Connect with us

اسلامی شخصیات

فضائل امام صادق علیہ السلام

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

علماء تشیع

آیت اللہ مصباح یزدی کا تعارف

مختصر تعارف

محمد ‌تقی مصباح یزدی سنہ ۱۳۱۳ شمسی بمطابق ۱۹۳۴ء کو پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی دینی تعلیم کو یزد میں مکمل کیا اور اعلیٰ تعلیم کیلئے نجف تشریف لے گئے۔ البتہ سخت مالی مشکلات کے باعث مجبور ہو کر نجف کو چھوڑنا پڑا اور مزید تعلیم کیلئے قم تشریف لے آئے۔ آپ قم کے بزرگ اساتذہ سے کسب فیض کرنے کے ساتھ ساتھ علمی، سیاسی اور تربیتی سرگرمیوں میں مشغول ہو گئے۔ آپ نے ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے اور کامیابی کے بعد امام خمینیؒ کی حمایت اور ترغیب سے کئی یونیورسٹیاں، مدارس اور انسٹی ٹیوٹ قائم کیے۔[۱] وفات سے قبل تک آپ مجلس خبرگان رہبری اور شورائے عالی انقلاب فرہنگی کے رکن تھے جبکہ امام خمینیؒ تعلیمی و تحقیقاتی انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ تھے۔

 

اساتذہ

آیت ‌اللہ مصباح یزدی نے اپنے زمانہ طالب علمی میں بہت سے اساتذہ سے کسب فیض کیا کہ جن میں سے چند کے نام یہ ہیں:

حاج‌ شیخ‌ محمدعلی‌ نحوی‌، (یہ استاد حوزہ یزد میں آپ کو خصوصی وقت دیتے تھے۔ آیت اللہ مصباح یزدی نے عربی ادبیات اور مقدماتی دورے کا بڑا حصہ ان کے پاس مکمل کیا)

شیخ‌ عبدالحسین‌ عجمین، سید علی ‌رضا مدرّسی‌ (شرح لمعہ اور رسائل کے کچھ حصے ان سے پڑھے)

حاج‌ میرزا محمد انواری‌ (قوانین کا کچھ حصہ ان سے پڑھا)

حاج ‌آقا مرتضی‌ حائری‌ (مکاسب کے دروس کیلئے ان کی خدمت میں حاضر ہوئے)

شیخ‌ عبد الجواد جبل ‌عاملی‌ ( کفایۃ الاصول کی جلد اول ان کے پاس مکمل کی)

امام‌ خمینیؒ‌ (اصول کا درس خارج امامؒ سے پڑھا)

آیت ‌اللہ بروجردی‌ (فقہ کے درس خارج میں شرکت کی)

علامہ سید محمد حسین‌ طباطبائی ( تفسیر و فلسفہ کی تعلیم علامہ سے حاصل کی)

آیت ‌الله بہجت (۱۵ سال تک آیت اللہ بہجت کے درس میں شرکت کی)

آیت ‌اللہ خوئی جب نجف میں تھے تو آیت اللہ خوئی کے درس میں شرکت کرتے تھے۔

علامہ سید علی فانی ( نجف میں اصول فقہ علامہ سے پڑھی)

 

تدریس

آیت اللہ مصباح یزدی کی ایک اہم فعالیت آپ کی تدریس تھی۔ مثلا آپ نے مدرسہ حقانیہ اور مؤسسہ راہ حق میں شہید صدر کی کتب «فلسفتنا» اور «اقتصادنا»، علامہ طباطبائیؒ کی کتاب «نهایة‌ الحکمه‌»، ملا ہادی سبزواری کی کتاب «اسفار اربعه‌» اور بو علی سینا کی کتاب «شفا» کی تدریس کی۔

 

شاگرد

آیت اللہ مصباح یزدی کا حوزات علمیہ میں ایک اہم اثاثہ آپ کے لاتعداد شاگرد ہیں کہ جن میں سے بڑے نام یہ ہیں:

غلام رضا فیاضی، ‌ محمود رجبی، ‌مرتضی‌ٰ آقا تہرانی، ‌عباس علی‌ شاملی‌، احمد رہنمایی‌، محسن‌ غرویان‌۔

 

تالیفات‌ و آثار

آیت اللہ مصباح یزدی کی تالیفات کو شاید ان کے سب سے اہم علمی ثمرات سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ آپ نے مختلف اسلامی موضوعات پر بہت سی کتب تالیف کی ہیں کہ جن میں سے کچھ انقلاب سے قبل لکھی گئیں اور کچھ انقلاب کے بعد۔ یہاں ہم ان کتب میں سے بعض اہم کتابوں کا تذکرہ کریں گے:

۱. خدا شناسی‌، جہان ‌شناسی‌، انسان ‌شناسی، راہ‌ و رہنما شناسی‌، معارف قرآن (اس کتاب میں قرآنی نقطہ نگاہ سے خدا شناسی، جہان ‌شناسی، انسان ‌شناسی، راہ ‌شناسی، رہنما شناسی، قرآن ‌شناسی، اخلاق یا انسان‌سازی قرآن کے عبادی پروگرام اور قرآن کے انفرادی، اجتماعی، سیاسی اور معاشی احکام بیان کیے گئے ہیں)‌

۲. قرآن میں اخلاق (اس کتاب میں دس کلی موضوعات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ منجملہ: قرآن کے اعلیٰ اخلاقی مفاہیم، اسلام کے اخلاقی نظام کا دیگر نظاموں کے ساتھ تفاوت، اسلام میں اخلاقی قدروں کی اساس، اخلاقی اقدار کو کسب کرنے کی راہ، قرآن کی رو سے اخلاق کے سقوط کے کلی عوامل اور ۔۔۔ )

۳. فلسفہ‌ اخلاق (اس کتاب کے بعض مطالب یہ ہیں: مفہومِ اخلاق، علمِ اخلاق، فلسفہ اخلاق، اقدار کے مفاہیم ، اخلاقی مکاتب، آیا اخلاق مطلق ہے یا نسبی؟ دین کا اخلاق سے رابطہ…)

۴. قرآن کے نقطہ نظر سے معاشرہ اور تاریخ (یہ کتاب بارہ حصوں میں سماجیات، فرد یا معاشرے کی اصالت، معاشرے کی قانون مندی، فرد پر معاشرے کا اثر، سماجی بنیادیں، سماجی تغیرات اور ۔۔۔ کے مسائل پر تصنیف کی گئی ہے)

۵. قران میں حقوق اور سیاست، اسلام و اخلاق (اخلاق کیا ہے اور کس طرح پیدا ہوتا ہے؟! اخلاق کا انسان کی سعادت و شقاوت ایسی مباحث ہیں جس کا اس کتاب میں جائزہ لیا جاتا ہے)

۵. قران میں حقوق اور سیاست، اسلام و اخلاق (اخلاق کیا ہے اور کس طرح پیدا ہوتا ہے؟! اخلاق کا انسان کی سعادت و شقاوت میں کردار؛ ایسی مباحث ہیں جن کا اس کتاب میں جائزہ لیا گیا ہے)

۶. آموزش‌ فلسفہ، شرح‌ نہایۃ الحکمہ، شرح‌ جلد اول‌ اسفار اربعہ، شرح‌ جلد ہشتم‌ اسفار اربعہ، دروس‌ فلسفہ اخلاق ( یہ کتاب خود شناسی‌ برائے خود سازی، (کمال، شناختِ کمال، آرائے فلاسفہ دربارہ کمال، خدا کا قرب، حقیقتِ عبادت اور دیگر موضوعات پر مشتمل ہے)

۷. بر درگاہ دوست، مارکسزم کے اصول پر اجمالی تنقید، آموزش‌ِ عقائد، (یہ کتاب درج ذیل موضوعات میں ساٹھ دروس پر مشتمل ہے: دین کیا ہے؟! خدا شناسی کا سادہ طریقہ، صفاتِ خدا، مادی آئیڈیالوجی، جبر و اختیار، قضا و قدر، عدلِ الہٰی، عصمتِ انبیاء، معجزہ، پیغمبر اسلام، مصونیتِ قرآن از تحریف، امامت، حضرت مہدیؑ، معاد، قرآن میں قیامت کا تصور، شفاعت)

۸. قرآن نہج البلاغہ کے آئینے میں، نظریہ ولایت فقیہ پر مختصر نظر، ثقافتی یلغار (اس کتاب میں ثقافتی یلغار کے موضوع پر بحث کی گئی ہے اور اس کے ثقافتی تعاون جیسے موضوعات سے تفاوت کو بیان کرتی ہے)

۹. اسلام کا سیاسی نظریہ (ان سلسلہ وار خطابات کا مجموعہ ہے جو تہران کی نماز جمعہ سے قبل پیش کیے جاتے تھے اور انہیں دو جلدوں میں شائع کیا گیا ہے)

۱۰. کربلا کے آسمان پر بجلی (یہ آیت اللہ مصباح کی ماہ محرم کے عشرے کی مجالس ہیں اور اس کتاب میں قیام عاشورا کو عصر حاضر کے حالات پر منطبق کیا گیا ہے)

 

تعلیمی و تربیتی خدمات

آیت اللہ مصباح یزدی نے حوزہ علمیہ قم میں اپنی آمد کے ابتدائی دور میں تعلیمی، اخلاقی اور تبلیغی میدان میں موجود کچھ خامیوں کا ادراک کر لیا تھا۔ لہٰذا انہوں نے یہ عزم کر لیا کہ ایک درسی نصاب کی تالیف و تدوین کر کے ان مشکلات کو برطرف کریں گے۔ اس مقصد کے تحت حوزہ علمیہ کے دو سو بزرگوں کے دستخطوں سے ایک نصاب مرتب کر کے آیت اللہ العظمیٰ بروجردیؒ کی خدمت میں پیش کیا جس کی انہوں نے بھی توثیق کر دی۔ پھر شہید بہشتیؒ اور آیت اللہ ربانی شیرازی کے ہمراہ مدرسہ حقانیہ کے نام سے ایک مدرسے کی تاسیس کی۔ آیت اللہ قدوسی کو اس مدرسے کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ چار سال کے بعد شہید قدوسی نے درخواست کی کہ مدرسے کو شوریٰ کے تحت چلایا جائے، جس کے بعد آیت اللہ مصباح کو بھی اس میں شامل کر لیا گیا۔ اس اجتماعی جدوجہد کے نتیجے میں ایسے طلبہ کی تربیت ہوئی کہ جو تاحال اسلامی جمہوریہ ایران کے مختلف اداروں میں مصروف عمل ہیں۔

آیت اللہ مصباح یزدی کی دیگر تعلیمی و تربیتی خدمات میں سے مؤسسہ در راہِ حق کے تعلیمی شعبے کی ذمہ داری کو قبول کرنا ہے۔ آپ نے نوجوانوں کے مادیت پرستی، مارکسزم اور مغربی ثقافت کی طرف رجحان کے باعث ’’مؤسسہ در راہِ حق‘‘ کے شعبہ تعلیم کو منظم کرنے کا فیصلہ کیا۔

’’دفتر برائے معاونتِ حوزہ و دانشگاہ‘‘ اور ’’باقر العلوم تربیتی فاؤنڈیشن‘‘ کی تاسیس آیت اللہ مصباح کی دیگر خدمات میں سے ہیں۔ آپ نے ابتدائے انقلاب سے ہی دشمنوں کی چالوں کو دیکھ کر یہ طے کر لیا تھا کہ انقلاب کی فکری بنیادوں کی حفاظت کیلئے مختلف مراکز بالخصوص یونیورسٹیوں کے پلیٹ فارم پر خطابات اور شبہات کے جوابات پیش کریں گے۔ اسی مقصد کے تحت انہوں نے مرکز برائے معاونت حوزہ و دانشگاہ قائم کرنے کی تجویز پیش کی جسے شورائے انقلاب فرہنگی نے منظور کر لیا اور اس کے ثمرات آج تک ہماری یوینورسٹیوں میں آشکار ہیں۔ آگے چل کر انہوں نے باقر العلوم تربیتی انسٹی ٹیوٹ کی تاسیس کر کے مؤسسہ راہ حق کے فارغ التحصیل طلبہ کو قرآنیات، معیشت، تاریخ‌، کلام‌، دین ‌شناسی‌، نفسیات‌، تربیتی‌ علوم، مینجمنٹ، سیاسیات‌، فلسفہ، قانون اور جامعہ ‌شناسی‌ میں تخصصی دورے کرنے کی دعوت دی۔ انسٹی ٹیوٹ کی توسیع اور طلبہ کی روز بروز بڑھتی تعداد کے پیش نظر یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ زیادہ وسائل کے ساتھ ایک وسیع ادارے کا قیام عمل میں لایا جائے یہاں تک کہ آیت اللہ مصباح کی تدبیر اور حضرت امام خمینیؒ اور آیت اللہ خامنہ ای کی خصوصی توجہ کے تحت ’’امام خمینیؒ تعلیمی و تحقیقاتی انسٹی ٹیوٹ‘‘ کی بنیاد رکھی گئی۔

 

سیاسی سرگرمیاں

آیت ‌اللہ مصباح یزدی زندگی بھر مذہبی و علمی مسائل کے ہمراہ سیاسی مسائل کو بھی خاص اہمیت دیتے رہے اور ہمیشہ سیاسی منظر نامے میں ایک سرگرم عنصر کی صورت میں کردار ادا کرتے تھے۔

 

← گیارہ رکنی کمیٹی کا قیام

آپ نے انقلاب سے قبل امام خمینیؒ کے زمانے میں بعض فعال علما جیسے آیت ‌اللہ خامنہ ‌ای، حجۃ ‌الاسلام ہاشمی‌ رفسنجانی، شہید قدوسی اور آیت‌ اللہ ربانی شیرازی کے تعاون سے پہلوی حکومت کے خلاف جدوجہد کیلئے ایک ٹیم تشکیل دی۔ یہ گروہ تاریخی کتب میں ’’گیارہ رکنی کمیٹی‘‘ یا ’’ہیئت مدرسین‘‘ کے نام سے معروف ہے۔

 

← اعلامیے اور کھلے خطوط

آپ نے ہمیشہ ان بیانات اور خطوط میں حکومت کے مختلف معاملات پر طرز عمل منجملہ علما و فضلا سے بدسلوکی، سیاسی نظام پر حکمفرما گھٹن اور سنسر شپ کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی۔[۲] ان اقدامات کا ایک نمونہ وہ کھلا خط ہے جو آپ نے دیگر علما کے ہمراہ ہویدا کو ملکی حالات پر لکھا تھا۔ اس خط کے اندر ملک میں حکمفرما سنسرشب، آزادی کے فقدان اور امام خمینیؒ کی ترکی جلا وطنی پر سخت اظہار افسوس کے علاوہ جلد از جلد ان کی ایران واپسی کو یقینی بنانے کا مطالبہ بھی شامل تھا۔[۳]

 

← امام ‌خمینیؒ کی تحریک کی حمایت

آیت ‌اللہ مصباح یزدی نے پہلوی گھٹن کے زمانے میں صریح طور پر امام خمینیؒ کی حمایت کا اعلان کیا کہ اس حوالے سے آپ کے دیگر علما کے ہمراہ امام خمینیؒ کے نام خط کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے کہ جس میں امام سے بدسلوکی پر گہرے دکھ کے ساتھ ان کی نجف جلا وطنی پر اظہارِ افسوس کیا گیا تھا۔[۴]

 

← پہلوی حکومت کے مخالف جرائد کی اشاعت

انقلاب سے قبل آپ کی دیگر سیاسی سرگرمیوں میں سے حکومت مخالف جرائد کی اشاعت قابل ذکر ہے کہ جن میں سے ’’بعثت‘‘ اور ’’انتقام‘‘ کا نام لیا جا سکتا ہے۔[۵]

 

← آئیڈیولوجیکل جدوجہد

پہلوی دور میں سائڈ لائن رہنے والے متعدد فکری اور سیاسی گروہوں اور قوتوں کی انقلاب کے بعد پرجوش فعالیت بہت سے مسائل کا باعث بن رہی تھی۔ مذکورہ گروہوں کے نظریات کو چار کلی اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ [۶] یہ لوگ عوام میں اپنے افکار و نظریات کی ترویج میں مشغول رہتے تھے۔ ان میں سے ’’مارکسٹ‘‘ دوسروں سے زیادہ منظم تھے۔ [۷] وہ مشہور شعرا اور روشن خیال کالم نگاروں اور مصنفین کی مدد سے دسیوں اخبار و جرائد شائع کر کے اپنے نظریات کی ترویج میں مصروف تھے [۸] اور بہت سی یونیورسٹیوں اور علمی مراکز میں ان کا اثر و رسوخ بڑھ رہا تھا۔ اس بنا پر وہ بہت بڑا خطرہ شمار ہوتے تھے۔ اسی وجہ سے آیت اللہ مصباح یزدی ڈاکٹر سروش کے ہمراہ ان گروہوں اور احسان طبری اور فرخ نگہدار کے ساتھ ٹی۔وی مناظروں میں بھرپور طریقے سے شریک ہوتے تھے۔[۹] آپ دوسروں کے ساتھ مقابلے کی حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ: ’’ہماری دوسروں کے ساتھ جنگ نظریاتی ہے ۔۔۔ مکاتب کی جنگ ہے ۔۔۔ تمام جنگیں اور خون ریزیاں ۔۔۔ حق کے روشن ہونے کیلئے ہیں۔[۱۰]

 

سیاسی افکار

آیت اللہ مصباح یزدی اسلامی انقلاب کی نمایاں شخصیت تھے اور آپ کے سیاسی نظریات اور سرگرمیاں بہت نمایاں تھیں۔ یہاں ہم آپ کے بعض بنیادی نوعیت کے سیاسی افکار کی طرف اشارہ کریں گے:

 

← اسلامی حکومت، عوام اور ولایت فقیہ

آیت اللہ مصباح کے سیاسی افکار کا بنیادی عنصر ولایت فقیہ کے مفہوم کی خاص تفسیر کے تناظر میں اسلامی حکومت کی تشکیل ہے۔ آپ ولایت فقیہ کو اسلامی احکام کے اجرا کیلئے ضروری و لازم سمجھتے ہیں اور اسی وجہ سے آپ کا یہ خیال ہے کہ جمہوری حکومت میں اسلامی احکام کا نفاذ نہیں کیا جا سکتا۔[۱۱][۱۲] اس بنا پر آپ اسلامی حکومت کی واحد ممکنہ صورت اس امر کو سمجھتے ہیں کہ جامع الشرائط فقیہ معصومؑ والے اختیارات کے ساتھ حکومت کا سربراہ ہو اور لوگوں کی رہبری کا کردار ادا کرے۔ اس طرز حکومت میں تمام قوانین، ضوابط اور دستور العمل صرف اور صرف ولی فقیہ کے اذن سے مشروعیت حاصل کرتے ہیں۔ ولی فقیہ کی حکومت کے علاوہ کوئی اور حکومت درحقیقت طاغوت کی حکومت ہے۔[۱۳]

آپ کے نزدیک اسلامی نظام میں قانون سازی اور قانون کا نفاذ سب سے پہلے اسلامی اصول و اقدار کی بنیاد پر ہے اور پھر اس امر کی نگرانی ولی فقیہ کے ذمے ہے۔[۱۴] اس نوعِ حکومت میں عوام ولی فقیہ کی مشروعیت میں کوئی کردار ادا نہیں کرتے کیونکہ وہ خدا کی طرف سے منصوب ہے اور لوگوں کا فرض صرف ولی فقیہ کی حکومت کا قیام ہے۔ اس سیاسی نظم میں عوام کی شرعی ذمہ داری ہے کہ ولایت فقیہ کی پیروی کریں۔اگر کوئی یہ کہے کہ میں ولایت فقیہ کو نہیں مانتا تو یہ ایسے ہی ہے کہ کہے: میں امام معصومؑ کو نہیں مانتا اور اگر کوئی یہ کہے کہ میں امام معصومؑ کو نہیں مانتا تو یہ خدا کے ساتھ شرک ہے کیونکہ اس نے خدا کی ربوبیتِ تشریعی کے ایک مرحلے کا انکار کیا ہے۔[۱۵]

 

← انتخابات

آیت اللہ مصباح کے نزدیک انتخابات، مروجہ جمہوری نظاموں کے برخلاف کسی قسم کی مشروعیت کو ایجاد نہیں کرتے اور صرف ایک میکانزم ہے جس کے ذریعے عوام ولی فقیہ پر یقین اور اعتماد کا اظہار کرتے ہیں۔ ان معنوں میں کہ انتخابات کے ذریعے عوام رہبر کے سامنے کسی شخصیت کے حق میں رائے دیتے ہیں اور رہبر سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ مصلحت کو دیکھتے ہوئے ان کی رائے کو نافذ کر دیں۔ اس بنا پر ولی فقیہ ان مقامات پر لوگوں کی تجویز کو قبول کر کے موردِ نظر شخص کو منصوب کر سکتا ہے اور یا یہ کہ کلی طور پر عوام کے انتخاب کی نفی کر دے اور کسی دوسرے شخص کو مقرر کرنے کی تجویز پیش کر دے۔[۱۶]

 

← آئین

آپ کا ایک نہایت اہم اور پر بحث نظریہ آئین کی حیثیت اور اس کی ولایت فقیہ کے منصب سے نسبت کے بارے میں ہے۔ آپ کے نزدیک اسلامی جمہوریہ ایران جیسے کسی ملک کے آئین کا اعتبار اس لحاظ سے نہیں ہے کہ ایک ملک کا آئین ہے اور بہت سے عوام نے اس کو رائے دے کر پاس کیا ہے بلکہ اس قانون کا اعتبار اس لیے ہے کہ اس پر ولی فقیہ کے دستخط ثبت ہیں۔ جب آئین نے اپنا اعتبار ولی فقیہ سے حاصل کیا ہے پس اس میں صلاحیت نہیں ہے کہ ولی فقیہ کے اختیارات کو محدود کرے۔ اس فہم کے مطابق ولی فقیہ کا مقام اور منصب آئین سے ما فوق ہے۔ یہ فقیہ ہے جو آئین پر حاکم ہے (آپ کے نزدیک ولی فقیہ خدا کے قانون اور احکام سے ما فوق نہیں ہے بلکہ آئین سے ما فوق ہے، کیونکہ اس آئین کو بلا خطا حکمِ خدا نہیں سمجھا جا سکتا بلکہ یہ حکمِ خدا کے حوالے سے عوامی فہم ہے اور یہ چیز فقیہ کے اختیارات میں کسی محدودیت کو ایجاد نہیں کرتی) نہ یہ کہ آئین ولایت فقیہ پر حاکم ہو۔[۱۷]

 

← جمہوریت

جمہوری نظام حکومت کی دنیا بھر میں مشروعیت اور معاشرے کی تشکیل میں عوامی آرا کی اہمیت کے باوجود آیت اللہ مصباح اس بارے میں خاص فکر کے حامل ہیں۔ آپ ولی فقیہ کی حکومت اور درست معنوں میں اسلامی حکومت کے جمہوری نظام حکومت کے ساتھ کسی قسم کے اشتراک کو تسلیم نہیں کرتے۔ آپ کے نزدیک ان دو نظاموں کے درمیان فرق بہت ہی زیادہ ہے جس پر چشم پوشی نہیں کی جا سکتی۔ اس حوالے سے اپنا نظریہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ: ہم ہرگز اسلامی حکومت اور ولایت فقیہ کے نظریے کو جمہوریت پر منطبق نہیں کر سکتے اور جو لوگ چاہتے ہیں کہ یہ کام انجام دیں ۔۔ یا اسلام کی درست شناخت نہیں رکھتے یا خاص سیاسی اور شخصی اغراض کے تحت ایسا کر رہے ہیں۔ » [۱۸]

 

← دین کی حدود

آیت اللہ مصباح کے نزدیک دین فرامین و احکام کا ایسا مجموعہ ہے جو انسان کی دنیا و آخرت کو شامل ہے اور انسانوں کے تمام انفرادی اور اجتماعی ابعاد کو شامل ہے۔ آپ کی تشریح کے مطابق، دین تمام سیاسی، ثقافتی اور معاشرتی مسائل، تمام مدنی ، بین الاقوامی اور جزائی قوانین، خاندانی زندگی، ازدواج، بچوں کی تربیت، معاملات و تجارت اور سونے جاگنے ۔۔۔ کے دستور العمل اور اوامر و نواہی کا حامل ہے۔ لہٰذا کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو دین کی حدود سے باہر ہو۔[۱۹][۲۰] اسی وجہ سے سیکولرزم کی دنیوی اور اخروی امور کی بنیاد پر رائج تقسیم بندی (کہ دین سیاست سے جدا ہے اور کچھ امور عرفی ہوتے ہیں) کو قبول نہیں کیا جا سکتا بلکہ یہ ایک ایسی سازش ہے جو مغربی معاشروں اور مغربی ثقافت کی طرف سے اسلامی معاشروں پر مسلط کی گئی ہے۔[۲۱]

جب دین تمام دنیوی و اخروی امور کو شامل ہے تو ضروری ہے کہ مشخص کیا جائے کہ کون سا دین کس تفسیر کے ساتھ؟! کیا اسلام کی ہر تفسیر و تشریح معتبر ہو سکتی ہے یا یہ کہ اسلام کی صرف خاص تفسیر معتبر ہے۔ آپ نے دین کی مختلف تفاسیر [۲۲][۲۳] اور مذہبی کثرتیت (Religious pluralism)، [۲۴] کے نظریے کو رد کرتے ہوئے دین کی صرف اس تشریح و تفسیر کو معتبر قرار دیا ہے جو حوزات علمیہ کے مسلمہ اصولوں اور معیارات کے مطابق ہو۔ اسی بنیاد پر غیر حوزوی طریقوں اور مذہبی روشن خیالوں سے برآمد ہونے والے اسلام کے شدید مخالف ہیں۔[۲۵]

 

وفات

آیت ‌اللہ محمد تقی مصباح یزدی کا جسمانی نقاہت اور نظام انہضام کی بیماری کے باعث ۲ جنوری ۲۰۲۰ء سے گھر میں علاج شروع کیا گیا۔ مگر بیماری کی علامات بڑھ جانے پر ڈاکٹروں کی تجویز پر ۲۶ دسمبر ۲۰۲۰ء کو تہران کے ایک ہسپتال میں منتقل کیا گیا۔

آپ نے آخر کار یکم جنوری ۲۰۲۱ء کو اسلام کی سربلندی اور اسلامی نظام کے قیام کی راہ میں بھرپور جدوجہد کرنے کے بعد ۸۶ برس کے سن میں داعی اجل کو لبیک کہا اور اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے۔

 

حوالہ جات

۱. ↑ پایگاه اطلاع رسانی آثار آیت‌الله محمدتقی مصباح یزدی، زندگینامه۔

۲. ↑ روحانی، سیدحمید، بررسی و تحلیلی از نهضت امام‌خمینی، تهران، دفتر انتشارات اسلامی، چ۲، ۱۳۶۱، ص۹۰۳۔

۳. ↑ روحانی، سیدحمید، بررسی و تحلیلی از نهضت امام‌خمینی، ص۸۰۲۔

۴. ↑ روحانی، سیدحمید، بررسی و تحلیلی از نهضت امام‌خمینی، ص۸۷۹۔

۵. ↑ روحانی، سیدحمید، بررسی و تحلیلی از نهضت امام‌خمینی، ص۷۷۹-۷۸۱۔

۶. ↑ بشیریه، حسین، دیباچه‌ای بر جامعه‌شناسی سیاسی ایران (دوره‌ی جمهوری اسلامی)، تهران، نگاه معاصر، ۱۳۸۴، چ سوم، ص۲۷۔

۷. ↑ حسینی‌زاده، سیدمحمدعلی، اسلام سیاسی درایران، قم، دانشگاه مفید، ۱۳۸۶، چ اول، ص۳۵۰۔

۸. ↑ میلانی، محسن، شکل‌گیری انقلاب اسلامی از سلطنت پهلوی تا جمهوری اسلامی، ترجمه‌ی مجتبی عطارزاده، تهران، گام نو، ۱۳۸۱، چ اول، ص۲۷۶۔

۹. ↑ قوچانی، محمد، سه اسلام (مکتب نجف، مکتب قم، مکتب تهران)، تهران، سرایی، ۱۳۸۵، چاول، ص۱۵۴۔

۱۰. ↑ زینتی، علی، گفتمان روشن‌گر درباره‌ی‌اندیشه‌های بنیادین (مناظره‌ی آقایان احسان طبری، عبدالکریم سروش، فرخ نگهدار و محمدتقی مصباح یزدی) قم، انتشارات مؤسسه آموزشی و پژوهشی امام خمینی، چاپ اول، ۱۳۷۹، ص۱۱۔

۱۱. ↑ مصباح یزدی، محمدتقی، نظریه‌ی سیاسی اسلام، قم، مرکز انتشارات موسسه آموزشی و پژوهشی امام خمینی (رحمة‌الله‌علیه)، ۱۳۷۸، ج۱، چ اول، ص۳۰۔

۱۲. ↑ مصباح یزدی، محمدتقی، نظریه‌ی سیاسی اسلام، قم، مرکز انتشارات موسسه آموزشی و پژوهشی امام خمینی (رحمة‌الله‌علیه)، ۱۳۷۸، ج۱، چ اول، ص۱۸۰۔

۱۳. ↑ مصباح یزدی، محمدتقی، نگاهی گذرا به نظریه‌ی ولایت فقیه، به کوشش محمدمهدی نادری، قم، موسسه آموزشی و پژوهشی امام خمینی (رحمة‌الله‌علیه)، ۱۳۷۸، چ اول، ص۱۰۷۔

۱۴. ↑ مصباح یزدی، محمدتقی، حکومت اسلامی و ولایت فقیه، تهران، سازمان تبلیغات اسلامی، ج۱، ۱۳۶۹، چ اول، ص۱۲۔

۱۵. ↑ مصباح یزدی، محمدتقی، نظریه‌ی سیاسی اسلام، ص۳۱۹-۳۱۸۔

۱۶. ↑ مصباح یزدی، محمدتقی، نظریه‌ی سیاسی اسلام، ص۳۱۹-۳۱۸، به نقل از نشریه‌ی پرتو، ۱۰/۱۰/۱۳۸۴۔

۱۷. ↑ مصباح یزدی، محمدتقی، نگاهی گذرا به نظریه‌ی ولایت فقیه، ص۱۱۷۔

۱۸. ↑ مصباح یزدی، محمدتقی، نگاهی گذرا به نظریه‌ی ولایت فقیه، ص۲۱۔

۱۹. ↑ مصباح یزدی، محمدتقی، نظریه‌ی سیاسی در اسلام، پیشین، ص۳۹۔

۲۰. ↑ مصباح یزدی، محمدتقی، نظریه‌ی سیاسی در اسلام، ص۱۶۴۔

۲۱. ↑ مصباح یزدی، محمدتقی، نظریه‌ی سیاسی در اسلام، ص۳۰-۳۱۔

۲۲. ↑ مصباح یزدی، محمدتقی، نظریه‌ی سیاسی در اسلام، ج۱، ص۱۲۱-۱۲۸۔

۲۳. ↑ مصباح یزدی، محمدتقی، نظریه‌ی سیاسی در اسلام، ج۲، ص۲۶۰۔

۲۴. ↑ مصباح یزدی، محمدتقی، آزادی و پلورالیسم (پرسش‌ها و پاسخ‌ها)، موسسه‌ی آموزشی و پژوهشی امام‌خمینی (رحمة‌الله‌علیه)، ۱۳۷۹ چ اول، ج۴، ص۶۲-۸۲۔

۲۵. ↑ حسینی‌زاده، سیدمحمدعلی، اسلام سیاسی درایران، قم، دانشگاه مفید، ۱۳۸۶، چ اول، ص۳۹۶۔

 

ماخذ

سائٹ پژوھہ، ماخوذ از مقالہ «محمدتقی مصباح یزدی»، تاریخِ نظر ثانی ۱۳۹۹/۰۹/۲۳۔

Continue Reading

اسلامی شخصیات

دفاعِ حلیفِ قرآن حضرت زید شہید (رح)

بسم الله الرحمن الرحيم
السلام عليك أيها السيد الزكي الولي السلام عليك يا زيد بن علي أشهد انك قد جاهدت في سبيل ربك صابرا محتسبا لم تأخذك في الله لومة لائم في نصرة

السلام علیکم مومنین و مومنات
آج اپنی تحریر کا سرنامہ اس آیت کو بناؤں جس میں رب الحسین ارشاد فرماتا ہے :

وَسَلَامٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا
ان پر ہمار اسلام جس دن پیدا ہوئے اور جس دن انہیں موت آئی اور جس دن وہ دوبارہ زندہ اٹھائے جائیں گے۔
(سورہ مریم، آیت ۱۵)

مومنین و مومنات آپ سب اس بات کے گواہ ہیں کہ میں حسن اللھیاری کا دشمنانِ تشیع کے خلاف جو کام ہے اس کو ہر دم سراہتا رہتا ہوں. اور اس امر میں اللہیاری کی خدمات کا شدید معتقد بھی ہوں اور میری مکمّل حمایت بھی انہیں حاصل ہے۔

البتہ جو فقہاء مخالف ان کے بے جا و بے بنیاد نظریات ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر تاریخ تشیع کی عظیم شخصیات کہ جن میں جنابِ زید شہید، امیر مختار، جعفر تواب وغیرہ پر ان کی تحقیق انتہائی ناقص و غیر علمی ہے۔

میرے قارئین جانتے ہیں کہ اللہیاری صاحب کو جنابِ مختار پر پہلے ہی جواب دے چکا ہوں جسے مومنین اس لنک پر ملاحظہ کر سکتے ہیں :

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=637496344601034&id=10005022022859 &mibextid=Nif5oz

آج اپنے ایمانی بھائی حسن اللہیاری کو جنابِ زید شہید پر علمی مقالہ لکھ کر دعوتِ رجوع دوں گا۔۔

لیکن پہلے مرحلے میں مومنین کے اذہان کو آمادہ کرنے کے لیے کچھ تمہیدی گزارشات کرنا چاہتا ہوں تاکہ مومنین جب بھی ان عظیم شخصیات کے مخالف کوئی بھی روایت سنیں تو وہ اسے فقط ظاہری مفہوم سے قبول کرنے سے گریز کریں اور انہیں پتا ہو کہ ایسی روایات کے پیچھے اصل حقائق کیا ہیں، کیونکہ تاریخی روایات کو فقط سند کے معتبر ہونے سے قبول نہیں کیا جاتا بلکہ دیگر قرائن کو بھی ملحوظ رکھ کر ان کا نتیجہ اخد کیا جاتا ہے ۔
مومنین اچھی طرح سے یاد رکھیں کہ دین خدا ہر مومن اور مومنہ سے قربانی چاہتا ہے یعنی ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے اور جنت و رضا الہی کی بھی ایک قیمت ہے.

یہ الفاظ میرے نہیں بلکہ قرآن کے ہیں یعنی سورہ توبہ کہ جس میں ارشاد ہوتا ہے : اللہ نے خرید لیا مومنین سے اُن کا مال اور جان، جنت کے بدلے میں ۔۔

اور دیکھا جائے تو سب سے بڑی قربانی عزت کی ہوتی ہے جو جان و مال سے کہیں بڑھ کر ہے ۔ زندہ ہو اور طعنے سن رہے ہو۔گالیاں سن رہے ہو اور سب براداشت کر رہے ہو فقط مرضی پروردگار کی خاطر ۔۔
تاریخ اسلام میں متعدد شخصیات ایسی ہیں جنہوں نے اپنی عزت قربان کر کے اہل بیت ؑ کو محفوظ کیا ہے ،
ایک دو شخصیات کے مختصر تعارف کو مثال بنا کر جنابِ زید شہید کی طرف بڑھتا ہوں.

سب سے پہلے جنابِ ابوطالب ؑ،

اگر ایمان کا اظہار کر کے مسلمان مشہور ہو جاتے تو جو وہ رسول اللہ کو تحفظ دے رہے تھے وہ نہ دےپاتے ۔ اس وقت کفار مکہ اسی تذبب میں تھے کہ ابوطالب ہے تو ہمارےجیسا اور یہ رسول کو پناہ دیا ہواہے تو آخر کیسے اس کو نقصان پہنچائیں ۔ المختصر کہ حکیم بطحا جناب ابوطالب ؑ نے اپنے ایمان کو پوشیدہ رکھ کر مشرکین مکہ کی مکاریوں سے رسول خدا کو محفوظ رکھا۔

دوسری بڑی شخصیت ہے حضر ت محمد حنفیہ کی ۔۔

کربلا کے واقعہ کے بعد یزیدیت کی ساری توجہ امام سجاد ؑ کی طرف تھی کہ اب یہ امام ہے ، لیکن محمد حنفیہ نے اعلان کر دیا کہ میں امام ہوں ، اب یزید بڑا خوش ہوا کہ خاندان میں ہی پھوٹ پڑ گئی یعنی سجاد کے مقابلے میں مجھے آنے کی ضرورت نہیں کہ اس کے مقابلے میں تو خود اس کا چچا آ گیا ہے تو ایسے محمد حنفیہ نے یزید کی ساری توجہ اپنی طرف مرکوز کر لی تاکہ امام سجاد ؑ محفوظ ہو جائیں ۔ اور بھرپور انداز میں عزاداری سید الشہدا برپا کریں اور امامت کا کام جاری رکھیں۔

اور تیسری شخصیت جعفر تواب کی ہے جوجھوٹے دعویٰ امامت کی وجہ سے تاریخ میں کذاب مشہور ہوئے ۔

تو مومنین و مومنا ت جب گیارہویں امام کو جو زہر دے کر شہید کیا گیا تو اس سے ایک دن پہلے خلیفہ نے مکمل تسلی کی کہ گیارہویں امام کی کوئی اولاد تو نہیں ،گھر میں خواتین بھیجی گئیں کہ یہ دیکھو کہ کہیں گھر میں کوئی اور عورت تو حاملہ نہیں کیونکہ سب نے سن رکھا تھا کہ جب بارہواں آئے گا تو ظالمین کا خاتمہ کرے گا تو دیکھا جائے کسی عورت میں پیدائش کے آثار تو نہیں ۔۔ اسی وجہ سے دسویں امام نے بی بی نرجس خاتون کو گھر میں رکھا ہی نہیں ، انہیں گھر کے بیسمنٹ میں اس طرح رکھا کہ ولادت امام مہدی کے وقت بی بی کو سامنے کے دروازے سے بھی اندر نہ بلایا گیا بلکہ حکیمہ خاتون کے گھر کے اندر ہی اندر سے بلایا گیا اور جیسے ہی آئیں ویسے ہی فوراً بیسمنٹ میں بھیج دیا گیا اور ساری زندگی وہاں رہیں اور وہیں انتقال ہوا ۔

تو امام مہدیؑ کو محفوظ رکھنے کے لئے جعفر تواب نے بارہواں امام ہونے کا دعویٰ کیا اور خلیفہ کو یقین دلانے کے لیئے اس سے ملاقاتیں بھی کیں اور اس سے پیسے بھی لیے تاکہ اسے یقین آجائے کہ یہ وہ والا بارہواں تو ہے نہیں جس کے بارے میں رسول کہہ گئے اور خلیفہ کواس سے کوئی خطرہ ہو.

یعنی یہ تو خلیفہ سے تعلقات بناتا ہے ہر وقت دربار میں آتا جاتا ہے اور یہ سلسلہ تقریباًدس سال تک چلتا رہا کہ جعفر بارہواں امام ہے ،بہت سے شیعہ بھی ان کو امام ماننے لگے کہ دسویں کے بیٹے ہیں گیارویں کے بھائی ہیں ۔ اور جعفر تواب نے کہا کہ میرا بڑا بھائی لاولد تھا اور اس کی کوئی اولاد نہیں ، ساری انٹینشن اپنی طرف کروا لی ، دس سال گزر گئے اور خلیفہ بھی مر گیا پھر انہوں نے بتایا کہ اصل امام کون ہے اور یہ میں نے دعویٰ کیوں کیا ۔۔

جنابِ مختار پر میری تحریر کا لنک اوپر ہی دیا جا چکا تو اب جنابِ زید شہید کی طرف باضابطہ طور پر بڑھتے ہیں۔۔

یہاں یہ بات بھی باور کروانا چاہتاہوں کہ اس تحریر میں بہت سے موضوعات کو تفصیل کے ساتھ زیر بحث نہیں لا رہا کیونکہ اگر ان پر لکھنا شروع ہوا تو ایک مقالہ کجا پوری کتاب ہی لکھنا پڑ جائے گی ۔۔ جیسے ۔۔

– جناب زید کی تاریخ ولادت و شہادت میں علماء کا اختلاف
– حضرت زید شہید کی والدہ ماجدہ جنابِ حوراء کے رتبہ عالی پر جہلاء کے شکوک
– والی مدینہ ہشام کے درباراور کوفہ کے احوال
– سیاسی محرکات اسباب و علل جہادِ زید شہید وغیرہ وغیرہ

پہلے مرحلے میں زیدی سادات کے جد حضرت زید شہیدؒ کا مختصر تعارف ہو جائے :

جناب زید شہید جن کا پورا نام زید بن علیؑ بن حسینؑ ہے جومشہور قول کے مطابق سنہ 75 ہجری میں پیدا ہوئے اور اپنے والد ماجد حضرت امام زين العابدينؑ کی کفالتِ روحانی زہد وتقوی اور علم ومعرفت کے ماحول میں پروان چڑھے۔

بعض روايات کے مطابق رسول الله صلّى الله عليه وآله وسلم نے خود آپ کی ولادت کی بشارت دی تھی اور آپ کے نام کا انتخاب کیا تھا۔

علامہ باقر مجلسی نے تحریر کیا ہے کہ جناب جابر جعفی نے حضرت امام محمد باقر علیہ اسلام سے روایت کرتے ہوئے فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے جناب امام حسین علیہ السلام سے ارشاد فرمایا کہ:
اے حسین ! تمہاری نسل سے ایک فرزند پیدا ہوں گے جنھیں زید کہا جائے گا ، وہ اور اُن کے ساتھی قیامت کے دن لوگوں سے آگے قدم بڑھاتے ہوئے گزریں گے کہ اُن کے چہرے روشن اور نورانی ہوں گے اور بغیر حساب کے جنت میں داخل ہو جائیں گے۔

حوالہ :
بحارالانوار ج 2 ص 192

اس حدیث کو متعدد کتب میں علماء و مورخین نے اپنے اپنے انداز میں بیان کیا ہے۔
جیسے ابوالفرج اصفہانی نے اس طرح لکھا ہے کہ

حدثني على بن العباس قال : حدثنی اسماعیل بن اسحاق الراشدى قال : حدثنا محمد بن داود بن عبدالجبار عن ابيه عن جابر عن أبي جعفر قال : قال رسول الله (ص) للحسين : يخرج رجل من صلبک يقال له زيد يتخطى هو و اصحابه يوم القيامة رقاب الناس غرا المحجلين يدخلون الجنة بغير حساب .

ترجمہ: جناب رسالتمآب نے امام حسینؑ سے فرمایا کہ اے حسین تمہارے صلب سے ایک فرزند عالم وجود میں آئیگا جس کا نام زید ہوگا، قیامت کے دن وہ اور اس کے اصحاب اُن لوگوں سے آگے آگے چلتے ہوں گے جو خوبصورت سفید گھوڑوں پر سوار ہوں گے اور وہ جنت میں بغیر حساب کے داخل ہو جائیں گے۔

اسی مقاتل کے صفحہ ۸۸ میں ابوالجارود کی یہ گواہی بھی موجود ہے کہ :
حدثنا يحيى بن الحسين قال: حدثنا الحسن بن يحيى بن الحسين بن زيد قال : حدثنا الحسن بن الحسين عن يحيى بن مساور عن ابی الجارود قال: قدمت المدينة فجعلت كلما سألت عن زيد بن علي قيل لي ذاك حليف القرآن۔

ترجمہ : ابو الجارود کہتا ہے: میں جب مدينہ آیا تو جب بھی میں زيد کے بارے پوچھتا تو مجھے کہا جاتا وہ ہے حليف القرآن(قرآن کا ساتھی)، وہ ہے أسطوانة المسجد(مسجد کا ستون)۔

حوالہ :
مقاتل الطالبین ص: ۸۸

جناب زید شہید نے اپنے والد امام زين العابدين عليه السلام کے ساتھ اپنی مبارک حیات کی 15 بہاریں دیکھیں اور 95هـجری میں اپنے بابا کی شہادت کے بعد اپنے بھائی امام باقر عليه السلام کے زیر سایہ زندگی گزارنے لگے۔

جناب زید مدینہ کے جید علماء اور ا کابرین میں مرکزی حیثیت رکھتے تھے، مختلف علوم و فنون اسلامیہ کے ماہر تھے، قرأت ، علوم قرآنیہ، عقائد،مقالات اور علم کلام پہ انہیں مکمل عبورحاصل تھا، امام ابوحنیفہ کے استاد تھے، امام حنیفہ ان کے حلقہ درس میں دو سال رہے، ابو حنیفہ کہتا تھا کہ ’’میں نے زید بن علی سے زیادہ فقیہ اور فصیح و بلیغ کسی کو نہیں پایا، حقیقت یہ ہے کہ علم میں ان کی کوئی مثال نہیں تھی‘‘۔

تین صفر 121 هجری وہ دن ہے کہ جس میں امام حسین(ع) کے پوتے، امام زین العابدین(ع) کے بیٹے، امام محمد باقر(ع) کے بھائی اور امام جعفر صادق(ع) کے چچا جناب زید کو شہید کیا گیا، کہ جن کا مزار کوفہ سے 30کلو میٹر کے فاصلے پہ "الكفل” نامی شہر میں ہے۔

(ان شاء اللہ آخر تحریر میں جناب زید شہید کی انتہائی مظلومانہ شہادت کا احوال بیان کروں گا)

قارئین کرام اس وقت میں عجیب کیفیت میں ہوں کہ کیا کیا لکھوں اور کیا کیا چھوڑ کر آگے بڑھوں کیونکہ اس تحریر کو مقالہ ہی رکھنا ہے ناکہ کتاب۔

تو ذہن کہتا ہے کہ فقط معصومینؑ کے فرامین کو مومنین کے اذہان عالیہ کے سپرد کروں تاکہ وہ زید شہید کو لے کر حق و باطل کا فیصلہ خود کر سکیں ۔

زید شہید کے قیام اور ان کے بارے میں سب سے پہلے جناب رسول خدا ﷺ کے کلام مبارک سے یہ حدیث پیش خدمت ہے جسے علامہ مجلسیؒ نے اپنی بحار میں ابن ادریس حلیؒ اور انہوں نے ابن قولویہؒ سے نقل کیا ہے :

وعن حذيفة بن اليمان قال : نظر رسول الله ﷺ إلى زيد بن حارثة فقال : المقتول في الله ، والمصلوب في امتي ، والمظلوم من أهل بيتي سمي هذا ، وأشار بيده إلى زيد بن حارثة فقال : ادن مني يا زيد ، زادك اسمك عندي حبا فأنت سمي الحبيب من أهل بيتي

ترجمہ : حذیفہ بن یمان سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے زید بن حارثہ کو دیکھا تو انکی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: راہ خدا میں شہید ہونےوالا، میری امت میں جسے سولی دی جائے گی، میرے اہلبیتؑ میں سے ایک مظلوم شخصیت جو ان کا ہم نام ہوگا، اس کے بعد حضور ؐنے فرمایا: اے زید (بن حارثہ)! میرے قریب آو، تمہارے نام کے سبب تم سے محبت زیادہ ہو گئی ہے۔ تم میرے اہلبیتؑ میں میرے ایک محبوب کے ہم نام ہو۔

حوالہ :
بحارالانوار، جلد ۴۶، صفحہ ۱۹۲

مومنین بغور دیکھیں کہ جس ہستی کو رسول اللہ اس کی پیدائش سے پہلے یاد کر کے اپنے اہل بیتؑ میں شمار کریں ، شہادت کی خبر دیں اور اپنا محبوب قرار دیں اس کی شخصیت پر کیسے انگشت بازی کی جا سکتی ہے ۔

اب رسول خدا کی اگلی روایت بھی ملاحظہ فرمائیں جسے کتاب روض النضیر میں منہاج سے بحوالہ ابن اطہر اور کتاب جلاء الالصبار میں حاکم اور امالی سے یحییٰ بن حسین ہارونی کی اسناد سے روایت کیا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا۔

الشهيد من ذريتى والقائم بالحق والذي المصلوب بالكناسة كوفه أن إمام المجاهدين وقائد الغر المحجلين يأتي يوم القيامة وأصحابه تتلقاهم الملائكة المقربون فيادونهم ادخلوا الجنة لا خوف عليكم ولا أنتم تحزنون.
ترجمہ:
میری ذریت میں سے ایک شہید ہے اور حق قائم کرنے والا ہے جس کو کنارہ کوفہ میں سولی دی جائیگی۔ وہ اور اس کے اصحاب جب قیامت کے دن آئیں گے تو ملائکہ مقربین ان سے ملاقات کرینگے اور ان سے کہیں گے کہ تم جنت میں داخل ہو جاؤ تمہارے لئے نہ خوف ہے نہ خزن!

حوالہ جات :
روض النضیر، ج ۱ ص ۵۸
مقتل الحسین از خوارزمی، ج ۲ : ۱۲

اب جنابِ زید شہید کی ولادت کا احوال بھی ملاحظہ فرمائیں کہ امامِ معصومؑ نے کیا اہتمام فرمایا۔

كنت عند علي بن الحسين بن علي بن ابي طالب ( عليهم السلام ) فكان إذا صلّى الفجر ، لم يتكلم حتى تطلع الشمس ، فجاؤوه يوم وُلِدَ فيه زيد ، فبشروه به بعد صلاة الفجر ، قال : فالتفت الى اصحابه وقال : « اي شيء ترون ان اسمي هذا المولود؟ ) قال : فقال كل رجل منهم : سمه كذا سمه كذا ، قال : فقال : « يا غلام عليَّ بالمصحف » قال : فجاؤوا بالمصحف ، فوضعه على حجره ، قال : ثم فتحه فنظر الى اول حرف في الورقة ، وإذا فيه ( وفضل الله المجاهدين على القاعدين اجرا عظيما ) قال : ثم طبقه ، ثم فتحه فنظر فاذا في اول الورقة ( ان الله اشترى من المؤمنين أنفسهم وأموالهم بان لهم الجنة يقاتلون في سبيل الله فيقتلون ويقتلون وعدا عليه حقا في التوراة والانجيل والقرآن ومن اوفى بعهده من الله فاستبشروا ببيعكم الذي بايعتم به وذلك هو الفوز العظيم ) ثم قال : « هو والله زيد هو والله زيد » فسمي زيداً.

ترجمہ : ابن ادریس حلی رحمۃ اللہ علیہ نقل کرتے ہیں کہ امام زین العابدین علیہ السلام کی سیرت تھی کہ آپ نماز صبح کے بعد کسی سے گفتگو نہیں فرماتے یہاں تک کہ سورج طلوع ہوجاتا تھا۔ ایک دن آپؑ کو جناب زید کی ولادت کی خوشخبری سنائی گئی تو آپؑ نے اپنے اصحاب سے ہوچھا اس بچہ کا کیا نام رکھوں۔ سب نے ایک ایک نام تجویز کیا تو امام سجاد علیہ السلام نے اپنے غلام کو حکم دیا کہ قرآن کریم لاو، جب قرآن کریم لایا گیا تو آپ نے اپنے دست ہائے مبارک میں قرآن کریم لیا اور کھولا تو آیت آئی ’’وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ أَجْرًا عَظِيمًا‘‘
اللہ نے مالوں اور اپنی جانوں سے جہاد کرنے والوں کو درجہ کے اعتبار سے بیٹھ رہنے والوں پر فضیلت دی ہے اور یوں تو اللہ نے ہر ایک سے بھلائی کا وعدہ کیا ہے۔ مگر اس نے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر اجر عظیم کے ساتھ فضیلت دی ہے۔
(سورہ نساء، آیت۹۵)
امام سجادؑ نے قرآن کریم کو بند کر کے دوبارہ کھولا تو آیت آئی۔

’’إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَىٰ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ ۚ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ ۖ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ وَالْقُرْآنِ ۚ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّهِ ۚ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُم بِهِ ۚ وَذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ‘‘

بے شک اللہ تعالیٰ نے مؤمنین سے ان کی جانیں خرید لی ہیں اور ان کے مال بھی اس قیمت پر کہ ان کے لیے بہشت ہے وہ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں پس وہ مارتے بھی ہیں اور خود بھی مارے جاتے ہیں (ان سے) یہ وعدہ اس (اللہ تعالیٰ) کے ذمہ ہے تورات، انجیل اور قرآن (سب) میں اور اللہ سے بڑھ کر کون اپنے وعدہ کا پورا کرنے والا ہے؟ پس اے مسلمانو! تم اس سودے پر جو تم نے خدا سے کیا ہے خوشیاں مناؤ۔ یہی تو بڑی کامیابی ہے۔
(سورہ توبہ، آیت 111)
تو آپؑ نے مکرر فرمایا: خدا کی قسم یہ وہی بچہ ہے جس کا نام زید ہے۔
حوالہ جات:
مستطرفات السرائر ، ابن إدريس الحلي جلد : 1 صفحه : 63
مستدرك الوسائل، المحدّث النوري جلد : 4 صفحه : 305

مومنین خود فیصلہ کریں کہ جس کی پیدائش کے وقت قرآنِ ناطق کےمبارک ہاتھوں پر قرآن صامت کی یہ عظیم الہی گواہیاں موجود ہوں اور اس پر قرآن ناطق یعنی امامِ سجادؑ قسم کھا کر کہیں کہ یہ زید ہے تو اس شہید کا کیا مقام ہوگا۔

اوپر ابوالفرج اصفہانی کی جو حدیث پیش کی تھی اسے دوبارہ بحارالانوار میں بھی ملاحظہ فرمائیں
عن أبي جعفر محمد بن علي الباقر ، عن آبائه : قال :قال رسول الله ﷺ للحسين : يا حسين يخرج من صلبك رجل يقال له زيد يتخطى هو وأصحابه يوم القيامة رقاب الناس غرا محجلين يدخلون الجنة بلا حساب۔

ترجمہ : امام محمد باقر علیہ السلام نے اپنے آبائے طاہرین سے روایت فرمائی کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امام حسین علیہ السلام سے فرمایا: اے حسینؑ! تمہاری نسل میں ایک شخص پیدا ہو گا جس کا نام زیدؒ ہو گا۔ وہ اور اسکے اصحاب روز قیامت صراط سے اس طرح گذریں گے کہ انکی پیشانیاں روشن و منور ہوں گی اور بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے۔

حوالہ جات :
بحارالانوار، جلد ۴۶، صفحہ ۱۷۰
نفس المصدر ج ١ ص ٣٣٠
عيون أخبار الرضاؑ ج ١ ص ٢٤٩

سید ابن طاؤس نے مولاعلی علیہ السلام سے روایت کیاہے کہ۔۔
ان مولانا عليا ؑ عرف من حضره بما جرى أشار اليه ان أمير المؤمنين ؑ وقف بالكوفة في الموضع الذي صلب فيه زيد بن علي عليه السلام و بكى حتى اخضلت لحيته و بكى الناس لبكائه فقيل له يا أمير المؤمنين مما بكاؤك فقد أبكيت أصحابك؟فقال: ان رجلا من ولدي يصلب في هذا الموضع لا أرى فيه خشية من رضى أن ينظر الى عورته۔۔۔

ترجمہ : ایک مرتبہ امام علیؑ اپنے اصحاب کے ہمراہ کوفہ میں اس مقام پر مقیم ہوئے جہاں حضرت زیدؒ شہید کو سولی دی جانیوالی تھی۔ آپ علیہ السلام ملول ہوئے آنکھوں سے اشک جاری ہو گئے ، اصحاب نے سبب دریافت کیا تو آپ نے فرمایا:
رسول اللہ نے ارشاد فرمایا تھا کہ ان رجل من ولدى يصلب هذا الموضع من رضى ان ينظر الى عورته اليه الله على وجهه في النار یعنی میری اولاد میں سے ایک مرد کو اس مقام پر سولی دی جائے گی اور جو شخص اس کے جسم کے پوشیدہ حصوں پر نظر ڈالے گا خداوند عالم اس کو منہ کے ہل دوزخ میں داخل فرمائے گا۔
حوالہ :
الملاحم و الفتن السيد بن طاووس جلد : 1 صفحه : 120

امام محمد باقر علیہ السلام کی رائے بھی جان لیتے ہیں وہ جنابِ زید شہیدؒ کے بارے میں کیا ارشاد فرماتے ہیں:

محمد بن مسعود ، عن أبي عدالله الشاذاني ، عن الفضل ، عن أبيه ، عن أبي يعقوب المقري وكان من كبار الزيدية ، عن عمرو بن خالد وكان من رؤساء الزيدية ، عن أبي الجارود وكان رأس الزيدية قال : كنت عند أبي جعفر جالسا إذ أقبل زيدبن علي فلما نظر إليه أبوجعفر قال : هذا سيد أهل بيتي ، والطالب بأوتارهم

ترجمہ : عمرو بن خالد نے ابوالجارود سے روایت نقل کی کہ میں امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں تھا کہ جناب زید ؒتشریف لائے تو جیسے ہی امام علیہ السلام کی نظر ان پر پڑی فرمایا: ’’هذا سيد أهل بيتي ، والطالب بأوتارهم‘‘ یہ ہم اہلبیت کی عظیم شخصیت ہیں، یہ دشمن سے انتقام لینے کے لئے قیام کریں گے۔

حوالہ جات:
رجال کشی، صفحہ١۵١
بحارالانوار، جلد۴۶، صفحہ١٩۴

یہ روایت بھی ملاحظہ فرمائیں ۔۔

عبد الرحمن بن محمد الازدي، قال: حدثنا (حسين بن محمد بن علي الازدي) قال: أخبرني أبي، عن الوليد بن عبد الرحمن، قال: أخبرني أبو حمزة الثمالي، قال: كنت أزور علي بن الحسين (عليه السلام) في كل سنة مرة في وقت الحج، فأتيته سنة من ذاك وإذا على فخذه صبي، فقعدت إليه وجأ الصبي فوقع على عتبة الباب فانشج، فوثب إليه علي بن الحسين ويقول له: يا بني أعيذك بالله ان تكون المصلوب في الكناسة. قلت: بأبي أنت وأمي وأي كناسة ؟. قال: كناسة الكوفة. قلت: جعلت فداك أو يكون ذلك ؟. قال: أي والذي بعث محمدا بالحق ان عشت بعدي لترين هذا الغلام في ناحية من نواحي الكوفة مقتولا مدفونا منبوشا مسلوبا مسحوبا مصلوبا في الكناسة، ثم ينزل ويحرق ويدق ويذرى في البر. قلت: جعلت فداك وما اسم هذا الغلام ؟. قال: هذا ابني زيد. ثم دمعت عيناه

ترجمہ : سید بن طاووس رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب’’ فرحۃ الغری ‘‘میں ثمالی سے روایت نقل فرمائی کہ میں ہر سال ایام حج میں امام زین العابدین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا، ایک سال جب آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپ کی آغوش میں ایک بچہ ہے، اسی وقت دروازے سے ایک دوسرا بچہ حجرہ میں داخل ہوا اور زمین پر گرا اوراس کا سر زخمی ہوگیا۔ امام سجاد علیہ السلام فورا اپنی جگہ سے اٹھے اور کرتے کے دامن سے اس کے خون کو صاف کرنے لگے اور فرمایا: نور نظر! تجھے خدا کی پناہ میں دیتا ہوں تجھے کناسہ میں سولی دی جائے گی۔ عرض کیا: آپؑ پر میرے ماں باپ قربان، یہ کناسہ کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا: کناسہ کوفہ میں ہے، عرض کیا کہ میں آپؑ پر قربان کیا ایسا حادثہ ہوگا؟ فرمایا: اس ذات کی قسم جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مبعوث کیا ہے اگر میرے بعد تم زندہ رہو گے تو دیکھو گے کہ میرا یہ فرزند کوفہ کے نزدیک قتل کیا جائے گا، دفن کے بعد اسکی قبر کھول کر جنازہ کو باہر نکال کر گلیوں میں پھرایا جائے گا اور سولی دی جائے گی، سولی سے اتار کر جنازہ کو جلا کر راکھ کو صحرا میں اڑا دیا جائے گا۔ عرض کیا کہ اس بچہ کا نام کیا ہے؟ فرمایا یہ میرا بیٹا زید ہے۔پھر آپ کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر آئیں۔

حوالہ : فرحة الغری ابن طاووس، السيد عبدالكريم جلد : 1 صفحه : 139

اب امام جعفر صادق علیہ السلام کی بھی جناب زید شہیدؒ کے بارے میں گواہی ملاحظہ فرمائیں:

رجال الكشي نصر بن الصباح عن إسحاق بن محمد البصري عن علي بن إسماعيل عن فضيل الرسان قال : دخلت على أبي عبد الله بعد ما قتل زيد بن علي فأدخلت بيتا جوف بيت فقال لي يا فضيل قتل عمي زيد قلت جعلت فداك قال رحمه الله أما إنه كان مؤمنا وكان عارفا وكان عالما وكان صدوقا۔۔۔

ترجمہ :فضیل کہتے ہیں میں زید بن علی کے قتل کے بعد جب امام جعفر صادقؑ کے گھر گیا اور جب میں گھر میں داخل ہوا تو آپؑ نے کہا میرے چچا زید کو قتل کر دیا گیا؟ میں نے کہا ہاں میں آپ پر قربان ہو جاؤں تو آپؑ نے فرمایا: اللہ کی ان پر رحمت ہو وہ مومن تھے، وہ عارف تھے، وہ عالم تھے، اور وہ سچے تھے۔

حوالہ :
بحار الأنوار العلامة المجلسي جلد : 4 صفحه : 325
رجال الكشي ص 184
یہ روایت بھی ملاحظہ ہو ۔۔

فدخلنا علي الصادق عليه السلام فدفعنا إليه الكتابة فقرأه وبكى ثم قال: انا لله وانا إليه راجعون عند الله احتسب عمى انه كان نعم العم ان عمى كان رجلا لدنيانا وآخرتنا مضى والله عمى شهيدا كشهداء استشهدوا مع رسول الله (ص) وعلى والحسن والحسين صلوات الله عليهم.

ترجمہ : جب امام جعفر صادق علیہ السلام کو جناب زیدؒ کی شہادت کی خبر ملی تو زبان پر کلمہ استرجاع انا للہ وانا الیہ راجعون جاری کیا اور فرمایا: میں اپنے چچا کی مصیبت پر اللہ سے اجر کا طالب ہوں۔ وہ میرے بہترین چچا تھے۔ بے شک وہ دنیا و آخرت میں میرے ساتھی تھے۔ میرے چچا نے اسی طرح شہادت پای جیسے اس سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، امیر المومنین علیہ السلام ، امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کی رکاب میں شہداء نے شہادت پائی۔
حوالہ: عيون أخبار الرضا (ع) – الشيخ الصدوق – ج ٢ – الصفحة ٢٢٨

قارئین کرام اگر ہر روایت کا عربی متن بھی ساتھ پیش کرتا گیا تو مجھے ڈر ہے کہ فیس بک پر پوسٹ کرنے میں مسائل پیدا نہ ہو جائیں تو اب فقط ترجمہ اور حوالہ جات پر اکتفاء کروں گا ۔۔

امام علی رضا علیہ السلام نے جناب زید شہید ؒ کے سلسلہ میں فرمایا:
خدا کی قسم ! زید بن علیؑ ان لوگوں میں سے تھے جنکے سلسلہ میں یہ آیت ہے’’وَجَاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِ ۚ هُوَ اجْتَبَاكُمْ‘‘ (سورہ حج، آیت۷۸) اور اللہ کے بارے میں اس طرح جہاد کرو جو جہاد کرنے کا حق ہے کہ اس نے تمہیں منتخب کیا ہے۔
حوالہ: عیون اخبارالرضا، جلد١، صفحہ٢۴٨

عیون اخبار کی یہ روایت بھی ملاحظہ فرمائیں۔۔
ابن ابی عبدون نے اپنے والد سے روایت کیا ہے کہ جب زید بن امام موسیٰ کاظم علیہ السلام مامون کے دربار میں لائے گئے جبکہ انہوں نے بصرہ میں خروج کیا تھا اور بنی عباس کے گھروں کو آگ لگائی تھی ، مامون نے انکے اس جرم کو اُنکے بھائی امام علی رضا علیہ السلام سے بیان کیا اور کہا کہ اے ابو الحسن ! اگر آپکے بھائی نے خروج کیا ہے اور جو انھیں کرنا تھا وہ سب کچھ کر بیٹھے ہیں تو ان سے پہلے زید بن علی بن الحسین نے بھی خروج کیا تھا اور وہ قتل کر دیئے گئے تھے اسلئے اگر آپ کا احترام میری نگاہوں میں نہ ہوتا تو میں بھی انہیں قتل کر دیتا ، جو کچھ انہوں نے کیاہے وہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔

امام علی رضاؑ نے جواب دیا کہ اے امیر ۔۔میرے بھائی کو جناب زید شہید بن علی بن حسین پر قیاس نہ کر اور انہیں اُن کے برابر نہ سمجھ ۔ جناب زید بن علی تو آل محمد علیہم السلام کے علماء میں سے تھے اور خدا کی خوشنودی کے لئے اُٹھے تھے اور اللہ کے دشمنوں سے جہاد کیا اور اُسی کی راہ میں قتل ہوئے ۔ میرے پدر بزرگوار امام موسیٰ کاظم علیہ السلام فرماتے تھے کہ انھوں نے اپنے والد نامدار حضرت امام جعفر صادق کو یہ فرماتے ہوئے سُنا کہ خداوند عالم میرے چچا جناب زید پر رحمت نازل فرمائے ۔ انھوں نے تو آل محمد علیہم السلام کی رضا و خشنودی کی طرف لوگوں کو دعوت دی تھی اگر وہ باطل کے خلاف جہاد کرنے میں کامیاب ہو جاتے تو اپنی دعوت الی الحق کو پورا کر لیتے ، اُنھوں نے اپنے خروج کے بارے میں مجھ سے مشورہ لیا تھا تو میں نے اُن سے یہی کہا کہ ہم محترم اگر آپ کو یہ بات پسند ہے کہ آپ قتل ہو جائیں اور کناسہ میں سولی پر لٹکائے جائیں تو آپ اس میں مختار ہیں جو چاہیں کریں۔

جب جناب زید نے اپنے مقصد کے لئے قدم اُٹھا لیا تو امام جعفر صادقؑ نے فرمایا تھا کہ ان لوگوں کے لئے ہلاکت ہو جنہوں نے ان کی پکار کو سُنا اور پھر بھی ان کی مدد نہ کی ۔ یہ سن کر مامون نے کہا کہ کیا یہ سب کچھ درست نہیں کہ جو بغیر استحقاق دعوی امامت کر بیٹھے اور اُسے سزا نہ ملے؟

امام علی رضا علیہ السلام نے جواب دیا کہ جناب زید بن علی بن حسین نے کبھی اُس امامت کا دعوی نہیں کیا جس کے وہ مستحق نہ تھے۔ وہ تو خدا سے اس بارے میں ڈرتے تھے کہ وہ کوئی ایسا دعویٰ کریں جس کے وہ حقدار نہیں ۔ انھوں نے تو لوگوں سے یہ کہا تھا کہ میں تو تمھیں رضاء آل محمد علیہم السلام کی طرف بلا رہا ہوں ۔ خدا کی طرف سے سزا کا مستحق تو وہ شخص ہے جو یہ دعوی کر گزرے کہ خدا نے اس کے بارے میں نص کر دی ہے اور پھر وہ دین الہی کے علاوہ کسی دوسرے دین کی طرف بلائے اور بغیر تحقیق کے اسکی راہ سے لوگوں کو ہٹا دے۔ خدا کی قسم جناب زید تو ان لوگوں میں سے تھے جنکے بارے میں قرآن حکیم کا ارشاد ہے: وَجَاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِ ۚ هُوَ اجْتَبَاكُمْ‘‘ (سورہ حج، آیت۷۸) اور خدا کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کا حق ہے وہ تو تمھیں اس کیلئے منتخب کر چکا ہے۔

اسی طرح ابو ہاشم جعفری نے کہا کہ جب میں نے امام علی الرضاؑ سے پھانسی پائے ہوئے (مصلوب) شخص کے بارے میں سوال کیا کہ اسکی کیا حیثیت ہوتی ہے اور کیا اس کیلئے رحمت کی دعا کی جاسکتی ہے؟
تو امام علیہ السلام نے فرمایا کہ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میرے جد بزرگوار(امام جعفر صادقؑ) نے اپنے چاچا جناب زید پر صلوات بھیجی اورطلب رحمت کی دعافرمائی ہے۔

حوالہ جات:
بحارالانوار ، ج 6، ص 19
عیون اخبارالرضا، جلد١، صفحہ٢۴٨

امید کرتا ہوں کہ حسن اللہیاری سمیت دیگر برادران یہاں تک پیش کی گئی احادیث و روایات سے مان چکے ہونگے کہ جو بھی امامت کا جھوٹا دعویٰ کرے تو اس نے حکمِ خدا پر اپنی مرضی و حرص کو فوقیت دی اور ایسا کرنے والے کے لیے قطعاً امامِ معصومؑ صلوات اور دعائے رحمت کے ساتھ اس کے صدیق ہونے پر گواہی نہیں دے سکتے اور نہ ہی اس کے لیے گریہ و حزن کا اظہار فرماتے ۔ تو یہ ثابت ہو چکا کہ جناب زید شہیدؒ پر دعویٰ امامت سراسر بہتان ہےاور خاندانِ اہل بیتؑ کے عظیم مرتبے پر حملہ ہے۔
اگر پھر بھی کوئی شک باقی ہے تو یہ احادیث بھی ملاحظہ فرمائیں :

حدّثنا أبو الحسن محمّد بن جعفر بن محمّد التميمي المعروف بابن النجّار النحوي الكوفي، عن محمّد بن القاسم بن زكريّا المحاربي، قال: حدّثني هشام بن يونس، قال: حدّثني القاسم بن خليفة، عن يحيى ابن زيد، قال: سألت أبي(عليه السلام) عن الأئمّة، فقال: الأئمّة اثنا عشر، أربعة من الماضين وثمانية من الباقين، قلت: فسمّهم يا أبه، فقال: أمّا الماضين فعلي بن أبي طالب والحسن والحسين وعلي بن الحسين، ومن الباقين أخي الباقر، وجعفر الصادق ابنه، وبعده موسى ابنه، وبعده علي ابنه، وبعده محمّد ابنه، وبعده علي ابنه وبعده الحسن ابنه، وبعده المهدي، فقلت يا أبه، ألست منهم ؟
قال: لا، ولكنّي من العترة.
قلت: فمن أين عرفت أساميهم؟ قال: عهد معهود عهده إلينا رسول اللّه(صلى الله عليه وآله وسلم)

ترجمہ :
قاسم بن خلیفہ سے روایت ہے کہ جناب یحییٰ بن زید ؒ نے بیان کیا کہ میں نے اپنے والد جناب زید سے اماموں کے سلسلہ میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: امام بارہ ہیں ، جن میں سے چار گذر گئے اور آٹھ باقی ہیں۔
میں نے عرض کیا کہ بابا جان ان کے نام کیا ہیں ؟ فرمایا : جو چار امام گذر گئے ان میں پہلے امام علی بن ابی طالب علیہ السلام ، دوسرے امام حسن بن علی علیہ السلام ، تیسرے امام حسین بن علی علیہ السلام اور چوتھے امام علی بن الحسین علیہ السلام ہیں۔ اور آٹھ امام جو باقی ہیں ان میں میرے بھائی امام محمد باقر علیہ السلام ہیں، ان کے بعد ان کے فرزند امام جعفر صادق علیہ السلام ہیں، ان کے بعد ان کے فرزند امام موسیٰ (کاظم )علیہ السلام ہیں، ان کے بعد ان کے فرزند امام علی (رضا ) علیہ السلام ہیں، ان کے بعد ان کے فرزند امام محمد(تقی) علیہ السلام ہیں، ان کے بعد ان کے فرزند امام علی(نقی ) علیہ السلام ہیں، ان کے بعد ان کے فرزند امام حسن(عسکری) علیہ السلام، ان کے بعد محمد(امام مہدی) عجل اللہ فرجہ الشریف ہیں۔
میں نے عرض کیا کہ کیا آپ ان میں سے نہیں ہیں؟
فرمایا: نہیں میں ان اماموں میں سے نہیں ہوں لیکن میں عترت رسولؐ میں شامل ہوں۔ عرض کیا کہ آپ کو ائمہ ہدیٰ علیہم السلام کے اسماء کا علم کیسے ہوا؟ فرمایا: یہ وہ عہد ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھ سے لیا ہے۔
حوالہ: بحار الأنوار، ج ٤٦ ،ص ١٩٨

اگر اب بھی کسی کو یہ باطل گمان ہے کہ جناب زید شہیدؑ امامت الہیہ کے معصوم آئمہ علیہم السلام سے متنفر تھے تو اب یہ دو احادیث بھی ملاحظہ فرمائیں اور ساتھ امام محمد باقر علیہ السلام کی تصدیق بھی ۔۔

حدّثنا أبو علي أحمد بن سليمان، قال: حدّثني أبو علي بن همام، قال: حدّثنا الحسن بن محمّد بن جمهور، عن أبيه محمّد ابن جمهور، عن حمّاد بن عيسى، عن محمّد بن مسلم، قال: دخلت على زيد بن علي(عليه السلام) فقلت: إنّ قوماً يزعمون أنّك صاحب هذا الأمر.
قال: لا، ولكنّي من العترة.
قلت: فمن يلي هذا الأمر بعدكم؟
قال: ستّة من الخلفاء والمهدي منهم.
قال ابن أسلم: ثمّ دخلت على الباقر(عليه السلام) فأخبرته بذلك فقال: "صدق أخي زيد، سيلي هذا الأمر بعدي سبعة من الأوصياء والمهديّ منهم”
ترجمہ :
محمد بن مسلم سےروایت ہے کہ میں جناب زید ؒ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ آپ ولی امر (امام) ہیں؟
فرمایا: میں ولی امر نہیں ہوں بلکہ عترت رسول میں شامل ہوں۔ پوچھا آپ کی ہدایت و رہنمائی کون کرتا ہے؟ فرمایا: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ) خلفاء و جانشینوں میں سےسات افراد ، جنمیں مہدی (علیہ السلام ) بھی ہیں۔
جناب محمد بن مسلم کہتے ہیں کہ میں امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمات میں حاضر ہوا اور پورے ماجرے سے باخبر کیا تو امام باقر علیہ السلام نے فرمایا: میرے بھائی زید ؒ نے صحیح کہا۔ میرے بعد سات افراد اولیاء امر ہوں گے۔ (امام) مہدی (علیہ السلام) بھی انہیں میں سے ہوں گے۔

حوالہ جات : كفاية الأثر : ٣٠٩ ـ ٣١٠، بحار الأنوار ٤٦ : ٢٠٠
اب یہ آخری حدیث بھی ملاحظہ فرمائیں

نص علي بن الحسين بن محمد ، عن هارون بن موسى ، عن محمد بن مخزوم مولى بني هاشم ، قال أبومحمد : وحدثنا عمر بن الفضل المطيري عن محمد بن الحسن الفرغاني ، عن عبدالله بن محمد البلوي ، قال أبومحمد : وحدثنا عبيدالله بن الفضل الطائي عن عبدالله بن محمد البلوي ، عن إبراهيم بن عبدالله بن العلا ، عن محمد بن بكير قال : دخلت على زيد بن علي وعنده صالح بن بشر فسلمت عليه ، وهو يريد الخروج إلى العراق ، فقلت له : يا ابن رسول الله حدثني بشئ سمعته عن أبيك فقال : نعم
حدثني أبي عن أبيه عن جده قال : قال رسول الله : من أنعم الله عليه بنعمة فليحمدالله ، ومن استبطأ الرزق فليستغفر الله ، ومن أحزنه أمر فليقل : لا حول ولا قوة إلا بالله.

فقلت : زدني يا ابن رسول الله ، قال : نعم حدثني أبي عن أبيه عن جده قال : قال رسول الله : أربعة أنا لهم الشفيع يوم القيامة ، المكرم لذريتي ، والقاضي لهم حوائجهم ، والساعي لهم في امورهم عند اضطرارهم إليه ، والمحب لهم بقلبه ولسانه.

قال : فقلت : زدني يا ابن رسول الله من فضل ما أنعم الله عزوجل عليكم قال : نعم حدثني أبي عن أبيه ، عن جده قال : قال رسول الله : من أحبنا أهل البيت في الله حشر معنا ، وأدخلناه معنا الجنة ، يا ابن بكير من تمسك بنا فهو معنا في الدرجات العلى ، يا ابن بكى إن الله تبارك وتعالى اصطفى محمدا و اختارنا له ذرية فلو لانا لم يخلق الله تعالى الدنيا والآخرة ، يا ابن بكير بنا عرف الله ، وبنا عبدالله ، ونحن السبيل إلى الله ، ومنا المصطفى والمرتضى ، ومنا يكون المهدي قائم هذه الامة.

قلت : يا بن رسول الله هل عهد إليكم رسول الله متى يقوم قائمكم؟ قال : يا ابن بكير إنك لن تلحقه ، وإن هذا الامر تليه ستة من الاوصياء بعد هذا ثم يجعل الله خروج قائمنا ، فيملاها قسطا وعدلا ، كما ملئت جورا وظلما ، فقلت : يا ابن رسول الله ألست صاحب هذا الامر؟ فقال : أنا من العترة ، فعدت فعاد إلي فقلت : هذا الذي تقول ، عنك أو عن رسول الله ؟ فقال : لو كنت أعلم الغيب لاستكثرت من الخير ، لا ولكن عهد عهده إلينا رسول الله ، ثم أنشأ يقول :
نحن سادات قريش وقوام الحق فينا
نحن الانوار التي من قبل كون الخلق كنا
نحن منا المصطفى المختار والمهدي منا
فبنا قد عرف الله وبالحق أقمنا
سوف يصلاه سعير من تولى اليوم عنا

ترجمہ :
۔۔۔ اے ابن بکیر! جو بھی ہم سے متمسک ہوا وہ میرے ساتھ اعلیٰ درجات میں ہوگا۔ خدا وند عالم نے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو منتخب کیا اور ہمیں ان کی نسل میں قرار دیا۔ اگر ہم نہ ہوتے تو اللہ دنیا و آخرت کو خلق نہ کرتا ۔ ائے ابن بکیر! اللہ کی ہمارے ذریعہ معرفت حاصل کی گئی اور اسکی عبادت کی گئی۔ ہم ہی ہیں جو اللہ کی راہ پر گامزن ہیں۔ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہم میں سے ہیں، امیرالمومنین امام علی علیہ السلام ہم میں سے ہیں۔ امام مہدی علیہ السلام ہم میں سے ہیں جو اس امت کے قائم ہیں۔

عرض کیا ائے فرزند رسولؐ! کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کو نہیں بتایا کہ حضرت قائم ؑ کب قیام کریں گے؟ فرمایا: اے ابن بکیر! تم ان کا ادراک نہیں کر پاؤگے۔ لیکن جان لو کہ ان (امام جعفر صادق علیہ السلام ) کے بعد چھ امام اس امت کے سرپرست ہوں گے۔ پھر ہمارے قائم ؑ کا قیام ہوگا جو دنیا کو اسی طرح عدل و انصاف سے بھر دیں گے جیسے وہ ظلم و جور سے بھری ہو گی۔ عرض کیاکہ فرزند رسولؐ! کیا آپ ولی امر (امام) نہیں ہیں؟ فرمایا: میں عترت رسولؐ میں ہوں۔ میں نے دوبارہ پوچھا تو یہی جواب دیا۔ عرض کیا کہ آپ جو فرما رہے ہیں یہ اپنی جانب سے کہہ رہے ہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جانب سے؟ فرمایا: ’’و لو کنت اعلم الغیب لاستکثرت لنفسی‘‘ اگر مجھے علم غیب ہوتا تو اس سے زیادہ اپنے لئے طلب کرتا ۔ لیکن یہ وہ عہد ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہم سے لیا ہے۔ اس کےبعد مندرجہ ذیل اشعار پڑھے ۔

’’نحن سادات قریش و قوام الحق فینا‘‘ ہم سادات قریش ہیں اور حق کا قیام ہم سے ہے۔ ہم وہ نور ہیں جو مخلوقات کی خلقت سے پہلے موجود تھے۔ پس اللہ ہماری وجہ سے پہچانا گیا اور ہم حق کو قائم کئے ہیں۔ جو بھی ہم سے روگردانی کرے گا اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔

حوالہ :
بحار الأنوار – ط مؤسسةالوفاء العلامة المجلسي جلد : 46 صفحه : 202
كفاية الاثر للخزاز ص ٣٢٦

کون ہے جو یہ کہے کہ معاذاللہ جنابِ زید بن علیؑ نے امامت کا دعویٰ کیا؟؟؟ ہے کوئی جواب ؟

اب وہ احادیث بھی ملاحظہ فرما لیں جس سے یہ قطعی طور پر ثابت ہو جائے گا کہ جنابِ زید شہیدؒ کو ناصرف امام جعفر صادقؑ کی تائید حاصل تھی بلکہ قیامِ زید میں شامل ہونے والوں کی امامؑ نے تعریف و تمجید بھی فرمائی اور جو شامل نہ ہوئے ان پر نفرین بھی کی ۔۔ ملاحظہ فرمائیں۔۔

عن ابن الوليد،عن الصفّار،عن البرقي،عن أبيه،عن ابن شمّون،عن عبد اللّه بن سنان،عن الفضيل،قال:انتهيت إلى زيد بن علي(عليهما السلام)صبيحة خرج بالكوفة، فسمعته يقول:من يعينني[منكم على قتال أنباط أهل الشام،فو الذي بعث محمّدا صلّى اللّه عليه و آله و سلّم بالحقّ بشيرا،لا يعينني منكم على قتالهم أحد إلاّ أخذت بيده يوم القيامة فأدخلته الجنة بإذن اللّه

فضیل بن یسار کا بیان ہے کہ جس دن حضرت زید ؒ نے قیام کیا اس دن صبح میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہ فرما رہے تھے انباط(شمالی عرب) اہل شام سے جنگ کرنے میں کون میری مدد کرے گا؟ اس خدا کی قسم جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث کیا ہے تم میں سے جو بھی جنگ میں ان (چچا زیدؒ) کی مدد کرے گا تو قیامت کے دن میں اس کا ہاتھ پکڑ کر اذن خدا سے جنت میں داخل کروں گا۔

حوالہ جات:
عيون أخبار الرضا عليه السلام 1/252
أمالي الشيخ الصدوق رحمه اللّه:349

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

میرے چچا زید ؑنے کوفہ جانے سے پہلے مجھ سے مشورہ کیا تو میں نے ان سے کہا: چچا! اگر آپ کناسہ میں قتل ہونے کے بعد پھانسی پر لٹکنا چاہتے ہیں تو آپ کو اختیار ہے۔ جب وہ امام صادق علیہ السلام کے بیت الشرف سے نکلے تو امام علیہ السلام نے فرمایا: افسوس ہے اس شخص پرجو ان کی آواز سنے اور ساتھ نہ دے۔
۔۔ وَ لَقَدِ اسْتَشَارَنِي فِي خُرُوجِهِ فَقُلْتُ لَهُ يَا عَمِّ إِنْ رَضِيتَ أَنْ تَكُونَ الْمَقْتُولَ الْمَصْلُوبَ بِالْكُنَاسَةِ فَشَأْنَكَ فَلَمَّا وَلَّى قَالَ جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ وَيْلٌ لِمَنْ سَمِعَ وَاعِيَتَهُ
حوالہ : عيون أخبار الرضا(ع) الشيخ الصدوق جلد : 1 صفحه : 249

یہاں جان بوجھ کر شیعہ محدثین کی دفاع جناب زید میں پیش کی گئی آراء شامل نہیں کر رہا کیونکہ تحریر اب تحریر سے بڑھ کر کتابی شکل لینے لگی ہے تو فقط چند قدیم علماء کی لکھی ان کتابوں کی معرفی کروا دوں جو انہوں نے جناب زید شہید کے دفاع میں لکھی ہیں پھر اس کے بعد جناب زید شہید کے شدید ترین مصائب اور شہادت کا بیان کر کے تحریر کا اختتام کرتا ہوں ۔۔

1 – إبراهيم بن سعيد بن هلال الثقفي المتوفى 283، له كتاب أخبار زيد
2 – محمد بن زكريا مولى بني غلاب المتوفى 298، له كتاب أخبار زيد
3 – الحافظ أحمد بن عقدة المتوفى 333، له كتاب من روى أخبار زيد ومسنده
4 – عبد العزيز بن يحيى الجلودي المتوفى 368، له كتاب أخبار زيد
5 – محمد بن عبد الله الشيباني المتوفى 372، له كتاب فضايل زيد
6 – الشيخ الصدوق أبو جعفر القمي المتوفى 381، له كتاب في أخباره
7 – ميرزا محمد الاسترابادي صاحب الرجال الكبير
8 – السيد عبد الرزاق المقرم

خاندانِ رسالت کے عزادارو آؤ اب سید سجادؑ کےمظلوم بیٹے زید شہید کے مصائب سنو ۔۔

مسعودی کا بیان ہے کہ پورے دن جہاد کے بعدجب شب کو زید زخموں سے چور پلٹے تو ان کی پیشانی میں ایک تیر پیوست تھا۔ بہت تلاش کے بعد کسی گاؤں سے ایک حجام لایا گیا۔ جنابِ زید کے ساتھیوں نے اُس سے جگہ کو راز رکھنے کا عہد لیا، اس نے تیر نکالا اور اور ادھرزید شہید کی روح بھی نکل گئی۔ ایک راج بہے میں ان کو دفن کر کے اس پر مٹی اور بانس وغیرہ ڈال کر قبر کو پانی میں غرق کر دیا تا کہ کسی کو معلوم نہ ہو سکے۔ اُس حجام نے جو اُن کے دفن میں موجود تھا اور جس نے اس مقام کو اچھی طرح دھیان میں رکھا تھا صبح ہوتے ہی خود جا کر حاکم کو سارے واقعہ کی اطلاع کی اور ان کی قبر بتادی۔ حاکم نے زید کی لاش نکلوائی اور سرکاٹ کر ہشام بن عبد الملک کے پاس بھیج دیا۔ ہشام نے حاکم (یوسف) کو حکم دیا کہ زید کے جسد کو عریاں کر کے سُولی پر لٹکا دیا جائے۔ یوسف نے حسب حکم بجا آوری کی۔ اس کے متعلق بنی امیہ کے کسی شاعر نے آل ابی طالب اور اُن کے شیعوں کو خطاب کر کے ایک طویل قصیدہ لکھا جس کا ایک شعر یہ ہے کہ:

صلبنا لكم زيدا على جذع نخلة
ولم أر مهد يا على الجذع يُصلب

ترجمہ: ہم نے کھجور کے تنے پر تمہاری عبرت کے لئے زید کو سولی پر لٹکا دیا اور میں نے کبھی کسی مہدی کو اس طرح درخت کے تنے پرسُولی دیا جاتا ہوا نہیں، دیکھا۔

المختصر کہ اس سولی کے نیچے (جس پر زید شہید کے جسد کو آویزاں کیا گیا تھا) حکومت نے اور ستون کھڑے کرا دیئے تھے، اس واقعہ کے بہت عرصہ بعد ہشام نے یوسف کو حکم دیا کہ زید کے لاشہ کو جلا کر اس کی خاک ہوا میں اڑا دی جائے ۔۔

۔ اور تاریخ خمیس میں لکھا ہے کہ جب زید شہید کا برہنہ جسم دار پر چڑھایا گیا تو مکڑی نے جالا لگا کر اُن کی شرمگاہ کو چھپا دیا ۔ !

ایک اور روایت یہ ہے کہ ہشام نے حضرت زید شہید کا سر دمشق کے دروا زہ پر نصب کرا دیا اور پھر اس سر کو مدینہ بھیجوا دیا۔ ہشام کے مرنے تک حضرت زید شہید کی لاش کنا سہ میں سولی پر لٹکی رہی اور اُس کے مرنے کے بعد ولید نے اُسے اتروا کر جلوا دیا۔
وا غربتا ۔۔ وامصیبتا ۔۔

شیخ صدوق وطوسی نے اپنی امالی میں اور علامہ مجلسی نے اپنی بحار میں صادقِ آل محمدؑ کی زبانی جنابِ زید شہید کے مصائب اس طرح نقل کیے ۔۔

امام صادق علیہ السلام نے حمزہ بن حمران سے فرمایا: زید کی پیشانی مبارک سے تیر نکلنے کے بعد ان کے جسم سے روح نکل گئی۔ چنانچہ ان کے جنازے کو ایک چھوٹی نہر کے پاس لائے جو ایک باغ کے کنارے سے نکلی تھی ، وہاں قبر کھودی اور ان کے جنازے کو دفن کر کے پانی کو اس پر جاری کر دیا گیا (تاکہ دشمنوں کو ان کی قبر کا پتہ نہ چلے اور وہ قبر کی بے حرمتی نہ کر سکیں۔) لیکن جب جناب زید ؒ کو وہاں دفن کر رہے تھے تو ان کے ساتھ ایک سندی غلام تھا ۔ وہ سندی غلام یوسف بن عمر کے پاس گیا اور اس کو جناب زید ؒ کی قبر کا پتہ بتا دیا۔یوسف بن عمر جناب زیدؒ کی قبر مبارک کے پاس آیا اور اس نے قبر کھلوا کر جنازہ کو باہر نکلوا کر سولی پر لٹکوا دیا جو چار سال تک سولی پر لٹکا رہا۔ خدا جناب زید کے قاتل اور انکی توہین کرنے والے پر ل،ع۔نت کرے۔
حوالہ جات : امالی صدوق، صفحہ ۳۵۱؛ امالی طوسیؒ، صفحہ۶۵۴؛ بحارالانوار، جلد۴۶، صفحہ ۱۷۳

ایک روایت اس طرح ہے ۔۔
حمزہ بن حمران کا بیان ہے کہ میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپؑ نے پوچھا کہ تم کہاں سے آ رہے ہو؟ میں نے عرض کیا کوفہ سے آ رہا ہوں۔ یہ سننا تھا کہ امام ؑ نے اس قدر گریہ کیا کہ آپؑ کی ریش مبارک تر ہو گئی۔ عرض کیا فرزند رسولؐ! کیوں اس قدر گریہ فرما رہے ہیں؟ فرمایا: مجھے میرے چچا زید یاد آ گئے اور ان پر پڑنے والے مصائب یاد آ گئے۔ میں بھی گریہ کنا تھا۔ حالت گریہ میں پوچھا مولا ! آپؑ کو کیا چیز یاد آئی؟ فرمایا: انکی شہادت یاد آ گئی کہ ایک تیر انکی پیشانی پر لگا تھا انکے بیٹے نے خود کو باپ پر گرا دیا اور کہا بابا جان! آپ کو بشارت ہو کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، امیرالمومنین امام علی، حضرت فاطمہ زہرا، امام حسن اور امام حسین علیہم السلام کی خدمت میں پہنچیں گے۔ جناب زیدؒ نے فرمایا، میرے بیٹے تم نے سچ کہا ایسا ہی ہوگا۔ اس کےبعد جب تیر کو پیشانی سے نکالا گیا تو آپ کی روح نکل گئی اور آپ شہید ہو گئے۔
حوالہ : امالی صدوق، صفحہ ۳۵۱

امالی شیخ طوسی کے مطابق مھزم بن ابی بردہ اسدی کا بیان ہے کہ جناب زیدؒ کو سولی دئیے ہوئے چند دن گذرے تھے کہ میں مدینہ منورہ پہنچا اور امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ جیسے ہی امامؑ کی نگاہ مجھ پر پڑی فرمایا: ائے مھزم! میرے چچا زید کا کیا ہوا؟ عرض کیا کہ انہیں سولی دے دی گئی۔ پوچھا سولی کہاں دی گئی؟ عرض کیا کہ کناسہ بنی اسد میں۔ امام صادق علیہ السلام نے پوچھا: تم نے کناسہ بنی اسد میں انہیں سولی پر دیکھا ہے؟ عرض کیا ہاں۔ یہ سننا تھا کہ امام عالی مقام نے گریہ کیا اور خواتین نے بھی گھر کے اندر گریہ کیا کہ پشت پردہ سے آواز گریہ بلند تھی۔ اس وقت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: ابھی دشمنوں کی ایک خواہش باقی ہے۔ یہ سن کر میں سوچنے لگا قتل اور سولی کے بعد کیا خواہش باقی رہ سکتی ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کو خدا حافظ کہا اور جب کناسہ کوفہ پہنچا تو دیکھا کہ لوگوں کی بھیڑ ہے۔ نزدیک گیا کہ دیکھو کہ کیا ہو رہا ہے؟ نزدیک پہنچا تو کیا دیکھا کہ لوگ جناب زید ؒکے جنازہ کو سولی سے اتار کر جلانا چاہتے ہیں۔ میں سمجھ گیا کہ یہی خواہش باقی ہے جسے امام ؑنے فرمایا تھا۔
حوالہ : امالی شیخ طوسی، صفحہ ۹۴۵

جناب زید شہید کے جسد کو جلا کر راکھ کرنے پر ان ہی کے ایک شہید بیٹے سید سبط جعفر زیدی نے یہ اشعار کہے ۔۔

حسینیت کی بقا تھے جناب زید شہید
یزیدیت کی فنا تھے جناب زید شہید
جلا کے راکھ بنایا پر روشنی نہ گئی
چراغ حق کی ضیاء تھے جناب زید شہید

والسلام، احقر سید ابوعبداللہ زیدی

Continue Reading

اسلامی شخصیات

دفاعِ امیر مختار (رح) – حسن اللہیاری کو جواب

بسم الله الرحمن الرحيم

السلام علیکم مومنین و مومنات۔۔۔ تحفہ یا علیؑ مدد

 

اپنی تحریر کا آغاز زیارتِ مختارؒ کے ان جملوں سے کر رہا ہوں جس کو شہید اول نے اپنی کتاب المزار کی فصل ثالث کے صفحہ 298 پر درج کیا ہے۔۔۔

 

السَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّهَا الْعَبْدُ الصَّالِحُ السَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّهَا الْوَلِیُّ النَّاصِحُ السَّلَامُ عَلَیْکَ یَا أَبَا إِسْحَاقَ الْمُخْتَارَ السَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّهَا الْآخِذُ بِالثَّارِ الْمُحَارِبُ لِلْکَفَرَةِ الْفُجَّارِ السَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّهَا الْمُخْلِصُ لِلَّهِ فِی طَاعَتِهِ وَ لِزَیْنِ الْعَابِدِینَ عَلَیْهِ السَّلَامُ فِی مَحَبَّتِهِ السَّلَامُ عَلَیْکَ یَا مَنْ رَضِیَ عَنْهُ النَّبِیُّ الْمُخْتَارُ وَ قَسِیمُ الْجَنَّةِ وَ النَّارِ وَ کَاشِفُ الْکَرْبِ وَ الْغُمَّةِ قَائِماً مَقَاماً لَمْ یَصِلْ إِلَیْهِ أَحَدٌ مِنَ الْأُمَّةِ السَّلَامُ عَلَیْکَ یَا مَنْ بَذَلَ نَفْسَهُ فِی رِضَاءِ الْأَئِمَّةِ فِی نُصْرَةِ الْعِتْرَةِ الطَّاهِرِینَ وَ الْأَخْذِ بِثَارِهِمْ مِنَ الْعِصَابَةِ الْمَلْعُونَةِ الْفَاجِرَةِ فَجَزَاکَ اللَّهُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَ آلِهِ وَ مِنْ أَهْلِ بَیْتِهِ عَلَیْهِمُ السَّلَام

 

دفاعِ مختار (رض) پر میری یہ تحریر آپ سب قارئین کو تھوڑی طویل تمہید کی زحمت دے گی تاکہ کچھ دیگر نکات سے مومنین و مومنات کو آگاہی دلا کر پھر اصلِ مدعا پر قلم درازی کر سکوں.

 

دیکھیے مومنین.. جو شخص بھی دفاعِ اہل بیت علیہم السلام میں کام کرے وہ میرے سر کا تاج ہے یہی وجہ ہے کہ میں نے کبھی بھی حسن اللہیاری کے خلاف کچھ نہیں لکھا بلکہ یہاں موجود کافی مومنین و مومنات اس بات کے گواہ بھی ہونگے کہ جب بھی کسی نے مجھ سے پرائیویٹ میسج پر اللہیاری کے متعلق پوچھا ہے تو میں نے ہمیشہ دفاع مکتبِ تشیع پر ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے مومنین کو یہی جواب دیا ہے کہ حسن اللہیاری کے بنیادی عقائد بالکل درست ہیں اور دفاع مکتب پر ان کی خدمات قابلِ تحسین ہیں.

 

لیکن جہاں تک ان سوالات کا تعلق ہے جن میں مومنین نے مجھ سے اجتہاد و تقلید پر اللہیاری کے بارے میں دریافت کیا تو میں نے ہمیشہ یہی کہا کہ اس عنوان پر اللہیاری صاحب کی معلومات انتہائی ناقص ہیں اور انشاءاللہ جلد ہی ان کے اجتہاد مخالف نظریات کی اصلاح کی کوشش کریں گے.

 

تو 14 اکتوبر 2022 بروز جمعہ 17 ربیع الاول کو مولانا شیخ تقی ہاشمی النجفی صاحب نے جنابِ اللہیاری سے لائیو مباحثہ منعقد کیا تاکہ اجتہاد پر ان کے تحفظات کا ازالہ ہو سکے اور انتہائی علمی انداز میں اللہیاری سمیت دیگر مومنین کے اذہان عالیہ کو اس شش و پنج سے آزاد کرایا جا سکے.

 

پروگرام کا دورانیہ لگ بھگ 5 گھنٹے طویل رہا اور لاتعداد مومنین رات گئے تک اس مباحثے کو دیکھتے رہے.

 

مگر اللہیاری صاحب کی روشِ استدلال انتہائی درجہ جارحانہ اور غیر علمی دیکھنے میں آئی جبکہ مولانا تقی ہاشمی صاحب نے مسلسل توہین آمیز باتوں کو بھی انتہائی اخلاق و ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے پروگرام کو جاری رکھا اور بالکل بھی اللہیاری جیسی روش اختیار نہ کی…

 

واللہ اگر کوئی میرے جیسا شخص اس وقت اللہیاری صاحب کے مقابلے میں ہوتا تو یقیناً لائیو شو کا ماحول بالکل پاکستانی ٹاک شو جیسا ہو جاتا.. کیونکہ اس قدر بدتمیزی کو برداشت کرنا مجھ جیسے ادنیٰ مبلغ کے بس کی بات نہیں!

 

خلاصہ کروں تو اب تک مومنین و مومنات کے سوالات آ رہے ہیں کہ آپ لائیو مباحثہ پر اپنا تبصرہ ضرور دیں جو کہ عدل کے مطابق ہو..

 

تو مومنین کی اس درخواست پر اللہ کو حاضر ناظر جان کر اور وقت کے امام (عج) کو گواہ بنا کر پروگرام کے خلاصہ پر اپنا تبصرہ کچھ اس انداز سے مختصراً پیش کر رہا ہوں..

 

(نوٹ: میں مجبور ہوں کہ اب اللہیاری کو اسی کے انداز میں مخاطب کروں)

 

پروگرام پر ابوعبداللہ کا تبصرہ..

 

مولانا تقی ہاشمی کہتے رہے کہ ماہر و اسپیشلسٹ ڈاکٹر سے علاج دریافت کیا جائے اور آپریشن سند یافتہ سرجن سے کروایا جائے جبکہ اللہیاری صاحب بضد تھے کہ کسی بھی اتائی، نائی قصائی سے بھی علاج کروایا جا سکتا ہے یعنی سرجری کی کتاب پڑھنی آئے یا نہ آئے مکلف اپنی ذاتی ٹامک ٹوئی مارے اور خود ہی علاج نکال لے..

 

مولانا تقی ہاشمی کہتے رہے کہ میڈیکل کالج سے مکمل علم حاصل کر کے انسان علاج کرے جبکہ اللہیاری صاحب بضد رہے کہ گھر بیٹھے ڈاکٹر بننے والی کتاب پڑھ کر خود اپنا علاج دریافت کریں اور سرجری بھی خود کتاب پڑھ کر سیکھ لیں کیونکہ عوام گدھے نہیں ہیں اور اپنا علاج و سرجری خود کر سکتے ہیں..

 

بقول اللہیاری صاحب.. اسی نوے سال مسلسل علوم اہل بیت علیہم السلام میں غواصی کرنے والے فقہاء تشیع کی بات نہ مانی جائے لیکن کسی بھی اتائی کی بات حجت سمجھ کر مان لی جائے..

 

واہ واہ کیا اپروچ ہے اللہیاری صاحب کی ، سبحان اللہ ، چشم بد دور

 

واقعاُ حیرت ہے کہ کون اشخاص جنابِ اللہیاری کی ان بکواسیات کی تائید کریں گے.

 

میرے بھائیوں المختصر یہ کہ جس دن لوگ قصائی سے اپنے دماغ کا آپریشن کروانے لگیں اور رکشہ ڈرائیور کو بطور پائلٹ مسافروں سے بھرا جہاز اڑانے دیں، اسی دن اللہیاری کی تعلیمات پر ہر ایرے غیرے نتھو خیرے سے مسائل دین بھی حل کروانے لگیں گے..

 

یہ ہے میرا تبصرہ جو کسی بھی عقل و شعور رکھنے والے مومن کے لیے کافی ہوگا..

 

اب چلتے ہیں امیر مختار پر اللہیاری کے اٹھائے فضول ترین اور انتہائی درجے بچکانہ سوال کی جانب جہاں موصوف اپنے آفیشل یوٹیوب چینل کی کمیونٹی میں ایک پوسٹ کچھ اس طرح لگاتے ہیں :

 

” جولوگ کہتے ہیں کے مختار ثقفی شیعہ عقیدے کے حامل تھے ،ان سے گزارش ہے کہ براہ مہربانی مذکور کی شیعہ ہونے کی دلیل ( جو مختار کو شیعہ ثابت کرے نہ یہ کہ انہوں نے اچھے اچھے کام کیے ہیں) کمنٹ سیکشن میں تحریر فرمائیں”

 

جی مومنین و مومنات ملاحظہ کیا کہ موصوف نے کس قدر بچکانہ سوال داغ کر حضرت امیر مختار (رض) پر سقیفائی روش کو اپنایا ہے..

 

میں نے جس زیارت نامہ کو اپنے سرنامہ میں لکھا ہے، اللہیاری کے بچکانہ سوال کے جواب میں وہی کافی ہے جہاں کوئی عام عالم نہیں بلکہ شہید اول جیسے عظیم الشان عالم نے اپنی کتاب المزار میں حضرت مختار کے ساتھ رضی اللہ تعالیٰ عنہ لکھ کر زیارت نامے کو نقل کر کے اللہیاری سمیت تمام ناقص علم افراد کو جواب دے دیا ہے.

 

ممكن ہے کہ اللہیاری و جواد نقوی جیسے افراد اور ان کے چیلوں کو اس پر اعتراض ہو.. تو کیوں نا کچھ سوالات کر کے تحریر کا باضابطہ آغاز کیا جائے…

 

اللہیاری سے معصومانہ سوال :

 

اللہیاری صاحب مجھے بتانا پسند فرمائیں گے کہ جو اصول آپ نے جنابِ مختار کے لیے وضع کیا ہے، کیا وہ فقط مختار ثقفی (رض) تک ہی محدود ہے یا اس کا اطلاق دیگر اصحابِ رسول و آئمہ علیہم السلام پر بھی ہوگا؟؟

 

اگر اسی جہالت کو اصول بنا لیا جائے تو پھر بڑے بڑے اصحابِ معصومین کو بآسانی شیعیت سے مکھی کی طرح باہر نکال دیا جائے گا کہ ان کے کارنامے اپنی جگہ ہیں اور انہوں نے اپنی جانیں بھی امام پر قربان کر دیں جبکہ تاریخی منابع سے اللہیاری یہ والے الفاظ کہ جن میں انہوں اپنے تمام عقائدِ حقہ کسی جملوں میں بیان کیا ہو دکھا دیں…

 

مجھے تو حیرت ہے کہ اللہیاری جیسے افراد اتنی ناقص سوچ کے مالک ہو سکتے ہیں؟؟

 

یعنی اللہیاری صاحب تمام اصحاب رسول و آئمہ کی زبان سے ختمِ نبوت کا اقرار ثابت کریں ورنہ سب قادیانی ثابت ہو جائیں گے..

 

چلیں توحید کا زبانی اقرار ثابت کریں خواہ جہاد کیا ہو، نمازیں پڑھی ہوں یا دیگر نیک کام کئے ہوں.. ورنہ ک ا. فر کا حکم لگائیں کہ زبان سے اقرار توحید تو ثابت نہیں ہے..

 

ہاں جی اللہیاری… کرو گے ثابت؟؟

 

ان کا کیا کرو گے جو جہادِ کربلا میں آقا حسین علیہ السلام پر اپنی جانیں فدا کر چکے ہیں جن کے بارے میں فقط نام کی حد تک معلومات کتابوں میں میسر ہیں؟؟ کیا وہ سب بھی 72 شہداء میں ہو کر بھی اس وجہ سے شیعہ قبول نہیں کیے جا سکتے کہ ان کے عقائدِ حقہ کا کتابوں سے اقرار ثابت نہیں؟؟؟ کیا یہی پیمانہ ہے کسی کو شیعہ ثابت کرنے کا؟؟؟

 

واللہ حد درجے جہالت… قسم سے.. میں واقعا اللہیاری کے اس جاہلانہ اصول کو لے حیران ہوں..

 

قارئین کرام..

 

اوپر پیش کیے گئے میرے سوالات ہی اللہیاری کے شدید جاہلانہ سوال کے جواب کے طور پر کافی ہیں پر سوچ رہا ہوں کہ حضرت مختار(رض) پر اللہیاری کو مختصراً کلاس کے طور پر سبق پڑھا ہی دیا جائے تاکہ اتمام حجت ہو جائے..

 

تو شروع کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کیا مختار شیعہ تھا یا نہیں..

 

امیرالمومنین امام علی علیہ السلام اور حضرتِ مختار

 

سب سے پہلے پیش خدمت ہے امام علیؑ جیسے کُل علم و عقل ولی خدا کا مختار کو اپنے زانو مبارک پر بٹھا کر "ذہین” کا لقب دینا۔۔ جسے تیسری اور چوتھی صدی ہجری کے بزرگ شیعہ عالم عبد العزیز کشی نے اپنی مشہور زمانہ کتاب معرفۃ الناقلین عن الائمۃ الصادقین جو رجال کشی کے نام سے جانی جاتی ہے رقم کرتے ہیں جبکہ اسی حدیث کو علامہ مجلسی نے بحار میں ، عبدالله بن نورالله بحرانی نے جامع العلوم و المعارف و الاحوال من الایات و الاخبار و الاقوال میں بھی نقل کیا ہے۔

 

عن الأصبغ قَالَ: رَأَيْتُ الْمُخْتَارَ عَلَى فَخِذِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ وَهُوَ يَمْسَحُ رَأْسَهُ وَيَقُولُ: يَا كَيِّسُ يَا كَيِّسُ.

 

اصبغ ابن نباتہ نے کہا کہ میں نے مختار کو دیکھا کہ وہ اميرالمومنین امام على عليہ السلام کے زانو پر بیٹھا ہوا تھا اور مولا اپنا دستِ مبارک اس کے سر پر پھیر رہے تھے اور ساتھ ساتھ اس سے فرما رہے تھے کہ اے ذہین اے ذہین۔

 

حوالہ :

رجال الکشی، الجزء۱، الصفحة۱۲۷

بحار الأنوار، الجزء۴۵، الصفحة۳۴۴

جامع العلوم و المعارف و الاحوال من الایات و الاخبار، الجزء۱۷، الصفحة۶۴۹

 

جی مومنین آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس شخص کا کیا مقام ہوگا جسے مولائے کائنات جیسا امامِ معصوم اپنی گود میں بٹھا کر اور شفقت سے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے زیرک و ذہین ہونے کی ڈگری عطا کرے۔۔

 

جی اللہیاری صاحب۔۔ کیا کہتے ہیں اب مختار کے بارے میں ؟؟

 

چلیں آگے چلتے ہیں ۔۔

 

اللہیاری صاحب ملاحظہ فرمائیں کہ امیرالمومنین کن الفاظ کے ساتھ مختار کے قیام کی بشارت دے رہے ہیں :

 

سیقتل ولدی الحسین و سیخرج غلام من ثقيف و یقتل من الذین ظلموا۔

بہت جلد میرے بیٹے حسین کو قتل کیا جائے گا لیکن زیادہ دیر نہیں ہو گی کہ قبیلہ ثقیف سے ایک جوان قیام کرے گا اور ان ستمگروں سے بدلہ لے گا۔

 

حدیقۃ الشیعه، ص 405

 

چلیں جلدی سے اسی انداز کی ایک اور روایت علامہ مجلسی سے بھی وصول کری لیں ۔۔

 

علامہ مجلسی اپنی بحار کی جلد 45 میں امیرالمومنین امام حسین کی شہادت کی خبر دیتے ہوئے فرماتے ہیں ۔۔

 

قال أمير المؤمنين عليه السلام: وسيصيب الذين ظلموا رجزا في الدنيا بسيوف بعض من يسلط الله تعالى عليهم للانتقام بما كانوا يفسقون كما أصاب بني إسرائيل الرجز، قيل: ومن هو؟ قال: غلام من ثقيف، يقال له المختار بن أبي عبيد

 

ترجمہ :

اور اس دنیا میں ظلم کرنے والوں پر ایک مصیبت نازل ہوگی، بعض کی تلواروں سے جنہیں خدا تعالیٰ ان کی خطا کا بدلہ لینے کی طاقت دے گا، جیسا کہ بنی اسرائیل پر غضب نازل ہوا، عرض کیا گیا: اور وہ کون ہے؟ فرمایا: ثقیف کا ایک لڑکا جس کا نام مختار بن ابی عبید ہے۔

 

حوالہ : بحار الأنوار – العلامة المجلسي – ج ٤٥ – الصفحة ٣٤٠

 

اللہیاری صاحب ۔۔ ذرا غور کریں امیرالمومنین کے الفاظ پر ۔۔ مختار کو خدا طاقت دے کر ظالموں پر اپنا غضب نازل کرے گا ۔۔

 

چلیں جی اب مختار کی پرورش پر بھی کچھ بیان ہو جائے ۔۔

 

مکتبِ تشیع کے بلند قامت عالم محمد بن جعفر ابن نما جو کہ محقق حلی کے استاد اور خاندان ابن نما کے معروف ترین شیعہ علماء میں سے ایک ہیں، جنہوں نے ابن ادریس حلی، برہان الدین محمد قزوینی اور جعفر بن نما جیسے اساتذہ سے کسب فیض کیا اور سید بن طاووس، عبد الکریم بن احمد ابن طاووس، ابن علقمی وزیر، محقق حلی اور یوسف بن علی حلی جیسے عظیم الشان علماء اپنے شاگرد بنا کر تشیع کو دیے وہ اپنی کتاب ذوب النضار میں لکھتے ہیں :

 

فَنَشَأَ مِقْدَاماً شُجَاعاً لَا يَتَّقِي شَيْئاً وَتَعَاطَى مَعَالِيَ الْأُمُورِ وَكَانَ ذَا عَقْلٍ وَافِرٍ وَجَوَابٍ حَاضِرٍ وَخِلَالٍ مَأْثُورَةٍ وَنَفْسٍ بِالسَّخَاءِ مَوْفُورَةٍ وَفِطْرَةٍ تُدْرِكُ الْأَشْيَاءَ بِفَرَاسَتِهَا وَهِمَّةٍ تَعْلُو عَلَى الْفَرَاقِدِ بِنَفَاسَتِهَا وَحَدْسٍ مُصِيبٍ وَكَفٍّ فِي الْحُرُوبِ مُجِيبٍ وَمَارَسَ التَّجَارِبَ فَحَنَّكَتْهُ وَلَابَسَ الْخُطُوبَ فَهَذَّبَتْهُ.

 

ترجمہ :

مختار نے اس حال میں پرورش پائی کہ وہ بہت بہادر اور نڈر انسان تھے، وہ اپنی بلند ہمتی کے ساتھ ہمیشہ بلند ہمت کام انجام دیتے تھے، وہ عقلمند اور حاضر جواب تھے، سخاوت اور صداقت میں بے مثال تھے، اپنی ذہانت اور دوراندیشی سے کاموں کو سمجھ لیا کرتے تھے، وہ آئندہ واقع ہونے والے کسی بھی کام کے اندازہ لگانے اور جنگ کرنے میں بہت طاقتور تھے۔

 

ذوب النضار في شرح الثار،‌ ص61

 

یہی متن علامہ مجلسی نے بھی اپنی بحار کی جلد 45 کے صفحہ 350 پر لکھا ہے۔

 

اب ایک اور روایت ملاحظہ فرمائیں اور دیکھ کر بتائیں کہ کی مختار شیعہ تھا یا نہیں ۔۔ ابن نما حلى نے ذوب النضار في شرح الثار میں ، علامہ مجلسی نے بحارالانوار میں اور شیخ بحرانی نے العوالم میں لکھا ۔۔

 

ثم جعل يتكلم بفضل آل محمد وينشر مناقب علي والحسن والحسين عليهم السلام ويسير ذلك ويقول: إنهم أحق بالأمر من كل أحد بعد رسول الله، ويتوجع لهم مما نزل بهم

 

ترجمہ :

پھر اس (مختار) نے آل محمد (ع) کی فضیلت کے بارے میں کلام کیا اور لوگوں کے درمیان امام علی، امام حسن اور امام حسین عليہم السلام کے فضائل اور مناقب پھیلایا کرتا تھا اور کہا کرتا تھا کہ: رسول خدا کے بعد انکے اہل بیت ہی مقام خلافت کے لیے سب سے زیادہ مناسب ہیں۔

 

حوالہ جات:

بحار الأنوار، ج 45، الصفحة 352

ذوب النضار في شرح الثار،‌ الصفحة 61

العوالم ، الصفحة 671

 

اللہیاری صاحب ۔۔ مختار کے بارے میں شیعہ کتب تو چھوڑیں اہل سنت نے بھی ایسے ایسے اقوال نقل کیے ہیں جو آپ ہمیں کسی غیر شیعہ کی زبان سے پوری تاریخ اسلام میں کہیں دکھا دیں ۔۔ جیسے ابن خلدون نے لکھا اور علامہ مجلسی نے بھی بحار کی زینت قرار دیا ہے ۔۔

 

وقال المختار: لو قتلت ثلاثة أرباع قريش لما وفوا بأنملة من أنامل الحسين عليه السلام

 

مختار کہا کرتا تھا کہ خدا کی قسم اگر قریش کا دو تہائی حصہ بھی قتل کیا جائے تو امام حسین (ع) کی ایک انگلی کے برابر بھی نہیں ہو گا۔

 

حوالہ جات:

بحار الأنوار، ج 45 ، الصفحة 379

تاریخ ابن خلدون، ج‌ 2 ص 44

الفخری،ص: 122

 

اب امام سجاد علیہ السلام اور امام محمد باقر علیہ السلام کی زبانی حضرت مختار ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔

 

عَنْ عُمَرَ بْنِ عَلِيِّ بْنِ اَلْحُسَيْنِ : أَنَّ عَلِيَّ بْنَ اَلْحُسَيْنِ عَلَيْهِمَا السَّلاَمُ لَمَّا أُتِيَ بِرَأْسِ عُبَيْدِ اَللَّهِ بْنِ زِيَادٍ وَ رَأْسِ عُمَرَ بْنِ سَعْدٍ خَرَّ سَاجِداً وَ قَالَ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ اَلَّذِي أَدْرَكَ لِي ثَأْرِي مِنْ أَعْدَائِي وَ جَزَى اَلْمُخْتَارَ خَيْراً

 

امام سجاد کے بیٹے عمر بن علی بن حسین فرماتے ہیں: جب مختار نے ابن زیاد اور عمر سعد کا سر امام کے پاس بھیجا تو آپ سجدہ میں گر گئے اور سجدہ شکر میں خدا کی اس طرح حمد کی:

الحمد للہ الذی ادرک لی ثأری من اعدائی و جزی اللہ المختار خیراً

تمام تعریف ہے اس خدا کی جس نے ہمارے دشمنوں سے ہمارا انتقام لیا خدا مختار کو جزائے خیر عطا کرے۔

 

حوالہ جات :

بحار الأنوار، الجزء۴۵ ، الصفحة۳۴۴

اختیار معرفة الرجال (رجال الکشی)، الجزء۱، الصفحة۱۲۷

الوافي ، الجزء۲۵، الصفحة۶۹۳

عوالم العلوم، الجزء۱۷، الصفحة۶۴۹

 

اب دوسری حدیث پیش خدمت ہے ۔۔

 

امام محمد باقر علیہ السلام سے جب مختار کا بیٹا ملنے آیا تو امام نے فرمایا:

 

۔۔۔۔ فقال (عليه السلام) : سبحان الله، أخبرني أبي والله، أن مهر أمي كان مما بعث به المختار، أولم يبن دورنا، وقتل قاتلنا، وطلب بدمائنا ؟ فرحمه الله، وأخبرني والله أبي، أنه كان ليمر عند فاطمة بنت علي يمهدها الفراش، ويثني لها الوسائد، ومنها أصاب الحديث، رحم الله أباك، ما ترك لنا حقا عند أحد إلا طلبه، قتل قتلتنا وطلب بدمائنا

 

امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:

خدا کی ذات پاک ہے، میرے والد نے خدا کی قسم مجھے بتایا کہ میری والدہ کا مہر مختار نے بھیجا تھا۔ خدا اس پر رحم کرے کیا مختار کے علاوہ کوئی اور تھا جس نے ہمارے برباد گھروں کو پھر سے آباد کیا ؟ کیا وہ ہمارے قاتلوں کا قاتل نہیں ہے ؟ خدا اس پر رحمت کرے، خدا کی قسم میرے بابا نے مجھ کو بتایا ہے کہ جب بھی مختار، فاطمہ علیھا السلام بنت امیر المومنین کے گھر میں داخل ہوتے تھے، آپ ان کا احترام کرتی تھیں۔ آپ کے لیے فرش بچھاتیں اور تکیہ لگاتی تھیں، آپ بیٹھتے تو آپ کی باتیں سنتی تھیں۔

 

پھر امام باقر علیہ السلام نے مختار کے بیٹے کی طرف رخ کیا اور فرمایا:

 

رحم اللہ اباک، رحم اللہ اباک، ما ترک لنا حقاً عند احد الا طلبہ قتل قتلتنا و طلب بدمائنا ۔

 

خدا تمہارے باپ مختار پر رحمت نازل کرے، خدا تمہارے باپ مختار پر رحمت نازل کرے، انھوں نے ہمارا حق واپس لیا، ہمارے قاتلوں کو قتل کیا اور ہمارے خون کا انتقام لینے کے لیے قیام کیا۔

 

حوالہ جات :

اختیار معرفة الرجال (رجال الکشی)، الجزء۱، الصفحة۱۲۵

بحار الأنوار، الجزء۴۵ ، الصفحة۳۴۳

عوالم العلوم و المعارف و الأحوال من الآیات و الأخبار و الأقوال، الجزء۱۷، الصفحة۶۵۰

 

تحریر طویل ہوتی جا رہی ہے ۔۔ تو اب فقط تین احادیثِ معصوم پیش کر کے آگے بڑھتا ہوں ۔۔

 

امام حسین علیہ السلام نے یزیدی لشکر سے جو خطاب کیا تھا جسے علامہ مجلسی نے بحار میں رقم کیا ہے اس میں مختار کی بشارت ملاحظہ فرمائیں

امام حسین (ع) نے روز عاشور یزیدی لشکر سے فرمایا :

 

۔۔۔۔۔ اَللَّهُمَّ اِحْبِسْ ۔۔۔۔۔ وَ سَلِّطْ عَلَيْهِمْ غُلاَمَ ثَقِيفٍ يَسْقِيهِمْ كَأْساً مُصَبَّرَةً وَ لاَ يَدَعُ فِيهِمْ أَحَداً إِلاَّ قَتَلَهُ قَتْلَةً بِقَتْلَةٍ وَ ضَرْبَةً بِضَرْبَةٍ يَنْتَقِمُ لِي وَ لِأَوْلِيَائِي وَ أَهْلِ بَيْتِي وَ أَشْيَاعِي مِنْهُمْ فَإِنَّهُمْ

 

ترجمہ :

بہت جلد ایک ثقفی جوان مرد ان پر مسلط ہو گا تا کہ انہیں موت و ذلت کا تلخ جام چکھائے، ہمارے قاتلوں میں سے کسی کو معاف نہیں کرے گا، ہر قتل کے بدلے میں قتل اور ہر ضربت کے بدلے میں ضربت، میرا، میرے دوستوں کا، میرے اہل بیت کا اور میرے شیعوں کا ان سے انتقام لے گا۔

 

حوالہ جات :

بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار علیهم السلام، جلد۴۵، صفحه۸

تسلیة المُجالس و زینة المَجالس (مقتل الحسین علیه السلام)، جلد۲، صفحه۲۷۶

 

امام صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں :

 

وروي عن أبي عبد الله الصادق عليه السلام أنه قال عندما أرسل المختار برأس عبيد الله بن زياد وعمر بن سعد إلى المدينة: إن المختار أدخل السرور على أهل البيت عليهم السلام. ثم قال: ما امتشطت فينا هاشمية ولا اختضبت حتى بعث المختار إلينا برؤوس الذين قتلوا الحسين عليه السلام.

 

ترجمہ:

۔۔۔۔ حادثہ عاشورا کے بعد بنی ہاشم کی کسی بھی عورت نے زینت نہیں کی اور خضاب نہیں لگایا یہاں تک کہ مختار نے ابن زیاد اور عمر سعد کا سر ہمارے لیے مدینہ میں بھجوایا۔

 

حوالہ : رجال الكشي، ص 127

 

سدید کہتے ہیں کہ امام محمد باقر علیہ السلام نے حضرت مختار کے بارے میں فرمایا:

 

لا تَسُبّوا المختارَ، فَانہ قَد قَتَلَ قَتَلَتَنا و طَلَب بِثَارِنا، و زَوَّجَ ارٔامِلنَا، و قَسَمَ فینا المالَ عَلَی العُسرَۃِ

 

مختارکو برا بھلا مت کہو کیونکہ انھوں نے ہمارے قاتلوں کو قتل کیا اور ہم اہل بیت (ع) کے خون کا انتقام لیا اور ہماری بیٹیوں کا عقد کروایا اور مشکل دور میں ہمارے درمیان مال تقسیم کیا۔

 

حوالہ جات:

رجال کشی، ص 125

بحار الانوار ،ج 45 ص 343

 

 

جی اللہیاری صاحب ۔۔ اب کیا کہیں گے آپ ؟؟ ویسے آپ بہت عقل عقل کی رٹ لگاتے ہیں ذرا اسی عقل سے فیصلہ کر کے بتائیں کہ کیا شیعہ مذہب میں معصومین علیہم السلام کی رضا و خوشنودی ، اللہ کی رضایت و خوشنودی کے تابع ہے یا نہیں ؟ یقیناً تابع ہے ۔۔

 

تو اب آپ کی عقل کیا کہتی ہے ایسے شخص کے لیے جو آئمہ علیہم السلام کی نگاہ میں قابل رحمت ہو، سیدانیوں کی شادیاں کروائے ان کی مالی مدد کرے امام حسین علیہ السلام کے خون کا انتقام لے وہ عقیدہ کے اعتبار سے منحرف غیر شیعہ ہو سکتا ہے ؟

 

چلیں جی اب جلدی جلدی یہ بھی دیکھ لیتے ہیں کہ مختار کا ساتھ دینے والے کون اشخاص تھے اور ان کا مذہب کیا تھا کیونکہ کوئی بھی شیعہ مومن ایسے شخص کا قطعاً ساتھ نہیں دے سکتا جو ابوبکر و عمر و عثمان کی باطل خلافت کو حق سمجھ کر امیرالمومنین کے حق کا انکار کرے ۔۔

 

یہ بھی عین عقلی ہے کہ اگر کسی کے متعلق جاننا ہو تو اس کے ساتھیوں کو دیکھا جائے کہ وہ کون ہیں ۔۔ آئیں اللہیاری صاحب آپ کو مختار کے ساتھیوں کا جلدی سے تعارف کروا دیا جائے وہ بھی انتہائی اختصار کے ساتھ ۔۔

 

اگر مختار بد عقیدہ تھا تو سفیر امام حسین حضرت مسلم بن عقیل نے اس پر اعتماد کیوں کیا اور اپنی پناہ کا مرکز مختار کو کیوں چنا ؟؟

 

تمام مورخین نے لکھا کہ :

 

حضرت مسلم ابن عقیل کی کوفہ آمد کے موقع پر مختار ان افراد میں سے ایک تھا کہ جنہوں نے حضرت مسلم کی حمایت کا اعلان کیا۔ اسی وجہ سے حضرت مسلم جب کوفہ میں آئے تو مختار کے گھر گئے اور جب عبید اللہ ابن زیاد کو معلوم ہوا کہ مسلم کی پناہ گاہ مختار کا گھر ہے تو وہ وہاں سے ہانی ابن عروہ کے گھر منتقل ہوئے ۔۔۔

 

حوالہ جات :

الکامل،ج‌ 4، ص 36

ابن قتیبۃ الدینوری، الأخبار الطوال، ص 231

مروج الذهب مسعودی شافعی، ج 3 ص 252

 

چلیں اب دیکھتے ہیں کہ قیام مختار میں مختار کے لشکر کا علم دار کون تھا ۔۔

 

بغدادى لکھتا ہے :

 

وكان من وجوه شيعته وله منه محلٌّ خاص يستغنى بشهرته عن ذكره. ثم خرج طالباً بدم الحسين رضي الله عنه مع المختار بن أبي عبيد وكان معه حتّى قتل المختار.

 

ابو الطفيل بزرگان شیعیانِ علی میں سے تھا، اسکو علی (ع) کے نزدیک ایک خاص منزلت حاصل تھی۔ ابو طفیل نے حسین (ع) کے خون کا بدلہ لینے کے لیے مختار کے ساتھ خروج کیا اور وہ مختار کے قتل ہونے تک، اسی کے ساتھ تھا۔

 

حوالہ : خزانة الأدب ولب لباب لسان العرب، ج4، ص39،

 

المعارف میں ابن قتیبہ لکھتا ہے :

 

أبو الطفيل الكناني رضى الله عنه هو أبو الطفيل عامر بن وائلة رأى النبي وكان آخر من رآه موتا ومات بعد سنة مائة وشهد مع علي المشاهد كلها وكان مع المختار صاحب رأيته…

 

ابو الطفيل كنانى وہی ابو الطفيل عامر ابن واثلہ ہے کہ جس نے رسول خدا کو دیکھا تھا اور وہ آخری صحابی تھا کہ جو دنیا سے گیا تھا، وہ سن 100 ہجری میں فوت ہوا تھا اور اس نے تمام جنگوں میں شرکت کی تھی اور وہ لشکر مختار کا علمدار تھا۔

 

المعارف، ج1، ص99

 

ابن كثير البدایہ میں بھی تائید کرتا ہے ۔۔

 

ويقال أنه كان حامل رأيته.

ابو الطفيل لشكر مختار کے پرچم کا حمل کرنے والا تھا۔

 

ابن كثير الدمشقي، البداية والنهاية، ج9

 

طبرى، ابو مخنف سے مختار کے ساتھیوں کے نام یوں نقل کرتا ہے :

 

قال [ابومخنف] ولما نزل المختار داره عند خروجه من السجن اختلف إليه الشيعة واجتمعت عليه واتفق رأيها على الرضا به وكان الذي يبايع له الناس وهو في السجن خمسة نفر السائب بن مالك الأشعري ويزيد بن أنس وأحمر بن شميط ورفاعة بن شداد الفتياني وعبدالله بن شداد الجشمي.

 

ابو مخنف نے کہا ہے کہ: مختار جب زندان سے آزاد ہو گیا تو وہ اپنے گھر آیا۔ کوفہ کے شیعہ اسکے پاس آئے اور سب نے مختار کی رائے پر اتفاق کر لیا۔ مختار ایسا شخص تھا کہ جب وہ زندان میں تھا تو پانچ بندوں نے اسکی بیعت کر لی تھی، وہ بندے سائب ابن مالک اشعرى، يزيد ابن انس، احمر ابن شميط ، رفاعہ ابن شداد فتيانى اور عبد الله ابن شداد جشمى تھے۔

 

تاريخ الطبري، ج3، ص434

 

چلیں اب دیکھتے ہیں کہ وہ افراد جنہوں نے مختار کا ساتھ دیا ان کا مذہب کیا تھا ۔۔

 

سائب ابن مالک اشعری :

 

سائب نے مختار کی بیعت کی تھی اور وہ شیعیان علی میں سے تھا۔ جب ابن زبیر کی طرف سے ابن مطیع کوفے کا حاکم بن کر آیا تو اس نے خطبہ دیتے ہوئے کہا: مجھے ابن زبیر نے حکم دیا ہے کہ میں تم لوگوں کے درمیان سیرت شیخین (ابوبکر و عمر) اور سیرت عثمان کے مطابق عمل کروں۔ یہ سن کر سائب ابن مالک کھڑا ہوا اور کہا:

 

فقال: لا نرضى إلا بسيرة على بن أبى طالب التى سار بها فى بلادنا ولا نريد سيرة عثمان وتكلم فيه ولا سيرة عمر وان كان لا يريد للناس إلا خيرا وصدقه على ما قال بعض أمراء الشيعة فسكت الأمير وقال إنى سأسير فيكم بما تحبون من ذلك وجاء صاحب الشرطة وهو إياس بن مضارب البجلى إلى ابن مطيع فقال: إن هذا الذى يرد عليك من رؤس أصحاب المختار ولست آمن من المختار فابعث إليه فاردده إلى السجن.

 

ہم علی ابن ابی طالب کی وہ سیرت کہ جو ہمارے شہروں میں رائج تھی، اسی پر ہی ہم راضی ہیں، اور اگر تم لوگوں سے نیک سلوک کرنا چاہتے ہو تو عثمان اور عمر کی سیرت کے بارے میں بات نہ کرو۔ اسکی اس بات کی بعض شیعہ عمائدین نے بھی تصدیق کی اور اس پر ابن مطیع خاموش ہو گیا اور کہا: جس سیرت کو تم پسند کرتے ہو، میں بھی اسی کے مطابق تہمارے ساتھ عمل کروں گا۔ اسی جگہ پر لشکر کے سالار اياس ابن مضارب نے ابن مطیع سے کہا: یہ جو تم پر اعتراض کر رہا ہے، یہ مختار کے دوستوں میں سے ہے اور مجھے مختار پر کوئی اعتماد نہیں ہے، لہذا کسی کو مختار کے پیچھے بھیجو تا کہ وہ اسے دوبارہ زندان میں لا کر ڈال دے۔

 

البداية والنهاية، ج8، ص265

 

 

رفاعہ ابن شداد فتيانى بجلی :

 

علامہ شاہرودى نے رفاعہ کو امیرالمومنین (ع) کا صحابی گردانا ہے ۔۔

رفاعة بن شداد البجلي: من أصحاب أمير المؤمنين عليه السلام وشهد معه في حرب الجمل… وهو ممن كتب إلى الحسين عليه السلام من أهل الكوفة. ولما ورد الحسين عليه السلام كربلاء، دعا بدواة وبيضاء وكتب إلى أشراف الكوفة: بسم الله الرحمن الرحيم من الحسين بن علي إلى سليمان بن صرد، و المسيب بن نجية، ورفاعة بن شداد، وعبد الله بن وأل، وجماعة المؤمنين – الخ.

قيام هؤلاء الجماعة لطلب ثار الحسين عليه السلام. وكانوا رؤساء على جند المختار وجاهدوا، وله أشعار في الرجز. قاتل رفاعة، قتال الشديد البأس، القوى المراس، حتى قتل.

 

رفاعہ ابن شداد بجلى، امیر المؤمنین علی (ع) کے شیعوں میں سے تھا کہ جس نے جنگ جمل میں آپ (ع) کے ساتھ شرکت کی تھی۔ رفاعہ ان لوگوں میں سے تھا کہ جس نے امام حسین (ع) کو خط لکھا تھا اور جب امام حسین (ع) کربلا پہنچ گئے تو امام نے کوفہ کے بزرگان کے نام لکھا کہ: بسم اللہ الرحمن الرحیم، یہ خط حسین ابن علی کی طرف سے سلیمان ابن صرد، مسيب ابن نجيہ، رفاعۃ ابن شداد، عبد الله ابن وال اور دوسرے مؤمنین کے نام ہے۔۔۔۔۔ وہ ایسے لوگ تھے کہ جہنوں نے امام حسین (ع) کے خون کا انتقام لینے کے لیے قیام کیا اور وہ لشکر مختار کے سالار تھے اور انھوں نے مختار کے ساتھ مل کر جہاد کیا۔ رفاعہ کے جنگوں کے رجز کے بارے میں اشعار بھی ہیں، رفاعہ نے زبردست جنگ کی، یہاں تک کہ وہ شہید ہو گیا۔

 

مستدركات علم رجال الحديث، ج3، ص403،‌ رقم 5647

 

سید خوئى نے بھی لکھا:

 

رفاعة بن شداد: رجال الشيخ في أصحاب علي عليه السلام، وفي أصحاب الحسن عليه السلام.

 

رفاعہ ابن شداد شیخ طوسی کے نقل کردہ راویوں میں سے ہے اور شیخ طوسی نے اسکو حضرت علی (ع) اور امام حسین (ع) کے اصحاب میں شمار کیا ہے۔

 

معجم رجال الحديث وتفصيل طبقات الرواة، ج8، ص203

 

یہاں تک کہ اہل سنت علماء نے بھی اسے اصحاب امیر (ع) میں شامل کیا ہے

خير الدين زركلى لکھتا ہے :

 

رفاعة بن شداد البجلي: قارئ، من الشجعان المقدمين، من أهل الكوفة. كان من شيعة علي. ولما قتل الحسين وخرج المختار يطالب بدمه انحاز إليه رفاعة.

 

رفاعۃ‌ ابن شداد بجلى، قارى قرآن، اہل کوفہ کا بہت شجاع اور شیعیان علی (ع) میں سے تھا۔ جب حسین قتل ہو گئے اور مختار نے جب امام حسین کے خون کا بدلہ لینے کے لیے قیام کیا تو رفاعہ بھی اس کے ساتھ آ کر مل گیا۔

 

الزركلي الأعلام، ج3، ص29

 

 

سعد ابن حذيفہ :

 

شیعہ علماء نے لکھا ہے کہ سعد ابن حذيفہ امام علی (ع) کے اصحاب میں سے تھا۔

 

سعد بن حذيفة بن اليمان: من أصحاب أمير المؤمنين عليه السلام.

 

حوالہ : الشاهرودي، مستدركات علم رجال الحديث، ج4 ، ص 27

 

سعد بن حذيفة اليمان، من أصحاب علي عليه السلام، رجال الشيخ.

 

حوالہ : معجم رجال الحديث وتفصيل طبقات الرواة، ج9، ص59

 

طبرى اور دوسرے مؤرخین نے بھی لکھا کہ سعد ابن حذيفہ مختار کی طرف سے شہر مدائن کا قاضی لگایا گیا تھا :

 

وبعث سعد بن حذيفة بن اليمان على حلوان.

مختار نے سعد ابن حذيفہ ابن يمان کو شہر حلوان بھیجا۔

 

حوالہ جات :

تاريخ الطبري، ج4،‌ ص509

تاريخ بغداد، ج9، ص123

 

 

جنابِ ابراہیم بن مالک اشتر :

 

ابن نماى حلى لکھتے ہیں۔۔

 

وَكَانَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَالِكٍ الْأَشْتَرُ مُشَارِكاً لَهُ فِي هَذِهِ الْبَلْوَى وَمُصَدِّقاً عَلَى الدَّعْوَى وَلَمْ يَكُ إِبْرَاهِيمُ شَاكّاً فِي دِينِهِ وَلَا ضَالًّا فِي اعْتِقَادِهِ وَيَقِينِهِ وَالْحُكْمُ فِيهِمَا وَاحِد.

 

ابراہيم ابن مالک اشتر تمام حالات میں مختار کے ساتھ شریک تھے اور وہ مختار کے دعووں کی تصدیق کرتے تھے، ابراہیم اپنے دین میں شک نہیں کرتے تھے اور وہ اپنے اعتقاد اور یقین میں گمراہ نہیں تھے یہاں تک کہ مختار اور ابراہیم ایک ہی تھے۔

 

جعفر بن هبة الله، ذوب النضار في شرح الثار،‌ ص58

 

صاحبِ اعيان الشيعہ لکھتے ہیں:

 

إبراهيم بن مالك بن الحارث الأشتر النخعي قتل سنة 71…. وكان مع أبيه يوم صفين مع أمير المؤمنين عليه السلام وهو غلام وابلى فيها بلاء حسنا وبه استعان المختار حين ظهر بالكوفة طالبا بثار الحسين عليه السلام وبه قامت امارة المختار وثبتت أركانها.

 

ابراہيم ابن مالک ابن حارث اشتر نخعى سن 71 ہجری میں شہید ہوئے، انہوں نے اپنے والد کے ہمراہ جنگ صفین میں اس حال میں کہ وہ نوجوان تھے امیرالمومنین (ع) کے لشکر میں شریک ہو کر جنگ کی اور سرخرو ہوئے اور جب مختار نے کوفہ میں قیام کیا تو انہوں نے امام حسین (ع) کے قاتلوں سے انتقام لینے کے لیے ابراہیم سے مدد مانگی اور انہی کے توسط سے مختار کی حکومت قائم و محکم ہوئی۔

 

أعيان الشيعة، ج2، ص 200

 

 

عبد الله ابن حارث:

 

امیر المؤمنین کے اصحاب میں سے ایک مالک اشتر کا بھائی، عبد الله ابن حارث ہے۔

 

شيخ طوسى نے ان کو امام علی کے اصحاب میں سے شمار کیا ہے

 

الطوسي، رجال الطوسي، ص70

 

سید خوئی اورعلامہ شاھرودی نمازی نے ابھی انہیں اصحاب امیر میں لکھا ہے:

 

عبد الله بن الحارث أخو مالك: الأشتر: من أصحاب علي (عليه السلام)، رجال الشيخ.

 

حوالہ جات:

معجم رجال الحديث وتفصيل طبقات الرواة، ج11، ص164

الشاهرودي، مستدركات علم رجال الحديث، ج4، ص508

 

اب مختار کے گھر کی بات ہو جائے ۔۔

 

یعقوبی نے اپنی تاریخ میں مختار کی بیوی عمرہ کے بارے میں لکھا کہ

مصعب نے عمرہ سے کہا کہ مختار کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے ؟ عمرہ نے بڑی دلیری سے جواب دیا کہ وہ ایک پرہیزگار آدمی تھا اور ہر روز روزہ رکھتا تھا۔ اس پر مصعب نے اس کی گردن اڑانے کا حکم دیا اور اسلام میں یہ پہلی خاتون تھی کہ جسکی تلوار کے ذریعے سے گردن اڑا دی گئی تھی۔

 

تاریخ الیعقوبی،ج‌ 2 ص 264

 

تو اللہیاری صاحب نے دیکھ لیا ہوگا کہ جن جن بھی مختار کا قیام میں ساتھ دیا وہ سب کے سب پکے شیعہ اور اصحاب امام علی میں سے تھے یہاں تک کہ مختار نے جن سے شادی کی وہ بھی شیعہ علی تھی اور تاریخ اسلام کی پہلی سر قلم کروا کر درجہ شہادت پر فائز ہونے والی !

 

اب اہل سنت کتاب سے بھی تھوڑی مختار کی تمجید نقل کر دوں ۔۔

بلاذری نے انساب میں لکھا :

 

جب ابن عباس کے سامنے مختار کا ذکر ہوا تو انہوں نے کہا: ملائکہ کراما کاتبین کا درود و سلام ہو مختار پر۔

 

البلاذري، أنساب الأشراف، ج2، ص371

 

بہت سی روایات کو عمداً ترک کر رہا ہوں کیونکہ تحریر اب کتاب کی شکل لیتی جا رہی ہے ۔۔ کوشش کرتا ہوں کہ جلد از جلد اختتام کی طرف آؤں ۔۔

 

اللہیاری صاحب آپ اس بندہ خدا کے ایمان پر شک کر رہے ہیں جس نے بنو ہاشم کے حالات کو بدلا اور انہیں گھر تک تعمیر کرا کر دیے ۔۔

 

سید خوئی لکھتے ہیں ۔۔

مختار نے 20 ہزار دینار امام سجاد (ع) کی خدمت میں بھیجے اور امام نے اسے قبول کیا اس کے ذریعے عقیل ابن ابی طالب اور دوسرے بنی ہاشم کے خراب شدہ گھروں کی تعمیر فرمائی تھی۔

 

حوالہ : معجم الرجال، ج 18 ص 96

 

اسی طرح مختار نے 30 ہزار درہم میں ایک کنیز خرید کر امام سجاد (ع) کو ہدیہ کی جس سے حضرت زید شہید پیدا ہوئے جن سے آج زیدی سادات کا سلسلہ موجود ہے یعنی زید ابن علی ابن الحسین۔

 

حوالہ : مقاتل الطالبیین، ص 124

 

علامہ مجلسی لکھتے ہیں کہ کوفہ کے اشراف میں سے بعض امام سجاد (ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ (ع) سے مختار کے قیام کے متعلق سوال کیا تو آپ نے انہیں بھی "محمد بن حنفیہ” کی طرف بھیجا اور فرمایا:‌ اے میرے چچا ! اگر کوئی سیاہ فارم غلام بھی ہم اہل بیت (ع) کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرے تو لوگوں پر واجب ہے کہ اس کی ہر ممکن حمایت کریں۔ اس بارے میں آپ جو کچھ مصلحت جانتے ہیں، انجام دیں۔ میں اس کام میں آپ کو اپنا نمائندہ قرار دیتا ہوں۔

 

حوالہ جات :

بحار الأنوار، ج‌ 45 ص 365

ریاض الأبرار ج 1 ص 298

معجم الرجال، ج 18 ص 100

تنقیح المقال، ج 3 ص 206

 

یہ امام سجاد (ع) کی روایت قیام مختار پر دلیل نہیں ؟؟ ذرا اپنی عقل سے فیصلہ لیں ؟؟ کیا امامِ معصوم کسی ایسے شخص کی حمایت کر سکتا ہے جو ان کے جد امیرالمومنین کا عادل شیعہ نہ ہو ؟؟ کیا کہتی ہے آپ کی عقل ؟

 

یہاں پر جان بوجھ کر علماء امامیہ کے مختار کے بارے میں اقوال نقل نہیں کر رہا کیونکہ آپ اپنے علاوہ کسی شیعہ عالم کو نہ ہی فقیہ مانتے ہیں ناہی محدث۔

 

آخر کلام میں اہل سنت کا سب سے متعصب ترین عالم ابن تیمیہ کے قلم سے مختار کو شیعہ ثابت کرتا ہوں پھر تحریر کا اختتام ۔۔

 

ابن تیمیہ مردود لکھتا ہے ۔۔

 

صحیح مسلم میں سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:’’قبیلہ ثقیف میں ایک کذاب اور ایک سفاک (ناحق خون بہانے والا) ہوگا۔‘‘ [مسلم۳؍۱۹۷۱]آپ کے ارشاد گرامی کے مطابق ثقیف کا کذاب مختار بن ابی عبید شیعہ تھا اور سفاک حجاج بن یوسف ثقفی تھا۔

 

حوالہ : ابن تیمیہ منہاج السنہ النبویہ ،جلد 3، 4 صفحہ نمبر: 620

 

جی اللہاری صاحب ۔۔۔ کیا اب بھی آپ کو یہی لگتا ہے کہ مختار کے شیعہ ہونے میں کوئی بھی عقلی و نقلی دلیل شیعوں کے پاس نہیں ؟؟

 

اگر واقعی یہی لگتا ہے تو پھر کھل کر اپنی سقیفہ دوستی کا اعلان فرما دیں اور شیعوں میں انجینئر مرزا بن کر دفاع تشیع کی آڑ میں فقہاء تشیع پر طعن کا بازار گرم کریں اور شیعیت کو خوب نقصان پہنچائیں ۔۔

 

اور یہ قطعاً نہیں سمجھیئے گا کہ ہم جیسے افراد کی آپ پر نگاہیں جمی ہوئیں ہیں 🙂

 

چلتے چلتے دل کر رہا ہے کہ کچھ نصیحت کے موتی کلام امامؑ سے آپ کو ہدیہ کرتا جاؤں تاکہ مختار کو لے کر آپ کے دل میں جو سیاہی ہے وہ صاف ہو جائے اور یہی موتی واقعاً ان کے لیے بھی اعزاز ہے جو مکتب کا دفاع کرتے ہیں اب چاہے وہ آپ ہوں، مجھ جیسا حقیر ہو یا امیر مختار جیسی بزرگ شخصیت ۔۔

 

امام جعفر صادق (ع) ارشاد فرماتے ہیں

 

من أعاننا بلسانه على عدونا أنطقه الله بحجته يوم موقفه بين يديه عز وجل.

 

جو شخص ہمارے دشمن کے خلاف اپنی زبان سے ہماری مدد کرے اللہ اسے قیامت کے دن اپنے روبرو اس کی حجت اور دلیل کو اس کی زبان پر جاری کرے گا

 

حوالہ : الأمالي – الشيخ المفيد – الصفحة ٣٣

 

امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام بھی ارشاد فرماتے ہیں ۔۔

 

مَن أحَبّنا بقلبه ونَصَرنا بيده ولسانه فهو مَعنا في الغرفة التي نحن فيها ، ومَن أحَبّنا بقلبه ونصرنا بلسانه فهو دون ذلك بدرجة ، ومن أحَبّنا بقلبه وكفَّ بيده ولسانه فهو في الجنة

 

جو شخص ہمیں اپنے دل سے دوست رکھے، اور اپنی زبان اور ہاتھ سے ہماری مدد کرے تو وہ ہمارے ساتھ اس جگہ ہوگا جہاں ہم ہونگے اور جو شخص ہم سے محبت کرے اور صرف اپنی زبان ہماری مدد کرے تو اس کا درجہ پہلے سے ایک درجہ کم ہوگا اور جو شخص ہم سے دل سے محبت کرے اور اپنی زبان اور ہاتھ کو روکے رکھے تو وہ بھی بہشت میں ہوگا۔

 

الأمالي – الشيخ المفيد – الصفحة ٣٣

 

ان اختتامی دو احادیث کی روشنی میں آپ کو مختار پر فیصلہ لینے میں ضرور مدد ملے گی ۔۔

 

والسلام یا علیؑ مدد

احقر #ابوعبداللہ

Continue Reading

Newsletter

Get the best tech deals, reviews, product advice, competitions, unmissable tech news and more!

زیادہ پڑھے جانے والی پوسٹس