بسم الله الرحمن الرحيم

السلام علیکم مومنین و مومنات۔۔۔ تحفہ یا علیؑ مدد

 

اپنی تحریر کا آغاز زیارتِ مختارؒ کے ان جملوں سے کر رہا ہوں جس کو شہید اول نے اپنی کتاب المزار کی فصل ثالث کے صفحہ 298 پر درج کیا ہے۔۔۔

 

السَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّهَا الْعَبْدُ الصَّالِحُ السَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّهَا الْوَلِیُّ النَّاصِحُ السَّلَامُ عَلَیْکَ یَا أَبَا إِسْحَاقَ الْمُخْتَارَ السَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّهَا الْآخِذُ بِالثَّارِ الْمُحَارِبُ لِلْکَفَرَةِ الْفُجَّارِ السَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّهَا الْمُخْلِصُ لِلَّهِ فِی طَاعَتِهِ وَ لِزَیْنِ الْعَابِدِینَ عَلَیْهِ السَّلَامُ فِی مَحَبَّتِهِ السَّلَامُ عَلَیْکَ یَا مَنْ رَضِیَ عَنْهُ النَّبِیُّ الْمُخْتَارُ وَ قَسِیمُ الْجَنَّةِ وَ النَّارِ وَ کَاشِفُ الْکَرْبِ وَ الْغُمَّةِ قَائِماً مَقَاماً لَمْ یَصِلْ إِلَیْهِ أَحَدٌ مِنَ الْأُمَّةِ السَّلَامُ عَلَیْکَ یَا مَنْ بَذَلَ نَفْسَهُ فِی رِضَاءِ الْأَئِمَّةِ فِی نُصْرَةِ الْعِتْرَةِ الطَّاهِرِینَ وَ الْأَخْذِ بِثَارِهِمْ مِنَ الْعِصَابَةِ الْمَلْعُونَةِ الْفَاجِرَةِ فَجَزَاکَ اللَّهُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَ آلِهِ وَ مِنْ أَهْلِ بَیْتِهِ عَلَیْهِمُ السَّلَام

 

دفاعِ مختار (رض) پر میری یہ تحریر آپ سب قارئین کو تھوڑی طویل تمہید کی زحمت دے گی تاکہ کچھ دیگر نکات سے مومنین و مومنات کو آگاہی دلا کر پھر اصلِ مدعا پر قلم درازی کر سکوں.

 

دیکھیے مومنین.. جو شخص بھی دفاعِ اہل بیت علیہم السلام میں کام کرے وہ میرے سر کا تاج ہے یہی وجہ ہے کہ میں نے کبھی بھی حسن اللہیاری کے خلاف کچھ نہیں لکھا بلکہ یہاں موجود کافی مومنین و مومنات اس بات کے گواہ بھی ہونگے کہ جب بھی کسی نے مجھ سے پرائیویٹ میسج پر اللہیاری کے متعلق پوچھا ہے تو میں نے ہمیشہ دفاع مکتبِ تشیع پر ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے مومنین کو یہی جواب دیا ہے کہ حسن اللہیاری کے بنیادی عقائد بالکل درست ہیں اور دفاع مکتب پر ان کی خدمات قابلِ تحسین ہیں.

 

لیکن جہاں تک ان سوالات کا تعلق ہے جن میں مومنین نے مجھ سے اجتہاد و تقلید پر اللہیاری کے بارے میں دریافت کیا تو میں نے ہمیشہ یہی کہا کہ اس عنوان پر اللہیاری صاحب کی معلومات انتہائی ناقص ہیں اور انشاءاللہ جلد ہی ان کے اجتہاد مخالف نظریات کی اصلاح کی کوشش کریں گے.

 

تو 14 اکتوبر 2022 بروز جمعہ 17 ربیع الاول کو مولانا شیخ تقی ہاشمی النجفی صاحب نے جنابِ اللہیاری سے لائیو مباحثہ منعقد کیا تاکہ اجتہاد پر ان کے تحفظات کا ازالہ ہو سکے اور انتہائی علمی انداز میں اللہیاری سمیت دیگر مومنین کے اذہان عالیہ کو اس شش و پنج سے آزاد کرایا جا سکے.

 

پروگرام کا دورانیہ لگ بھگ 5 گھنٹے طویل رہا اور لاتعداد مومنین رات گئے تک اس مباحثے کو دیکھتے رہے.

 

مگر اللہیاری صاحب کی روشِ استدلال انتہائی درجہ جارحانہ اور غیر علمی دیکھنے میں آئی جبکہ مولانا تقی ہاشمی صاحب نے مسلسل توہین آمیز باتوں کو بھی انتہائی اخلاق و ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے پروگرام کو جاری رکھا اور بالکل بھی اللہیاری جیسی روش اختیار نہ کی…

 

واللہ اگر کوئی میرے جیسا شخص اس وقت اللہیاری صاحب کے مقابلے میں ہوتا تو یقیناً لائیو شو کا ماحول بالکل پاکستانی ٹاک شو جیسا ہو جاتا.. کیونکہ اس قدر بدتمیزی کو برداشت کرنا مجھ جیسے ادنیٰ مبلغ کے بس کی بات نہیں!

 

خلاصہ کروں تو اب تک مومنین و مومنات کے سوالات آ رہے ہیں کہ آپ لائیو مباحثہ پر اپنا تبصرہ ضرور دیں جو کہ عدل کے مطابق ہو..

 

تو مومنین کی اس درخواست پر اللہ کو حاضر ناظر جان کر اور وقت کے امام (عج) کو گواہ بنا کر پروگرام کے خلاصہ پر اپنا تبصرہ کچھ اس انداز سے مختصراً پیش کر رہا ہوں..

 

(نوٹ: میں مجبور ہوں کہ اب اللہیاری کو اسی کے انداز میں مخاطب کروں)

 

پروگرام پر ابوعبداللہ کا تبصرہ..

 

مولانا تقی ہاشمی کہتے رہے کہ ماہر و اسپیشلسٹ ڈاکٹر سے علاج دریافت کیا جائے اور آپریشن سند یافتہ سرجن سے کروایا جائے جبکہ اللہیاری صاحب بضد تھے کہ کسی بھی اتائی، نائی قصائی سے بھی علاج کروایا جا سکتا ہے یعنی سرجری کی کتاب پڑھنی آئے یا نہ آئے مکلف اپنی ذاتی ٹامک ٹوئی مارے اور خود ہی علاج نکال لے..

 

مولانا تقی ہاشمی کہتے رہے کہ میڈیکل کالج سے مکمل علم حاصل کر کے انسان علاج کرے جبکہ اللہیاری صاحب بضد رہے کہ گھر بیٹھے ڈاکٹر بننے والی کتاب پڑھ کر خود اپنا علاج دریافت کریں اور سرجری بھی خود کتاب پڑھ کر سیکھ لیں کیونکہ عوام گدھے نہیں ہیں اور اپنا علاج و سرجری خود کر سکتے ہیں..

 

بقول اللہیاری صاحب.. اسی نوے سال مسلسل علوم اہل بیت علیہم السلام میں غواصی کرنے والے فقہاء تشیع کی بات نہ مانی جائے لیکن کسی بھی اتائی کی بات حجت سمجھ کر مان لی جائے..

 

واہ واہ کیا اپروچ ہے اللہیاری صاحب کی ، سبحان اللہ ، چشم بد دور

 

واقعاُ حیرت ہے کہ کون اشخاص جنابِ اللہیاری کی ان بکواسیات کی تائید کریں گے.

 

میرے بھائیوں المختصر یہ کہ جس دن لوگ قصائی سے اپنے دماغ کا آپریشن کروانے لگیں اور رکشہ ڈرائیور کو بطور پائلٹ مسافروں سے بھرا جہاز اڑانے دیں، اسی دن اللہیاری کی تعلیمات پر ہر ایرے غیرے نتھو خیرے سے مسائل دین بھی حل کروانے لگیں گے..

 

یہ ہے میرا تبصرہ جو کسی بھی عقل و شعور رکھنے والے مومن کے لیے کافی ہوگا..

 

اب چلتے ہیں امیر مختار پر اللہیاری کے اٹھائے فضول ترین اور انتہائی درجے بچکانہ سوال کی جانب جہاں موصوف اپنے آفیشل یوٹیوب چینل کی کمیونٹی میں ایک پوسٹ کچھ اس طرح لگاتے ہیں :

 

” جولوگ کہتے ہیں کے مختار ثقفی شیعہ عقیدے کے حامل تھے ،ان سے گزارش ہے کہ براہ مہربانی مذکور کی شیعہ ہونے کی دلیل ( جو مختار کو شیعہ ثابت کرے نہ یہ کہ انہوں نے اچھے اچھے کام کیے ہیں) کمنٹ سیکشن میں تحریر فرمائیں”

 

جی مومنین و مومنات ملاحظہ کیا کہ موصوف نے کس قدر بچکانہ سوال داغ کر حضرت امیر مختار (رض) پر سقیفائی روش کو اپنایا ہے..

 

میں نے جس زیارت نامہ کو اپنے سرنامہ میں لکھا ہے، اللہیاری کے بچکانہ سوال کے جواب میں وہی کافی ہے جہاں کوئی عام عالم نہیں بلکہ شہید اول جیسے عظیم الشان عالم نے اپنی کتاب المزار میں حضرت مختار کے ساتھ رضی اللہ تعالیٰ عنہ لکھ کر زیارت نامے کو نقل کر کے اللہیاری سمیت تمام ناقص علم افراد کو جواب دے دیا ہے.

 

ممكن ہے کہ اللہیاری و جواد نقوی جیسے افراد اور ان کے چیلوں کو اس پر اعتراض ہو.. تو کیوں نا کچھ سوالات کر کے تحریر کا باضابطہ آغاز کیا جائے…

 

اللہیاری سے معصومانہ سوال :

 

اللہیاری صاحب مجھے بتانا پسند فرمائیں گے کہ جو اصول آپ نے جنابِ مختار کے لیے وضع کیا ہے، کیا وہ فقط مختار ثقفی (رض) تک ہی محدود ہے یا اس کا اطلاق دیگر اصحابِ رسول و آئمہ علیہم السلام پر بھی ہوگا؟؟

 

اگر اسی جہالت کو اصول بنا لیا جائے تو پھر بڑے بڑے اصحابِ معصومین کو بآسانی شیعیت سے مکھی کی طرح باہر نکال دیا جائے گا کہ ان کے کارنامے اپنی جگہ ہیں اور انہوں نے اپنی جانیں بھی امام پر قربان کر دیں جبکہ تاریخی منابع سے اللہیاری یہ والے الفاظ کہ جن میں انہوں اپنے تمام عقائدِ حقہ کسی جملوں میں بیان کیا ہو دکھا دیں…

 

مجھے تو حیرت ہے کہ اللہیاری جیسے افراد اتنی ناقص سوچ کے مالک ہو سکتے ہیں؟؟

 

یعنی اللہیاری صاحب تمام اصحاب رسول و آئمہ کی زبان سے ختمِ نبوت کا اقرار ثابت کریں ورنہ سب قادیانی ثابت ہو جائیں گے..

 

چلیں توحید کا زبانی اقرار ثابت کریں خواہ جہاد کیا ہو، نمازیں پڑھی ہوں یا دیگر نیک کام کئے ہوں.. ورنہ ک ا. فر کا حکم لگائیں کہ زبان سے اقرار توحید تو ثابت نہیں ہے..

 

ہاں جی اللہیاری… کرو گے ثابت؟؟

 

ان کا کیا کرو گے جو جہادِ کربلا میں آقا حسین علیہ السلام پر اپنی جانیں فدا کر چکے ہیں جن کے بارے میں فقط نام کی حد تک معلومات کتابوں میں میسر ہیں؟؟ کیا وہ سب بھی 72 شہداء میں ہو کر بھی اس وجہ سے شیعہ قبول نہیں کیے جا سکتے کہ ان کے عقائدِ حقہ کا کتابوں سے اقرار ثابت نہیں؟؟؟ کیا یہی پیمانہ ہے کسی کو شیعہ ثابت کرنے کا؟؟؟

 

واللہ حد درجے جہالت… قسم سے.. میں واقعا اللہیاری کے اس جاہلانہ اصول کو لے حیران ہوں..

 

قارئین کرام..

 

اوپر پیش کیے گئے میرے سوالات ہی اللہیاری کے شدید جاہلانہ سوال کے جواب کے طور پر کافی ہیں پر سوچ رہا ہوں کہ حضرت مختار(رض) پر اللہیاری کو مختصراً کلاس کے طور پر سبق پڑھا ہی دیا جائے تاکہ اتمام حجت ہو جائے..

 

تو شروع کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کیا مختار شیعہ تھا یا نہیں..

 

امیرالمومنین امام علی علیہ السلام اور حضرتِ مختار

 

سب سے پہلے پیش خدمت ہے امام علیؑ جیسے کُل علم و عقل ولی خدا کا مختار کو اپنے زانو مبارک پر بٹھا کر "ذہین” کا لقب دینا۔۔ جسے تیسری اور چوتھی صدی ہجری کے بزرگ شیعہ عالم عبد العزیز کشی نے اپنی مشہور زمانہ کتاب معرفۃ الناقلین عن الائمۃ الصادقین جو رجال کشی کے نام سے جانی جاتی ہے رقم کرتے ہیں جبکہ اسی حدیث کو علامہ مجلسی نے بحار میں ، عبدالله بن نورالله بحرانی نے جامع العلوم و المعارف و الاحوال من الایات و الاخبار و الاقوال میں بھی نقل کیا ہے۔

 

عن الأصبغ قَالَ: رَأَيْتُ الْمُخْتَارَ عَلَى فَخِذِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ وَهُوَ يَمْسَحُ رَأْسَهُ وَيَقُولُ: يَا كَيِّسُ يَا كَيِّسُ.

 

اصبغ ابن نباتہ نے کہا کہ میں نے مختار کو دیکھا کہ وہ اميرالمومنین امام على عليہ السلام کے زانو پر بیٹھا ہوا تھا اور مولا اپنا دستِ مبارک اس کے سر پر پھیر رہے تھے اور ساتھ ساتھ اس سے فرما رہے تھے کہ اے ذہین اے ذہین۔

 

حوالہ :

رجال الکشی، الجزء۱، الصفحة۱۲۷

بحار الأنوار، الجزء۴۵، الصفحة۳۴۴

جامع العلوم و المعارف و الاحوال من الایات و الاخبار، الجزء۱۷، الصفحة۶۴۹

 

جی مومنین آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس شخص کا کیا مقام ہوگا جسے مولائے کائنات جیسا امامِ معصوم اپنی گود میں بٹھا کر اور شفقت سے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے زیرک و ذہین ہونے کی ڈگری عطا کرے۔۔

 

جی اللہیاری صاحب۔۔ کیا کہتے ہیں اب مختار کے بارے میں ؟؟

 

چلیں آگے چلتے ہیں ۔۔

 

اللہیاری صاحب ملاحظہ فرمائیں کہ امیرالمومنین کن الفاظ کے ساتھ مختار کے قیام کی بشارت دے رہے ہیں :

 

سیقتل ولدی الحسین و سیخرج غلام من ثقيف و یقتل من الذین ظلموا۔

بہت جلد میرے بیٹے حسین کو قتل کیا جائے گا لیکن زیادہ دیر نہیں ہو گی کہ قبیلہ ثقیف سے ایک جوان قیام کرے گا اور ان ستمگروں سے بدلہ لے گا۔

 

حدیقۃ الشیعه، ص 405

 

چلیں جلدی سے اسی انداز کی ایک اور روایت علامہ مجلسی سے بھی وصول کری لیں ۔۔

 

علامہ مجلسی اپنی بحار کی جلد 45 میں امیرالمومنین امام حسین کی شہادت کی خبر دیتے ہوئے فرماتے ہیں ۔۔

 

قال أمير المؤمنين عليه السلام: وسيصيب الذين ظلموا رجزا في الدنيا بسيوف بعض من يسلط الله تعالى عليهم للانتقام بما كانوا يفسقون كما أصاب بني إسرائيل الرجز، قيل: ومن هو؟ قال: غلام من ثقيف، يقال له المختار بن أبي عبيد

 

ترجمہ :

اور اس دنیا میں ظلم کرنے والوں پر ایک مصیبت نازل ہوگی، بعض کی تلواروں سے جنہیں خدا تعالیٰ ان کی خطا کا بدلہ لینے کی طاقت دے گا، جیسا کہ بنی اسرائیل پر غضب نازل ہوا، عرض کیا گیا: اور وہ کون ہے؟ فرمایا: ثقیف کا ایک لڑکا جس کا نام مختار بن ابی عبید ہے۔

 

حوالہ : بحار الأنوار – العلامة المجلسي – ج ٤٥ – الصفحة ٣٤٠

 

اللہیاری صاحب ۔۔ ذرا غور کریں امیرالمومنین کے الفاظ پر ۔۔ مختار کو خدا طاقت دے کر ظالموں پر اپنا غضب نازل کرے گا ۔۔

 

چلیں جی اب مختار کی پرورش پر بھی کچھ بیان ہو جائے ۔۔

 

مکتبِ تشیع کے بلند قامت عالم محمد بن جعفر ابن نما جو کہ محقق حلی کے استاد اور خاندان ابن نما کے معروف ترین شیعہ علماء میں سے ایک ہیں، جنہوں نے ابن ادریس حلی، برہان الدین محمد قزوینی اور جعفر بن نما جیسے اساتذہ سے کسب فیض کیا اور سید بن طاووس، عبد الکریم بن احمد ابن طاووس، ابن علقمی وزیر، محقق حلی اور یوسف بن علی حلی جیسے عظیم الشان علماء اپنے شاگرد بنا کر تشیع کو دیے وہ اپنی کتاب ذوب النضار میں لکھتے ہیں :

 

فَنَشَأَ مِقْدَاماً شُجَاعاً لَا يَتَّقِي شَيْئاً وَتَعَاطَى مَعَالِيَ الْأُمُورِ وَكَانَ ذَا عَقْلٍ وَافِرٍ وَجَوَابٍ حَاضِرٍ وَخِلَالٍ مَأْثُورَةٍ وَنَفْسٍ بِالسَّخَاءِ مَوْفُورَةٍ وَفِطْرَةٍ تُدْرِكُ الْأَشْيَاءَ بِفَرَاسَتِهَا وَهِمَّةٍ تَعْلُو عَلَى الْفَرَاقِدِ بِنَفَاسَتِهَا وَحَدْسٍ مُصِيبٍ وَكَفٍّ فِي الْحُرُوبِ مُجِيبٍ وَمَارَسَ التَّجَارِبَ فَحَنَّكَتْهُ وَلَابَسَ الْخُطُوبَ فَهَذَّبَتْهُ.

 

ترجمہ :

مختار نے اس حال میں پرورش پائی کہ وہ بہت بہادر اور نڈر انسان تھے، وہ اپنی بلند ہمتی کے ساتھ ہمیشہ بلند ہمت کام انجام دیتے تھے، وہ عقلمند اور حاضر جواب تھے، سخاوت اور صداقت میں بے مثال تھے، اپنی ذہانت اور دوراندیشی سے کاموں کو سمجھ لیا کرتے تھے، وہ آئندہ واقع ہونے والے کسی بھی کام کے اندازہ لگانے اور جنگ کرنے میں بہت طاقتور تھے۔

 

ذوب النضار في شرح الثار،‌ ص61

 

یہی متن علامہ مجلسی نے بھی اپنی بحار کی جلد 45 کے صفحہ 350 پر لکھا ہے۔

 

اب ایک اور روایت ملاحظہ فرمائیں اور دیکھ کر بتائیں کہ کی مختار شیعہ تھا یا نہیں ۔۔ ابن نما حلى نے ذوب النضار في شرح الثار میں ، علامہ مجلسی نے بحارالانوار میں اور شیخ بحرانی نے العوالم میں لکھا ۔۔

 

ثم جعل يتكلم بفضل آل محمد وينشر مناقب علي والحسن والحسين عليهم السلام ويسير ذلك ويقول: إنهم أحق بالأمر من كل أحد بعد رسول الله، ويتوجع لهم مما نزل بهم

 

ترجمہ :

پھر اس (مختار) نے آل محمد (ع) کی فضیلت کے بارے میں کلام کیا اور لوگوں کے درمیان امام علی، امام حسن اور امام حسین عليہم السلام کے فضائل اور مناقب پھیلایا کرتا تھا اور کہا کرتا تھا کہ: رسول خدا کے بعد انکے اہل بیت ہی مقام خلافت کے لیے سب سے زیادہ مناسب ہیں۔

 

حوالہ جات:

بحار الأنوار، ج 45، الصفحة 352

ذوب النضار في شرح الثار،‌ الصفحة 61

العوالم ، الصفحة 671

 

اللہیاری صاحب ۔۔ مختار کے بارے میں شیعہ کتب تو چھوڑیں اہل سنت نے بھی ایسے ایسے اقوال نقل کیے ہیں جو آپ ہمیں کسی غیر شیعہ کی زبان سے پوری تاریخ اسلام میں کہیں دکھا دیں ۔۔ جیسے ابن خلدون نے لکھا اور علامہ مجلسی نے بھی بحار کی زینت قرار دیا ہے ۔۔

 

وقال المختار: لو قتلت ثلاثة أرباع قريش لما وفوا بأنملة من أنامل الحسين عليه السلام

 

مختار کہا کرتا تھا کہ خدا کی قسم اگر قریش کا دو تہائی حصہ بھی قتل کیا جائے تو امام حسین (ع) کی ایک انگلی کے برابر بھی نہیں ہو گا۔

 

حوالہ جات:

بحار الأنوار، ج 45 ، الصفحة 379

تاریخ ابن خلدون، ج‌ 2 ص 44

الفخری،ص: 122

 

اب امام سجاد علیہ السلام اور امام محمد باقر علیہ السلام کی زبانی حضرت مختار ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔

 

عَنْ عُمَرَ بْنِ عَلِيِّ بْنِ اَلْحُسَيْنِ : أَنَّ عَلِيَّ بْنَ اَلْحُسَيْنِ عَلَيْهِمَا السَّلاَمُ لَمَّا أُتِيَ بِرَأْسِ عُبَيْدِ اَللَّهِ بْنِ زِيَادٍ وَ رَأْسِ عُمَرَ بْنِ سَعْدٍ خَرَّ سَاجِداً وَ قَالَ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ اَلَّذِي أَدْرَكَ لِي ثَأْرِي مِنْ أَعْدَائِي وَ جَزَى اَلْمُخْتَارَ خَيْراً

 

امام سجاد کے بیٹے عمر بن علی بن حسین فرماتے ہیں: جب مختار نے ابن زیاد اور عمر سعد کا سر امام کے پاس بھیجا تو آپ سجدہ میں گر گئے اور سجدہ شکر میں خدا کی اس طرح حمد کی:

الحمد للہ الذی ادرک لی ثأری من اعدائی و جزی اللہ المختار خیراً

تمام تعریف ہے اس خدا کی جس نے ہمارے دشمنوں سے ہمارا انتقام لیا خدا مختار کو جزائے خیر عطا کرے۔

 

حوالہ جات :

بحار الأنوار، الجزء۴۵ ، الصفحة۳۴۴

اختیار معرفة الرجال (رجال الکشی)، الجزء۱، الصفحة۱۲۷

الوافي ، الجزء۲۵، الصفحة۶۹۳

عوالم العلوم، الجزء۱۷، الصفحة۶۴۹

 

اب دوسری حدیث پیش خدمت ہے ۔۔

 

امام محمد باقر علیہ السلام سے جب مختار کا بیٹا ملنے آیا تو امام نے فرمایا:

 

۔۔۔۔ فقال (عليه السلام) : سبحان الله، أخبرني أبي والله، أن مهر أمي كان مما بعث به المختار، أولم يبن دورنا، وقتل قاتلنا، وطلب بدمائنا ؟ فرحمه الله، وأخبرني والله أبي، أنه كان ليمر عند فاطمة بنت علي يمهدها الفراش، ويثني لها الوسائد، ومنها أصاب الحديث، رحم الله أباك، ما ترك لنا حقا عند أحد إلا طلبه، قتل قتلتنا وطلب بدمائنا

 

امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:

خدا کی ذات پاک ہے، میرے والد نے خدا کی قسم مجھے بتایا کہ میری والدہ کا مہر مختار نے بھیجا تھا۔ خدا اس پر رحم کرے کیا مختار کے علاوہ کوئی اور تھا جس نے ہمارے برباد گھروں کو پھر سے آباد کیا ؟ کیا وہ ہمارے قاتلوں کا قاتل نہیں ہے ؟ خدا اس پر رحمت کرے، خدا کی قسم میرے بابا نے مجھ کو بتایا ہے کہ جب بھی مختار، فاطمہ علیھا السلام بنت امیر المومنین کے گھر میں داخل ہوتے تھے، آپ ان کا احترام کرتی تھیں۔ آپ کے لیے فرش بچھاتیں اور تکیہ لگاتی تھیں، آپ بیٹھتے تو آپ کی باتیں سنتی تھیں۔

 

پھر امام باقر علیہ السلام نے مختار کے بیٹے کی طرف رخ کیا اور فرمایا:

 

رحم اللہ اباک، رحم اللہ اباک، ما ترک لنا حقاً عند احد الا طلبہ قتل قتلتنا و طلب بدمائنا ۔

 

خدا تمہارے باپ مختار پر رحمت نازل کرے، خدا تمہارے باپ مختار پر رحمت نازل کرے، انھوں نے ہمارا حق واپس لیا، ہمارے قاتلوں کو قتل کیا اور ہمارے خون کا انتقام لینے کے لیے قیام کیا۔

 

حوالہ جات :

اختیار معرفة الرجال (رجال الکشی)، الجزء۱، الصفحة۱۲۵

بحار الأنوار، الجزء۴۵ ، الصفحة۳۴۳

عوالم العلوم و المعارف و الأحوال من الآیات و الأخبار و الأقوال، الجزء۱۷، الصفحة۶۵۰

 

تحریر طویل ہوتی جا رہی ہے ۔۔ تو اب فقط تین احادیثِ معصوم پیش کر کے آگے بڑھتا ہوں ۔۔

 

امام حسین علیہ السلام نے یزیدی لشکر سے جو خطاب کیا تھا جسے علامہ مجلسی نے بحار میں رقم کیا ہے اس میں مختار کی بشارت ملاحظہ فرمائیں

امام حسین (ع) نے روز عاشور یزیدی لشکر سے فرمایا :

 

۔۔۔۔۔ اَللَّهُمَّ اِحْبِسْ ۔۔۔۔۔ وَ سَلِّطْ عَلَيْهِمْ غُلاَمَ ثَقِيفٍ يَسْقِيهِمْ كَأْساً مُصَبَّرَةً وَ لاَ يَدَعُ فِيهِمْ أَحَداً إِلاَّ قَتَلَهُ قَتْلَةً بِقَتْلَةٍ وَ ضَرْبَةً بِضَرْبَةٍ يَنْتَقِمُ لِي وَ لِأَوْلِيَائِي وَ أَهْلِ بَيْتِي وَ أَشْيَاعِي مِنْهُمْ فَإِنَّهُمْ

 

ترجمہ :

بہت جلد ایک ثقفی جوان مرد ان پر مسلط ہو گا تا کہ انہیں موت و ذلت کا تلخ جام چکھائے، ہمارے قاتلوں میں سے کسی کو معاف نہیں کرے گا، ہر قتل کے بدلے میں قتل اور ہر ضربت کے بدلے میں ضربت، میرا، میرے دوستوں کا، میرے اہل بیت کا اور میرے شیعوں کا ان سے انتقام لے گا۔

 

حوالہ جات :

بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار علیهم السلام، جلد۴۵، صفحه۸

تسلیة المُجالس و زینة المَجالس (مقتل الحسین علیه السلام)، جلد۲، صفحه۲۷۶

 

امام صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں :

 

وروي عن أبي عبد الله الصادق عليه السلام أنه قال عندما أرسل المختار برأس عبيد الله بن زياد وعمر بن سعد إلى المدينة: إن المختار أدخل السرور على أهل البيت عليهم السلام. ثم قال: ما امتشطت فينا هاشمية ولا اختضبت حتى بعث المختار إلينا برؤوس الذين قتلوا الحسين عليه السلام.

 

ترجمہ:

۔۔۔۔ حادثہ عاشورا کے بعد بنی ہاشم کی کسی بھی عورت نے زینت نہیں کی اور خضاب نہیں لگایا یہاں تک کہ مختار نے ابن زیاد اور عمر سعد کا سر ہمارے لیے مدینہ میں بھجوایا۔

 

حوالہ : رجال الكشي، ص 127

 

سدید کہتے ہیں کہ امام محمد باقر علیہ السلام نے حضرت مختار کے بارے میں فرمایا:

 

لا تَسُبّوا المختارَ، فَانہ قَد قَتَلَ قَتَلَتَنا و طَلَب بِثَارِنا، و زَوَّجَ ارٔامِلنَا، و قَسَمَ فینا المالَ عَلَی العُسرَۃِ

 

مختارکو برا بھلا مت کہو کیونکہ انھوں نے ہمارے قاتلوں کو قتل کیا اور ہم اہل بیت (ع) کے خون کا انتقام لیا اور ہماری بیٹیوں کا عقد کروایا اور مشکل دور میں ہمارے درمیان مال تقسیم کیا۔

 

حوالہ جات:

رجال کشی، ص 125

بحار الانوار ،ج 45 ص 343

 

 

جی اللہیاری صاحب ۔۔ اب کیا کہیں گے آپ ؟؟ ویسے آپ بہت عقل عقل کی رٹ لگاتے ہیں ذرا اسی عقل سے فیصلہ کر کے بتائیں کہ کیا شیعہ مذہب میں معصومین علیہم السلام کی رضا و خوشنودی ، اللہ کی رضایت و خوشنودی کے تابع ہے یا نہیں ؟ یقیناً تابع ہے ۔۔

 

تو اب آپ کی عقل کیا کہتی ہے ایسے شخص کے لیے جو آئمہ علیہم السلام کی نگاہ میں قابل رحمت ہو، سیدانیوں کی شادیاں کروائے ان کی مالی مدد کرے امام حسین علیہ السلام کے خون کا انتقام لے وہ عقیدہ کے اعتبار سے منحرف غیر شیعہ ہو سکتا ہے ؟

 

چلیں جی اب جلدی جلدی یہ بھی دیکھ لیتے ہیں کہ مختار کا ساتھ دینے والے کون اشخاص تھے اور ان کا مذہب کیا تھا کیونکہ کوئی بھی شیعہ مومن ایسے شخص کا قطعاً ساتھ نہیں دے سکتا جو ابوبکر و عمر و عثمان کی باطل خلافت کو حق سمجھ کر امیرالمومنین کے حق کا انکار کرے ۔۔

 

یہ بھی عین عقلی ہے کہ اگر کسی کے متعلق جاننا ہو تو اس کے ساتھیوں کو دیکھا جائے کہ وہ کون ہیں ۔۔ آئیں اللہیاری صاحب آپ کو مختار کے ساتھیوں کا جلدی سے تعارف کروا دیا جائے وہ بھی انتہائی اختصار کے ساتھ ۔۔

 

اگر مختار بد عقیدہ تھا تو سفیر امام حسین حضرت مسلم بن عقیل نے اس پر اعتماد کیوں کیا اور اپنی پناہ کا مرکز مختار کو کیوں چنا ؟؟

 

تمام مورخین نے لکھا کہ :

 

حضرت مسلم ابن عقیل کی کوفہ آمد کے موقع پر مختار ان افراد میں سے ایک تھا کہ جنہوں نے حضرت مسلم کی حمایت کا اعلان کیا۔ اسی وجہ سے حضرت مسلم جب کوفہ میں آئے تو مختار کے گھر گئے اور جب عبید اللہ ابن زیاد کو معلوم ہوا کہ مسلم کی پناہ گاہ مختار کا گھر ہے تو وہ وہاں سے ہانی ابن عروہ کے گھر منتقل ہوئے ۔۔۔

 

حوالہ جات :

الکامل،ج‌ 4، ص 36

ابن قتیبۃ الدینوری، الأخبار الطوال، ص 231

مروج الذهب مسعودی شافعی، ج 3 ص 252

 

چلیں اب دیکھتے ہیں کہ قیام مختار میں مختار کے لشکر کا علم دار کون تھا ۔۔

 

بغدادى لکھتا ہے :

 

وكان من وجوه شيعته وله منه محلٌّ خاص يستغنى بشهرته عن ذكره. ثم خرج طالباً بدم الحسين رضي الله عنه مع المختار بن أبي عبيد وكان معه حتّى قتل المختار.

 

ابو الطفيل بزرگان شیعیانِ علی میں سے تھا، اسکو علی (ع) کے نزدیک ایک خاص منزلت حاصل تھی۔ ابو طفیل نے حسین (ع) کے خون کا بدلہ لینے کے لیے مختار کے ساتھ خروج کیا اور وہ مختار کے قتل ہونے تک، اسی کے ساتھ تھا۔

 

حوالہ : خزانة الأدب ولب لباب لسان العرب، ج4، ص39،

 

المعارف میں ابن قتیبہ لکھتا ہے :

 

أبو الطفيل الكناني رضى الله عنه هو أبو الطفيل عامر بن وائلة رأى النبي وكان آخر من رآه موتا ومات بعد سنة مائة وشهد مع علي المشاهد كلها وكان مع المختار صاحب رأيته…

 

ابو الطفيل كنانى وہی ابو الطفيل عامر ابن واثلہ ہے کہ جس نے رسول خدا کو دیکھا تھا اور وہ آخری صحابی تھا کہ جو دنیا سے گیا تھا، وہ سن 100 ہجری میں فوت ہوا تھا اور اس نے تمام جنگوں میں شرکت کی تھی اور وہ لشکر مختار کا علمدار تھا۔

 

المعارف، ج1، ص99

 

ابن كثير البدایہ میں بھی تائید کرتا ہے ۔۔

 

ويقال أنه كان حامل رأيته.

ابو الطفيل لشكر مختار کے پرچم کا حمل کرنے والا تھا۔

 

ابن كثير الدمشقي، البداية والنهاية، ج9

 

طبرى، ابو مخنف سے مختار کے ساتھیوں کے نام یوں نقل کرتا ہے :

 

قال [ابومخنف] ولما نزل المختار داره عند خروجه من السجن اختلف إليه الشيعة واجتمعت عليه واتفق رأيها على الرضا به وكان الذي يبايع له الناس وهو في السجن خمسة نفر السائب بن مالك الأشعري ويزيد بن أنس وأحمر بن شميط ورفاعة بن شداد الفتياني وعبدالله بن شداد الجشمي.

 

ابو مخنف نے کہا ہے کہ: مختار جب زندان سے آزاد ہو گیا تو وہ اپنے گھر آیا۔ کوفہ کے شیعہ اسکے پاس آئے اور سب نے مختار کی رائے پر اتفاق کر لیا۔ مختار ایسا شخص تھا کہ جب وہ زندان میں تھا تو پانچ بندوں نے اسکی بیعت کر لی تھی، وہ بندے سائب ابن مالک اشعرى، يزيد ابن انس، احمر ابن شميط ، رفاعہ ابن شداد فتيانى اور عبد الله ابن شداد جشمى تھے۔

 

تاريخ الطبري، ج3، ص434

 

چلیں اب دیکھتے ہیں کہ وہ افراد جنہوں نے مختار کا ساتھ دیا ان کا مذہب کیا تھا ۔۔

 

سائب ابن مالک اشعری :

 

سائب نے مختار کی بیعت کی تھی اور وہ شیعیان علی میں سے تھا۔ جب ابن زبیر کی طرف سے ابن مطیع کوفے کا حاکم بن کر آیا تو اس نے خطبہ دیتے ہوئے کہا: مجھے ابن زبیر نے حکم دیا ہے کہ میں تم لوگوں کے درمیان سیرت شیخین (ابوبکر و عمر) اور سیرت عثمان کے مطابق عمل کروں۔ یہ سن کر سائب ابن مالک کھڑا ہوا اور کہا:

 

فقال: لا نرضى إلا بسيرة على بن أبى طالب التى سار بها فى بلادنا ولا نريد سيرة عثمان وتكلم فيه ولا سيرة عمر وان كان لا يريد للناس إلا خيرا وصدقه على ما قال بعض أمراء الشيعة فسكت الأمير وقال إنى سأسير فيكم بما تحبون من ذلك وجاء صاحب الشرطة وهو إياس بن مضارب البجلى إلى ابن مطيع فقال: إن هذا الذى يرد عليك من رؤس أصحاب المختار ولست آمن من المختار فابعث إليه فاردده إلى السجن.

 

ہم علی ابن ابی طالب کی وہ سیرت کہ جو ہمارے شہروں میں رائج تھی، اسی پر ہی ہم راضی ہیں، اور اگر تم لوگوں سے نیک سلوک کرنا چاہتے ہو تو عثمان اور عمر کی سیرت کے بارے میں بات نہ کرو۔ اسکی اس بات کی بعض شیعہ عمائدین نے بھی تصدیق کی اور اس پر ابن مطیع خاموش ہو گیا اور کہا: جس سیرت کو تم پسند کرتے ہو، میں بھی اسی کے مطابق تہمارے ساتھ عمل کروں گا۔ اسی جگہ پر لشکر کے سالار اياس ابن مضارب نے ابن مطیع سے کہا: یہ جو تم پر اعتراض کر رہا ہے، یہ مختار کے دوستوں میں سے ہے اور مجھے مختار پر کوئی اعتماد نہیں ہے، لہذا کسی کو مختار کے پیچھے بھیجو تا کہ وہ اسے دوبارہ زندان میں لا کر ڈال دے۔

 

البداية والنهاية، ج8، ص265

 

 

رفاعہ ابن شداد فتيانى بجلی :

 

علامہ شاہرودى نے رفاعہ کو امیرالمومنین (ع) کا صحابی گردانا ہے ۔۔

رفاعة بن شداد البجلي: من أصحاب أمير المؤمنين عليه السلام وشهد معه في حرب الجمل… وهو ممن كتب إلى الحسين عليه السلام من أهل الكوفة. ولما ورد الحسين عليه السلام كربلاء، دعا بدواة وبيضاء وكتب إلى أشراف الكوفة: بسم الله الرحمن الرحيم من الحسين بن علي إلى سليمان بن صرد، و المسيب بن نجية، ورفاعة بن شداد، وعبد الله بن وأل، وجماعة المؤمنين – الخ.

قيام هؤلاء الجماعة لطلب ثار الحسين عليه السلام. وكانوا رؤساء على جند المختار وجاهدوا، وله أشعار في الرجز. قاتل رفاعة، قتال الشديد البأس، القوى المراس، حتى قتل.

 

رفاعہ ابن شداد بجلى، امیر المؤمنین علی (ع) کے شیعوں میں سے تھا کہ جس نے جنگ جمل میں آپ (ع) کے ساتھ شرکت کی تھی۔ رفاعہ ان لوگوں میں سے تھا کہ جس نے امام حسین (ع) کو خط لکھا تھا اور جب امام حسین (ع) کربلا پہنچ گئے تو امام نے کوفہ کے بزرگان کے نام لکھا کہ: بسم اللہ الرحمن الرحیم، یہ خط حسین ابن علی کی طرف سے سلیمان ابن صرد، مسيب ابن نجيہ، رفاعۃ ابن شداد، عبد الله ابن وال اور دوسرے مؤمنین کے نام ہے۔۔۔۔۔ وہ ایسے لوگ تھے کہ جہنوں نے امام حسین (ع) کے خون کا انتقام لینے کے لیے قیام کیا اور وہ لشکر مختار کے سالار تھے اور انھوں نے مختار کے ساتھ مل کر جہاد کیا۔ رفاعہ کے جنگوں کے رجز کے بارے میں اشعار بھی ہیں، رفاعہ نے زبردست جنگ کی، یہاں تک کہ وہ شہید ہو گیا۔

 

مستدركات علم رجال الحديث، ج3، ص403،‌ رقم 5647

 

سید خوئى نے بھی لکھا:

 

رفاعة بن شداد: رجال الشيخ في أصحاب علي عليه السلام، وفي أصحاب الحسن عليه السلام.

 

رفاعہ ابن شداد شیخ طوسی کے نقل کردہ راویوں میں سے ہے اور شیخ طوسی نے اسکو حضرت علی (ع) اور امام حسین (ع) کے اصحاب میں شمار کیا ہے۔

 

معجم رجال الحديث وتفصيل طبقات الرواة، ج8، ص203

 

یہاں تک کہ اہل سنت علماء نے بھی اسے اصحاب امیر (ع) میں شامل کیا ہے

خير الدين زركلى لکھتا ہے :

 

رفاعة بن شداد البجلي: قارئ، من الشجعان المقدمين، من أهل الكوفة. كان من شيعة علي. ولما قتل الحسين وخرج المختار يطالب بدمه انحاز إليه رفاعة.

 

رفاعۃ‌ ابن شداد بجلى، قارى قرآن، اہل کوفہ کا بہت شجاع اور شیعیان علی (ع) میں سے تھا۔ جب حسین قتل ہو گئے اور مختار نے جب امام حسین کے خون کا بدلہ لینے کے لیے قیام کیا تو رفاعہ بھی اس کے ساتھ آ کر مل گیا۔

 

الزركلي الأعلام، ج3، ص29

 

 

سعد ابن حذيفہ :

 

شیعہ علماء نے لکھا ہے کہ سعد ابن حذيفہ امام علی (ع) کے اصحاب میں سے تھا۔

 

سعد بن حذيفة بن اليمان: من أصحاب أمير المؤمنين عليه السلام.

 

حوالہ : الشاهرودي، مستدركات علم رجال الحديث، ج4 ، ص 27

 

سعد بن حذيفة اليمان، من أصحاب علي عليه السلام، رجال الشيخ.

 

حوالہ : معجم رجال الحديث وتفصيل طبقات الرواة، ج9، ص59

 

طبرى اور دوسرے مؤرخین نے بھی لکھا کہ سعد ابن حذيفہ مختار کی طرف سے شہر مدائن کا قاضی لگایا گیا تھا :

 

وبعث سعد بن حذيفة بن اليمان على حلوان.

مختار نے سعد ابن حذيفہ ابن يمان کو شہر حلوان بھیجا۔

 

حوالہ جات :

تاريخ الطبري، ج4،‌ ص509

تاريخ بغداد، ج9، ص123

 

 

جنابِ ابراہیم بن مالک اشتر :

 

ابن نماى حلى لکھتے ہیں۔۔

 

وَكَانَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَالِكٍ الْأَشْتَرُ مُشَارِكاً لَهُ فِي هَذِهِ الْبَلْوَى وَمُصَدِّقاً عَلَى الدَّعْوَى وَلَمْ يَكُ إِبْرَاهِيمُ شَاكّاً فِي دِينِهِ وَلَا ضَالًّا فِي اعْتِقَادِهِ وَيَقِينِهِ وَالْحُكْمُ فِيهِمَا وَاحِد.

 

ابراہيم ابن مالک اشتر تمام حالات میں مختار کے ساتھ شریک تھے اور وہ مختار کے دعووں کی تصدیق کرتے تھے، ابراہیم اپنے دین میں شک نہیں کرتے تھے اور وہ اپنے اعتقاد اور یقین میں گمراہ نہیں تھے یہاں تک کہ مختار اور ابراہیم ایک ہی تھے۔

 

جعفر بن هبة الله، ذوب النضار في شرح الثار،‌ ص58

 

صاحبِ اعيان الشيعہ لکھتے ہیں:

 

إبراهيم بن مالك بن الحارث الأشتر النخعي قتل سنة 71…. وكان مع أبيه يوم صفين مع أمير المؤمنين عليه السلام وهو غلام وابلى فيها بلاء حسنا وبه استعان المختار حين ظهر بالكوفة طالبا بثار الحسين عليه السلام وبه قامت امارة المختار وثبتت أركانها.

 

ابراہيم ابن مالک ابن حارث اشتر نخعى سن 71 ہجری میں شہید ہوئے، انہوں نے اپنے والد کے ہمراہ جنگ صفین میں اس حال میں کہ وہ نوجوان تھے امیرالمومنین (ع) کے لشکر میں شریک ہو کر جنگ کی اور سرخرو ہوئے اور جب مختار نے کوفہ میں قیام کیا تو انہوں نے امام حسین (ع) کے قاتلوں سے انتقام لینے کے لیے ابراہیم سے مدد مانگی اور انہی کے توسط سے مختار کی حکومت قائم و محکم ہوئی۔

 

أعيان الشيعة، ج2، ص 200

 

 

عبد الله ابن حارث:

 

امیر المؤمنین کے اصحاب میں سے ایک مالک اشتر کا بھائی، عبد الله ابن حارث ہے۔

 

شيخ طوسى نے ان کو امام علی کے اصحاب میں سے شمار کیا ہے

 

الطوسي، رجال الطوسي، ص70

 

سید خوئی اورعلامہ شاھرودی نمازی نے ابھی انہیں اصحاب امیر میں لکھا ہے:

 

عبد الله بن الحارث أخو مالك: الأشتر: من أصحاب علي (عليه السلام)، رجال الشيخ.

 

حوالہ جات:

معجم رجال الحديث وتفصيل طبقات الرواة، ج11، ص164

الشاهرودي، مستدركات علم رجال الحديث، ج4، ص508

 

اب مختار کے گھر کی بات ہو جائے ۔۔

 

یعقوبی نے اپنی تاریخ میں مختار کی بیوی عمرہ کے بارے میں لکھا کہ

مصعب نے عمرہ سے کہا کہ مختار کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے ؟ عمرہ نے بڑی دلیری سے جواب دیا کہ وہ ایک پرہیزگار آدمی تھا اور ہر روز روزہ رکھتا تھا۔ اس پر مصعب نے اس کی گردن اڑانے کا حکم دیا اور اسلام میں یہ پہلی خاتون تھی کہ جسکی تلوار کے ذریعے سے گردن اڑا دی گئی تھی۔

 

تاریخ الیعقوبی،ج‌ 2 ص 264

 

تو اللہیاری صاحب نے دیکھ لیا ہوگا کہ جن جن بھی مختار کا قیام میں ساتھ دیا وہ سب کے سب پکے شیعہ اور اصحاب امام علی میں سے تھے یہاں تک کہ مختار نے جن سے شادی کی وہ بھی شیعہ علی تھی اور تاریخ اسلام کی پہلی سر قلم کروا کر درجہ شہادت پر فائز ہونے والی !

 

اب اہل سنت کتاب سے بھی تھوڑی مختار کی تمجید نقل کر دوں ۔۔

بلاذری نے انساب میں لکھا :

 

جب ابن عباس کے سامنے مختار کا ذکر ہوا تو انہوں نے کہا: ملائکہ کراما کاتبین کا درود و سلام ہو مختار پر۔

 

البلاذري، أنساب الأشراف، ج2، ص371

 

بہت سی روایات کو عمداً ترک کر رہا ہوں کیونکہ تحریر اب کتاب کی شکل لیتی جا رہی ہے ۔۔ کوشش کرتا ہوں کہ جلد از جلد اختتام کی طرف آؤں ۔۔

 

اللہیاری صاحب آپ اس بندہ خدا کے ایمان پر شک کر رہے ہیں جس نے بنو ہاشم کے حالات کو بدلا اور انہیں گھر تک تعمیر کرا کر دیے ۔۔

 

سید خوئی لکھتے ہیں ۔۔

مختار نے 20 ہزار دینار امام سجاد (ع) کی خدمت میں بھیجے اور امام نے اسے قبول کیا اس کے ذریعے عقیل ابن ابی طالب اور دوسرے بنی ہاشم کے خراب شدہ گھروں کی تعمیر فرمائی تھی۔

 

حوالہ : معجم الرجال، ج 18 ص 96

 

اسی طرح مختار نے 30 ہزار درہم میں ایک کنیز خرید کر امام سجاد (ع) کو ہدیہ کی جس سے حضرت زید شہید پیدا ہوئے جن سے آج زیدی سادات کا سلسلہ موجود ہے یعنی زید ابن علی ابن الحسین۔

 

حوالہ : مقاتل الطالبیین، ص 124

 

علامہ مجلسی لکھتے ہیں کہ کوفہ کے اشراف میں سے بعض امام سجاد (ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ (ع) سے مختار کے قیام کے متعلق سوال کیا تو آپ نے انہیں بھی "محمد بن حنفیہ” کی طرف بھیجا اور فرمایا:‌ اے میرے چچا ! اگر کوئی سیاہ فارم غلام بھی ہم اہل بیت (ع) کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرے تو لوگوں پر واجب ہے کہ اس کی ہر ممکن حمایت کریں۔ اس بارے میں آپ جو کچھ مصلحت جانتے ہیں، انجام دیں۔ میں اس کام میں آپ کو اپنا نمائندہ قرار دیتا ہوں۔

 

حوالہ جات :

بحار الأنوار، ج‌ 45 ص 365

ریاض الأبرار ج 1 ص 298

معجم الرجال، ج 18 ص 100

تنقیح المقال، ج 3 ص 206

 

یہ امام سجاد (ع) کی روایت قیام مختار پر دلیل نہیں ؟؟ ذرا اپنی عقل سے فیصلہ لیں ؟؟ کیا امامِ معصوم کسی ایسے شخص کی حمایت کر سکتا ہے جو ان کے جد امیرالمومنین کا عادل شیعہ نہ ہو ؟؟ کیا کہتی ہے آپ کی عقل ؟

 

یہاں پر جان بوجھ کر علماء امامیہ کے مختار کے بارے میں اقوال نقل نہیں کر رہا کیونکہ آپ اپنے علاوہ کسی شیعہ عالم کو نہ ہی فقیہ مانتے ہیں ناہی محدث۔

 

آخر کلام میں اہل سنت کا سب سے متعصب ترین عالم ابن تیمیہ کے قلم سے مختار کو شیعہ ثابت کرتا ہوں پھر تحریر کا اختتام ۔۔

 

ابن تیمیہ مردود لکھتا ہے ۔۔

 

صحیح مسلم میں سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:’’قبیلہ ثقیف میں ایک کذاب اور ایک سفاک (ناحق خون بہانے والا) ہوگا۔‘‘ [مسلم۳؍۱۹۷۱]آپ کے ارشاد گرامی کے مطابق ثقیف کا کذاب مختار بن ابی عبید شیعہ تھا اور سفاک حجاج بن یوسف ثقفی تھا۔

 

حوالہ : ابن تیمیہ منہاج السنہ النبویہ ،جلد 3، 4 صفحہ نمبر: 620

 

جی اللہاری صاحب ۔۔۔ کیا اب بھی آپ کو یہی لگتا ہے کہ مختار کے شیعہ ہونے میں کوئی بھی عقلی و نقلی دلیل شیعوں کے پاس نہیں ؟؟

 

اگر واقعی یہی لگتا ہے تو پھر کھل کر اپنی سقیفہ دوستی کا اعلان فرما دیں اور شیعوں میں انجینئر مرزا بن کر دفاع تشیع کی آڑ میں فقہاء تشیع پر طعن کا بازار گرم کریں اور شیعیت کو خوب نقصان پہنچائیں ۔۔

 

اور یہ قطعاً نہیں سمجھیئے گا کہ ہم جیسے افراد کی آپ پر نگاہیں جمی ہوئیں ہیں 🙂

 

چلتے چلتے دل کر رہا ہے کہ کچھ نصیحت کے موتی کلام امامؑ سے آپ کو ہدیہ کرتا جاؤں تاکہ مختار کو لے کر آپ کے دل میں جو سیاہی ہے وہ صاف ہو جائے اور یہی موتی واقعاً ان کے لیے بھی اعزاز ہے جو مکتب کا دفاع کرتے ہیں اب چاہے وہ آپ ہوں، مجھ جیسا حقیر ہو یا امیر مختار جیسی بزرگ شخصیت ۔۔

 

امام جعفر صادق (ع) ارشاد فرماتے ہیں

 

من أعاننا بلسانه على عدونا أنطقه الله بحجته يوم موقفه بين يديه عز وجل.

 

جو شخص ہمارے دشمن کے خلاف اپنی زبان سے ہماری مدد کرے اللہ اسے قیامت کے دن اپنے روبرو اس کی حجت اور دلیل کو اس کی زبان پر جاری کرے گا

 

حوالہ : الأمالي – الشيخ المفيد – الصفحة ٣٣

 

امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام بھی ارشاد فرماتے ہیں ۔۔

 

مَن أحَبّنا بقلبه ونَصَرنا بيده ولسانه فهو مَعنا في الغرفة التي نحن فيها ، ومَن أحَبّنا بقلبه ونصرنا بلسانه فهو دون ذلك بدرجة ، ومن أحَبّنا بقلبه وكفَّ بيده ولسانه فهو في الجنة

 

جو شخص ہمیں اپنے دل سے دوست رکھے، اور اپنی زبان اور ہاتھ سے ہماری مدد کرے تو وہ ہمارے ساتھ اس جگہ ہوگا جہاں ہم ہونگے اور جو شخص ہم سے محبت کرے اور صرف اپنی زبان ہماری مدد کرے تو اس کا درجہ پہلے سے ایک درجہ کم ہوگا اور جو شخص ہم سے دل سے محبت کرے اور اپنی زبان اور ہاتھ کو روکے رکھے تو وہ بھی بہشت میں ہوگا۔

 

الأمالي – الشيخ المفيد – الصفحة ٣٣

 

ان اختتامی دو احادیث کی روشنی میں آپ کو مختار پر فیصلہ لینے میں ضرور مدد ملے گی ۔۔

 

والسلام یا علیؑ مدد

احقر #ابوعبداللہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے