیکن اس میں اس تشویش کا اظہار بھی شامل تھا کہ یہ دستور عراق کی ”قومی شناخت“ کا مظہر نہیں ہو گا، جسے آیتاللہ سیستانی ”مذہب کا اہم رکناور مقدس سماجی قدر“ قرار دیتے تھے۔ [73][النصوص الصادرہ، صفحہ 35، 36] ان سے سوال کیا گیا کہ وہ اسلامی فقہ کے کن نکات کو آئین کے حصے کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آئین میں ”دینی عقائد، اخلاقی اصول اور سماجی اقدار بنیادی ستون ہونے چاہئیں۔“ [74][النصوص الصادرہ، صفحہ 55] مستقبل کے آئین میں مذہب کے کردار کے بارے میں ایک بے لاگ سوال نے آیت اللہ سیستانی سے یہ جواب پایا کہ تفصیلات طے کرنا منتخب اسمبلی کے اراکین کا کام ہے۔ [75][النصوص الصادرہ، صفحہ 78] وہ اکثر اس بات کا اضافہ کرتے تھے کہ ”اسلام عراقی عوام کی اکثریت کا مذہب ہے۔ اگر آئین کی تدوین عراقیوں کے منتخب کردہ افراد کے ہاتھوں ہو گی تو یہ اسلامی اقدار اور اعتدال پسندی کا مظہر ہو گا۔“ [76][النصوص الصادرہ، صفحہ 79، 80]

اگرچہ وہ مذہب کے کردار کے بارے میں رائے دیتے تھے لیکن اس کے ساتھ اس ضمانت کا اضافہ کر کے تعادل پیدا کرتے کہ آزاد اور شفاف انتخابات اس مسئلے پر عراقی رائے عامہ کو آشکار کریں گے۔ آیت اللہ سیستانی نے اس بات کا اضافہ بھی کیا کہ آئین کو مفاہمت، تکثریت، دوسروں کی رائے کا احترام اور مساوات جیسے اصولوں کا بھی خیال رکھنا چاہئیے۔ آیت اللہ سیستانی نے ریاست کی نوع کے بارے میں اپنے تصور پر 12 فروری 2004ء میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے روشنی ڈالی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ نظامِ حکومت کا فیصلہ جمہور کی رائے پر چھوڑنا چاہئیے۔ انہوں نے اضافہ کیا کہ جو لوگ اس عمل میں ذمہ داریاں اٹھائیں انہیں اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانا چاہئیے اور تکثریت، بیلٹ باکس کے احترام،اور پر امن منتقلیٴ اقتدار کے ساتھ ساتھانصاف اور مساوات کے اصولوں پر متفق ہونا چاہئیے۔ [77][النصوص الصادرہ، صفحہ55، 56]

انہوں نے اپنے مقلدین کو یقین دلایا کہ عراق کی ”اصلیسیاسی اور سماجی قوتیں“ ملا راج کے نفاذ کے حق میں نہیں ہیں۔ اس کے بجائے وہ ایسی حکومت کے قیام کے داعی تھے جو عراقیوں کی اکثریت کے ”مذہبی عقائد کا احترام“ کرتی ہو۔ [78][النصوص الصادرہ، صفحہ 96 تا 99] یہ ایک ایسی سیکولر حکومت کی حمایت تھی جو اسلام سے رہنمائی لیتی ہو اور معاشرے میں اس کے ثقافتی کردار کا تحفظ کرتی ہو۔

اپنے شروع کے بیانات میں جس چیز کی طرف آیت اللہ سیستانی کی توجہ نہیں تھی وہ یہ تھی کہ عراقی گورننگ کونسل اور عبوری انتظامی دستورآگے چل کر آئین نویسی کے عمل کی سیاسی حرکیات کا تعین کریں گے۔ انہوں نے ایسے عمل کا تصور پیش کیا تھا جو آبادی کی زیادہ بہتر نمائندگی کر سکے۔

آیت اللہ سیستانی کے فتاویٰ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنی شرائط پر جمہوریت کی بنیاد رکھنے کیلئے پر عزم تھے۔ ان کے فتاویٰ سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ شیعہ اکثریت کو باقی آبادی کی قیمت پر مضبوط نہیں کرنا چاہتے تھے۔ وہ ایک مذہبی ریاست نہیں بنانا چاہتے تھے بلکہ وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتے تھے کہ ریاست میں تحول کے دوران عراقی ”ثقافتی شناخت“نہ ”کھو“ بیٹھیں۔ ہم ماضی میں جا کر تاریخ میں آیت اللہ سیستانی کے کردار کا نمونہ 1906ء میں ایران میں آنے والے جمہوری انقلاب کے دوران اس وقت کے شیعہمراجع کے جمہوریت کی حمایت کرنے میں دیکھ سکتے ہیں۔ جیسا کہ محقق جناب بابک رحیمی نے کہا ہے، آیت اللہ سیستانی کو اس روایت کا امین سمجھنا چاہئیے جس میں مرجع عوام کی رہنمائی کر کے اسلامی اقدار کی ترویج کے ذریعے حکومت اور عوام کے درمیان ایک سماجی معاہدہ قائم کرتا ہے۔ [79] تاہم اس سے زیادہ بھی ہو رہا تھا۔ آیت اللہ سیستانی کا حقوق اور آزادیوں کے احترام کا تصور جس دور میں تشکیل پایا تھا وہ ان کے پیشروؤں کے زمانے سے مختلف تھا۔ یہ صحیح ہے کہ ان کے اقدامات ماضی کے مراجع کے فتاویٰ کو مد نظر رکھ کر اٹھائے گئے تھے۔ لیکن ان کا خود ارادیت کا تصور جدید خیالات کی روشنی میں بنا تھا، جیسا کہ ان کا اقوام متحدہ کے فیصلوں کی پابندی کرنے اور اس (بین الاقوامی حسبیہ کے)ادارے اور اس کی دستاویزات کی طرف رجوع سے ظاہر ہوتا ہے۔ بہر حال یہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کی اکیسویں شق ہی تھی جس میں واضح انداز میں کہا گیا تھا کہ سب لوگوں کو اپنے ملک کی حکمرانی میں حصہ لینے اور اپنے نمائندوں کو آزادی سے منتخب کرنے کا حق حاصل ہے۔ [80] اقوام متحدہ کے التزام نے آیت اللہ سیستانی کی بہت مدد کی۔ آیت اللہ سیستانی بار بار اقوام متحدہ کا حوالہ دیتے۔ اور اقوام متحدہ نے جواب میں عراق کے سرنوشت ساز مراحل میں ان کو ہی واحد موثر آواز کے طور پر قبول کر لیا۔

آیت اللہ سیستانی کے نظریۂ جمہوریت میں سب سے اہم بات یہ تھی کہ وہ ثقافتی سندیت کے گرد قائم تھا۔ اس سے ظاہر ہوا کہ بہت سے اسلامی رہنماؤں کی سوچ جناب مارک جیرگنز میر کے قریب تھی جو مذہب کو قوم سازی اور ریاست سازی کے عمل کی سیاسی مقبولیت کیلئے مفید نظام الاعتقادسمجھتے ہیں۔ انہوں نےاسلام کو ایک جدید اور مقبول طریقۂ اظہار کے طور پر لیا ہے جو جدید قومی ریاستوں پر مشتمل سیاسی منظر نامے میں ایک مثبت کردار ادا کر سکتا ہے۔چنانچہ یہ قدیم مذہبی روایت اور سیکولر قوم سازی کا امتزاج تھا جو آیت اللہ سیستانی کی صورت میں سامنے آیا، جو مارک جیر گنز میر صاحب کے تجزئیے کے مطابق جدید قومی ریاستوں میں جمہوری اقدار اور انسانی حقوق کی تقویت کا سبب بن سکتا ہے۔ [81] جب آیت اللہ سیستانی اسلام کے احترام کی بات کرتے ہیںاور حکومت کو ”اسلامی اصولوں کی مخالفت نہ کرنے“کی نصیحت کرتے ہیں[82][النصوص الصادرہ، صفحہ 47] تو کچھ محققین اسکو تشویش کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ لیکن آئینی عمل میں لچک کے مفہوم کی طرف توجہ دینے سے آیت اللہ سیستانی کی اسلام اور جمہوری سوچ میں گہرا تعلق پیدا کرنے کی خواہش کو سمجھا جا سکتا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں ریاست سازی کا عمل جنگ عظیم اول کے بعد عالمی طاقتوں کی سرپرستی میں شروع ہوا جس میں جنگ عظیم دوم کے دوران مزید مداخلت ہوئی۔ قیادت، آئین کی تدوین اور پارلیمانی عمل میں برطانیہ اور فرانس اس سے پہلے کردار ادا کر چکے تھے۔ آیت اللہ سیستانی کی کوشش یہ تھی کہ نو آبادیاتیدور کے اسلوب کو دہرایا نہ جائے، چنانچہ انہوں نے اپنے نظریۂ جمہوریت کو عراق کی مقامی بنیادوں پر تعمیر کیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے