بسم الله الرحمن الرحيم
السلام عليك أيها السيد الزكي الولي السلام عليك يا زيد بن علي أشهد انك قد جاهدت في سبيل ربك صابرا محتسبا لم تأخذك في الله لومة لائم في نصرة

السلام علیکم مومنین و مومنات
آج اپنی تحریر کا سرنامہ اس آیت کو بناؤں جس میں رب الحسین ارشاد فرماتا ہے :

وَسَلَامٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا
ان پر ہمار اسلام جس دن پیدا ہوئے اور جس دن انہیں موت آئی اور جس دن وہ دوبارہ زندہ اٹھائے جائیں گے۔
(سورہ مریم، آیت ۱۵)

مومنین و مومنات آپ سب اس بات کے گواہ ہیں کہ میں حسن اللھیاری کا دشمنانِ تشیع کے خلاف جو کام ہے اس کو ہر دم سراہتا رہتا ہوں. اور اس امر میں اللہیاری کی خدمات کا شدید معتقد بھی ہوں اور میری مکمّل حمایت بھی انہیں حاصل ہے۔

البتہ جو فقہاء مخالف ان کے بے جا و بے بنیاد نظریات ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر تاریخ تشیع کی عظیم شخصیات کہ جن میں جنابِ زید شہید، امیر مختار، جعفر تواب وغیرہ پر ان کی تحقیق انتہائی ناقص و غیر علمی ہے۔

میرے قارئین جانتے ہیں کہ اللہیاری صاحب کو جنابِ مختار پر پہلے ہی جواب دے چکا ہوں جسے مومنین اس لنک پر ملاحظہ کر سکتے ہیں :

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=637496344601034&id=10005022022859 &mibextid=Nif5oz

آج اپنے ایمانی بھائی حسن اللہیاری کو جنابِ زید شہید پر علمی مقالہ لکھ کر دعوتِ رجوع دوں گا۔۔

لیکن پہلے مرحلے میں مومنین کے اذہان کو آمادہ کرنے کے لیے کچھ تمہیدی گزارشات کرنا چاہتا ہوں تاکہ مومنین جب بھی ان عظیم شخصیات کے مخالف کوئی بھی روایت سنیں تو وہ اسے فقط ظاہری مفہوم سے قبول کرنے سے گریز کریں اور انہیں پتا ہو کہ ایسی روایات کے پیچھے اصل حقائق کیا ہیں، کیونکہ تاریخی روایات کو فقط سند کے معتبر ہونے سے قبول نہیں کیا جاتا بلکہ دیگر قرائن کو بھی ملحوظ رکھ کر ان کا نتیجہ اخد کیا جاتا ہے ۔
مومنین اچھی طرح سے یاد رکھیں کہ دین خدا ہر مومن اور مومنہ سے قربانی چاہتا ہے یعنی ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے اور جنت و رضا الہی کی بھی ایک قیمت ہے.

یہ الفاظ میرے نہیں بلکہ قرآن کے ہیں یعنی سورہ توبہ کہ جس میں ارشاد ہوتا ہے : اللہ نے خرید لیا مومنین سے اُن کا مال اور جان، جنت کے بدلے میں ۔۔

اور دیکھا جائے تو سب سے بڑی قربانی عزت کی ہوتی ہے جو جان و مال سے کہیں بڑھ کر ہے ۔ زندہ ہو اور طعنے سن رہے ہو۔گالیاں سن رہے ہو اور سب براداشت کر رہے ہو فقط مرضی پروردگار کی خاطر ۔۔
تاریخ اسلام میں متعدد شخصیات ایسی ہیں جنہوں نے اپنی عزت قربان کر کے اہل بیت ؑ کو محفوظ کیا ہے ،
ایک دو شخصیات کے مختصر تعارف کو مثال بنا کر جنابِ زید شہید کی طرف بڑھتا ہوں.

سب سے پہلے جنابِ ابوطالب ؑ،

اگر ایمان کا اظہار کر کے مسلمان مشہور ہو جاتے تو جو وہ رسول اللہ کو تحفظ دے رہے تھے وہ نہ دےپاتے ۔ اس وقت کفار مکہ اسی تذبب میں تھے کہ ابوطالب ہے تو ہمارےجیسا اور یہ رسول کو پناہ دیا ہواہے تو آخر کیسے اس کو نقصان پہنچائیں ۔ المختصر کہ حکیم بطحا جناب ابوطالب ؑ نے اپنے ایمان کو پوشیدہ رکھ کر مشرکین مکہ کی مکاریوں سے رسول خدا کو محفوظ رکھا۔

دوسری بڑی شخصیت ہے حضر ت محمد حنفیہ کی ۔۔

کربلا کے واقعہ کے بعد یزیدیت کی ساری توجہ امام سجاد ؑ کی طرف تھی کہ اب یہ امام ہے ، لیکن محمد حنفیہ نے اعلان کر دیا کہ میں امام ہوں ، اب یزید بڑا خوش ہوا کہ خاندان میں ہی پھوٹ پڑ گئی یعنی سجاد کے مقابلے میں مجھے آنے کی ضرورت نہیں کہ اس کے مقابلے میں تو خود اس کا چچا آ گیا ہے تو ایسے محمد حنفیہ نے یزید کی ساری توجہ اپنی طرف مرکوز کر لی تاکہ امام سجاد ؑ محفوظ ہو جائیں ۔ اور بھرپور انداز میں عزاداری سید الشہدا برپا کریں اور امامت کا کام جاری رکھیں۔

اور تیسری شخصیت جعفر تواب کی ہے جوجھوٹے دعویٰ امامت کی وجہ سے تاریخ میں کذاب مشہور ہوئے ۔

تو مومنین و مومنا ت جب گیارہویں امام کو جو زہر دے کر شہید کیا گیا تو اس سے ایک دن پہلے خلیفہ نے مکمل تسلی کی کہ گیارہویں امام کی کوئی اولاد تو نہیں ،گھر میں خواتین بھیجی گئیں کہ یہ دیکھو کہ کہیں گھر میں کوئی اور عورت تو حاملہ نہیں کیونکہ سب نے سن رکھا تھا کہ جب بارہواں آئے گا تو ظالمین کا خاتمہ کرے گا تو دیکھا جائے کسی عورت میں پیدائش کے آثار تو نہیں ۔۔ اسی وجہ سے دسویں امام نے بی بی نرجس خاتون کو گھر میں رکھا ہی نہیں ، انہیں گھر کے بیسمنٹ میں اس طرح رکھا کہ ولادت امام مہدی کے وقت بی بی کو سامنے کے دروازے سے بھی اندر نہ بلایا گیا بلکہ حکیمہ خاتون کے گھر کے اندر ہی اندر سے بلایا گیا اور جیسے ہی آئیں ویسے ہی فوراً بیسمنٹ میں بھیج دیا گیا اور ساری زندگی وہاں رہیں اور وہیں انتقال ہوا ۔

تو امام مہدیؑ کو محفوظ رکھنے کے لئے جعفر تواب نے بارہواں امام ہونے کا دعویٰ کیا اور خلیفہ کو یقین دلانے کے لیئے اس سے ملاقاتیں بھی کیں اور اس سے پیسے بھی لیے تاکہ اسے یقین آجائے کہ یہ وہ والا بارہواں تو ہے نہیں جس کے بارے میں رسول کہہ گئے اور خلیفہ کواس سے کوئی خطرہ ہو.

یعنی یہ تو خلیفہ سے تعلقات بناتا ہے ہر وقت دربار میں آتا جاتا ہے اور یہ سلسلہ تقریباًدس سال تک چلتا رہا کہ جعفر بارہواں امام ہے ،بہت سے شیعہ بھی ان کو امام ماننے لگے کہ دسویں کے بیٹے ہیں گیارویں کے بھائی ہیں ۔ اور جعفر تواب نے کہا کہ میرا بڑا بھائی لاولد تھا اور اس کی کوئی اولاد نہیں ، ساری انٹینشن اپنی طرف کروا لی ، دس سال گزر گئے اور خلیفہ بھی مر گیا پھر انہوں نے بتایا کہ اصل امام کون ہے اور یہ میں نے دعویٰ کیوں کیا ۔۔

جنابِ مختار پر میری تحریر کا لنک اوپر ہی دیا جا چکا تو اب جنابِ زید شہید کی طرف باضابطہ طور پر بڑھتے ہیں۔۔

یہاں یہ بات بھی باور کروانا چاہتاہوں کہ اس تحریر میں بہت سے موضوعات کو تفصیل کے ساتھ زیر بحث نہیں لا رہا کیونکہ اگر ان پر لکھنا شروع ہوا تو ایک مقالہ کجا پوری کتاب ہی لکھنا پڑ جائے گی ۔۔ جیسے ۔۔

– جناب زید کی تاریخ ولادت و شہادت میں علماء کا اختلاف
– حضرت زید شہید کی والدہ ماجدہ جنابِ حوراء کے رتبہ عالی پر جہلاء کے شکوک
– والی مدینہ ہشام کے درباراور کوفہ کے احوال
– سیاسی محرکات اسباب و علل جہادِ زید شہید وغیرہ وغیرہ

پہلے مرحلے میں زیدی سادات کے جد حضرت زید شہیدؒ کا مختصر تعارف ہو جائے :

جناب زید شہید جن کا پورا نام زید بن علیؑ بن حسینؑ ہے جومشہور قول کے مطابق سنہ 75 ہجری میں پیدا ہوئے اور اپنے والد ماجد حضرت امام زين العابدينؑ کی کفالتِ روحانی زہد وتقوی اور علم ومعرفت کے ماحول میں پروان چڑھے۔

بعض روايات کے مطابق رسول الله صلّى الله عليه وآله وسلم نے خود آپ کی ولادت کی بشارت دی تھی اور آپ کے نام کا انتخاب کیا تھا۔

علامہ باقر مجلسی نے تحریر کیا ہے کہ جناب جابر جعفی نے حضرت امام محمد باقر علیہ اسلام سے روایت کرتے ہوئے فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے جناب امام حسین علیہ السلام سے ارشاد فرمایا کہ:
اے حسین ! تمہاری نسل سے ایک فرزند پیدا ہوں گے جنھیں زید کہا جائے گا ، وہ اور اُن کے ساتھی قیامت کے دن لوگوں سے آگے قدم بڑھاتے ہوئے گزریں گے کہ اُن کے چہرے روشن اور نورانی ہوں گے اور بغیر حساب کے جنت میں داخل ہو جائیں گے۔

حوالہ :
بحارالانوار ج 2 ص 192

اس حدیث کو متعدد کتب میں علماء و مورخین نے اپنے اپنے انداز میں بیان کیا ہے۔
جیسے ابوالفرج اصفہانی نے اس طرح لکھا ہے کہ

حدثني على بن العباس قال : حدثنی اسماعیل بن اسحاق الراشدى قال : حدثنا محمد بن داود بن عبدالجبار عن ابيه عن جابر عن أبي جعفر قال : قال رسول الله (ص) للحسين : يخرج رجل من صلبک يقال له زيد يتخطى هو و اصحابه يوم القيامة رقاب الناس غرا المحجلين يدخلون الجنة بغير حساب .

ترجمہ: جناب رسالتمآب نے امام حسینؑ سے فرمایا کہ اے حسین تمہارے صلب سے ایک فرزند عالم وجود میں آئیگا جس کا نام زید ہوگا، قیامت کے دن وہ اور اس کے اصحاب اُن لوگوں سے آگے آگے چلتے ہوں گے جو خوبصورت سفید گھوڑوں پر سوار ہوں گے اور وہ جنت میں بغیر حساب کے داخل ہو جائیں گے۔

اسی مقاتل کے صفحہ ۸۸ میں ابوالجارود کی یہ گواہی بھی موجود ہے کہ :
حدثنا يحيى بن الحسين قال: حدثنا الحسن بن يحيى بن الحسين بن زيد قال : حدثنا الحسن بن الحسين عن يحيى بن مساور عن ابی الجارود قال: قدمت المدينة فجعلت كلما سألت عن زيد بن علي قيل لي ذاك حليف القرآن۔

ترجمہ : ابو الجارود کہتا ہے: میں جب مدينہ آیا تو جب بھی میں زيد کے بارے پوچھتا تو مجھے کہا جاتا وہ ہے حليف القرآن(قرآن کا ساتھی)، وہ ہے أسطوانة المسجد(مسجد کا ستون)۔

حوالہ :
مقاتل الطالبین ص: ۸۸

جناب زید شہید نے اپنے والد امام زين العابدين عليه السلام کے ساتھ اپنی مبارک حیات کی 15 بہاریں دیکھیں اور 95هـجری میں اپنے بابا کی شہادت کے بعد اپنے بھائی امام باقر عليه السلام کے زیر سایہ زندگی گزارنے لگے۔

جناب زید مدینہ کے جید علماء اور ا کابرین میں مرکزی حیثیت رکھتے تھے، مختلف علوم و فنون اسلامیہ کے ماہر تھے، قرأت ، علوم قرآنیہ، عقائد،مقالات اور علم کلام پہ انہیں مکمل عبورحاصل تھا، امام ابوحنیفہ کے استاد تھے، امام حنیفہ ان کے حلقہ درس میں دو سال رہے، ابو حنیفہ کہتا تھا کہ ’’میں نے زید بن علی سے زیادہ فقیہ اور فصیح و بلیغ کسی کو نہیں پایا، حقیقت یہ ہے کہ علم میں ان کی کوئی مثال نہیں تھی‘‘۔

تین صفر 121 هجری وہ دن ہے کہ جس میں امام حسین(ع) کے پوتے، امام زین العابدین(ع) کے بیٹے، امام محمد باقر(ع) کے بھائی اور امام جعفر صادق(ع) کے چچا جناب زید کو شہید کیا گیا، کہ جن کا مزار کوفہ سے 30کلو میٹر کے فاصلے پہ "الكفل” نامی شہر میں ہے۔

(ان شاء اللہ آخر تحریر میں جناب زید شہید کی انتہائی مظلومانہ شہادت کا احوال بیان کروں گا)

قارئین کرام اس وقت میں عجیب کیفیت میں ہوں کہ کیا کیا لکھوں اور کیا کیا چھوڑ کر آگے بڑھوں کیونکہ اس تحریر کو مقالہ ہی رکھنا ہے ناکہ کتاب۔

تو ذہن کہتا ہے کہ فقط معصومینؑ کے فرامین کو مومنین کے اذہان عالیہ کے سپرد کروں تاکہ وہ زید شہید کو لے کر حق و باطل کا فیصلہ خود کر سکیں ۔

زید شہید کے قیام اور ان کے بارے میں سب سے پہلے جناب رسول خدا ﷺ کے کلام مبارک سے یہ حدیث پیش خدمت ہے جسے علامہ مجلسیؒ نے اپنی بحار میں ابن ادریس حلیؒ اور انہوں نے ابن قولویہؒ سے نقل کیا ہے :

وعن حذيفة بن اليمان قال : نظر رسول الله ﷺ إلى زيد بن حارثة فقال : المقتول في الله ، والمصلوب في امتي ، والمظلوم من أهل بيتي سمي هذا ، وأشار بيده إلى زيد بن حارثة فقال : ادن مني يا زيد ، زادك اسمك عندي حبا فأنت سمي الحبيب من أهل بيتي

ترجمہ : حذیفہ بن یمان سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے زید بن حارثہ کو دیکھا تو انکی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: راہ خدا میں شہید ہونےوالا، میری امت میں جسے سولی دی جائے گی، میرے اہلبیتؑ میں سے ایک مظلوم شخصیت جو ان کا ہم نام ہوگا، اس کے بعد حضور ؐنے فرمایا: اے زید (بن حارثہ)! میرے قریب آو، تمہارے نام کے سبب تم سے محبت زیادہ ہو گئی ہے۔ تم میرے اہلبیتؑ میں میرے ایک محبوب کے ہم نام ہو۔

حوالہ :
بحارالانوار، جلد ۴۶، صفحہ ۱۹۲

مومنین بغور دیکھیں کہ جس ہستی کو رسول اللہ اس کی پیدائش سے پہلے یاد کر کے اپنے اہل بیتؑ میں شمار کریں ، شہادت کی خبر دیں اور اپنا محبوب قرار دیں اس کی شخصیت پر کیسے انگشت بازی کی جا سکتی ہے ۔

اب رسول خدا کی اگلی روایت بھی ملاحظہ فرمائیں جسے کتاب روض النضیر میں منہاج سے بحوالہ ابن اطہر اور کتاب جلاء الالصبار میں حاکم اور امالی سے یحییٰ بن حسین ہارونی کی اسناد سے روایت کیا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا۔

الشهيد من ذريتى والقائم بالحق والذي المصلوب بالكناسة كوفه أن إمام المجاهدين وقائد الغر المحجلين يأتي يوم القيامة وأصحابه تتلقاهم الملائكة المقربون فيادونهم ادخلوا الجنة لا خوف عليكم ولا أنتم تحزنون.
ترجمہ:
میری ذریت میں سے ایک شہید ہے اور حق قائم کرنے والا ہے جس کو کنارہ کوفہ میں سولی دی جائیگی۔ وہ اور اس کے اصحاب جب قیامت کے دن آئیں گے تو ملائکہ مقربین ان سے ملاقات کرینگے اور ان سے کہیں گے کہ تم جنت میں داخل ہو جاؤ تمہارے لئے نہ خوف ہے نہ خزن!

حوالہ جات :
روض النضیر، ج ۱ ص ۵۸
مقتل الحسین از خوارزمی، ج ۲ : ۱۲

اب جنابِ زید شہید کی ولادت کا احوال بھی ملاحظہ فرمائیں کہ امامِ معصومؑ نے کیا اہتمام فرمایا۔

كنت عند علي بن الحسين بن علي بن ابي طالب ( عليهم السلام ) فكان إذا صلّى الفجر ، لم يتكلم حتى تطلع الشمس ، فجاؤوه يوم وُلِدَ فيه زيد ، فبشروه به بعد صلاة الفجر ، قال : فالتفت الى اصحابه وقال : « اي شيء ترون ان اسمي هذا المولود؟ ) قال : فقال كل رجل منهم : سمه كذا سمه كذا ، قال : فقال : « يا غلام عليَّ بالمصحف » قال : فجاؤوا بالمصحف ، فوضعه على حجره ، قال : ثم فتحه فنظر الى اول حرف في الورقة ، وإذا فيه ( وفضل الله المجاهدين على القاعدين اجرا عظيما ) قال : ثم طبقه ، ثم فتحه فنظر فاذا في اول الورقة ( ان الله اشترى من المؤمنين أنفسهم وأموالهم بان لهم الجنة يقاتلون في سبيل الله فيقتلون ويقتلون وعدا عليه حقا في التوراة والانجيل والقرآن ومن اوفى بعهده من الله فاستبشروا ببيعكم الذي بايعتم به وذلك هو الفوز العظيم ) ثم قال : « هو والله زيد هو والله زيد » فسمي زيداً.

ترجمہ : ابن ادریس حلی رحمۃ اللہ علیہ نقل کرتے ہیں کہ امام زین العابدین علیہ السلام کی سیرت تھی کہ آپ نماز صبح کے بعد کسی سے گفتگو نہیں فرماتے یہاں تک کہ سورج طلوع ہوجاتا تھا۔ ایک دن آپؑ کو جناب زید کی ولادت کی خوشخبری سنائی گئی تو آپؑ نے اپنے اصحاب سے ہوچھا اس بچہ کا کیا نام رکھوں۔ سب نے ایک ایک نام تجویز کیا تو امام سجاد علیہ السلام نے اپنے غلام کو حکم دیا کہ قرآن کریم لاو، جب قرآن کریم لایا گیا تو آپ نے اپنے دست ہائے مبارک میں قرآن کریم لیا اور کھولا تو آیت آئی ’’وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ أَجْرًا عَظِيمًا‘‘
اللہ نے مالوں اور اپنی جانوں سے جہاد کرنے والوں کو درجہ کے اعتبار سے بیٹھ رہنے والوں پر فضیلت دی ہے اور یوں تو اللہ نے ہر ایک سے بھلائی کا وعدہ کیا ہے۔ مگر اس نے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر اجر عظیم کے ساتھ فضیلت دی ہے۔
(سورہ نساء، آیت۹۵)
امام سجادؑ نے قرآن کریم کو بند کر کے دوبارہ کھولا تو آیت آئی۔

’’إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَىٰ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ ۚ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ ۖ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ وَالْقُرْآنِ ۚ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّهِ ۚ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُم بِهِ ۚ وَذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ‘‘

بے شک اللہ تعالیٰ نے مؤمنین سے ان کی جانیں خرید لی ہیں اور ان کے مال بھی اس قیمت پر کہ ان کے لیے بہشت ہے وہ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں پس وہ مارتے بھی ہیں اور خود بھی مارے جاتے ہیں (ان سے) یہ وعدہ اس (اللہ تعالیٰ) کے ذمہ ہے تورات، انجیل اور قرآن (سب) میں اور اللہ سے بڑھ کر کون اپنے وعدہ کا پورا کرنے والا ہے؟ پس اے مسلمانو! تم اس سودے پر جو تم نے خدا سے کیا ہے خوشیاں مناؤ۔ یہی تو بڑی کامیابی ہے۔
(سورہ توبہ، آیت 111)
تو آپؑ نے مکرر فرمایا: خدا کی قسم یہ وہی بچہ ہے جس کا نام زید ہے۔
حوالہ جات:
مستطرفات السرائر ، ابن إدريس الحلي جلد : 1 صفحه : 63
مستدرك الوسائل، المحدّث النوري جلد : 4 صفحه : 305

مومنین خود فیصلہ کریں کہ جس کی پیدائش کے وقت قرآنِ ناطق کےمبارک ہاتھوں پر قرآن صامت کی یہ عظیم الہی گواہیاں موجود ہوں اور اس پر قرآن ناطق یعنی امامِ سجادؑ قسم کھا کر کہیں کہ یہ زید ہے تو اس شہید کا کیا مقام ہوگا۔

اوپر ابوالفرج اصفہانی کی جو حدیث پیش کی تھی اسے دوبارہ بحارالانوار میں بھی ملاحظہ فرمائیں
عن أبي جعفر محمد بن علي الباقر ، عن آبائه : قال :قال رسول الله ﷺ للحسين : يا حسين يخرج من صلبك رجل يقال له زيد يتخطى هو وأصحابه يوم القيامة رقاب الناس غرا محجلين يدخلون الجنة بلا حساب۔

ترجمہ : امام محمد باقر علیہ السلام نے اپنے آبائے طاہرین سے روایت فرمائی کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امام حسین علیہ السلام سے فرمایا: اے حسینؑ! تمہاری نسل میں ایک شخص پیدا ہو گا جس کا نام زیدؒ ہو گا۔ وہ اور اسکے اصحاب روز قیامت صراط سے اس طرح گذریں گے کہ انکی پیشانیاں روشن و منور ہوں گی اور بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے۔

حوالہ جات :
بحارالانوار، جلد ۴۶، صفحہ ۱۷۰
نفس المصدر ج ١ ص ٣٣٠
عيون أخبار الرضاؑ ج ١ ص ٢٤٩

سید ابن طاؤس نے مولاعلی علیہ السلام سے روایت کیاہے کہ۔۔
ان مولانا عليا ؑ عرف من حضره بما جرى أشار اليه ان أمير المؤمنين ؑ وقف بالكوفة في الموضع الذي صلب فيه زيد بن علي عليه السلام و بكى حتى اخضلت لحيته و بكى الناس لبكائه فقيل له يا أمير المؤمنين مما بكاؤك فقد أبكيت أصحابك؟فقال: ان رجلا من ولدي يصلب في هذا الموضع لا أرى فيه خشية من رضى أن ينظر الى عورته۔۔۔

ترجمہ : ایک مرتبہ امام علیؑ اپنے اصحاب کے ہمراہ کوفہ میں اس مقام پر مقیم ہوئے جہاں حضرت زیدؒ شہید کو سولی دی جانیوالی تھی۔ آپ علیہ السلام ملول ہوئے آنکھوں سے اشک جاری ہو گئے ، اصحاب نے سبب دریافت کیا تو آپ نے فرمایا:
رسول اللہ نے ارشاد فرمایا تھا کہ ان رجل من ولدى يصلب هذا الموضع من رضى ان ينظر الى عورته اليه الله على وجهه في النار یعنی میری اولاد میں سے ایک مرد کو اس مقام پر سولی دی جائے گی اور جو شخص اس کے جسم کے پوشیدہ حصوں پر نظر ڈالے گا خداوند عالم اس کو منہ کے ہل دوزخ میں داخل فرمائے گا۔
حوالہ :
الملاحم و الفتن السيد بن طاووس جلد : 1 صفحه : 120

امام محمد باقر علیہ السلام کی رائے بھی جان لیتے ہیں وہ جنابِ زید شہیدؒ کے بارے میں کیا ارشاد فرماتے ہیں:

محمد بن مسعود ، عن أبي عدالله الشاذاني ، عن الفضل ، عن أبيه ، عن أبي يعقوب المقري وكان من كبار الزيدية ، عن عمرو بن خالد وكان من رؤساء الزيدية ، عن أبي الجارود وكان رأس الزيدية قال : كنت عند أبي جعفر جالسا إذ أقبل زيدبن علي فلما نظر إليه أبوجعفر قال : هذا سيد أهل بيتي ، والطالب بأوتارهم

ترجمہ : عمرو بن خالد نے ابوالجارود سے روایت نقل کی کہ میں امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں تھا کہ جناب زید ؒتشریف لائے تو جیسے ہی امام علیہ السلام کی نظر ان پر پڑی فرمایا: ’’هذا سيد أهل بيتي ، والطالب بأوتارهم‘‘ یہ ہم اہلبیت کی عظیم شخصیت ہیں، یہ دشمن سے انتقام لینے کے لئے قیام کریں گے۔

حوالہ جات:
رجال کشی، صفحہ١۵١
بحارالانوار، جلد۴۶، صفحہ١٩۴

یہ روایت بھی ملاحظہ فرمائیں ۔۔

عبد الرحمن بن محمد الازدي، قال: حدثنا (حسين بن محمد بن علي الازدي) قال: أخبرني أبي، عن الوليد بن عبد الرحمن، قال: أخبرني أبو حمزة الثمالي، قال: كنت أزور علي بن الحسين (عليه السلام) في كل سنة مرة في وقت الحج، فأتيته سنة من ذاك وإذا على فخذه صبي، فقعدت إليه وجأ الصبي فوقع على عتبة الباب فانشج، فوثب إليه علي بن الحسين ويقول له: يا بني أعيذك بالله ان تكون المصلوب في الكناسة. قلت: بأبي أنت وأمي وأي كناسة ؟. قال: كناسة الكوفة. قلت: جعلت فداك أو يكون ذلك ؟. قال: أي والذي بعث محمدا بالحق ان عشت بعدي لترين هذا الغلام في ناحية من نواحي الكوفة مقتولا مدفونا منبوشا مسلوبا مسحوبا مصلوبا في الكناسة، ثم ينزل ويحرق ويدق ويذرى في البر. قلت: جعلت فداك وما اسم هذا الغلام ؟. قال: هذا ابني زيد. ثم دمعت عيناه

ترجمہ : سید بن طاووس رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب’’ فرحۃ الغری ‘‘میں ثمالی سے روایت نقل فرمائی کہ میں ہر سال ایام حج میں امام زین العابدین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا، ایک سال جب آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپ کی آغوش میں ایک بچہ ہے، اسی وقت دروازے سے ایک دوسرا بچہ حجرہ میں داخل ہوا اور زمین پر گرا اوراس کا سر زخمی ہوگیا۔ امام سجاد علیہ السلام فورا اپنی جگہ سے اٹھے اور کرتے کے دامن سے اس کے خون کو صاف کرنے لگے اور فرمایا: نور نظر! تجھے خدا کی پناہ میں دیتا ہوں تجھے کناسہ میں سولی دی جائے گی۔ عرض کیا: آپؑ پر میرے ماں باپ قربان، یہ کناسہ کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا: کناسہ کوفہ میں ہے، عرض کیا کہ میں آپؑ پر قربان کیا ایسا حادثہ ہوگا؟ فرمایا: اس ذات کی قسم جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مبعوث کیا ہے اگر میرے بعد تم زندہ رہو گے تو دیکھو گے کہ میرا یہ فرزند کوفہ کے نزدیک قتل کیا جائے گا، دفن کے بعد اسکی قبر کھول کر جنازہ کو باہر نکال کر گلیوں میں پھرایا جائے گا اور سولی دی جائے گی، سولی سے اتار کر جنازہ کو جلا کر راکھ کو صحرا میں اڑا دیا جائے گا۔ عرض کیا کہ اس بچہ کا نام کیا ہے؟ فرمایا یہ میرا بیٹا زید ہے۔پھر آپ کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر آئیں۔

حوالہ : فرحة الغری ابن طاووس، السيد عبدالكريم جلد : 1 صفحه : 139

اب امام جعفر صادق علیہ السلام کی بھی جناب زید شہیدؒ کے بارے میں گواہی ملاحظہ فرمائیں:

رجال الكشي نصر بن الصباح عن إسحاق بن محمد البصري عن علي بن إسماعيل عن فضيل الرسان قال : دخلت على أبي عبد الله بعد ما قتل زيد بن علي فأدخلت بيتا جوف بيت فقال لي يا فضيل قتل عمي زيد قلت جعلت فداك قال رحمه الله أما إنه كان مؤمنا وكان عارفا وكان عالما وكان صدوقا۔۔۔

ترجمہ :فضیل کہتے ہیں میں زید بن علی کے قتل کے بعد جب امام جعفر صادقؑ کے گھر گیا اور جب میں گھر میں داخل ہوا تو آپؑ نے کہا میرے چچا زید کو قتل کر دیا گیا؟ میں نے کہا ہاں میں آپ پر قربان ہو جاؤں تو آپؑ نے فرمایا: اللہ کی ان پر رحمت ہو وہ مومن تھے، وہ عارف تھے، وہ عالم تھے، اور وہ سچے تھے۔

حوالہ :
بحار الأنوار العلامة المجلسي جلد : 4 صفحه : 325
رجال الكشي ص 184
یہ روایت بھی ملاحظہ ہو ۔۔

فدخلنا علي الصادق عليه السلام فدفعنا إليه الكتابة فقرأه وبكى ثم قال: انا لله وانا إليه راجعون عند الله احتسب عمى انه كان نعم العم ان عمى كان رجلا لدنيانا وآخرتنا مضى والله عمى شهيدا كشهداء استشهدوا مع رسول الله (ص) وعلى والحسن والحسين صلوات الله عليهم.

ترجمہ : جب امام جعفر صادق علیہ السلام کو جناب زیدؒ کی شہادت کی خبر ملی تو زبان پر کلمہ استرجاع انا للہ وانا الیہ راجعون جاری کیا اور فرمایا: میں اپنے چچا کی مصیبت پر اللہ سے اجر کا طالب ہوں۔ وہ میرے بہترین چچا تھے۔ بے شک وہ دنیا و آخرت میں میرے ساتھی تھے۔ میرے چچا نے اسی طرح شہادت پای جیسے اس سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، امیر المومنین علیہ السلام ، امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کی رکاب میں شہداء نے شہادت پائی۔
حوالہ: عيون أخبار الرضا (ع) – الشيخ الصدوق – ج ٢ – الصفحة ٢٢٨

قارئین کرام اگر ہر روایت کا عربی متن بھی ساتھ پیش کرتا گیا تو مجھے ڈر ہے کہ فیس بک پر پوسٹ کرنے میں مسائل پیدا نہ ہو جائیں تو اب فقط ترجمہ اور حوالہ جات پر اکتفاء کروں گا ۔۔

امام علی رضا علیہ السلام نے جناب زید شہید ؒ کے سلسلہ میں فرمایا:
خدا کی قسم ! زید بن علیؑ ان لوگوں میں سے تھے جنکے سلسلہ میں یہ آیت ہے’’وَجَاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِ ۚ هُوَ اجْتَبَاكُمْ‘‘ (سورہ حج، آیت۷۸) اور اللہ کے بارے میں اس طرح جہاد کرو جو جہاد کرنے کا حق ہے کہ اس نے تمہیں منتخب کیا ہے۔
حوالہ: عیون اخبارالرضا، جلد١، صفحہ٢۴٨

عیون اخبار کی یہ روایت بھی ملاحظہ فرمائیں۔۔
ابن ابی عبدون نے اپنے والد سے روایت کیا ہے کہ جب زید بن امام موسیٰ کاظم علیہ السلام مامون کے دربار میں لائے گئے جبکہ انہوں نے بصرہ میں خروج کیا تھا اور بنی عباس کے گھروں کو آگ لگائی تھی ، مامون نے انکے اس جرم کو اُنکے بھائی امام علی رضا علیہ السلام سے بیان کیا اور کہا کہ اے ابو الحسن ! اگر آپکے بھائی نے خروج کیا ہے اور جو انھیں کرنا تھا وہ سب کچھ کر بیٹھے ہیں تو ان سے پہلے زید بن علی بن الحسین نے بھی خروج کیا تھا اور وہ قتل کر دیئے گئے تھے اسلئے اگر آپ کا احترام میری نگاہوں میں نہ ہوتا تو میں بھی انہیں قتل کر دیتا ، جو کچھ انہوں نے کیاہے وہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔

امام علی رضاؑ نے جواب دیا کہ اے امیر ۔۔میرے بھائی کو جناب زید شہید بن علی بن حسین پر قیاس نہ کر اور انہیں اُن کے برابر نہ سمجھ ۔ جناب زید بن علی تو آل محمد علیہم السلام کے علماء میں سے تھے اور خدا کی خوشنودی کے لئے اُٹھے تھے اور اللہ کے دشمنوں سے جہاد کیا اور اُسی کی راہ میں قتل ہوئے ۔ میرے پدر بزرگوار امام موسیٰ کاظم علیہ السلام فرماتے تھے کہ انھوں نے اپنے والد نامدار حضرت امام جعفر صادق کو یہ فرماتے ہوئے سُنا کہ خداوند عالم میرے چچا جناب زید پر رحمت نازل فرمائے ۔ انھوں نے تو آل محمد علیہم السلام کی رضا و خشنودی کی طرف لوگوں کو دعوت دی تھی اگر وہ باطل کے خلاف جہاد کرنے میں کامیاب ہو جاتے تو اپنی دعوت الی الحق کو پورا کر لیتے ، اُنھوں نے اپنے خروج کے بارے میں مجھ سے مشورہ لیا تھا تو میں نے اُن سے یہی کہا کہ ہم محترم اگر آپ کو یہ بات پسند ہے کہ آپ قتل ہو جائیں اور کناسہ میں سولی پر لٹکائے جائیں تو آپ اس میں مختار ہیں جو چاہیں کریں۔

جب جناب زید نے اپنے مقصد کے لئے قدم اُٹھا لیا تو امام جعفر صادقؑ نے فرمایا تھا کہ ان لوگوں کے لئے ہلاکت ہو جنہوں نے ان کی پکار کو سُنا اور پھر بھی ان کی مدد نہ کی ۔ یہ سن کر مامون نے کہا کہ کیا یہ سب کچھ درست نہیں کہ جو بغیر استحقاق دعوی امامت کر بیٹھے اور اُسے سزا نہ ملے؟

امام علی رضا علیہ السلام نے جواب دیا کہ جناب زید بن علی بن حسین نے کبھی اُس امامت کا دعوی نہیں کیا جس کے وہ مستحق نہ تھے۔ وہ تو خدا سے اس بارے میں ڈرتے تھے کہ وہ کوئی ایسا دعویٰ کریں جس کے وہ حقدار نہیں ۔ انھوں نے تو لوگوں سے یہ کہا تھا کہ میں تو تمھیں رضاء آل محمد علیہم السلام کی طرف بلا رہا ہوں ۔ خدا کی طرف سے سزا کا مستحق تو وہ شخص ہے جو یہ دعوی کر گزرے کہ خدا نے اس کے بارے میں نص کر دی ہے اور پھر وہ دین الہی کے علاوہ کسی دوسرے دین کی طرف بلائے اور بغیر تحقیق کے اسکی راہ سے لوگوں کو ہٹا دے۔ خدا کی قسم جناب زید تو ان لوگوں میں سے تھے جنکے بارے میں قرآن حکیم کا ارشاد ہے: وَجَاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِ ۚ هُوَ اجْتَبَاكُمْ‘‘ (سورہ حج، آیت۷۸) اور خدا کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کا حق ہے وہ تو تمھیں اس کیلئے منتخب کر چکا ہے۔

اسی طرح ابو ہاشم جعفری نے کہا کہ جب میں نے امام علی الرضاؑ سے پھانسی پائے ہوئے (مصلوب) شخص کے بارے میں سوال کیا کہ اسکی کیا حیثیت ہوتی ہے اور کیا اس کیلئے رحمت کی دعا کی جاسکتی ہے؟
تو امام علیہ السلام نے فرمایا کہ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میرے جد بزرگوار(امام جعفر صادقؑ) نے اپنے چاچا جناب زید پر صلوات بھیجی اورطلب رحمت کی دعافرمائی ہے۔

حوالہ جات:
بحارالانوار ، ج 6، ص 19
عیون اخبارالرضا، جلد١، صفحہ٢۴٨

امید کرتا ہوں کہ حسن اللہیاری سمیت دیگر برادران یہاں تک پیش کی گئی احادیث و روایات سے مان چکے ہونگے کہ جو بھی امامت کا جھوٹا دعویٰ کرے تو اس نے حکمِ خدا پر اپنی مرضی و حرص کو فوقیت دی اور ایسا کرنے والے کے لیے قطعاً امامِ معصومؑ صلوات اور دعائے رحمت کے ساتھ اس کے صدیق ہونے پر گواہی نہیں دے سکتے اور نہ ہی اس کے لیے گریہ و حزن کا اظہار فرماتے ۔ تو یہ ثابت ہو چکا کہ جناب زید شہیدؒ پر دعویٰ امامت سراسر بہتان ہےاور خاندانِ اہل بیتؑ کے عظیم مرتبے پر حملہ ہے۔
اگر پھر بھی کوئی شک باقی ہے تو یہ احادیث بھی ملاحظہ فرمائیں :

حدّثنا أبو الحسن محمّد بن جعفر بن محمّد التميمي المعروف بابن النجّار النحوي الكوفي، عن محمّد بن القاسم بن زكريّا المحاربي، قال: حدّثني هشام بن يونس، قال: حدّثني القاسم بن خليفة، عن يحيى ابن زيد، قال: سألت أبي(عليه السلام) عن الأئمّة، فقال: الأئمّة اثنا عشر، أربعة من الماضين وثمانية من الباقين، قلت: فسمّهم يا أبه، فقال: أمّا الماضين فعلي بن أبي طالب والحسن والحسين وعلي بن الحسين، ومن الباقين أخي الباقر، وجعفر الصادق ابنه، وبعده موسى ابنه، وبعده علي ابنه، وبعده محمّد ابنه، وبعده علي ابنه وبعده الحسن ابنه، وبعده المهدي، فقلت يا أبه، ألست منهم ؟
قال: لا، ولكنّي من العترة.
قلت: فمن أين عرفت أساميهم؟ قال: عهد معهود عهده إلينا رسول اللّه(صلى الله عليه وآله وسلم)

ترجمہ :
قاسم بن خلیفہ سے روایت ہے کہ جناب یحییٰ بن زید ؒ نے بیان کیا کہ میں نے اپنے والد جناب زید سے اماموں کے سلسلہ میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: امام بارہ ہیں ، جن میں سے چار گذر گئے اور آٹھ باقی ہیں۔
میں نے عرض کیا کہ بابا جان ان کے نام کیا ہیں ؟ فرمایا : جو چار امام گذر گئے ان میں پہلے امام علی بن ابی طالب علیہ السلام ، دوسرے امام حسن بن علی علیہ السلام ، تیسرے امام حسین بن علی علیہ السلام اور چوتھے امام علی بن الحسین علیہ السلام ہیں۔ اور آٹھ امام جو باقی ہیں ان میں میرے بھائی امام محمد باقر علیہ السلام ہیں، ان کے بعد ان کے فرزند امام جعفر صادق علیہ السلام ہیں، ان کے بعد ان کے فرزند امام موسیٰ (کاظم )علیہ السلام ہیں، ان کے بعد ان کے فرزند امام علی (رضا ) علیہ السلام ہیں، ان کے بعد ان کے فرزند امام محمد(تقی) علیہ السلام ہیں، ان کے بعد ان کے فرزند امام علی(نقی ) علیہ السلام ہیں، ان کے بعد ان کے فرزند امام حسن(عسکری) علیہ السلام، ان کے بعد محمد(امام مہدی) عجل اللہ فرجہ الشریف ہیں۔
میں نے عرض کیا کہ کیا آپ ان میں سے نہیں ہیں؟
فرمایا: نہیں میں ان اماموں میں سے نہیں ہوں لیکن میں عترت رسولؐ میں شامل ہوں۔ عرض کیا کہ آپ کو ائمہ ہدیٰ علیہم السلام کے اسماء کا علم کیسے ہوا؟ فرمایا: یہ وہ عہد ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھ سے لیا ہے۔
حوالہ: بحار الأنوار، ج ٤٦ ،ص ١٩٨

اگر اب بھی کسی کو یہ باطل گمان ہے کہ جناب زید شہیدؑ امامت الہیہ کے معصوم آئمہ علیہم السلام سے متنفر تھے تو اب یہ دو احادیث بھی ملاحظہ فرمائیں اور ساتھ امام محمد باقر علیہ السلام کی تصدیق بھی ۔۔

حدّثنا أبو علي أحمد بن سليمان، قال: حدّثني أبو علي بن همام، قال: حدّثنا الحسن بن محمّد بن جمهور، عن أبيه محمّد ابن جمهور، عن حمّاد بن عيسى، عن محمّد بن مسلم، قال: دخلت على زيد بن علي(عليه السلام) فقلت: إنّ قوماً يزعمون أنّك صاحب هذا الأمر.
قال: لا، ولكنّي من العترة.
قلت: فمن يلي هذا الأمر بعدكم؟
قال: ستّة من الخلفاء والمهدي منهم.
قال ابن أسلم: ثمّ دخلت على الباقر(عليه السلام) فأخبرته بذلك فقال: "صدق أخي زيد، سيلي هذا الأمر بعدي سبعة من الأوصياء والمهديّ منهم”
ترجمہ :
محمد بن مسلم سےروایت ہے کہ میں جناب زید ؒ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ آپ ولی امر (امام) ہیں؟
فرمایا: میں ولی امر نہیں ہوں بلکہ عترت رسول میں شامل ہوں۔ پوچھا آپ کی ہدایت و رہنمائی کون کرتا ہے؟ فرمایا: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ) خلفاء و جانشینوں میں سےسات افراد ، جنمیں مہدی (علیہ السلام ) بھی ہیں۔
جناب محمد بن مسلم کہتے ہیں کہ میں امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمات میں حاضر ہوا اور پورے ماجرے سے باخبر کیا تو امام باقر علیہ السلام نے فرمایا: میرے بھائی زید ؒ نے صحیح کہا۔ میرے بعد سات افراد اولیاء امر ہوں گے۔ (امام) مہدی (علیہ السلام) بھی انہیں میں سے ہوں گے۔

حوالہ جات : كفاية الأثر : ٣٠٩ ـ ٣١٠، بحار الأنوار ٤٦ : ٢٠٠
اب یہ آخری حدیث بھی ملاحظہ فرمائیں

نص علي بن الحسين بن محمد ، عن هارون بن موسى ، عن محمد بن مخزوم مولى بني هاشم ، قال أبومحمد : وحدثنا عمر بن الفضل المطيري عن محمد بن الحسن الفرغاني ، عن عبدالله بن محمد البلوي ، قال أبومحمد : وحدثنا عبيدالله بن الفضل الطائي عن عبدالله بن محمد البلوي ، عن إبراهيم بن عبدالله بن العلا ، عن محمد بن بكير قال : دخلت على زيد بن علي وعنده صالح بن بشر فسلمت عليه ، وهو يريد الخروج إلى العراق ، فقلت له : يا ابن رسول الله حدثني بشئ سمعته عن أبيك فقال : نعم
حدثني أبي عن أبيه عن جده قال : قال رسول الله : من أنعم الله عليه بنعمة فليحمدالله ، ومن استبطأ الرزق فليستغفر الله ، ومن أحزنه أمر فليقل : لا حول ولا قوة إلا بالله.

فقلت : زدني يا ابن رسول الله ، قال : نعم حدثني أبي عن أبيه عن جده قال : قال رسول الله : أربعة أنا لهم الشفيع يوم القيامة ، المكرم لذريتي ، والقاضي لهم حوائجهم ، والساعي لهم في امورهم عند اضطرارهم إليه ، والمحب لهم بقلبه ولسانه.

قال : فقلت : زدني يا ابن رسول الله من فضل ما أنعم الله عزوجل عليكم قال : نعم حدثني أبي عن أبيه ، عن جده قال : قال رسول الله : من أحبنا أهل البيت في الله حشر معنا ، وأدخلناه معنا الجنة ، يا ابن بكير من تمسك بنا فهو معنا في الدرجات العلى ، يا ابن بكى إن الله تبارك وتعالى اصطفى محمدا و اختارنا له ذرية فلو لانا لم يخلق الله تعالى الدنيا والآخرة ، يا ابن بكير بنا عرف الله ، وبنا عبدالله ، ونحن السبيل إلى الله ، ومنا المصطفى والمرتضى ، ومنا يكون المهدي قائم هذه الامة.

قلت : يا بن رسول الله هل عهد إليكم رسول الله متى يقوم قائمكم؟ قال : يا ابن بكير إنك لن تلحقه ، وإن هذا الامر تليه ستة من الاوصياء بعد هذا ثم يجعل الله خروج قائمنا ، فيملاها قسطا وعدلا ، كما ملئت جورا وظلما ، فقلت : يا ابن رسول الله ألست صاحب هذا الامر؟ فقال : أنا من العترة ، فعدت فعاد إلي فقلت : هذا الذي تقول ، عنك أو عن رسول الله ؟ فقال : لو كنت أعلم الغيب لاستكثرت من الخير ، لا ولكن عهد عهده إلينا رسول الله ، ثم أنشأ يقول :
نحن سادات قريش وقوام الحق فينا
نحن الانوار التي من قبل كون الخلق كنا
نحن منا المصطفى المختار والمهدي منا
فبنا قد عرف الله وبالحق أقمنا
سوف يصلاه سعير من تولى اليوم عنا

ترجمہ :
۔۔۔ اے ابن بکیر! جو بھی ہم سے متمسک ہوا وہ میرے ساتھ اعلیٰ درجات میں ہوگا۔ خدا وند عالم نے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو منتخب کیا اور ہمیں ان کی نسل میں قرار دیا۔ اگر ہم نہ ہوتے تو اللہ دنیا و آخرت کو خلق نہ کرتا ۔ ائے ابن بکیر! اللہ کی ہمارے ذریعہ معرفت حاصل کی گئی اور اسکی عبادت کی گئی۔ ہم ہی ہیں جو اللہ کی راہ پر گامزن ہیں۔ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہم میں سے ہیں، امیرالمومنین امام علی علیہ السلام ہم میں سے ہیں۔ امام مہدی علیہ السلام ہم میں سے ہیں جو اس امت کے قائم ہیں۔

عرض کیا ائے فرزند رسولؐ! کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کو نہیں بتایا کہ حضرت قائم ؑ کب قیام کریں گے؟ فرمایا: اے ابن بکیر! تم ان کا ادراک نہیں کر پاؤگے۔ لیکن جان لو کہ ان (امام جعفر صادق علیہ السلام ) کے بعد چھ امام اس امت کے سرپرست ہوں گے۔ پھر ہمارے قائم ؑ کا قیام ہوگا جو دنیا کو اسی طرح عدل و انصاف سے بھر دیں گے جیسے وہ ظلم و جور سے بھری ہو گی۔ عرض کیاکہ فرزند رسولؐ! کیا آپ ولی امر (امام) نہیں ہیں؟ فرمایا: میں عترت رسولؐ میں ہوں۔ میں نے دوبارہ پوچھا تو یہی جواب دیا۔ عرض کیا کہ آپ جو فرما رہے ہیں یہ اپنی جانب سے کہہ رہے ہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جانب سے؟ فرمایا: ’’و لو کنت اعلم الغیب لاستکثرت لنفسی‘‘ اگر مجھے علم غیب ہوتا تو اس سے زیادہ اپنے لئے طلب کرتا ۔ لیکن یہ وہ عہد ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہم سے لیا ہے۔ اس کےبعد مندرجہ ذیل اشعار پڑھے ۔

’’نحن سادات قریش و قوام الحق فینا‘‘ ہم سادات قریش ہیں اور حق کا قیام ہم سے ہے۔ ہم وہ نور ہیں جو مخلوقات کی خلقت سے پہلے موجود تھے۔ پس اللہ ہماری وجہ سے پہچانا گیا اور ہم حق کو قائم کئے ہیں۔ جو بھی ہم سے روگردانی کرے گا اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔

حوالہ :
بحار الأنوار – ط مؤسسةالوفاء العلامة المجلسي جلد : 46 صفحه : 202
كفاية الاثر للخزاز ص ٣٢٦

کون ہے جو یہ کہے کہ معاذاللہ جنابِ زید بن علیؑ نے امامت کا دعویٰ کیا؟؟؟ ہے کوئی جواب ؟

اب وہ احادیث بھی ملاحظہ فرما لیں جس سے یہ قطعی طور پر ثابت ہو جائے گا کہ جنابِ زید شہیدؒ کو ناصرف امام جعفر صادقؑ کی تائید حاصل تھی بلکہ قیامِ زید میں شامل ہونے والوں کی امامؑ نے تعریف و تمجید بھی فرمائی اور جو شامل نہ ہوئے ان پر نفرین بھی کی ۔۔ ملاحظہ فرمائیں۔۔

عن ابن الوليد،عن الصفّار،عن البرقي،عن أبيه،عن ابن شمّون،عن عبد اللّه بن سنان،عن الفضيل،قال:انتهيت إلى زيد بن علي(عليهما السلام)صبيحة خرج بالكوفة، فسمعته يقول:من يعينني[منكم على قتال أنباط أهل الشام،فو الذي بعث محمّدا صلّى اللّه عليه و آله و سلّم بالحقّ بشيرا،لا يعينني منكم على قتالهم أحد إلاّ أخذت بيده يوم القيامة فأدخلته الجنة بإذن اللّه

فضیل بن یسار کا بیان ہے کہ جس دن حضرت زید ؒ نے قیام کیا اس دن صبح میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہ فرما رہے تھے انباط(شمالی عرب) اہل شام سے جنگ کرنے میں کون میری مدد کرے گا؟ اس خدا کی قسم جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث کیا ہے تم میں سے جو بھی جنگ میں ان (چچا زیدؒ) کی مدد کرے گا تو قیامت کے دن میں اس کا ہاتھ پکڑ کر اذن خدا سے جنت میں داخل کروں گا۔

حوالہ جات:
عيون أخبار الرضا عليه السلام 1/252
أمالي الشيخ الصدوق رحمه اللّه:349

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

میرے چچا زید ؑنے کوفہ جانے سے پہلے مجھ سے مشورہ کیا تو میں نے ان سے کہا: چچا! اگر آپ کناسہ میں قتل ہونے کے بعد پھانسی پر لٹکنا چاہتے ہیں تو آپ کو اختیار ہے۔ جب وہ امام صادق علیہ السلام کے بیت الشرف سے نکلے تو امام علیہ السلام نے فرمایا: افسوس ہے اس شخص پرجو ان کی آواز سنے اور ساتھ نہ دے۔
۔۔ وَ لَقَدِ اسْتَشَارَنِي فِي خُرُوجِهِ فَقُلْتُ لَهُ يَا عَمِّ إِنْ رَضِيتَ أَنْ تَكُونَ الْمَقْتُولَ الْمَصْلُوبَ بِالْكُنَاسَةِ فَشَأْنَكَ فَلَمَّا وَلَّى قَالَ جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ وَيْلٌ لِمَنْ سَمِعَ وَاعِيَتَهُ
حوالہ : عيون أخبار الرضا(ع) الشيخ الصدوق جلد : 1 صفحه : 249

یہاں جان بوجھ کر شیعہ محدثین کی دفاع جناب زید میں پیش کی گئی آراء شامل نہیں کر رہا کیونکہ تحریر اب تحریر سے بڑھ کر کتابی شکل لینے لگی ہے تو فقط چند قدیم علماء کی لکھی ان کتابوں کی معرفی کروا دوں جو انہوں نے جناب زید شہید کے دفاع میں لکھی ہیں پھر اس کے بعد جناب زید شہید کے شدید ترین مصائب اور شہادت کا بیان کر کے تحریر کا اختتام کرتا ہوں ۔۔

1 – إبراهيم بن سعيد بن هلال الثقفي المتوفى 283، له كتاب أخبار زيد
2 – محمد بن زكريا مولى بني غلاب المتوفى 298، له كتاب أخبار زيد
3 – الحافظ أحمد بن عقدة المتوفى 333، له كتاب من روى أخبار زيد ومسنده
4 – عبد العزيز بن يحيى الجلودي المتوفى 368، له كتاب أخبار زيد
5 – محمد بن عبد الله الشيباني المتوفى 372، له كتاب فضايل زيد
6 – الشيخ الصدوق أبو جعفر القمي المتوفى 381، له كتاب في أخباره
7 – ميرزا محمد الاسترابادي صاحب الرجال الكبير
8 – السيد عبد الرزاق المقرم

خاندانِ رسالت کے عزادارو آؤ اب سید سجادؑ کےمظلوم بیٹے زید شہید کے مصائب سنو ۔۔

مسعودی کا بیان ہے کہ پورے دن جہاد کے بعدجب شب کو زید زخموں سے چور پلٹے تو ان کی پیشانی میں ایک تیر پیوست تھا۔ بہت تلاش کے بعد کسی گاؤں سے ایک حجام لایا گیا۔ جنابِ زید کے ساتھیوں نے اُس سے جگہ کو راز رکھنے کا عہد لیا، اس نے تیر نکالا اور اور ادھرزید شہید کی روح بھی نکل گئی۔ ایک راج بہے میں ان کو دفن کر کے اس پر مٹی اور بانس وغیرہ ڈال کر قبر کو پانی میں غرق کر دیا تا کہ کسی کو معلوم نہ ہو سکے۔ اُس حجام نے جو اُن کے دفن میں موجود تھا اور جس نے اس مقام کو اچھی طرح دھیان میں رکھا تھا صبح ہوتے ہی خود جا کر حاکم کو سارے واقعہ کی اطلاع کی اور ان کی قبر بتادی۔ حاکم نے زید کی لاش نکلوائی اور سرکاٹ کر ہشام بن عبد الملک کے پاس بھیج دیا۔ ہشام نے حاکم (یوسف) کو حکم دیا کہ زید کے جسد کو عریاں کر کے سُولی پر لٹکا دیا جائے۔ یوسف نے حسب حکم بجا آوری کی۔ اس کے متعلق بنی امیہ کے کسی شاعر نے آل ابی طالب اور اُن کے شیعوں کو خطاب کر کے ایک طویل قصیدہ لکھا جس کا ایک شعر یہ ہے کہ:

صلبنا لكم زيدا على جذع نخلة
ولم أر مهد يا على الجذع يُصلب

ترجمہ: ہم نے کھجور کے تنے پر تمہاری عبرت کے لئے زید کو سولی پر لٹکا دیا اور میں نے کبھی کسی مہدی کو اس طرح درخت کے تنے پرسُولی دیا جاتا ہوا نہیں، دیکھا۔

المختصر کہ اس سولی کے نیچے (جس پر زید شہید کے جسد کو آویزاں کیا گیا تھا) حکومت نے اور ستون کھڑے کرا دیئے تھے، اس واقعہ کے بہت عرصہ بعد ہشام نے یوسف کو حکم دیا کہ زید کے لاشہ کو جلا کر اس کی خاک ہوا میں اڑا دی جائے ۔۔

۔ اور تاریخ خمیس میں لکھا ہے کہ جب زید شہید کا برہنہ جسم دار پر چڑھایا گیا تو مکڑی نے جالا لگا کر اُن کی شرمگاہ کو چھپا دیا ۔ !

ایک اور روایت یہ ہے کہ ہشام نے حضرت زید شہید کا سر دمشق کے دروا زہ پر نصب کرا دیا اور پھر اس سر کو مدینہ بھیجوا دیا۔ ہشام کے مرنے تک حضرت زید شہید کی لاش کنا سہ میں سولی پر لٹکی رہی اور اُس کے مرنے کے بعد ولید نے اُسے اتروا کر جلوا دیا۔
وا غربتا ۔۔ وامصیبتا ۔۔

شیخ صدوق وطوسی نے اپنی امالی میں اور علامہ مجلسی نے اپنی بحار میں صادقِ آل محمدؑ کی زبانی جنابِ زید شہید کے مصائب اس طرح نقل کیے ۔۔

امام صادق علیہ السلام نے حمزہ بن حمران سے فرمایا: زید کی پیشانی مبارک سے تیر نکلنے کے بعد ان کے جسم سے روح نکل گئی۔ چنانچہ ان کے جنازے کو ایک چھوٹی نہر کے پاس لائے جو ایک باغ کے کنارے سے نکلی تھی ، وہاں قبر کھودی اور ان کے جنازے کو دفن کر کے پانی کو اس پر جاری کر دیا گیا (تاکہ دشمنوں کو ان کی قبر کا پتہ نہ چلے اور وہ قبر کی بے حرمتی نہ کر سکیں۔) لیکن جب جناب زید ؒ کو وہاں دفن کر رہے تھے تو ان کے ساتھ ایک سندی غلام تھا ۔ وہ سندی غلام یوسف بن عمر کے پاس گیا اور اس کو جناب زید ؒ کی قبر کا پتہ بتا دیا۔یوسف بن عمر جناب زیدؒ کی قبر مبارک کے پاس آیا اور اس نے قبر کھلوا کر جنازہ کو باہر نکلوا کر سولی پر لٹکوا دیا جو چار سال تک سولی پر لٹکا رہا۔ خدا جناب زید کے قاتل اور انکی توہین کرنے والے پر ل،ع۔نت کرے۔
حوالہ جات : امالی صدوق، صفحہ ۳۵۱؛ امالی طوسیؒ، صفحہ۶۵۴؛ بحارالانوار، جلد۴۶، صفحہ ۱۷۳

ایک روایت اس طرح ہے ۔۔
حمزہ بن حمران کا بیان ہے کہ میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپؑ نے پوچھا کہ تم کہاں سے آ رہے ہو؟ میں نے عرض کیا کوفہ سے آ رہا ہوں۔ یہ سننا تھا کہ امام ؑ نے اس قدر گریہ کیا کہ آپؑ کی ریش مبارک تر ہو گئی۔ عرض کیا فرزند رسولؐ! کیوں اس قدر گریہ فرما رہے ہیں؟ فرمایا: مجھے میرے چچا زید یاد آ گئے اور ان پر پڑنے والے مصائب یاد آ گئے۔ میں بھی گریہ کنا تھا۔ حالت گریہ میں پوچھا مولا ! آپؑ کو کیا چیز یاد آئی؟ فرمایا: انکی شہادت یاد آ گئی کہ ایک تیر انکی پیشانی پر لگا تھا انکے بیٹے نے خود کو باپ پر گرا دیا اور کہا بابا جان! آپ کو بشارت ہو کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، امیرالمومنین امام علی، حضرت فاطمہ زہرا، امام حسن اور امام حسین علیہم السلام کی خدمت میں پہنچیں گے۔ جناب زیدؒ نے فرمایا، میرے بیٹے تم نے سچ کہا ایسا ہی ہوگا۔ اس کےبعد جب تیر کو پیشانی سے نکالا گیا تو آپ کی روح نکل گئی اور آپ شہید ہو گئے۔
حوالہ : امالی صدوق، صفحہ ۳۵۱

امالی شیخ طوسی کے مطابق مھزم بن ابی بردہ اسدی کا بیان ہے کہ جناب زیدؒ کو سولی دئیے ہوئے چند دن گذرے تھے کہ میں مدینہ منورہ پہنچا اور امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ جیسے ہی امامؑ کی نگاہ مجھ پر پڑی فرمایا: ائے مھزم! میرے چچا زید کا کیا ہوا؟ عرض کیا کہ انہیں سولی دے دی گئی۔ پوچھا سولی کہاں دی گئی؟ عرض کیا کہ کناسہ بنی اسد میں۔ امام صادق علیہ السلام نے پوچھا: تم نے کناسہ بنی اسد میں انہیں سولی پر دیکھا ہے؟ عرض کیا ہاں۔ یہ سننا تھا کہ امام عالی مقام نے گریہ کیا اور خواتین نے بھی گھر کے اندر گریہ کیا کہ پشت پردہ سے آواز گریہ بلند تھی۔ اس وقت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: ابھی دشمنوں کی ایک خواہش باقی ہے۔ یہ سن کر میں سوچنے لگا قتل اور سولی کے بعد کیا خواہش باقی رہ سکتی ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کو خدا حافظ کہا اور جب کناسہ کوفہ پہنچا تو دیکھا کہ لوگوں کی بھیڑ ہے۔ نزدیک گیا کہ دیکھو کہ کیا ہو رہا ہے؟ نزدیک پہنچا تو کیا دیکھا کہ لوگ جناب زید ؒکے جنازہ کو سولی سے اتار کر جلانا چاہتے ہیں۔ میں سمجھ گیا کہ یہی خواہش باقی ہے جسے امام ؑنے فرمایا تھا۔
حوالہ : امالی شیخ طوسی، صفحہ ۹۴۵

جناب زید شہید کے جسد کو جلا کر راکھ کرنے پر ان ہی کے ایک شہید بیٹے سید سبط جعفر زیدی نے یہ اشعار کہے ۔۔

حسینیت کی بقا تھے جناب زید شہید
یزیدیت کی فنا تھے جناب زید شہید
جلا کے راکھ بنایا پر روشنی نہ گئی
چراغ حق کی ضیاء تھے جناب زید شہید

والسلام، احقر سید ابوعبداللہ زیدی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے