عقائد و نظریات
ملا صدرا : اسلامی فلسفے کے بانی
ان کانام "ملا صدرا الدین محمد بن ابراہیم بن یحیٰ شیرازی القوامی” ہے شیرازی ان کالقب ہے کیونکہ ان کا تعلق ایران کے جنوب شہر شیراز سے تھا اور قوم کی نسبت ان کو قوامی کہا جاتا ہے۔ ملا صدرا کا خاندان ایران میں موجودمعزز خاندانوں میں شمار ہوتا تھا ۔ان کے تلامذہ یعنی شاگرد انہیں صدر المتا لھین اور ملا صدرا کے نام سے پکارتے تھے۔
ملا صدرا کی ولادت کےحوالےسے کوئی مستند تاریخ یا کوئی حوالہ نہیں ملتا،یہ امکان ظاہر کیا جاتا ہے کہ ان کی ولادت دسویں صدی کے آخر میں تقریبا 980ء۔979ھ کے قریب ایران کا شہر شیراز میں ہوئی جبکہ وفات 1050ھ میں بصرہ شہر میں اس وقت ہوئی جب وہ فریضہ حج انجام دینے کےلئے سفر کر رہے تھے ۔ان کی وفات کے وقت ان کی عمر 70 سال کے قریب تھی۔ملا صدرا کی ولادت شیرازشہر کے ایک ایسے خاندان میں ہوئی جس کو سیاسی و سماجی سطح پر برتری حاصل تھی۔ ان کے والد حکومت میں وزیر کے منصب پر فائز تھے۔ شیراز اس وقت دار الحکومت تھا۔ یہ بات منقول ہے کہ جب ان کے والد کے ہاں بیٹا نہ ہوا تو انہوں نے نذر و منت مانی کہ اگر اولاد نرینہ یعنی بیٹے کی نعمت سے ہے بہرہ مندر ہوجائے تو اپنے مال و متاع فقراء و مساکین اور طالب علموں میں تقسیم کردوں گا ،ان کی نیت میں اتنی خالصیت تھی کہ اللہ تعالی نے ان کو ملا صدرا کی صورت میں بیٹے کی نعمت سے نوازا۔
ملاصدرا نے ابتدائی تعلیم شیراز سے حاصل کی ۔ان کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ علم کی راہ میں انہوں نے بہت سارے مال خرچ کئے ۔ وہ اپنے والد کی وفات کے بعد اصفہان چلے گئے اس وقت اصفہان کا ماحول اور فضا علمی خوشبووں سے معطر تھی۔ اس وقت علم و حکمت اور فلسفےپرگرفت رکھنے والے علما ہر طرف نور علم فروزاں کرنے میں مصروف تھے۔
ملا صدرا نے دو عظیم شہرہ آفاق رکھنے والی ہستیوں سے کسب فیض کیا ۔ پہلی شخصیت شیخ بہاء الدین عاملی جو شیخ بہائی عاملی سے مشہور تھی جبکہ دوسری ہستی السید محمد باقر الاسترآبادی جو میر داماد سے مشہور تھی۔انہوں نے شیخ بہائی سے علوم شرعی یعنی علم فقہ،علم اصول اور علم حدیث حاصل کیا یہاں تک کہ وہ درجہ اجتھاد پر فائزہو گئے۔ السید محمد باقر استرآبادی سے انہوں نے علوم نقلی یعنی علم فلسفہ ،علم منطق وغیرہ حاصل کیا۔ملا صدرا کے بارے میں لکھنے والے تذکہ نگاروں اور مورخوں نے ان کے عہد طفلی جو کہ شہراز میں گزرا ہے کے بارے میں کچھ نہیں لکھا ہے علاوہ ازیں یہ کہ ان کی ابتدائی تعلیم اور اساتذہ کے بارے میں بھی کوئی تاریخ اور معلومات نہیں ملتی ۔جب وہ اپنے والد کی وفات کے بعد اصفہان چلے وہاں سے ان کی علمی تاریخ و آثار ملتے ہیں۔ انہوں نے دو عظیم علمی ہستیوں کی خدمت میں حاضر ہو کر علمی استفادہ کیا۔ان کا پہلا مربی و استاد شیخ بہا ء الدین محمد بن حسین عاملی تھے وہ فقیہ ہونے کے ساتھ ادیب ،شاعر ،اور علم فلکیات و ریاضی میں کمال درجہ مہارت رکھتے تھے ۔شیخ بہائی وہ عظیم ہستی تھی جو لبنان سے ہجرت کر کے ایران آئے تھےکیونکہ اس وقت لبنان کے شیعوں پر ہر طرح کے مظالم سلسلہ روارکھاجارہاتھا۔ دوسرا استاد السید محمد باقر حسینی تھے وہ بھی بہت بڑےفقیہ تھے اور علمیت کے اعلی مقام پر فائز تھے اسی لیے ان کو معلم ثالث کا لقب دیا گیا تھا۔معلم اول و ثانی با لترتیب ارسطو اور فارابی ہیں۔ ملاصدرا کی خوش قسمتی یہ تھی کہ جب انہوں نے اصفہان شہر میں قدم رکھا تو ان کی ملاقات سید ابوالقاسم سے ہوئی۔سید ابو القاسم الفندرسکی جو میر فندر سکی کےنام سے مشہور و معروف تھےان کو علم منطق اور علم ادیان پرملکہ و مہارت حاصل تھی اوران کی ولادت اصفہان ہی میں ہوئی تھی۔ انہوں نے ملا صدرا کو دیکھتے ہی یہ نصیحت فرمائی کہ شیخ بہائی اور میر داماد کی خدمت میں جائیں اوران کے زیر سایہ علوم حاصل کریں۔ملاصدرا نے ان کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے ان دو عظیم ہستوں سے علوم عقلی و نقلی حاصل کیے ۔
ملا صدرا بھی دوسرے صاحبان علم کی طرح ضیا ءِعلم کو ہر سو و ہرجہت پھیلانے میں کو شاں رہ۔ ان کے حلقہ درس سے ایسے شاگرد نکلے جو علمی دنیا میں مشہور ہوئے ان کےبعض نمایاں شگردوں کے اسماء گرامی یہ ہیں۔شیخ محمد محسن بن مرتضی الکاشانی علمی حلقوں میں وہ کاشانی کے لقب سے معروف و مشہور ہیں۔ان کو یہ لقب اپنے استاد ملا صدرا نے ہی دیا تھا۔ شیخ کاشانی بھی بہت بڑے پایہ کے عالم تھے، انہوں نے علوم نقلی و عقلی کو نہ صرف جمع کیا بلکہ بہت ساری کتابیں بھی لکھی ہیں۔
شیخ عبد الرزاق الاہیجی جو علمی دنیا میں محقق لاہیجی سے جانتے اور پکارتے جاتے ہیں ملا صدرا نے جس طرح اپنے شاگرد شیخ حسن کو کاشانی کے لقب سے نوازا تھا اس طرح انہوں نے شیخ عبد الرزاق کو بھی محقق لاھیجی کے لقب سے نوازا تھا۔محقق لاہیجی ادیب و شاعر بھی تھے فارسی زبان میں انکا دیوان بھی ہے اس کے علاوہ انہوں نےعلم فلسفہ اور علم کلام کے بارے میں اچھی اور اہم کتابیں بھی لکھی ہیں۔
تالیف و تصنیفات ملا صدرا:
ملا صدرا کی تخلیقات اور تحریریں دو نوعیت پر مشتمل ہیں ،بعض رسالوں کی صورت میں جبکہ بعض کتابوں کی صورت میں مشتمل ہیں ۔ پہلا یہ کہ جو تحریریں رسائل کی صورت میں موجود ہیں وہ بہت مختصر ہیں جیسے صرف مطالب کو بیان کرنا،ان کی دلیلوں کو بیان کرتے ہوئے نتیجہ اور خلاصہ بیان کرنا وغیرہ ۔دوسرا یہ ہے کہ جو تحریریں کتابوں کی صورت میں ہیں ان میں نہ صرف مطالب کو بیان کیا ہے بلکہ ان مطالب کے بارے میں موجود تمام نظریات کو بیان کرتے ہوئے ان کی تشریخ وتوضیح کی ہیں۔ ملا صدرا نے اہرموضوع وتمام علمی مسائل اور ابحاث میں اپنی رائے اور موقف کو بیان کرتے ہوئےان کی دلیلوں کو تفصیل کے ساتھ تحریر کی ہیں ۔یہ بات بھی نہایت قابل ذکر ہے کہ ملا صدرا ایران میں رہتے ہوئے انہوں نے تمام کتابیں عربی زبان میں لکھی ہیں ۔ان اکا یک رسالہ”اصل و الاصول الثلاثہ” اور بعض رسائل فارسی زبان میں ہیں باقی سب تحریریں اور کتابیں عربی زبان میں ہیں ۔ان تحریروں کے بارے میں یہ امکان ظاہر کیا جاتاہے کہ انہوں ہے یہ کتابیں دس سال گوشہ نشینی سے نکلنے کے بعد لکھی ہیں۔ان کی چند کتابوں کا نام مندرجہ ذیل ہیں۔
1۔الحکمۃ المتعالیہ فی الاسفار العقلیہ الاربعہ
2/۔الشواہد الربویہ فی المناھج السلوکیہ
3۔المبداء او المعاد
4۔الحکمۃ العرشیہ
5۔المظاھر الاسلامیہ
6۔کسر الاصنام الجاھلیہ
7۔الحواشی علی شرح حکمۃ الاشراف
8۔الحواشی علی الھیات الشفا
9۔اجوبۃ المسائل النصریہ
10 رسالۃ فی الاانصاف الاھیہ با لوجود
11۔رسالۃ فی سریان الوجود
12۔التنقیہ فی المنطق
13۔رسالۃ التصور و التصدیق
14۔رسالۃ فی الواردات العلبیہ
15۔رسالۃ فی المعاد الجسمانی،رسالۃ فی الشخص،رسالۃ المشاعر،رسالۃ فی التقیہ،رسالۃ فی الامامہ،رسالۃ فی زاد المسافر۔شرح الھدایہ لااثریہ،شرح لاصول الکافی،دیباچہ عرش التقدیس،دیوان بہ زبان فارسی،تفسیر القرآن،سات جلدیں،تفسیر سورہ فاتحہ،اسراء الآیات،متشابہ القرآن،ایقاظ النائمین،المزاجج۔الرسالۃ الجوبہ علی اسلہ وغیرہ۔۔ملا صدرو کی شہرہ آفاق تصنیف :الحکمۃ المقالہ یہ سات جلدوں پر مشتمل ہے اس کتاب میں انہوں نے تمام فلسفیوں کی آرا کو جمع کرتے ہوئے ایک منفرد اور اعلی فلسفی نظریہ پیش کیا ہے، انہوں نے اسلامی فلسفے کی بنیاد و نظریہ پیش کیا ہے۔