اسلامی شخصیات
دفاعِ ولایتِ تکوینی / اختیاراتِ معصومین (ع)
بسم اللہ الرحمن الرحیم، السلام علیکم تحفہ یا علی مدد
آج کل سوشل میڈیا پر موجود کافی حلقوں کی جانب سے اختیاراتِ معصومین علیہم السلام کو لے کر کافی کنفیوژن نظر آ رہی ہے اور عجیب بات یہ ہے کہ یہ سب علیا ولی اللہ کا اقرار کرنے والے اور مراجع عظام و علماء حق کا احترام کرنے والے بھی ہیں یعنی نام نہاد خود ساختہ اخباری و نظام اجتہاد کے مخالف بھی نہیں لیکن پھر بھی نجانے کیوں ولایتِ تکوینی کے مخالف نظر آتے ہیں .. عجیب..
ایسی وہابی سوچ کا مکتبِ تشیع سے کوئی تعلق نہیں جہاں یا علی مدد اور اختیاراتِ آئمہ معصومین علیہم السلام کو یہ کہہ کر رد کیا جائے کہ یہ سب باتیں توحید کے خلاف ہیں اور توہین اللہ کا سبب ہیں (معاذاللہ)، حقیقت میں ایسے افراد کا عقیدہ توحید کمزور ہے جس میں انہیں ارتقاء کی ضرورت ہے.
اسی سلسلے میں ایک دو چینل یوٹیوب پر بھی موجود ہیں جو ہر فضائلِ اہل بیت کو غلو کا سہرا پہنا کر تقصیرِ معصومین علیہم السلام کر رہے ہیں.
اور ثناء خوانِ اہل بیت پر اپنی کم علمی کی وجہ سے غالی کے فتوے ٹھوک رہے ہیں.
ایک بات قابلِ تحسین ہے کہ ایسے یوٹیوب چینل واقعاً ان جاہل ذاکرین کو بےنقاب بھی کر رہے ہیں جو حقیقت میں غالی و نصیری افکار کا پرچار کرتے ہوئے عقائدِ امامیہ پر حملہ آور ہیں جو یقیناً بہت ضروری کام ہے لیکن شاید کم علمی کی وجہ سے جید علماء جیسے مولانا سید علی رضا رضوی (حفظ اللہ) اور کئی منقبت و نوحہ خواں حضرات جن کو میں بذات خود جانتا ہوں اور ان کے افکار و نظریات سے واقف ہوں انہیں بھی غلو کے ڈنڈے سے ہانکنے میں لگ پڑے ہیں اور ہر اشعار کو غلو کا پرچار ظاہر کر کے مومنین کے اذہان کو منتشر کرنے پر تلے ہوئے ہیں.
اگر فیس بُک پر دیکھا جائے تو یہاں بھی کچھ افراد مکمّل وہابی افکار لیے ہر فضائلِ اہل بیت کو غلو و تفویض کہہ کر جھٹلا رہے ہیں. اور فقط ان مختصر فضائلِ معصومین علیہم السلام کو حقیقی مان رہے ہیں جو مکمّل ایک صفحے پر لکھے جا سکتے ہیں جبکہ رسول اکرم (ص) ارشاد فرماتے ہیں کہ اے علی اگر پوری زمین قرطاس بن جائے، درخت قلم بن جائیں، سمندر سیاہی بن جائیں پھر بھی تمہارے فضائل کو لکھا نہیں جا سکتا…. عجیب ہے واللہ ایسے افراد کی سوچ عجیب ہے جس کا مکتبِ تشیع سے قطعاً کوئی تعلق نہیں.
اگر تمہید ہی باندھتا چلا گیا تو یقین مانیں تمہید پر ہی پوری تحریر ختم ہو جائے گی تو اب ولایتِ تکوینی کے دفاع میں تحریر کو آگے بڑھاتا ہوں.
یا صاحب الزمان (عج) المدد
میری پوری کوشش ہو گی کہ ولایت تکوینی یا اختیارات معصومین علیہم السلام جیسے عنوان پر انتہائی سادہ اور آسان الفاظ میں مطالب کو بیان کروں جبکہ یہ خاص علم الکلام کی دقیق مباحث میں سے ایک ہے اور تحریر کو جتنا ممکن ہو سکا مختصر رکھنے کی کوشش کروں گا.
سب سے پہلے ولایت تکوینی کا مختصر مگر جامع تعارف پیش کرتا ہوں.
دیکھیے مومنین، ولایت اصل میں قرب اور نزدیکی کے معنی میں ہے یعنی لفظی تعریف میں ایک چیز دوسری چیز کے پاس اس طرح سے قرار پائے کہ ان کے درمیان کوئی فاصلہ باقی نہ رہے.
اور اصطلاحی معنی میں ولایت ایسی نزدیکی اور قرب کو کہا جاتا ہے جو دوسروں کے کاموں میں خاص طرح کا تصرف و اختیار رکھے.
اور اسی ولایت کی دو قسمیں ہیں، ایک ولایت تکوینی اور دوسری ولایت تشریعی.
تکوین کہ جو لفظ "کون” سے نکلا ہے، "ہونے” کے معنی میں ہے اور "عالم تکوین” سے مراد، خلقت کا کُل نظام ہے جو اللہ تعالیٰ کی حکمت اور امر سے "وجود” میں آیا ہے۔
المختصر کہ ولایت تکوینی مخلوقات اور تکوینی امور میں تصرف کرنے کو کہا جاتا ہے جیسے خلق کرنا، مخلوقات کو باقی رکھنا اور ان میں تبدیلیاں پیدا کرنا وغیرہ وغیرہ سب اللہ تعالی کے ارادہ اور قبضہ قدرت میں ہے۔ لہذا پروردگارِ عالم سب مخلوقات پر تکوینی ولایت رکھتا ہے.
ولایت تشریعی کو اگر آسان کر کے پیش کروں تو یہ کہوں گا کہ جسے ہم شریعت کہتے ہیں جس پر عمل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے جو انبیاء کرام علیہم السلام کے ذریعے ہم تک پہنچائی گئی اسی ولایت کو تشریع، امر و نہی اور حکم دینے کا حق کہا جاتا ہے.
المختصر کہ اللہ تعالی کی ولایت تشریعی کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کسی کام کا حکم دیتا ہے اور کسی کام کے ارتکاب سے منع کرتا ہے. جسے ماننا اس کی مخلوق پر واجب ہے.
خیر میرا موضوع ولایت تشریعی نہیں بلکہ ولایتِ تکوینی ہے اور یہی ولایت تکوینی کہ جس کی اصل خود اللہ رب العزت ہے، اس نے اپنی یہ ولایت اپنے کن کن مقرب بندوں کو عطا کی ہے یعنی معصومین علیہم السلام کا اختیارِ تکوینی کہ جس پر تحریر جاری ہے.
اکثر جو اعتراض اٹھایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ ولایتِ تکوینی فقط اللہ کے لیے خاص ہے اور اس کی مخلوق کو حاصل نہیں اور جب مخلوق کو حاصل نہیں تو پھر کسی مخلوق کو ولایتِ تکوینی کا حامل ماننا توحید پر حملہ ہے.
ایسا اعتراض فقط قرآن مجید کو لفظی ترجمہ سے سمجھ کر کیا جاتا ہے جو سو فیصد کم علمی کا ثبوت ہے.
مثال کے طور پر قرآن میں اللہ فرماتا ہے کہ میں "محیی یعنی زندہ کرنے والا” ہوں مگر یہ نہیں فرمایا کہ زندہ کرنے کی طاقت کسی کو نہیں دوں گا بلکہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کو ایسی طاقت دی گئی.
علم غیب صرف اللہ کا ہے لیکن اللہ نے یہ نہیں کہا کہ میں یہ علم کسی کو عطا نہیں کروں گا بلکہ انبیا اور کتنے اولیا کو اللہ نے علم غیب عطا فرمایا، مگر وہ غیب سے مطلع ہونے میں اللہ ہی کے محتاج ہیں.
اسی طرح ولایت صرف اللہ کی ہے لیکن یہ نہیں فرمایا کہ میں کسی کو ولایت نہیں دوں گا بلکہ ولایت عطا کی اور جسے اللہ کی طرف سے ولایت ملی وہ ولایت کو استعمال کرنے میں قطعی طور پر اللہ ہی کا محتاج ہے.
اس کی آسان سی مثال یہ ہے کہ جیسے ہمارے ہاتھ پاؤں، آنکھیں، کان اور بدن کے دیگر تمام اعضاء اللہ ہی کی ملکیت ہیں مگر اللہ نے ان کو اذن اور حکم دے رکھا ہے کہ ہمارے ارادے کی فرمانبرداری اور اطاعت کریں. مگر جس حد تک اللہ نے ان کو اجازت اور حکم دیا ہے وہ اتنی ہی مقدار میں ہماری فرمانبرداری کرتے ہیں اور اس سے ذرہ برابر بھی زیادہ نہیں کرسکتے کیونکہ ہمارا بدن سب سے پہلے اللہ کا فرمانبردار ہے اس کے بعد ہمارا اور اگر ہمارے کنٹرول میں ہے تو درحقیقت اللہ ہی کی فرمانبرداری کررہا ہے، اب ہم اگر اس سے شریعتِ خداوندی کے مطابق فائدہ اٹھائیں تو ہم نے بھی اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کی ہے ورنہ ہمارے بدن نے تو اللہ کی فرمانبرداری کی ہے لیکن ہم نے گناہ کرتے ہوئے اللہ کی نافرمانی کردی ہے. لہٰذا اسی بدن پر ہمیں ولایت تکوینی حاصل ہے.
تو قارئین معصومین علیہم السلام کے پاس ولایت تکوینی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ معصومین علیہم السلام اللہ کے اذن و عطا سے کائنات کے امور میں تصرّف کرنے کا اختیار رکھتے ہیں اور معصومین علیہم السلام کے پاس ولایت تشریعی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ دین اور دنیا کے سب امور میں انہیں امت کے تمام افراد کو امر و نہی کرنے کا حق حاصل ہے اور کوئی شخص ان کے حکم کی نافرمانی نہیں کرسکتا. کیونکہ ان کی نافرمانی دراصل خدا کی نافرمانی شمار ہو گی!
مثالیں تو لاتعداد دی جا سکتی ہیں لیکن تحریر کو مختصر رکھنا بھی مقصود ہے تو یہاں اب صحیح السند روایات اور علماء تشیع کے نظریات نقل کروں گا کیونکہ کوئی بھی عام مومن اپنے علم میں ان مجتہدین سے زیادہ نہیں ہو سکتا جو اپنی پوری زندگی دین کو سمجھنے میں لگا دیتے ہیں تبھی یہی علماء غیبتِ امام (عج) میں ہم پر امام کی جانب سے حجت ہیں اور انہی کی طرف رجوع کرنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے.
تو وہ احباب جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ مجتہدین عظام کی فقط فقہ میں تقلید واجب ہے عقائد میں نہیں تو یقیناً وہ درست کہتے ہیں بے شک عقائد میں تقلید حرام ہے. لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ جس روایت و دعا کو عام مومن اردو ترجمہ پڑھ کر سمجھ رہا ہے وہ اس سے زیادہ سمجھ رہا ہے جو مجتھد اپنی تمام زندگی دین کے علم میں لگا کر سمجھا ہے؟؟
یقیناً فقہاء کا فہم ہر طرح سے عام مومن سے بلند ہے اور اگر وہ کسی بات پر اپنا نظریہ پیش کریں تو وہ زیادہ قابل قبول ہوگا.
تو آئیے ولایت تکوینی پر پہلے قرآن مجید و روایات سے مختصر دلائل پھر فقہائے تشیع کے نظریات پیش خدمت ہیں..
سورہ آل عمران میں ارشاد ہوتا ہے…
انی قد جئتکم باٰیۃ من ربکم انی اخلق لکم من الطین کھیءۃ الطیر فانفخ فیہ فیکون طیراباذن اللہ وابریء الاکمہ والابرص واحی الموتیٰ باذن اللہ وأنبئکم بما تأکلون وماتدّخرون فی بیوتکم ان فی ذلک لآیۃلکم ان کنتم مؤمنین۔‘‘(آل عمرآن۴۹)
’’میں تمھارے پروردگار کی طرف سے نشانی لیکر تمھارے پاس آیا ہوں(وہ یہ ہے کہ)میں تمھارے سامنے مٹی سے پرندے کی شکل کا مجسمہ بناتا ہوں اور اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ خدا کے حکم سے پرندہ بن جاتا ہے اور میں اللہ کے حکم سے مادر زاد اندھے اور برص کے مریض کو تندرست اور مردے کو زندہ کرتا ہوں اور میں تم لوگوں کو بتاتا ہوں کہ تم کیا کھاتے ہو اور اپنے گھروں میں کیا جمع کرکے رکھتے ہو اگر تم صاحبان ایمان ہو تو اس میں تمھارے لیے نشانی ہے۔‘
مومنین بغور جائزہ لیں یہ آیت کائنات میں تکوینی تصرف کی طرف اشارہ کررہی ہے جیسے خلق کرنا، موت دینا، زندہ کرنا، مریضوں کو شفا دینا وغیرہ لیکن ساتھ ساتھ ہم اس بات کی طرف بڑی واضح تاکید بھی دیکھتے ہیں کہ جناب عیسٰی علیہ السلام بار بار کہہ رہے ہیں کہ میں یہ کام اللہ کے اذن سے کرتا ہوں اس کی عطا کردہ قدرت سے کرتا ہوں مستقل طور پر نہیں کرتا اور بار بار اذن الہی کا تکرار اس لیے کیا تاکہ کوئی جناب عیسٰی علیہ السلام کو اولوہیت کا معتقد نہ ہوجائے.
اب یہاں بعض افراد یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ جب یہ برگزیدہ ہستیاں اپنے افعال میں مستقل نہیں ہیں یعنی اللہ کی قدرت سے انجام دیتے ہیں تو پھر یہ عمل ان کا اپنا تو نہیں ہے بلکہ اللہ کا ہے؟
لیکن یہ بات درست نہیں کیونکہ اس بات میں کوئی مانع نہیں ہے کہ فعل انجام دینے کی قدرت خدا کی طرف سے ہو مگر فعل حقیقی طور پر ان کا ہو اور ظاہر آیت اس بات پر واضح دلیل ہے کہ یہ افعال جناب عیسیٰؑ کے اپنے افعال تھے مگر ان کاموں کی طاقت خدا نے دی ہے اور اسی بات کی طرف آیت اللہ العظمیٰ ناصر مکارم شیرازی دام ظلہ نے اس آیت کے ذیل میں اشارہ فرمایا ہے
’’فاستعمال افعال مثل وابری واحیی الموتی وبضمیر المتکلم تدل علی ان ھذہ الافعال من عمل الانبیاء انفسھم وان القول بان ھذہ الافعال کانت تقع بسبب دعاءھم فقط ھوقول لا یقوم علیہ دلیل بل ان ظاھر آیات یدل علی انھم کانوایتصرفون بعالم التکوین ویقومون بتلک الافعال۔‘‘
(الامثل فی تفسیر کتاب اللہ المنزل ج۲ص۵۰۶،۵۰۷)
’’ابریء ‘‘اور ’’احیی الموتی ‘‘کے افعال کا ضمیر متکلم کے ساتھ استعمال کرنا یہ دلالت کرتا ہے کہ یہ افعال انبیاء کے اپنے افعال ہیں اور یہ کہنا کہ یہ تکوینی افعال فقط ان کی دعاؤں کا نتیجہ ہیں تو اس قول پر کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ ظاہر آیات دلالت کرتی ہیں کہ انبیاء کائنات کے تکوینی امور میں تصرف کرتے تھے اور ان امور کو خود انجام دیتے تھے۔
مزید آیات بھی ہیں جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا پرندوں کو زندہ کرنا، حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی کا واپس آنا، تختِ بلقیس کو پلک جھپکتے سامنے لانا وغیرہ جسے اسکپ کر رہا ہوں اور روایات کی جانب آ رہا ہوں.
پہلی روایت ملاحظہ فرمائیں.
عن أبي بصير قال: دخلت على أبي جعفر عليه السلام فقلت له: أنتم ورثة رسول الله صلى الله عليه وآله؟
قال: نعم، قلت: رسول الله صلى الله عليه وآله وارث الأنبياء، علم كما علموا؟ قال لي: نعم، قلت: فأنتم تقدرون على أن تحيوا الموتى وتبرؤا الأكمه والأبرص؟ قال: نعم بإذن الله،
ابو بصیر بیان کرتے ہے ایک دن میں نے امام باقر علیہ السلام سے عرض کیا مولا آپ نبی (ص) کے وارث ہیں؟ مولا نے فرمایا: ہاں
میں نے عرض کیا : رسول خدا (ص) تمام انبیاء کے وارث ہیں اور جو کچھ دوسرے انبیاء کے پاس تھا آپ کے پاس بھی تھا تو جو کچھ دوسرے جانتے تھے آیا وہ رسول خدا بھی جانتے تھے؟
امام باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ ہاں.
میں نے سوال کیا : مولا آیا آپ مردوں کو زندہ کرسکتے ہیں ؟
امام باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ ہاں لیکن اللہ کے اذن اور اجازت سے ہم مردوں کو زندہ کرسکتے ہیں.
حوالہ : اصول کافی، جلد 1، صفحہ 470، حدیث 3
دوسری روایت ملاحظہ فرمائیں :
فعن جابر الجعفی عن الاما م الباقر علیہ السلام:قلت یاابن رسول اللہ ومن المقصر؟قال الذین قصروا فی معرفۃ الأئمۃ وعن معرفۃ ما فرض اللہ علیھم من امرہ وروحہ۔قلت یا سیدی وما معرفۃ روحہ؟قال ان یعرف کل من خصہ اللہ تعالیٰ بالروح فقد فوض الیہ امرہ یخلق باذنہ ویحیی باذنہ ویعلم الغیر ما فی الضمائر ویعلم ماکان وما یکون الی یوم القیامۃ وذلک ان ھذا الروح من امر اللہ تعالیٰ فمن خصہ اللہ بھذا الروح فھذا کامل غیر ناقص یفعل ما یشاء باذن اللہ یسیر من المشرق الی المغرب فی لحظۃ واحدۃ یعرج بہ الی السماء وینزل بہ الی الارض ویفعل مایشاء واراد قلت یا سیدی اوجدنی بیان ھذا الروح من کتاب اللہ قال نعم اقراء ھذہ الآیۃ ’’وکذلک اوحینا الیک روحاًمن امرنا‘‘
جابر کہتا ہے میں نے امام محمد باقر علیہ السلام سے کہا :اے فرزند رسول ؐمقصر کون ہیں؟
فرمایا:’’ وہ لوگ جنھوں نے آئمہؑ کی معرفت میں کوتاہی کی اور اس روح کی معرفت میں تقصیر کی جسے اللہ نے آئمہ ؑ پر لازم قرار دیا ہے۔‘‘
میں نے کہا اے میرے سردار روح کی معرفت کیا ہے ؟
فرمایا:’’ہر وہ جسے اللہ تعالیٰ نے روح کے ساتھ مخصوص کیا ہے اسے ایسے پہچانا جائے کہ اللہ نے اپنا امر اسکی طرف سپرد کر دیا ہے وہ اس کے اذن سے خلق کرتا ہے اورا س کے اذن سے زندہ کرتا ہے، لوگوں کے دلوں میں پوشیدہ باتوں کو جانتا ہے۔ گذشتہ اور قیامت تک آنے والے واقعات سے باخبر ہے اس وجہ سے کہ یہ روح اللہ کا امر ہے اللہ جسے یہ روح عطا کرتا ہے وہ کامل انسان ہے۔ اللہ کے اذن سے جو چاہے وہ کرتا ہے ایک لحظہ میں مشرق سے مغرب پہنچ جاتا ہے۔ اسی روح کے ذریعہ آسمان کی طرف چڑھتا ہے اور زمین کی طرف اترتا ہے جو چاہتا ہے وہی کرتاہے۔‘‘
میں نے کہا اے میرے سردار اس روح کے بارے میں قرآن سے کوئی بیان فرمائیں تو فرمایا:
کیوں نہیں اس آیت کی تلاوت کرو
’’اور اسی طرح ہم نے آپ کی طرف اپنی روح کی وحی کی ہے۔‘‘
حوالہ : الزام الناصب، جلد ۱، صفحہ ۴۲، الھدایۃالکبریٰ صفحہ ۴۳۱، بحارالانوار، جلد ۲۶، صفحہ ۱۴۔۱۵
تیسری روایت ملاحظہ فرمائیں :
عن ابی حمزۃ الثمالی عن علی ابن الحسین علیہ السلام قال قلت لہ الائمۃ یحیون الموتی ویبرؤن الاکمۃ والابرص یمشون علی الماء؟قال مااعطی اللہ نبیا قط الا وقد اعطاء اللہ محمدا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم واعطاء ما لم یکن عندھم۔قلت وکل ماکان عند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ فقداعطاہ امیر المؤمنین علیہ السلام؟قال نعم ثم الحسن والحسین علیھما السلام بعد کل امام الی یوم القیامۃ۔
ابو حمزہ ثمالی امام زین العابدین ؑ سے نقل کرتے ہیں:’’میں نے کہا :کیا آئمہ ؑ مردوں کو زندہ کرتے ہیں مادر زاد اندھے اور برص کے مریض کو شفا دیتے ہیں اور پانی پر چلتے ہیں؟
تو امام ؑ نے فرمایا اللہ نے کسی نبی کو کوئی ایسی چیز نہیں دی ہے جو محمد ؐکو عطا نہ کی ہو بلکہ جو کچھ رسول خدا ؐکو عطا کیا وہ باقی انبیاء ؑ کے پاس نہیں ہے۔
میں نے کہا جو کچھ رسول اللہ ؐکے پاس ہے کیا وہ رسول خدا ؐنے امیرالمؤمنین ؑ کو عطا کیا ہے؟
فرمایا:ہاں پھر امیر المؤمنین ؑ کے بعد امام حسن ؑ و حسین ؑ کو عطا کیا اور پھر ان کے بعد قیامت کے دن تک ہر امام کے پاس وہ سب کچھ ہے جو رسول خدا ؐ کے پاس تھا۔‘‘
حوالہ : بصائر الدرجات الکبریٰ، جلد ۲، صفحہ ۱۵
چوتھی روایت ملاحظہ فرمائیں جسے صاحب بصائر الدرجات نے جزءالخامس کے صفحہ ۲۱۲ پر صحیح السند سے ذکر کیا ہے
عبداللہ بن بکیر کہتا ہے کہ میں امام صادقؑ کے پاس تھا پس جناب سلیمانؑ کا تزکرہ ہوا اور انہیں جو علم اور سلطنت عطاء کی گئی تھی اس کا تزکرہ ہو ا تو امامؑ نے فرمایا سلیمان بن داؤودؑ کو ایک حرف اسم اعظم کا عطاء کیا گیا تھا اور تمہارے صاحب (امیرالمومنین) جس کے بارے میں اللہ نے کہا ’’ اے میرے جیب کہہ دیجیے میرے اور تمہارے درمیان گواہی کیلئے اللہ اور وہ جس کے پاس کتاب کا علم ہے کافی ہے ۔
خدا کی قسم علیؑ کے پاس پوری کتاب کا علم تھا میں نےکہا میں آپ پہ قربان جاؤں آپ نے سچ فرمایا.
اب تحریر کے اختصار کو ملحوظ رکھتے ہوئے اور اپنے پنجتنی ہونے کی نسبت سے پانچویں اور آخری روایت پیش کر رہا ہوں ورنہ اس سلسلے میں لا تعداد صحیح السند روایات موجود ہیں اور آخر میں سند پر مختصر بحث کر کے فقہائے تشیع کے نظریات بیان کرتا ہوں..
یونس بن ظبیان والمفضل ابن عمر وابی سلمۃ السراج والحسین بن ثویر بن ابی فاختۃ قالو اکنا عندابی عبد اللہ فقال ’’ لنا خزائن الارض ومفاتیحھا ولو شئت ان اقول باحدی رجلی اخرجی مافیک من الذھب لا خرجت ،، قال فقام باحدی رجلیہ فخطھافی الا رض خطاًفان فجرت الارض ثم قام بیدہ فاخرج سبیکۃ ذھب قدر شبر فتنا ولھا فقال انظروافیھا حسا حسنا لا تشکو اثم قال انظر وافی الارض فاذاسبائک فی الارض کشیر بعضھا علی بعض یتلألأ ْ فقال لہ بعضنا جعلت فداک اعطیتم کل ھذا و شیعتکم محتا جون ؟ فقال ان اللہ سیجمع لنا و لشیعتنا الدنیا والاخر ۔ۃ ید خلھم جنات النعیم وید خل عدونا الجحیم ۔،،
مومنین کی ایک جماعت کہتی ہے ہم امام صادقؑ کی خدمت میں تھے امامؑ نے ہمیں کہا زمین کے خزانے اور ان کی کنجیاں ہمارے پاس ہیں اگر میں چاہوں تو اپنی ایک ٹانگ کو حکم دوں کہ جو کچھ تیرے اندر سونا ہے اسے نکال دو تو میری ٹانگ میرے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے سونے کو باہر نکال دے پس امامؑ نے اپنی ایک ٹانگ کواٹھایا اور زمین پر خط کھینچا پس زمین شگافتہ ہوگئی امامؑ نے اپنا دست مبارک زمین میں داخل کیا پس ایک بالشت چوڑی سونے کی ڈلی کو باہر نکالا اور اس کو ہاتھہ میں پکڑا اور کہا اس کو اچھی طرح دیکھو اور شک نہ کرو ۔
پھر فرمایا زمین میں نگاہ کرو جب ہم نے زمین میں نگاہ کی تو زمین کے اندر بہت زیادہ سونے کی ڈلیاں دیکھیں جو ایک دوسرے پر چمک رہی تھیں. ہم میں سے کچھ افراد نے کہا مولا اتنا کچھ آپ کو اللہ نے عطاء کیا اور آپ کے شیعہ پھر بھی محتاج ہیں تو فرمایا :
’’عنقریب اللہ ہمارے شیعوں کے لئے دنیا اور آخرت کو اکٹھا کر دے گا اور شیعوں کو نعمتوں بھری جنت میں داخل کرے گا اور ہمارے دشمنوں کو جہنم میں داخل کرے گا ۔،،
سند پر مختصر بحث :
یہ روایت سند کے اعتبار سے معتبر ہے کیونکہ صاحب بصائر محمد بن الحسن الصفار ثقہ ہیں ۔ احمد بن محمد اس سے مراد ماتو ابن عیسی ہیں یا ابن خالد البرقی ہے اور دونوں ثقہ ہیں عمر بن عبدالعمزیر ابن ابی بشار ہے جو زحل کے نام سے معروف ہے اور آغا خوئی نے اس کو ثقہ کہا ہے اس نے الحمیری سے روایت کی ہے. جس کا نام ثقہ الجلیل عبداللہ بن جعفر الحمیری ہے اس نے حسین بن ثویر بن ابی فاختہ سے روایت کی ہے جو ثقہ ہے.
حوالہ : بصائرالدرجات، جلد ۸، باب ۲، حدیث ۱
یہ کچھ روایات معصومین علیہم السلام کو حاصل ولایت تکوینی پر تھیں جبکہ ولایتِ تشریعی بھی معصومین علیہم السلام کا خاصہ ہے جس پر لاتعداد روایات موجود ہیں جنہیں یہاں پیش نہیں کر رہا کیونکہ یہاں تحریر کا عنوان ولایت تکوینی ہے.
زندگی کے ساتھ توفیق رہی تو پھر کبھی معصومین علیہم السلام کے تشریعی اختیار پر لکھوں گا..
اب ان عظیم فقہائے تشیع میں سے کچھ کے نظریات یہاں قلمبند کر رہا ہوں تاکہ وہ نادان مومنین جو فقط اردو ترجمے سے حدیث کو سمجھ کر معصومین علیہم السلام کے اختیارات کا انکار کر دیتے.. ان کو یہ باور کروا سکو کہ آپ ان عظیم علماء و مجتہدین سے زیادہ حدیث شناسی اور دینی ادراک نہیں رکھتے..
تو ملاحظہ فرمائیں فقہائے تشیع کے ولایتِ تکوینی پر نظریات :
– ولایت تکوینی پر رھبر معظم آیت اللہ خامنہ ای کا نظریہ
آیت اللہ خامنہ ای ولایت فقیہ کی بحث میں ایک جگہ فرماتے ہیں
ولی فقیه، ولایت تکوینی ندارد. این امر اختصاص به معصومین(ع) دارد
ترجمہ :
ولی فقیہ ولایت تکوینی نہیں رکھتا، یہ امر صرف معصومین علیہم السلام سے مخصوص ہے.
حوالہ : https://farsi.khamenei.ir/news-content?id=27304
– آیت اللہ العظمیٰ سیستانی کا نظریہ
سوال : از معصومین علیهم السلام مستقیما کمک خواستن جایز است با اینکه اعتقاد این است که خدا این قدرت را به آنها داده است؟
جواب: از آنجایی که ما معتقدیم ایشان ولي خدا است و به استقلال نمی تواند کاری انجام | دهد با این اعتقاد به هر نحو توسل کردن جایز است.
ترجمہ :
سوال : کیا معصومین سے براہ راست مدد مانگ سکتے ھیں جبکہ یہ عقیدہ ہو کہ انھیں یہ قدرت اللہ ہی نے عطا کی ہے۔؟
جواب:
بسمه تعالی
جیسا کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ یہ ولی خدا ہیں اور خدا سے جدا گانہ کچھ بھی انجام نہیں دیتے اگر اس عقیدے سے ہو تو ہر طرح کا توسل جائز ہے.
دوسرا فتویٰ..
78 السؤال:
ما هو رأيكم الشريف في المقولة التي تقول : أن الأئمة عليهم السلام يخلقون ويرزقون بإذن الله ، فقد أثارت الجدل ؟
الفتوى:
الاعتقاد بذلك ليس بواجب ، ولا وجه لإثارة الجدل فيه بعد فرض كونه بإذن الله تعالى.. وكل إنسان يمكنه أن يخلق ويرزق بإذن الله تعالى ، بل هو أمر واقع ، فكل ما يصنعه الانسان مخلوق له بإذن الله ، قال الله تعالى في سورة المائدة آية 110 ( وإذا تخلق من الطين كهيئة الطير بإذني ) وكل من ينفق عليه الانسان ، فهو مرزوق له .
حوالہ : كنز الفتاوى/فتاوى السيد السيستاني – /مسائل متنوعة/مسائل متنوعة – 3
ترجمہ :
سوال: اس قول کے بارے میں آپ کی رائے ہے کہ ائمہ علیہم السلام خلق کرتے ہیں اور رزق بانٹتے ہیں اللہ کے اذن سے۔ اس بات کی وجہ سے مومنین کے درمیان بہت زیادہ بحث و تکرار ہوتی ہے؟
فتوی: اس بات کا عقیدہ رکھنا واجب نہیں ہے اور کوئی وجہ نہیں بنتی کہ اس عقیدہ کی وجہ سے بے جا بحث و تکرار کی جائے اس فرض کو مان لینے کے بعد کہ اگر ائمہ علیہم السلام یہ کام کرتے بھی ہیں تو اللہ کے اذن اور اجازت سے کرتے ہیں بلکہ ائمہ تو کیا ہر انسان کے لئے ممکن ہے کہ وہ اللہ کے اذن سے خلق کرے اور رزق دے بلکہ یہ تو وہ بات ہے جو واقع ہو چکی ہے پس انسان جو کچھ بھی بناتا ہے وہ اس کی مخلوق ہے لیکن اللہ کے اذن سے۔ سورہ مائدہ کی آیت نمبر 110 میں اللہ سبحانہ ارشاد فرماتا ہے: اور اس وقت کو یاد کرو جب تم میرے اذن مٹی سے پرندہ کی شکل جیسی ہیئت بناتے تھے اور اسی ہر وہ شخص جس پر انسان انفاق اور خرچ کرتا ہے وہ خرچ کرنے والے انسان سے رزق پا رہا ہے پس وہ رازق ہوا اور یہ مرزوق (لیکن اللہ کے اذن سے).
آیت اللہ سیستانی تو عام افراد کے لئے اذن پروردگار سے ان امور کو مان رہے ہیں، معصومین علیہم السلام کی تو بات ہی اور ہے.
– آیت اللہ شیخ حافظ بشیر نجفی ایک استفتاء کے جواب میں فرماتے ہیں
سوال: باب الحوائج سے کیا مراد ہے؟ نیز کیسے یہ حضرات مشکلات کو حل کرتے ہیں تفصیلاً ارشادفرمائیں۔
جواب: بسمه سبحانه ! خداوند عالم نے بعض معصومین کو اور بعض صالحین کو عزت اور کرامت سے نوازہ ہے ۔اور ان کو صلاحیت عطا فرمائی ہے کہ مؤمنین کے لیے خدا سے شفاعت کے ذریعے ان کی حاجتیں اور یہ معنی ہے باب الحوائج کا۔اور اس سے یہ بھی واضح ہو گیا کہ یہ کیسے مشکلات کوحل کرتے ہیں ۔ واللہ العالم
– معصومین کی ولایت تکوینی سے متعلق آیت اللہ شیخ جوادی آملی کا نظریہ
آیت اللہ جوادی آملی کتاب : علی مظہر اسای حسنای الہی میں فرماتے ہیں کہ ”ولی“ اللہ کے اسماء فعلیہ میں سے ہے۔ بعض ہستیاں اس مقام تک
پہنچ جاتی ہیں جہاں اللہ تعالیٰ کی ولایت کا مظہر بن جاتی ہیں۔
امیر المومنین (ع) تکوین اور تشریع میں اسم ’’ولی” کا مظہرِ اتم اور اکمل ہیں۔ لہذا آپ کائنات میں تصرف کرتے ہیں۔ زمین اور آسان کی طاقتیں
ان کے اختیار اور قبضے میں ہیں ۔۔
حوالہ : کتاب:على مظهر اسمای حسنای الهی-ص ۲۲
– معصومین کی ولایت تکوینی سے متعلق آیت اللہ شیخ فاضل لنکرانی کا نظریہ
جس طرح معصومین کیلئے ولایت تشریعی ثابت ہے ویسے ہی ولایت تکوینی بھی ثابت ہے۔ یہ موت و حیات اور شفا دینے اور غنی کر نے پر خدا کے اذن سے قادر ہیں اور خدا نے انہیں یہ قدرت اس طرح عطا کی ہے کہ
خود اسکی قدرت اور استقلال کا کمال محفوظ ہے۔ایسا عقیدہ رکھنا کفر کا مستلزم نہیں بلکہ یہ تو کمال توحید ہے۔ اس صیح عقیدے کا معتقد یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ قدرت الہی کا دائرہ محدود نہیں ہے اور خدا جس طرح خود موت وحیات پر قادر ہے ایسے ہی وہ دوسروں کو بھی یہ قدرت بخشنے پر قادر ہے ۔
خدا کا اپنی برتری کو محفوظ رکھتے ہوئے کسی کو اس برتری سے نوازنا
دراصل خود اسکی اپنی برتری ہے ۔۔
آیت الله فاضل لنکرانی مزید بیان کرتے ہیں کہ
ولایت تکوینی کے اعتقاد کو شرک کہنے کا فساد واضح ہے کیونکہ شرک اس وقت ہوگا جب ذات ، فعل یا عبادت میں اتحاد رتبہ کا دعوی کیا جائے اور ہم اپنے آئمہ کے بارے میں ایسا اعتقاد نہیں رکھتے اور یہ عقیدہ کسی صورت شرک کی طرف نہیں پلٹتا ۔
کیونکہ ان کی قدرت اللہ کی قدرت کے تابع ہے اور یہ خدا کی قدرت کے عرض میں واقع نہیں ہوتی ۔ جیسے وکیل کی قدرت موکل کی قدرت کے ( عرض میں نہیں بلکہ اس کے ) طول میں ہوتی ہے.
سب سے زیادہ تعجب خیز بات تو تشیع میں واردات داخل کرنے والے ان افراد کی بات ہے جو امامت کا اعتقاد تو رکھتے ہیں لیکن دوسروں پر آئمہ علیہم السلام کی فضیلت کے قائل نہیں ہیں اور سمجھتے ہیں کہ آئمہ علیہم السلام کا امتیاز فقط استجابت دعا میں ہے اور وہ مذکورہ امور میں سے کسی پر قادر نہیں ہیں۔ جب عیسٰی علیہ السلام خدا کے اذن سے مردوں کو زندہ کرنے پر قادر ہیں تو امام اس پر کیسے قادر نہ ہوں گے ؟؟ اس اعتقاد کو شرک کہنے کا فساد واضح ہے۔
حوالہ : الأسئلة الاعتقادية التي أجاب عنها مكتب سماحة آية الله الشيخ فاضل اللنكراني
http://www.lankarani.com/ara/stf/index.php
– معصومین کی ولایت تکوینی سے متعلق آیت اللہ شیخ علی پناہ اشتہاردی کا نظریہ
بعض لوگوں کو جو یہ وہم لاحق ہے کہ آئمہ معصومین ولایت تشریعیہ تو رکھتے ہیں ولایت تکوینیہ نہیں تو میری نظر میں یہ ایک باطل اور بے فائدہ بحث ہے اور اس وہم کو لاحق ہونے کی وجہ حقیقتِ نبوت و امامت کو درک نہ کرنا ہے اور خدا کی درست معرفت سے محروم رہنا ہے ۔۔
حوالہ : حقیقت معجزه از انبیاء و آئمه معصومین، صفحه 44,43
– آیت الله سید محمد حسینی شاهرودی أجوبة المسائل الأعتقادية میں فرماتے ہیں:
ولایت تکوینی یہ ہے کہ خدا نے اپنی قدرت سے آئمہ اور انبیاء کو عالم اور اسکی موجودات میں ہر قسم کے تصرف سے نوازا ہے۔ پس یہ اذن الہی سے مردہ کو زندہ کرنے اور مریض کو شفا دینے پر قادر ہیں اور فقط ایسا نہیں ہے کہ یہ دعا کرتے ہوں اور خدا اسے قبول کرلیتا ہے بلکہ یہ تو ہر مومن کی شان ہے ، ان معصومین کے لئے تو یہ ایک قدرت ہے جو انھیں خدا نے عطا کی ہے.
جو لوگ آئمہ علیہم السلام کی ولایت تکوینی انکار کرتے ہیں وہ شیعیت کی حقیقت اور اس کے مسلمات سے واقف نہیں ہیں ، بلکہ نہ وہ آیات قرآنی سمجھے ہیں اور نہ ان کا کامل اور دقیق فہم حاصل کر سکے ہیں۔۔
حوالہ : أجوبة المسائل الأعتقادية صفحه 110، آیت الله سید محمد حسینی شاهرودی
– معصومین کی ولایت تکوینی سے متعلق آیت اللہ سیّد مهدی حسینی مرعشی کا نظریہ
مسئلہ ولایت تکوینی ہم شیعوں کے در میان متفقہ مسائل میں سے ہے اور یہ آئمہ معصومین کیلئے ایک ثابت شدہ چیز ہے۔۔
حوالہ : إن مسألة الولاية التكوينية من المسائل المتفق عليها بيننافي كونهاثابتة لهم عليهم السلام، اجوبة الشبهات البيروتيه، سوال نمبر٩
– حضرت فاطمة الزهرا کا علم لدنی اور ولایت تکوینی
آیت الله شیخ لطف اللہ صافی گلپایگانی فرماتے ہیں کہ حضرت فاطمہ زہرا علیہ السلام کائنات کی خواتین اور جنت کی خواتین کی سردار ہیں قرآن کے ہم پلہ ہیں اور مراتب اور درجات اور ولایت تکوینی اور علم لدنی کے اعتبار سے تمام معصومین علیہم السلام کے مثل اور برابر ہیں ۔۔
اوسيدةنساءالعالمين وسيدة نساءاهل الجنه است، وعدل قرآن مجیدودرمقامات ودرجات ولايت تكويني وعلم لدني باساير معصومين عليهم السلام همانندوهمطرازاست
حوالہ: کتاب معارف دین جلد دوم،سوال نمبر 22، آیت الله العظمی لطف الله صافی گلپایگانی
– امام زمانہ کی ولایت تکوینی سے متعلق آیت اللہ سید محمد صادق روحانی سے ایک استفتاء
سوال: آئمہ علیہم السلام کی ولایت تکوینی کے بارے میں جناب عالی کی کیا راۓ ہے؟
اگر یہ ثابت ہو جائے کہ آئمہ علیہم السلام ولایت تکوینی رکھتے ہیں تو کیا اس کے معنی یہ ہیں کہ حضرت امام مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف دنیا کے ظاہری امور پر خداوند عالم سے جدا ہوۓ بغیر انقیار رکھتے ہیں یا اس کے معنی یہ ہیں کہ امام علیہ السلام فقط ظواہر کے بارے میں باخبر ہیں لیکن ان امور میں
دخالت اور تصرف نہیں کر سکتے ؟
جواب: بسمه تعالی
کوئی شک نہیں کہ چہادرہ معصومین علیہم السلام کہ جن میں امام مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف بھی شامل ہیں، ولایت تکوینی رکھتے ہیں لیکن اس ولایت کو کس طرح اجراء اور نافذ کرتے ہیں اس کے بارے میں یا اللہ جانتا ہے یا یہ ہستیاں جانتی ہیں۔
حوالہ: پایگاه اطلاع رسانی دفتر حضرت آیت الله العظمی روحانی
– آیت الله شیخ لطف الله صافی گلپائیگانی کا ولایت تکوینی پر مؤقف
احادیث و روایت متواترہ وکثیرہ جو سنی و شیعہ دونوں نے نقل کی ہیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ رسوا اللہ اور آئمہ اطہار اس ولایت ( تکوینی و اذن الہی کے حامل ہیں اور خارق العادۃ امور کے تحت بہت سے مقامات پر ان کا کائنات میں تصرف کر نا تاریخ کے مسلم حقائق میں سے ہے اور اسکا انکار عقلمندانہ کام نہیں کیونکہ خدا کی جانب سے اس ولایت ( تکوینی ) کے عطا کر نے پر اعتراض ،ایک بڑی گستاخی اور خلاف تسلیم کام ہے جو جہالت اور بے معرفتی کا عکاس ہے۔۔
حوالہ : ولایت تکوینی و ولایت تشریعی صفحه 99.آیت الله شیخ لطف الله صافی گلپائیگانی
– مخلوقات پر حضرات معصومینؑ کی ولایت تکوینی پر آیت اللہ سید ابوالقاسم الموسوی الخوئی کا نظریہ
پس جبیسا کہ ظاہر ہے کہ تمام مخلوقات پر معصومین کی ولایت کے ہونے میں کوئی اعتراض نہیں جیسا کہ روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایجاد میں واسطہ ہیں اور وجود میں بھی اور یہی ہیں جو خلق کا سبب ہیں کیونکہ اگر یہ نہ ہوتے تو تمام انسان بھی خلق نہ ہوتے۔ بحقیق یہ ان کے واسطے سے خلق ہوئے ہیں اور ان کا وجود انہی سے ہے اور یہی واسطہ فیض ہیں بلکہ خالق کے علاوہ باقی سب پر ان کی لیے ولایت تکوینی ہے اور یہ ولایت خلق پر خدا کی ولایت کے اسلوب سے ہے۔۔
حوالہ : مصباح الفقاهة – السيدالخوئي جلد 3 الصفحة 279
– امام زمانہ کی ولایت تکوینی سے متعلق شیخ بہائی کا نظریہ
شیخ بہائی رسالہ قصیدہ وسیلة الفوز و الامان في مدح صاحب الزمان میں کہتے ہیں:
امام زمانہ ، اللہ کے خلیفہ اور کائنات عالم میں ہر شخص پر اللہ کا سایہ ہیں ۔ کائنات کے علوم آپ کے پہلو میں اس طرح ہیں جس طرح چلو میں پانی ہوتا ہے۔ کائنات کا ہر نور آپ کی وجہ سے ہے اور کونین کو روشنی آپ ہی عطا کرتے ہیں۔ یہ وہ کریم ہیں جو ہر حاجت مند کی حاجت روائی کرتے ہیں اور حتی کہ گونگے کو بولنے کی طاقت عطا کرتے ہیں۔
– ولایت تکوینی کو مان کر ہی معصومین کی شان میں غلو و تقصیر سے بچا جا سکتا ھے ۔۔۔ آیت اللہ شیخ فاضل لنکرانی
ہم آئمہ معصومین کی ولایت تکوینی کے قائل ہیں لیکن یہ ولایت خدا کی اذن سے ہے ، کوئی بھی شیعہ عالم اور فقیہ ایسا نہیں ہے جو یہ بتائے کہ ہم مستقل طور پر ( بغیر اذن و ارادہ خدا کے ) آئمہ کی ولایت تکوینی کے قائل ہیں ۔ دشمن جہالت ، عناد اور شیعہ دشمنی میں شیعوں سے یہ نامناسب نسبت دیتا ہے لیکن ہم آئمہ اطہار (ع) کی ولایت تکوینی اور ان کے علم ما كان ومايكون کو قبول کرتے ہیں لیکن اذن خدا سے اور یہی درمیانی راستہ ہے.
اسی درمیانی راستہ کو انتخاب کرنے کے بارے میں ہمارے آئمہ معصومین نے بہت سفارش کی ہے، ہمیں اعتقاد میں معتدل ہونا چاہیئے نہ غلو کریں اور نہ تقصیر ۔
حوالہ: درس خارج اصول فقہ میں 09/07/1993 کوحضرت امام محمد باقر علیه السلام کی شخصیت کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے حضرت آیت الله شیخ فاضل لنکرانی کاخطاب
– اللہ کے اذن سے آئمہ معصومین کے معجزات اور ولایت تکوینی ،استفتاء آیت اللہ سید محمد صادق روحانی
استفتاء: کیا کوئی ایسی روایت ہے جس میں بیان کیا گیا ہو کہ آئمہ اطہار علیہم السلام میں سے کسی امام نے مردے کو زندہ کیا ہو ؟
جواب: بسمه تعالی ، ایسی بے شمار روایات موجود ہیں جو آئمہ اطہار علیہم السلام سے بعض ایسے افعال کے صادر ہونے کو بیان کرتی ہیں جو امام کی ولایت تکوینی کے تقاضے کے مطابق ہیں ان افعال میں سے ایک فعل مردے کو زندہ کرنا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ اہم افعال آئمہ اطہار علیہم السلام سے صادر ہوئے ہیں جیسے کہ امام رضا علیہ السلام کے فقط ایک اشارے سے تصویر میں بنے شیر کا زندہ شیر میں تبدیل ہو جانا۔
نقل ہوا ہے کہ ایک پردے پر چند شیروں کی تصویریں بنی ہوئی تھیں خلیفہ وقت جو کہ اہل بیت علیہم السلام کے مقام خلافت کو غصب کر کے تخت نشین تھا اس نے کچھ جادوگروں کو جمع کیا اور چاہتا تھا کہ جادو گر اپنے جادو سے کچھ ایسے افعال امام علیہ السلام کے ساتھ انجام دیں جس سے لوگوں کی نگاہ میں ان کی بے حرمتی ہو اور لوگوں کی نگاہوں سے ان کا مقام و مرتبہ گر جائے ۔
امام رضا کے ایک اشارے سے تصویر میں بنے ہوئے شیر اللہ کے اذن سے اصلی شیر میں تبدیل ہو گئے جنہوں نے جادو گروں پر حملہ کیا اور انہیں سب کی نگاہوں کے سامنے نگل گئے اور پھر دوبارہ اسی طرح سے شیر کی تصویر میں تبدیل ہو گئے۔
اس کے علاوہ بھی دیگر آئمہ علیہم السلام سے ایسی ہی کرامات ظاہر ہوئی ہیں۔ مزید مطالعہ کے لئے کتاب القطرہ یا اس کے ترجمہ کی طرف رجوع کریں۔
حوالہ : پایگاه اطلاع رسانی دفتر حضرت آیت الله العظمی روحانی
– چهارده معصومین (ع) کی ولایت تکوینی پر آیت اللہ محمد علی اراکی کا نظریہ
معصومین کی ولایت تکوینی سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی نے انہیں اپنی قدرت کاملہ کا مظہر بنایا ہے اور تمام امور کا قبض و بسط ان کے ہاتھوں میں اس طرح دے دیا ہے کہ تمام اشیاء پر انہیں قدرت عطا کر دی ہے اور کائنات کی ہر چیز پر انہیں تصرف عطا کر دیا ہے.
يفعلون مايشاؤن ويحكمون مايريدون
آپ جو چاہتے ہیں انجام دیتے ہیں اور جس چیز کا ارادہ کرتے ہیں اس کا حکم دیتے ہیں.
حوالہ : ولایت تکوینی چهارده معصومین۔۔ یادنامه آیت الله العظمی اراکی۔ آیت الله استاد رضا استادی صفحہ٤٠٥ تا ٤١٢
اب آخر میں علامہ مجلسی (رح) کا ولایت تکوینی پر نظریہ پیش کر کے حاصل کلام پر تحریر کو ختم کرتا ہوں
– معصومین کی ولایت تکوینی سے متعلق علّامہ مجلسی کا نظریہ
آیت اللہ شہید دستغیب شیرازی اپنی کتاب هشتاد و دو پرسش میں لکھتے ھیں کہ علامہ مجلسی نے بحار الانوار میں حضرت امیر المومنین (ع) سے متعلق ایک بحث کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے :
امیر المومنین متفرق مقامات پر اپنے جسم اصلی و مادی سے نہیں گئے بلکہ اپنے جسم مثالی سے تمام مقامات پر حاضر ہوئے ۔ جسم مثالی انتہائی لطیف ہوتا ہے اور شکل و صورت میں جسم مادی کی مکمل شبیہ ہوتا ہے۔ عالم برزخ میں ارواح کا تعلق بھی اسی جسم مثالی سے ہوتا ہے اور ولایت کلیہ کے حامل حضرات کو اللہ تعالی نے یہ قدرت عطا کی ہے کہ وہ ایک ہی وقت میں بدن مثالی کے ساتھ مختلف مقامات پر حاضر ہو سکتے ہیں اور جس عمل کا ارادہ کریں اور جہاں ارادہ کریں اسے سرانجام دے سکتے ہیں۔۔“
حوالہ : هشتاد و دو پرسش، صفحه 87,86 آیت الله شهید دستغیب شیرازی جواب حاضر هے ، صفحه 107,106
یہی اب فقہائے تشیع کے نظریات کا بیان روکتا ہوں ورنہ تحریر مزید طول پکڑ لے گی..
آخر میں کچھ باتوں کی وضاحت کرنا ضروری ہے اور وہ یہ کہ بعض حضرات ولایت تکوینی کے بارے میں یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ معصومین علیہم السلام سے خارق عادت فعل یا تو معجزے سے ہوتا ہے یا اس کے علاوہ دعا کی صورت میں صادر ہوتا ہے معصومؑ دعا کرتے ہیں تو خدا انکی دعا کو قبول کرتا ہے.
لیکن حقیقت یہ ہےکہ جیسا آیات قرآنی اور روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ولایت تکوینی استجابت دعا کی ایک قسم نہیں بلکہ ولایت تکوینی اور مستجاب دعامیں فرق ہے یہ دونوں ایک نکتہ میں جمع ہوتے ہیں اور ایک نکتہ میں جدا ہوتے ہیں ۔ دونوں جس نکتہ میں جمع ہوتے ہیں وہ یہ ہے کہ ولایت تکوینی کے نیتجے میں بھی خارق عادت فعل رونما ہوتا ہے اور دعا کے نیتجے میں بھی خارق عادت فعل رونما ہوتا ہے لیکن جہاں ولایت تکوینی اور دعا ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں وہ یہ ہے کہ ولایت تکوینی میں تصرف کرنے والی ذات خود وہ معصوم ہستی ہوتی ہے مگر اللہ کے اذن سے یعنی اس کی عطا کردہ قدرت کے ساتھ تصرف کرتی ہے جبکہ دعاء مستجاب میں تصرف کرنے والی ہستی معصوم نہیں ہوتی بلکہ تصرف خدا کرتا ہے معصوم فقط طلب کرتا ہے.
یہ بھی یاد رکھیں کہ معصومین علیہم السلام نے تکوینی تصرف نہ چیلنج کی صورت میں کیا نہ اپنے منصب کو ثابت کرنے کے لیے یعنی معجزہ دکھانا اور نہ ہی ہر جگہ دعا کا استعمال کیا اور اسی کو ولایت تکوینی کہتے ہیں.
ولایت تکوینی سے قطعاً یہ بھی مراد نہیں کہ معصومین علیہم السلام ہی اس وقت خلق کر رہے ہیں وہی رزق دے رہے ہیں اور وہی مردہ کو زندہ کرتے ہیں ، وہی زندوں کو موت دیتے ہیں وغیرہ وغیرہ بلکہ ولایت تکوینی سے مراد یہ ہے کہ خدا نے اپنے اولیاء کو کائنات میں تکوینی تصرف کرنے کی قدرت دی ہے اور وہ تکوینی تصرف اور مصلحت کو مدنظر رکھتے ہوئے انھوں نے تکوینی تصرفات کیے بھی ہیں اور یہی عقیدہ آیات قرآنی واحادیث معصومینؑ اور علماء امامیہ کے اقوال و نظریات سے سمجھا گیا ہے اور اس عقیدے کا مالک مومن ہرگز مشرکانہ عقیدے کا حامل نہیں اور نہ ہی ایسا عقیدہ رکھنے سے انسان مفوضہ وشخییت میں سے شمار ہوتا ہے بلکہ ایسا عقیدہ رکھنے والا انسان ہی حقیقی موحد ہے جو توحیدِ افعالی کی بارکیوں کو سمجھتا ہے.
والسلام،
احقر #ابوعبداللہ
رابطہ : Abu Abdullah