Connect with us

قرآن لائبریری

مصداق شناسی

بسم الله الرحمن الرحیم

خلاصہ

قرآن مجید کی آیات کے سنجیدہ مفہوم اور مثالوں کو سمجھنے کا ایک اہم ترین طریقہ، عقلی اور عقلائی دلائل پر توجہ دینا، آیت میں لفظی اور ضمنی دلائل اور روایتی دلائل آیات کی تفسیر ہے۔ اس مضمون میں ہم نے آیت تطہیر کی شرائط کے ساتھ ہمسران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شامل کرنے کے بارے میں مخالفین امامیہ کے دعووں کا جائزہ لینے کا ارادہ کیا ہے۔ اس تحقیق میں ہمارا طریقہ اجتہاد کے تجزیہ اور وضاحت پر مبنی ہے جو دانشوروں کے قبول کردہ اصولوں اور اہل سنت کے قبول کردہ اجتہاد کے طریقوں پر مبنی ہے۔ ہماری تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ پیش کردہ شواہد اور دلائل بالخصوص روایتی شواہد کی بنا پر، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اس آیت کےمفاد سےجس کی تفسیر خود رسول خدا نےبیان فرمایا ہے واضح طور سے خارج ہے۔ متعدد عقلی دلائل اس حقیقت پر بھی دلالت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کو آیت تطہیر میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ بلاشبہ پیش کیے گئے دلائل کی درستگی ہمیں زیر بحث آیت کی تشریح کرنے اور مذہبی تعصبات میں پھنسنے سے گریز کرکی چاہیے ۔

مقدمه تحقیق

آیه تطهیر ان آیات میں سے ایک اہم ترین آیت ہے جس کے بارے میں شیعہ علماء نے ہمیشہ شیعہ مذہب کے صحیح ہونے کے بارے میں استدلال کرتے ہیں۔ شھید اول کی کتاب "ذکری الشیعہ فی حکم الشریعہ” میں اس طرح کی آیات میں سے ایک آیات جو اہل بیت علیہم السلام کے مذہب سے تمسک کے واجب ہونے پر دلالت کرتی ہیں، وہ آیه تطهیرہے:

«و فیه من المؤکدات و اللطائف ما یعلم من علمی المعانی و البیان، و ذهاب الرجس و وقوع التطهیر یستلزم عدم العصیان و المخالفة لأوامر اللّه و نواهیه. و موردها فی النبی صلّى اللّه علیه و آله و علی (علیه السلام) و فاطمة و الحسن و الحسین، اما عند الإمامیة و سائر الشیعة فظاهر إذ یروون ذلک بالتواتر»

اس آیت میں بہت ساری تاکیدیں اور باریکیاں ہیں جو معانی سے معلوم ہوتی ہیں۔ نجاست کو دور کرنے اور طہارت کے وقوع پذیر ہونے کے لیے لازمہ یہ ہے کہ نافرمانی اور خدا کے احکام کی مخالفت ناکی جاءے۔ اس آیت کی مصداق رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، حضرت علی علیہ السلام، حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا اور امام حسن و حسین علیہما السلام ہیں۔ یہ معاملہ امامیہ اور شیعوں کے دوسرے فرقوں کی نظر میں واضح ہے کیونکہ متواتر روایات اس بات کو ثابت کرتی ہیں۔

عاملى، شهید اول، محمد بن مکى، ذکرى الشیعة فی أحکام الشریعة، ج‌1، ص: 54، 4 جلد، مؤسسه آل البیت علیهم السلام، قم – ایران، اول، 1419 ه‍ ق ق

محقق حلی نے "المعتبر فی شرح المختصر” میں بھی آیه تطهیر کو اہل بیت علیہم السلام کے مذہب کی صداقت کے دلائل میں سے ایک دلیل قرار دیا ہے:

«یدل على ذلک: النقل، و العقل. اما النقل: فمنه قوله تعالى إِنَّما یُرِیدُ اللّهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیراً »

عقلی اور نقلی دونوں دلیل اس امر پر دلالت کرتی ہے۔ لیکن نقلی دلیل: ان دلائل میں سے ایک آیت ” إنما یرید الله…” ہے۔

حلّى، محقق، نجم الدین، جعفر بن حسن، المعتبر فی شرح المختصر، ج‌1، ص: 22‌، 2 جلد، مؤسسه سید الشهداء علیه السلام، قم – ایران، اول، 1407 ه‍ ق

علامہ مظفر نے "دلائل الصدق لنھج الحق” میں تشیع کی صداقت پر آیت تطہیر کے معنی پر تفصیلی بحث کی ہے اور مخالفین کے شکوک و شبہات کا جواب دیا ہے۔ اس عظیم عالم نے اپنی کتاب کی چوتھی جلد میں صفحہ 351 سے 381 تک آیت تطہیر کو خاص طور سے بیان کیا ہے۔

یہ بات بالکل واضح ہے کہ اس آیت میں طھارت کا لفظی معنی ہے نظافت اور نزاھت کے۔ محقق عاملی آیت میں مذکور طہارت کی وضاحت میں لکھتے ہیں:

«ذکر المفسرون: أن الطهارة هنا تأکید للمعنى المستفاد من ذهاب الرجس، و مبالغة فی زوال أثره بالکلیة و الرجس فی الآیة مستعار للذنوب، کما أنّ الطهارة مستعارة للعصمة منها.»

مفسرین نے طہارت کی تشریح میں کہا ہے: درحقیقت اس آیت میں طہارت سے مراد رجس سے دور ہونا ہے یہ معنی مبالغہ آرائی اور تاکیدہے رجس کے آثارکا مطلقا دور ہونا اور آیت میں جو رجس استعمال ہوا ہے اس سے مراد مطلق گناہ ہے اور جو طھارت ذکر ہوا ہے اس سے مراد عصمت ہے۔

عاملى، محمد بن على موسوى، مدارک الأحکام فی شرح عبادات شرائع الإسلام، ج‌1، ص: 6، 8 جلد، مؤسسه آل البیت علیهم السلام، بیروت – لبنان، اول، 1411 ه‍ ق

بیان مسئله

قرآنی آیات کی تفسیر کے میدان میں امامیہ اور اہل سنت کے درمیان ایک اہم ترین اختلاف یہ دعویٰ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کو اس آیت میں شامل کیا گیا ہے جس میں مطلق پاکیزگی کی نشاندہی ہوتی ہے وہ آیت ” آیه تطهیر ” ہے۔ اہلسنت کا دعویٰ ہے کہ قطعی نصوص، عقلی اور عقلایی شواہد اور آیت میں متنازع عبارت کے مخصوص سیاق و سباق کے برخلاف، وہ تمام لوگ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات ہیں، سب کے سب اس آیت میں شامل ہے۔ اس مضمون میں ہم اہل سنت کے معتبر شواہد کی بنا پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ دعویٰ صحیح نہیں ہے اور آیت کی تفسیر( جو خود رسول نے بیان فرمایا ہے) اور بہت سے صحابہ کے فہم کے خلاف ہے۔

پہلے مرحلے میں اس مسئلے کا جائزہ لینے کے لیے ہم ان عقلی اور عقلایی شواہد کی طرف رجوع کرتے ہیں جو اہل بیت کے عنوان سے زوجیت کی جدائی کو ثابت کرتے ہیں اور پھر ہم آیت میں موجود قرائن کا حوالہ دیں گے اور تیسرے مقام پر ہم ان روایات کا تفصیل سے حوالہ دیں گے جو ہمارے دعوے کی تائید کرتی ہیں:

  1. عقلی اور عقلایی قرائن

عقلی اور عقلایی دلائل بشمول رضائے الٰہی میں تناقض کی بحث اور اس آیت میں رضائے الٰہی کی تکوینی قراین کا ثبوت اور ازواج مطہرات کی آیه تطهیر پر کوئی اعتراض نا کرنا اور بار بار خلاف ورزیاں ان کے(معصوم) عصمت نا ہونےکا دلیل ہے:

1/1۔ خدا کی مرضی میں تناقض اور تهافت

مقدمه اول: کلامی اور عقلی اصولوں کی بنا پر مولی اور شارع حکیم سے دو متضاد اور متناقض چیزیں جاری کرنا حرام اور ناممکن ہے۔ مثال کے طور پر خدا کے لیے ایک ہی چیز سے خوش اور ناخوش ہونا محال ہے۔

مقدمه دوم: ایک طرف سورہ تحریم کی آیت نمبر 10 کے تحت شیعہ اور سنی کی قطعی روایات کے مطابق عائشہ اور حفصہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف متحد ہونے کا ڈرامہ کرنا، غداری، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے راز افشا کرنا، خدا کی طرف سے ملامت کا شکار ہوئے ہیں:

(66) التحریم : 10 ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلاً لِلَّذینَ کَفَرُوا امْرَأَتَ نُوحٍ وَ امْرَأَتَ لُوطٍ کانَتا تَحْتَ عَبْدَیْنِ مِنْ عِبادِنا صالِحَیْنِ فَخانَتاهُما فَلَمْ یُغْنِیا عَنْهُما مِنَ اللَّهِ شَیْئاً وَ قیلَ ادْخُلاَ النَّارَ مَعَ الدَّاخِلین‏

بخاری اپنی صحیح میں خلیفہ دوم عمر بن خطاب سے نقل کرتے ہیں:

«… فقلت یا أمیر المؤمنین من اللتان تظاهرتا على النبی صلى الله علیه و سلم من أزواجه فقال تلک حفصة وعائشة…»

عبداللہ بن عباس کہتے ہیں کہ میں نے کہا اے امیر المومنین (یعنی عمر بن خطاب) ان کی ازواجوں میں سے وہ کون سی دو زوجہ تھیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بہانہ بنایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعاون کیا؟ عمر بن خطاب نے جواب دیا: حفصہ اور عائشہ تھیں!

بخاری جعفی، محمد بن اسماعیل، الجامع الصحیح المختصر، ج4، ص: 1866، دار ابن کثیر ، الیمامة – بیروت، الطبعة الثالثة ، 1407 – 1987، تحقیق : د. مصطفى دیب البغا أستاذ الحدیث وعلومه فی کلیة الشریعة – جامعة دمشق، عدد الأجزاء : 6

دوسری طرف اہل سنت کا دعویٰ ہے کہ آیه تطهیر سے مراد اہل بیت ہیں اور اس میں ازواج رسول خدا بھی شامل ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ تمام ازواج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طھارت مطلق ہے۔ ایسا شخص جو طھارت مطلق ہو اور وہ تمام رجس سے دور ہو وہ کبھی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیانت اور مخالفت نہیں کریگا۔

نتیجہ: سورہ تحریم کی آیات پر غور کرتے ہوئے ازواج کا آیه تطهیر میں داخل ہونے کا دعویٰ متضاد اور ناممکن ہے۔

کیونکہ یہ سب حکیم خدا کے لیے ناممکن ہے کہ ایک طرف، وہ ازواج رسول خدا کی مکمل طھارت چاہتا ہے اور دوسری طرف ان کی خیانت اور ناپاکی کی خبریں دیں۔ کیونکہ خدا کی مرضی کے لیے دو متضاد چیزیں شامل کرنا ناممکن ہے۔

جمع بندی: ایک قطعی عقلی دلیل کی بنا پر، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کو آیت تطھیر کی مصداق میں کسی بھی طرح سے شامل نہیں کیا جا سکتا ۔

.2/1ارادہ الھی کا قرینہ تکوینی ہونا

آیت تطھیر میں جس ارادہ کا ذکر ہے وہ تکوینی کی یقینی اور حقیقی ارادہ ہے۔ توضیح یہ ہے کہ ارادہ الھی ممکن ہے تشریعی صورت میں ہو یا تکوینی، ارادہ تشریعی میں اللہ تعالیٰ اپنے احکام و ممنوعات سے نجات اور مصائب پیدا کرکے اپنے تمام بندوں کی پاکیزگی چاہتا ہے۔ خدا اپنے اوامرسے حکم دیتا ہے کہ مناسب ہے کہ وضو کرو تاکہ پاک و پاکیزہ رہویامناسب نہیں ہے کہ شراب پیو نجس ہونے کیلیے۔ بحرحال یہ ارادہ تمام افراد اور ذمہ داران کے لیے ہے، نہ کہ کسی خاص شخص یا افراد کے لیے، اور یہ ارادہ واجبات کے لیے کوئی فضیلت پیدا نہیں کرتی ہے۔ ایسے ہی آیت تطھیرمیں ہے۔

اول: آیت کا خطاب بعض لوگوں سے ہے، تمام مکلفین سے نہیں۔

دوم: تمام مسلمان اہل بیت کے لیے آیت تطھیرمیں بیان کردہ طہارت کو بہت بڑی فضیلت اور مدح عظیم سمجھتے ہیں۔ اس صورت میں، اگر ارادہ تشریعی ہے، اس کی تعریف مخصوص لوگوں کے لیے نہیں کی جائے گی اور آیت میں ہی محدود رہے گی، اور آیت میں بیان کردہ طہارت کو مخصوص لوگوں کے لیے تفویض کرنے کی حکمت بے معنی اور غیر معقول ہوگی۔ یہاں تک کہ اگر ہم اس حقیقت کو شامل کریں کہ اہل بیت علیہم السلام کے علاوہ کسی اور نے بھی، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دیگر صحابہ کرام اور ازواج نے عصمت کا دعویٰ نہیں کیا ہے۔ آیت تطہیر سے واضح ہو جاتا ہے کہ آیت صرف ان کے لیے ہے اور آیت کے احکام میں دوسروں کے داخل ہونے کا امکان نہیں ہے۔

ایک اور دلیل یہ ہو سکتی ہے کہ آیت میں جس ارادہ کا اظہار کیا گیا ہے وہ حقیقی اور تکوینی ہے اوررجس سے دوری آیت میں جو ذکر ہوا ہے اس کا تعلق خدا کے فعل سے ہے۔ اوراس کے علاوہ ہم واضح طور پر عقل اور قرآن کی واضح آیات سے جانتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا اور عمل کیا تو وہ عمل لامحالہ اور یقینی طور پر پورا ہو گا جیسا کہ اس نے سورہ یاسین کی آخری آیت میں کہا۔ :

(36) یس : 82 إِنَّما أَمْرُهُ إِذا أَرادَ شَیْئاً أَنْ یَقُولَ لَهُ کُنْ فَیَکُون‏

یہ اس کے حکم اورارادہ کے سوا کچھ نہیں کہ وہ جب کسی چیز کو چاہے گا کہ ہوجا تو وہ فوراً ہو جائے گا۔

یہ اس وقت ہے کہ جب ارادہ تشریعی، ارادہ الٰہی کا محقق ہونا – مثلاً نماز پڑھنا یا وضو کے ذریعے طہارت حاصل کرنا وغیرہ – دوسروں کے اعمال پر منحصر ہے اور اس کے ذریعہ سے مکلفین کی نافرمانی محقق نہیں ہوتا۔ دوسرے لفظوں میں، اگر اس کا تعلق خدائی عمل کی ارادہ سے ہے، تو ارادہ حقیقی، حقیقی اورتکوینی ہوگی، اس صورت میں ارادہ کبھی بھی مقصد کی خلاف ورزی نہیں کرے گی۔ کیونکہ اگر وہ تخلف کرتا ہے توایسی صورت میں ہم نے عاجزی کو خدائے بزرگ و برتر کی طرف منسوب کر دیا ہے اور خدا ہر قسم کی عاجزی سے پاک ہے۔ زیر نظر آیت میں خدا نے اپنے تکوینی ارادے سے "اہل بیت” کو جو خاص لوگ ہیں، مطلق طھارت اور نجاست سے دوری جانا ہے۔ اور بلا شبہ یہ ارادہ الٰہی محقق ہونی چاہیے ورنہ خدا اپنی ارادہ کرنے سے قاصر رہے گا۔

مندرجہ بالا دلیل میں یہ اضافہ کرنا چاہیے کہ آیت تطھیر میں اللہ تعالیٰ نے تاکید کے بہت سے ذرائع استعمال کیے ہیں تاکہ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی طہارت کی عظمت کو ظاہر کیا جا سکے۔ مثال کے طور پرمفعول مطلق تاکیدی «تطهیرا» ایک بہت ہی اعلیٰ اور مکمل پاکیزگی کی طرف اشارہ کرتی ہے، جو صرف مخصوص لوگوں کے لیے ہو سکتی ہے۔ اس لیے اس کی اہمیت کے پیش نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کے مفسر کی حیثیت سے اس آیت کے حقیقی مخاطبین اور ان لوگوں کا تعارف کرایا ہے جن پر یہ عظیم احسان ہوا ہے۔

1/3۔ ازواج بالخصوص عائشہ کا آیت تطھیر پر کوئی اعتراض نہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے بارے میں ہے کہ آیت تطھیرمیں ان لوگوں کا شامل نہ ہونا عقلی دلیلوں میں سے ایک یہ ہے کہ اعتراض نہ کرنا ضرورت کے وقت آیت کے مطابق میاں بیوی بشمول اپنے آپ کا عدم احتجاج دوسروں کے ساتھ جھگڑا اور جنگ کے مترادف ہے۔ مثال کے طور پر تاریخی اور روایتی منابع میں ایسی کوئی صورت نہیں ملتی کہ عائشہ نے جنگِ جمال وغیرہ کے نازک لمحات میں اپنی اس قطعی فضیلت کا ذکر کیا ہو۔ اور اسے اپنے حریفوں کا مقابلہ کرنے کے لیے استعمال کی ہو، جب کہ جمال جنگ کی مہم جوئی میں اس نے بارہا ام مومنین ہونے کی فضیلت کا ذکر کیا ہے۔

اسی طرح یزید کی جانشینی کے مسلہ تھا جس کے بارے میں عائشہ اور اس کے بھائی سخت خلاف تھے اور مدینہ کے شہر میں مروان کے ساتھ شدید لڑائی ہوئی تھی۔ مروان ان کا مقابلہ کرنے کے لیے اس نے دعویٰ کیا کہ ابوبکر کے خاندان کے بارے میں آیت افک کے علاوہ کوئی آیت نازل نہیں ہوئی:

4550 – حدثنا موسى بن إسماعیل حدثنا أبو عوانة عن أبی بشر عن یوسف بن ماهک قال: کان مروان على الحجاز استعمله معاویة فخطب فجعل یذکر یزید بن معاویة لکی یبایع له بعد أبیه فقال له عبد الرحمن بن أبی بکر شیئا فقال خذوه فدخل بیت عائشة فلم یقدروا فقال مروان إن هذا الذی أنزل الله فیه { والذی قال لوالدیه أف لکما أتعداننی }. فقالت عائشة من وراء الحجاب ما أنزل الله فینا شیئا من القرآن إلا أن الله أنزل عذری»

یوسف بن ماہک روایت کرتے ہیں: مروان حجاز کا حاکم تھا جسے معاویہ نے مقرر کیا تھا۔ ایک دن اس نے مدینہ کی مسجد میں خطبہ دیا اور یزید کے بارے میں باتیں کرنے لگے تا کہ لوگ اس کے والد کے بعد خلافت کیلیے بیعت کرے۔ عبدالرحمٰن بن ابی بکر نے مروان سے کچھ کہا [بخاری نے عبدالرحمٰن کی بات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے] مروان نے کہا: اس شخص کو گرفتار کرو! وہ عائشہ کے گھر میں داخل ہوا اور اس وجہ سے گرفتار نہ کرسکا۔ مروان نے کہا کہ یہ وہ شخص ہے جس کے بارے میں یہ آیت « … و الذی قال لوالدیه اف لکما …» نازل ہوئی ہے۔عائشہ نے حجاب کے پیچھے سے مروان کو جواب دیا اور کہا: ہمارے بارے میں قرآن میں کوئی آیت نازل نہیں ہوئی سوائے(آیات افک) کے۔

بخاری جعفی، محمد بن اسماعیل، الجامع الصحیح المختصر، ج4، ص: 1827، دار ابن کثیر ، الیمامة – بیروت، الطبعة الثالثة ، 1407 – 1987، تحقیق : د. مصطفى دیب البغا أستاذ الحدیث وعلومه فی کلیة الشریعة – جامعة دمشق، عدد الأجزاء : 6

یہ بات بالکل واضح ہے کہ اگر عائشہ آیت تطھیرکی نزول کو اپنی طرف نسبت دیتی تو وہ سورہ توبہ میں اپنی عذر آیات کے ساتھ تطھیر کی آیت کو بھی ذکر کرتی۔

اشکال:

آپ نے صحیح بخاری میں جو روایت نقل کی ہے وہ اس مسئلہ کے لیے ہے جہاں عائشہ نے ابوبکر کے خاندان کا دفاع کیا تھا۔ جبکہ تطھیر کی آیت کا حوالہ ایک ایسا معاملہ ہے جو عائشہ کے لیے مخصوص ہے اور اس کا ان کے اہل خانہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

جواب:

اولا: بہت عظیم فضائل میں جیسے آیت تطھیر، روایتی نقطہ نظر سے اگر عائشہ کو شامل کیا جائے، تو یہ ان کے گھر والوں کے لیے بھی بڑی فضیلت سمجھی جائے گی۔ لہٰذا ایسا نہیں ہے کہ یہ فضیلت صرف عائشہ کو اپنے گھر والوں کا خیال کیے بغیر شامل ہو۔

دوم: آیت افک کی فضیلت جسے عائشہ نے اپنے دعوے میں نقل کیا ہے، اس کا اپنے بھائی اور خاندان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ عائشہ نے خود وضاحت کی ہے کہ افک کے معاملے میں جو آیات استدلال کی گئی ہیں وہ "عذری” آیات ہیں جن کا مطلب صرف اس کے لیے افک کے لوگوں کے لیے عذر اور جواب ہے۔ لہٰذا آیت تطھیر کو بھی اگر اس سے شامل کیا جاتا تو اسے استثناء کے طور پر ذکر کرنا چاہیے تھا، خاص طور پر وہ طہارت جو عائشہ کے لیے آیت تطھیر سے ثابت ہے۔ حاصل شدہ طھارت سے بہت زیادہ عام اور زیادہ قیمتی [یقیناً، مخالفین اور سنیوں کے نقطہ نظر سے] یہ آیات افک میں تھا کیونکہ افک کی آیات صرف عائشہ کے لیے زنا سے پاک ہونے کو ثابت کرتی ہیں۔

1/4۔ عکرمہ جیسے نواصب کی طرف سےازواج کو آیات میں اختصاص دینے کا دعویٰ

ایک اور عقلی دلیل جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کو خارج کرنے پر دلالت کرتی ہے، وہ ہے اہل بیت علیہم السلام کے بعض دشمنوں کی طرف سے اہل بیت علیہم السلام کو آیت کے دائرہ سے خارج کرنے کا الزام عکرمہ کے مترادف ہے۔

توضیح یہ ہے کہ متعدد تاریخی شواہد کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں نے ہمیشہ اہل بیت علیہم السلام سے متعلق بعض حقائق اور فضائل کو جھٹلانے کی کوشش کی ہے۔ بات یہاں تک پہنچی کہ عبداللہ بن شداد جیسے حدیث کے راویوں نے صبح سے دوپہر تک ایک دن تک سر قلم کرنے کی قیمت پر بھی ان حضرت کے فضائل کو نقل کرنا چاہا۔

قَالَ عَطَاءُ بنُ السَّائِبِ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللهِ بنَ شَدَّادٍ یَقُوْلُ: وَدِدْتُ أَنِّی قُمْتُ عَلَى المِنْبَرِ مِنْ غُدْوَةٍ إِلَى الظُّهْرِ، فَأَذْکُرُ فَضَائِلَ عَلِیِّ بنِ أَبِی طَالِبٍ -رَضِیَ اللهُ عَنْهُ – ثُمَّ أَنْزِلُ، فَیُضْرَبُ عُنُقِی.

عطاء بن سائب کہتے ہیں: میں نے عبداللہ بن شداد کو کہتے سنا: میں صبح سے دوپہر تک منبر پر علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے فضائل پڑھنا چاہتا ہواور پھر میں منبر سے نیچے آؤں گا اور میری گردن ماری جائے گی۔

ذهبی، شمس الدین أبو عبد الله محمد بن أحمد، سیر أعلام النبلاء، ج5، ص: 486، محقق : مجموعة محققین بإشراف شعیب الأرناؤوط، مؤسسة الرسالة، طبعة : غیر متوفر، عدد الأجزاء : 23

اسی طرح سے بنی امیہ کے زمانے میں بھی اسلامی معاشرہ کی حالت ایسی ہو گئی تھی کہ معاشرے کے حکمرانوں اور زمامداروں نے خود ان واضح ترین اسلامی سچائیوں کو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فائدے کے لیے تھیں ان کا انکار کرنے کی اجازت دے دی۔ اور انہوں نے ان علماء و محدثین کو قتل کرنے کی سخت دھمکی دی جو اس معاملے کے خلاف تھے! حکیم نیشابوری نے ایک عجیب حقیقت بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزندوں کو بھی بنی امیہ نے جھٹلایا:

«4772 – حدثنا أبو سهل أحمد بن محمد بن عبد الله بن زیاد النحوی ببغداد ثنا جعفر بن محمد بن شاکر ثنا بشر بن مهران ثنا شریک عن عبد الملک بن عمیر قال : دخل یحیى بن یعمر على الحجاج و حدثنا إسحاق بن محمد بن علی بن خالد الهاشمی بالکوفة ثنا أحمد بن موسى بن إسحاق التمیمی ثنا محمد بن عبید النحاس ثنا صالح بن موسى الطلحی ثنا عاصم بن بهدلة قال : اجتمعوا عند الحجاج فذکر الحسین بن علی فقال الحجاج : لم یکن من ذریة النبی صلى الله علیه و سلم و عنده یحیى بن یعمر فقال له : کذبت أیها الأمیر فقال : لتأتینی على ما قالت ببینة و مصداق من کتاب الله عز و جل أو لأقتلنک قتلا فقال : { و من ذریته داود و سلیمان و أیوب و یوسف و موسى } إلى قوله عز و جل: { و زکریا و یحیى و عیسى و إلیاس } فأخبر الله عز و جل أن عیسى من ذریة آدم بأمه و الحسین بن علی من ذریة محمد صلى الله علیه و سلم بأمه قال صدقت فما حملک على تکذیبی فی مجلس قال : ما أخذ الله على الأنبیاء لیبیننه للناس و لا یکتمونه قال الله عز و جل: { فنبذوه وراء ظهورهم و اشتروا به ثمنا قلیلا } قال : فنفاه إلى خراسان»

ایک دن حجاج بن یوسف ثقفی کی مجلس میں علماء اور بزرگوں کی ایک جماعت موجود تھی۔ یہ نشست امام حسین علیہ السلام کے بارے میں تھا۔ حجاج نے کہا: وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد میں سے نہیں تھا! یحییٰ بن یعمر نے حجاج سے کہا: تم نے جھوٹ بولا، اے امیر! حسین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد میں سے ہیں۔

حجاج نے کہا: تم نے جو دعویٰ کیا ہے اسے ثابت کرنے کے لیے یا تو تم قرآن سے ثبوت لے کر آؤ یا میں تمہیں بدترین طریقے سے قتل کر دوں گا!

یحییٰ نے حجاج سے اس آیت سے بحث کرتے ہوئے کہا: «و من ذریته داود و سلیمان … و زکریا و یحیى و عیسى و إلیاس» (انعام کی 84 اور 85): خدا نے فرمایا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام اپنی والدہ کے ذریعے آدم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔

اور امام حسین علیہ السلام بھی اپنی والدہ کی ذریعے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد میں سے ہیں۔ حجاج نے کہا: تم ٹھیک کہتے ہو! کون سی ایسی چیز مانع ہوا جوتم نے مجھے اپنے مجلیس میں جھوتلایا؟

یحییٰ نے جواب دیا: یہ اس عہد کی وجہ سے ہے جو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں انبیاء علیہم السلام سے کیا تھا کہ وہ لوگوں کے سامنے حق بیان کریں اور دنیا کے قلیل مال کی خاطر اسے نہ چھپائیں (187 آل عمران) راوی کہتا ہے: حجاج نے یحییٰ کو خراسان میں جلاوطن کیا۔

حاکم نیشابوری، محمد بن عبدالله أبو عبدالله، المستدرک على الصحیحین، ج3، ص: 180، دار الکتب العلمیة – بیروت، چاپ اول، 1411 – 1990

اسی طرح واضح قرآنی اور تاریخی امور کی تکذیب اور اہل بیت علیہم السلام کی مخالفت کی شدت پر توجہ دینے سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے محدثین اور سنی علماء نے اہل بیت علیہم السلام کی حقیقتوں اور فضائل کو بیان کرنے سے انکار کیا۔ اور اگر اس نے کسی خاص معاملہ میں مقابلہ کرنے کی کوشش کی تو اسے اپنی جان اور جلاوطنی کا خطرہ تھا! ذہبی اس روایت کی طرف آتے ہوئے کہتے ہیں:

« … قلت وکان عبد الرزاق یعرف الامور فما جسر یحدث بهذا (حدیث مرتبط با فضائل حضرت علی علیه السلام) الا سرا لاحمد بن الازهر ولغیره»

"… (زہبی) میں کہتا ہوں: عبدالرزاق صنعانی صورتحال اور رائے عامہ سے پوری طرح باخبر تھے، اور احمد بن ازھر اور دوسرے لوگوں کو چھپ کربھی اس کو نقل کرنے کی جرأت نہیں ہوتی تھی۔”

ذهبی، شمس الدین،میزان الاعتدال فی نقد الرجال، ج1، ص: 213، بیروت، دار الکتب العلمیة، 1995، 8 جلد

جیسا کہ واضح ہے کہ عبد الرزاق جیسے عظیم علماء میں بھی اہل بیت علیہم السلام کے فضائل کو کھلے عام بیان کرنے کی ہمت نہیں تھی۔ اس کا مذہبی اور تاریخی حقائق کی آزادانہ منتقلی اور فطری اشاعت پر بہت زیادہ اثر پڑتا ہے جسے ہر روایت کے اجراء کا جائزہ لیتے وقت مدنظر رکھا جانا چاہیے۔ انہی دشمنیوں کا تسلسل تھا کہ عکرمہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مسلم روایات پر غور کیے بغیر آیت تطھیر کو ازواج سے مخصوص کیا۔

وَقَوْله تَعَالَى: «إِنَّمَا یُرِید اللَّه لِیُذْهِب عَنْکُمْ الرِّجْس أَهْل الْبَیْت وَیُطَهِّرکُمْ تَطْهِیرًا وَهَذَا نَصّ فِی دُخُول أَزْوَاج النَّبِیّ صَلَّى اللَّه عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی أَهْل الْبَیْت هَهُنَا لِأَنَّهُنَّ سَبَب نُزُول هَذِهِ الْآیَة وَسَبَب النُّزُول دَاخِل فِیهِ قَوْلًا وَاحِدًا إِمَّا وَحْده عَلَى قَوْل أَوْ مَعَ غَیْره عَلَى الصَّحِیح وَرَوَى اِبْن جَرِیر عَنْ عِکْرِمَة أَنَّهُ کَانَ یُنَادِی فِی السُّوق «إِنَّمَا یُرِید اللَّه لِیُذْهِب عَنْکُمْ الرِّجْس أَهْل الْبَیْت وَیُطَهِّرکُمْ تَطْهِیرًا » نَزَلَتْ فِی نِسَاء النَّبِیّ صَلَّى اللَّه عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَاصَّة

قول خداوند تبارک و تعالی آیه تطهیر میں «انما …» یہ آیت دلیل ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کا اہل بیت میں داخل ہونے کا ۔ کیونکہ یہ عورتیں آیت کے نزول کا سبب ہیں اورایک قول کے بنا پر نزول کی وجہ صرف یہی لوگ ہیں۔ ایک اور صحیح قول کے مطابق بیویاں دوسرے لوگوں کے ساتھ اہل بیت میں داخل ہوتی ہیں۔ ابن جریر نے عکرمہ سے روایت کیا کہ وہ بازار میں شور مچا رہا تھا کہ آیت "انما یرید اللہ …” صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج پر نازل ہوئی تھی۔

ابن کثیر دمشقی، عماد الدین ابوافداء، تقسیر القرآن العظیم، ج 11، ص: 152، دار النشر: مؤسسة قرطبة + مکتبة أولاد الشیخ للتراث، البلد: الجیزة، الطبعة: الأولى، سنة الطبع: 1412 هـ، 2000 م، عدد الأجزاء: 14

علماءاہل سنت نے عکرمہ کے بارے میں لکھتے ہیں:

«وقد تکلم فیه بأنه على رأى الخوارج ومن ثم اعرض عنه مالک الإمام ومسلم»

ان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ خوارج کو مانتے تھے اور یہی وجہ تھی کہ امام مالک اور مسلم نے ان سے روایت نہیں کی۔

ذهبی، محمد بن احمد، تذکرة الحفاظ، ج1، ص: 74، دراسة وتحقیق: زکریا عمیرات، ناشر: دار الکتب العلمیة بیروت-لبنان، الطبعة الأولى 1419هـ- 1998م، عدد المجلدات: [ 4 ]

اس کے علاوہ، عقیلی نے ان کے بارے میں ایک عجیب حقیقت بیان کی ہے:

«على علی بن عبد الله بن عباس فإذا عکرمة فی وثاق عند باب الحسن فقلت له ألا تتقی الله قال فإن هذا الخبیث یکذب على أبی»

علی بن عبداللہ بن عباس نے ایک مرتبہ عکرمہ کو حسن کے گھر کے سامنے رسی سے باندھ دیا! میں نے اس سے کہا: کیا تم اللہ سے نہیں ڈرتے؟ جواب میں اس نے کہا: یہ خبیث میرے والد کے بارے میں جھوٹ بول رہا ہے!

عقیلی، ابوجعفر محمد بن عمر، الضعفاء الکبیر، ج3، ص: 374، ناشر : دار المکتبة العلمیة – بیروت، الطبعة الأولى ، 1404هـ – 1984م، تحقیق : عبد المعطی أمین قلعجی، عدد الأجزاء : 4

مندرجہ بالا نکات پر غور کرنے سے عکرمہ کی دشمنی اور اہل بیت علیہم السلام کے خلاف جھوٹ کے سلسلے میں کوئی شک نہیں باقی نہیں رہتی۔ تاریخی اور تجرباتی طور پر جب کسی شخص کا دشمن کسی ایسی حقیقت کا انکار کرتا ہے جس کی تصدیق متعدد قرآنی ایات اور روایات سے ہوتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل علم اور عوام کے درمیان جھٹلایا جانے والا حق ایک خاص چیز تھی اور اس کے لیے اس کے مالک کے سیاسی مفادات تھے اور اس حد تک کہ بعض ان مفادات کو نقصان پہنچانے کے ارادے سے اسے تباہ و برباد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

مذکورہ بالا نکتہ کے علاوہ آیت تطہیر کے حوالے سے عکرمہ کے اہل بیت علیہم السلام کو شامل کرنے کی نفی کرنے کے دعوے کی درستگی سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے دعوے میں کوئی دلیل پیش نہیں کی۔ اور اس سے ہماری دلیل مضبوط ہوتی ہے۔

1/5۔ مکرر خلاف ورزیاں خلاف طھارت پر دلالت کرتی ہے

ایک اور عقلی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کا خارج ہونا مطلق طھارت پر دلالت کرتا ہے۔ اور بار بار خلاف ورزی ان کی عدم طھارت کی نشاندہی کرتی ہے۔ ان میں سے ہم ان کے کثرت حیض کا ذکر کر سکتے ہیں، خاص طور پر عائشہ کے سلسلے میں، اور ان ہی میں سے بعض کا مذہب میں بدعت پیدا کرنے کا اعتراف کرنا، خاص طور سے عائشہ کے سلسلے میں جنگ جمال میں جو واقعہ پیش ایا۔ اس کے علاوہ سورہ تحریم میں مذکور آیات حفصہ اور عائشہ کی خیانت پر دلالت کرتی ہیں اور…

  1. قرآنی دلیل

قرآنی دلیلوں میں آیت کے لہجے اور خطاب کو سرزنش سے شکر میں تبدیل کرنے کی بحث شامل ہے اور ضمیروں کے سیاق میں تبدیلی اور ارادہ کا تکوینی ہونے کو ایہ تطھیر سے اخذ کیا گیا ہے:

2/1۔ لہجہ اور خطاب کو سرزنش سے شکر میں تبدیل کرنا:

دوسری آیات کے ساتھ اس آیت کے لہجے اور مخاطب کی تبدیلی بالکل واضح ہے۔ کیونکہ ان سات آیات کے دوسرے پیراگراف میں تمام مکتوبات ازواج رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہیں، جن میں طلاق، سزا، ملامت، وغیرہ کی دھمکی بھی شامل ہے۔ لیکن اس آیت کا لہجہ اور الفاظ، جو "اہل بیت” کے بارے میں ہے، یہ احترام اور شکر گزار لہجہ ہے۔

2/2۔ سیاق ضمیرکو تانیث سے تذکیر میں تبدیلی کرنا:

ایہ تطھیر سے پہلے اور بعد کی سات آیات میں کل 24 ضمیرجمع استعمال ہوئے ہیں۔ فراز تطہیر میں مذکر جمع کے لیے صرف دو ضمیر استعمال کیے گئے ہیں اورجمع مؤنث کے لیے 22 دیگر ضمیر! اس فرق کی وجہ کیا ہے؟ اگر اس عبارت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کو شامل کیا جانا چاہیے تھا تو یہ دو مونث ضمیر کیوں استعمال نہیں کیے گئے؟

شیعہ برزگ فقیہ شہید اول ان لوگوں پر تنقید کرتے ہوئے جو آیت کے ضمیرمونث پر اصرار کرتے ہوئے ازواج کو شامل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں لکھتے ہیں:

لا یقال: صدر الآیة و عجزها فی النساء فتکون فیهن. قلنا: یأباه الضمیر و هذا النقل الصحیح، و الخروج من حکم الى آخر فی القرآن کثیر جدا.

یہ نہیں کہا گیا ہے: آیت کا آغاز اور نیچے کا حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے بارے میں ہے، لہٰذا آیت کا درمیانی حصہ جس کا تعلق طہارت اور رجس سے دور، انہیں بھی شامل کرنا چاہیے۔ کیونکہ ہم جواب میں کہتے ہیں: یہ استدلال ضمیر کے سیاق و سباق کے خلاف ہے اور ضمیر کا سیاق اس طرح کے فہم کو روکتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ نتیجہ لینا صحیح روایت کے خلاف ہے [جن میں سے اکثر کا تذکرہ قراین روایت کے حصے میں کیا گیا ہے]، اور قرآن کی آیات میں ایک حکم سے ہٹ کر دوسرے حکم میں داخل ہونے کے کئی واقعات آئے ہیں۔

عاملى، شهید اول، محمد بن مکى، ذکرى الشیعة فی أحکام الشریعة، ج‌1، ص: 56، 4 جلد، مؤسسه آل البیت علیهم السلام، قم – ایران، اول، 1419 ه‍ ق

2/3۔ ارادہ الھی کا تکونی ہونا

تطھیر کی آیت سے ازواج کو خارج کرنے کے لیے ایک اہم ترین قرآنی دلائل شیعہ علماء کی طرف سے نقل کی گئی آیت میں حاصل کردہ ارادہ تکوینی ہے۔ یعنی یہ "انما یرید اللہ…” کے برابر ہے، جب کہ اس سے پہلے اور بعد میں ارادہ الٰہی تشریعی ہوتی ہے۔ ہمارے ایک عظیم فقہا نے اس بات کو ثابت کرنے کے لیے درج ذیل استدلال پیش کیا ہے:

«و الإرادة المتعلقة بإذهاب الرجس عن أهل البیت و تطهیرهم إرادة تکوینیة، لأن متعلق الإرادة التشریعیة هو فعل الغیر المورد للتشریع و الأمر و النهى، و متعلق الإرادة فی الآیة فعل اللّه.

و توهّم کونها إرادة تشریعیة مستلزم لأن یکون اللّه سبحانه آمرا و مأمورا و مریدا و مرادا منه، و أن یکون أفعاله موردا للتشریع و التکلیف! و أن یکون إذهاب الرجس و التطهیر فعل أهل البیت، مع أنهما مستندان إلى اللّه بهیئة الإفعال و التفعیل، و غیر ذلک من التوالى الفاسدة عقلا و نقلا.

و ثانیا: أن الإرادة التشریعیة بتطهیر النفوس بالإتیان بالواجبات و ترک المحرمات إرادة عامة لقاطبة الناس، لا معنى لحصرها ب‍ (انّما) فی أهل البیت، فی الکتاب الحکیم.

و ثالثا: التخصیص و الاختصاص مقتضى الروایات الکثیرة الواردة فی أصحاب الکساء و نقتصر على واحدة منها:

«أن النبی صلّى اللّه علیه و آله و سلّم جلّل فاطمة و زوجها و ابنیهما بکساء و قال: اللّهم هؤلاء أهل بیتی، اللّهم فأذهب عنهم الرجس و طهّرهم تطهیرا»

و قد اعترف بصحة هذه الروایة من دأبه المناقشة بالوجوه الضعیفة فیما ورد فی فضائل اهل البیت علیهم السّلام

و لو کانت الإرادة فی الآیة تشریعیة مع أنها محققة بتشریع الشریعة بالبعث الى ما ینبغی و الزجر عمّا لا ینبغی، و تکون باقیة ببقاء الأوامر و النواهی إلى یوم القیمة کان الدعاء من النبیّ صلّى اللّه علیه و آله و سلّم لأصحاب الکساء طلب للحاصل و تخصیص بلا مخصص.»

اہل بیت علیہم السلام سے نجاست کو دور کرنا اور ان کو پاک کرنا ارادہ تکوینی ہے

کیونکہ اراده تشریعیه صرف دوسروں کے وہ اعمال ہو سکتے ہیں جن کا حکم اور منع کرنے والے نے قانون سازی کی ہے، جب کہ آیت تطهیر میں ارادہ کی ملکیت اللہ تعالیٰ کا فعل ہے جو کہ اس سے بلند و بالا ہے۔

یہ وہم کہ آیت تطهیر میں اراده تشریعیه جو کہ باطل ہے، کیونکہ اس کا تقاضا یہ ہے کہ خدائے بزرگ و برتر، امت اور مامور اور مرید اورمراد ہو، اور معنی طہارت و نجاست کا دور ہونا حکم کے مطابق ہو۔ اور یہ ناممکن اور غیر عقلی ہے۔

اس کے علاوہ، ارادہ کا تشریعی ہونا تقاضا کرتا ہے کہ خدائے بزرگ و برتر کے اعمال کو تشریع اور تکلیف قرار دیا جائےاور یہ بات بالکل واضح ہے کہ فعل الھی اور ارادہ کبھی بھی دوسروں کیلے تشریع اور تکلیف نہیں ہو سکتا۔

تطھیر کی آیت میں ارادہ کا تشریعی ہونا کہ رجس سے دور اور تطھیر جو ایت میں ذکر کیا گیا ہے وہ اہل بیت علیہم السلام کا فعل ہے۔ (یعنی اھلبیت علیھم السلام کو طھارت حاصل کرنا ضروری ہے اور یہ پاکیزگی ان کے فعل سے ثابت ہے)۔ آیت مقدسہ میں نجاستوں سے دوری و تطھیر کو اعمال وصیغہ افعال اور تفعیل کی ساخت اور شکل کے ساتھ خدا کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ بدعنوانوں کی اس فہرست کے علاوہ آیت تطھیر میں ارادہ تشریعی ہونے کے حوالے سے دیگر مسائل بھی ہیں۔

دوم: ارادہ تشریعی مرتبط ہے لوگوں کی جان کی پاکیزگی سے جو فرائض کی ادائیگی اور ممنوعات کو ترک کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ ہر ایک کے لیے ایک عمومی ارادہ ہے اور یہ حکیمانہ اور فصیح کتاب قرآن میں لفظ "انما” کے مخصوص معنی یعنی اہل بیت کہلانے والوں کے لیے پاکیزگی کی خصوصیت کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتی۔

سوم: مخصوص لوگوں کے لیے تطھیر کو مختص کرنا بہت سی احادیث سے مطلوب ہے جو اصحاب کساء کے شان میں بیان ہوا ہے اور ہم ان میں سے ایک کا ذکر کرتے ہیں: بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ، ان کا شوھر اور بچے کو کساء سے ڈھانپ دیا اور فرمایا: اے اللہ یہ میرے اہل بیت ہیں، ان سے نجاست اور رجس کو دور فرما، انہیں پاک فرما!

اور اگرارادہ آیت میں تشریعی ہو، اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ ارادہ تشریعی شرعی قانون اور احکام کے نفاذ کے ساتھ ان چیزوں کا حکم دینے کی صورت میں جو ضروری ہیں اور جن چیزوں کو ترک کیا جانا چاہیے ان سے منع کرنے کی صورت میں حاصل ہوتی ہے۔

اور یہ قیامت تک احکام و ممنوعات کی بقا کے ساتھ رہے گا۔ اس صورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحاب کساء پر رحمت نازل ہونے والی دعا باطل ہو جائے گی۔ کیونکہ مطالبہ وہ چیز ہے جو شریعت کی مرضی کی پابندی سے حاصل کی گئی ہے اور یہ بھی شریعت کی یہ ارادہ بغیر تخصیص کے ہے کیونکہ اہل بیت کے لیے خاص ہونے کا ثبوت قائم نہیں کیا گیا۔

خراسانى، حسین وحید، منهاج الصالحین (للوحید)، ج‌1، ص: 250، 3 جلد، مدرسه امام باقر علیه السلام، قم – ایران، پنجم، 1428 ه‍ ق

  1. روایی قرائن

بلاشبہ آیت تطھیر میں ازواج کو مطلق طہارت میں شامل کرنے سے خارج کرنے کی سب سے بڑی وجہ متعدد فرقوں میں متعدد روایات ہیں۔ جو لوگ ان روایات کے مزید مکمل مطالعہ میں دلچسپی رکھتے ہیں وہ سید علی موحد ابطحی کی لکھی ہوئی کتاب "آیة التطهیر فی احادیث الفریقین” کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔

تحقیق کے اس حصے میں ہم ان میں سے بعض احادیث کا حوالہ دیتے ہیں جو اہل سنت کے مستند حدیثی منابع میں شامل ہیں اور بحث کے مطابق ان سے متعلق دلالی اورسندی مسائل کا بھی حوالہ دیتے ہیں۔ بحث کے آغاز میں قرآن کی آیات کی نبوی تفسیر کی اہمیت اور مقام کے بارے میں ایک نہایت کلیدی تعارف کا ذکر ضروری ہے:

3/1۔ قرآنی آیات کے ظہور میں نبوی تفسیر کی اہمیت؛

قرآن مجید کی آیات کی تفسیر اور تفہیم کے لیے سب سے اہم بنیاد قرآن کی آیات کو سمجھنے میں حجیت تبیین اور بیان نبوی اہم ہے۔ قرآن کی صریح آیات کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہم ترین فرائض میں سے ایک، مسلمانوں کو قرآن کی آیات کی وضاحت کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ سورہ نحل کی آیات 44 اور 64 میں فرماتا ہے:

(16) النحل : 44 بِالْبَیِّناتِ وَ الزُّبُرِ وَ أَنْزَلْنا إِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَیْهِمْ وَ لَعَلَّهُمْ یَتَفَکَّرُونَ‏

ترجمہ: اور ہم نے آپ پر الذکر (قرآن مجید) اس لئے نازل کیا ہے کہ آپ لوگوں کے لئے (وہ معارف و احکام) کھول کر بیان کریں جو ان کی طرف نازل کئے گئے ہیں تاکہ وہ غور و فکر کریں۔ (44)

(16) النحل : 64 وَ ما أَنْزَلْنا عَلَیْکَ الْکِتابَ إِلاَّ لِتُبَیِّنَ لَهُمُ الَّذِی اخْتَلَفُوا فیهِ وَ هُدىً وَ رَحْمَةً لِقَوْمٍ یُؤْمِنُون‏

ترجمہ: اور ہم نے آپ پر یہ کتاب نہیں اتاری مگر اس لئے کہ آپ ان باتوں کو کھول کر بیان کر دیں جن میں وہ اختلاف کر رہے ہیں اور یہ (کتاب) ایمان لانے والوں کے لئے سراسر ہدایت اور رحمت ہے۔ (64)

مندرجہ بالا آیات کے مطابق قرآنی آیات کی تفسیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی آیت کی تفسیر میں کوئی نکتہ بیان کیا ہے تو تمام مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اس پر عمل کریں اور ان کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس آیت کے خلاف دعویٰ کریں۔ قرآن کو سمجھنے کے اس طریقے کی واضح مثال سفر کے دوران نماز قصرسے متعلق آیت میں دیکھی جا سکتی ہے۔ خدا اس آیت میں فرماتا ہے:

«وَ إِذا ضَرَبْتُمْ فِی الْأَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُناحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَنْ یَفْتِنَکُمُ الَّذینَ کَفَرُوا إِنَّ الْکافِرینَ کانُوا لَکُمْ عَدُوًّا مُبینا»

ترجمہ: اور جب تم زمین میں سفر کرو۔ تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے (بلکہ واجب ہے کہ) نماز میں قصر کر دو۔ (بالخصوص) جب تمہیں خوف ہو کہ کافر لوگ تمہیں کوئی تکلیف پہنچائیں گے۔ بے شک کافر تمہارے کھلے ہوئے دشمن ہیں۔ (101)

حالانکہ اس آیت کے ظہور نے نماز قصرکے واجب ہونے کو خوف سے مقید کر دیا ہے۔ البتہ مسلمانوں کا اجماع نبوی بیان اور تفسیر پر مبنی ہے، مسافر کے لیے نماز قصر کرنے کے فرض کو مطلق سمجھتے ہیں اور خوف کو کوئی چیز نہیں سمجھتے۔ یہی وجہ ہے کہ عبداللہ بن عمر قصر یا کامل نماز سے متعلق سوالات کے جواب میں کہتے ہیں:

«4861 – حدثنا عبد الله حدثنی أبی ثنا یزید أنا إسماعیل عن أبی حنظلة قال : سألت بن عمر عن الصلاة فی السفر فقال الصلاة فی السفر رکعتین فقال إنا آمنون لا نخاف أحدا قال سنة النبی صلى الله علیه و سلم. تعلیق شعیب الأرنؤوط : صحیح لغیره وهذا إسناد محتمل للتحسین»

ابی حنظلہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمر سے سفر میں نماز کے بارے میں پوچھا۔ فرمایا: سفر میں نماز دو رکعت ہے۔ سائل نے کہا: ہم سفر کرنے والے محفوظ ہیں اور کسی سے خوف نہیں رکھتے! ابن عمر نے جواب دیا: یہ ایک نبوی حکم ہے!

ابن حنبل، أبو عبدالله الشیبانی، مسند الإمام أحمد بن حنبل، ج2، ص: 31، مؤسسة قرطبة – القاهرة، شش جلد، به همراه تعلیقات، شعیب الأرنؤوط

اس قصر والی فتوے کے مطابق نماز پڑھنے کو عبداللہ بن عمر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرض قرار دیا ہے اور خوف کے ہونے یا نہ ہونے میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ان کی دوسری روایتوں سے اس نظریہ کو تقویت ملتی ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں وہ اس روایت کی مخالفت کو توہین رسالت سمجھتے ہیں:

«5202 – أخبرنا أبو بکر بن الحارث الفقیه أنبأ أبو محمد بن حیان الأصبهانی ثنا بن منیع ثنا أبو الربیع الزهرانی ثنا عبد الوارث ثنا أبو التیاح عن مورق العجلی عن صفوان بن محرز قال : سألت بن عمر عن صلاة السفر قال رکعتان من خالف السنة کفر»

صفوان بن محریز کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمر سے سفر میں نماز کے بارے میں پوچھا۔ فرمایا: یہ دو رکعت ہے اور جو اس سنت سے اختلاف کرے وہ کافر ہے!

بیهقی، أحمد بن الحسین بن علی، سنن البیهقی الکبرى، ج3، ص: 140، مکتبة دار الباز – مکة المکرمة ، 1414 – 1994، تحقیق : محمد عبد القادر عطا، 10 جلد

عبداللہ بن عمر کا یہ فتوی اہل سنت کے پیروکاروں اور بزرگوں میں بہت مشہور ہے۔ ابن تیمیہ حرانی اس بارے میں لکھتے ہیں:

«… أبو التیاح عن مورق العجل عنه وهو مشهور فی کتب الآثار، وفی لفظ صلاة السفر رکعتان ومن خالف السنة کفر وبعضهم رفعه إلى النبی صلى الله علیه وسلم، فبین أن صلاة السفر رکعتان وأن ذلک من السنة التی خالفها فاعتقد خلافها فقد کفر…»

ابن تیمیة الحرانی، تقی الدین أبو العباس أحمد بن عبد الحلیم، مجموعة الرسائل والمسائل لابن تیمیة، ج2، ص: 59، لجنة التراث العربی، دو جلدی

"… مورق العقل نے یہ فتویٰ عبداللہ بن عمر سے نقل کیا ہے۔ اور یہ فتویٰ فقہ و حدیث کی کتابوں میں مشہور ہے۔ اور ایک حدیث میں ہے کہ: سفر میں نماز دو رکعت ہے اور یہ سنت ہے اور جو سنت کی مخالفت کرے وہ کافر ہے۔ عبداللہ بن عمر نے سفر میں دو رکعت نماز پڑھنے کی مخالفت کرنے والےکو کافر قرار دیا ہے”۔

جمع بندی: یہ بات بالکل واضح ہے کہ صحابہ کرام اور علماء اسلام نے مذکورہ آیت کی نبوی تفسیر کی بنیاد پر قرآنی آیت کے ظاہور پر اعتراض کیا ہے اور کہا کہ اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

نتیجہ: اگر کسی آیت میں ہمیں آیت کے مفہوم یا اس کی مثالوں کے تعین کے سلسلے میں تبیین نبوی اور تفسیر میں اور وضاحت کا سامنا ہو، صحابہ کرام اور تمام علماء کا اجتہاد کا طریقہ یہ رہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعبیر پر عمل کیا جائے، خواہ ہم یہ سمجھتے ہوں کہ نبی کی تفسیر قرآن کے ظہور کے خلاف ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے: قرآنی آیات کے سنجیدہ مفہوم کو سمجھنے کے لیے نبوی تفسیر سب سے اہم دلیل ہے۔ یہ قرینه متصل قرینه لفظی کی طرح کام کرتی ہے، اس پر غور کیے بغیر آیت کی تفسیر کہیں بھی نہیں پہنچتی، اور آیت کے نیچے دی روایت نبوی پر غور کرنے سے ہی آیت کے حقیقی معنی کو پہچانا جا سکتا ہے۔

یہ بھی واضح رہے کہ پیش کردہ شواہد بالخصوص عبداللہ بن عمر کی نقل کردہ روایات کی بنیاد پر تفسیر اور تبیین خلاف کوئی بھی تاویل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت اور کفر کے مترادف ہے۔ اگر یہ ثابت ہو کہ آیت تطہیر کے نزول کی مثالوں میں اپ کے خاندان کے صرف پانچ افراد شامل ہیں اور ان لوگوں کے علاوہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسروں کو داخل ہونے سے روکا تھا۔ دوسرے لوگوں کو اندر لانا ان کی رائے اورنظریہ کے خلاف ہے۔

اس اہم نکتے پر غور کرتے ہوئے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے آیت تطہیر کی تفسیر سے متعلق روایات پر بحث کریں گے۔

تحقیق کی بنیاد پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کا خارج ہونا اور اس پر دلالت کرنے والی روایات کو چھ قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے کہ صحیح مسلم میں عائشہ کی روایت، زید بن ارقم کی روایت، ام سلمہ کی متعدد روایات، قصہ مباہلہ سے متعلق روایات، آیت تطہیر کے 5 لوگوں پر نازل ہونے پر دلالت کرنے والی روایات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی آل، اہل بیت علیہم السلام پر درود بھیجنے کی روایتیں اسی تسلسل میں ہیں۔ مضمون میں ہم ان روایات کے شواہد اور سند کا ذکر اور تجزیہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

3/2. صحیح مسلم میں عائشه کی روایت

ایک اہم ترین روایت جو ال کساء کے پانچ افراد میں "اہل بیت” کی اجارہ داری پر دلالت کرتی ہے، صحیح مسلم میں عائشہ کی روایت ہے۔ صفیہ عائشہ سے روایت کرتی ہیں:

61 – ( 2424 ) حدثنا أبو بکر بن أبی شیبة ومحمد بن عبدالله بن نمیر ( واللفظ لأبی بکر ) قالا حدثنا محمد بن بشر عن زکریاء عن مصعب بن شیبة عن صفیة بنت شیبة قالت قالت عائشة: خرج النبی صلى الله علیه و سلم غداة وعلیه مرط مرحل من شعر أسود فجاء الحسن بن علی فأدخله ثم جاء الحسین فدخل معه ثم جاءت فاطمة فأدخلها ثم جاء علی فأدخله ثم قال إنما یرید الله لیذهب عنکم الرجس أهل البیت ویطهرکم تطهیرا [ 33 / الأحزاب / 33 ]

عائشہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صبح کے وقت نکلے جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیاہ چادر دوش پررکھے ہوئے تھے۔ پھر حسن آئے تو اسے اندر لے آئے۔ پھر حسین آیا اور اسے بھی چادر کے اندرلے لیے۔ پھر فاطمہ آئی، اسے بھی چادر کے اندرلے لیے۔ پھر علی آیا، اسے بھی چادر کے اندرلے لیے۔ پھر فرمایا: خدا چاہتا ہے کہ تم (پیغمبر کے) خاندان سے آلودگی کو دور کرے اور تمہیں پاک و پاکیزہ بنائے۔

مسلم بن الحجاج أبو الحسین، القشیری النیسابوری، صحیح مسلم، ج 4، ص:1883، ناشر: دار إحیاء التراث العربی، بیروت، تحقیق: محمد فؤاد عبد الباقی، عدد الأجزاء: 5

علامہ شرف الدین مذکورہ روایت کا دلیل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

«و قد أجمعت کلمة أهل القبلة من أهل المذاهب الإسلامیة کلّها على أنّه لمّا نزل الوحی بها علیه‏ضمّ سبطیه وأباهما وامّهما إلیه، ثمّ غشّاهم ونفسه بذلک الکساء؛ تمییزا لهم عن سائر الأبناء و الأنفس و النساء. فلمّا انفردوا تحته عن کافّة اسرته واحتجبوا به عن بقیّة امّته، بلّغهم الآیة وهم على تلک الحال حرصا على أن لایطمع بمشارکتهم فیها أحد من الصحابة و الآل، فقال- مخاطبا لهم وهم معه فی معزل عن کافّة الناس-: «إِنَّما یُرِیدُ اللَّهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیراً» فأزاح بحجبهم فی کسائه حینئذ حجب الریب وهتک سدف‏ الشبهات، فبرح الخفاء بحکمته البالغة، وسطعت أشعّة الظهور ببلاغه المبین، و الحمد للّه ربّ العالمین. ومع ذلک لم یقتصر على هذا المقدار من توضیح اختصاص الآیة بهم علیهم‏السلام، حتّى أخرج یده من تحت الکساء، فألوى بها إلى السماء، فقال: «اللهمّ هؤلاء أهل بیتی‏»

اور اہل قبلہ میں سے تمام مسلمانوں اور تمام اسلامی فرقوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تطھیر کی آیت نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں نواسوں اور ان کے والدین کو لے آئے اور پھر انہیں اپنے ساتھ لے گئے، ایک یمانی چادر میں ڈھانپ لیئے۔ یہ اس لیے کیا گیا تاکہ انھیں دوسری روحوں اور بچوں اور عورتوں سے الگ کیا جا سکے اور یہ ظاہر کیا جا سکے کہ یہ لوگ دوسروں سے الگ ہیں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنے خاندان کے باقی افراد سے الگ کر دیا اور صرف ان کو چادر میں ڈھانپ لیا اور ان کیلئے تطھیر کی آیت نازل ہوئی، جبکہ صرف یہی لوگ کساء میں تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید فرمائی کہ آپ کے صحابہ اور اہل و عیال میں سے کسی کو بھی اس اجتماع میں شرکت کا لالچ نہ ہو۔ آن حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ان لوگوں کو مخاطب کیا جو آپ کے ساتھ تھے اور جو باقی لوگوں سے الگ تھے آیت "انما یرید اللہ لزھب عنکم الراجس…” کے ساتھ اور اس طرح مثالوں کے مسئلہ میں موجود تمام ابہام اور شکوک و شبہات کو دور کر دیا۔ اور اس نے اپنے واضح فیصلے سے تمام شکوک و شبہات کو ختم کر دیا۔ اور ایک نورانی اور روشن بیان کے ساتھ ظھور آیت بالکل واضح ہو گیا۔ و الحمد لله رب العالمین. اور ان تاکیدوں اور اہل بیت علیہم السلام کو کساء سے الگ کرنے کے باوجود ان لوگوں کے لیے آیت اہل بیت کی حصر کے لیے عملی وضاحت کافی نہیں تھا۔ یہاں تک کہ اس نے کساء سے ہاتھ نکال کر آسمان کی طرف اشارہ کیا۔ اور فرمایا: اے اللہ یہ لوگ صرف میرے اہل بیت ہیں۔

شرف الدین، عبد الحسین، موسوعة الإمام السید عبدالحسین شرف الدین، ج‏5(الکلمةالغراء) ؛ ص16 11جلد، دار المؤرخ العربی – بیروت – لبنان، چاپ: 2، 1431 ه.ق.

اس حدیث کے بارے میں درج ذیل نکات کی طرف توجہ ضروری ہے۔

اول: مذکورہ روایت کو اہل سنت نے سند اور صدور کے اعتبار سے قبول کیا ہے کیونکہ یہ روایت صحیح مسلم میں ایا ہے۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایات کی صحیح ہونے پر اہل سنت کا اجماع ہے۔

دوم: آیت تطہیر سے ازواج کے حارج ہونے کے بارے میں علامہ شرف الدین کے استدلال کا بنیادی نکتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل اور موجودہ مشابہت ہے کہ بعض خاص لوگوں پر چادر ڈالنا اور ان حضرت کی دعا کرنا ایت تطھیر کی تفسیر ہے۔ اس تشبیہ کی وضاحت اور اس کا مفہوم بہت واضح ہے۔

مندرجہ بالا شواہد کے علاوہ مذکورہ حدیث میں مذکور لوگوں کے مقام کی طرف توجہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آیت تطھیر ان لوگوں کے لیے بہت خاص ہے جن کے درمیان فضیلت اور عظمت میں ایک قسم کا تناسب پایا جاتا ہے۔ علامہ شرف الدین اس نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

«الفصل الثانی: فی آیة التطهیر و هی قوله- جلّ وعلا- فی سورة الأحزاب: «إِنَّما یُرِیدُ اللَّهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیراً لا ریب فی أنّ أهل البیت الذین أذهب اللّه عنهم الرجس وطهّرهم فی هذه الآیة، إنّما هم الخمسة أصحاب الکساء، وکفاک هذا برهانا على أنّهم أفضل من أقلّته الأرض یومئذ ومن أظلّته السماء. ألا وهم: رسول اللّه صلى الله علیه و آله و سلم، وصنوه الجاری بنصّ الذکر مجرى نفسه، وبضعته التی یغضب اللّه لغضبها ویرضى لرضاها، وریحانتاه من الدنیا سبطاه الشهیدان سیّدا شباب أهل الجنّة، فهؤلاء هم أصحاب هذه الآیة البیّنة بحکم الأدلّة القاطعة و الحجج الساطعة، لم یشارکهم فیها أحد من بنی آدم، ولا زاحمهم تحت کسائها واحد من هذا العالم.»

آیت تطهیر کا دوسرا باب جو سورہ احزاب کی یہ آیت ہے، یہ ہے کہ خدا فرماتا ہے کہ « انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهرکم تطهیرا» اس میں کوئی شک نہیں کہ اہل بیت علیہم السلام جن سے خدا نے تمام غلاظت کو دور کیا اور انہیں پاک کیا، صرف پانچ افراد آل کساء ہیں اور آپ کے لیے یہی ثبوت کافی ہے کہ وہ بہترین لوگ تھے جنہیں زمین نے اٹھایا اور وہ بہترین مخلوق تھے کہ آسمان ان کے اوپر تھا! بے شک یہ لوگ رسول خدا اور ان کے داماد جن کا ذکر قرآن میں سورہ مباہلہ میں ان کی جان ونفس کے طور پر کیا گیا ہے، ان کے جگرکے ٹکڑے جن کے ناراضگی سے خدا ناراض ہوتا ہے اور ان کے رضایت سے راضی ہوتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو خوشبودار پھول اس دنیا میں اور دو شہداء اور جنت کے جوانوں کے سردار۔ یہ پانچوں صحابہ اور اس آیت کا مفہوم پختہ دلائل اور واضح دلائل پر مبنی ہے کہ بنی آدم میں سے کوئی بھی یہ فضیلت نہیں رکھتا اور دنیا میں کوئی بھی ان کو لوگوں سے نیچے نہیں رکھتا اور نہ ہی ان کو کساء سے الگ کرسکتا ہے۔

شرف الدین، عبد الحسین، موسوعة الإمام السید عبدالحسین شرف الدین، ج‏5(الکلمةالغراء) ؛ ص14، 11جلد، دار المؤرخ العربی – بیروت – لبنان، چاپ: 2، 1431 ه.ق.

3/3۔ صحیح مسلم میں زید بن ارقم سے روایت ہے۔

اہل سنت کی رائے میں صحابہ کرام کا فہم – خاص طور پر بزرگان دین اور فقہاء صحابہ جیسے خلفائے راشدین اور زید ابن ارقم جیسی متعدد روایات کے حامل مشہور صحابہ کا فہم دریافت کرنے والا ہو سکتا ہے سنت نبوی اور ان کی تفسیر ان کے مراعات یافتہ مقام اور روایتوں کے اجراء کے عہد سے ان کی قربت کی وجہ سے دوسروں کی تفسیروں پر برتر اور مقدم ہے۔

مندرجہ بالا نکتہ کے مطابق؛ آیت تطهیر کے دائرہ سے ازواج کو خارج کرنے کے لیے نقل کی گئی ایک اور روایت وہ روایات ہیں جن کو زید بن ارقم نے "اہل بیت” کے معنی قرار دیا ہے۔ ان روایات میں سے صحیح مسلم کی دو روایتیں بہت اہم اور نمایاں ہیں۔ پہلی روایت درج ذیل ہے:

«36 – ( 2408 ) حدثنی زهیر بن حرب وشجاع بن مخلد جمیعا عن ابن علیة قال زهیر حدثنا إسماعیل بن إبراهیم حدثنی أبو حیان حدثنی یزید بن حیان قال: انطلقت أنا وحصین بن سبرة وعمر بن مسلم إلى زید بن أرقم فلما جلسنا إلیه قال له حصین لقد لقیت یا زید خیرا کثیرا رأیت رسول الله صلى الله علیه و سلم وسمعت حدیثه وغزوت معه وصلیت خلفه لقد لقیت یا زید خیرا کثیرا حدثنا یا زید ما سمعت من رسول الله صلى الله علیه و سلم قال یا ابن أخی والله لقد کبرت سنی وقدم عهدی ونسیت بعض الذی کنت أعی من رسول الله صلى الله علیه و سلم فما حدثتکم فاقبلوا وما لا فلا تکلفونیه ثم قال قام رسول الله صلى الله علیه و سلم یوما فینا خطیبا بماء یدعى خما بین مکة والمدینة فحمد الله وأثنى علیه ووعظ وذکر ثم قال أما بعد ألا أیها الناس فإنما أنا بشر یوشک أن یأتی رسول ربی فأجیب وأنا تارک فیکم ثقلین أولهما کتاب الله فیه الهدى والنور فخذوا بکتاب الله واستمسکوا به فحث على کتاب الله ورغب فیه ثم قال وأهل بیتی أذکرکم الله فی أهل بیتی أذکرکم الله فی أهل بیتی أذکرکم الله فی أهل بیتی فقال له حصین ومن أهل بیته؟ یا زید ألیس نساؤه من أهل بیته؟ قال نساؤه من أهل بیته ولکن أهل بیته من حرم الصدقة بعده قال وهم؟ قال هم آل علی وآل عقیل وآل جعفر وآل عباس قال کل هؤلاء حرم الصدقة؟ قال نعم»

ابوحیان یزید بن حیان سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: میں اور حصین بن سبرہ، عمر بن مسلم، زید بن ارقم کے پاس گئے، جب ہم ان کے پاس بیٹھے تو حصین نے ان سے کہا: اے زید تم نے بہت خوبیاں دیکھی ہیں! آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث سنی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ جنگ کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی۔ اے زید ہمیں ان الفاظ کے بارے میں بتاؤ جو تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہیں!

زید نے کہا: اے میرے بھائی کے بیٹے، میری عمرہوچکی ہے اور میں نے جو واقعات اور نذریں مانیں تھیں ان سے بہت دور نکل گیا ہے اور میں ان میں سے بعض کو بھول گیا اور بعض اب بھی یاد ہے جو میں نے ان حضرت سے سنا اور یاد رکھا۔ جو کچھ ہم نے آپ سے کہا ہے اسے قبول کریں اور مجھے ہر وہ بات کہنے پر مجبور نہ کریں جو ہم نے نہیں کہا۔ زید نے آگے کہا: ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ پر اور آپ کے اہل و عیال کو مکہ اور مدینہ کے درمیان خم نامی چشمے کے کنارے ایک خطبہ دیا اور اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا۔ : بے شک میرے پاس تمہارے درمیان دو قیمتی چیزیں ہیں پہلی اللہ کی کتاب ہے۔

اس کتاب میں ہدایت اور نور ہے۔ خدا کی کتاب لے لو اور اس پر قائم رہو۔ ان حضرت نے خدا کی کتاب کی بہت تشویق اور ترغیب کی۔ پھر میں نے کہا: دوسرا میرے اہل بیت ثقلین ہیں۔ میں آپ کو اپنے اہل و عیال پر خدا سے سفارش کرتا ہوں۔ میں آپ کو اپنے اہل و عیال پر خدا سے سفارش کرتا ہوں۔ میں آپ کو اپنے اہل و عیال پر خدا سے سفارش کرتا ہوں۔ حصین نے زید سے پوچھا: اے زید ان کے اہل بیت کون لوگ ہیں؟ کیا ان کی عورتیں اس کے اہل بیت ہیں؟ زید نے کہا: ان کی ازواج اہل بیت میں سے ہیں [اہل بیت کا مطلب ایک چھت کے نیچے گھر کے اندر ہے]، لیکن اہل بیت [قرآن کے ساتھ ثقلین میں سے ایک کے طور پر تجویز کردہ] وہ ہیں جن کے لیے صدقہ حرام ہے. حصین نے کہا: وہ کون ہیں؟ زید نے کہا: آل علی علیه السلام، آل عقیل، آل جعفر و آل عباس. حصین نے کہا: کیا ان سب کے اوپر صدقہ حرام ہے؟ زید نے کہا: ہاں، حرام ہے۔

مسلم بن الحجاج أبو الحسین، القشیری النیسابوری، صحیح مسلم، ج 4، ص:1873، ناشر: دار إحیاء التراث العربی، بیروت، تحقیق: محمد فؤاد عبد الباقی، عدد الأجزاء: 5

دلیل کا تخمینہ: مندرجہ بالا روایت کی درستگی سے معلوم ہوتا ہے کہ زید بن ارقم کی رائے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج "اہل بیت” کے جس تصور پر ہم بحث کر رہے ہیں، اس میں شامل نہیں ہیں۔ کیونکہ زید نے حصین کی وضاحت کی درخواست کے جواب میں کہا:

«… فقال له حصین ومن أهل بیته؟ یا زید ألیس نساؤه من أهل بیته؟ قال نساؤه من أهل بیته ولکن أهل بیته من حرم الصدقة بعده»

یہ عبارت ظاہر کرتا ہے کہ زید ابن ارقم کے نزدیک "اہل بیت” کی دو بالکل مختلف مثالیں ہیں۔

پہلی مثال اہل بیت کی ہے، جس میں ایک ہی گھر میں موجود اور ایک ہی چھت کے نیچے رہنے والے تمام افراد شامل ہیں، جن میں میاں بیوی اور کوئی دوسری مخلوق، حتیٰ کہ گھریلو بلیاں بھی شامل ہیں۔ تاہم دوسری مثال جو کہ قرآن کی مصداق میں "اہل بیت” ہے، اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کو شامل نہیں کیا گیا، کیونکہ اس لقب میں خاص لوگ شامل ہیں کہ جن کے اوپر صدقہ حرام ہے۔

دوسرے لفظوں میں زید بن ارقم کی رائے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کسی بھی طرح سے حدیث ثقلین میں مذکور "اہل بیت” میں شامل نہیں ہیں، درحالانکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے افراد ہیں۔ اس نکتے کی طرف توجہ دینا ضروری ہے کہ زید کی تفسیر اور اہل بیت کی تفسیر سے ازواج متفرع کا اخراج قرآن کے متوازی حدیث ثقلین میں ہے۔

حدیث ثقلین بھی اہل بیت علیہم السلام کی عصمت اور قیامت تک ان کے قرآن سے علیحدگی نہ ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ مذکورہ دونوں وزنوں کے درمیان اس مماثلت کی طرف توجہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ صرف ۵ ال کساء کے لوگوں کے ساتھ فٹ بیٹھتا ہے، ان کے علاوہ کسی نے بھی مطلق عصمت کا دعویٰ نہیں کیا۔ دوسری روایت "اہل بیت” کے لقب سے ازواج کی جدائی میں زیادہ واضح معنی رکھتی ہے۔ کیونکہ زید ہمارے مسئلہ سے متعلق سوال کے جواب میں واضح طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کو اہل بیت کے عنوان سے نہیں مانتے:

37 – ( 2408 ) حدثنا محمد بن بکار بن الریان حدثنا حسان ( یعنی ابن إبراهیم ) عن سعید ( وهو ابن مسروق ) عن یزید بن حیان عن زید بن أرقم قال: دخلنا علیه فقلنا له قد رأیت خیرا لقد صاحبت رسول الله صلى الله علیه و سلم وصلیت خلفه وساق الحدیث بنحو حدیث أبی حیان غیر أنه قال ألا وإنی تارک فیکم ثقلین أحدهما کتاب الله عز و جل هو حبل الله من اتبعه کان على الهدى ومن ترکه کان على ضلالة وفیه فقلنا من أهل بیته ؟ نساؤه ؟ قال لا وایم الله إن المرأة تکون مع الرجل العصر من الدهر ثم یطلقها فترجع إلى أبیها وقومها أهل بیته أصله وعصبته الذین حرموا الصدقة بعده

یزید بن حیان زید بن ارقم سے روایت کرتے ہیں کہ ہم زید کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ اے زید تم نے خیر اور بھلائی دیکھی ہے! آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور آپ نے آپ کے پیچھے نماز پڑھی، حدیث ابو حیان کی حدیث جیسی ہے، سوائے اس کے کہ جاری ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آگاہ رہو کہ میں تمہارے درمیان دو قیمتی چیزیں رکھ رہا ہوں: ان میں سے ایک اللہ کی کتاب ہے جو آسمانی دھاگہ ہے کہ جو اس کی پیروی کرے گا وہ ہدایت یافتہ ہے اور جو اسے چھوڑ دے گا وہ گمراہ ہو جائے گا۔ اور اس روایت میں ہے کہ: ہم نے زید سے کہا: وہ کون لوگ ہیں؟ کیا ان کی بیویاں اہلبیت میں سے ہیں؟ زید نے کہا: خدا کی قسم، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج آپ کے اہلبیت میں سے نہیں ہیں! درحقیقت ایک عورت اپنی زندگی کی صرف ایک شام کسی مرد کے ساتھ رہ سکتی ہے اور پھر اسے طلاق دے دیتی ہے اور وہ عورت اپنے باپ اور اپنے لوگوں کے پاس لوٹ جاتی ہے۔ ان کے اہل بیت وہ رشتہ دار ہیں جن کے لیے صدقہ حرام ہے۔

مسلم بن الحجاج أبو الحسین، القشیری النیسابوری، صحیح مسلم، ج 4، ص:1873، ناشر: دار إحیاء التراث العربی، بیروت، تحقیق: محمد فؤاد عبد الباقی، عدد الأجزاء: 5

آیت تطهیر کے دائرہ سے ازواج کے اخراج کے بارے میں مزید واضح طور پر سمجھنے کے لیے درج ذیل نکات پر توجہ دینا ضروری ہے:

پہلا نکتہ: سنی فکر بالخصوص وہابیت اور سلفیت کے بنیادی اصولوں پر مبنی قرآنی آیات کے اصحاب کا فہم دوسروں کے فہم سے افضل اور بہتر ہے کیونکہ قاعده عدالت صحابه کے علاوہ وہ ہم عصر تھے اور قرآنی آیات کے دلائل تک رسائی رکھتے ہیں۔ اس لیے زید بن ارقم نے "اہل بیت” کی مثالوں کی جو تشریح پیش کی ہے وہ بہت مددگار ثابت ہوگی۔

دوسرا نکتہ: صحیح مسلم میں زیر بحث روایت نے واضح طور پر اور بغیر کسی ابہام کے ازواج کو اہل بیت سے خارج کر دیا ہے۔ روایت میں ہے کہ "…فقلنا من أهل بیته ؟ نساؤه ؟ قل لا ویم اللہ…” راوی نے اہل بیت میں ازواج کو شامل کرنے کے بارے میں سوال کیا ہے جس کا زید بن ارقم نے واضح طور پر اس سے انکار کیا ہے۔ اپنی بات پر زور دینے کے لیے اس نے یہ قسم بھی کھائی ہے کہ یہ اہل بیت سے ازواج کو واپس لینے پر زور ہے۔

تیسرا نکتہ: اوپر کی حدیث میں”اہل بیت” ذکر، ثقلین کی حدیث میں اہل بیت قرین قرآن ہیں۔ دوسرے الفاظ میں، زید بن ارقم نے اہل بیت میں ازواج کے داخلے کو قرآن کے مطابق رد کیا ہے جس میں اطاعت و فرمانبرداری کی ضرورت ہے۔ زید نے اہل بیت میں بیویوں کے داخلے سے انکار کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ لوگ جو ایک ہی گھر میں رہتے ہیں۔

چوتھا نکتہ: زید ابن ارقم نے احادیث میں زیر بحث اہل بیت سے ازواج کی رخصتی کی ایک وضاحت بیان کی ہے جو توجہ طلب ہے۔ اس تعلیل کے مطابق جو بیان ہوا ہے ایک شخص کیلیے "اہل بیت” کا عنوان، اس میں وہ لوگ شامل ہیں جو اسی خاندان کے فرد ہیں۔ اس میں وہ لوگ شامل نہیں ہیں جن کا کسی شخص سے بہت کم تعلق ہے اور کسی بھی وقت یہ رشتہ طلاق وغیرہ جیسے عوامل کی وجہ سے ختم ہو سکتا ہے۔

دوسرے لفظوں میں یہ تجزیہ کیا جا سکتا ہے کہ زید ابن ارقم کی رائے میں "اہل بیت” کی تعریف میں ہمیں نفی کرنے والا فعل اور ایک اثبات والا فعل شامل کرنا چاہیے۔ یہ دونوں چیزیں ایک مشترکہ عنوان اور سچائی کا حوالہ دیتی ہیں۔ وہ فعل جو عنوان "اہل بیت” کی نفی کرتا ہے، ازواج کا اہلبیت کے عنوان سے خارج ہونا ثقلین کی حدیث میں تصریح ہے۔ اور جو فعل ثابت ہوتا ہے اس سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ دار ہیں جو اہل بیت میں شامل ہیں۔

3/4. ام سلمه سے متعدد روایاتیں

آیت تطهیر میں ازواج کا "اہل بیت” سے خارج ہونا ایک اہم ترین دلیل جو ام سلمہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔ یہ روایت نو طریقوں سے درج کی گئی ہے، اس لیے اس میں کسی سند کی جانچ پڑتال کی ضرورت نہیں ہے، اس کے علاوہ اس کے بعض طریقے سنی علماء کے نزدیک سند کے اعتبار سے صحیح اور مستند ہیں۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس حصے کی تمام روایات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے موجودہ طرز عمل کا موازنہ کیا جا سکتا ہے کہ خاص لوگوں پر چادر اڑھا کر نبی کا دعا کرنا آیت تطھیر کی تفسیر کے موقف میں – وہی جو عائشہ کے ذریعے ہوا – انہوں نے تطھیر کی آیت کے معنی سے ازواج کے خارج ہونے کی دلیل دی ہے۔

اس کے علاوہ درج ذیل روایات میں اور بھی احادیث ہیں، جن سے آیت تطہیر سے ازواج کے خارج ہونے پر اعتراض کیا جا سکتا ہے، جن کا ہم ذیل میں حوالہ دیں گے۔

  1. ام سلمہ سے عمر بن ابی سلمہ کی روایت

ام سلمہ کے طریق کی روایتوں میں سے ایک روایت عمر بن ابی سلمہ کی روایت ہے۔ یہ روایت صحیح اور صحیح سند کے ساتھ سنن ترمذی میں موجود ہے:

3205 – حدثنا قتیبة حدثنا محمد بن سلیمان بن الأصبهانی عن یحیى بن عبید عن عطاء بن أبی رباح عن عمر بن أبی سلمة ربیب النبی صلى الله علیه و سلم قال: لما نزلت هذه الآیة على النبی صلى الله علیه و سلم { إنما یرید الله لیذهب عنکم الرجس أهل البیت ویطهرکم تطهیرا } فی بیت أم سلمة فدعا فاطمة و حسنا و حسینا فجللهم بکساء و علی خلف ظهره فجللهم بکساء ثم قال اللهم هؤلاء أهل بیتی فأذهب عنهم الرجس وطهرهم تطهیرا قالت أم سلمة وأنا معهم یا نبی الله؟ قال أنت على مکانک وأنت على خیر. قال هذا حدیث غریب من حدیث عطاء عن عمر بن أبی سلمة. قال الشیخ الألبانی: صحیح

"عمر بن ابی سلمہ، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ ام سلمہ کے بیٹے ہیں، ان حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر آیت تطھیر ام سلمہ کے گھر میں نازل ہوئی تو فرمایا: "اللہ صرف یہ چاہتا ہے کہ آپ [پیغمبر کے] خاندان سے آلودگی کو دور کرے اور آپ کو پاک و پاکیزہ بنائے (احزاب/33)؛ آپ نے حضرت فاطمہ، حسن اور حسین علیہما السلام کو بلایا اور انہیں اپنے کپڑے سے ڈھانپ لیا جبکہ علی علیہ السلام آپ کے پیچھے تھے۔ اور اُن کو بھی چادر میں ڈھانپ لیا۔ پھر فرمایا: اے اللہ یہ میرے اہل بیت ہیں، ان سے تمام گندگی اور نجاست دور فرما اور انہیں پاک و پاکیزہ بنا دے۔ ام سلمہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا میں ان کے ساتھ ہوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنی جگہ پر ہو اور تم اچھے اور [عاقبت بخیر اور خوشبختی] پر رہو گے۔

ترمذی السلمی، محمد بن عیسی، الجامع الصحیح سنن الترمذی، ج 5، ص: 351، دار إحیاء التراث العربی – بیروت، تحقیق: أحمد محمد شاکر وآخرون، عدد الأجزاء: 5

مندرجہ بالا روایت کو طبرانی نے مجمع الکبیر میں بھی بیان کیا ہے:

8295 – حدثنا عبد الله بن أحمد بن حنبل ثنا محمد بن أبان الواسطی ( ح ) وحدثنا أحمد بن النضر العسکری ثنا أحمد بن النعمان الفراء المصیصی قالا ثنا محمد بن سلیمان بن الأصبهانی عن یحیى بن عبید المکی عن عطاء بن أبی رباح عن عمر بن أبی سلمة قال: نزلت هذه الآیة على رسول الله صلى الله علیه و سلم وهو فی بیت أم سلمة { إنما یرید الله لیذهب عنکم الرجس أهل البیت ویطهرکم تطهیرا } فدعا الحسن و الحسین و فاطمة فأجلسهم بین یدیه ودعا علیا فأجلسه خلف ظهره وتجلل هو وهم بالکساء ثم قال: اللهم هؤلاء أهل بیتی فأذهب عنهم الرجس وطهرهم تطهیرا فقال أم سلمة: وأنا معهم یا رسول الله؟ فقال: وأنت مکانک وأنت على خیر

عمر بن ابی سلمہ بیان کرتے ہیں کہ یہ آیت ہے: "اللہ صرف یہ چاہتا ہے کہ آپ (پیغمبر کے) خاندان سے آلودگی کو دور کرے اور آپ کو پاک و پاکیزہ بنائے” (الاحزاب: 33) یہ اس وقت نازل ہوئی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام سلمہ کے گھر میں تھے۔ اور امام حسن، حسین اور فاطمہ علیہم السلام کو بلایا اور انہیں اپنے سامنے کھڑا کیا اور علی علیہ السلام کو بلایا اور انہیں اپنے پیچھے بٹھایا اور چادر سے ڈھانپ دیا۔ اور فرمایا: خدا کی قسم یہ صرف میرے اہل بیت ہیں، ان سے رجس اور پلیدی کو دور کر کے انہیں پاک و پاکیزہ بنا دے۔ اس وقت ام سلمہ نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، کیا میں بھی ان کے ساتھ ہوں؟حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنے مقام پر ہو اور تم خیر پر ہو اورعاقبت اچھا ہے۔

طبرانی، سلیمان بن احمد، المعجم الکبیر، ج 9، ص: 25، مکتبة العلوم والحکم – الموصل، الطبعة الثانیة، 1404 – 1983، تحقیق: حمدی بن عبدالمجید السلفی، عدد الأجزاء:

تطہیر والی آیت سے ازواج کے خارج ہونے کے بارے میں مذکورہ بالا دونوں روایتوں کا اندازہ لگانے کے لیے یہ کہنا چاہیے:

ایک طرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ام سلمہ کی درخواست کو قبول کرنے سے انکارکرنا مبنی ہے "اہل بیت” میں اور ال عباء میں ان کے شامل نہ ہونے کی، دوسری طرف اصل مقام کو سامنے لانا اور ان کی اچھی زندگی کے اختتام کی طرف اشارہ کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ ام سلمہ "اہل بیت” کے عنوان میں نہیں ہیں جن پر ہم بحث کر رہے ہیں۔ ورنہ اگر ام سلمہ اہل بیت کے احکام کے اندر ہوتیں، تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی بیوی کو مثبت جواب دینا چاہیے تھا اور اسے بھی کساء میں موجود لوگوں میں شامل کرنا چاہیے تھا۔ اور اس کے علاوہ، اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی اور مقام کی طرف اشارہ کیا ہے – جس کا مطلب دوسری روایات کے مطابق بیوی کا مقام ہے – اس کے علاوہ جس کی ام سلمہ کو تلاش تھی۔

  1. ام سلمہ سے ابو سعید الخدری کی روایت

دوسری روایت ابو سعید خدری نے ام سلمہ سے روایت کی ہے۔ ابو سعید خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشہور اصحاب میں سے ہیں۔ وہ زیر بحث کہانی کو یوں بیان کرتا ہے:

6888 – حدثنا محمد بن إسماعیل بن أبی سمینة حدثنا عبد الله بن داود عن فضیل عن عطیة عن أبی سعید عن أم سلمة: أن النبی – صلى الله علیه و سلم – غطى على علی و فاطمة و حسن و حسین کساء ثم قال: هؤلاء أهل بیتی إلیک لا إلى النار قالت أم سلمة: فقلت: یا رسول الله وأنا منهم؟ قال: لا وأنت على خیر.

ابو سعید ام سلمہ سے روایت کرتے ہیں: بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادرکو حضرت علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیہم السلام پر ڈال دیں اور کہا: اے اللہ، یہ میرے اہلبیت ہیں، میں نے انہیں تیرے پاس چھوڑا، اتش جہنم نہیں! ام سلمہ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا:کیا میں ان لوگوں میں سے ایک ہوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ نہیں! اور آپ آخر میں ٹھیک ہو جائیں گے!

ابویعلی موصلی، احمد بن علی، مسند أبی یعلى، ج 12، ص: 313، دار المأمون للتراث – دمشق، الطبعة الأولى، 1404 – 1984، تحقیق: حسین سلیم أسد، عدد الأجزاء: 13

ازواج کا خارج ہونا مذکورہ بالا روایت کے مضمرات کا اندازہ بالکل واضح ہے۔ کیونکہ اس روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صریح طور پر ام سلمہ کی طرف سے آل عبا میں انے کی درخواست کی مخالفت کی ہے۔ طحاوی نےمشکل الآثارمیں مذکورہ بالا روایت کو تھوڑے فرق کے ساتھ بیان کیا ہے:

«حدثنا فَهْدٌ حدثنا أبو غَسَّانَ حدثنا فُضَیْلُ بن مَرْزُوقٍ عن عَطِیَّةَ عن أبی سَعِیدٍ عن أُمِّ سَلَمَةَ قالت نَزَلَتْ هذه الآیَةُ فی بَیْتِی إنَّمَا یُرِیدُ اللَّهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیرًا فَقُلْت یا رَسُولَ اللهِ أَلَسْتُ من أَهْلِ الْبَیْتِ فقال أَنْتِ على خَیْرٍ إنَّکِ من أَزْوَاجِ النبی صلى الله علیه وسلم وفی الْبَیْتِ عَلِیٌّ وَفَاطِمَةُ وَالْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ»

ابو سعید خدری ام سلمہ سے روایت کرتے ہیں کہ یہ آیت ’’انما یرید اللہ…‘‘ میرے گھر میں نازل ہوئی۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: کیا میں اہل بیت میں سے نہیں ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا: تم خیر پر ہو! تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں سے ہو، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں سے ایک! یہ اس وقت کی بات ہے جب علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیہما السلام (البیت) میں تھے۔

طحاوی، ابوجعفر، احمد بن محمد، شرح مشکل الآثار،ج2، ص: 241، سنة الولادة 239هـ/ سنة الوفاة 321هـ، تحقیق شعیب الأرنؤوط، الناشر مؤسسة الرسالة، سنة النشر 1408هـ – 1987م، مکان النشر لبنان/ بیروت، عدد الأجزاء 15

"اہل بیت” سے ازواج کے خارج ہونے کے سلسلے پر مذکورہ بالا روایت کی دلیل واضح ہے۔

اس لیے کہ ام سلمہ کی مقام زوجیت کا ذکر کرنا اور ان کے لیے تطھیر کی آیت میں "اہل بیت” کی حیثیت کے ثبوت کو رد کرنا اس بات کی علامت ہے کہ زیر بحث موضوع میں ام سلمہ کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ کیونکہ ایک بے ربط مقام کو ثابت کرنا ام سلمہ کے سوال اور درخواست کے ساتھ، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی درخواست پر اتفاق نہیں کیا گیا تھا۔

اس کے علاوہ، یہ بھی واضح رہے کہ یہ دونوں روایتیں ایک دوسرے کے معانی کی تصدیق کرتی ہیں۔ ابو یعلی کی مسند سے پہلی روایت آیت تطھیرمیں اہل بیت سے ازواج کو خارج کرنے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح جواب اور نص کے ساتھ دوسری حدیث کا مفہوم ظاہر ہوتا ہے۔

  1. ام سلمہ سے شہر بن حوشب کی روایت

تیسری سند ام سلمہ کی ہے جسے شہر بن حوشب نے روایت کیا ہے۔ احمد بن حنبل نے اس روایت کو اپنی مسند اور اپنے فضائل الصحابه میں نقل کیا ہے جو مسند کتاب کے علماء جیسے شعیب ارناؤط وغیرہ کے نزدیک زیر بحث روایت صدور کے لحاظ سے صحیح اور معتبر ہے۔ مسند میں یہ روایت درج ذیل ہے:

« 26789 – حدثنا عبد الله حدثنی أبى ثنا عفان ثنا حماد بن سلمة قال ثنا على بن زید عن شهر بن حوشب عن أم سلمة ان رسول الله صلى الله علیه و سلم قال لفاطمة: ائتینی بزوجک وابنیک فجاءت بهم فألقى علیهم کساء فدکیا قال ثم وضع یده علیهم ثم قال اللهم ان هؤلاء آل محمد فاجعل صلواتک وبرکاتک على محمد وعلى آل محمد انک حمید مجید قالت أم سلمة فرفعت الکساء لأدخل معهم فجذبه من یدی وقال انک على خیر. تعلیق شعیب الأرنؤوط: حدیث صحیح وهذا إسناد ضعیف لضعف علی بن زید وهو ابن جدعان وشهر بن حوشب»

شہر بن حوشب ام سلمہ سے روایت کرتے ہیں: بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ سے فرمایا: اپنی شوہر اور دو بچوں کو میرے پاس لے آؤ! حضرت فاطمہ ان کے ساتھ تشریف لائی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر اپنا چادر فدکی کو اڑھا دیا۔ اور پھر ان پر ہاتھ رکھ کر فرمایا: خدا، یہ آل محمد ہیں، ان سب پر خدا کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں، محمد اور آل محمد پر درود و سلام بھیج، بے شک تو رحم کرنے والا اور مجید ہے۔ ام سلمہ نے کہا: میں نے فدکی چادرکے اندر جانے کے لیے اٹھایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ہاتھ سے چادر کھیچ لیا اور فرمایا: بے شک تمہاری قسمت میں بھلائی ہے۔

الشیبانی، احمد بن حنبل، مسند الإمام أحمد بن حنبل، ج 6، ص: 323، مؤسسة قرطبة – القاهرة، بی تا 6 جلد

فضائل الصحابه میں زیر بحث روایت شہر بن حوشب سے درج ذیل سند سے نقل ہوئی ہے:

« 1029 – حدثنا عبد الله قال حدثنی أبی قثنا عفان نا حماد بن سلمة قال انا علی بن زید عن شهر بن حوشب عن أم سلمة ان رسول الله صلى الله علیه و سلم قال لفاطمة: ائتینی بزوجک وابنیک فجاءت بهم فألقى علیهم کساء فدکیا قالت ثم وضع یده علیه ثم قال اللهم ان هؤلاء آل محمد فاجعل صلواتک وبرکاتک على محمد وعلى آل محمد انک حمید مجید قالت أم سلمة فرفعت الکساء لأدخل معهم فجذبه من یدی وقال انک على خیر»

"… شہر بن حوشب ام سلمہ سے روایت کرتے ہیں: بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ سے فرمایا: اپنی شوہر اور دو بچوں کو میرے پاس لے آؤ! حضرت فاطمہ ان لوگوں کے ساتھ آئیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر طادر اڑھایا پھر ان پر ہاتھ رکھا اور فرمایا: خدا، یہ آل محمد ہیں، ان سب پر خدا کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں، محمد اور آل محمد پر درود و سلام بھیج، بے شک تو رحم کرنے والا اور مجید ہے۔ ام سلمہ نے کہا: میں نے اس میں داخل ہونے کے لیے چادر فدکی کو اٹھایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ہاتھ کو چادر سے کھیچ لیا اور فرمایا: بے شک، آپ خیر پر ہیں”

أحمد بن حنبل أبو عبد الله الشیبانی، فضائل الصحابة، ج 2، ص: 602، مؤسسة الرسالة – بیروت، الطبعة الأولى، 1403 – 1983، تحقیق: د. وصی الله محمد عباس، عدد الأجزاء: 2

ابوجعفر طحاوی نے اس روایت کو اس طرح روایت کیا ہے:

649 – وما قد حدثنا الحسین، أیضا حدثنا أبو غسان مالک بن إسماعیل حدثنا جعفر الأحمر، عن الأجلح، عن شهر بن حوشب، عن أم سلمة، وعبد الملک، عن عطاء، عن أم سلمة قالت: جاءت فاطمة بطعام لها إلى أبیها، وهو على منازله فقال: «أی بنیة، ائتینی بأولادی وابنی وابن عمک » قالت: ثم جللهم أو قالت: حوى علیهم الکساء، فقال: «هؤلاء أهل بیتی وحامتی فأذهب عنهم الرجس وطهرهم تطهیرا » قالت أم سلمة: یا رسول الله، وأنا معهم قال: «أنت من أزواج النبی علیه السلام وأنت على خیر »، أو «إلى خیر »

شہر بن حوشب اور عطا ام سلمہ سے روایت کرتے ہیں: حضرت فاطمہ زہرا اپنے والد گرامی کے پاس کھانا لے کر آئیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں میں سے ایک بیوی کے گھر تشریف فرما تھے۔ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ سے فرمایا: اے میری پیاری بیٹی! میرے بچوں اور میرے بیٹوں اور اپنے چچا زاد کو میرے پاس لاؤ! راوی کہتے ہیں: پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں چادر میں ڈھانپ لیا۔ یا کہتا ہے: چادر کو ان لوگوں کے او پر پھینک دیا اور پھر کہا: اے اللہ یہ میرے اہل بیت اور میرے نہایت مہربان رشتہ دار ہیں، ان سے رجس اور پلیدی کو دور فرما اور ان کو پاک فرما۔ ام سلمہ نے کہا: کیا میں ان میں سے ہوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازدواج میں سے ہو، اور تمھارا عاقبت بخیر ہے.

طحاوی، ابوجعفر احمد بن محمد، مشکل الاثار، ج 2، ص: 239، تحقیق: شعیب الأرنؤوط، مؤسسة الرسالة، چاپ اول، 1415 هـ، 16 جلد

واضح رہے کہ طحاوی کا اپنی کتاب "مشکل الاثار” میں احادیث اخذ کرنے کا طریقہ ایسا تھا کہ اس نے منقول اور صحیح احادیث کو ذکر کرنے کا عھد کیا ہے۔ شریف العونی نے اس کتاب کا تذکرہ زیر بحث کتب میں کیا ہے:

«إن من الکتب التی اشترطت الصحة کتاب … 3- الکتاب الآخر : بیان مشکل أحادیث رسول الله – صلى الله علیه وسلم – واستخراج ما فیها من الأحکام ونفی التضاد عنها وهو الکتاب الشهیر بـ «شرح مشکل الآثار» لأبی جعفر الطحاوی»

"یہ ان کتابوں سے ہے جو انہوں نے صحیح روایات کو ذکر کرنے کی شرط رکھی ہے، درج ذیل کتابیں ہیں… دوسری کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے بیان اور احکام کے اخراج اور ان کے درمیان تضادات کی نفی پر مشتمل کتاب ہے۔ اور اس موضوع پر مشہور کتاب ابو جعفر طحاوی کی کتاب شرح مشکل الآثار ہے۔

العونی، شریف بن حاتم، مصادر السنة ومناهج مصنفیها، ج1، ص: 4

شہر بن حوشب کی روایت کو طبرانی نے بھی معجم الکبیر میں ذکر کیا ہے:

« 779 – حدثنا علی بن عبد العزیز ثنا حجاج ثنا حماد عن علی بن زید عن شهر بن حوشب عن أم سلمة: أن رسول الله صلى الله علیه و سلم قال لفاطمة: (ائتینی بزوجک وابنیه) فجاءت بهم فألقى رسول الله صلى الله علیه و سلم کساء فدکیا ثم وضع یده علیهم فقال: (اللهم إن هؤلاء آل محمد فاجعل صلواتک وبرکاتک على آل محمد فإنک حمید مجید) قالت أم سلمة فرفعت الکساء لأدخل معهم فجبذه من یدی وقال: (إنک على خیر)»

شہر بن حوشب ام سلمہ سے روایت کرتے ہیں: بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ سے فرمایا: اپنے شوہر اور دو بچوں کو میرے پاس لے آؤ! حضرت فاطمہ زہرا ان لوگوں کے ساتھ آئیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر چادر اڑھایا، پھر ان پر ہاتھ رکھا اور فرمایا: خدا، یہ آل محمد ہیں، ان سب پر خدا کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں، محمد اور آل محمد پر درود و سلام بھیج، بے شک تو رحم کرنے والا اور مجید ہے۔ ام سلمہ نے کہا: میں نے فدکی چادر کے اندر جانے کے لیے اٹھایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ہاتھ سے چادر کھیچ لیا اور فرمایا: بے شک، آپ بخیر ہیں!

طبرانی، سلیمان بن احمد، المعجم الکبیر، ج 23، ص: 336، مکتبة العلوم والحکم – الموصل، الطبعة الثانیة، 1404 – 1983، تحقیق: حمدی بن عبدالمجید السلفی، عدد الأجزاء: 20

ابو یعلی موصلی نے بھی اس روایت کو اپنی مسند میں ذکر کیا ہے لیکن کتاب کے بعض محققین نے اس کی سند کو ضعیف قرار دیا ہے۔ لیکن دیگر طریقوں اور سابقہ ​​سندوں میں بیان کیا گیا مسائل کے مطابق یہ بات واضح ہے کہ یہ روایت صدوری کے لحاظ سے کویی نہیں ہے:

7026 – حدثنا أبو خیثمة حدثنا عفان حدثنا حماد بن سلمة أخبرنا علی بن زید عن شهر بن حوشب عن أم سلمة: أن رسول الله – صلى الله علیه و سلم – قال لفاطمة: ائتنی بزوجک وبابنتیک قالت: فجاءت بهم فألقى علیهم کساء فدکیا ثم وضع یده علیهم فقال: اللهم إن هؤلاء آل محمد فاجعل صلواتک وبرکاتک على محمد وعلى آل محمد إنک حمید مجید قالت أم سلمة: فرفعت الکساء لأدخل فیه فجذبه من یدی وقال: إنک على خیر.

شہر بن حوشب ام سلمہ سے روایت کرتے ہیں: بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ سے فرمایا: اپنے شوہر اور دو بچوں کو میرے پاس لے آؤ! حضرت فاطمہ زہرا ان لوگوں کے ساتھ آئیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر چادر اڑھایا، پھر ان پر ہاتھ رکھا اور فرمایا: خدا، یہ آل محمد ہیں، ان سب پر خدا کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں، محمد اور آل محمد پر درود و سلام بھیج، بے شک تو رحم کرنے والا اور مجید ہے۔ ام سلمہ نے کہا: میں نےفدکی چادر کے اندر جانے کے لیے اٹھایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ہاتھ سے چادر کھیچ لیا اور فرمایا: بے شک، آپ خیر پر ہیں!

ابویعلی موصلی، احمد بن علی، مسند أبی یعلى، ج 12، ص: 455، دار المأمون للتراث – دمشق، الطبعة الأولى، 1404 – 1984، تحقیق: حسین سلیم أسد، عدد الأجزاء: 13

آیت تطھیر کی مفاد سے ازواج کو اخراج کرنے کی دلیل:

پہلا تقریب: مندرجہ بالا روایتوں کے مفاد کے مطابق، ام سلمہ نے « …فرفعت الکساء لأدخل فیه فجذبه من یدی وقال: إنک على خیر» حریم اہل بیت میں داخل ہونے کے لیے فدکی چادر کو اٹھایا۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ہاتھ سے چادر کھینچ کر اس حصہ کو کاٹ دیا اور اس طرز عمل سے آپ نے ام سلمہ کو آل عبا میں داخل ہونے سے روک دیا۔ "جذب” کے معنی پر پوری توجہ دینے سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل کساء کی حدود و قیود کے تعین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنجیدگی کس قدر تھی۔ اور باوجود اس کے کہ ام سلمہ ان حضرت کے نزدیک بہت زیادہ محبوب تھیں اور یہاں تک کہ تصریح کی کہ ان کےعاقبت با خیر ہوگا۔ لیکن کسی مسامحه کے بغیر رسول خدا(صلی) نے اس کے ہاتھ سے چادر کاٹ کر کھینچ لی تاکہ وہ اہل بیت اطہار کے خاص حریم میں داخل نہ ہو۔ صاحب اطراز جبذ یا جذب کی تفسیر میں یوں لکھتے ہیں:

«و الجَبَذُ، کقَصَبٍ: لغةٌ فی الجَذَبِ أَو مقلوبُهُ؛ … و جَبَذَ النَّخلةَ: جَذَبَها، أَی قطع جَذَبَها»

جبذ اور جذب یہ دولفظ لغت میں ایک دوسرے کے ساتھ استعمال ہوتے ہیں، کھجور کے درخت کو قطع کرنا اور اسے کاٹنے کے معنی میں ہے۔

مدنى، على خان بن احمد، الطراز الأول، ج‏6؛ ص 379، مشهد مقدس، چاپ: اول، 1384 ه.ش.

ابن فارس نے بھی معجم المقیاس میں "جذب” کے معنی اس طرح بیان کیے ہیں:

«جذب‏ الجیم و الذال و الباء أصلٌ واحدٌ یدلُّ على بَتْرِ الشَّئ»‏

جذب کا ایک بہتر معنی ہے جس کا مطلب ہے کسی چیز کا گوشہ لے کر اسے کاٹ دینا۔

ابن فارس، احمد بن فارس، معجم مقاییس اللغه، ج‏1؛ ص 440- قم، چاپ: اول، 1404 ه.ق.

کاٹنا اور الگ کرنا، جو جذب کے معنی میں آیا ہے، پر توجہ دینا اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام سلمہ کے ہاتھ کو کساء فدکیہ سے سنجیدگی کے ساتھ الگ کیا اور ام سلمہ کو اس خاص جگہ میں جانے کی اجازت نہیں دی۔

دوسرا تقریب: مذکورہ بالا روایت کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیہم السلام کو لانے کے بعد ان پر ہاتھ رکھا اور ان خاص لوگوں کی طرف اشارہ کیا اور کہا:«اللهم إن هؤلاء آل محمد فاجعل صلواتک وبرکاتک على آل محمد فإنک حمید مجید» اس دعا کے بارے میں کہا جائے:

پہلا: "انّ” کے ساتھ لفظ کے اثباتی تاکید کے علاوہ، خدا کے رسول نے کساء کے اندر کچھ لوگوں کی طرف اشارہ کرنا، اور انہیں اپنے آل اور اهل ہونے کا لوگوں سے متعارف کرایا ہے. کساء کے اندر مخصوص لوگوں پر ہاتھ رکھنے کے موجودہ تناظر میں اس قسم کی احتیاط سے اشارہ کرنا، یہ ان لوگوں پر اہل بیت کی قید کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

دوسرا: ضمیر اشارہ کے ساتھ معرفی کرنے اور ہاتھ ڈالنے اور چادر میں ڈھانپنے کے بعد، وہ اہل بیت علیہم السلام کے لیے بہت خاص اور بہترین موضوعات کے ساتھ دعا کرتا ہے! یہ دعا بہت سی احادیث سے مطابقت رکھتی ہے جو آیت صلوات کے تحت درج کی گئی ہیں۔

نکته

(11) هود : 73 قالُوا أَ تَعْجَبینَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ رَحْمَتُ اللَّهِ وَ بَرَکاتُهُ عَلَیْکُمْ أَهْلَ الْبَیْتِ إِنَّهُ حَمیدٌ مَجید

انہوں (فرشتوں) نے کہا کیا تم اللہ کے کام پر تعجب کرتی ہو؟ اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں تم پر اے (ابراہیم(ع) کے) گھر والو بے شک وہ بڑا ستائش کیا ہوا ہے، بڑی شان والا ہے۔ (73)

  1. عطیہ کی روایت ان کے والد ام سلمہ سے

ام سلمہ کے طریقہ سے متعلق ایک اور سند ایک روایت ہے جسے عطیہ طفاوی نے اپنے والد سے ام سلمہ کے بارے میں ذکر کیا ہے۔ احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں مندرجہ بالا روایت کو رد کیا ہے:

26582 – حدثنا عبد الله حدثنی أبى ثنا محمد بن جعفر قال ثنا عوف عن أبى المعدل عطیة الطفاوی عن أبیه ان أم سلمة حدثته قالت: بینما رسول الله صلى الله علیه و سلم فی بیتی یوما إذ قالت الخادم ان علیا وفاطمة بالسدة قالت فقال لی قومی فتنحى لی عن أهل بیتی قالت فقمت فتنحیت فی البیت قریبا فدخل علی وفاطمة ومعهما الحسن والحسین وهما صبیان صغیران فأخذ الصبیین فوضعهما فی حجره فقبلهما قال واعتنق علیا بإحدى یدیه وفاطمة بالید الأخرى فقبل فاطمة وقبل علیا فأغدف علیهم خمیصة سوداء فقال اللهم إلیک لا إلى النار أنا وأهل بیتی قالت فقلت وأنا یا رسول الله فقال وأنت. »

عطیہ طفاوی اپنے والد سے ام سلمہ سے روایت کرتی ہیں: ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں تھے، خادم نے کہا: حضرت علی اور فاطمہ سلام اللہ علیہا دروازے کے پیچھے ہیں۔ ام سلمہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: اٹھو اور میرے گھر والوں سے دوری اختیار کرو۔ میں اٹھا اور گھر سے دوسری قریبی جگہ چلا گیا اور خود کو دور کر لیا! پھر علی و فاطمہ سلام اللہ علیہا ان کے ساتھ داخل ہوئے اور حسن و حسین علیہما السلام ان کے ساتھ جو چھوٹے بچے تھے داخل ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن و حسین کو اپنے زانو پر بٹھایا اور بوسہ دیا۔ ام سلمہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہاتھ سے علی کو اور دوسرے ہاتھ سے فاطمہ کو گلے لگایا اور حضرت فاطمہ کو بوسہ دیا اور حضرت علی کو بھی بوسہ دیا۔ اور انہیں سیاہ لباس سے ڈھانپ دیا جو اس نے پہن رکھا تھا۔ خدارا! میں اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو تیرے سپرد کرتا ہوں، جہنم کا عذاب نہیں! میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مجھ پر بھی درود و سلام ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں تم بھی [یعنی میں تمہیں خدا کے سپرد کرتا ہوں تاکہ تم جہنم کے عذاب سے بچ جاؤ!]

أحمد بن حنبل، أبو عبدالله الشیبانی، مسند الإمام أحمد بن حنبل، ج 6، ص: 296، مؤسسة قرطبة، القاهرة، عدد الأجزاء: 6، الأحادیث مذیلة بأحکام شعیب الأرنؤوط علیها

الاسماء اور الکانی میں دولابی نے بھی مندرجہ بالا روایت کو یوں بیان کیا ہے:

قال: أنبأ النضر، قال: حدثنا عوف، عن أبی المعذل عطیة الطفاوی، عن أبیه، أن أم سلمة حدثته، قالت: بینا رسول الله [ صلى الله علیه وسلم ] فی بیته یوماً إذ قال لی الخادم أن علیا وفاطمة بالسدة، فقال لی قومی: فتنحى لی عن أهل بیتی فقمت فتنحیت فی البیت قریباً، فدخل علی وفاطمة ومعهما الحسن والحسین، وهما صغیران فأخذ الصبیین فوضعهما فی حجرة واعتق علیا بإحدى یدیه وفاطمة بالأخرى، فقبلهما وأغدف علیهم خمیصة سوداء، وقال: اللهم إلیک لا إلى النار أنا وأهل بیتی، قالت: قلت: وأنا یا رسول الله، قال: وأنت.

عطیہ طفاوی اپنے والد سے ام سلمہ سے روایت کرتی ہیں: ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں تھے، خادم نے کہا: حضرت علی اور فاطمہ سلام اللہ علیہا دروازے کے پیچھے ہیں۔ ام سلمہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: اٹھو اور میرے گھر والوں سے دوری اختیار کرو۔ میں اٹھا اور گھر سے دوسری قریبی جگہ چلا گیا اور خود کو دور کر لیا! پھر علی و فاطمہ سلام اللہ علیہا ان کے ساتھ داخل ہوئے اور حسن و حسین علیہما السلام ان کے ساتھ جو چھوٹے بچے تھے داخل ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن و حسین کو اپنے زانو پر بٹھایا اور بوسہ دیا۔ ام سلمہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہاتھ سے علی کو اور دوسرے ہاتھ سے فاطمہ کو گلے لگایا اور حضرت فاطمہ کو بوسہ دیا اور حضرت علی کو بھی بوسہ دیا۔ اور انہیں سیاہ لباس سے ڈھانپ دیا جو اس نے پہن رکھا تھا۔ خدارا! میں اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو تیرے سپرد کرتا ہوں، جہنم کا عذاب نہیں! میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مجھ پر بھی درود و سلام ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں تم بھی [یعنی میں تمہیں خدا کے سپرد کرتا ہوں تاکہ تم جہنم کے عذاب سے بچ جاؤ!]

دولابی، ابوبشر محمد بن حماد، الکنى والأسماء، ج 3، ص: 1036، سنة الولادة 224 هـ / سنة الوفاة 310 هـ، تحقیق أبو قتیبة نظر محمد الفاریابی، الناشر دار ابن حزم، سنة النشر 1421 هـ – 2000 م، مکان النشر بیروت/ لبنان، عدد الأجزاء 3

آیت تطہیر کے مفاد سے ازواج کو خارج کرنے کا دلیل ام سلمہ سے عطیہ کے طریقہ پر مبنی ہے:

سند بعنوان "فقال لی قومی: فتنہٰی لی عن اہل البیتی فقمت فتنہیت فی البیت قریبہ، فضل علی و فاطمہ اور محمد الحسن و حسین” مذکورہ بالا روایت سے حضرت علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیہما السلام کی آمد پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر ام سلمہ کو حکم دیا کہ ان کے خاص "اہل بیت” سے خود کو دور کرنا چاہئے اور ان سے دور رہنا چاہئے۔ اس وجہ سے ام سلمہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود کو وہاں سے لگ کیا اور گھر کے دوسرے حصہ میں چلی گئیں۔ معتبر لغات میں "تنحی” کا مطلب دور جانا ہے:

«نَحَّیْته‏ فتَنَحَّى‏… أی: باعدته»

تنحی یعنی میں نے اسے ہٹا دیا اس کا مطلب اسے ہٹانا ہے۔

فراهیدى، خلیل بن احمد، کتاب العین، ج‏3 ؛ ص303 ، قم، چاپ: دوم، 1409 ه.ق.

مذکورہ بالا روایت سے اس عبارت کا مفہوم آیت تطھیر سے ازواج کا خارج ہونے کے بارے میں بالکل واضح ہے۔

قابل غور بات یہ ہے کہ مذکورہ بالا روایت کا آخری پیراگراف ہےیعنی « اللهم إلیک لا إلى النار أنا وأهل بیتی، قالت: قلت: وأنا یا رسول الله، قال: وأنت»

اس کا کسی بھی طرح سے یہ مطلب نہیں ہے کہ ام سلمہ کو اہل بیت میں شامل کیا گیا ہے کیونکہ: اول: اگر ہم یہ کہیں کہ ام سلمہ اہل بیت کے عنوان کے اندر موجود ہیں دعا میں ہے، تو ایسی صورت میں اوپر اور نیچے کے حدیث کے درمیان تضاد اور شدید اضطراب لازم ایےگا اور یہ حکمت نبوی سے مطابقت نہیں رکھتی۔

دوم: حدیث ظهور کا درج ذیل جملہ یہ ہے کہ ام سلمہ کی درخواست، اس میں صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا شامل ہے، جہنم کی آگ سے دور رہنے کے لیے، اس عنوان میں داخل نہ ہونا جو حدیث کے شروع میں صراحت کے ساتھ خارج کیا گیا ہے۔

  1. عطا بن یسار ام سلمہ سے روایت نقل کی ہے

ازواج کا خارج ہونا زیر بحث ایک اور روایت یہ ہے کہ عطاء بن یسار نے ام سلمہ سے روایت کی۔ حکیم نیشابوری اپنی صحیح میں موجود قطعی شرط کی بنا پر مذکورہ روایت کو صحیح سمجھتے ہیں:

3558 – حدثنا أبو العباس محمد بن یعقوب ثنا العبا س بن محمد بن الدوری ثنا عثمان بن عمر ثنا عبد الرحمن بن عبد الله بن دینار ثنا شریک بن أبی نمر عن عطاء بن یسار عن أم سلمة رضی الله عنها أنها قالت: فی بیتی نزلت هذه الآیة { إنما یرید الله لیذهب عنکم الرجس أهل البیت } قالت: فأرسل رسول الله صلى الله علیه و سلم إلى علی و فاطمة و الحسن و الحسین رضوان الله علیهم أجمعین فقال: اللهم هؤلاء أهل بیتی قالت أم سلمة: یا رسول الله ما أنا من أهل البیت؟ قال: إنک أهلی خیر و هؤلاء أهل بیتی اللهم أهلی أحق. هذا حدیث صحیح على شرط البخاری و لم یخرجاه. تعلیق الذهبی قی التلخیص: على شرط مسلم»

عطاء بن یسار ام سلمہ سے روایت کرتے ہیں: میرے گھر میں تطھیر کی آیت نازل ہوئی۔ ام سلمہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی، فاطمہ، حسن اور حسین کو اپنے پاس بلایا اور فرمایا: بارالها! یہ صرف میرے اهل بیت ہیں۔ ام سلمہ نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، کیا میں بھی اہل بیت میں سے ہوں؟ ان حضرت نے کہا: تم میری امت میں سے ہو! اور یہ میرے اهل بیت ہیں۔ خدارا میرے اهل بیت احق ہیں۔

حاکم نشابوری، محمد بن عبدالله، المستدرک على الصحیحین، ج 2، ص: 451، دار الکتب العلمیة – بیروت، الطبعة الأولى، 1411 – 1990، تحقیق: مصطفى عبد القادر عطا، عدد الأجزاء: 4

آیت تطھیر میں اہل بیت سے ازواج کا خارج ہونے پر دلیل:

مندرجہ بالا روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام سلمہ کی درخواست کہ انہیں اہل بیت کساء میں شامل کیا جائے کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے۔ اور ان حضرت ان کے سلسلے میں حقیقی مقام کو ثابت کرتے ہوئے – جو کہ ایک بیوی اور ایک ہی گھر کا فرد ہونے کے برابر ہے – عنوان اہل بیت سے اس کی نفی کرتا ہے۔

مندرجہ بالا قرینہ کے علاوہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ” آیت تطھیر کے تحت اہل بیت کساء میں داخل ہوئے” کے عنوان اور عنوان "اپنا خاندان، جس میں اس کی بیویاں شامل ہیں” کے درمیان ایک تضاد پیدا کیا ہے۔ جس میں ان کی بیویاں بھی شامل ہیں، جو ان دونوں تصورات کے درمیان فرق کو ظاہر کرتی ہے۔ اس بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عنوان اول کو ام سلمہ سے نفی کیا اور دوسرے عنوان کو ثابت کیا۔

واضح رہے کہ حدیث کے تحت "اللهم اهلی احق” کی دعا کا میاں بیوی سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ: اول: اگر اس دعا میں ام سلمہ بھی شامل ہو تو وہ آیت کے تحت اہل بیت میں شامل ہو جائیں گی، حالانکہ پچھلے جملے میں انہیں آیت کے تحت اہل بیت کے عنوان سے واضح طور پر خارج کر دیا گیا تھا اور یہ نبی کے قول میں تضاد اور اضطراب کی علامت ہے اور اس مسئلہ سے بچنے کے لیے اور اس نبی کی طرف لغو باتوں کو منسوب کرنے سے ہم کوئی تاثر نہیں دے سکتے۔

دوم: دوسری روایات کے مطابق – جن میں سے اکثر کا اس مضمون میں ذکر ہے- اس دعا میں آیت کےذیل میں اہل بیت شامل ہیں۔ اور ان کی احق سے مراد رجس سے دوری اور مطلق پاکیزگی ہے۔ جیسا کہ عمر بن ابی سلمہ کی سند میں ہے۔

«… فأذهب عنهم الرجس وطهرهم تطهیرا» کا ذکر ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ اہل بیت سے مطلق نجاست سے دور رہنے اور مکمل پاکیزگی ثابت کرنے کی درخواست ہے۔

اسی طرح شہر بن حوشب میں بھی پایا جاتا ہے۔ « اللهم ان هؤلاء آل محمد فاجعل صلواتک وبرکاتک على محمد وعلى آل محمد انک حمید مجید»

یہ دعا بھی اہل بیت کے لیے خدا سے حفاظت اور برکت کی درخواست ہے جس کے گھر کے یہ لوگ دوسروں کے مقابلے میں حقدار ہیں۔ مذکورہ بالا سند جو کہ عطاء بن ابی رباح کی ام سلمہ سے روایت ہے، احمد بن حنبل کی مسند میں بھی متعدد صحیح اورمعتبر سند کے ساتھ مختلف بیان کے ساتھ ذکرکیا ہے:

« 26551 – حدثنا عبد الله حدثنی أبى ثنا عبد الله بن نمیر قال ثنا عبد الملک یعنى بن أبى سلیمان عن عطاء بن أبى رباح قال حدثنی من سمع أم سلمة تذکر: أن النبی صلى الله علیه و سلم کان فی بیتها فأتته فاطمة ببرمة فیها خزیرة فدخلت علیه فقال لها ادعى زوجک وابنیک قالت فجاء على والحسین والحسن فدخلوا علیه فجلسوا یأکلون من تلک الخزیرة وهو على منامة على دکان تحته کساء له خیبری قالت وأنا أصلی فی الحجرة فانزل الله عز و جل هذه الآیة { إنما یرید الله لیذهب عنکم الرجس أهل البیت ویطهرکم تطهیرا } قالت فأخذ فضل الکساء فغشاهم به ثم أخرج یده فألوى بها إلى السماء ثم قال اللهم هؤلاء أهل بیتی وخاصتی فاذهب عنهم الرجس وطهرهم تطهیرا اللهم هؤلاء أهل بیتی وخاصتی فاذهب عنهم الرجس وطهرهم تطهیرا قالت فأدخلت رأسی البیت فقلت وأنا معکم یا رسول الله قال انک إلى خیر إنک إلى خیر قال عبد الملک وحدثنی أبو لیلى عن أم سلمة مثل حدیث عطاء سواء قال عبد الملک وحدثنی داود بن أبى عوف الحجاف عن حوشب عن أم سلمة بمثله سواء. تعلیق شعیب الأرنؤوط: حدیث صحیح. وله ثلاثة أسانید: الأول: ضعیف لإبهام الراوی عن أم سلمة والثانی: إسناده صحیح»

عطاء بن ابی رباح ام سلمہ سے روایت کرتے ہیں: کہ اسے وہ دن یاد ہے جب وہ اپنے گھر میں تھا۔ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ہاتھ میں شوربے کا پیالہ لیے ان کے پاس آئیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی شوہر اور بچوں کو اطلاع دیں۔ حضرت علی (علیہ السلام) اور حسن و حسین (علیہما السلام) آکر بیٹھ گئے اور وہ کھانا کھانے لگے جب کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خیبری کے بستر پر سو رہے تھے اور میں [ام سلمہ] بھی کمرے میں نماز میں مصروف تھی۔ کہ اللہ تعالیٰ نے آیت « انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس …» نازل کی۔

ام سلمہ بیان کرتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چادر کا ایک کونا پکڑا اور انہیں ڈھانپ دیا، پھر آپ نے اپنا ہاتھ چادر کے نیچے سے نکالا اور فرمایا: اے اللہ یہ میرے اہل و عیال اور خاص رشتہ دارہیں! ان میں سے تمام رجس کو دور کر کے انہیں بالکل پاکیزہ بنا دے! ام سلمہ کہتی ہیں: میں نے اپنا سر کمرے کے اندر رکھا اور کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا میں آپ کے ساتھ ہوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم خیرپر ہو، تم خیرپر ہو!

أحمد بن حنبل، أبو عبدالله الشیبانی، مسند الإمام أحمد بن حنبل، ج 6، ص: 292، مؤسسة قرطبة، القاهرة، عدد الأجزاء: 6، الأحادیث مذیلة بأحکام شعیب الأرنؤوط علیها

آیت تطھیرسے ازواج کا خارج ہونے کی دلیل کا اندازہ مذکورہ بالا روایت کی بنا پر:

فراز کی دلیل کے علاوہ «قالت فأدخلت رأسی البیت فقلت وأنا معکم یا رسول الله قال انک إلى خیر إنک إلى خیر» جس کا ذکر پچھلے بیانات میں کیا گیا تھا کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے بارے میں بھی بحث کر سکتا ہے، جو الکساء کے تحت بعض لوگوں سے متعلق ہے «هؤلاء أهل بیتی وخاصتی» اور استدلال بھی کرسکتا ہے۔ اس لیے کہ حضرت اہل بیت مشار الیه کو چادر کے نیچے ایک خاص "قید” کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ یہ فعل ایک خاص خصوصیت کا اظہار کرتا ہے جو کہ انہی لوگوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وابستگی اور رشتہ داروں میں سے کوئی بھی موجود نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ ازواج کو اس آیات کے مفاد سے خارج کیا ہے۔ کیونکہ وہ "خاصّتی” عنوان میں شامل نہیں ہیں۔

  1. ابی ہریرہ الدوسی

ام سلمہ کی طریق کی ایک اور سند ابوہریرہ کی روایت ہے۔ یہ ایک صحابی کی دوسرے صحابی سے روایت ہے۔ طبری نے اپنی تفسیر میں اس روایت کو یوں نقل کیا ہے:

حدثنا أَبو کریب، قال: ثنا مصعب بن المقدام، قال: ثنا سعید بن زربی، عن محمد بن سیرین، عن أَبی هریرة، عن أم سلمة قالت: جاءت فاطمة إلى رسول الله صَلَّى الله عَلَیْهِ وَسَلَّم ببرمة لها قد صنعت فیها عصیدة تحلها على طبق، فوضعته بین یدیه، فقال: "أَیْنَ ابْنُ عَمِّکِ وَابْنَاک؟” فقالت: فی البیت، فقال: "ادْعِیهِمْ ". فجاءت إلى علی فقالت: أجب النبی صَلَّى الله عَلَیْهِ وَسَلَّم أنت وابناک، قالت أم سلمة: فلما رآهم مقبلین مد یده إلى کساء کان على المنامة فمده وبسطه وأجلسهم علیه، ثم أخذ بأطراف الکساء الأربعة بشماله فضمه فوق رءوسهم وأومأ بیده الیمنى إلى ربه، فقال: «هَؤُلاءِ أَهْلُ الْبَیْتِ، فَأَذْهِبْ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَطَهِّرْهُمْ تَطْهِیرًا»

ابوہریرہ ام سلمہ سے روایت کرتے ہیں: حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئیں اور شوربے کا ایک برتن لے کر آپ کے سامنے رکھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تمھارے شوہراور بچے کہاں ہیں؟ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے جواب دیا: گھر پر! فرمایا: انہیں بلاؤ۔ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا حضرت علی کے پاس گئیں اور فرمایا: آپ اور آپ کے بچےکو نبی صلی اللہ علیہ وسلم بلا رہے ہیں، ام سلمہ بیان کرتی ہیں: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ وہ لوگ آپ کی طرف جا رہے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا کساء جو آپ کی آرام گاہ میں تھا لے لیا اور اسے پھیلا دیا اور انہیں اس کساء پربٹھایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کساء کے چاروں کونے کو اپنے سر پر جمع کیا اور اپنے دائیں ہاتھ سے اپنے رب کی طرف اشارہ کیا۔ اور فرمایا: یہ اہل بیت ہیں، ان سے تمام نجاست دور کر اور انہیں پاک کر!

أبو جعفر الطبری، محمد بن جریر بن یزید، جامع البیان فی تأویل القرآن، ج20، ص: 265، محقق : أحمد محمد شاکر، مؤسسة الرسالة، چاپ اول، 1420 هـ – 2000 م، عدد الأجزاء : 24

آیت تطهیر سے ازواج کو خارج کیے جانے کی روایت پر مبنی استدلال کا اندازہ وہی ہے جو صحیح مسلم میں عائشہ کے ذریعے پیش کیا گیا ہے جو پہلے پیش کیا گیا تھا۔ لیکن واضح رہے کہ زیر بحث روایت کی تفصیلات کے بیانات میں اختلاف یا تو حدیث کے راویوں کے معنی بیان کرنے کی وجہ سے ہے یا پھر یہ واقعہ دہرائے جانے کی وجہ سے ہے۔

  1. عبداللہ بن وہب بن زمعہ

ام سلمہ کی طرف سے ایک اور سند عبداللہ بن وہب بن زمعہ کی روایت ہے۔ طبری نے اپنی تفسیر میں اس روایت کو یوں درج کیا ہے:

28731- حَدَّثَنَا أَبُو کُرَیْبٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ یَعْقُوبَ ، قَالَ : حَدَّثَنِی هَاشِمُ بْنُ هَاشِمِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ أَبِی وَقَّاصٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ وَهْبِ بْنِ زَمْعَةَ ، قَالَ: أَخْبَرَتْنِی أُمُّ سَلَمَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ جَمَعَ عَلِیًّا وَالْحَسَنَیْنِ، ثُمَّ أَدْخَلَهُمْ تَحْتَ ثَوْبِهِ، ثُمَّ جَأَرَ إِلَى اللَّهِ ، ثُمَّ قَالَ : هَؤُلاَءِ أَهْلُ بَیْتِی فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ : یَا رَسُولَ اللَّهِ أَدْخِلْنِی مَعَهُمْ، قَالَ : إِنَّکِ مِنْ أَهْلِی»

عبداللہ بن وہب بن زمعہ نے بیان کیا کہ مجھے ام سلمہ نے خبر دی کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی، حسن، حسین اور فاطمہ کو جمع کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے چادر میں لیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے دعا کی اور فرمایا: یہ میرے اھلبیت ہیں! ام سلمہ کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ مجھے بھی ان میں شامل کر لیں۔ انہوں نے کہا: بے شک تم میرے اہل میں سے ہو (دار قصہ کے اندر اہل بیت نہیں)۔

أبو جعفر محمد بن جریر الطبری، جامع البیان فی تفسیر القرآن للطبری، ج19، ص: 105، مکتب التحقیق بدار هجر، ناشر : دار هجر، چاپ اول، 26 جلد

ازواج کو خارج کیے جانے کے لیے مذکورہ بالا روایت کی دلیل کا وہی ہے جو ام سلمہ کی روایت میں ہے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام سلمہ کو کساء کے اندر لینے سے پرہیز کیا اور صرف اس کا اصل مقام یہ ہے کہ وہ اھل ہے اور یہ کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ ہیں۔

ایک دلچسپ نکتہ جو غور طلب ہے وہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت تطھیر مصادیق کو معین کرنے کے لیے آواز بلند فرمائی تاکہ آیت تطھیر کی مثالیں معلوم ہو سکے! اس معاملے کی حکمت واضح ہے کیونکہ بات کی تاکید کے ساتھ ساتھ یہ بات دوسروں کی آگاہی کے لیے تھی، خاص طور پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کی کہ اس منصب میں خاص اور خاص لوگ شامل ہیں اور دوسرے لوگ اس میں شامل نہیں ہوسکتے۔

  1. حکیم بن سعد

ام سلمہ کی طرف سے زیر بحث روایات کی آٹھویں سند حکیم بن سعد کی روایت ہے۔ ابن عساکر نے اس روایت کو اس طرح شامل کیا ہے:

أخبرنا أبو القاسم بن السمرقندی أنا أبو الحسین بن النقور أنا محمد بن عبد الله بن الحسین الدقاق نا عبد الله بن محمد بن عبد العزیز نا عثمان بن أبی شیبة نا جریر بن عبد الحمید عن الأعمش عن جعفر بن عبد الرحمن البجلی عن حکیم بن سعد عن أم سلمة تقول أنزلت هذه الآیة فی النبی صلى الله علیه وسلم وعلی وفاطمة والحسن والحسین { إنما یرید الله لیذهب عنکم الرجس أهل البیت ویطهرکم تطهیرا }

حکیم بن سعد ام سلمہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: یہ آیت "انما یرید اللہ…” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور حضرت علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیہم السلام پر نازل ہوئی۔

ابن عساکر، أبی القاسم علی بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله الشافعی، تاریخ مدینة دمشق، ج14، ص: 143، دار الفکر، بیروت

اس روایت کی تشریح میں یہ کہنا چاہیے کہ اس کا مفہوم تطھیر کی آیت سے ازواج کا نکل جانا ہے جیسا کہ پچھلی روایتوں میں آیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی واضح رہے کہ اگر اس آیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کو شامل کیا جاتا تو ام سلمہ کو بھی ان کی اس منفرد فضیلت کا ذکر کرنا چاہیے تھا۔ لیکن باوجود اس کے کہ وہ آیت کی تفسیر اورتبیین کرنے کی پوزیشن میں تھے۔ اس نے آیت کی دفعات میں اپنے اور دوسری ازواج کے داخل ہونے کے بارے میں کچھ ذکر نہیں کیا اور اس نے خصوصی طور پر صرف پانچ آل عبا کا ذکر کیا۔

  1. عمرہ بنت عفیٰ ام سلمہ سے روایت کرتی ہے

ام سلمہ کے طریقہ کے جیسا ایک اور سند وہ روایت ہے جسے حافظ ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں عمرہ بن عفی سے ذکر کیا ہے:

«عمرة هذه لیست بنت عبد الرحمن إنما هی عمرة بنت أفعى کوفیة أخبرنا بحدیثها أبو طالب علی بن عبد الرحمن أنا أبو الحسن الخلعی أنا أبو محمد بن النحاس أنا أبو سعید بن الأعرابی نا الحسین بن جعید بن الربیع أبو عبد الله نا مخول بن إبراهیم أبو عبد الله نا عبد الجبار بن عباس الشیبانی عن عمار الدهنی عن عمرة بنت أفعى قالت سمعت أم سلمة تقول نزلت هذه الآیة فی بیتی { إنما یرید الله لیذهب عنکم الرجس أهل البیت ویطهرکم تطهیرا } وفی البیت سبعة جبریل ومیکائیل ورسول الله صلى الله علیه وسلم وعلی وفاطمة والحسن والحسین قالت وأنا على باب البیت فقلت یا رسول الله ألست من أهل البیت قال إنک على خیر إنک من أزواج النبی صلى الله علیه وسلم وما قال إنک من أهل البیت

عمرہ بنت افعی کہتی ہیں کہ میں نے ام سلمہ کو یہ کہتے ہوئے سنا: یہ آیت «انما یرید الله لیذهب …» میرے گھر میں نازل ہوئی۔ اور ہمارے گھر میں سات لوگ تھے۔ جبرائیل، میکائیل، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیہم السلام۔ ام سلمہ بیان کرتی ہیں کہ میں گھر کے دروازے کے پاس کھڑی تھی، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا میں بھی اہل بیت میں سے ہوں؟ انہوں نے کہا: تم خیر پر ہو! آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات میں سے ہیں۔ اور یہ کہ ان حضرت نے یہ نہیں کہا کہ تم اہل بیت میں سے ہو!

تاریخ مدینة دمشق وذکر فضل‌ها وتسمیة من حلها من الأماثل، اسم المؤلف: أبی القاسم علی بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله الشافعی، دار النشر: دار الفکر – بیروت – 1995، تحقیق: محب الدین أبی سعید عمر بن غرامة العمری، ج 14، ص 145، باب آخر الجزء الحادی والسبعین بعد المائة

آیت تطھیر سے ازواج کے خارج کیے جانے پر مذکورہ بالا روایت کا مفہوم بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ روایت کے ذیل میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ «وما قال إنک من أهل البیت» رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام سلمہ کی طرف سے داخل ہونے کی درخواست کی مخالفت کی۔ اور دیگر روایات کی طرح اس میں بھی صرف بیوی کے مقام پر زور دیا ہے اور آیت تطھیر میں بیوی اور اہل بیت کے مقام کے درمیان دوئیت اور مخالفت پیدا کی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کی نفی ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی واضح رہے کہ جبرائیل اور میکائیل جو آسمانی عظمت کے فرشتوں میں سے ہیں، اہل کساء میں بھی موجود ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آیت تطھیر میں اہل بیت کا مقام عرش کا مقام ہے کہ صرف وہی لوگ شامل کیے جاسکتے ہیں جو آسمانی فرشتوں کے نورانی مخلوقات کی سنخ کے ہوں۔ اس بنا پر جو لوگ شرک یا خیانت اور دشمنی کی سابقہ رکھتے ہیں وہ اس حریم میں داخل ہونے کے اہل نہیں ہیں۔

  1. عمرة همدانیه

عمرہ ہمدانی بھی ان دوسرے راویوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے ام سلمہ سے نقل کیا ہے۔ طحاوی جو کہ اہل سنت کے بڑے محدثین اور فقہاء میں سے ہیں، نے اس روایت کو مشکل الآثارکی شرح میں اس طرح نقل کیا ہے:

772 – وَمَا قَدْ حَدَّثَنَا فَهْدٌ، حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ کَثِیرِ بْنِ عُفَیْرٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِیعَةَ، عَنْ أَبِی صَخْرٍ، عَنْ أَبِی مُعَاوِیَةَ الْبَجَلِیِّ، عَنْ عَمْرَةَ الْهَمْدَانِیَّةِ قَالتْ: أَتَیْتُ أُمَّ سَلَمَةَ فَسَلَّمْتُ عَلَیْهَا فَقَالَتْ: مَنْ أَنْتِ؟ فَقُلْتُ: عَمْرَةُ الْهَمْدَانِیَّةُ فَقَالَتْ عَمْرَةُ: یَا أُمَّ الْمُؤْمِنِینَ أَخْبِرِینِی عَنْ هَذَا الرَّجُلِ الَّذِی قُتِلَ بَیْنَ أَظْهُرِنَا فَمُحِبٌّ وَمُبْغِضٌ تُرِیدُ عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ قَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ أَتُحِبِّینَهُ أَمْ تُبْغِضِینَهُ؟ قَالَتْ: مَا أُحِبُّهُ وَلَا أُبْغِضُهُ، فَقَالَتْ: أَنْزَلَ اللهُ هَذِهِ الْآیَةَ: { إنَّمَا یُرِیدُ اللهُ } إلَى آخِرِهَا وَمَا فِی الْبَیْتِ إلَّا جِبْرِیلُ وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَعَلِیٌّ، وَفَاطِمَةُ، وَحَسَنٌ، وَحُسَیْنٌ عَلَیْهِمُ السَّلَامُ، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، أَنَا مِنْ أَهْلِ الْبَیْتِ؟ فَقَالَ: «إنَّ لَکِ عِنْدَ اللهِ خَیْرًا » فَوَدِدْتُ أَنَّهُ قَالَ: نَعَمْ، فَکَانَ أَحَبَّ إلَیَّ مِمَّا تَطْلُعُ عَلَیْهِ الشَّمْسُ وَتَغْرُبُ. فَدَلَّ مَا رَوَیْنَا فِی هَذِهِ الْآثَارِ مِمَّا کَانَ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إلَى أُمِّ سَلَمَةَ مِمَّا ذَکَرَ فِیهَا لَمْ یُرِدْ بِهِ أَنَّهَا کَانَتْ مِمَّنْ أُرِیدَ بِهِ مِمَّا فِی الْآیَةِ الْمَتْلُوَّةِ فِی هَذَا الْبَابِ، وَأَنَّ الْمُرَادِینَ بِمَا فِیهَا هُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَعَلِیٌّ، وَفَاطِمَةُ، وَحَسَنٌ، وَحُسَیْنٌ عَلَیْهِمُ السَّلَامُ دُونَ مَنْ سِوَاهُم»

عمرہ ہمدانیہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے ام سلمہ سے کہا کہ مجھے اس شخص کے بارے میں بتائیے جو ہمارے درمیان مارا گیا، آیا وہ اس کا محبوب تھا یا اس سے نفرت کرتا تھا۔ اس شخص سے مراد حضرت علی علیہ السلام تھے۔ ام سلمہ نے کہا: تم اس سے محبت کرتے ہو یا اس سے نفرت کرتے ہو؟ اس نے کہا: میں نہ اس سے محبت کرتا ہوں اور نہ ہی دل میں اس سے نفرت کرتا ہوں۔ ام سلمہ کہتی ہیں: آیت «انما یرید الله لیذهب…» اس وقت نازل ہوئی جب جبرائیل اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور علی، فاطمہ، حسن، اور حسین اس گھر میں تھے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا میں بھی اہل بیت میں سے ہوں؟ انہوں نے کہا: خدا کی نظر میں تمہارے لیے اچھا اجر ہے! ام سلمہ کہتی ہیں: میں نے چاہا کہ وہ ہاں کہے اور میں بھی اہل بیت کے اندر ہوں! یہ معاملہ مجھے سورج کے طلوع و غروب ہونے سے زیادہ محبوب تھا! طحاوی کہتے ہیں: یہ احادیث جو ہم نے بیان کی ہیں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ام سلمہ سے مروی ہیں۔ وہاں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ ام سلمہ کا ارادہ نہیں تھا کہ وہ آیت تطہیر کے معنی میں شامل ہوں، جس پر ہم نے اس باب میں بحث کی ہے۔ اور ان روایات کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیہم السلام کے علاوہ آیت میں سنجیدہ معنی ہیں، اور اس کے معنی میں کوئی اور نہیں ہے ان لوگوں کے علاوہ ۔

شرح مشکل الآثار، أبو جعفر أحمد بن محمد بن سلامة الطحاوی، مؤسسة الرسالة – لبنان/ بیروت – 1408 هـ – 1987 م، الطبعة: الأولی، تحقیق: شعیب الأرنؤوط، ج 2، ص 244، بَابٌ بَیانُ مُشْکلِ ما رُوِی عن رسول اللهِ علیه السلام فی الْمُرَادِ بِقَوْلِهِ تَعَالَی إنَّمَا یرِیدُ اللَّهُ لِیذْهِبَ عَنْکمْ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیتِ وَیطَهِّرَکمْ تَطْهِیرًا من هُمْ

مذکورہ بالا روایت کا مفہوم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب، ام سلمہ اور ان کے اقرار پر مبنی ہے «… فَوَدِدْتُ أَنَّهُ قَالَ: نَعَمْ، فَکَانَ أَحَبَّ إلَیَّ مِمَّا تَطْلُعُ عَلَیْهِ الشَّمْسُ وَتَغْرُبُ….» اس نے خواہش کی کہ خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، کساء میں داخل ہونے کی درخواست کا مثبت جواب دیں گے۔

اس کے علاوہ یہ بھی واضح رہے کہ طحاوی نے مشکل الآثار میں زیر بحث سند کے تحت اعتراف کیا ہے۔ ام سلمہ سے منقول روایات کے مطابق، ان میں سے صرف پانچ ہیں اور کوئی اور نہیں، "خاص طور پر ازواج” اہل بیت کے عنوان میں شامل نہیں ہیں۔

جمع بندی: آیت تطھیر سے ازواج کے نکلنے کی سب سے اہم دلیل ام سلمہ کی روایت ہے۔ یہ روایت متعدد طریقوں سے اور مختلف فقروں کے ساتھ درج کی گئی ہے، جن میں سے سبھی اس حقیقت کو بیان کرتے ہیں کہ وہ "اہل بیت” کے عنوان میں شامل نہیں ہیں۔

3/5۔ مباہلہ سے متعلق روایت اور اہل بیت علیہم السلام کا تعارف۔

آیت تطھیر سے ازواج کے اخراج کیے جانے کا ایک اور سندی ثبوت آیت مباہلہ سے متعلق روایات ہیں۔ اس آیت میں خداوند نجران کے عیسائیوں کے ساتھ مباہلہ کے معاملہ میں بعض خاص لوگوں کی موجودگی کا حکم دیتا ہے:

(3) آل‏عمران : 61 فَمَنْ حَاجَّکَ فیهِ مِنْ بَعْدِ ما جاءَکَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعالَوْا نَدْعُ أَبْناءَنا وَ أَبْناءَکُمْ وَ نِساءَنا وَ نِساءَکُمْ وَ أَنْفُسَنا وَ أَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْکاذِبین‏

(اے پیغمبر(ص)) اس معاملہ میں تمہارے پاس صحیح علم آجانے کے بعد جو آپ سے حجت بازی کرے تو آپ ان سے کہیں کہ آؤ ہم اپنے اپنے بیٹوں، اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر مباہلہ کریں (بارگاہِ خدا میں دعا و التجا کریں) اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں۔ (یعنی ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں تم اپنے بیٹوں کو، ہم اپنی عورتوں کو بلائیں تم اپنی عورتوں کو اور ہم اپنے نفسوں کو بلائیں تم اپنے نفسوں کو پھر اللہ کے سامنے گڑگڑائیں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت کریں)۔ (61)

حکم الٰہی کی پیروی کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تقریب میں شرکت کے لیے اپنے خاص اور لائق اہل بیت کا تعارف کرایا۔ یہ قصہ نیشابوری مستدرک حاکم میں مکمل مستند اور معتبر کے ساتھ درج ذیل ہے:

« 4719 – أخبرنی جعفر بن محمد بن نصیر الخلدی ببغداد ثنا موسى بن هارون ثنا قتیبة بن سعید ثنا حاتم بن إسماعیل عن بکیر بن مسمار عن عامر بن سعد عن أبیه قال: لما نزلت هذه الآیة { ندع أبناءنا و أبناءکم و نساءنا و نساءکم و أنفسنا و أنفسکم } دعا رسول الله صلى الله علیه و سلم علیا و فاطمة و حسنا و حسینا رضی الله عنهم فقال: اللهم هؤلاء أهلی. هذا حدیث صحیح على شرط الشیخین و لم یخرجاه. تعلیق الذهبی قی التلخیص: على شرط البخاری ومسلم»

سعد بن ابی وقاص کہتا ہیں: جب مباہلہ کی آیت « یعنی فقل تعالوا ندع ابناءنا و ابناءکم …» نازل ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی، فاطمہ، حسن اور حسین کو بلایا اور فرمایا: اے اللہ یہ میری اهل ہیں۔

حاکم نشابوری، محمد بن عبدالله، المستدرک على الصحیحین، ج 3، ص: 163، دار الکتب العلمیة – بیروت، الطبعة الأولى، 1411 – 1990، تحقیق: مصطفى عبد القادر عطا، عدد الأجزاء: 4

مندرجہ بالا سند کے علاوہ سنن الترمذی نے بھی اس حقیقت کو اس طرح شامل کیا ہے:

2999 – حدثنا قتیبة حدثنا حاتم بن إسماعیل عن بکیر بن مسمار هو مدنی ثقة عن عامر بن سعید بن أبی وقاص عن أبیه قال: لما أنزل الله هذه الآیة { ندع أبناءنا وأبناءکم } دعا رسول الله صلى الله علیه و سلم علیا و فاطمة و حسنا و حسینا فقال اللهم هؤلاء أهلی. قال أبو عیسى هذا حدیث حسن صحیح. قال الشیخ الألبانی: صحیح الإسناد

سعد بن ابی وقاص کہتا ہیں: جب مباہلہ کی آیت نازل ہوئی:« یعنی فقل تعالوا ندع ابناءنا و ابناءکم …» رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی، فاطمہ، حسن اور حسین کو بلایا اور فرمایا: اے اللہ یہ میری اهل ہیں۔

ترمذی سلمی، محمد بن عیسی، الجامع الصحیح سنن الترمذی، ج 5، ص: 225، دار إحیاء التراث العربی – بیروت، تحقیق: أحمد محمد شاکر وآخرون، عدد الأجزاء: 5، الأحادیث مذیلة بأحکام الألبانی علیها

مباہلہ میں اہل بیت بالخصوص حضرت علی علیہ السلام کی موجودگی صحابہ کے درمیان اس طرح یقینی رہی ہے کہ ان میں سے بعض نے بنی امیہ کی دشمنی کی مخالفت میں اس منفرد فضیلت پر استدلال کیا۔ صحیح مسلم میں حضرت علی علیہ السلام اور سعد بن ابی وقاص پر لعنت کرنے کے حکم کا قصہ یوں درج ہے:

« 32 – ( 2404 ) حدثنا قتیبة بن سعید ومحمد بن عباد ( وتقاربا فی اللفظ ) قالا حدثنا حاتم (وهو ابن إسماعیل ) عن بکیر بن مسمار عن عامر بن سعد بن أبی وقاص عن أبیه قال: أمر معاویة بن أبی سفیان سعدا فقال ما منعک أن تسب أبا التراب؟ فقال أما ذکرت ثلاثا قالهن له رسول الله صلى الله علیه و سلم فلن أسبه لأن تکون لی واحدة منهن أحب إلی من حمر النعم سمعت رسول الله صلى الله علیه و سلم یقول له خلفه فی بعض مغازیه فقال له علی یا رسول الله خلفتنی مع النساء والصبیان؟ فقال له رسول الله صلى الله علیه و سلم أما ترضى أن تکون منی بمنزلة هارون من موسى إلا أنه لا نبوة بعدی وسمعته یقول یوم خیبر لأعطین الرایة رجلا یحب الله ورسوله ویحبه الله ورسوله قال فتطاولنا لها فقال ادعوا لی علیا فأتى به أرمد فبصق فی عینه ودفع الرایة إلیه ففتح الله علیه ولما نزلت هذه الآیة فقل تعالوا ندع أبناءنا وأبنائکم [ 3 / آل عمران / 61 ] دعا رسول الله صلى الله علیه و سلم علیا وفاطمة وحسنا وحسینا فقال اللهم هؤلاء أهلی»

سعد بن ابی وقاص بیان کرتا ہیں: معاویہ نے سعد کو حکم دیا کہ حضرت علی علیہ السلام کو تلوار سے قتل کر دو! تمہیں ابو تراب کو برا بھلا کہنے سے کس چیز نے روکا؟ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت علی کے بارے میں جو تین فضیلتیں سنی ہیں، انہوں نے مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرنے سے روکا ہے اور میں کبھی آپ کی توہین نہیں کروں گا۔ اگر ان میں سے ایک میرے لیے ہوتا تو یہ سرخ بالوں والے اونٹ سے زیادہ مقبول ہوتا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی بعض لڑائیوں میں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ آپ نے انہیں اپنا جانشین مقرر کیا تھا: کیا آپ اس بات پر مطمئن نہیں ہیں کہ میری نسبت آپ کی عزت و مرتبہ وہی ہے جو ہارون علیہ السلام کا موسیٰ علیہ السلام کے لیے ہے، سوائے اس کے کہ اس میں کوئی نبوت شامل نہیں؟ اور میں نے فتح خبیر کے دن یہ کہتے ہوئے سنا: کل میں علم کسی ایسے شخص کو دوں گا جو خدا اور رسول خدا سے محبت کرتا ہے، اور خدا اور رسول خدا بھی اس سے محبت کرے! ہم سب اپنے جھنڈے آگے بڑھا رہے تھے یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: علی علیہ السلام کہاں ہیں؟ وہ علی (علیہ السلام) کو اس وقت لائے جب وہ آنکھ کی تکلیف میں مبتلا تھے۔ آپ نے اپنا لعاب دہن آپ کی آنکھوں پر چھڑک دیا اور آپ کی آنکھیں ٹھیک ہوگئیں، پھر آپ نے جھنڈا آپ کو دے دیا اور خدا نے علی علیہ السلام کے ہاتھوں فتح حاصل کی۔ جب مباہلہ کی آیت نازل ہوئی « یعنی فقل تعالوا ندع ابناءنا و ابناءکم …» رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی، فاطمہ، حسن اور حسین کو بلایا اور فرمایا: "اے اللہ، یہ میری اهل ہیں۔”

مسلم بن الحجاج أبو الحسین، القشیری النیسابوری، صحیح مسلم، ج 4، ص:1870، ناشر: دار إحیاء التراث العربی، بیروت، تحقیق: محمد فؤاد عبد الباقی، عدد الأجزاء: 5

دلیل کا تخمینہ:

مقدمه اول: مباہلہ کی آیت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مباہلہ میں اپنی عورتوں کو پیش کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔

مقدمه دوم: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی حکم الٰہی کی خلاف ورزی نہیں کی۔ مباہلہ میں شرکت کے لیے آنے کے لیے آپ نے اپنے اہل بیت کا تعارف کرایا جس میں "انفس”، "ابنا” اور "نساء” شامل ہیں، جن میں خصوصی طور پر حضرت علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیہما السلام شامل تھے۔

مقدمه سوم: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی دوسرے صحابہ کو ” انفس کے عنوان میں” "اہل بیت” کے لقب میں شامل نہیں کیا۔ اس کے علاوہ، اس نے اپنی ازواج اور بیویوں میں سے کسی کو "نساء” میں اور اس بنا پر اہل بیت کے عنوان میں بھی شامل نہیں کیا۔ نیز امام حسن اور حسین علیہما السلام کے علاوہ کوئی بھی اولاد – جیسا کہ امامہ اور… – ” ابناء” اور اس کے مطابق اہل بیت میں شامل نہیں تھا۔

نتیجہ: آیت مباہلہ سے متعلق اہل بیت کے تعارف میں حکم الٰہی اور پیغمبرانہ تشریح پر توجہ دینے سے معلوم ہوتا ہے کہ مباہلہ اور آیت تطھیر میں ازواج کی کوئی موجودگی نہیں ہے۔

3/6۔ روایت جو«نزلت فی خمسة» کے اوپر دلالت کرتا ہے

ایک اور حدیث جو آیت تطہیر سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کی رخصتی پر دلالت کرتی ہے۔ یہ ابو سعید خدری کی روایت ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشہور صحابیوں میں سے ایک ہیں۔ طبرانی آیت تطہیر کی تفسیر میں اس عظیم صحابی کے بارے میں نقل کرتے ہیں:

3456 – حدثنا الحسن بن أحمد بن حبیب الکرمانی الطرسوسی نا أبو الربیع الزهرانی نا عمار بن محمد عن سفیان الثوری عن داود أبی الجحاف عن عطیة العوفی عن أبی سعید الخدری فی قوله إنما یرید الله لیذهب عنکم الرجس أهل البیت قال نزلت فی خمسة فی رسول الله وعلی وفاطمة والحسن والحسین لم یرو هذا الحدیث عن سفیان الثوری إلا عمار بن محمد ولم یروه عن عمار بن محمد إلا أبو الربیع الزهرانی وسلیمان الشاذکونی

عطیہ عوفی ابو سعید خدری سے روایت کرتی ہیں کہ آیت "انما یرید اللہ…” پانچ لوگوں پر نازل ہوئی ہے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، حضرت علی، فاطمہ، حسن، حسین، سلام اللہ علیہا!

طبرانی، سلیمان بن احمد، المعجم الأوسط، ج3، ص:380، دار الحرمین – القاهرة ، 1415، تحقیق : طارق بن عوض الله بن محمد , عبد المحسن بن إبراهیم الحسینی، عدد الأجزاء : 10

اندلس ابوحیان بھی مذکورہ بالا روایت کو یوں بیان کرتا ہے:

وقال أبو سعید الخدری: هو خاص برسول الله وعلی وفاطمة والحسن والحسین. وروی نحوه عن أنس وعائشة وأم سلمة

ابو سعید خدری آیت تطہیر کی تفسیر میں کہتے ہیں: یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیہم السلامکے لیے مخصوص ہے ۔ اس کو انس بن مالک، عائشہ اور ام سلمہ نے بھی روایت کیا ہے۔

ابوحیان اندلسی، محمد بن یوسف، تفسیر البحر المحیط، ج7، ص: 224، دار الکتب العلمیة – لبنان/ بیروت – 1422 هـ – 2001 م، الطبعة: الأولى، عدد الأجزاء / 8

مذکورہ بالا روایت کا مفہوم ازواج کو خارج کیے جانے کے بارے میں واضح ہے۔

کیونکہ اول: لفظ "نزلت فی خمسة” آیت کے نزول کی محدودیت کی طرف اشارہ کرتا ہے پانچوں لوگوں پر۔

دوم: عبارت "رسول خدا، علی، فاطمہ، الحسین اور حسین علیہم السلام کے لیے مخصوص” کا جملہ ان خاص لوگوں کے لیے آیت کی خصوصیت اور خاصیت پر دلالت کرتا ہے۔

واضح رہے کہ اس موضوع کو انس بن مالک، عائشہ اور ام سلمہ نے بھی روایت کیا ہے، اس کثرت کے باوجود نقل شدہ روایات کی سند کی جانچ پڑتال کی ضرورت نہیں۔

3/7۔ "الصلاة یا اهل البیت” کے معنی کے ساتھ روایات

ایک اور دلیل جو آیت تطہیر میں حضرت علی علیہ السلام، حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا اور امام حسن و حسین علیہما السلام پر اہل بیت کی اجارہ داری پر دلالت کرتی ہے۔ ایسی روایات موجود ہیں جو آیت تطھیر کی مثالوں کی وضاحت میں خدا کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خصوصی سلوک کو ظاہر کرتی ہیں۔ حکیم نیشابوری اپنی صحیح میں نیشابوری کے مسلمان مردوں کے حالات پر مبنی ایک مستند دستاویز کے ساتھ انس بن مالک سے نقل کرتے ہیں:

«4748 – حدثنا أبو بکر محمد بن عبد الله الحفید ثنا الحسین بن الفضل البجلی ثنا عفان بن مسلم ثنا حماد بن سلمة أخبرنی حمید و علی بن زید عن أنس بن مالک رضی الله عنه : أن رسول الله صلى الله علیه و سلم کان یمر بباب فاطمة رضی الله عنها ستة أشهر إذا خرج لصلاة الفجر یقول الصلاة یا أهل البیت إنما یرید الله لیذهب عنکم الرجس أهل البیت و یطهرکم تطهیرا هذا حدیث صحیح على شرط مسلم و لم یخرجاه تعلیق الذهبی قی التلخیص : سکت عنه الذهبی فی التلخیص»

علی بن زید انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں کہ: بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چھ مہنہ تک ہر روز صبح کی نماز کے وقت ۔ آپ فاطمہ زہرا کے گھر کے پاس سے گزرتے تھے اور فرماتے تھے: نماز کا وقت ہو گیا اے اہل بیت! درحقیقت خدا نے تم سے تمام نجاستوں کو دور کرنے اور تمہیں پاک کرنے کا ارادہ کیا ہے۔

حاکم نشابوری، محمد بن عبدالله، المستدرک على الصحیحین، ج 3، ص: 172، دار الکتب العلمیة – بیروت، الطبعة الأولى، 1411 – 1990، تحقیق: مصطفى عبد القادر عطا، عدد الأجزاء: 4

اس کے علاوہ ترمذی نے بھی مذکورہ روایت کو اپنی سنن میں نقل کیا ہے اور اس کی سند کی تصریح کی ہے:

3206 – حدثنا عبد بن حمید حدثنا عفان بن مسلم حدثنا حماد بن سلمة أخبرنا علی بن زید عن أنس بن مالک : أن رسول الله صلى الله علیه و سلم کان یمر بباب فاطمة ستة أشهر إذا خرج إلى صلاة الفجر یقول الصلاة یا أهل البیت { إنما یرید الله لیذهب عنکم الرجس أهل البیت ویطهرکم تطهیرا } قال هذا حدیث حسن غریب من هذا الوجه إنما نعرفه من حدیث حماد بن سلمة. قال وفی الباب عن أبی الحمراء و معقل بن یسار و أم سلمة

علی بن زید انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں کہ: بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چھ مہنہ تک ہر روز صبح کی نماز کے وقت ، آپ فاطمہ زہرا کے گھر کے پاس سے گزرتے تھے اور فرماتے تھے: نماز کا وقت ہو گیا اے اہل بیت! درحقیقت، خدا نے تم سے تمام نجاست کو دور کرنے اور تمہیں پاک و پاکیزہ بنانے کا ارادہ کیا ہے۔

ترمذی سلمی، محمد بن عیسی، الجامع الصحیح سنن الترمذی، ج 5، ص: 352، دار إحیاء التراث العربی – بیروت، تحقیق: أحمد محمد شاکر وآخرون، عدد الأجزاء: 5، الأحادیث مذیلة بأحکام الألبانی علیها

یہ روایت احمد بن حنبل کی مسند میں بھی موجود ہے:

13754 – حدثنا عبد الله حدثنی أبی ثنا أسود بن عامر ثنا حماد بن سلمه عن علی بن زید عن أنس بن مالک : أن النبی صلى الله علیه و سلم کان یمر ببیت فاطمة ستة أشهر إذا خرج إلى الفجر فیقول الصلاة یا أهل البیت { إنما یرید الله لیذهب عنکم الرجس أهل البیت ویطهرکم تطهیرا } تعلیق شعیب الأرنؤوط : إسناده ضعیف لضعف علی بن زید : وهو ابن جدعان

علی بن زید انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں کہ: بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چھ مہنہ تک ہر روز صبح کی نماز کے وقت، آپ فاطمہ زہرا کے گھر کے پاس سے گزرتے تھے اور فرماتے تھے: نماز کا وقت ہو گیا اے اہل بیت! درحقیقت خدا نے تم سے تمام نجاستوں کو دور کرنے اور تمہیں پاک کرنے کا ارادہ کیا ہے۔

أحمد بن حنبل، أبو عبدالله الشیبانی، مسند الإمام أحمد بن حنبل، ج 3 ص: 259، مؤسسة قرطبة، القاهرة، عدد الأجزاء: 6، الأحادیث مذیلة بأحکام شعیب الأرنؤوط علیها

واضح رہے کہ مستدرک الحاکم اور ترمذی کی روایات میں روایت کی تصحیح کے مطابق ابن جدعان کی سند کی وجہ سے روایت میں ترمیم کی کوئی وجہ نہیں ہے اور اس سے روایت کی سند باطل نہیں ہوتی۔

مذکورہ بالا روایت اہل سنت کے پرانے تفسیری منابع میں بھی شامل ہے۔ ابن ابی زمنین ابی الحمرا سے روایت کرتے ہیں:

«یحیى : عن یونس بن أبی إسحاق ، عن أبی داود ، عن أبی الحمراء ، قال: رابطت المدینة سبعة أشهر مع النبی علیه السلام ، وسمعت النبی إذا طلع الفجر جاء إلى باب علی وفاطمة فقال : الصلاة ثلاثا إنما یرید الله لیذهب عنکم الرجس أهل البیت ویطهرکم تطهیرا»

ابی حمرہ کہتے ہیں کہ میں نے مدینہ میں سات مہینے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لشکر میں گزارے اور جب بھی صبح کی نماز کا وقت ہوتا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی اور فاطمہ سلام اللہ علیہا کے دروازے پر تشریف لاتے اور تین مرتبہ فرماتے: نماز کا وقت ہے، بے شک خدا نے چاہا ہے کہ آپ اہل بیت سے تمام نجاستیں دور کرے اور آپ کو پاک کرے۔

ابن ابی زمنین، محمد بن عبدالله، تفسیر القرآن العزیز، ج3، ص: 399، سنة الولادة 324هـ/ سنة الوفاة 399ه ، تحقیق، أبو عبد الله حسین بن عکاشة – محمد بن مصطفى الکنز، الناشر الفاروق الحدیثة، سنة النشر 1423هـ – 2002م، مکان النشر مصر/ القاهرة، عدد الأجزاء 5

دلیل کا تخمینہ:

پہلا نکتہ: مندرجہ بالا روایتوں کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل، اہل بیت علیہم السلام کا تعارف کروانے میں مسلسل تھا اور اس میں چھ مہینے سے زیادہ عرصہ شامل تھا۔ یہ تکرار اور تعارف کی قسم جو بعض لوگوں کے لیے منفرد تھی، اس بات کی علامت ہے کہ اہل بیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں صرف یہی خاص لوگ ہیں۔

دوسرا نکتہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اہل بیت کا عملی تعارف، آیت تطھیر کی ان کی عملی تفسیر سے متعلق ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ آیت کریمہ میں اہل بیت کی خصوصی وضاحت اور مثالوں کے مقام پر ہے۔

تیسرا نکتہ: اس قسم کا عملی تعارف جو مندرجہ بالا مخصوص لوگوں کے لیے تجویز کیا گیا ہے، ازواج میں سے کسی کے لیے ایک بار بھی نہیں بتایا گیا۔ اگر آیت تطھیر میں اس نبی کی ازواج اہل بیت کی مثال کے اندر ہوتیں تو ان کے ساتھ ایسا سلوک کیا جانا چاہیے تھا اور اس کی اطلاع دی جانی چاہیے تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار، ازواج کے جھگڑے کی جگہ سے نکل جانے کی علامت ہے۔

3/8۔ . "اہل بیت” کی تفسیر "عترت” سے

زیر بحث مسئلہ کا ایک اور مثبت ثبوت وہ روایت ہے جو اہل بیت کو عترت کے فعل کے ساتھ بیان کرتی ہے۔ شہر بن حوشب ام سلمہ سے روایت کرتے ہیں:

947 – حدثنا علان بن عبد الصمد حدثنا القاسم بن دینار ثنا عبید الله بن موسى ثنا إسماعیل بن نشیط قال سمعت شهر بن حوشب قال : أتیت أم سلمة أعرفها على الحسین فقالت لی فیما حدثتنی : أن رسول الله صلى الله علیه و سلم کان فی بیتی یوما وأن فاطمة جاءته بسخیة فقال : ( انطلقی فجیئی بزوجک أو ابن عمک وابنیک ) فانطلقت فجاءت بعلی و حسن و حسین فأکلوا من ذلک الطعام ورسول الله صلى الله علیه و سلم على منامة لنا وتحته کساء خیبری فأخذ الکساء فجللهم إیاه ثم رفع یدیه إلى السماء ثم قال : ( اللهم هؤلاء عترتی وأهلی فأذهب عنهم الرجس وطهرهم تطهیرا ) فقالت أم سلمة : وأنا من أهل بیتک ؟ فقال : ( وأنت إلی خیر )

شہر بن حوشب بیان کرتے ہیں کہ میں ام سلمہ کے پاس امام حسین علیہ السلام کے بارے میں جاننے کے لیے گیا۔ اس نے مجھے اپنی حدیث کے ایک حصے میں بتایا: درحقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن میرے گھر میں تشریف فرما تھے، حضرت فاطمہ گرم کھانا لے کر آپ کے پاس آئیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جاؤ اور اپنے شوہراور اپنے دو بچوں کے ساتھ میرے پاس آؤ! وہ گیا اور امام علی، امام حسن اور حسین علیہما السلام کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور سب نے اس کھانے میں سے کھایا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری آرام گاہ میں تھے اور خیبری کے کمبل کے نیچے تھے، آپ نے ان کمبلوں کو لے کر اس سے ڈھانپ لیا، پھر اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے اور فرمایا: اے اللہ یہ میری امت اور میرے اہل و عترت ہیں، ان سے ہر قسم کی نجاست دور کر اور انہیں پاک کر! ام سلمہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ آپ کے اہل بیت کون ہیں؟ اس نے کہا: تم خیر پر ہو!

طبرانی، سلیمان بن احمد، المعجم الکبیر، ج23، ص: 396، مکتبة العلوم والحکم – الموصل، الطبعة الثانیة ، 1404 – 1983، تحقیق : حمدی بن عبدالمجید السلفی

عربی لفظ اور استعمال میں عترت کے معنی بالکل واضح ہیں۔ ابن فارس معجم المقایس اللغة میں لکھتے ہیں:

« العین و التاء و الراء … هم أقرباؤه، مِن ولدِه و ولدِ ولده و بنى عمِّه. هذا قولُ الخلیل فى اشتقاق‏ العِتْرَة …»

اس کا ایک مفہوم یہ ہے کہ کسی شخص کے رشتہ داروں کو اس کے بچے، اولاد، اور چچازاد کہا جاتا ہے اورخلیل کا یہ الفاظ اشتقاق عترت ہیں۔

ابن فارس، احمد بن فارس، معجم مقاییس اللغه، ج‏4 ؛ ص217، قم، چاپ: اول، 1404 ه.ق.

خلیل بن احمد فراہیدی نے العین میں بھی اسی معنی کو ذکر کیا ہے جیسا کہ اوپر ہے:

«و عِتْرَة الرجل: أصله. و عِتْرَة الرجل أقرباؤه من ولده‏ و ولد ولده و بنی عمه دِنْیا.»

عترت انسان کا اصلا اور اس کی ریشہ ہے اور آدمی کے رشتہ دار اس کے بچوں سے ہوتے ہیں اور اس کے بچوں کے بچے اور اس کے چچازاد نیچے ہوتے ہیں۔

فراهیدى، خلیل بن احمد، کتاب العین، ج‏2 ؛ ص66، قم، چاپ: دوم، 1409 ه.ق.

عترت کے معنی کے اعتبار سے یہ واضح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج عترت کے معنی میں شامل نہیں ہیں۔ عربی فصیح استعمال میں سے کسی شخص کی شریک حیات کے لیے عترت کا استعمال عام نہیں رہا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اس قید سے معلوم ہوتا ہے کہ آیت تطھیر کے سنجیدہ معنی میں بیویاں شامل نہیں ہیں۔

نتیجہ

اس مضمون کے عقلی دلائل پر توجہ دینے سے قرآن اور بالخصوص روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات کسی بھی اعتبار سے قبول نہیں کی جا سکتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ازواج ایت تطھیر میں داخل ہے۔

کیونکہ بہت سے عقلی دلائل موجود ہیں جیسے کہ منشائے الٰہی میں تضاد اور تھافت، رضائے الٰہی کا تکوینی ہونا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کو آیت کے مفاد پر کوئی اعتراض نہیں ہے اور نواصب کی طرف سے ازواج کو اختصاص دینا دلالت کرتا ہے کہ ازواج ایت تطھیر میں شامل نہیں ہے۔

عقلی شواہد کے علاوہ بے شمار قرآنی شواہد موجود ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ازواج رسول خدا ایت تطھیر سے خارج ہے۔ آیت تطهیر کے دائرہ سے ازواج کو خارج کرنے کی شاید سب سے اہم اور مضبوط وجہ آیت شریفہ کی نبوی تفسیر ہے۔

اس مضمون میں ہم نے مستند اور صحیح سنی روایات کے سات فرقوں کا حوالہ دیا ہے جو تطھیر کی معزز آیت سے واضح طور پر ازواج کی رخصتی پر دلالت کرتی ہیں۔

تمام عقلی شواہد، قرآنی دلائل اور بالخصوص روایتی شواہد پر دھیان دینا ایک محقق کو فکری تعصب کے بغیر اس نتیجے پر پہنچاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کسی بھی صورت میں آیت تطهیر میں شامل نہیں ہے۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

امیر المومنین (علیہ السلام)

عنده علم الكتاب” فقط امام علی علیہ السلام”

بسم اللہ الرحمن الرحیم

قارئین ایک محترم بھائی کی جانب سے مسلسل سورہ رعد کی آیت 43 کہ جس میں ارشاد ہوتا ہے کہ وَيَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَسْتَ مُرْسَلًا ۚ قُلْ كَفَىٰ بِاللَّهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ وَمَنْ عِندَهُ عِلْمُ الْكِتَابِ

ترجمہ : اور یہ ک اف- ر کہتے ہیں کہ آپ رسول نہیں ہیں کہہ دیجئے کہ ہمارے اور تمہارے درمیان رسالت کی گواہی کے لئے خدا کافی ہے اور وہ شخص کافی ہے جس کے پاس پوری کتاب کا علم ہے.

اس آیت میں عنده علم الكتاب یعنی وہ جس کے پاس پوری کتاب کا علم ہے وہ کون ہیں کی تفسیر جاننا چاہتے ہیں ۔

شیعہ منابع میں تو بلا شک اس سے مراد حضرت امیر المومنین امام علی علیہ السلام کی ذات مقدس ہے جس پر فقط ایک حدیث سے استدلال کر کے اہل سنت منابع کی طرف آؤں گا کیونکہ اگر شیعہ روایات لکھنے بیٹھا تو جواب کافی طولانی ہو جا ئے گا ۔

اس آیت کی تفسیر سے متعلق جب امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال ہوا تو آپ نے فرمایا

الذي عنده علم الكتاب هو أمير المؤمنين عليه السلام .

وہ کہ جسکے پاس کتاب (قرآن) کا علم ہے، وہ امير المؤمنين علی (ع) ہیں۔

تفسير القمي ، ج 1 ، ص 367

قارئین آپ سب جانتے ہی ہیں کہ کس طرح سے غیروں نے ہر فضائل امیرالمومنین علیہ السلام کو توڑ مروڑ کر کبھی اپنے شیخین کے گلے میں باندھنے کی کوشش کی تو کہیں شیخین پر بس نہیں چلا تو اسے کسی غیر معروف صحابی سے جوڑ دیا۔

لیکن ان خائن کارستانیوں کے باوجود بھی وہ اہل بیت کے فضائل کو لے کر ہمیشہ منہ کی کھاتے آئے ہیں کیونکہ جن کے ذکر کو خدا خود بلند کرے اسے کوئی بھی اپنی پست پھونکوں سے بھجا نہیں سکتا۔

آئیے دیکھتے ہیں کہ اس آیت کے ساتھ ان امیہ کی چوسی ہڈیوں نے کیا کرنے کی کوشش کی ۔۔

قارئین کرام آپ یقین مانیں گے کہ اس عظیم آیت میں موجود امام علی کی جگہ مکتب خلفاء کے ناہنجارو نے تاریخ میں مشکوک بنی قینقاع کاایک یہودی عالم جو کہ شہادت رسول اکرم سے فقط دو سال پہلے اسلام لایا اس کو فضیلت کی مالا پہناکر اپنے نجس نطفوں پر گواہ بنا کر اپنے ہی چوتھے خلیفہ کی فضیلت پر ڈاکہ مارا..

قارئین یہ وہی مبینہ صحابی ہے جس کو دشمنِ علی ہونے پر خلفاء کی جانب سے اپنے مشیروں میں بڑا مقام دیا گیا اور عثمان بن عفان تو اس کا خاص معتقد تھا اسی وجہ سے اس نے امیرالمومنین علیہ السلام کی ظاہری خلافت کو بھی قبول نہ کیا اور جا کر معاویہ کے دسترخوان پر حرام خوری جاری رکھی.

اس نے اپنی خوبصورت بیوی کو فقط اس لیے طلاق دی تاکہ معاویہ اپنے نجس بیٹے یزید کی شادی اس سے کروا سکے. اسی وجہ سے بنی امیہ نے ابن سلام کی سیرت اور صفات کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے اقرار کی وجہ سے اس کو فضل و کرم کا مالک مانتے تھے اور قرآن کریم کی آیات کے نزول کو ان کی شان میں شمار کیا ہے.

المختصر کہ بنی امیہ کی طرف سے عبداللہ بن سلام جیسے یہودیوں کی فضیلت اور علمی حیثیت کے بارے میں جو احادیث شائع ہوئی ہیں ان میں یہ حدیث بھی ہےکہ چار لوگوں سے علم حاصل کرو : ابی الدرداء ، سلمان ، ابن مسعود اور عبداللہ بن سلام..

یہ تھا مختصر تعارف اب آگے چلتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کیا یہ امیہ کے پالتو جانور سورہ رعد کی اس آیت کو اس یہودی کے فضائل میں شمار کرانے میں کامیاب ہو سکے یا نہیں..

اہل سنت منابع میں سورہ رعد کی تفسیر..

پہلی روایت…

٣٩٣٩٨ – عن أبي عمر زاذان، عن ابن الحنفية، في قوله: {ومَن عندَه علم الكتاب}، قال: هو علي بن أبي طالب۔

ترجمہ : ابن عباس اور ابن حنفيہ سے اسی آيت کے بارے میں سوال ہوا تو انھوں نے کہا: جسکے پاس کتاب کا علم ہے، وہ علی ابن ابی طالب ہیں۔
٣٩٤٠٤ – عن أبي مريم، حدثني عبد الله بن عطاء، قال: كنتُ جالسًا مع أبي جعفر في المسجد، فرأيت ابن عبد الله بن سلام جالِسًا في ناحيةٍ، فقلتُ لأبي جعفر: زعموا أنّ الذي عنده علم الكتاب عبد الله بن سلام. فقال: إنّما ذلك علي بن أبي طالب

ترجمہ : ابو مریم سے مروی ہے کہ مجھ سے عبداللہ بن عطا نے بیان کیا، انہوں نے کہا: میں ابو جعفر کے ساتھ مسجد میں بیٹھا ہوا تھا، میں نے ابن عبداللہ بن سلام کو ایک طرف بیٹھے ہوئے دیکھا، تو میں نے ابو جعفر سے کہا: اس نے دعویٰ کیا ہے کہ جس کے پاس کتاب کا علم تھا وہ عبداللہ بن سلام ہے۔ تو انہوں نے فرمایا: وہ علی بن ابی طالب ہیں۔

حوالہ : كتاب موسوعة التفسير المأثور، جلد 12، صفحہ 171

یہی حدیث مزید سند سے ثعلبی نے بھی اپنی تفسیر میں نقل کی ہے :

أخبرنا أبو بكر محمد بن الحسين السميعي بحلب حدثني الحسين بن إبراهيم بن الحسين الجصاص. أخبرنا الحسين بن الحكم حدثنا سعيد بن عثمان عن أبي مريم وحدثني بن عبد الله ابن عطاء قال: كنت جالسا مع أبي جعفر في المسجد فرأيت ابن عبد الله بن سلام جالسا في ناحية فقلت لأبي جعفر: زعموا أنّ الذي عِنْدَهُ عِلْمُ الْكِتابِ عبد الله بن سلام. فقال: إنما ذلك علي بن أبي طالب (رضي الله عنه)

حوالہ : الكشف والبيان عن تفسير القرآن [الثعلبي]، جلد٥، ص ٣٠٣

اور اب مسلمانوں کے پہلے خلیفہ ابوبکر کی نسل سے اہل سنت کے بڑے عالم امام ابن جوزی جس کے متعلق ذھبی نے لکھا کہ اس کے ہاتھ پر ایک لاکھ لوگ تائِب ہوئے اور بیس ہزار غیرمسلموں نے اسلام قبول کیا اور اسے محدث، مفسر اور علامہ کے القاب سے نوازا۔

یہی ابن جوزی اپنے بارے میں لکھتا ہے کہ میرے زمانے تک رسول اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہ وسلَّم سے روایت شُدہ کوئی بھی حدیث میرے سامنے بیان کی جائے تو میں بتا سکتا ہوں کہ یہ صحت و ضعف کے کس درجے پر ہے۔

تو قارئین اہل سنت کے اسی جلیل القدر امام سے بھی یہی روایت مروی ہے ملاحظہ فرمائیں:

أحمد بن مفضل حدثنا مندل بن علي عن إسماعيل بن سلمان عن أبي عمر زاذان عن ابن الحنيفة وَمَنْ عِنْدَهُ عِلْمُ الْكِتابِ قال: هو علي بن أبي طالب (رضي الله عنه)

ترجمہ : احمد بن مفضل سے مروی ہے کہ جنابِ حنفیہ نے فرمایا جس کے پاس کتاب کا علم ہے وہ علی ابن ابی طالب ہیں ۔

حوالہ : زاد المسير لابن الجوزي، جلد٤، ص ٢٥٢

اب اہل سنت کے دوسرے بڑے عالم امام قرطبی کہ جس کے متعلق ذہبی لکھتا ہے: آپ مختلف فنون میں نہایت تامہ رکھنے والے اور علم میں متبحر امام ہیں۔ آپ کی بڑی مفید تصانیف ہیں جو آپ کے کثرت علم اور زیادتی فضل پر دلالت ہیں۔ آپ کی تفسیر کو شہرت نصیب ہوئی یہ تفسیر اپنے معنی میں کامل ہے۔ اس میں ایسی چیزیں ہیں جو آپ کی امامت، ذکاوت اور کثرت علم پر دال ہیں۔

تو قرطبی نے بھی اسی حدیث کو اپنی تفسیر الجامع لاحکام القرآن کی جلد 9 کے صفحہ 336 پر بیان کیا ہے

اسی حدیث کا تیسرا طرق بھی ہے جس کو ایک اور اہل سنت کے بڑے عالم امام حسکانی کہ جس کے بارے میں ذھبی نے لکھا:

الحسكاني القاضى المحدث أبو القاسم عبيد الله بن عبد الله بن احمد بن محمد بن احمد بن محمد بن حسكان القرشى العامري النيسابوري الحنفي الحاكم ويعرف بابن الحذاء الحافظ شيخ متقن ذو عناية تامة بعلم الحديث

کہ حسکانی صاحب، قاضی ، محدث ، حافظ اور علم الحدیث میں گہری دلجسپی رکھنے والے ایک ماہر شیخ تھے ۔۔

نوٹ : یہاں ذھبی کا قول اس لیے لکھا کہ اب اہل سنت حضرات ان کو بھی فضائل اہل بیت بیان کرنے کے جرم میں شیعوں کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں ۔

امام حسکانی نے بھی اپنی شہرہ آفاق کتاب شواهد التنزيل کی جلد اول کے صفحہ ٤٠١ پر یہی روایت نقل کی ہے ۔

اسی طرح اہل سنت کے ایک عالم ابن مغازلی جوکہ شافعیوں کے بڑے آئمہ میں سے ایک ہیں وہ لکھتے ہیں :

٣٥٨ – أخبرنا أحمد بن محمد بن طاوان إذناً أن أبا أحمد عمر بن عبد الله بن شوذب أخبرهم قال: حدثنا محمد بن جعفر بن محمد العسكري، حدثنا محمد بن عثمان، حدثنا إبراهيم بن محمد بن ميمون، حدثنا علي بن عابس قال: دخلت أنا وأبو مريم على عبد الله بن عطاء قال أبو مريم: حدث علياً بالحديث الذي حدثثني عن أبي جعفر، قال: كنت عند أبي جعفر جالساً إذ مر عليه ابن عبد الله بن سلام قلت: جعلني الله فداك هذا ابن الذي عنده علم من الكتاب، قال: لا، ولكنه صاحبكم علي بن أبي طالب الذي نزلت فيه آيات من كتاب الله عز وجل {الذي عنده علمٌ من الكتاب}، {أفمن كان على بينةٍ من ربه ويتلوه شاهدٌ منه}، {إنما وليكم الله ورسوله}، الآية.

حوالہ : كتاب مناقب لابن المغازلي، ص 380، رقم الحديث: 358

مزے کی بات یہ ہے کہ مغازلی نے اس روایت کو إنما وليكم الله ورسوله کے ضمن میں لکھا ہے ۔

امام ابن عطیہ نے بھی اس آیت مقصود امیرالمومنین علیہ السلام کو لیا ہے :

أبي بن كعب: ٣/ ٣١٩ ٤٣: وَمَنْ عِنْدَهُ عِلْمُ الْكِتابِ: ومن عنده: علي بن أبي طالب- أبيّ بن كعب- ابن عباس: ٣/ ٣٢٠ ومن عنده علم الكتاب: علي بن أبي طالب-

حوالہ : ابن عطية المحرر الوجيز في تفسير الكتاب العزيز، جلد 6، ص 57

یہ امیہ کے پالتو کتے کچھ بھی کر لیں لیکن کبھی بھی اہل بیت علیہم السلام کے فضائل پر ہمارے ہوتے ہوئے ڈاکہ مارنے پر کامیاب نہیں ہو سکتے کیونکہ فقط یہی ایک آیت نہیں بلکہ اس آیت میں امیرالمومنین علیہ السلام پر دیگر اہل سنت احادیث سے بھی تائید ہوتی ہے.

نمونے کے طور پر کچھ بیان کیے دیتا ہوں..

ابن طفيل نے ایک روايت کو امير المومنين علی علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ:

ابن يونس أخبرنا أبو بكر بن عياش عن نصير عن سليمان الأحمسي عن أبيه قال قال علي عليه السلام : و الله ما نزلت آية إلا و قد علمت فيما نزلت و أين نزلت و علي من نزلت إن ربي و هب لي قلبا عقولا و لسانا طلقا .

خدا کی قسم میں ہر آیت کے بارے میں جانتا ہوں کہ وہ کس کے بارے میں اور کہاں اور کس پر نازل ہوئی، بے شک میرے پروردگار نے مجھے فہیم قلب اور بلیغ زبان بخشی ہے۔

ایک اور روايت میں ابی طفيل نے نقل کیا ہے کہ امير المؤمنين علیہ السلام نے فرمایا:

أخبرنا عبد الله بن جعفر الرقي أخبرنا عبيد الله بن عمرو عن معمر عن و هب بن أبي دبي عن أبي الطفيل قال قال علي عليه السلام : سلوني عن كتاب الله فإنه ليس من آية إلا و قد عرفت بليل نزلت أم بنهار في سهل أم في جبل .

مجھ سے کتاب خدا کے بارے میں سوال پوچھو کہ بے شک خدا کی قسم ہر آیت کے بارے میں مجھے علم ہے کہ وہ دن کو نازل ہوئی ہے یا رات کو، صحرا میں نازل ہوئی ہے یا پہاڑ پر۔

الطبقات الكبري ، محمد بن سعد بن منيع أبو عبدالله البصري الزهري الوفاة : 230 ، ج 2 ، ص 338 . دار النشر : دار صادر بيروت .

اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا کہ اہل سنت کے امام ابن جوزی نے اس آیت من عنده علم الكتاب کی تفسیر و مصداق کے بارے میں لکھا.

أنه علي بن أبي طالب
اس آيت سے مراد امير المومنين علی (ع) ہیں۔

آگے لکھتا ہے..
جہنوں نے اس آیت کا مصداق عبد اللہ ابن سلام کو قرار دیا ہے وہ باطل ہے کیونکہ یہ سوره مكی ہے اسلیے عبد اللہ ابن سلام سے اس آیت کا کوئی تعلق نہیں ہے، شعبی نے نقل کیا ہے کہ عبد اللہ ابن سلام کے بارے میں قرآن کی کوئی آیت نازل نہیں ہوئی۔

عبارت ملاحظہ فرمائیں :

هو عبد الله بن سلام ؟ قال : و كيف ، و هذه السورة مكية ؟ و أخرج ابن المنذر عن الشعبي قال : ما نزل في عبد الله بن سلام رضي الله عنه شيء من القرآن .

حوالہ :
ابن الجوزي ، أبو الفرج ، 508هـ 597 ،6 – 1201 . زاد المسير ، ج 4 ص 16
السُّيوطي ، جلال الدين ، 849 – 911 هـ، 1445 – 1505 ، الدر المنثور ، ج 6 ، ص 30 .

تو قارئین ہمیشہ کی طرح جیت فقط اور فقط حجت خدا کی ہوتی اور ثابت ہوا کہ نبوت پر ایسا گواہ جس کے پاس پورے قرآن کا علم ہے وہ رسول اللہ کے بھائی امام علی علیہ السلام ہیں.

والسلام
#ابوعبداللہ

رابطہ : facebook.com/iamAbuabdullah.zaidi

Continue Reading

تجویداورقراءت

قراء سبعہ اور ان کی خصوصیات

علم قراٴت قرآن علوم اسلامی میں سے قدیم ترین علم ہے۔
اس علم کی پےدائش نزول قرآن کےساتھ ہوئی ۔ نزول قرآن کاوقت قراٴت میں کوئی اختلاف موجود نہیں تھا۔ یہ اختلاف راویوں کے اجتہاد کے سبب پیدا ہوا۔ امام باعقر علیہ السلام فرماتے ہیں ,, القرآن واحد نزل من واحد ولکن الاختلاف یجیٴ من قبل الرواة“ قرآن ایک ہے اور ایک خدا کی طرف سے ناز ل ہوا ہے لیکن اختلاف قراٴت، راویوں کی طرف سے ہے۔

قراٴت قرآن میں اختلاف کا بنیادی سبب صدر اسلام کے رسم الخط میں نقطہ ،حرکت، ،علامت اور شد وجزم کا نہ ہونا ہے۔ چونکہ اس زمانے میں عربوں کے نزدیک رسم الخط ابتدائی مرحلہ طے کررہا تھا لہٰذا عرب خط کے فنون و رسوم سے آشنا نہ تھے۔
اس بنیاد پر اکثر اوقات ایک کلمہ اپنے اصلی تلفظ کے خلاف لکھا جاتا تھا اور تمام حروف نقطوں کے بغیر لکھے جاتے تھے مثلا سین اور شین کے درمیان کتابت میں فرق نہیں ہوتا تھا لہٰذا یہ پڑھنے والے پرموقوف تھا کہ وہ شواہد کی بنا پر تشخیص دے کہ یہ حر ف سین ہے یا شین ،تاء ہے یا ثاء۔علاوہ از این قرآن مجید کے کلمات حرکات سے خالی تھے۔

ان حروف پر کوئی علامت نہیں لکھی جاتی تھی لہٰذا قاری کلمہ کے وزن اور حرکت کے بارے میں مشکل میں پڑجاتے تھے مثلا قاری نہیں جانتا تھا کہ کلمہ,, اعلم “فعل امر ہے یا فعل مضارع متکلم کا صیغہ ہے اس اختلاف کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ عربی رسم الخط سریانی زبان سے لیا گیا تھا۔اور سریانی زبان میں کلمہ کے درمیان الف نہیں ہوتا اسی لئے کوفی رسم الخط مین کلمات کے درمیان الف ممدودہ نہیں لکھتے تھے۔ان کے علاوہ ایک اور سببب عرب قبائل کے درمیان لہجہ کا اختلاف تھا مثلا عرب قبائل میںسے بعض نستعین کو نون کی فتح کے ساتھ اور بعض نون کے کسرہ کے ساتھ تلاوت کرتے تھے۔اس بنا پر مختلف شہروں میں قرائت قرآن میں اختلاف ایک فطری امر تھا ۔ پھر اسلامی مملکت کی سرحدیں بڑھتی چلی گئیں۔ اسلامی فتوحات کے دوران اسلامی مراکز میں سے ہر ایک نے کسی ایک مورد اعتماد قاری کی قرائت کو قبول کرلیا ۔نتیجہ کے طور پر پچاس سے زیادہ قرئتیں وجود میں آگئیں۔جن میں سے بعد میںسات معروف ہوگئیں۔

سب سے پہلے جس شخص نے علم قرائت پرکتاب لکھی امام سجاد علیہ السلام کے شاگرد ابان بن تغلب تھے۔ پھر تیسری صدی ہجری میں ابوبکر بن احمد مجاہد نے بغداد میں قیام کیا اور علم قرائت کے تمام علماء ،مکہ، کوفہ، بصرہ وشام سے ان سات قاریوں کا انتخاب کیا۔
جو قراء سبعہ کے نام سے مشہور ہیں۔ البتہ واضح رہے کہ قرآن مجید میں مادہ الفاظ کے لحاظ سے تواتر ثابت ہے۔ اور قرآن کے الفاظ و کلمات میں تمام دنیا کے مسلمانوں کا اتفاقنظرہے۔ اختلاف فقط بعض کلمات کی تلاوت کے طریقوں کے بارے میں ہے کہ یہ اختلاف بہت جزئی ہے اور اس سے ایات قرآن کے اصل معنی پر لطمہ وارد نہیںہوتا ۔ یہاں پر ایک وضاحت ضروری ہے کہ قرائت قرآن کی اکثر کتابوں میں حدیث,, ان القرآن نزل علی سبعة احرف“ سے استنباط کیا گیا ہے کہ قرآن انھیں سات قرائتوں میں ناز ل ہوا ہے۔ حالانکہ یہ بات شیعہ نقطہ نظر سے باطل ہے اور ائمہ معصومین(ع) نے اس کی صریحا نفی کی ہے فضیل بن یسا سے روایت ہے ,, قلت لابی عبد الله ان الناس یقولون ان القرآن نزل علی سبعة احرف ،فقال کذبوا اعداء الله ولکنه نزل علی احرف واحد من عند الله الواحد“
راوی کہتا ہے کہ میں نے حضرت ابوعبداللہ سے عرض کیالوگ کہتے ہیں کہ قرآن ساتھ حرفوں (قرائتوں) پر نازل ہوا ؟ آپ نے فرمایا : دشمنان خدا جھوٹ بولتے ہیں بلکہ قرآن ایک حرف (قراٴت ) پر ایک خدا کی طرف سے نازل ہوا ہے۔ یہ روایت شیعہ وسنی کتب میں نقل ہوئی ہے ۔شیعہ محققین کے نزدیک قطع ضعف اسناد کے یہ روایت قراء سبعہ سے کوئی ارتباط نہیں رکھتی۔ اس حدیث کی تشریح میں معروف قول یہ ہے کہ احرف سے مراد مطون قرآن ہیں ۔ یعنی قرآن ایسی کتاب ہے کہ اس سے متعدد معانی سمجھے جا سکتے ہیں ۔
ایک معنی ظاہری ہے اور دوسرے معانی مخفی ہیں۔ پھر آیت متعدد معانی اپنے اندر رکھتی ہے۔ اگرچہ عام لوگوں پر یہ پوشیدہ ہیں۔ لیکن اما م معصوم ان معانی سے آگاہ ہوتا ہے۔ لیکن بعض علماء کے نزدیک اس حدیث میں حرف سے مراد لہجہ ہے نہ قراٴت ۔ پیغمبر اکرم کے زمانہ میںعرب قرآن کی تلاوت مختلف لہجوں میںکرتے تھے۔ ہر قبیلہ اپنے لہجہ میں قرآن کی تلاوت کرتا تھا ۔ پیغمبر نے اس طرح سب کی تصدیق فرمائی ہے اس حدیث میں سبعہ کنائی عدد ہے۔البتہ ائمہ معصومین نے فراوان حدیثوں میں لوگوں کوحکم دیا ہے کہ قرآن کی خالص عربی کی صورت میں تلاوت کریں۔نیز انھیں متداول قرائتوں کی پیروی کرنے کی وصیت فرمائی ہے۔ امام صادق (ع) سے حدیث نقل ہوئی ہے فرماتے ہیں کہ ,, اقرء کما یقرء الناس“ یعنی عمومی اور متداول قرائت کی پیروی کرو۔ شیعہ علماء کے فتاویٰ کے مطابق نمازمیں انھیں سات قراٴت میں سے کسی ایک کے مطابق ہونی چاہئے۔
اس وقت تمام مصاحف قرآن جس قرآت پر توفق کرتے ہیں۔ اور ثبت ہوئے ہیں وہ عاصم کی قراٴت ہے کہ ابوعمر حفص نے اس کو عاصم سے روایت کیا ہے یہ قراٴت در اصل امیرالمومنین علیہ علیہ السلام کی قرآت ہے، چونکہ عاصم نے قراٴت ابوعبداللہ الرحمٰن سلمی سے یاد کی ہے۔جوکہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے شاگرداور ان کی قراٴت کومشکل کرنے والے ہیں۔ پس عاصم امیر المومنین کی قراٴت کا راوی ہے اسی وجہ سے عاصم کی قراٴت صحیح ترین اور اصیل ہے۔ حفص عاصم سے نقل کرتا ہے کہ عاصم نے کہا جو کچھ قراٴت میں سے میں نے تجھے پڑھایا ہے یہ وہی ہے جو میں نے ابوعبدالرحمٰن سلمی سے حاصل کیا ہے اور اس نے اس کو حضرت علی این ابی طالب علیہ السلام سے حاصل کیا ہے۔

قراء سبعہ :

۱(نافع بن عبدالرحمٰن نافع بن عبدالرحمٰن الاصفہانی متوفی(۱۶۹ھ)یہ قراٴت کی مختلف صورتوں پر تسلط رکھتا تھا اس نے قرآن ابومیمونہ کو تلاوت کرکے سنایا تھا علاوہ از این ستر تابعین کو بھی اس نے قرآں سنایا ، بہت سے علماء نے اس کی قراٴت کی تعریف کی ہے۔ اور قابل اعتماد پایا ہے لیکن حدیث کے معاملے میں اس کو ثقہ نہیں جانتے ہیں۔

۲)عبداللہ بن کثیر مکی :یہ ایرانی تھا، اہل مکہ کے لئے امام قراٴت تھا، تابعین میںشمار ہوتا ہے ،اس نے ابوایوب انصاری وانس بن مالک اوربعض دوسرے صحابہ کو پایا ہے ۔ ابن ندیم نے اسے دوسرے طبقہ کے قراء میں شمار کیا ہے۔ یہ شخص فصیح، باوقار،بلند قد اور امام جماعت تھا۔

۳)عاصم بن بہدلہ ابی النجود الاسدی متوفی ۱۲۷ھ اس کی کنیت ابوبکر تھی کوفہ میں قراء کے امام تھے ۔قرآن کو بہت خوبصورت آواز میں پڑھتے تھے۔ عاصم نے قراٴت ابوعبد الرحمٰن بن حبیب سلمی سے یاد کی۔ جو کہ قطعی طور پر شیعان علی (ع) میںسے تھے،اور انھوں نے علم قراٴت حضرت علی علیہ السلام سے حاصل کیا تھا۔ اس لئے ان کی قراٴت کو فصیح ترین قراٴت سمجھا جاتا ہے۔ اس کے دوسرے استاد زرین حبیش تھا۔انھوں نے قراٴت عبداللہ بن مسعود وعثمان بن عفان سے پڑھی تھی۔ عاصم نے چوبیس صحابہ کی صحبت سے فیض حاصل کیا ہے ۔

۴( حمزہ بن حبیب کوفی متوفی۱۵۶ھ : آپ عاصم و اعمش کے بعد کوفہ میں قراٴت کے امام تھے۔ یہ عابد،متقی، فقیہ، قاری، حافظ حدیث، ونہایت خاضع انسان تھے۔ ان کی قراٴت کی سند حضرت امام صادق علیہ السلام و ابوالاسود دویلی کے ذریعہ حضرت علی علیہ السلام تک پہونچتی ہے۔

۵)ابوعمر بن العلاء البصری متوفی ۱۵۴ھ : اس نے قراٴت کو ابن کثیر و مجاہد اور سعید بن جیبرسے اخذ کیا ہے اور انھوں نے ابن عباس و برابان کعب اور ان دونوں نے حضرت رسول خدا سے سیکھی تھی، ابوعمر اپنے زمانے میں شعر وعربی اور قرآن میں بزرگ علماء میں شمار ہوتا تھا۔

۶( ابوعمرا عبداللہ بن عامر الشامی متوفی ۱۱۸ھ یہ شخص تابعین میں سے ہی ان قراء سبعہ میں فقط یہ اور ابوعمر عرب تھے ۔ابن عامر نے قراٴت قرآن کاعلم ابودرداء صحابی سے انھوں نے رسول خدا سے حاصل کیا تھا۔

۷ ( ابوالحسن بن حمزہ معروف کیسائی متوفی ۱۸۹ھ:یہ شخض فقہ، عربی اور قرآن میں بہت قابل تھا، بہت سی کتابوں کو اس کی طرف نسبت دی گئ ہے۔ بعض مورخین اس کو شیعہ جانتے ہیں۔ اس نے علم قراٴت کو حمزہ بن حبیب و محمد بن ابی لیلی سے اخذکیا ہے۔

Continue Reading

اخلاقیات

شبِ قدر میں تمام انسانوں کے نامۂ اعمال کا امام مہدی (عج) کی خدمت میں پیش کیا جانا اور آپ سے دستخط لینا توحید کے منافی نہیں؟

سوال : ھم ھرسال شب قدر میں اس امر کا مشاھدہ کرتے ھیں کہ منبروں اورذرائع ابلاغ کے ذریعہ سالانہ مقدر کے بارے میں کھا جاتا ھے کہ ملائکہ اعمال ناموں کو حضرت حجت (عج) کی خدمت میں پیش کرکے حضرت (عج) سے دستخط لیتے ھیں۔ اس سلسلہ میں چند نکات قابل توجہ ھیں:

۱۔ توحید کے مباحث سے جو استنباط کیا جاتا ھے وہ یہ ھے کہ بندوں کا مقدر صرف خدا کے ھاتھ میں ھے اور جوکچھ بعض سٹیجوں پر کھا اور کتابوں میں لکھا جاتا ھے، وہ اس معنی میں ھے کہ خداوند متعال نے دنیا کے نظم و انتظام کاکام امام معصوم (ع) کو سونپا ھے۔

۲۔ چونکہ شب قدر گزشتہ امتوں میں بھی رائج تھی، مذکورہ دعویٰ کے صحیح ھونے کی صورت میں، مثال کے طور پر حضرت عیسیٰ (ع) سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ تک ۵۰۰ سالہ وقفہ کے دوران ان نامہ اعمال پر کون دستخط کرتا تھا؟

۳۔ کم از کم میں نے دوتفسیروں، تفسیر المیزان اور تفسیر نمونہ میں سورہ قدر و سورہ دخان کے بارے میں جو تحقیق کی ھے، اس میں اس مسئلہ (یعنی حضرت حجت علیہ السلام کے توسط سے اعمال ناموں پر دستخط) کے بارے میں کوئی اشارہ نھیں ملتا ھے اور جو کچھ نقل کیا جاتا ھے۔ وہ سند کے بغیر روایت ھے۔ مھر بانی کر کے اس سلسلہ میں اپنا نظریہ بیان کیجئے؟

مختصر جواب :

معتبر روایات کے مطابق بندوں کے تمام امور، پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، امام معصوم علیہ السلام اور حجت خدا عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے سامنے پیش کئے جاتے ھیں اور چونکہ اس وقت حجت خدا یعنی امام عصر عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف، حی و زندہ ھیں، اس لئے تمام امور حضر (عج) کی خدمت میں پیش کئے جاتے ھیں۔
لیکن سوال کرنے والے کے اعتراض کے بارے میں یہ کھنا ھے کہ:
۱۔ گزشتہ امتوں میں شب قدر کا وجود نھیں تھا۔
۲۔ اگر ھم اسے قبول نہ کریں اور گزشتہ امتوں میں شب قدر کے وجود کے قائل ھوجائیں تو ھمیں جاننا چاھئے کہ عقلی و نقلی دلائل کی بناء پر، کسی زمانے میں حتی کہ وقفہ کے دوران بھی زمین حجت خدا (پیغمبر یا ان کے وصی) سے خالی نھیں رھی ھے۔وقفہ کے دوران، زمین حجت خدا سے خالی نھیں تھی، بلکہ اس چھ سو سال کے وقفہ کے دوران رسول اور پیغمبر مبعوث نھیں ھوئے ھیں۔ بیشک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اوصیا اور جانشین زمین پر خدا کی حجت کے عنوان سے تھے، اس بناء پر کھا جاسکتا ھے کہ: وقفہ کے دوران شب قدر میں حجت خدا پر فرشتوں کا نازل ھونا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جانشینوں پر نازل ھونا ھے۔
۳۔ شب قدر میں بندوں کے اعمال پر امام علیہ السلام کے دستخط، کرنے کا کام کسی صورت میں توحید کے منافی نھیں ھے، کیونکہ امام کے تمام اختیارات اور تصرفات خدا کی اجازت سے ھوتے ھیں اور امور میں طول کی صورت میں موثر ھیں۔

تفصیلی جواب :

در حقیقت آپ کا سوال مندرجہ ذیل چارسوالات پر مشتمل ھے:
۱۔ کیا ھر سال شب قدر میں فرشتے ھمارے نامہ اعمال کو حضرت حجت عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی خدمت میں پیش کرکے ان سے دستخط لیتے ھیں؟
۲۔ کیا اسلام سے پھلے بھی شب قدر تھی؟
۳۔ اگر اسلام سے پھلے شب قدر تھی، تو وقفہ یعنی{حضتے عیسی علیہ السلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے درمیانی زمانہ} کے دوران فرشتے کس کی خدمت میں حاضر ھوتے تھے؟
۴۔ کیا شب قدر میں بندوں کے ایک سالہ مقدرات پر دستخط ھونا توحید کے ساتھ موافقت رکھتا ھے؟
۱۔ پھلے سوال کے جواب میں قابل بیان ھے کہ،معتبر روایات کے مطابق بندوں کے تمام امور، پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، امام معصوم علیہ السلام اور حجت خدا کے سامنے پیش کئے جاتے ھیں اور چونکہ اس وقت حجت خدا یعنی امام عصر عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف، حی و زندہ ھیں، اس لئے تمام امور حضرت حجت{عج} کی خدمت میں پیش کئے جاتے ھیں۔
امام جواد علیہ السلام، امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام سے نقل کرتے ھیں کہ حضرت حجت (عج) نے ابن عباس سے فرمایا:”شب قدر ھر سال ھوتی ھے اور خداوند متعال اس شب میں سال کے تمام امور نازل کرتا ھے، رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد بھی کچھ افراد ان امور کے ذمہ دار ھیں۔ ابن عباس نے امام سے پوچھا: وہ کون لوگ ھیں؟ امام علی علیہ السلام نے جواب میں فرمایا: میں اور میری اولاد میں سے گیارہ فرزند، ھم سب امام ھیں اور فرشتوں سے گفتگو کرنے والے ھیں۔“[1]

 

۲۔ کیا شب قدر گزشتہ امتوں میں بھی تھی؟

متعدد واضح روایتوں اور آیہ شریفہ ”خیر من الف شھر“ کی شان نزول کے مطابق[2] یہ الھی عطیات صرف اس امت سے مخصوص ھیں، چنانچہ ایک حدیث میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ھے:
“ان الله وھب لامتی ليلته القدر لم یعطها من کان قبلھم“ یعنی، خداوند متعال نے میری امت کو شب قدر عطا کی ھے اور گزشتہ امتوں میں سے کسی امت کو یہ عطیہ الھی نصیب نھیں ھوا ھے۔”[3]
البتہ سورہ قدر کی ظاہری آیات سے معلوم ھوتا ھے کہ شب قدر نزول قرآن اور عصر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مخصوص نھیں تھی، بلکہ [پیغمبر کے زمانہ سے ]ھر سال دنیا کے خاتمہ تک تکرار ھوگی۔
فعل مضارع "تنزیل” کی تعبیر استمرار پر دلالت کرتی ھے، اور اسی طرح جملہ اسمیہ "سلام ھی حتی مطلع الفجر”کی تعبیر اس کے جاری رھنے کی علامت ھے، یہ بھی اس معنی کی گواھی ھے۔
اس کے علاوہ بھت سی روایتیں، (جو شاید تواتر کی حد میں ھیں) بھی اس معنی کی تائیدکرتی ھیں۔[4]

۳۔ اگر ھم اسے قبول نہ کریں اور گزشتہ امتوں میں شب قدر کے وجود کے قائل ھوجائیں تو ھمیں جاننا چاھئے کہ عقلی و نقلی دلائل کی بناء پر، کسی زمانے میں حتی کہ وقفہ کے دوران بھی زمین حجت خدا (پیغمبر یا ان کے وصی) سے خالی نھیں رھی ھے۔ وقفہ کے دوران، زمین حجت خدا سے خالی نھیں تھی، بلکہ اس چھ سو سال کے وقفہ کے دوران رسول اور پیغمبر کے نہ ھونے کے معنی یہ ھیں۔ بیشک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اوصیا اور جانشین زمین پر خدا کے حجت تھے، اس بناء پر کھا جاسکتا ھے کہ: وقفہ کے دوران شب قدر میں حجت خدا پر فرشتوں کا نازل ھونا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جانشینوں پر نازل ھونا ھے۔

وضاحت:

خداوند متعال سورہ "مائدہ” میں ارشاد فر ماتا ھے:”اے اھل کتاب تمھارے پاس رسولوں کے ایک وقفہ کے بعد ھمارا یہ رسول آیا ھے کہ تم یہ نہ کھو کہ ھمارے پاس کوئی بشیر و نذیر نھیں آیا تھا۔”[5]
حضرت عیسی علیہ السلام سے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ تک کی درمیانی مدت تقریبا چھ سو سال کے وقفہ پر مشتمل تھی اسے”دوران فترت” کھتے ھیں۔ اس کے علاوہ مذکورہ آیہ شریفہ سے معلوم ھوتا ھے کہ اس مدت کے دوران کوئی رسول اور پیغمبر کا نہ ھونا زمین پر حجت خدا کے نہ ھونے اور انسان کے خدا سے رابطہ منقطع ھونے کی دلیل نھیں ھوسکتی ھے۔
بلکہ زمین کبھی حجت خدا سے خالی نھیں رھتی ھے۔ امام علی علیہ السلام نے کمیل سے مخاطب ھوکر فرمایا:
” جی ھاں، زمین ھرگز حجت الھی سے خالی نھیں رھے گی،خواہ وہ حجت آشکار ھو یا مخفی اور نا شناختہ، تاکہ خداوند متعال کے احکام، دستور، دلیلیں اور نشانیاں ختم نہ ھو جائیں۔ ۔ ۔ خداوند متعال ان کے ذریعہ اپنی نشانیوں اور دلیلوں کی حفاظت کرتا ھے تاکہ وہ اپنے جیسے افراد کو یہ ذمہ داری سونپیں اور اس کے بیج کو اپنے جیسے انسانوں کے دلوں میں ڈال دیں ۔ ۔ ۔[6]”
اس لحاظ سے ھم اعتقاد رکھتے ھیں کہ زمین پر پھلا انسان حجت خدا تھا اور آخری انسان بھی حجت خدا ھوگا۔
بیشک”فترت” کے زمانے، یعنی حضرت عیسی ع سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ کے دوران حجت خدا موجود تھا۔ امام رضا علیہ السلام ایک روایت میں فرماتے ھیں:” بیشک کسی بھی زمانہ میں زمین حجت خدا سے خالی نھیں رھتی ھے۔[7]” اگرچہ ممکن ھے کہ ھم اس کے نام اور کوائف سے بے خبر ھوں، جس طرح ھم ایک لاکھ چوبیس ھزار پیغمبروں [ع] میں سے صرف ایک محدود تعداد کو جانتے ھیں۔
دوسری جانب ممکن ھے حجت (فرد) خدا نبی ھو یا اس کا جانشین، کیونکہ ھر پیغمبر کا ایک جانشین ھوتا ھے۔ اھل سنت اور شیعوں نے روایت نقل کی ھے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا ھے:” ھر پیغمبر کا ایک وصی ھے۔[8]”
اس لحاظ سے شیعوں کا یہ اعتقاد ھے کہ ھر زمانہ میں زمین پر خداوند متعال کا ایک حجت (فرد) ھوتا ھے، جو خدا کے فیض کا واسطہ اور اس کے دین کا محافظ اور لوگوں کا علمی مرجع ھوتا ھے۔
اس بناء پر کھا جاسکتا ھے کہ”فترت”یعنی وقفہ کے دوران شب قدر میں حضرت عیسی علیہ السلام کے وصی اور جانشین پر فرشتے نازل ھوتے تھے۔
البتہ، جو اعتراض اس تجزیہ پر کیا جاتا ھے، وہ یہ ھے کہ اگر چہ ھرزمانہ میں دنیا میں خدا کا ایک حجت ھوتا ھے ، جو خدا کے فیض و بر کات کا ذریعہ، دین کا محافظ اور لوگوں کےلئے علمی مرجع ھوتا ھے، لیکن شاید ھم،تمام جانشینوں کی خدمت میں حجت خدا ھونے کے باوجود بندوں کے اعمال پیش کئے جانے کی کوئی دلیل پیش نہ کرسکیں۔ لیکن چونکہ ھم اعتقاد رکھتے ھیں کہ گزشتہ امتوں میں شب قدر نھیں تھی، اس لئے کوئی مشکل نھیں ھے۔

۴۔ کیا پیغمبروں کے ایک سال کے اعمال کے مقدرات پر شب قدر میں دستخط کیا جانا توحید سے مطابقت رکھتا ھے۔
حجت خدا زمین پر خدا کا خلیفہ اور اس کا نمایندہ ھوتا ھے اور اس کا انجام پانے والا ھر کام خدا کے ارادہ و اجازت سے ھوتا ھے اور یہ کام امور پر طول کی صورت میں اثر رکھتا ھے۔ اس لحاظ سے یہ کام کسی صورت میں توحید کے منافی نھیں ھے۔ امام مھدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف فرماتے ھیں:”ھمارے دل، مشیت الھی کے ارادہ کے ظرف ھیں۔ اگر وہ چاھے تو ھم بھی چاھتے ھیں۔[9]
اور اگر ھم اس امر کے معتقد ھیں کہ فرشتے ھر سال شب قدر میں ھمارے نامہ اعمال کو حضرت حجت عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی خدمت میں پیش کرکے ان سے دستخط لیتے ھیں، تو یہ کام خداوند متعال کے ارادہ اور مشیت سے انجام پاتا ھے اور یہ توحید سے کسی صورت میں منافات نھیں رکھتا ھے۔ جیسا کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا ھے:” میں تمھارے لئے مٹی سے پرندہ کی شکل بناﺅ ں گا تو وہ حکم خدا سے پرندہ بن جائے گا”[10]یہ کسی صورت میں توحید کے منافی نہیں ھے.[11]

حوالے

[1] ۔ ایضا، ص۵۳۲۔
[2] ۔بعض تفسیروں میں آیا ھے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:” بنی اسرائیل میں سے ایک شخص نے جنگی لباس زیب تن کرکے ایک ھزار ماہ تک اس لباس کو نھیں اتارا اور مسلسل جہاد فی سبیل اللہ میں مشغول ﴿اور آمادہ﴾ تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب نے یہ سن کر تعجب کیا اور اظھار تمنا کی کہ کاش اسی قسم کی سعادت انھیں بھی میسر ھوتی! اس کے بعد مذکورہ آیہ شریفہ نازل ھوئی اور اس میں بیان ھوا کہ:” شب قدر ھزار ماہ سے برتر ھے۔”
ایک دوسری حدیث میں آیا ھے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بنی اسرائیل کے چار افراد کا ذکر کیا جنھوں نے گناہ کے بغیر اسی سال تک خدا کی عبادت کی تھی، اصحاب نے سن کر تمنا کی کہ کاش انھیں بھی ایسی توفیق حاصل ھوتی! تو اس سلسلہ میں مذکورہ آیہ شریفہ نازل ھوئی۔ تفسیر نمونہ، ج ۲۷، ص۱۸۳۔
[3] ۔ تفسیر نمونہ ، ج۲۷، ص ۱۹۰، دار الکتب الاسلامیہ، طبع تھران، سال ۱۳۷۴ ش، طبع اول۔
[4]۔ مزید آگاھی کے لئے ملاحظہ ھو: سوال 3118﴿سایٹ: 3391﴾، عنوان: تعدد شب قدر۔
[5] ۔ مائدہ، ۱۹۔
[6] ۔ نھج البلاغہ ﴿فیض اسلام﴾، کلمات قصار، حکمت ۱۳۹۔
[7] ۔ صدوق،محمد بن علی، عیون اخبارالرضا﴿ع﴾، ج ۲، ش ۱۲۱، انتشارات جھان، ۱۳۷۸ ہ۔ ش۔
[8] ۔ طبرانی، المعجم الکبیر، ج۶، ص ۲۲۱، دار احیاء الترات العربی، ۱۴۰۴ ہ ش۔
[9] ۔مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج ۵۲، س ۵۱، طبع اول موسسہ الوفاء، لبنان، ۱۴۰۴ ہ ق۔
[10] ۔آل عمران، ۴۹۔
[11] .مزید آگاھی کے لئےملاحظہ ھو: سوال 3470﴿سایت:3736﴾، عنوان: تعریف شرک و
قسام آن؛ سوال ۱۵۹۴﴿سایٹ:۱۵۸۹﴾، عنوان: توحید و استمداد از غیر خد

Continue Reading

Newsletter

Get the best tech deals, reviews, product advice, competitions, unmissable tech news and more!

زیادہ پڑھے جانے والی پوسٹس