Connect with us

متفرقات

آیت اللہ سیستانی: جمہوریت کے نگہبان، پروفیسر کارولین سايج

(عرضِ مترجم: یہ مضمون پروفیسر کارولینسايج کی کتاب ”پیٹریاٹک آیت اللہ  کے دوسرے باب کا ترجمہ ہے۔ اس کتاب میں فاضل پروفیسر نے نجف کے مراجعِ اربعہ، بالخصوص دنیا بھر کےاہلِ تشیع کے مرجعِ اعلیٰ آیت اللہ سیستانی،کی جمہوری جدوجہد پر تحقیق کی ہے۔ حوالہ جات آن لائن نسخے میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ آیت اللہ سیستانی کے نمائندے حامد الخفاف کی تدوین کردہ کتاب ”النصوص الصادرہ“، طبع ششم، بیروت، سنہ 2015ء کے حوالے مضمون میں شامل کئے گئے ہیں۔)

20جنوری 2003 کو، عراق پر امریکی حملے کےآغاز سے دو ماہ پہلے، بش انتظامیہ نے پینٹاگون کو عراق کی سیاسی اور معاشی تنظیمِ نو کے عمل کی نگرانی کیلئے تعمیرِ نو اور انسانی امداد کا ادارہ (او آر ایچ اے) قائم کرنے کا حکم دیا۔ اس ادارے کے سربراہ جے گارنر کو بتایا گیا تھا کہ ان کی ماموریت آسان اور مختصر ہو گی۔ محکمہ دفاع کے نائب معتمد برائے حکمت عملی،ڈوگلس فیتھ نے کہا کہ نوے دن میں ایک عبوری حکومت قائم کر کے  سفارتی تعلقات بحال اور امریکی فوج کا انخلا شروع کر دیا جائے گا۔بش انتظامیہ امریکی عوام کو بتاتی رہی تھی کہ عراق پر طویل مدت کیلئے قبضہ برقرار رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہو گی کیوں کہ عراقی عوام امریکی فوج کا آزاد کنندگان کی طرح استقبال کریں گے۔ خیال یہ تھا کہ صدام حسین کے بعدتعمیر نو کے امریکی منصوبوں کی کوئی مخالفت نہ ہو گی۔ اس کے اقتدار سے محروم ہونے کے بعد عراق امریکہ کے سامنے ایک صاف تختی کی طرح ہو گا۔ شروع میں گارنر بعث پارٹی کو استحکام اور امن کو قائم رکھنے کیلئے باقی رکھنا چاہتا تھا تاکہ پہلے سے موجود ریاستی انتظامیہ کو ساتھ لے کر چلے، لیکن یہ رائے امریکی محکمہ دفاع کے سینئر عہدیداروں اور نائب صدر کے ہاں غیر مقبول تھی۔ ان اداروں میں امریکی حملے کے منصوبہ ساز بعد از صدام کی عراقی ریاست کی شکل گیری میں ان عراقیوں کے ساتھ مل کر چلنا چاہتے تھے جنہیں صدام کے زمانے میں وطن چھوڑنا پڑا تھا۔

21اپریل 2003ء میں، جنگ شروع ہونے کے ایک ماہ بعد، گارنر کو اس ذمہ داری سے سبکدوش کر کے اس ادارے کو تحلیل کر دیا گیا اور 11 مئی کو نیدر لینڈ میں امریکہ کے سابق سفیر اور محکمۂ خارجہ کے سینئر افسر پال بریمر کی سربراہی میں سلطۃ الائتلاف المؤقتہ (کوالیشن پرویژنل اتھارٹی ؛سی پی اے) کے نام سے ایک نیا ادارہ قائم کیا گیا۔ 28 جون 2004ء میں عبوری حکومت کے قیام تک سی پی اے نے عراق پر بلا شرکت غیرے حکومت کی۔سابقہ تارکین وطن اور دو کرد جماعتوں کے مشوروں پر چلتے ہوئے ایک وائسرائے کے انداز میں بریمر نے بہت سے مثالیت پسندی پر مبنی فیصلے کئے جو عراق کے سماجی اور سیاسی حقائق کی بابت کم علمی اور لا تعلقی کا مظہر تھے۔ فرامین میں عراقی ریاست سےبعثی اثرات کا صفایا اور عراقی فوج کے کور کمانڈرز کو منصبوں سے ہٹانا سر فہرست تھا۔ بریمر نے بعثی اثرات کے خاتمے کے عمل پرپوری لگن سے کام کیا کہ جس کے نتیجے میں ہزاروں فوجی افسروں کو تنخواہوں اور مراعات سے محروم کر کے مستقبل میں سرکاری نوکریوں کیلئے نااہل قرار دیا گیا۔وہ عراقیوں کی اکثریت کی رائے معلوم کرنے کے کسی طریقہٴ کار کو وضع کئے بغیرمعیشت کے بڑے حصے کو نجی ملکیت میں دینے، اعلیٰ تعلیم کے نظام کی تنظیمِ نو اور آزاد جمہوری ریاست کے قیامکے قائل تھے۔ ان منصوبوں پر عمل درآمد کی ذمہ داری سی پی اے کے ذیلی افسران اور پرائیویٹ کنٹریکٹرز کے کندھوں پر تھی جن میں سے اکثر کے پاس اس قسم کے کاموں کا کوئی تجربہ نہ تھا اور ان میں سے کچھ تو محض نظریاتی طور پر بریمرسے اتفاق رکھنے کی بدولتچنے گئے تھے [1]۔

بریمرنے عراق گورننگ کونسل کو ان منصوبوں کا عراقی چہرہ قرار دیا۔ ایک ایسا ڈھانچہ جسے انہوں نے یہ سوچ کر تخلیق کیا تھا کہ اس میں عراق کے تمام نسلی اور مذہبی گروہوں کی نمائندگی ہونی چاہئیے۔ارکان کوان کی سیاسی سوچ یا پیشہ وارانہ مہارت کی بجائے گروہی تعلقات کی وجہ سے چنا گیا تھا۔ اگرچہ اس کونسل کے پاس اختیارات بہت کم تھے لیکن اس کی ترکیب نے اس روایت کی بنیاد رکھی کہ صدام کے بعد کے عراق میں آزاد جمہوریت شناخت کے خطوط پر چلے گی۔اس نظام میں ملک کی سیاسی اور انتظامی طاقت مذہبی اور نسلی بنیادوں پر تفویض ہونا تھی۔

بش انتظامیہ اور میڈیا کے مرکزی دھارے سے تعلق رکھنے والے مبصرین کی طرح بریمر نے بھی فرض کر لیا تھا کہ آمریت کے عادی عراقی لوگ امریکہ کا ترتیب دیا گیا تعمیرِ نو کا منصوبہ من و عن تسلیم کر لیں گے۔ اس مفروضے میں بہت خامیاں تھیں۔ اگلے پندرہ مہینوں میں جیسے جیسے بریمر نے عراق کی تشکیلِ نو کا کام آگے بڑھایا، انہیں متعدد حلقوں کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ بریمر کیلئے شاید سب سے زیادہ تعجب آور بات آیت اللہ سیستانی کی ان منصوبوں کے خلاف شدید مزاحمت تھی، کہ جس میں باقی تین مراجع ان کے ساتھ تھے۔ جیسا کہ اپنی کتاب کے سابقہ ابواب میں دیکھا جا چکا ہے، امید یہ تھی کہ آیت اللہصاحبان صدیوں پرانی سکوت کی روش پر عمل پیرا ہو کر سیاست سے کنارہ کش رہیں گے۔ اس کے برعکس وہ نہایت دلچسپی سے سیاسی عمل کا جائزہ لیتے رہتے تھے اور جب ضروری سمجھتے مداخلت کرتے تھے۔ عام غلط فہمی کے برعکس آیت اللہصاحبانصدام کے بعد کے عراق میں عوام کے حق حاکمیت، مساوات، شفافیت اور جمہوریت کے بارے میں ہونے والی بحثوں میں مرکزی اہمیت رکھتے ہیں۔ [2]

اگرچہ اس باب میں ہماری توجہ آیت اللہ سیستانی پر ہو گی لیکن باقی تینوں مراجع نے جمہوری عمل کے سلسلے میں ان کے ہر اہم فتوے اور اعلامیے کی تائید کی۔ انہوں نے آیت اللہ سیستانی کےانتخابات اور جمہوری ریاست کے جواز کو قائم کرنے کے اقدام کے علاوہ 2014ء میں نوری المالکی کو تیسری بار انتخاب لڑنے سے روکنے جیسے فیصلوں کی تائید کی۔ اس باب میں آیت اللہ سیستانی پر تمرکز کرنے کا مقصد قاری کو ان کے مدبرانہ کردار کی اہمیت کا احساس دلانا ہے۔ انہوں نے ہمیشہ حوزہٴ نجف کی روح اور طرز عمل کے مرکزی نمائندے کا کردار ادا کیا، اگرچہ وہ اس میں اکیلے نہ تھے۔ اس باب کوترتیبِ زمانی کے ساتھ پیش کرنے کا مقصد قاری کو اس راستے کی سیر کرانا ہے جس پر چلتے ہوئے عراقی سیاست آیت اللہ سیستانی کے گردمتشکل ہوئی۔ یہ باب اور آیت اللہ سیستانی کا کردار قاری کو نجف اور بطور کلی عراق کی سیاسی ثقافت سے روشناس کرائےگا۔ یہ اجمالی عکاسی عراق کی جمہوریت، فرقہ بندی اور مذہبی کرداروں کے بارے میں کچھ غلط فہمیوں کے خاتمے میں مدد دیتی ہے۔ اس کی بہترین مثال آیت اللہ سیستانی کا کام ہے۔

آیت اللہ سیستانی اور ان کے ساتھی مراجع نے سیاسی مداخلت کرتے وقت ”عراقی عوام کی مرضی“ کا پاس کیا، یہ اصطلاح وہ اکثر استعمال کرتے ہیں، اور اسی اصول کو انہوں نے عراق کے سیاسی عمل کی مشروعیت کی بنیاد قرار دیا۔ جمہوریت کے بارے میں ان کا نظریہ نہ تو مغرب سے لیا گیا تھا نہ ہی، غیر ملکی مبصرین کی رائے کے برعکس، ایران سے لیا گیا تھا، بلکہ یہ نظریۂ جمہوریت قومی وحدت، تکثر پسندی ، عوامی قبولیت، ووٹ کی تکریم اور انسانی حقوق جیسےہمہ گیر تصورات سے مالا مال تھا۔انہوں نے بڑی دقت سے فرقہ وارانہ نظامِ حکومت کے خلاف عوامی غم و غصے کو درست سمت میں موڑ دیا۔ سر انجام یہ امریکی نہیں بلکہ آیت اللہصاحبان تھے جنہوں نے 2003ء کے بعد عراق کی نوزائیدہ جمہوریت کی پاسبانی کی۔

چنانچہ یہ باب آیت اللہ سیستانی کے 2003ء کے بعد کے حالات میں ظاہر ہونے والے نظریات کی لطافتوں اور باریکیوں کو نمایاں کر کے دکھاتا ہے۔ 2003ء سے 2006ء تک کے عبوری دور میں انہوں نے اس بات کو یقینی بنانے کیلئے بہت کام کیا کہ ریاست کی بنیاد مضبوط جمہوری اقدار اور روایات پر قائم ہو۔

ریاست میں تبدیلی کے موضوع پر تحقیق کرنے والےعقلاء کے ہاں عبوری دور میں”جمہوریت کا استحکام“ ایک نازکتصور ہے۔ اس کی فہم پر اجماع نہیں ہو سکا ہے۔ استحکام سے میری مراد یہ ہے کہ عراق میں ادارے بن گئے تھے: ایک باقاعدہ آئین لکھا گیا تھا، نئی سیاسی جماعتیں ابھر آئی تھیں، جیسے تیسے پارلیمانی سیاست شروع ہو گئی تھی، انتخابات ہوا کرتے تھے، اور قیادت میں تبدیلی آتی رہتی تھی۔ میں اس اصطلاح کو استعمال کرتے ہوئے جمہوریت کی مضبوطی یا ریاست کے بکھرنے جیسی چیزوں کے بارے میں پیشگی کوئی مفروضہ قائم نہیں کرتی۔میرا اس اصطلاح کو استعمال کرنے کا مقصد ان دو ادوار میں فرق کرنا ہے، ایک وہ عبوری دور کہ جب عراق امریکہ کے ماتحت تعمیرِ نو کے عمل سے گزر رہا تھا اور دوسرا وہ جب اقتدار عراقیوں کو منتقل کیا جا چکا تھا، اگرچہ امریکی فوج دسمبر2011ء کے بعد نکلی۔ میری تحقیق2003ء سے 2016ء کے درمیانی عرصے میں محدود ہے، اگرچہ مجھے معلوم ہے کہ ریاست میں استحکام پیدا ہونے کا عمل کئی عشروں پر محیط ہوتا ہے۔مزید یہ کہ میں 2007ء سے 2009ء کے درمیان عراق میں امریکی سفیر رہنے والے ریان کروکرکے اس بیان کو سنجیدہ لیتی ہوں کہ ”ہم ان کے سیاسی نظام کی بافت میں اس طرح سلے ہوئے ہیں کہ ہمارے بغیر اس نظام کا چلنا ممکن نہ ہو گا۔“[3]

اگرچہ آیت اللہ سیستانی عراق کی سیاست کے سب سے طاقتور کردار ثابت ہوئے ہیں، لیکن جمہوریت پر ان کا پختہ ایمان اس بات کا سبب ہوا کہ وہ جمہوری عمل میں کبھی خلل نہ ڈالیں چاہے یہ ان کی آنکھوں کے سامنے ناکامیوں سے بھی دوچار ہوتا رہے.

عبوری دور کا آغاز

بریمر صاحب شروع میں یہ سوچتے تھے کہ وہ عراقیوں کی اکثریت کی پرواہ کئے بغیر تعمیرِ نو کے منصوبوں پر عمل درآمد کر لیں گے۔ اس فہم کیلئے ان کا تکیہ احمد الجلبي اور ایاد علاوی جیسے سابقہ تارکین وطن کے ساتھ ساتھ کرد رہنماؤں پر تھا کہ جو نسلی اورمسلکی بنیادوں پر طاقت کی تقسیم چاہتے تھے۔نئے نظام کی بنیاد تشخص کی سیاست پر رکھی جا رہی تھی، جس میں معاہدے اور اتحاد برابر کے شہری ہونے اور قومی منصوبوں سے لگاؤ کی بجائے فرقہ وارانہ شناخت کی بنیاد پر قائم ہونے تھے۔بریمر کے عراقی ساتھی یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ نظام سنی عرب اقلیتکی آمریت کے دوبارہ آ جانے کا خطرہ ٹال دے گا۔ لیکن ایک دفعہ یہ نظام رسمی حیثیتاختیار کر لیتا تو یہ فرقہ وارانہ نمائندگی کو بھی رواج دیتا اور مستقبل کی سیاسی ثقافت انہی سانچوں میں ڈھلتی۔

عراق کے مستقبل کیلئے عبوری دور نہایت اہم تھا، کہ جس میں نئی ریاست کے خد و خال واضح ہونے تھےاور یہ آنے والے عشروں میں ہونےو الےآئینی عمل کی آزمائش کا مرحلہ بھی تھا۔صدام کی شکست کے بعد ریاست کے پرانے اداروں کی جگہ نئے ادارے لے رہے تھے، نئی فوج اور پولیس بنانے کے ساتھ ساتھنئے سیاسی ادارے بھی قائم ہوئے۔ بریمریہ سوچ رہے تھے کہ عراق میں ادارہ سازی مکمل ہونے سے پہلے وہ فرمان جاری کر کے حکومت چلا سکتے ہیں۔ انہوں نے سی پی اے کو ملک کا نیا آئین بنانے کا اختیار سونپ دیا۔ یہ متنازع اقدام تھا کیونکہ اس کے پہلے مسودے کیقابل اعتراض چیزوں میں یہ تجویز بھی شامل تھی کہ وہ جماعتیں جنہوں نے امریکی حملے کی مخالفت کی تھی، الیکشن میں شمولیت کی اہل نہ ہوں گی۔ پس بریمر نے عراقیوں کی ایک مجلس بنا کر انہیں ایک قومی منشور تدوین کرنے کا اختیار دیا اور عراق کی خود مختاری کو التوا میں ڈالا۔

جونہی آئین کے بارے میں بریمرکا منصوبہ ذرائع ابلاغ میں نشر ہوا، 26 جون 2003ء کو آیت اللہ سیستانی اپنے مشہور ”جمہوری فتویٰ“ کے ساتھ سیاسی منظر نامے پر نمودار ہوئے۔ ان سے کچھ مقلدین نے سی پی اے کی طرف سے مجلسِآئین ساز کے ارکان کی تقرری کی بابت سوال پوچھا تھا، جن کو تمام سماجی اور سیاسی قیادتوں سے مشاورت کے بعد ایک مسودہ تیار کر کے ریفرنڈم کیلئے پیش کرنا تھا۔ آیت اللہ سیستانی نے جواب میں کہا:

”بسم اللہ الرحمن الرحیم

ان طاقتوں کے پاس مجلسِ آئین سازکے ارکان کی تقرری کا اختیار نہیں ہے۔اس بات کی بھی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ یہ مجلس ایک ایسا آئین تیار کرے گی جو عراقی عوام کے مفادات کے مطابق ہو گا اور عراق کی قومی شناخت، کہ جس کا انحصار دینِ اسلام اور اعلیٰ معاشرتی اقدار پر ہے، کی ترجمانی کرے گا۔ مذکورہ منصوبہ کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔ سب سے پہلے عام انتخابات کا انعقاد کیا جانا چاہئیے تاکہ ووٹ کی اہلیت رکھنے والے ہر عراقی شہری کو یہ موقعہ ملے کہ وہ اپنی نمائندگی کیلئےتأسيسي مجلسِ آئین ساز کے رکن کا انتخاب کر سکے۔اس کے بعد تیار شدہ مسودے کو عوامی ریفرنڈم کیلئے پیش کیا جا سکتا ہے۔سب مومنین کو اس اہم مقصد پر اصرار کرنا چاہئیے اور اس کو حاصل کرنے کیلئے بہترین انداز میں کوشش کرنی چاہئیے۔ خدا سب کی بہتری اور سود مندی کی طرف رہنمائی کرے!

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

مہر و دستخط

علی الحسینی السیستانی

26 جون 2003ء“ [4] [النصوص الصادرہ، صفحہ 35، 36]

اس فتوے میں آیت اللہ سیستانی نے ان مراحل کی نشاندہی کی جن سے گزر کر عراق جمہوریت سے ہمکنار ہو سکتا تھا۔ انہوں نے تقرری کے بجائے براہ راست انتخابات پر زور دیا تاکہ ”ہر عراقی“ایک متخب شدہ مجلسِ نمائندگان کیلئے رائے دینے کا مجاز ہو۔سال بھر”ایک فرد، ایک ووٹ“ کے اصول پر عام انتخابات کے اسلوب پر زور دینے کا سلسلہ جاری رہا۔

عوام کی رائے کو شامل کرنے پر آیت اللہ سیستانی کی یہ تاکید ”جمہوری فتویٰ“ دینے سے پہلے بھی موجود تھی۔ 3 مئی 2003ء کو جب ان سے ایسا ہی ایک سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا تھا:

”عراق میں حکومت کے نظام کا فیصلہ عوام نے کرنا ہے۔ مرجع کا ملک کی حکومت اور اقتدار میں کوئی کردار نہیں ہو گا۔“ (المرجعیہ لا تمارس دوراً فی السلطہ والحکم)

اور اس سوال کے جواب میں کہ کیا وہ شیعوں کو سی پی اے کے ساتھ تعاون کرنے کا کہیں گے، انہوں نے کہا:

”ہم ایسی حکومت بننے کا راستہ ہموار کرنا چاہتے ہیں جو عراقی عوام کے ارادے کا مظہر ہو اور تمام فرقوں اور نسلوں کو شامل کرتی ہو۔“ [5](الذی نریدہ ہو ان یفسح المجال لتشکیل حکومۃ منبعثۃ من ارادۃ الشعب العراقی بجمیع طوائفہ و اعراقہ[النصوص الصادرہ، صفحہ 22، 23])

انہوں نے کسی ایک فرقےکو ترجیح نہیں دی نہ ہی شیعوں کی اس بنیاد پر طرف داری کی کہ وہ عددی اکثریت تھے۔وہ صدام حسین کے زمانے میں سنی عربوں کو باقی سب پر ترجیح دینے کے آمرانہ اقدامات کے پیش نظربہت احتیاط اور تدبر سے کام لیتے تھے۔اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے وہ یہ سمجھتے تھےکہ صدام کا ”تقسیم کرو اور حکومت کرو“ والا طرز عمل اب سی پی اے کی شکل میں دوبارہ مسلط کیا جا رہا تھا، جو کہ عراق پر انگریزی قبضے کی یادگار تھا۔

آیت اللہ سیستانی کے ان بیانات کاڈرامائی اثر ہوا۔ انہوں نے اہم جمہوری بیانیے کو عوامی حلقوں میں زیر بحث بنا دیا اور اکثر اوقات بریمر کے منصوبوں کو ناکام بنا دیا۔ بریمر کاہر اہم فرمان پر دستخطکرنے کا خصوصی اختیار صدام حسین کے اس مشہور قول کی یاد دلاتا تھا کہ ”اگر میں کاغذپر لکھ دوں تو وہ قانون ہو گا۔“ [6] ایک وائسرائے کے طور پر بریمر ایک دستخط کے ساتھ پرانے قوانین کو منسوخ اور نئے قوانین کا اطلاق کر سکتا تھا۔ [7]عراقی عوام آمرانہ متلون مزاجی کے عادی تھے لیکن آیت اللہ سیستانی جمہوری آئین کی پابند حکومت (مشروطہ)قائم کرنے کا عزم کر چکے تھے۔ انہیں پتا تھا کہ آمریت کے خاتمے کیلئے انہیں سیاسی رقابت اور عوامی شمولیت، سماجی ذمہداریوں،موثر انتخابات،اور نئی ریاست کی عوامی مقبولیت پر زور دینا اور ان میں التوا کی صورت میں پیدا ہونے والے خطرات سے آگاہ کرتے رہنا تھا۔

ریاست میں تحول پر تحقیق کرنے والےعقلاء کے روایتی خیال کی پیروی کرتے ہوئے بریمریہ سمجھ رہے تھے کہ جمہوریت کی طرف جانے میں انتخابات سے آغاز کرنا خطرناک ہو گا۔ بریمر کا منصوبہ ایک فری مارکیٹ والی سرمایہ دارانہ جمہوریت قائم کرنا تھا۔بریمر کے اقدامات میں ریاستی کاروباروں کو عوامی ملکیت میں دینے کی تجویز بھی شامل تھی۔ انہوں نے کہا: ”اگر ہم ان کی معیشت کی اصلاح نہ کریں تو ہمارے سیاسی تحول کے منصوبے جتنے بھی اچھے ہوں، کام نہیں کریں گے۔ “ انہیں ایک فری ٹریڈ زون بنانے کا خیال بھی تھا جس سے عالمی برادری کو فائدہ ہو۔ مجوزہ نمونے میں یہ فرض کیا گیا تھا کہ ایک نئی تاجر برادری کی مدد سے سرمایہ داری کی طرف حرکت ایک متوسط طبقہ پیدا کرنے کو یقینی بنائے گی۔ یہ طبقہ سیاسی اصلاحات اور جمہوریت کے قیام میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔ انتخابات کے بجائے بازار کو اہمیت دی جا رہی تھی۔ [8]

اس عمل کے نتیجے میں، کہ جسے سیموئیل ہنٹنگٹن نے جمہوریت کی تیسری لہر کہا تھا، 1990ء کی دہائی تکدنیا میں سو کے قریب نوزائیدہجمہوریتیں وجود میں آ چکی تھیں۔ ان سب میں انتخابات ہوتے تھے لیکن وہ ”آزاد جمہوریتیں“ نہیں تھیں کیوں کہ ان میں مہذبآزادیوں اور انسانی حقوق کا کما حقہ خیال نہیں رکھا جاتا تھا۔ فرید ذکریا جیسے نقادوں نے اس نکتے کو اٹھایا کہ انتخابات پر زور دینے سے ترقی پذیر دنیا میں ”بے روح جمہوریت“کو فروغ ملتا ہے۔ پس انتخابات کو التواء میں ڈالنا ہو گا۔یہ بیانیہ غیر سیاسی آزادیوں کا احترام کرنے والی آمریت کو ایسی جمہوریت پر فوقیت دیتا تھا جس میں مہذبآزادیوں پر قدغن لگائی جائے۔ زکریا نے آگے چل کر کہا کہ سعودی عرب کی طرح کی ریاستوں کو یکدم جمہوری بنانے کا نتیجہ ”جیفرسن کی جمہوریت“ نہیں بلکہ ”طالبان کی ملائیت“ ہو گا۔ انہوں نے عرب حکمرانوں کو آمر قرار دیا لیکن ایسے آمر جو انتخابات سے برآمد ہونے والے حکمران سے زیادہ لبرل، بردبار اور تکثر پسندتھے۔ انہوں نے خاص طور پر اس خدشے کی نشاندہی کی کہ اخوانی جماعتیں انتخابات میں شامل تو ہوں گی لیکن ان کو جمہوریت کے بغض میں ”ایک ووٹ، ایک بار“ کا نمونہ بنا کر رکھ دیں گی۔عبوری دور سے گزارنے والے معاشروں کی مثال کے طور پر انہوں نے بوسنیا کی صورت حال کو آزادیوں کی ضمانت دینے والی جمہوریت کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا جہاں ڈیٹون کے امن معاہدےکے ایک سال بعد لوگ ووٹ دینے گئے اور اس عمل کا نتیجہ نسلی تعصبات کو بڑھاوا دینے کی صورت میں نکلا۔ انہوں نے کہا کہ مشرقی تیمور اور افغانستان میں قومی ریاست کی تشکیل کو لمبے عرصے تک طول دینے کا عمل ایک بہتر نمونہ ہے۔انہوں نے عبوری دور کیلئے پانچ سال تجویز کئے جن میں سیاسی اصلاحات اور اداروں کی تعمیر کا عمل مکمل کیا جائے اور پھر قومی سطح پر کثیر الجماعتی انتخابات کرائےجائیں۔ [9] وہ عراق میں التواء کے قائل تھے، جسے مقامی آبادی اور عراق کے امور کے ماہرین مسائل کی جڑ سمجھ رہے تھے۔ زکریا کے موقف کی بنیاد اس مفروضے پر تھی کہ مغربی دنیا میں فردی آزادیوں اور جمہوریت کے درمیان ایک مضبوط تعلق بن چکا تھا جو دنیا کے دوسرے حصوں میں وجود نہیں رکھتا تھا۔

یہ محتاط سوچ امریکی حلقوں میں عام تھی اور ریاست میں تبدیلی کے عمل کے آیت اللہ سیستانی کی خواہش کے مطابق مکمل طور پر عراقی بننے میں رکاوٹ تھی۔ مثال کے طور پر ایک سابقہ انتظامی عہدیدار نے کسی نجی بیان میں کہا تھا کہ وائٹ ہاؤس کردوں اور سنی عربوں کو ویٹو کی طاقت دے کر عراق میں شیعہ ملائیت (ولایتِ مطلقہٴ فقیہ) کا راستہ روکنا چاہتا ہے۔ اس نے کہا، ”یہاں جیفرسن کی جمہوریت نہیں بننے والی“ اور ”یہ سوچنا حماقت ہو گی کہ عراقی لوگ (اخوانی) اسلامکی ملاوٹ کے بغیرایک آئین لکھ سکتے ہیں اور ایک جمہوریت بنا سکتے ہیں۔“ [10] پس اگرچہ علمی حلقوں میں فرید زکریا کے تصور کا بہترین انداز میں رد کیا جا چکا تھا، لیکن ہنوز مقتدر حلقوں میں اور عملی میدان میں یہ احساس حاوی تھا کہ آزادی ناکام ہو جائے گی۔ مفروضہ یہ تھا کہ عراق کی شیعہ اکثریت کو آزاد چھوڑ دیا گیا تو وہ ایک مذہبی سیاست دان کے پیچھے لگ کے ایک ”بے روح جمہوریت“ قائم کریں گے۔ وہ اس بات سے غافل تھے کہ وہاں طاقت کسی ایک جگہ مرکوز نہ تھی اور اگرچہ شیعوں میں مذہبی سیاسی عزائم رکھنے والی جماعتیں تھیں لیکن کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ سب ایک ہی ہدف رکھتی تھیں۔تعمیرِ نو کے سارے منصوبوں پر انسداد کی سوچ چھائی ہوئی تھی۔ اس میں شیعیت کو یکساں اور بسیطفرض کیا گیا تھا اور یہ سمجھا جا رہا تھا کہ شیعوں کی سب جماعتیں (اخوان المسلمین کی طرح) مذہبی عقائد کا سیاسی استعمال کرتی تھیں۔ ان خیالات کو سمجھنے کیلئے خاص احتیاطکی ضرورت ہے۔ خاص طور پر ”بے روح جمہوریت“ کی بار بار دہرائی جانے والی بات کہ جس میں یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ شیعہ تحرک ”تھامس جیفرسن کی جمہوریت“ کا الٹ ہے، کئی مغالطے لئے ہوئے ہے۔

کیا عراقی عوام امریکہ دشمنی پر مبنی ایرانی نظام کو اپنا لیں گے؟ کیا وہ اقلیتوں کے حقوق کا احترام کریں گے؟ممکن ہے کہ بریمر کے ذہن پر یہ سوال چھائےہوں لیکن آیت اللہ سیستانی ان پر غور کرنے کو تیار نہ تھے۔آیت اللہ سیستانی کا انتخابات کے بارے میں عقیدہ، جسے انہوں نے عوامی مقبولیت کے ساتھ بھی جوڑ دیا، ان محققین کی آراء سے ہم آہنگ تھا جو جمہوری عمل کا دوسرا رخ دیکھ رہے تھے۔مثلاً مارک پلاٹنر صاحب کا کہنا تھا کہ جمہوریت اور مہذب آزادی میں تاریخی طور پر کوئی رشتہ وجود نہیں رکھتا ہے۔ مہذب آزادیوں کے احترام کے نظریئے کی جائے پیدائش جدید انگلستان ہے کہ جس میں انیسویں صدی تک ووٹ ڈالنا ایک بڑے محدود حلقےکا حق سمجھا جاتا تھا۔ پلاٹنر صاحب جان لاک کی کتاب ”سیکنڈ ٹریٹائز آف گورنمنٹ“کوانسانی مساوات اور اکثریت کی رائے کے احترامپر زور دینے کی وجہ سے فردی آزادیوں کے احترام کی سوچ کا مصدرمانتےہیں۔پس سیاسی طاقت کا ماٴخذ آزادی اور برابری سے ہمکنار ہونے والے افراد کی رضایت ہے۔لاک کے فکری نظام میں سیاسی ڈھانچے اور طرزِ حکومت کے انتخاب میں سب کی مرضی شاملہونا ضروری ہے۔ چنانچہ مہذب آزادی کا نظریہ”عوام کی حاکمیت پر بے چوں و چرا یقین رکھتا ہے “، یہی نکتہآیت اللہ سیستانی بار بار اٹھا رہے تھے۔ [11] پلاٹنر صاحب انتخابات کی بنیاد رکھنے پر زور دیتے ہیں کیوں کہ کلی طور پر جن ممالک میں انتخابات باقاعدگی سے منعقد ہوتے ہیں وہ فردی آزادیوں کے احترام میں ان سے بہتر ہیں جن کے ہاں ایسا نہیں ہوتا، اور جن ممالک میں سماجی آزادیوں کااحترام کیا جاتا ہے ان میںانتخابات میں دھاندلی کا امکان بھی کم ہوتا ہے۔وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جب جمہوری ادارے بن جائیں تو مہذب آزادی اور انتخابی جمہوریت میں ایک اٹوٹ رشتہ اور قریبی تعلق قائم ہو جاتا ہے۔ [12] ریاستوں کو جمہوریت کی منزل حاصل کرنے کیلئے مغرب کے راستوں پر چلنا ضروری نہیں ہے۔ پلاٹنر صاحب کو اس بات سے اتفاق نہیں تھا کہ کچھ خاص عبوری مراحلمیں مغربی ممالک کو ”مرحلہ وار جمہوریت“ کی حمایت کرنی چاہئیے۔ کسی اصول کے تحت بھیانتخابات پر قدغنکو قبول نہیں کیا جا سکتا اور انتخابات کے سوا حکمران کے تعین کا کوئی اور جائز طریقہ نہیں ہے۔اسی طرح اس مفروضے کی بھی کوئی بنیاد نہیں کہ اگر مسلمان معاشروں کو آیت اللہ سیستانی کے بتائے ہوئے طریقے پر اپنے ادارے بنانے کی آزادی دی جائے تو وہ انسانی حقوق کے تحفظ کو ووٹ نہیں دیں گے یا شخصی آزادیوں کے تحفظ کی طاقت نہیں رکھتے ہوں گے۔ان بحثوں سے مستشرقین کے تعصب کی بو آتی ہے اور اس لب و لہجہ کی جو برطانوی استعماری دور کی پالیسی سازگرٹروڈ بیل نےاپنے باپ کے نام خط میں استعمال کیا ہے کہ اقتدار ان ”عجیب و غریب لوگوں“ کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔ آیت اللہ سیستانی اس قسم کے مفاہیم کے دوبارہ احیا کے خلاف ڈٹ گئے۔

2 جولائی 2003ء میں آیت اللہ سیستانی ایک بار پھر سیاسی منظر نامے پر ظاہر ہوئے اورانتخابات کے طریقۂ کارکے بارے میں ایک مفصل بیان جاری کر کے متحیر کر دیا۔جون میںجاری کئے گئے فتوے کے ضمن میں ان سے پوچھا گیا تھا کہ ووٹ دینے والوں کی اہلیت اور نمائندگان کے انتخاب کے بارے میں وہ کیا کہنا چاہیں گے۔ انہوں نے جواب میں کہا کہ مجلسِ آئین ساز کے ارکان ”ووٹ کی اہلیت رکھنے والے عراقی شہریوںکی مرضی سے منتخب ہونے چاہئیں“ اور یہ کہ ”ووٹنگ کی شرائط و مقررات کا تعین کر کے سب پر شفاف انداز میں ایک جیسا اطلاق کیا جائے۔“ آگے چل کر انہوں نے کہا کہ مشرقی تیمور میں اقوامِ متحدہ کی زیرِ نگرانی اسی قسم کے انتخابات کا انعقاد کیا گیا تھا اور اس بات پر تعجب کا اظہار کیاکہ ”عراق کے معاملے میں اس قسم کا بندوبست کیوں نہیں کیا جا سکتا؟“ انہوں نے واضح کیا کہ”بلا واسطہ انتخابات کا کوئی نعم البدل نہیں ہو سکتا۔“آئین کی اشاعت کے بعد انتخابات ہونے کا انتظار کرنا ممکن نہیں ہو گا کیوں کہ ایک ایسی مجلس کے ہاتھوں لکھا گیاآئین ”جو عوام کی طرف سے منتخب نہیں کی گئی، قابلِ قبول نہیں ہو گا۔“انہوں نے کہا کہ ان کا کامتو بس ”عراقی عوام کو کسی تاخیر یالیت و لعل کے بغیر حقِ حکمرانی واپس دلوانےکا راستہ ہموار کرنا ہے ۔“ [13][النصوص الصادرہ، صفحہ 40، 41]

آیت اللہ سیستانی کے فتوے سے بریمر کے قدم لڑکھڑا گئے، اگرچہ وائسرائے کو آیت اللہ سیستانی کی غیر رسمی طاقت کا درست اندازا لگانے میں کئی ماہ اور لگے۔ 13 جولائی 2003ء میں سی پی اے نے پچیس ارکان پر مشتمل عراقی گورننگ کونسل کا اعلان کیا جسے عراقی ریاست کی تعمیرِ نو کی ذمہ داری سونپی گئی۔ اس میں ملک کے بڑے نسلی اور مذہبی گروہوں کی نمائندگی تھی (تیرہ شیعہ، پانچ سنی عرب، پانچ سنی کرد، ایک آشوری مسیحی اور ایک ترکمانی)۔ بعد میں تین خواتین کو بھی شامل کیا گیا۔اگرچہ اس کا مقصد عراقی عوام کی نمائندگی کرنا تھا، اس میںفرقہ وارانہ اور نسلی تنوع کی عکاسی کی گئی۔ مزید یہ فرض کیا گیا تھا کہ سیاسی نمائندگی یوں حصوں میں بٹی ہونی چاہئیے۔خلاصہ یہ کہ عراقی گورننگ کونسل دراصل عراق کے بارے میں خود عراقی عوام کے بجائے سی پی اے کے زاویۂ نگاہ کی ترجمانی کرتی تھی۔ شاید بریمر کا خیال تھا کہ اس طرح کی ”نمائندہ“ مجلس ایک مقبول بندوبست ہو گی۔ وہ شدید غلط فہمی کا شکار ہوئے تھے۔ پچیس میں سے چوبیس ارکان آیت اللہ سیستانی سے ملنے نجف چلے گئے اور ہر ایک نے ان کی اس بات کو مان لیا کہ انتخابات سے پہلے کوئی عبوری آئین نہ لکھا جائے۔

آیت اللہ سیستانی اور دوسروں کے دباؤ کے نتیجے میں بریمر کو یہ ماننا پڑا کہ عراقی گورننگ کونسل محض ایک عبوری حکومت ہو گی جس کا کام موقت طور پر انتظامی معاملات کو سنبھالنا اور سی پی اے اور اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندوں کے ساتھایک مشاورتی اورتعاونی کردار ادا کرنا ہو گا۔سی پی اے کے چھٹے فرمان کے مطابق سی پی اے اور عراق گورننگ کونسل کو تمام معاملات میں باہمی تعاون اور مشاورت سے چلنا تھا۔ عراقی گورننگ کونسل، جو بظاہر عراق کی آبادی کی نمائندگی کرتی تھی،نےانتخابات کے انعقاد، آئین لکھے جانے اور مستقل حکومت کے بننے تک ملک کا انتظام سنبھالنا تھا۔لیکن جلد ہی یہ بات واضح ہو گئی کہ ایسے مقبول ادارے بنانا مشکل تھا جن کی جڑیں عراقی معاشرے میں پیوست ہوں اور امریکی تسلط کے زیر سایہ ریاست سازی کا عمل مشکلات میں گھرا رہے گا، اور اس پہ طرّہ یہ کہآیت اللہ سیستانی ان مسائل پر نکتہ چینی کریں گے۔ اگرچہ رسمی طور پر طاقت بریمر کے ہاتھ میں تھی لیکن غیر رسمی سیاست ان سوالوں کے گرد گھومتی تھی۔

آیت اللہ سیستانی کی دلچسپی نئی ریاست کی عوامی مقبولیت میں تھی۔ جیسا کہ اپنی کتاب کے چوتھے باب میں میں اشارہ کر چکی ہوں، وہ سیاست کی تفصیلات سے خود کو دور رکھتے تھے، اور امریکہ، کہ جس کو ہمیشہ وہ ”قابض طاقت“ کہتے تھے، سے بھی فاصلہ قائم رکھتے تھے۔ اس عرصے میں ان سے سوال کیا گیا کہ کیا انہیں عراقی گورننگ کونسل میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے اور کیا وہ امریکہ سے مذاکرات کر رہے ہیں؟ان کے دفتر نے اس کونسل میں شرکت کے امکان کو رد کیا اور کہا کہ ”مرجع عالی اور قابض حکومت کے درمیان اس کونسل کی تشکیل یا عراق سے تعلق رکھنے والے کسی موضوع پر کوئی رابطہ نہیں ہے“ اور یہ کہ ان تک اس کونسل کے بارے میں ”کوئی معلومات نہیں پہنچائی گئیں۔“[14][النصوص الصادرہ، صفحہ 42]

دوسرے بیانات میں آیت اللہ سیستانی نے کہا کہ وہ ”امریکہ کے مقاصد کے بارے میں تشویش کا شکار ہیں۔“ [15][النصوص الصادرہ، صفحہ 33]جب بھی پوچھا گیا کہ کیا انہوں نے بش انتظامیہ سے بات چیت کی ہے تو ان کا جواب نفی میں تھا۔ در حقیقت انہوں نے کبھی امریکہ کا نام استعمال نہیں کیا بلکہ ہمیشہ ”قابض طاقت“ یا ”قابض حکومت“ کی اصطلاح استعمال کی۔انہوں نے کئی مواقع پر واضح کیا کہ یہ القاب ان کا فتویٰ نہیں تھے بلکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی رسمی اصطلاحات تھیں (جنہیں بریمر بھی استعمال کر چکے تھے)۔ [16][النصوص الصادرہ، صفحہ 45]وہ اکثر امریکی اقدامات پر تبصرہ کرنے یا امریکیوں کو اپنی غلطیوں کی اصلاح پر مشورہ دینے سے گریز کرتے تھے۔ وہ امریکہ کے بارے میں بہت کم بولے، اسی طرح جیسے انہوں نے مقتدیٰ الصدر یا جہادی گروہوں کو رسمی شناخت دینے سے انکار کیا تاکہ وہ اپنی حد میں رہیں۔

آیت اللہ سیستانی کی فکر میں اقوام متحدہ کا ادارہ کافی نمایاں ہے۔ (عرض مترجم: اس کی وجہ یہ ہے کہ اقوام متحدہبین الاقوامی امورِ حسبہ کی مدیریت کرتا ہے)۔ اپنے تمام بیانات میں آیت اللہ نے واضح کیا کہ ”عبوری دور میں عراق کے امن اور استحکام کی ذمہ داری اقوام متحدہ پر ہے“ اور یہ کہ عراقیوں کو اپنے ملک پر ”حقِ حاکمیت“ لوٹانے کو ممکن بنانے کے مراحل پر ”نظارت“ اور ”نگرانی“ کے سلسلے میں اس ادارے کا کردار بہت اہم ہے۔ [17][النصوص الصادرہ، صفحہ 58]انہوں نے ہمیشہ تصریح کی کہ عراق میں موجود تمام افواج کو ”اقوام متحدہ کی چھتری تلے“ ہی کام کرنا چاہئیے۔ [18][النصوص الصادرہ، صفحہ 65] چونکہ سلامتی کونسل نے حملے اور قبضے کی اجازت نہیں دی تھی، لہذا آیت اللہسیستانیکیلئے اس بات کی کوئی اہمیت نہ تھی کہ بعد میں اقوام متحدہ نے عراق میں اپنے اہلکار بھیجے۔ جب بھی ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ امریکی موجودگی کی تائید کرتے ہیں تو وہ کہتے”ہم کیسے قبضے کی تائید کر سکتے ہیں؟“ [19][النصوص الصادرہ، صفحہ 71] اور یہ کہ وہ امریکی افواج اور اس کے اتحادیوں، جیسے پولینڈ، کی افواج میں ”کسی فرق کے قائل نہیں ہیں۔“ [20][النصوص الصادرہ، صفحہ 63] یہ سب عراق کیلئے اس وجہ سے اجنبی تھے کہ یہ ایک ایسے فوجی حملے کا حصہ بنے جسے آیت اللہ خوداور عالمی برادری ناجائز سمجھتی تھی۔ جب عراق میں جاپانی فوج کی ممکنہ آمد کے بارے میں سوال کیا گیا تو آیت اللہ سیستانی نے جواب میں کہا: ”عراقی عوام اس کی آمد کو اسی صورت خوش آئند سمجھ سکتے ہیں اگر یہ عمل اقوام متحدہ کی چھتری تلے انجام دیا جائے“ اور اگر یہ ”عام انتخابات کیلئے حالات کو سازگار بناتی ہیں۔“ [21][النصوص الصادرہ، صفحہ 47] (لیکن جاپان نے بھی اقوام متحدہ کی منظوری کے بغیر اپنے دستے بھیجے۔) آیت اللہ نے ہمیشہ اقوام متحدہ کو قانونی اعتبارکی علامت کے طور پر پیش کیا۔

آیت اللہ سیستانی سے بار ہا عراق سے امریکی افواج کے انخلا کے وقت اور اس میں اقوام متحدہ کے کردار کے بارے میں سوال کیا گیا ۔ وہ معمولاً اس بات سے آغاز کرتے کہ روزِ اول سے ہی امریکی موجودگیناجائز تھی، جس کی وجہ سے کسی بھی دورانیے کا قبضہ جائز نہیں ہے۔ اگر ملک کے تحفظ کیلئے بیرونی افواج کی ضرورت ہے توآیت اللہ سیستانی کے نزدیک یہ کام اقوام متحدہ کے ”زیرِ سایہ“ ہونا چاہئیے۔ [22] [النصوص الصادرہ، صفحہ 65]اس کے علاوہ کوئی طریقہ جائز نہ ہو گا۔ وہ عراق میں فرانس کے کردار سے راضی تھے کہ انہوں نے اقوام متحدہ کے راستے سے کام کیا تھا جو ان کے مطابق ”عراقی عوام کے مفادات سے ہم آہنگ تھا۔“ [23][النصوص الصادرہ، صفحہ 65] پروفیسر جولیون ہوورث نے بھی فرانس کو اس کی عالمی معاہدے کرنے کی صلاحیت اور اقوام متحدہ کی مرکزیت پر زور دینے اور عراق پر حملے سے پہلے تفتیش کے عمل کیلئے عالمی برادری کی حمایت اکٹھی کرنے کی وجہ سے”بین الاقوامی قانون کا مدافع“ قرار دیا تھا۔ [24]

آیت اللہ سیستانی نے عراق کی بابت اقوام متحدہ کی ذمہ داریوں پر بھی بہت توجہ دی۔ انہوں نے یہاستدلال قائم کیا کہ چونکہ اقوام متحدہ نے نئی عراقی ریاست کو تسلیم کر لیا تھا، اسے یہاں کے سیاسی عمل پر اس وقت تک نظارت بھی کرنی چاہئیے جب تک اس کو استحکام اور عوامی مقبولیت حاصل نہ ہو جائے۔ [25][النصوص الصادرہ، صفحہ 101] یہاں اور دوسرے مواقع پر ان کی زبان میں ابہام تھا لیکن ایک خاص منطق ان کے بیانات میں مشترک تھی: مشروعیت تبھی حاصل ہو گی جب سیاسی ڈھانچہ ”ہر فرقے اور نسل سے تعلق رکھنے والے عراقیوں کی منشا“ کے مطابق قائم ہو جائے گا۔ [26][النصوص الصادرہ، صفحہ 22]

عراق کی خود مختاری کی طرف سفر

نومبر 2003ءمیں سی پی اے نے عراق کی خود مختاری کی طرف حرکت کا منصوبہ پیش کیا۔15 نومبر کو جس معاہدے پر دستخط کئے گئے اس میں ٹرانزیشنل ایڈمنسٹریٹو لاء(عبوری انتظامی دستور)کا مسودہ بھی شامل تھاجو ایک موقت قانون تھا، اور عراق کے ہر صوبے میں ایک رائے شماری کی تجویز تھی تاکہ عبوری پارلیمان بنائی جائے۔ وہ پارلیمان جون 2004ء کو عبوری حکومت کا سربراہ چنے گی۔ آیت اللہ سیستانی نے تشویش کا اظہار کیا۔ پہلی بات تو یہ تھی کہ معاہدے سے قبضے کے تسلسل کا تاثر ملتا تھا جس کا مطلب اسے جائز ماننا بھی تھا۔ دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ عبوری پارلیمان انتخابات کے بجائے رائے شماری سے چنی جانی تھی۔ آیت اللہ سیستانی نے جون میں فتویٰ دے کر انتخابی جمہوریت کی بات تو منوا لی تھی لیکن بریمر اس فتوے میں موجود طریقہ کار پر عمل نہیں کر رہے تھے۔ [27] آیت اللہ سیستانی نے کئی پیغامات میں بلا واسطہ عام انتخابات کے طریقے پر زور دیا تھا لیکن بریمر سن نہیں رہے تھے، یا یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ جو چاہیں گے کر لیں گے۔اب آیت اللہ کو یہ پریشانی لاحق ہو گئی کہ رائے شماری سے اس قسم کے افراد چنے جا سکتے ہیں جو ”قوم کے منتخب کردہ بچے “ نہ ہوں۔ انہوں نے اس اصطلاح کے ساتھ ”بیلٹ باکس“ کی اصطلاح پر زور دینا شروع کر دیا تاکہ ریاست کی تشکیل کے عمل میں سابقہ تارکین وطن کے غیر متناسب اثر و رسوخ اور ایک غیر ملکی قابض قوت کے تسلطکو نمایاں کریں۔آیت اللہ سیستانی نے کہا کہ ”یہ طریقۂ کارناجائز ہے۔“ [28][النصوص الصادرہ، صفحہ 53] مقامی جمہوریت کا بیانیہ ان کا بہترین ہتھیار ثابت ہوا۔ [29]

آیت اللہ سیستانی نے ”ایک فرد، ایک ووٹ“ کے نظام کا مطالبہ کیا جس میں اظہار رائے کا میدانوسیع تر ہو گا جو اس اہم عبوری دور کیلئے ضروری ہے۔ 27 نومبر 2003ء کو آیت اللہ سیستانی نے عوام کے حقِ خود ارادیت کے بارے میں اپنا فتویٰ ایک صحافی انتھونی شدید کو دیا: ”عبوری مقننہ کے ارکان کے چناؤ کا طریقہ ایک ایسی پارلیمان کی تشکیل کو یقینی نہیں بنا سکتا جو عراقی عوام کی صحیح نمائندگی کر سکتی ہو۔“ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ طریقۂ کار کو ”ایک ایسے طریقے سے بدلنا چاہئیے جو اس کو یقینی بنائے، یعنی انتخابات!“ صرف یہی چیز ایک ایسی پارلیمان کے وجود میں آنے کییقین دہانی کرا سکتی ہے جو ”عراقی عوام کے ارادے کا مظہر ہو گی اور ان کی صحیح انداز میں نمائندگی کر سکتی ہو گی اور اسی طرح اس کی مشروعیت کا بھی تحفظ ہو گا۔“ [30][النصوص الصادرہ، صفحہ 84] اسی فتوے میں آیت اللہ سیستانی نے انتخابات میں ووٹرز کے شناختی کارڈ نہ ہونے کی صورت میں ان کے راشن کارڈ کو شناخت کیلئے استعمال کرنے کا مشورہ بھی دیا۔

15 نومبر کے معاہدے پر قائم رہتے ہوئےامریکہ نے کہا کہ ایسے آزاد اور شفاف انتخابات کی تیاری کیلئے وقت کافی نہیں ہے جو 30 جون 2004ء سے پہلے اقتدار ایک عبوری عراقی حکومت کے حوالے کرنے کو ممکن بنا سکیں۔ [31] آیت اللہ سیستانی نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان سے رائے طلب کی۔ اقوام متحدہ، واحد بیرونی ادارہ جس کی مداخلت کوآیت اللہ سیستانی (بین الاقوامی مقننہ کے طور پر) جائز اور منصفانہسمجھتے تھے، کو دعوت دے کر انہوں نے تدبر کا مظاہرہ کیا جس نے انہیں دلیل کےمحاذ پر پیش قدمی کرنے میں واشنگٹن پر فوقیت دی۔ بریمر کو بھی معلوم تھا کہ عراق میں قومی ریاست بنانے کے عمل میں وہ اقوام متحدہ سے بے نیاز نہ تھے۔ در حقیقت عراق پر حملے کے وقت اقوام متحدہ کی مخالفت کرنے کے باوجود اب امریکہ کو اس عالمی ادارے کی طرف واپس آنا پڑا تھا، جزوی طور پر اس لئے کہ بہت سے ملک عراق میں نئی قومی ریاست بنانے کے عمل میں اقوام متحدہ کی قرارداد کے بغیر شامل ہونے پر رضامند نہ تھے۔لیکن آیت اللہ سیستانی سی پی اے پر دباؤ ڈال کر یہ بات سامنے لانا چاہتے تھے کہ سی پی اے انتخابات کروانا ہی نہیں چاہتی۔ وہ مسلسل عبوری حکومت کے ناجائز ہونے اور مقامی حمایت سے محروم ہونے جیسی حقیقت کو بیانکرتے رہے۔ اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری کوفی عنانآیت اللہ سیستانی کے نام عراقی گورننگ کونسل کے صدر عدنان پچاچی کے ہاتھوں ایک خط ارسال کر چکے تھے جس میں انہوں نے جلدی انتخابات کروانے کی مخالفت میں مشورہ دیا تھا۔ آیت اللہ کیلئے کسی تحقیقاتی کمیشن بنائے اور معاملے کو پرکھے بنا دئیے گئے مشورے کی کوئی حیثیت نہ تھی چاہے اسے اقوام متحدہ نے ہی تیار کیا ہو۔ انہوں نے اقوام متحدہ پر مزید کچھ کرنے کیلئے دباؤ ڈالا اور بالآخر کامیاب ہوئے۔ سی پی اے کو مجبوراً اقوام متحدہ کے وفد، جس کی قیادت لاٴخضر براہیمی کر رہے تھے،سے پوچھنا پڑا کہ عبوری حکومت کیلئے جلد انتخابات کے امکان پر اپنی رائے دیں۔آیت اللہ سیستانی نے نہ صرف امکان کا علمی جائزہ لئے جانے کا مطالبہ کیا بلکہ وفد سے چاہا کہ ”سب پہلوؤں پر تحقیق کریں“ اور عبوری قومی کونسل میں عراقی عوام کی نمائندگی کیلئے”متبادل طریقۂ کار وضع کریں۔“ [32][النصوص الصادرہ، صفحہ 86] بریمر کو بھی انتخابات کو 30جون تک ملتوی کرنے کیلئے اقوام متحدہ کی حمایت درکار تھی۔

بڑے پیمانے پر تحقیق کرنے کے بعد لاٴخضر براہیمی نے نتیجہ نکالا کہ انتخابات سال 2004ء کے اواخر یا سال 2005ء کے اوائل میں ہی منعقد ہو سکتے ہیں۔ آیت اللہ سیستانی نے فیصلے کو قبول کر لیا۔ اپنے بیان میں انہوں نے کہا: ”(اقوام متحدہ کی) رپورٹ نے جامع حکومت کے قیام کا راستہ ہموار کر دیا ہے جو بلا واسطہ قومی انتخابات پر مبنی ہو گی“ ۔ آگے چل کر انہوں نے کہا کہ اس رپورٹ نے 15 نومبر کے معاہدے میں موجود ”اہم نقائص“ کی نشاندہی کی، اور پھر انہوں نے ان نقائص کو ایک ایک کر کے لکھ دیا۔ انہوں نے نتیجہ نکالا کہ اب عبوری حکومت کا کام عارضی قوانین بنانا رہ گیا تھا اور یہ ”غیر منتخب سرکار“ 2005ء کو ختم ہو جائے گی۔ [33][النصوص الصادرہ، صفحہ 106] انہوں نے اقوام متحدہ سے اس عمل پر نظارت کی ضمانت حاصل کر لی۔ اس بیان نے اس بات کو بھی یقینی بنا دیا کہ امریکی اقدامات کی بابت اقوام متحدہ کی تشخیص عوام میں نشر ہو جائے۔

تاہم آیت اللہ سیستانی حد سے زیادہ مخالفت نہیں کرتے تھے۔ درحقیقت انہوں نے امریکہ کے ریاست سازی کے منصوبے کو سبوتاژ نہ کر کے ایک اعتبار سے اسکی مدد بھی کی۔جس وقت انہوں نے اقوام متحدہ کی سفارشات کو منظور کیا، بصرہ میں عوام ان کے جلد انتخابات کروانے کے مطالبے کے حق میں مظاہرہ کر رہے تھے۔ کئی مظاہرین نےبینروں پر ”کلا کلا امریکہ“کے نعرے لکھ رکھے تھے۔ اس اعلان سے پہلےآیت اللہ سیستانی کے دفتر کے ایک عہدیدار نے امریکیوں سے کہا تھا کہ وہ مجوزہ عبوری حکومت کے خلاف ایک فتویٰ جاری کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ البتہ امریکہ اپنے منصوبوں کو بدلنے میں تاٴمل کا شکار تھا، اس بات کو اہمیت دئیے بنا کہ جنگ کے آغاز میں آیت اللہ سیستانی کے ہی ایک فتوے نے صدام کی شکست کو تیز تر کیا تھا اور اگر آیت اللہ چاہتے تو امریکہ کی مشکلات میں اضافہ کر سکتے تھے مگر وہ جانتے تھے کہکمزور عراقی حکومت امریکی مدد کے بغیر کام نہیں کر سکے گی۔ امریکی حملے پر ناپسندیدگی کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنے مقلدین کو قانون کی پاسداری، لڑائی اورلوٹ مار سے دوری اور جہادی تنظیموں میں شمولیتسے پرہیز کی نصیحت کی تھی۔ وہ ہمیشہ سماجی ضابطے میں رہ کر کام کرتے تھے۔

8 مارچ 2004ء کو ٹرانزیشنل ایڈمنسٹریٹو لاء (عبوری انتظامی دستور) منظور ہوا جو نئی حکومت کے قیام تک موثر رہا اور مئی 2006ء میں بننے والے مستقل آئین نے اسکی جگہ لی۔اسے صدام کی شکست کی پہلی برسی کے موقع پر عراقی اور امریکی قیادت کی طرف سے ایک بڑی کامیابی گردانا گیا۔ یہ ایک مثالی دستاویز تھی کہ جس میں کلی نکات بیان کئے گئے تھے جو لکھنے والوں کے خیال میں مستقل آئین کے رہنما اصول بنیں گے۔ اس میں جدید ریاست کے بہت سے عناصر ترکیبی تھے، جیسے: حقوق کا بیان، فوج پر عوامی بالا دستی، احتساب کا نظام، وغیرہ۔ اس میں انسانی حقوق کے تحفظ اور جمہوریت کے احترام کی شقیں شامل کی گئی تھیں۔ اس میں ریاست کی مختلف شاخوں میں اختیارات کی تقسیم اور قانون کی حکومت کی تعریف بیان کی گئی تھی۔ اس میں مفاہمت کا پہلو بھی تھا: عربی کے علاوہ کردی زبان کوبھی رسمیزبان قرار دیا گیا تھا، اس کے ساتھ ساتھ کرد قومیت کو بھی تسلیم کیا گیا تھا۔ کرد جمہوری پارٹی کے سربراہ مسعود بارزانی نے کہا کہ آئین نے کردوں کو برابر کا شہری ہونے کا احساس دلایا ہے، نہ دوسرے درجے کے شہری ہونے کا، اوراپنے لوگوں کی کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے وہ کردی زبان میں تقریر چھوڑ کر عربی بولنےلگے۔ [34]

اگرچہ آیت اللہ سیستانی عبوری حکومت کو ناجائز کہنے پر مصر تھے لیکن انہوں نے اپنی توجہ عبوری انتظامی دستور کی تفصیلات کی جانب مبذول کی۔ وقت کے ساتھ ساتھ وہ اپنے خدشات کی جزئیات بیان کرنے لگے۔ ایک خدشہ یہ تھا کہ ”گروہی مفادات کی مداخلت“ آئینی عمل کی مقبولیت کو کم کر دے گی۔ [35](بل ان من المؤکدان المصالح الشخصیۃ والفئویۃ و العرقیۃ والحسابات الحزبیۃ والطائفیۃ ستتدخل بصورۃاو باخری فی عملیۃ الاختیار،  و یکون المجلس المشکّل فاقداً للشرعیہ[النصوص الصادرہ، صفحہ 76])مثال کے طور پر عبوری انتظامی دستور میں صدارتی شوریٰ بنائی گئی جو تین ارکان؛ ایک کرد، ایک سنی عرب اور ایک شیعہ عرب؛ پر مشتمل ہو گی۔ یہ نسلی اور مذہبی اختلاف کو نمایاں کرنے والا ڈھانچہ تھا جو عراق کو فرقہ پرست حکمرانی کی دلدل میں پھنسانے کیلئے کافی تھا۔ آیت اللہ سیستانی نے تنبیہ کی کہ نسلی اور مذہبی گروہ بندی سے چپک جانے سے شوریٰ فیصلے کرنے کے قابل نہ رہے گی اور ”ملک کے اتحاد“ کو نقصان پہنچے گا۔ [36][النصوص الصادرہ، صفحہ 110]

آیت اللہ سیستانی نے اقوام متحدہ سے رجوع کیا اور اس فرقہ وارانہ تقسیمِ اقتدار کے خلاف احتجاج کیا جسے انہوں نے تمام عراقیوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے والا عمل قرار دیا۔ انہوں نے لاٴخضر براہیمی کے نام خط لکھا جس میں ایک ایک کر کے اپنی شکایات بیان کیں۔ اس بار ان کا لہجہ پہلے سے زیادہ سخت تھا۔ انہوں نے کہا کہ عبوری انتظامی دستورپر بہت سی ”قیود“ عائد کی گئی ہیں اور شقوں کو اس پر ”تھونپا“ گیا ہے جو ”بہت خطرناک“ طرزِ عمل ہے کہ جس کا ازالہ کرنا ہو گا۔صدر کے عہدے پر(تین افراد کی) شوریٰ کو بٹھانا عوام کی خواہشات کے مطابق نہیں ہے جیسا کہ ”رائے عامہ کے بارے کی گئی اندازہ گیری اور دستخطی مہم میں لاکھوں افراد کی شرکت“ سے ظاہر ہوتا ہے کہ جن میں یا تو عبوری دستور کو مسترد کیا گیا ہے یا اس میں تبدیلیوں کا مطالبہ کیا گیا ہے۔یہ بات کہ ”جب تک تینوں ارکان میں اتفاق نہ ہو“، جو کہ اختلاف رائے کی صورت میں بعید تھا، صدارتی شوریٰ کو کوئی قدماٹھانے کے لائق نہ چھوڑے گی۔تعطل کا لازمہ بیرونی قوت، جیسے امریکہ، کی مداخلت ہو گا۔آیت اللہ سیستانی نے خبردار کیا کہ نسلی اور مذہبی تفریق پر مبنی نظام مستقبل میں عراق کے ”عدم استحکام، تقسیم اور ٹکڑے ٹکڑے ہونے“ کا سبب بنے گا۔ [37][النصوص الصادرہ، صفحہ 111 تا 113] تاہم انہوں نے عبوری انتظامی دستور کے خلاف کوئی فتویٰ نہیں دیا۔ بظاہر اس وقت وہ مذاکرات کے ذریعے اپنا ہدف حاصل کرنا چاہتے تھے۔

آیت اللہ سیستانی نے بریمر کی اس بات میں خاص طور پر مخالفت کی کہ عراق میں آزاد اور شفاف انتخابات کیلئے 30 جون2004ء کی ڈیڈ لائن تک مناسب حالات پیدا نہیں ہو سکتے۔ آیت اللہ نے اس کے برعکس کے حق میں دلائل اکٹھے کئے۔ مثال کے طور پر صدارتی شوریٰ کی تجویز کے خلافاندازہ گیری کا عمل اور عراقی معاشرے میں گردش کرنے والی عرضداشتیں عراقی عوام کے سیاسی بلوغ کا اظہار تھیں۔ یوں آیت اللہ نے ثابت کیا کہ وہ ملکی سیاست کے رجحانات سے باخبر تھے۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ عالمی برادری کو عبوری انتظامی دستور کو تسلیم نہیں کرنا چاہئیے اور کہا کہ یہ بات اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل تک بھی پہنچائی جائے۔ [38][النصوص الصادرہ، صفحہ 111 تا 113] اقوام متحدہ میں قرارداد نمبر 1546 کی منظوری سے قبل جون میں ایک اور خط لکھ کر انہوں نے جہاں جنوری 2005ءتک قومی انتخابات اور خودمختاری کی واپسی کے احتمال کو خوش آئند قرار دیا وہیں بڑے واضح الفاظ میں عبوری انتظامی دستور کا ذکر قرارداد میں شامل نہ کئے جانے کا مطالبہ کیا، کیوں کہ یہ ایک عارضی دستاویز تھی جو ”غیر ملکی قبضے کے دوران لکھی گئی“ تھی اور ”(بین الاقوامی) قانون کے خلاف“ تھی اور ”عوام کی اکثریت کی طرف سے مسترد شدہ“ تھی۔ [39][النصوص الصادرہ، صفحہ 112] فی الواقع قرارداد نمبر 1546 میں عبوری انتظامی دستور کا کوئی ذکر نہ کیا گیا۔

بنیادی طور پر آیت اللہ سیستانی نے عبوری انتظامی دستور کو وقتی طور پر اس لئے مشروع سمجھا تاکہ مملکت کی وحدت کو قائم رکھا جا سکے اور عام انتخابات کی تاریخ طے کرنے اور حتمی آئین کی تیاری جیسے اہداف کی طرف سفر جاری رکھا جا سکے۔تاہم ابھی کچھ مسائل موجود تھے۔ اس عارضی دستور میں وفاقی طرز کا ڈھانچہ پیش کیا گیا تھا: دراصل یہ عراق کو ایک وفاقی ریاست قرار دیتا تھا جس میں قابلِ ذکر اختیارات صوبوں کو منتقل کئے گئے تھے۔دوسروں کی مخالفت کے باوجود کرد نمائندے عارضی دستور میں یہ شق شامل کرنے میں کامیاب رہے تھے کہ کوئی سے تین صوبےدو تہائی اکثریت سے اگر کسی قانون کی مخالفت کریں تو وہ حتمی آئین کا حصہ نہیں بنے گا۔ چونکہ عراق کے تین صوبوں؛ سلیمانیہ، اربیل اور دہوک؛ میں کرد آبادی کی اکثریت ہے، لہٰذا اس شق نے عملاًکردوں کو حتمی آئین پر ویٹو کی طاقت دے دی، جو قومی انتخابات کے بعد لکھا جانا تھا۔ انہیں اس وقت تکپیشمرگہ (لفظی مطلب: وہ جو موت کے سامنے آتے ہیں) نامی لشکر رکھنے کی بھی اجازت دی گئی جب تک اس کی حیثیت کا تعین نہیں ہو جاتا۔ دوسرے لشکروں، جیسے شیعہ ملیشیاؤں، کی حیثیت کے بارے میں عبوری دستور میں کچھ نہ تھا۔ آیت اللہ سیستانی سبھی لشکروں کو ایک نظر سے دیکھتےتھے، اورصرف ریاستی عسکری اداروں کو ہی جائز سمجھتے تھے۔ (لسنا مع تشکل مثل هذه المیلیشیات، و تاکیدنا علی دعم القوۃ الوطنیۃ العراقیۃ [النصوص الصادرہ، صفحہ 71]) عبوری دستور میں یہ شق بھی شامل تھی کہ 2005ء کے آغاز میں انتخابات سے پہلے اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی جا سکے گی۔ [40]

آیت اللہ سیستانی نے اس معاملے پر ملی نکتہ نظر سے بات کی، جو باقی مسائل پر ان کے موقف سے ہم آہنگ تھی۔ وہ طاقت کی تقسیم اور اس سے مملکت کی وحدت کو لاحق خطرات پر پریشان تھے۔ آیت اللہ سیستانی کی نظر میں ”کردوں“ اور ”سنیوں“ کو آئینی طور پر غیر بنانے سے بھی بڑا خطرہملی شیرازہ بکھرنے اور وطن کی تقسیم کاتھا۔ یہ منہجان کے عراق محور طرزِ فکر کے ساتھ ہم آہنگ تھی جو وہ 2003ءسے اپنائے ہوئے تھے۔چنانچہ انہوں نے ضبطِ نفس کا شاندار مظاہرہ کیا، اگرچہ کردوں نے نئے سیاسی بندوبست میں اپنے حق سے زیادہ طاقت حاصل کر لی تھی۔ وہ وفاق سے متعلق سوالاتپر یا تو غیر جانبدار رہے یا جواب دینے سے پرہیز کیا۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا: ”وفاقیت کی اساس اور اسکی موزوں اقسام پر عراقی عوام کی رائے سے فیصلہ ہوگا“ اور ”اس وقت تک کسی تشہیر سے اجتناب برتا جائے گا ۔“ وہ اس عمل پر اثر انداز ہونے سے گریز کر رہے تھے۔ انہوں نے قارئین کو یقین دہانی کرائی کہ جن ماہرین کو کام سونپا جائے گا وہ”عراق کی وطنی وحدت اور اس کی سب قومی اکائیوں اور نسلی گروہوں کے حقوق کے تحفظ کا بہترین قاعدہ“ ڈھونڈ نکالیں گے۔ [41][النصوص الصادرہ، صفحہ 100 تا 103] انہوں نے فرقہ واریت کی مخالفت اور ملی وحدت کو ہر ممکن وسعتکے ساتھ بیان کر دیا۔اسی طرح جمہوریت کے بارے میں ان کی گفتگو ہمیشہ سب کو شامل کرنے والی ہوتی تھی اور انہوں نے کبھی کسی گروہ کو براہ راست اپنا مخاطب قرار نہ دیا۔ جب ان پر شیعہ اکثریت کے بارے میں تبصرہ کرنے کیلئے دباؤ ڈالا گیا، جو واضح عددی اکثریت کے بل بوتے پر حاکم گروہ بن سکتے تھے، آیت اللہ سیستانی نے سب شیعوں کو ایک جیسا اورباقیوں سے الگ گروہ سمجھنے کی مخالفت کی۔ انہوں نے کسی امتیاز کے بغیر (شہری کی حیثیت میں)شیعوں کو باقی عراقیوں کے برابر قرار دیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ شیعوں کی ضروریات ”باقی عراقی شہریوںجیسی“ تھیں جن میں ”کسی فرقہ وارانہ امتیاز کے بغیر حقوق کا پورا ہونا“ شامل تھا۔ [42](امّا ما یریدہ الشیعۃ فہو لایختلف عمایریدہ سائر الشعب العراقی[النصوص الصادرہ، صفحہ 45])انہوں نے کسی قسم کی عسکری تنظیم بنانے کی مخالفت کی، چاہے اس کا مقصد مقدس شہروں کی حفاظت ہی کیوں نہ ہو۔ انہوں نے درجنوں فتوےتمام عسکریت پسند گروہوں کو غیر شرعی ہونے پر جاری کئے۔ [43][النصوص الصادرہ، صفحہ 51] جہاں تک طرزِ حکمرانی کی بات تھی، انہوں نے کہا کہ اس کا فیصلہ سب کو مل کر، سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر اور ملی استقلال کو مد نظر رکھ کر، کرنا ہو گا۔  یہی پلاٹنر صاحب کے نظریۂ جمہوریت کی روح ہے۔

آیت اللہ سیستانی کوئی تجربہ کار سیاست دان نہ تھے لیکن وہ ایک سیاسی حس رکھتے تھے جس سے وہ ریاست کی بنیاد بننے والی دستاویز اور اداروں کے گہرے مضمرات کو سمجھ سکتے تھے۔ اے جی سی اور عبوری انتظامی دستور کی ساختاری فرقہ واریت نے ملکی سطح پر بھی اور خطے میں بھی اثرات مرتب کرنے تھے۔یہ 2004ء کے ابتدائی ایامتھے جب عبوری انتظامی دستور نافذ ہوا، اور اس وقت وطن کی سلامتی کوخانہ جنگی یا دہشتگردی کے خطرات لاحق ہونے کی بات کوئی نہیں کر رہا تھا لیکن آیت اللہ سیستانی فرقہ وارانہ بنیادوں پر ریاست کی تشکیل میں چھپے خطرات کیپیش بینی کرنے میں کامیاب رہے۔البتہ وہ اس میں تنہا نہ تھے: خطے کے ماہرین نے لبنانی طرز کی تقسیم اقتدار کی خامیوں اور اس کے عراق کیلئے خطرناک ہونے کے بارے میں پہلے سے مقالے لکھ رکھے تھے۔ بطورِ کلیتقسیم کی بابت آیت اللہ سیستانی کےانتباہات کا رخ کردوں کی جانب نہیں بلکہ ریاست کی سالمیت اور آئینی عمل کی مقبولیت کی طرف تھا۔ درحقیقت ان کے بیانات کا بیشتر حصہ فرقہ وارانہ جنگ کے خطرات کے بارے میں ہوتا تھا جو آگے چل کر عراقی ریاست کو لاحق ہونے والے تھے۔ شیعہ سنی تقسیم کے بارے میں ان کے خیالات کی بنیاد یہ تھی کہ :”اگر بیرونی ہاتھ عراق کے معاملات میں دخل نہ دے تو عوام آپس میں بہتر طریقے سے ہم آہنگ اور یکسو ہو جائیں گے۔“ [44] [النصوص الصادرہ، صفحہ 65]آیت اللہ سیستانینے ریاست کا شیرازہ بکھرنے کے بارے میں پہلے سے انتباہ کر دیا تھا کیوں کہ وہ عبوری ڈھانچے اور عملی تشدد میں موجود تعلق کو سمجھ رہے تھے، اسلئے نہیں کہ وہ کسی خاص نسلی گروہ کے مخالف تھے۔ ان کا پیغام کسی کے خلاف نہ تھا: وہ گروہ جنہیں سیاسی عمل میں حصہ نہ دیا گیا وہ تشدد کا راستہ اختیار کر رہے تھے۔ یہ نسخہ سانحے کو ہی جنم دے سکتا تھا۔

انتخابات اور ایک نیا آئین

30جنوری 2005ءکو انتخابات کی تاریخ قرار دئیے جانے کے بعد آیت اللہ سیستانی نے دوبارہ اپنی توجہ سیاست پر مرکوز کی۔بہت کچھ داؤ پر لگ چکا تھا۔ دو سو پچھتر رکنی پارلیمان نے دائمی آئین تدوین کرنا تھا اور 15 اکتوبر 2005ء میں ریفرنڈم کے ذریعے نئے آئین کی توثیق تکعبوری حکومت بنا کر سب آئینی ذمہ داریاں پوری کرنی تھیں۔اس کے بعد دسمبر 2005ء میں مستقل آئین کے تحت پہلی پارلیمان بنائے جانے کیلئے دوبارہ انتخابات ہونے تھے۔10 اکتوبر 2004ء کو آیت اللہ سیستانی سے ان کے مقلدین نے سوال کیا کہ انتخابات کےمعاملے میں ان کی ذمہ داری کیا ہے؟ انہوں نے جوابی فتوے میں بتایا کہ انہیں کیا کرنا چاہئیے۔ انہوں نے تمام مرد و خواتین شہریوں سے کہا کہ وہ ووٹر لسٹ میں اپنے نام کے اندراج کی تصدیق کریں، اور اس کام میںایک دوسرے کی مدد کیلئے انجمن سازی کی تلقین کی اور کہا کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ”ہر عراقی شرکت کرے۔“ [45] (بمشارکۃ جمیع العراقیین[النصوص الصادرہ، صفحہ 131])عراقی سماج پر تحقیق کرنے والے ایک ماہر کے مطابق یہ ”عوامی جمہوریت کیلئے علمائے دین کے اعلیٰ ترین عزم کا اظہار تھا جس کی عراق کی حالیہ تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔“ [46]اس ’ووٹ دو‘ فتوے میں صرف مقلدین کے بجائے سب عراقیوں کو مخاطب کیا گیا تھا۔

آیت اللہ سیستانی نے ووٹ دینے کو شرعی ذمہ داری قرار دیا۔ انکی دلیل یہ ہو سکتی ہے کہ اس سے تمام عراقیوں کو ایک ایسی ریاست بنانے کیلئےمل کر چلنےکا موقع ملے گا جس میں سب برابر ہوں، جس کیلئےوہ ایک سال سے انتھک کوشش کر رہے تھے۔اس مرتبہ انہوں نے، ماضی کے برعکس، بار بار فتویٰ جارینہ کیا۔سیاسی عمل کی جزئیات میں مداخلت سے پرہیز کے عزم پر ثابت قدمرہتے ہوئے انہوں نے واضح کیا کہ وہ راستہ ہموار کریں گے مگر سفرپر اثر انداز نہیں ہوں گے۔ اس طرح اکتوبر میں دیا گیا فتویٰ سب عراقیوں سے انتخابات  میں شرکت کی درخواست تھی۔ جب جنوری 2005ء کے انتخابات نزدیک آ گئے تو یہ امید کی جا رہی تھی کہ آیت اللہ سیستانی ایک اور بیان جاری کریں گے یا کم از کمشیعہ تنظیموں کے اتحاد، ائتلاف العراقي الموحد، کی حمایت کریں گے۔ [47] وہ اپنا وزن ان کے پلڑے میں ڈال کر بادشاہ گر بن سکتے تھے۔ لیکن اگر انہوں نے اس اتحاد کی حمایت کا اعلان کیا ہوتا یا جنوری کے انتخابات کی بابت فتویٰ یا فتوے دئیے ہوتے تو مبصرین اور مقامی سیاست دانوں نے ان کو شک کی نگاہ سے دیکھنا تھا، انہیں فرقہ پرست سمجھنا تھا۔ ذارئع ابلاغ نے ایسی خبریں چلائیں جن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ آیت اللہ سیستانی نے ائتلافکی حمایت کی ہے۔ لیکن ان کے اس دعوے کی تصدیق کیلئے کوئی ثبوت موجود نہیں۔ [48]

یہ سوال کہ آیا آیت اللہ سیستانی ائتلاف کی حمایت کرتے ہیں یا نہیں، صحافیوں اور تجزیہ نگاروں کیلئے ایک اہم موضوعِ بحث تھا۔بہت سے محققین اس بات پر متفق تھے کہ انہوں نے ائتلاف کی حمایت کی ہے، بلکہ فتوے کو ایک اور انداز میں سمجھا جائے تو ان کیلئے”دعا“ کی ہے۔ تاہم اگلی سطر میں انہوں نے کہا کہ وہ انتخابات میں حصہ لینے والی سب سیاسی جماعتوں کی ”تائید“ کرتے ہیں۔ جب ان سے وضاحت طلب کی گئی تو انہوں نے کہا کہ جماعتوں کو ان کا نام یا نفوذ اپنے مفاد کیلئے استعمال نہیں کرنا چاہئیے۔ تاہم ان کے کئی نمائندوں اور شاگردوں نے ائتلاف کی حمایت کی، جس سے محققین نے یہ تاثر لیا کہ2005ء میں آیت اللہ سیستانی اس کی حمایت کرنے جارہے ہیں۔ 16 دسمبر 2004ء کو آیت اللہ سیستانی نے اس معاملے پر ایک سوال کا جواب دیا۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ وہ اس اتحاد کی کامیابی کیلئے دعا گو ہیں، لیکن وہ انتخابات میں حصہ لینے والی سب جماعتوں کی حمایت کرتے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ انہوں نے باقی جماعتوں پر فوقیت دیتے ہوئے کسی ایک سیاسی جماعت کے حق میںکوئی فتویٰ جاری نہیں کیا اور اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ کچھ لوگ ووٹ حاصل کرنے کیلئے ان کا نام استعمال کر رہے تھے۔ [49] انتخابات کے فوراً بعد آیت اللہ سیستانی کے نمائندے حامد الخفاف نے ان کا بیان جاری کیا جس میں آئین اور سیاسی عمل کے بارے میں افواہوں کی تردید کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ انہوں نے نہ تو کوئی نیا بیان جاری کیا ہے نہ ہی ان کی ”سابقہ آراء“میں حالیہ دنوں میں کوئی تبدیلی آئی ہے۔ انہوں نے مستقل آئین اور عراقیوں کی قومی شناخت کے تحفظکے بارے میں اپنے سابقہ موقف کو باقی رکھا۔ وہ قومی اکٹھ میں عوامی نمائندوں کے ترتیب کردہ بنیادی نکات کے حامی رہے۔ ائتلاف نے اپنی انتخابی مہم کے دوران آیت اللہ کی بڑی بڑی تصاویر سب شہروں میں، یہاں تک کہ پولنگ سٹیشنوں  پر بھی،آویزاں کی تھیں۔آیت اللہنے کہا  کہ ”جو لوگ ان سے محبت کرتے ہیں وہ ایسا کام نہ کریں۔“ [50][النصوص الصادرہ، صفحہ 141] ان کے رد عمل کا مطلب یہ تھا کہ وہ اپنے آپ کو سیاسی عمل سے دور رکھنا چاہتے تھے۔ یہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ خطے کے تمامیت خواہ آمر ہمیشہ اپنی بڑی بڑی تصویریں شہر بھر میں آویزاں کرواتے ہیں تاکہ اپنے آپ کو ظلِ الٰہی اور طلسماتی شخصیتکے طور پر منوائیں۔ یہ انداز آیت اللہ سیستانی کیلئے کوئی کشش نہیں رکھتا تھا۔ انہوں نے ہمیشہ سیاست پر اثر انداز ہونے اور اس میں عملی حصہ لینے کے بیچ موجود حد کا خیال رکھا۔ اب کچھ نہ کرنے کا وقت تھا۔

جنوری کے انتخابات جوں جوں قریب آنے لگے، ایسے وقت میں جب عراقی عوام کو پر جوش ہونا چاہئیے تھا، تشویشناک انداز میں دہشتگردی میں اضافہ ہونے لگا اور اس نے فرقہ وارانہ رنگ پکڑ لیا۔ ائتلاف اور کرد جماعتوں نے انتخابات میں واضح برتری حاصل کر لی لیکن سنی عربوں نے انتخابات میں کم حصہ لیا۔ وہ آبادی کاتقریباً 20تھے لیکن صرف دو فیصد ووٹ دینے گئے۔ سنی عرب علاقوں میں تشدد عام تھا اور اس کی وجہ سے بہت سے سنی گروہوں، جیسےہيئہ علماء المسلمين، نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔(عرضِ مترجم: عرب عراقیوں میں اہلسنت اقلیت میں ہیں لیکنپچھلے اسی سال سے عراق میں آمروں کی حکومتوں نے ان کو خصوصی مراعات دے کر شیعہ عرب اور سنی کرد شہریوں کو محروم رکھا تھا تاکہ عوام کو تقسیم کر کے آسانی سے حکومت کی جا سکے۔ اب صدام کے اقتدار سے الگ کئے جانے اور جمہوریت کے آنے کو سنی عربوں کی مراعات کیلئے خطرہ بنا کر پیش کیا جا رہا تھا۔)

اہلسنت عربوں کی کم شرکت نے سارے عمل کی مقبولیت کو خطرے میں ڈال دیا جس نے انتخابات جیتنے والوں پر دباؤ ڈالا کہ وہ سنی عربوں کو مستقبل میں آئین لکھنے کے عمل میں شریک ہونے پر راضی کریں۔ (سنی علاقوں میں کم ووٹ کاسٹ ہونے کی وجہ سے)275 کامیاب امیدواروں میں صرف 17 سنی عرب تھے۔ چھ ماہ بعد، جون 2005ء میں، آیت اللہ سیستانی نے انتخابی عمل میں ایسی تبدیلیاں کرنے پر زور دیا جو آئندہ بننے والی اسمبلیوں میں سنی عربوں کی کما حقہم نمائندگی کو یقینی بنا سکیں۔آیت اللہ سیستانی نے تجاویز بھی مرتب کیں جو جنوری کے انتخابات میں اپنائے گئے نظام کا متبادل ہو سکتی ہوں۔ اس طرح قومی انتخابات میں ووٹر ملک گیر فہرستوں کے بجائے صوبائی سطح پر بننے والی فہرستوں میں سے اپنے نمائندگان چن سکیں گے۔ نئی صوبہ محورتجویز ماننے سےنشستوں کی تعداد کو آبادی کے تناسب سے ہم آہنگ کرنا ممکن ہو گا۔ اس طرح ووٹ ڈالے جانے کی شرح کا اثر نہیں ہو گا۔آیت اللہ سیستانی نے واضح کیا کہ اس نئے انتخابی نظام کی اہمیت یہ ہے کہ یہ عراق کی نازک سیاسی صورتحال کی عکاسی کرتا ہے۔ وہ اس لئے یہ اقدام اٹھا رہے تھے کہ ماضی میں ”بہت سی غلطیاں ہوئیں۔“ ہمیشہ کی طرح آیت اللہ سیستانی نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ”سب شہریوں کو“ جمہوریت میں حصہ لیناچاہئیے۔ [51]

مئیمیں نئی حکومت کے آغاز کے بعد آئین لکھنے والوں میں باقی ماندہ اختلافی نکات پر بحث شروع ہوئی۔سب سے زیادہ جس نکتے پر بحث ہوئی وہ وفاقیت اور عراق کی متعدد علاقوں میں تقسیم کا خطرہ تھا۔ وفاقی طرز حکومت کے بارے میں مسودہ کردوں نے تیار کیا تھا اور مرحوم آیت اللہ باقر الحکیم کی جماعت المجلس الاعلى الا سلامی العراقی،نے اسکی حمایت کی تھی۔ آیت اللہ سیستانی نے ان بحثوں میں دخل نہ دیا اور مختلف گروہوں کو مذاکرات کرنے دئیے۔وہ اس لئے خاموش نہ تھے کہ یہ بحث اہمیت نہ رکھتی تھی، بلکہ اس لئے کہ گروہوں کو اپنا اختلاف خود حل کرنا تھا۔ جیسا کہ وہ امریکہ یا عراقی گورننگ کونسل کی مداخلت کو پسند نہیں کرتے تھے، اسی طرح وہ یہ سمجھتے تھے کہ انہیں بھی مداخلت نہیں کرنی چاہئیے۔ جمہوری طور پر منتخب شدہ سیاسی جماعتوں کے سیاسی نظام کے ساتھ تعامل میں ان جماعتوں کے ارتقاءکا احتمال کافی زیادہ تھا۔جیسا کہ آگے چل کر ہوا، آیت اللہ سیستانی کی پیش بینی کے مطابقمستقل آئین کے نکات پر علاقائی اور نسلی بنیادوں پر مفاہمت پیدا ہوئی۔ سب گروہوں کے حقوق کے تحفظ کا خیال عبوری انتظامی دستور میں بھی رکھا گیا تھا، اس دستاویز کو مشہور ماہر قانون اینڈریوآراتو نے ”موزوں پیرہن“ سے تعبیر کیا تھا جس کے آگے چل کر اچھے سیاسی اثرات مرتب ہوئے۔ [52]

مستقل آئین میں وفاقی طرز پرکردوں کے علاقائی خودمختاری کے بہت سے مطالبے تسلیم کئے گئے، جنہیں ”اقالیم“ کی صورت میں بیان کیا گیا۔کردوں نے عبوری انتظامی دستور میں دئیے گئے سب اختیارات کو دوبارہ حاصل کر لیا اور ان کے علاوہ بھی مرکز پر کچھ امتیازات حاصل کر لئے۔آئین کی شق 117 نے کردوں کے تین صوبوں دہوک، اربیل اور سلیمانیہ کو قانونی طور پر علیحدہ علاقہ تسلیم کیا جو ”حکومتِاقلیمِ کردستان“ کے ماتحت ہوں گے۔اس حکومت کے پاس وفاقی قوانین کے اطلاق میں تبدیلی کرنے کا حق تھا، سوائے ان مخصوص شقوں کے جو وفاق کا خاصہ ہیں، اور اس کو اپنی حفاظت کیلئے ایک نیم فوجی لشکر رکھنے کی بھی اجازت تھی۔اس کے ساتھ ساتھ اس حکومت کے پاس بیرون ملک سفارت خانے کھولنے کا حق بھی تھا۔آئین کی شق 4 میں عربی کے ساتھ ساتھ کردی زبان کو بھیقومی زبان تسلیم کیاگیا۔جنوری 2005ء میں جب صوبائی انتخابات ہوئے تو کردستان کی قومی اسمبلی کیلئے بھی انتخابات برپا ہوئے، جو حکومتِ اقلیمِ کردستان کی الگ پارلیمنٹ کی حیثیت رکھتی تھی۔ کردستان قومی اسمبلی نے 12 جنوری 2005ء کومسعود بارزانی صاحب کو کردستان کا صدر منتخب کیا۔ [53] مولانا سید عبد العزیز الحکیم، جو عراق کے جنوب میں خودمختاری کے حامی تھے، نے ایک دھماکہ دار بیان جاری کرتے ہوئے جنوب کے نو شیعہ اکثریت والے صوبوں کے لئے ایک اقلیم قائم کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ وہ ایک ایسی علاقائی اکائی کا تصور پیش کر رہے تھے جیسی کردوں کو شمال میں حاصل ہوئی تھی۔ یہ وزیر اعظم ابراہیم جعفری کی سوچ سے اختلاف تھا، جو مرکز کو زیادہ طاقتور دیکھنا چاہتے تھے اور ان نو صوبوں کو الگ الگ حیثیت دینا چاہتے تھے۔ [54]ان صوبوں میں عراق کی آدھی آبادی اور اسی فیصد تیل پایا جاتا ہے۔ [55] اس کا مطلب تھا کہ یہ ایک شیعہ شناخت کا علاقہ بن جائے گا اور ایسیاکائی بھی بن سکتا ہے جو مرکز پر بہت زیادہ اثر ڈال سکتا ہو۔ کردوں نے طاقت کے اس ارتکاز کو رد کرنا تھا اور سنی عربوں میں یہ احساس پیدا ہونا تھا کہ وہ درمیان میں کمزور اور بے بس رہ جائیں گے۔ ان کیلئے وفاقی طرز کی ریاست میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ مولانا حکیم کا پیش کردہ تصورآیت اللہ سیستانی کی خواہش سے انحراف تھا جو ریاست کے نزدیک تمام عراقیوں کی برابری کے قائل تھے۔یہ بیان آیت اللہ کے عراق کی وحدت کے تصور سے بھی ٹکراتا تھا اور اس نے دوبارہ عراق کی ”سرد تقسیم“ کی بحث کو زندہ کر دیا۔ [56]اہم بات یہ ہے کہ سید عبد العزیز الحکیم کا تصور شیعہ سوچ کی نمائندگی نہیں کرتا تھا۔شیعہ عوام کی اکثریت مضبوط مرکز دیکھنا چاہتی تھی اور صرف کردوں کیلئے جزوی وفاقیتکی قائل تھی۔ [57]سال بھر کیلئے بصرہ کے شیعوں میں قریبی علاقوںکی ایک اقلیم کیلئے کبھی کبھی تحریک اٹھتی رہی لیکن اس چھوٹی اکائی کے حق میں بھی عوامی حمایت بہت کم رہی۔ مقتدیٰ الصدر اور حزب الدعوه بھی مضبوط مرکز کے قائل تھے۔ 2007ء تک سید عبد العزیز الحکیم کی جماعت مجلس اعلیٰ کا وفاقیتاور ایک بڑے شیعہ اقلیم کے بارے میں جوش بھی مدہم پڑ گیا۔ اب مجلس اعلیٰ نے بھی ”عراقی عوام کی رائے“ کو اپنے بیانیے کا مرکز بنا لیا۔ [58] واضح تھا کہ عوام کی اکثریت کے وفاقیت کو پسند نہ کرنے کی وجہ سے انہیں اپنا موقف بدلنا پڑا ہے۔

لیکن ”تجزیہ طلبی“ کی اصل بنیاد وفاقی طرز کے آئین میں استعمال ہونے والی زبان کی ساخت تھی جس کے بارے میں آیت اللہ سیستانی ہمیشہ خبردار کرتے رہے تھے۔ آئین کی شق 118 میں کہا گیا تھا کہ اگر صوبوں کی ایک سادہ اکثریت الگ اکائیاں بنانا چاہے تو انہیں اس کا حق ہو گا۔ در حقیقت آئین کی شق 112 تا 117 کی تشریح نے مستقبل میں مختلف اکائیوں کی شکل میں ممکنہ تقسیم کی ضمانت دی تھی۔ آنے والے چند سالوں میں عراقیوں میں اقالیم کی ساخت اوران کے اختیارات، خصوصاً تیل اور سرحدوں پر تجارت کے معاملات، پر بحث ہونی تھی۔ آیت اللہ سیستانی نے جس طرح انتخابات میں جزئی بحثوں میں حصہ نہ لیا تھا اسی طرح وفاقیت کے سوال پر بھی جزئیات سے الگ رہے۔در حقیقت جب آئین کا مسودہ تیار ہو گیا تو تمام تر مسائل کے باوجود آیت اللہ سیستانی نے اس کی مخالفت نہ کی۔ انہوں نے عراق کے تمام شہریوں سے درخواست کی کہ وہ ریفرنڈم میں آئین کے حق میں ووٹ دیں ”اگرچہ کچھ خامیاں دور نہیں ہو سکی ہیں۔“ [59]

15 اکتوبر 2005ء کو (ریفرنڈم کے ذریعے) آئین نافذ  کر دیا گیا۔ اس وقت تک آیت اللہ سیستانی کردوں اور مجلس اعلیٰ کی سیاسی نظام میں زیادہ سے زیادہ طاقتحاصل کرنے کی ضد سے تنگ آ چکے تھے۔ ایک مقلد نے 15 دسمبر 2005ء میں 275 رکنی ارکان نمائندگان کے چناؤ کیلئےآنے والے انتخابات کے بارے میں سوال کیا۔ان انتخابات میں نشستیں آبادی کے تناسب کے حساب سے تقسیم کی گئی تھیں تاکہ اہلسنت کی نمائندگی کو یقینی بنایا جا سکے۔ سنی عربوں نے جنوری 2005ء کے انتخابات میں نہایت کم ووٹ ڈالے تھے لیکن دسمبر کے انتخابات میں بہت سوں نے شرکت کی اگرچہ وفاقیت کی شقوں کے خلاف ان میں ناراضی پائی جاتی تھی۔ انہوں نے انتخابات کا بائیکاٹ اس معاہدے کی بنا پر نہیں کیا کہ پہلی پارلیمان کے ماتحت  آئین پر نظرِ ثانی کیلئے ایک کمیٹی بنائی جائے گی جو ترامیم کی تجاویز تیار کرے گی جنہیں ایک واضح اور سادہ انداز میں اپنایا جا سکے۔ دسمبر میں سنی عربوں نے 275 میں سے 60 نشستیں جیت لیں۔

آیت اللہ سیستانی نے ایک مختصر فتویٰ دیا جس میں زور دیا کہ سب مرد اور خواتین ووٹ دیں اور انتخابات میں عوام کی ”پر زور“ شرکت کی امید ظاہر کی۔ انہوں نے ووٹرز کو یہ نصیحت بھی کی کہ اپنی ووٹ کو ضائع ہونے یا تقسیم ہونے سے بچائیں۔ [60](وعلی المواطنین- رجالاً و نساءاً – ان یشارکوا فیہامشارکۃ واسعۃ[النصوص الصادرہ، صفحہ 148])اس سیاسی رسہ کشی کے ماحول میں اس نصیحت کو ائتلاف العراقي الموحد کی ملفوف حمایت سمجھا گیا جو جنوری کی نسبت دسمبر میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب رہا۔ [61] ائتلاف یوں بھی اکثریت کی نمائندگی کرتا تھا، چنانچہ اس کی جیت کوئی تعجب کی بات نہ تھی۔ تاہم اگرچہ اس اتحاد میں مضبوط مرکز کے حق میں کچھ بلند آوازیں موجود تھیں لیکن انہیں اہمیت نہیں دی جاتی تھی۔ ائتلاف کی حکمت عملی عراق کی تمام آوازوں کی عکاسی نہیں کرتی تھی، بلکہ صرف حزبِ اقتدار کی نمائندگی کرتی تھی، وہ افراد جو امریکی حملے سے پہلے اور بعد میں امریکی انتظامیہ سے رابطے میں تھے۔ اس رابطے نے شیعہ موقف کے بارے میں امریکیوں کو اس غلط فہمی میں مبتلا کیا کہ شیعہ عوام وفاقیت کے قائل ہیں۔ مئی 2006ء میں امریکی سینیٹر جو بائیڈن کی طرف سے عراق کی ”سرد تقسیم“ کا منصوبہ پیش کرنے پر اس رابطے کا بھی ایک اثر ہو سکتا ہے۔ بائیڈن کے منصوبے ”ایک عراق اور تین اکائیاں“میںمسئلہ یہ تھا کہ عراق کا آئین وفاقیت کو عراق کی حکمرانی کے ایک کلی اصول کے طور پر قبول نہیں کرتا تھا۔کردستان کے سوا کوئی اور وفاقی اکائی بنانا عوام کی منشاء پر چھوڑ دیا گیا تھا جسے ریفرینڈم کے ذریعے متعین کیا جانا تھا۔ بائیڈن صاحب کا بیان عراقی آئین کے خلاف تھا، جو غیر ملکیوں کو عراقی ریاست کے ڈھانچے پر اثر انداز ہونے کا حق نہیں دیتا، نئی وفافی اکائیاں عراقی عوام نے ”نچلی سطح پر“ طے کرنی ہیں۔ [62]

وفاقیت آیت اللہ سیستانی کی نظر میں عراقی آئین کےریاست کی تقسیم کا طریقۂ کار متعین کرنے تکمحدود نہ تھی۔ عراق کے حصے بخرے ہونا اس طویل تاریخ نگاری کا تسلسل ہوتا کہ جس کے مطابق عراقمیں مختلف لوگوں کو اکٹھا کر دیا گیا تھا، جوایک واحد قومی شناخت نہیں رکھتے تھے۔ یہ وہ بیانیہ ہے جو عراقی ریاست کو مصنوعی بندوبست سمجھتا ہے اور آیت اللہ سیستانی اس کو کھوکھلا ثابت کرنا چاہتے تھے۔اگر حقیقت آیت اللہ سیستانی کے بیانیے سے ہم آہنگ تھی اور عراقی اپنی قومی ریاست میں متحد تھے، تو آئین ایسی مقبول تحریکوں کو ایندھن فراہم نہیں کر سکتا تھا جو عراق کو مختلف اکائیوں بانٹ دیں۔ یہاں تک کہ اگر مرکزی حکومت مفسد اور غیر مقبول بھی ہوتی ، ایسا مسئلہ جس کی طرف آیت اللہ سیستانی نے نوری المالکی کی حکومت میں کئی مرتبہ توجہ کی، تو بھی وفاقی طرز کی ریاست کے مطالبےکو عوامی پذیرائی حاصل نہ ہوتی ۔سچ یہ ہے کہ زوال عراقیوں کی وطن دوستی میںنہیں آیا، بلکہ حکومت کیاس سیاست کی حمایت میں کمی آئی جو آیت اللہ سیستانی کی طرف سے کی جانے والی تاریخ کی تفسیر سے ہم آہنگ نہ تھی۔

البتہ آیت اللہ سیستانی یہ سمجھتے تھے کہ خواص عوامی امنگوں کو نظر انداز کر کے سیاست کو اپنے مفاد کے مطابق بدل سکتے ہیں۔ چنانچہ وہ ریاست کے ایسے ڈھانچے پر زور دیتے تھے جس میں عوام کا سیاسی عمل میں زیادہ سے زیادہ دخل ممکن ہو سکے۔ آیت اللہ سیستانی کی نظر میں دائمی آئین میں خامیاں تھیں لیکن انہوں نےاس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ عبوری انتظامی دستور میں سرکاری مناصب کو واضح نسلی اور مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنےوالی شقوں کو ہٹا دیا گیا تھا۔

مذہب، بالخصوص اسلام کا آئین اور ریاست میں مقام دوسرا اہم معاملہ تھا جس پر آئین کے متن پر ہونے والی بحث میں بہت اختلاف ہوا۔ تاہم آیت اللہ سیستانی کی حکمت عملی اور ترجیحات میں اس بحث کو اولویت نہیں دی گئی۔ ان کے فتوے، بیانات اور اعلانات میں مذہبی کارڈاستعمال ہوتا نظر نہیں آیا۔ لیکن قدامت پسند تنظیمیں، جیسے مجلس الاعلیٰ وغیرہ، اس سلسلے میں آئین میں خاص زبان اور ذاتی زندگی کے قوانین میں فقہ کو نمایاںکرنا چاہتی تھیں۔ یہ لوگ نہ تو حوزہ علمیہ کی نمائندگی کرتے تھے نہ ہی فقہی معاملات میں مرجع  تھے۔ کئی پہلوؤں سے آیت اللہ سیستانی کا مذہبی کارڈ کھیلنے سے اجتناب کرنا چارلس ٹیلرکی رائے سے قریب ہے کہ جدید دور کے مسائل پر اسلام کی رائے ہر فرد کے نزدیک الگ ہے، اور جدت کے ساتھ یہ انفرادیت بڑھتی ہے۔ آیت اللہ سیستانی کیلئے ممکن نہ تھا کہ وہ آئین کے مذہبی پہلوؤں پر ایسی رائے دیں جو سب شیعہ اہلِ نظر کی نمائندگی کا حق ادا کر سکے، نہ ہی ان پر ایسا کرنے کی ذمہ داری تھی کیوں کہ وہحوزہ علمیہ کے سربراہتھے۔ تاہم ان کا عکس العمل مذہب سے بالکل لاتعلق اور مکمل سیکولرریاست کے حق میں بھی نہیں تھا۔ ایسا کرنا ان کی اسلام کو معاشرے کی اخلاقی بنیاد کے طور پر باقی رکھنے کی ذمہ داری کے خلاف جاتا۔ اس آئینی بحث میں آیت اللہ سیستانی کا مطمع نظر اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ اکثریت کی قومی شناخت جمہوری اصولوں سے ہم آہنگ اور محفوظ رہے۔

آئین میں اسلامی دفعاتکے معاملے نے امریکی اور دوسرے مغربی صحافیوں اور پالیسی سازوں میں بہت ابہام پیدا کیا۔ شیعہ مراجع اور ان کے ”شرعی قوانین پر مبنی آئین“ کو لاگو کرنے کے عزائم کے بارے میں قیاس آرائیاں 2003ءسے ہی شروع ہو چکی تھیں۔ جنوری 2005ء کے انتخابات کے بعد اس سوال پر کہ اسلام کے بارے میں نظریہ پردازی کی شکل کیا ہو گی،بعض اوقات قرائن کی طرف اشارہ کئے بغیر بھی بحث جاری رہی۔ [63]کچھ محققین نے کہا کہ ”آیت اللہ سیستانی اور دوسرے مراجع مذہبیت کو عراقی آئین کا حصہ بنانے پر سارا زور صرف کر دیں گے۔“ یہ سمجھا جا رہا تھا کہ ”وہ اگر ہر بات میں مداخلت نہیں کر رہے تو وہ مناسب موقع کی تلاش میں ہیں۔“ [64] تاہم یہ مباحث مستقل آئین کی تدوین سے پہلے ہی شروع ہو چکی تھیں۔

سب سے زیادہ تحفظات آئین کی دوسری دفعہ کے بارے میں تھے، جو یہ ہے:

اول: اسلام ریاست کا سرکاری مذہب ہے اور قانون کا بنیادی ماٴخذ ہے۔

(ا) کوئی قانون جواسلام کے مسلم اصولوں کے خلاف ہو، نہیں بن سکتا۔

(ب)جمہوریت کے اصولوں کے خلاف کوئی قانون نہیں بن سکتا۔

(ج) کوئی ایسا قانون جو اس آئین میں بیان کئے گئے بنیادی حقوق اور آزادیوں کے منافی ہو، نہیں بنایا جا سکتا۔

دوم: یہ آئین عراقی عوام کی اکثریت کے اسلامی تشخص کی ضمانت دیتا ہے اور سب شہریوں کے مذہبی حقوق کے تحفظ اور عقیدے و عمل کی آزادی یقینی بناتا ہے۔۔۔۔ [65]

یہ زبان نہ صرف مبہم تھی، بلکہ بعض مبصرین کیلئے یہ تضادات پر مبنی تھی کیوں کہ یہ روز مرہ کی حکمرانی کے لئے کوئی رہنما اصول فراہم نہیں کرتی تھی نہ ہی عدالتوں کو مقدمات کے فیصلے میں کوئی مدد دیتی تھی۔ بہر حال اس کا مقصد ایسی کوئی واضح رہنمائی فراہم کرنا تھا ہی نہیں۔ باقی عرب ممالک کے دساتیر اور عراق کے سابقہ آئین کی مشابہ دفعات کی طرح ان دفعات نے اسلام کے ریاستی مذہب ہونے کا رسمی اعلان کیا، جو مذہب اور ثقافت کے احترام کا اظہار تھا۔ دوسرے عرب ممالک میں بھی ان باتوں پر آئینی مباحث ہوئی تھیں کہ آیا اسلام قوانین کا ایک ماٴخذ ہے یا اسلام ہی قوانین کا واحد ماٴخذ ہے؟ مثال کے طور پر مصر میں 1972ءمیں آئین کی دوسری شق میں ”اسلامی فقہ کے اصول قانون سازی کا ایک ذریعہ ہیں“ کی جگہ ترمیم کر کے یہ لکھا گیا کہ”اسلامی فقہ کے اصول قانون سازی کا اہم ترین ذریعہ ہیں۔“ جناب ناتھن براؤن، مشرق وسطیٰ کے دساتیر کے ماہر، نے احتمال ظاہر کیا تھا کہ یہ ترمیم حکومت کی طرف سے مذہبی کارڈ کو استعمال کرنے کیلئے کی گئی تھی۔ اگرچہ یہ ترمیم اس وقت کی گئی جب مصر کا سپریم کورٹ (محكمۃ الدستوريۃ العليا)اپنی آزاد حیثیت برقرار کر چکا تھا اور شریعت کی اپنی تشریح نافذ کرنے کے قابل ہو چکا تھا۔ البتہ براؤن کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے اس ترمیم کو مصر کے آئین کی حدود واضح کرنے کیلئے استعمال نہیں کیا۔ اس کے بعد آنے والے فیصلوں سے پتا چلا کہ فقہ کو ایک مستقل قانون کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ [66]

اگر یہ مثال اور علاقے کی کے دوسرے دساتیر کی ایسی مثالیں کوئی اشارہ دیتی ہیں تو یہ ہے کہ عراقی آئین کی پہلی اور دوسری دفعات میں استعمال ہونے والی زبان اپنی اصل میں (اقلیتوں کیلئے)کوئی خوفناک چیز نہیں ہے۔ [67] اسے سمجھنے کیلئے ہمیں عدالتوں کے مجموعی کردار اور علاقے میں مذہب کی بنیاد پر سیاست کرنے والوں کو سمجھنا ہو گا، جو یہاں ”شیعہ تنظیمیں“ ہیں جیسے مجلس اعلیٰ کے کارکنان جنہوں نے آئین کا مسودہ تیار کرنے میں حصہ لیا۔ آئین کے کچھ نقاد چاہتے تھے کہ اس میں کوئی ابہام اور تضاد نہیں ہونا چاہئیے اور کچھصنفی تاثر والےجملوں، جیسے ”ہم نے آدمؑ کے بیٹوں کو فضیلت دی“ پر بھی اعتراض ہواکہ اسمیںبیٹوں کے ساتھ بیٹیاں کیوں نہیں ہیں۔محقق شاک ہانیش نے لکھا کہ آئین کی وہ دفعات جن میں انسانی حقوق کے احترام جیسے اصولوں کا ذکر ہے نا قابل عمل ہوں گی اگر انہیں فقہ کے تابع رہنے والی شق کا پابند بنایا جائے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ مسلمانوں کی سب مذہبی تبلیغ، حقوق اور مساوات کے جدید تصورات کے برعکس ہے۔ ان کے تجزئیے کے مطابق یہ دستاویز قدیم فقہ کی تائید کرنے کی وجہ سے”قدامت پسندانہ اور حتیٰ رد عمل کی نفسیات کا عکس“ تھی۔ہانیش صاحب کے خیال میں تاریخ میں اسلامی حکومتوں کے طرز عمل کی روشنی میںیہ ابہام ”حریت اور جمہوریت کے تصور کی جدید تشریح کی مخالفت“ کا راستہ ہموار کرتا ہے۔ حنش صاحب کا تجزیہ آئین کیسطر بہ سطر نقد پر مشتمل تھا تاکہ یہ ثابت کیا جائے کہ آئینی دفعات مبہم اور متضاد ہیں۔ انہوں نے یہ بھی ثابت کرنا چاہا کہ انسانی حقوق اور معاشرے میں خواتین کے کردار کے معاملے میں آئین کلی طور پر عقب ماندگی کی طرف ایک قدم تھا۔ ان کے مطابقاس کا سبب وہ رکاوٹیں اور پابندیاں تھیں جو اسلام کے نام پر قوانین کی تشریح پر لگادی گئی تھیں۔ لیکن ہانیش صاحب اور کچھ دوسرے دانشوروں کا تجزیہ مذہبی لوگوںکی شمولیت کے اہداف کے بارے میں قیاس آرائیوںاور طاقت حاصل کرنے کے بعد ان کے رویّے میں تبدیلی آ جانے کی پیش بینی جیسے اوہامپر کھڑا ہے۔ [68]

دستاویز کو مبہم کے بجائے لچکدار کہنا زیادہ مفید ہے، جیسا کہ محقق حیدر حمودی صاحب نے کہا ہے۔ ان کے مطابق متن کی زبان جان بوجھ کر انتخاب کی گئی تھی تاکہ آئین میں ارتقاء اور وقت کے مطابق بہتری آنے کی گنجائش رکھی جا سکے۔ آئین کو لچکدار ہونا چاہئیے تاکہ وہ سیاسی رجحانات سے بالاتر ہو اور جوںجوں ریاست کے قدم جمتے جائیں، اس کی مقبولیت میں اضافہ ہو۔ [69] حیدر حمودی صاحب کے مطابق آئین کی کچھ تشریحات میں غلطی وہاں پر ہے جہاں”آئینی اور دستوری تبدیلی کا جامد اور رسمی تصور“ اپنایا گیا، جس کے مطابق آئین میں تبدیلی صرف تحریری ترمیم کے ذریعے آتی ہے۔ حمودی صاحب نے امریکی آئین کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ قانون دانوں نے آئین کی تشریح کے مسلسل ارتقاء کا تصور دیا ہے: سماجی اور سیاسی تبدیلی ہو گی، اور نئے اور پرانے سیاسی نظاموں میں اس تبدیلی کے ساتھ چلنے کیلئےآئین کی زبان لچک د ار ہونی چاہئیے۔اگر حمودی صاحب کی نظر سے دیکھا جائے تو یہ آئین سب سیاسی رجحانات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو مل کر چلنے کی اجازت دیتا ہے لیکن اسے سیاسی ثقافت اور ”عوامی مقبولیت“ کا دھیان رکھنا ہے جو آیت اللہ سیستانی نے کرشماتی طور پر عوام کو ووٹ دینے پر آمادہ کر کے تخلیق کی تھی۔ مثال کے طور پر برقعے پر پابندی کی قرارداد نہایت غیر مقبول ہو گی۔ چنانچہ حمودی صاحب کہتے ہیں کہ یہ زبان مکالمے کی ایسی فضا فراہم کرتی ہے جو مباحث کو عراق کی مقبول آوازوں سے ہم آہنگکر سکے۔ وہ کہتے ہیں کہ سوچنا چاہئیے کہ اگر مسودہ لچکدار نہ ہوتا تو ایسی صورت میں کیا ہوتا؟ اول تو اس میں ہر انتخابات کے بعدترامیم ہوتی رہتیں، دوسرے ریاست میں مذہب کے مقام کےتعین کے بارے میں مستقل تعطل جاری رہتا۔

حمودی صاحب کی آئینی فہم ہمیں آیت اللہ سیستانی کی طرف سے آئین کی تیاری اور اس میںمذہب کے کردار پر خاموش رہنے کی حکمت سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ آیت اللہ سیستانی نے دفعات تجویز نہ کر کے آئین کیجزئیات میں مداخلت کرنے سے پرہیز کیا لیکن اس کلی قاعدے کو واضح انداز میں بیان کیا کہ میثاق میں اسلامی اصولوں کو شامل کیا جائے۔حمودی صاحب نے ہی 2009ء میں مراجع سے ملاقاتوں کے بعد ان کے بیانیے کو ”نجف منترا“ کا نام دیا جس سے مراداقتدار کی سیاست میں حصہ لئے بنا شہریوں کی رہنمائی کا عزم تھا۔ چنانچہ یہ قابلِ فہم تھا کہ آیت اللہ سیستانی سیاسی عمل کی کلیات کے بارے میں تو متعدد فتاویٰ جاری کر کے اپنے سیاسی موقف کی وضاحت کریں لیکن ”سیاسی عمل کی جزئیات“ میں مداخلت نہ کریں۔

ریاست میں مذہب کے کردار کے بارے میں آیت اللہ سیستانی کے فتاویٰ کو اکٹھا کر کے ہم اس موضوع پر ان کے موقف کو سمجھ سکتے ہیں، جو اس عمل کے آغاز سے پہلے بھی دئیے جا چکے تھے۔ 2003ء میں انہوں نے ایک ایسے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ حکومت جو ”اکثریت کی مرضی“ سے منتخب ہو گی اسے اکثریت کے مذہب کا احترام کرنا ہی ہو گا اور وہ ”عوام کی لگائی گئی قیود کے خلاف نہیں کرے گی۔“ اگلا سوال عراق کو درپیش سب سے بڑے خطرے کے بارے میں تھا، آیت اللہ سیستانی نے کہا ”اس کی ثقافتی شناخت، جو اسلام کے ارکان میں سے ہے، کے مٹ جانے کا خطرہ۔“ [70][النصوص الصادرہ، صفحہ 33] دوسرے سوالات میں آیت اللہ سیستانی سے پوچھا گیا تھا کہ کیا حکومت ایرانی طرز کی ہو گی اور کیا یہ ”اسلامی خلافت“ ہو گی؟ انہوں نے کہا کہ ایرانی طرز کی حکومتِ فقیہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، لیکن انہوں نے واضح کیا کہ حکومت کو ”اسلام کا احترام“ کرنا ہو گا کیوں کہ یہ اکثریت کا مذہب ہے۔ [71](اماتشکیل حکومۃ دینیۃ علی اساس فکرۃ ولایۃ الفقیہ المطلقۃ فلیس وارداً[النصوص الصادرہ، صفحہ 47]) اسی فتوے میں انہوں نے کہا کہ حکومت کو اسلامی تعلیمات کے منافی کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہئیے۔ لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ کوئی نظامِ حکومت مسلط نہیں کر سکتے اور اس کا فیصلہ عوامی آراء کی روشنی میں ہو گا جو عام انتخابات کے ذریعے ظاہر ہوں گی۔ ان کے نزدیک ان کی ذمہ داری ”ان (عوامی آراء کے اظہار) کیلئے راستہ ہموار کرنا“ ہے۔ [72][النصوص الصادرہ، صفحہ 71، 72] آیت اللہ سیستانی مذہب کے کردار کو معاشرے کی اخلاقی بنیاد کے طور پر دیکھ رہے تھے لیکن یہ بتانے سے گریز کر رہے تھے کہ اس میں کیا کچھ شامل ہے۔

2003ء میں مجوزہ مجلس قانون ساز کے بارے میں ان کے فتوے کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ قابض قوتوں کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ انتخابات کرائے بغیر اراکین کو تعینات کرے۔لیکن اس میں اس تشویش کا اظہار بھی شامل تھا کہ یہ دستور عراق کی ”قومی شناخت“ کا مظہر نہیں ہو گا، جسے آیتاللہ سیستانی ”مذہب کا اہم رکناور مقدس سماجی قدر“ قرار دیتے تھے۔ [73][النصوص الصادرہ، صفحہ 35، 36] ان سے سوال کیا گیا کہ وہ اسلامی فقہ کے کن نکات کو آئین کے حصے کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آئین میں ”دینی عقائد، اخلاقی اصول اور سماجی اقدار بنیادی ستون ہونے چاہئیں۔“ [74][النصوص الصادرہ، صفحہ 55] مستقبل کے آئین میں مذہب کے کردار کے بارے میں ایک بے لاگ سوال نے آیت اللہ سیستانی سے یہ جواب پایا کہ تفصیلات طے کرنا منتخب اسمبلی کے اراکین کا کام ہے۔ [75][النصوص الصادرہ، صفحہ 78] وہ اکثر اس بات کا اضافہ کرتے تھے کہ ”اسلام عراقی عوام کی اکثریت کا مذہب ہے۔ اگر آئین کی تدوین عراقیوں کے منتخب کردہ افراد کے ہاتھوں ہو گی تو یہ اسلامی اقدار اور اعتدال پسندی کا مظہر ہو گا۔“ [76][النصوص الصادرہ، صفحہ 79، 80]

اگرچہ وہ مذہب کے کردار کے بارے میں رائے دیتے تھے لیکن اس کے ساتھ اس ضمانت کا اضافہ کر کے تعادل پیدا کرتے کہ آزاد اور شفاف انتخابات اس مسئلے پر عراقی رائے عامہ کو آشکار کریں گے۔ آیت اللہ سیستانی نے اس بات کا اضافہ بھی کیا کہ آئین کو مفاہمت، تکثریت، دوسروں کی رائے کا احترام اور مساوات جیسے اصولوں کا بھی خیال رکھنا چاہئیے۔ آیت اللہ سیستانی نے ریاست کی نوع کے بارے میں اپنے تصور پر 12 فروری 2004ء میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے روشنی ڈالی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ نظامِ حکومت کا فیصلہ جمہور کی رائے پر چھوڑنا چاہئیے۔ انہوں نے اضافہ کیا کہ جو لوگ اس عمل میں ذمہ داریاں اٹھائیں انہیں اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانا چاہئیے اور تکثریت، بیلٹ باکس کے احترام،اور پر امن منتقلیٴ اقتدار کے ساتھ ساتھانصاف اور مساوات کے اصولوں پر متفق ہونا چاہئیے۔ [77][النصوص الصادرہ، صفحہ55، 56]

انہوں نے اپنے مقلدین کو یقین دلایا کہ عراق کی ”اصلیسیاسی اور سماجی قوتیں“ ملا راج کے نفاذ کے حق میں نہیں ہیں۔ اس کے بجائے وہ ایسی حکومت کے قیام کے داعی تھے جو عراقیوں کی اکثریت کے ”مذہبی عقائد کا احترام“ کرتی ہو۔ [78][النصوص الصادرہ، صفحہ 96 تا 99] یہ ایک ایسی سیکولر حکومت کی حمایت تھی جو اسلام سے رہنمائی لیتی ہو اور معاشرے میں اس کے ثقافتی کردار کا تحفظ کرتی ہو۔

اپنے شروع کے بیانات میں جس چیز کی طرف آیت اللہ سیستانی کی توجہ نہیں تھی وہ یہ تھی کہ عراقی گورننگ کونسل اور عبوری انتظامی دستورآگے چل کر آئین نویسی کے عمل کی سیاسی حرکیات کا تعین کریں گے۔ انہوں نے ایسے عمل کا تصور پیش کیا تھا جو آبادی کی زیادہ بہتر نمائندگی کر سکے۔

آیت اللہ سیستانی کے فتاویٰ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنی شرائط پر جمہوریت کی بنیاد رکھنے کیلئے پر عزم تھے۔ ان کے فتاویٰ سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ شیعہ اکثریت کو باقی آبادی کی قیمت پر مضبوط نہیں کرنا چاہتے تھے۔ وہ ایک مذہبی ریاست نہیں بنانا چاہتے تھے بلکہ وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتے تھے کہ ریاست میں تحول کے دوران عراقی ”ثقافتی شناخت“نہ ”کھو“ بیٹھیں۔ ہم ماضی میں جا کر تاریخ میں آیت اللہ سیستانی کے کردار کا نمونہ 1906ء میں ایران میں آنے والے جمہوری انقلاب کے دوران اس وقت کے شیعہمراجع کے جمہوریت کی حمایت کرنے میں دیکھ سکتے ہیں۔ جیسا کہ محقق جناب بابک رحیمی نے کہا ہے، آیت اللہ سیستانی کو اس روایت کا امین سمجھنا چاہئیے جس میں مرجع عوام کی رہنمائی کر کے اسلامی اقدار کی ترویج کے ذریعے حکومت اور عوام کے درمیان ایک سماجی معاہدہ قائم کرتا ہے۔ [79] تاہم اس سے زیادہ بھی ہو رہا تھا۔ آیت اللہ سیستانی کا حقوق اور آزادیوں کے احترام کا تصور جس دور میں تشکیل پایا تھا وہ ان کے پیشروؤں کے زمانے سے مختلف تھا۔ یہ صحیح ہے کہ ان کے اقدامات ماضی کے مراجع کے فتاویٰ کو مد نظر رکھ کر اٹھائے گئے تھے۔ لیکن ان کا خود ارادیت کا تصور جدید خیالات کی روشنی میں بنا تھا، جیسا کہ ان کا اقوام متحدہ کے فیصلوں کی پابندی کرنے اور اس (بین الاقوامی حسبیہ کے)ادارے اور اس کی دستاویزات کی طرف رجوع سے ظاہر ہوتا ہے۔ بہر حال یہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کی اکیسویں شق ہی تھی جس میں واضح انداز میں کہا گیا تھا کہ سب لوگوں کو اپنے ملک کی حکمرانی میں حصہ لینے اور اپنے نمائندوں کو آزادی سے منتخب کرنے کا حق حاصل ہے۔ [80] اقوام متحدہ کے التزام نے آیت اللہ سیستانی کی بہت مدد کی۔ آیت اللہ سیستانی بار بار اقوام متحدہ کا حوالہ دیتے۔ اور اقوام متحدہ نے جواب میں عراق کے سرنوشت ساز مراحل میں ان کو ہی واحد موثر آواز کے طور پر قبول کر لیا۔

آیت اللہ سیستانی کے نظریۂ جمہوریت میں سب سے اہم بات یہ تھی کہ وہ ثقافتی سندیت کے گرد قائم تھا۔ اس سے ظاہر ہوا کہ بہت سے اسلامی رہنماؤں کی سوچ جناب مارک جیرگنز میر کے قریب تھی جو مذہب کو قوم سازی اور ریاست سازی کے عمل کی سیاسی مقبولیت کیلئے مفید نظام الاعتقادسمجھتے ہیں۔ انہوں نےاسلام کو ایک جدید اور مقبول طریقۂ اظہار کے طور پر لیا ہے جو جدید قومی ریاستوں پر مشتمل سیاسی منظر نامے میں ایک مثبت کردار ادا کر سکتا ہے۔چنانچہ یہ قدیم مذہبی روایت اور سیکولر قوم سازی کا امتزاج تھا جو آیت اللہ سیستانی کی صورت میں سامنے آیا، جو مارک جیر گنز میر صاحب کے تجزئیے کے مطابق جدید قومی ریاستوں میں جمہوری اقدار اور انسانی حقوق کی تقویت کا سبب بن سکتا ہے۔ [81] جب آیت اللہ سیستانی اسلام کے احترام کی بات کرتے ہیںاور حکومت کو ”اسلامی اصولوں کی مخالفت نہ کرنے“کی نصیحت کرتے ہیں[82][النصوص الصادرہ، صفحہ 47] تو کچھ محققین اسکو تشویش کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ لیکن آئینی عمل میں لچک کے مفہوم کی طرف توجہ دینے سے آیت اللہ سیستانی کی اسلام اور جمہوری سوچ میں گہرا تعلق پیدا کرنے کی خواہش کو سمجھا جا سکتا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں ریاست سازی کا عمل جنگ عظیم اول کے بعد عالمی طاقتوں کی سرپرستی میں شروع ہوا جس میں جنگ عظیم دوم کے دوران مزید مداخلت ہوئی۔ قیادت، آئین کی تدوین اور پارلیمانی عمل میں برطانیہ اور فرانس اس سے پہلے کردار ادا کر چکے تھے۔ آیت اللہ سیستانی کی کوشش یہ تھی کہ نو آبادیاتیدور کے اسلوب کو دہرایا نہ جائے، چنانچہ انہوں نے اپنے نظریۂ جمہوریت کو عراق کی مقامی بنیادوں پر تعمیر کیا۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تاریخی حقائق

عثمان کا قاتل بھی صحابی، قاتل سے انتقام لینے والا بھی صحابی

بزرگ صحابی جناب طلحه بن عبيد الله کا جناب عثمان کے قتل میں کیا کردار تھا ؟
طلحة بن عبيد الله سب سے پہلے اسلام لانے والوں میں سے تھا؛ لہذا یقینی طور پر «السابقون الأولون»میں ان کا شمار ہوتا ہے؛ لیکن دوسری طرف سے ان کا شمار ان لوگوں میں بھی ہوتا ہے جنہوں نے خلیفہ سوم کو قتل کرنے میں اہم کردار اداء کیا۔ یہ بھی اسلامی سرزمین کے مختلف علاقوں میں رہنے والوں کو خط لکھتا اور لوگوں کو خلیفہ کے خلاف ابھارتا۔جناب خلیفہ سوم کے گھر کے محاصرے کے دوران بھی یہ ان لوگوں میں سے تھا جو خلیفہ کے گھر پانی لے جانے سے بھی روکتا تھا۔ اسی لئے مروان بن حکم نے جنگ جمل کے دوران ایک تیر مار کر اس کو قتل کیا اور عثمان کے قتل کا بدلہ لیا.

عبد الرحمن بن عديس، طلحه کے دستور کے مطابق عمل کرتا تھا :

طبري نے اپنی کتاب میں لکھا ہے :

حدثني عبد الله بن عباس بن أبي ربيعة قال دخلت علي عثمان رضي الله عنه فتحدثت عنده ساعة فقال يا ابن عباس تعال فأخذ بيدي فأسمعني كلام من علي باب عثمان فسمعنا كلاما منهم من يقول ما تنتظرون به ومنهم من يقول انظروا عسي أن يراجع فبينا أنا وهو واقفان إذ مر طلحة بن عبيد الله فوقف فقال أين ابن عديس فقيل هاهو ذا قال فجاءه ابن عديس فناجاه بشئ ثم رجع ابن عديس فقال لأصحابه لا تتركوا أحدا يدخل علي هذا الرجل ولا يخرج من عنده. قال فقال لي عثمان هذا ما أمر به طلحة بن عبيد الله ثم قال عثمان اللهم اكفني طلحة بن عبيد الله فإنه حمل علي هؤلاء وألبهم والله إني لأرجو ا أن يكون منها صفرا وأن يسفك دمه انه انتهك مني ما لا يحل له سمعت رسول الله صلي الله عليه وسلم يقول لا يحل دم امرئ مسلم الا في إحدي ثلاث رجل كفر بعد اسلامه فيقتل أو رجل زني بعد احصانه فيرجم أو رجل قتل نفسا بغير نفس ففيم أقتل قال ثم رجع عثمان قال ابن عباس فأردت أن أخرج فمنعوني حتي مر بي محمد بن أبي بكر فقال خلوه فخلوني.

عبد الله بن عباس بن ابوربيعه نقل کرتا ہے: میں عثمان کے پاس گیا اور ان سے گفتگو کی،عثمان نے میرا ہاتھ پکڑا اور گھر سے باہر لوگوں کی باتیں سننے کا کہا ۔ ان میں سے بعض کہہ رہے تھے : ہمیں کس چیز کا انتظار ہے؟ بعض کہہ رہے تھے : منتظر رہیں شاید پلٹ کر آئے۔ اسی دوران طلحه بن عبيد الله آیا ، اور کہا : ابن عديس کہاں ہے ؟ جواب دیا : یہاں ہی ہے، طلحہ نے آہستہ اس کو کچھ کہا، ابن عديس نے اپنے دوستوں سے کہا : کسی بھی صورت میں کسی کو اس گھر میں داخل ہونے یا گھر سے نکلنے کی اجازت نہ دینا.

عثمان نے کہا : یہ طلحه بن عبيد الله کا حکم ہے، پھر کہا : اے اللہ مجھے اس شخص کے شر سے محفوظ فرمایا، اس نے لوگوں کو اکسایا ہے۔ اللہ سے امید رکھتا ہوں کہ اس کو فقر و تنگدستی کا شکار کرئے اور اس کا خون بہادیا جائے اور وہ مر جائے۔ کیونکہ وہ ایسا خون بہانا چاہتا ہے جس کو بہانا اس پر حرام ہے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے ،آپ نے فرمایا:مسلمان کا خون بہانا صرف تین صورت میں جائز ہے۔مسلمان ہونے کے بعد کوئی کافر ہو،کوئی مرد زنا کرئے اور اس کی بیوی بھی ہو،کوئی کسی بے گناہ کو قتل کرئے۔ پھر عثمان نے کہا: میرا جرم کیا ہے کہ یہ لوگ مجھے قتل کرنے کے درپے ہیں؟

ابن عباس کہتا ہے : نکلتے وقت مجھے گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں دے رہے تھے ،لیکن محمد بن ابی بکر کے حکم سے مجھے نکلنے کی اجازت ملی ۔

الطبري، محمد بن جرير (متوفاي310هـ)، تاريخ الطبري، ج 3، ص 411، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت؛

الشيباني، أبو الحسن علي بن أبي الكرم محمد بن محمد بن عبد الكريم (متوفاي630هـ)، الكامل في التاريخ، ج 3، ص 174، تحقيق عبد الله القاضي، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت، الطبعة الثانية، 1415هـ.

طلحه جناب عثمان تک پانی لے جانے کی اجازت نہیں دیتا تھا :

بلاذري نے انساب الأشراف میں لکھا ہے :

حرس القوم عثمان ومنعوا من أجل أن يدخل عليه، وأشار عليه بن العاص بأن يُحرم ويلبي ويخرج فيأتي مكة فلا يُقدم عليه، فبلغهم قوله فقالوا: والله لئن خرج لا فارقناه حتي يحكم الله بيننا وبينه، واشتد عليه طلحة بن عبيد الله في الحصار، ومنع من أجل أن يدخل إليه الماء حتي غضب عليّ بن أبي طالب من ذلك، فأدخلت علي روايا الماء.

نگہبان اور محافظ گھر کی حفاظت کر رہے تھے اور کسی کو گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتے تھے، ابن عاص نے یہ مشورہ دیا کہ احرام کا لباس پہن لیا جائے اور لوگ لبیک کہتے ہوئے مکہ کی طرف حرکت کرئے تاکہ اس طرح عثمان کی جان محفوظ رہ جائے۔ یہ مشورہ مخالفوں کی کانوں تک جب پہنچا تو انہوں نے یہ قسم کھائی ؛ اگر یہ گھر سے نکلا تو پھر ہم نہیں چھوڑیں گے ۔ یہاں تک کہ اللہ ہمارے اور اس کے درمیان فیصلہ کر دئے{قتل کرنے کی طرف اشارہ ہے}۔ طلحه بن عبيد الله نے محاصرہ کو اور سخت کیا اور وہاں تک پانی پہنچانے بھی نہیں دیا ، حضرت علی علیہ السلام اس حالت کو دیکھ کو غصہ آیا۔ ۔۔۔۔۔

البلاذري، أحمد بن يحيي بن جابر (متوفاي279هـ) أنساب الأشراف، ج 2، ص 285.

ابن قتيبه دينوري لکھتا ہے :

ثم أقبل الأشتر النخعي من الكوفة في ألف رجل وأقبل ابن أبي حذيفة من مصر في أربع مئة رجل فأقام أهل الكوفة وأهل مصر بباب عثمان ليلا ونهارا وطلحة يحرض الفريقين جميعا علي عثمان ثم إن طلحة قال لهم إن عثمان لا يبالي ما حصرتموه وهو يدخل إليه الطعام والشراب فامنعوه الماء أن يدخل عليه.

مالك اشتر نخعي ہزار لوگوں کے ساتھ کوفہ سے اور ابن أبي حذيفه چار ہزار لوگوں کے ساتھ مصر سے مدینہ آیا اور عثمان کے گھر کا محاصرہ کیا ۔ طلحہ نے دونوں گروہوں کو عثمان کے خلاف اکسایا ۔وہ کہتا تھا : تمہارے محاصرے سے اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا،گھر میں غذا اور پانی لے جایا جارہا ہے۔ پانی لے جانے نہ دیا جائے.

الدينوري، أبو محمد عبد الله بن مسلم ابن قتيبة (متوفاي276هـ)، الإمامة والسياسة، ج 1، ص 36، تحقيق: خليل المنصور، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت – 1418هـ – 1997م.

طلحه نے مصر کے لوگوں کو خط لکھا تھا :

ابن قتيبه دينوري، طلحه کی طرف مصر والوں کے نام لکھے خط کو اس طرح نقل کرتا ہے:

بسم الله الرحمن الرحيم من المهاجرين الأولين وبقية الشوري إلي من بمصر من الصحابة والتابعين أما بعد أن تعالوا إلينا وتداركوا خلافة رسول الله قبل أن يسلبها أهلها فإن كتاب الله قد بدل وسنة رسوله قد غيرت وأحكام الخليفتين قد بدلت

فننشد الله من قرأ كتابنا من بقية أصحاب رسول الله والتابعين بإحسان إلا أقبل إلينا وأخذ الحق لنا وأعطاناه فأقبلوا إلينا إن كنتم تؤمنون بالله واليوم الآخر وأقيموا الحق علي المنهاج الواضح الذي فارقتم عليه نبيكم وفارقكم عليه الخلفاء غلبنا علي حقنا واستولي علي فيئنا وحيل بيننا وبين أمرنا وكانت الخلافة بعد نبينا خلافة نبوة ورحمة وهي اليوم ملك عضوض من غلب علي شيء آكله.

یہ خط شروع کے مہاجرین اور شوری میں موجود باقی رہنے والے افراد کی طرف سے مصر میں موجود صحابہ اور تابعین کے نام ہے۔

ہمارے پاس آئیں تاکہ خلافت کو نالائق لوگوں کے ہاتھ لگنے سے نجات دے سکے۔ اللہ کی کتاب میں تبدیلی کی ہے اور رسول اللہ کی سنت کو بدل دیا ہے۔ اور پچھلے دو خلفاء کے احکام بھی بدل دیے ہیں۔

اصحاب اور تابعین میں جو بھی باقی ہو ،انہیں اللہ کی قسم دے کر ہم کہتے ہیں:ہمارے پاس آئیں تاکہ حق کو واپس لیا جائے۔لہذا اگر اللہ اور قیامت پر ایمان ہو تو ہماری طرف حرکت کریں۔ تاکہ حق کو اسی راستے پر دوبارہ لگاسکے حس راستے پر رسول اللہ کے دور میں تھا اور جس حالت میں خلفاء کو ہم نے چھوڑا اسی حالت اور راستے کی طرف واپس پلٹا دیا جائے۔ کیونکہ ابھی صورت حال ہے کہ حق کو پامال کیا گیا ہے ۔ بیت المال پر قبضہ جمائے ہوئے ہیں اور خلافت کہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد جو نبوت اور رحمت کی جانشینی تھی اب یہ ایسی بادشاہت میں تبدیل ہوئی ہے کہ جس کو جو ملے ہڑپ کر جاتا ہے۔

الدينوري، أبو محمد عبد الله بن مسلم ابن قتيبة (متوفاي276هـ)، الإمامة والسياسة، ج 1، ص 34، تحقيق: خليل المنصور، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت – 1418هـ – 1997م.

طلحہ کی طرف سے عثمان کو قتل کرنے کا اعتراف :

ابن عبد البر نے الإستعاب میں لکھا ہے:

روي عبد الرحمن بن مهدي عن حماد بن زيد عن يحيي بن سعيد قال قال طلحة يوم الجمل

ندمت ندامة الكسعي لما شريت رضا بني جرم برغمي

اللهم خذ مني لعثمان حتي يرضي.

طلحه جنگ جمل میں کہتا تھا : میں اس کام سے پشیمان ہوں جس کے ذریعے سے بنی حزم کی خوشنودی حاصل کی گئی.

اے اللہ ! عثمان کے خون کا بدلہ ہم سے لے لے۔

إبن عبد البر، يوسف بن عبد الله بن محمد (متوفاي463هـ)، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ج 2، ص 766، تحقيق علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل – بيروت، الطبعة: الأولي، 1412هـ؛

الجزري، عز الدين بن الأثير أبي الحسن علي بن محمد (متوفاي630هـ)، أسد الغابة في معرفة الصحابة، ج 3، ص 85، تحقيق عادل أحمد الرفاعي، ناشر: دار إحياء التراث العربي – بيروت / لبنان، الطبعة: الأولي، 1417 هـ – 1996 م.

محمد بن سعد نے الطبقات الكبري میں لکھا ہے :

أن مروان بن الحكم رمي طلحة يوم الجمل، وهو واقف إلي جنب عائشة بسهم فأصاب ساقه، ثم قال: والله لا أطلب قاتل عثمان بعدك أبدا، فقال طلحة لمولي له: أبغني مكانا. قال: لا أقدر عليه. قال: هذا والله سهم أرسله الله، اللهم خذ لعثمان حتي يرضي، ثم وسد حجرا فمات.

مروان حكم نے جنگ جمل میں طلحه کو جناب عائشه کے پاس کھڑا دیکھا، ایک تیر مارا ، یہ تیر طلحہ کی پنڈلی میں لگا اور کہا : اللہ کی قسم اس کے بعد عثمان کے قاتل کے پیچھے نہیں جاوں گا، طلحه نے اپنے غلام سے کہا : مجھے کسی امن والی جگہ پر لے جائے، اور کہا : یہ ایسا تیر تھا جو اللہ کی طرف سے آیا ، اے اللہ ! عثمان کا انتقام مجھ سے لے لینا اور مجھ سے راضي رہنا ، پھر سر کے نیچے ایک پتھر رکھا اور دنیا سے چلا گیا۔

الزهري، محمد بن سعد بن منيع أبو عبدالله البصري (متوفاي230هـ)، الطبقات الكبري، ج 3، ص 223، ناشر: دار صادر – بيروت؛

المزي، يوسف بن الزكي عبدالرحمن أبو الحجاج (متوفاي742هـ)، تهذيب الكمال، ج 13، ص 422، تحقيق د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة – بيروت، الطبعة: الأولي، 1400هـ – 1980م.

بلاذري نے أنساب الأشراف میں نقل ہے:

قال مروان يوم الجمل: لا أطلب بثأري بعد اليوم، فرمي طلحة بسهم فأصاب ركبته فكان الدم يسيل فإذا أمسكوا ركبته انتفخت فقال: دعوه فإنما هو سهم أرسله الله، اللهم خذ لعثمان مني اليوم حتي ترضي.

مروان نے جنگ جمل کے دن کہا : آج کے بعد خون کا انتقام لینے کے کوشش نہیں کروں گا، ایک تیر عثمان کی طرف پھینکا اور پھر ،تیر اس کے گھٹنے پر لگا، خون بہنے لگا زخم کو باندھا لیکن خون اچھل کر نکلنے لگا، طلحه نے کہا : مجھے چھوڑ دو ، یہ ایسا تیر ہے جو اللہ کی طرف سے آیا ہے، اے اللہ! عثمان کے خون کا بدلہ مجھ سے لے لے اور مجھ پر راضی رہے.

البلاذري، أحمد بن يحيي بن جابر (متوفاي279هـ) أنساب الأشراف، ج 1، ص 311.

بلاذري نے مندرجہ بالا بات کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے:

وكان طلحة شديداً علي عثمان فلما كان يوم الجمل قال: إنا داهنا في أمر عثمان فلا نجد اليوم شيئاً أفضل من أن نبذل له دماءنا اللهم خذ لعثمان مني حتي يرضي.

طلحه ،عثمان کے خلاف سخت موقف رکھتا تھا ؛ لیکن جنگ جمل کے دوران اس نے کہا : عثمان کے بارے میں کوتاہی اور غلطی کی ہے،اج بہتریں کام یہی ہے کہ اس کی خاطر اپنا خون بہا دوں اور یہ کہا : اے اللہ ! عثمان کے خون کا انتقام مجھ سے لے لینا اور مجھ پر راضی رہنا .

البلاذري، أحمد بن يحيي بن جابر (متوفاي279هـ) أنساب الأشراف، ج 3، ص 311.

ذهبي نے بھی سير أعلام النبلاء میں بلکل اسی مطلب کو ذکر کیا ہے اور لکھا ہے:

قال إبن سعد أخبرني من سمع إسماعيل بن أبي خالد عن حكيم بن جابر قال قال طلحة إنا داهنا في أمر عثمان فلا نجد اليوم أمثل من أن نبذل دماءنا فيه اللهم خذ لعثمان مني اليوم حتي ترضي.

حكيم بن جبير سے نقل ہوا ہے : ہم نے عثمان کے قتل کے مسئلے میں ہم نے حق پوشی ،دھوکہ اور فریب دہی سے کام لیا۔ آج ان کے حق میں بہترین کام یہ ہے کہ ہم اپنا خون ان کے لئے بہا دئے ۔پھر کہا : اے اللہ! آج عثمان کے خون کے بدلے میں اس حد تک مجھ سے خون نکال لینا یہاں تک کہ آپ مجھ سے راضی ہوجائے۔

الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، سير أعلام النبلاء، ج 1، ص 35، تحقيق: شعيب الأرناؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة – بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ.

امير مؤمنین عليه السلام عثمان کے قتل میں طلحہ کو قصوروار سمجھتے تھے:

امير مؤمنن عليه السلام نهج البلاغه میں فرماتے ہیں :

وَاللَّهِ مَا اسْتَعْجَلَ مُتَجَرِّداً لِلطَّلَبِ بِدَمِ عُثْمَانَ إِلَّا خَوْفاً مِنْ أَنْ يُطَالَبَ بِدَمِهِ، لأَنَّهُ مَظِنَّتُهُ، وَلَمْ يَكُنْ فِي الْقَوْمِ أَحْرَصُ عَلَيْهِ مِنْهُ، فَأَرَادَ أَنْ يُغَالِطَ بِمَا أَجْلَبَ فيهِ، لِيَلْتَبِسَ الأَمْرُ، وَيَقَعَ الشَّكُّ.

اور خدا کی قسم اس شخص نے خون عثمان کے مطالبہ کے ساتھ تلوار کھینچنے میں صرف اس لئے جلد بازی سے کام لیا ہے کہ کہیں اسی سے اس خون کا مطالبہ نہ کردیا جائے کہ اس امر کا گمان غالب ہے اور قوم میں اس سے زیادہ عثمان کے خون کا پیاسا کوئی نہ تھا۔اب یہ اس فوج کشی کے ذریعہ لوگوں کو مغالطہ میں رکھنا چاہتا ہے اور مسئلہ کو مشتبہ اورمشکوک بنا دینا چاہتا ہے

نهج البلاغه، خطبه 174.

طلحہ کا قتل عثمان کے خون کے انتقام لینے کے لئے ہوا:

ابن أبي شيبه اپنی کتاب المصنف میں ، ابن عبد البر نے الإستيعاب میں اور ابن حجر نے تهذيب التهذيب میں نقل کیا ہے:

حدثنا وَكِيعٌ عن إسْمَاعِيلَ عن قَيْسٍ قال كان مَرْوَانُ مع طَلْحَةَ يوم الْجَمَلِ قال فلما اشْتَبَكَتْ الْحَرْبُ قال مَرْوَانُ َلاَ أَطْلُبُ بِثَأْرِي بَعْدَ الْيَوْمِ قال ثُمَّ رَمَاهُ بِسَهْمٍ فَأَصَابَ رُكْبَتَهُ فما رَقَأَ الدَّمُ حتي مَاتَ قال وقال طَلْحَةُ دَعَوْهُ فَإِنَّمَا هو سَهْمٌ أَرْسَلَهُ اللَّهُ.

مروان جنگ جمل میں طلحه ساتھ تھا ، جس وقت جنگ شروع ہوئی، مروان نے کہا : آج کے بعد عثمان کے خون کا بدلہ لینے کی کوشش نہیں کروں گا ،یہ کہا اور ایک تیر طلحہ کی پھر پھینکا ،تیر طلحہ کے گھٹنے پر آلگا، طلحه نے کہا : یہ تیر اللہ کی طرف سے آیا ہے ، اس کے گھٹنے سے خون نکلتا رہا اور وہ مرگیا ۔

إبن أبي شيبة الكوفي، أبو بكر عبد الله بن محمد (متوفاي235 هـ)، الكتاب المصنف في الأحاديث والآثار، ج 7، ص 542، ح 37803، تحقيق: كمال يوسف الحوت، ناشر: مكتبة الرشد – الرياض، الطبعة: الأولي، 1409هـ؛

إبن عبد البر، يوسف بن عبد الله بن محمد (متوفاي463هـ)، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ج 2، ص 769، تحقيق علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل – بيروت، الطبعة: الأولي، 1412هـ.

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ) تهذيب التهذيب، ج 5، ص 19، ناشر: دار الفكر – بيروت، الطبعة: الأولي، 1404هـ – 1984م.

اس روایت کی سند کی تحقیق:

وكيع بن الجراح: ثقة حافظ عابد من كبار التاسعة.

تقريب التهذيب، ج 2، ص 284، رقم: 7441.

اسماعيل بن ابوخالد: ثقة ثبت من الرابعة مات سنة ست وأربعين.

تقريب التهذيب، ج 1، ص 93، رقم: 439.

قيس بن ابوحازم: ثقة من الثانية مخضرم ويقال له رؤية.

تقريب التهذيب، ج 2، ص 32، رقم: 5583.

ابن عبد البر الإستيعاب میں لکھتا ہے:

وإن الذي رماه مروان بن الحكم بسهم فقتله فقال لا أطلب بثأري بعد اليوم وذلك أن طلحة فيما زعموا كان ممن حاصر عثمان واستبد عليه ولا يختلف العلماء الثقات في أن مروان قتل طلحة يومئذ وكان في حزبه.

مروان نے طلحہ پر ایک تیر سے حملہ کیا اور اس کو مار دیا ، اور کہا: آج کے بعد میں عثمان کے خون کا بدلہ لینے کی کوشش نہیں کروں گا ؛ کیونکہ طلحه ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے عثمان کے گھر کا محاصره کیا اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آیا۔

ابن عبد البر آگے لکھتا ہے : ثقہ علماء کا اس میں اختلاف نہیں ہے کہ طلحہ کو مروان نے قتل کیا جبکہ دونوں ایک ہی لشکر میں تھے{دونوں جناب عثمان کے خون کا انتقام لینے جناب امیر المومنین سے مقابلے میں کھڑے تھے۔}

إبن عبد البر، يوسف بن عبد الله بن محمد (متوفاي463هـ)، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ج 2، ص 766، تحقيق علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل – بيروت، الطبعة: الأولي، 1412هـ..

ابن حجر نے فتح الباري میں لکھا ہے:

وقتل طلحة يوم الجمل سنة ست وثلاثين رمي بسهم جاء من طرق كثيرة ان مروان بن الحكم رماه فأصاب ركبته فلم يزل ينزف الدم منها حتي مات.

طلحه 36 ہجری کو قتل ہوا ، اس کا قاتل مروان حكم تھا۔ اسی کے تیر سے نکلے خون کی وجہ سے وہ مر گیا اور یہ بات متعدد طرق سے نقل ہوئی ہے۔

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ)، فتح الباري شرح صحيح البخاري، ج 7، ص 82، تحقيق: محب الدين الخطيب، ناشر: دار المعرفة – بيروت.

ذهبي نے سير اعلام النبلاء میں لکھا ہے :

وكيع حدثنا إسماعيل بن أبي خالد عن قيس قال رأيت مروان بن الحكم حين رمي طلحة يومئذ بسهم فوقع في ركبته فما زال ينسح حتي مات رواه جماعة عنه ولفظ عبد الحميد بن صالح عنه هذا أعان علي عثمان ولا أطلب بثأري بعد اليوم.

قيس کہتا ہے : جس وقت مروان بن حكم طلحہ کی طرف تیر مار رہا تھا میں اس کو دیکھ رہا تھا؛ یہ تیر طلحہ کے گھٹنے پر لگا اور اس حد تک خون نکلا کہ وہ مرگیا ۔

ایک اور نقل کے مطابق: (مروان نے کہا:( یہ ایسا آدمی ہے کہ جس نے عثمان کے خلاف لوگوں کی مدد کی ؛ ( میں نے عثمان کے خون کا انتقام اس سے لیا ) اور آج کے بعد پھر عثمان کے خون کا بدلہ لینے کی کوشش نہیں کروں گا۔

الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، سير أعلام النبلاء، ج 1، ص 35 ـ 36، تحقيق: شعيب الأرناؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة – بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ.

مروان نے عثمان کے بیٹے سے کہا : میں نےتیرے باپ کے بعض قاتلوں کو سزا دے دیا ہے:

ابن أثير جزري نے اسد الغابه میں نقل کیا ہے:

وكان سَبَبُ قَتْلِ طَلْحَةَ أن مروان بن الحكم رماه بسهم في ركبته، فجعلوا إذا أمسكوا فَمَ الجرح انتفخت رجله، وإذا تركه جري، فقال: دعوه فإنما هو سهم أرسله الله تعالي، فمات منه. وقال مروان: لا أطلب بثأْري بعد اليوم، والتفت إلي أبان بن عثمان، فقال: قد كفيتك بعض قتلة أبيك.

طلحہ کے مرنے کا سبب ، مروان بن حکم کا وہ تیر تھا جو طلحہ کے گھٹنے پر آلگا اور جب زخم کو باندھا جاتا تو زخم خراب ہوجاتا اور جب کھولتا تو خون نکلنا شروع ہوتا ۔ طلحہ نے کہا : مجھے چھوڑ دو، یہ ایسا تیر ہے جو اللہ کی طرف سے آیا ہے۔طلحہ اسی زخم کی وجہ سے دنیا سے چلا گیا ۔مروان نے کہا: آج کے بعد عثمان کے خون کا انتقام لینے کی کوشش نہیں کروں گا اور مروان نے ابان بن عثمان سے کہا : میں نے تیرے باپ کے بعض قاتلوں سے انتقام لیا ۔

الجزري، عز الدين بن الأثير أبي الحسن علي بن محمد (متوفاي630هـ)، أسد الغابة في معرفة الصحابة، ج 3، ص 86، تحقيق عادل أحمد الرفاعي، ناشر: دار إحياء التراث العربي – بيروت / لبنان، الطبعة: الأولي، 1417 هـ – 1996 م.

ابن عبد البر،الإستيعاب میں لکھتا ہے :

رمي مروان طلحة بسهم ثم التفت إلي أبان بن عثمان فقال قد كفيناك بعض قتلة ابيك.

مروان نے طلحه کی طرف تیر مارا اور پھر ابان ابن عثمان سے مخاطب ہو کر کہا : میں نے تجھے تیرے باپ کے بعض قاتلوں سے رہائی دلائی۔

إبن عبد البر، يوسف بن عبد الله بن محمد (متوفاي463هـ)، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ج 2، ص 768، تحقيق علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل – بيروت، الطبعة: الأولي، 1412هـ؛

الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، سير أعلام النبلاء، ج 1، ص 36، تحقيق: شعيب الأرناؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة – بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ؛

الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام، ج 3، ص 487، تحقيق د. عمر عبد السلام تدمري، ناشر: دار الكتاب العربي – لبنان/ بيروت، الطبعة: الأولي، 1407هـ – 1987م.

سودان نے عثمان کو طلحه کے حکم سے قتل کیا :

عن سعيد بن عبد الرحمن بن أبزي عن أبيه قال رأيت اليوم الذي دخل فيه علي عثمان فدخلوا من دار عمرو بن حزم خوخة هناك حتي دخلوا الدار فناوشوهم شيئا من مناوشة ودخلوا فوالله ما نسينا أن خرج سودان بن حمران فأسمعه يقول أين طلحة بن عبيد الله قد قتلنا ابن عفان.

سعيد بن عبد الرحمن بن ابزي نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے: میں دیکھ رہا تھا کہ لوگ عمرو بن حزم کے گھر کے دوازے سے عثمان کے گھر میں داخل ہورہے تھے۔ اللہ کی قسم میں یہ بھول نہیں کرسکتا ؛سودان بن حمران عثمان کے گھر سے باہر نکلا اور میں نے اس کو یہ کہتے سنا :طلحہ کہاں ہے؟ {اس کو یہ بتائے }ہم نے عفان کے بیٹے کو قتل کیا ہے ۔

الطبري، أبي جعفر محمد بن جرير (متوفاي310هـ)، تاريخ الطبري، ج 2، ص 669، ناشر: دار الكتب العلمية

Continue Reading

فاطمہ زھرا (سلام اللّہ علیھا)

شیخ مفید کے اجتہادی فکر میں صدیقہ طاہرہ سلام الله علیها کی شہادت کے دلائل کا تجزیہ

  1. خلاصہ:

شیخ مفید بزرگ شیعہ فقیہ اور علماء میں سے ہیں، جن کے نظریات امامیہ کے بہت سے نظریاتی اور تاریخی مسائل میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔

حالیہ برسوں میں، شیعہ ثقافت، خاص طور پر ایام فاطمیہ کے ترویج کی وجہ سے، بعض منحرف دہشت گرد گروہوں نے یہ جھوٹا دعویٰ کیا ہے کہ شیخ مفید صدیقہ طاہرہ کی شہادت پر اعتقاد نہیں رکھتے، خدا ان پر رحم فرمائے۔ جبکہ شیخ مفید کی اجتہادی فکر کا ان کے تاریخی، فقہی اور اصولی کاموں سے تجزیہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ امامیہ کے اس عظیم عالم کی فکر میں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت ایک قطعی اور یقینی ہے۔ اس مضمون میں ہم متعدد منابع مثلاً روایات کی تعدد، شواہد، شہرت، صحیح احادیث کی کتابوں میں ان کی شہادت اور مصائب کی بنیاد پر تجزیہ و شواہد کے ساتھ یہ دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مسئلہ شہادت اور مصائب حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا یقینی ہے۔

.2 بیان مسئلہ

محمد بن محمد بن نعمان شیخ مفید 336ھ میں بغداد میں پیدا ہوئے۔ وہ شیعوں کے بزرگ فقہاء، محدثین اور علمائے دین میں سے ہیں۔ شیخ مفید کے مشہور اور معتبر شاگرد نجاشی (رحمہ اللہ) ان کے بارے میں فرماتے ہیں:

«1067 محمد بن محمد بن النعمان‏ … شیخنا و أستاذنا رضی الله عنه. فضله أشهر من أن یوصف فی الفقه و الکلام و الروایة و الثقة و العلم»‏

"محمد بن محمد بن نعمان بن عبدالسلام بن جابر بن نعمان بن سعید بن جبیر ہمارے شیخ اور استاد ہیں – خدا ان سے راضی ہوں – فقہ و حدیث میں ان کا فضل اور ان کی ثقہ ہونا مشہور ہے۔ ان کے متعددکتابیں ہیں۔”

نجاشى، احمد بن على، رجال النجاشی، ص399، 1جلد، جماعة المدرسین فی الحوزة العلمیة بقم، مؤسسة النشر الإسلامی – ایران – قم، چاپ: 6، 1365 ه.ش.

امامیہ کی اس عظیم شخصیت کے بارے میں جو ابہام پیدا ہوئے ہیں ان میں سے ایک حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت کے سلسلے میں ان کا نظریہ ہے۔ کچھ منحرف گروہ مثلاً انگریزی دہشت گردانہ تحریک یہ بہانہ کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ امامیہ کے اس عظیم عالم کو حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت پر اعتقادنہیں ہے۔ بلاشبہ اس شبہ کے جواب کے لیے شیخ مفید کے اجتہاد کی بنیادوں کا ان کی تصانیف اور کتابوں سے تفصیلی تجزیہ درکار ہے۔ اس لیے ہمیں احادیث کی سند اور قبولیت میں شیخ مفید کے اجتہاد کی بنیادوں کے تجزیے کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔

  1. روایات کی سند اور قبولیت میں شیخ مفید کی بنیاد کا تجزیہ

ہر فقیہ اور متکلم کے لیے اجتہاد کی سب سے اہم بنیادوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس کی نظر میں شرعی دلائل – عقلی اور نقلی دونوں طرح کی تصدیق کے طریقوں سے واقف ہو۔ شرعی شواہد میں قرآن کے ساتھ ساتھ احادیث بھی تنوع اور اہمیت کے اعتبار سے اجتہاد کا سب سے اہم ستون ہیں۔

مثال کے طور پر، اگر کوئی فقیہ اور عالم دین کسی کتاب کی تمام احادیث کو – جیسا کہ صحیح بخاری یا اصول کافی – کو حجت اور دلیل شرعی کے طور پر مانتا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ان احادیث کے مندرجات پر یقین رکھتا ہے اور ان پر عمل کرتا ہے، اور فتویٰ دیتاہے۔

ایک اور مثال یہ ہے کہ اگر ایک فقیہ اور عالم تمام احادیث کے صحیح ہونے کو قطعی طور پر تسلیم کر لے، اس کے مقابلے میں کسی دوسرے فقیہ کے مقابلے میں جو مفید روایات اور علم کو قبول کرتا ہے، تو احکام سے اجتہاد اور استنباط کرنےمیں مختلف نتائج برآمد ہوں ۔

یہاں ضروری ہے کہ شیخ مفید کی روایت کو قبول کرنے کی بنیاد کی طرف اشارہ کیا جائے اور ان کے دلائل اور فتاویٰ کی توثیق میں اس کے نتائج پر مزید بحث کی جائے، خاص طور پر حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت کے مسئلہ میں۔

شیخ مفید اپنی کتاب اصول فقہ بنام "التذکرہ با صول الفقہ” میں حدیثوں کو اجراء کے لحاظ سے اسے متواتر اور احد روایات میں تقسیم کیا گیا ہے۔ متواتر روایتوں کی سند اور اعتبار میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اصل بحث ان روایات کو دیکھنے کے طریقے سے ہے جو سند اور اجراء کے لحاظ سے تواتر کی سطح تک نہیں پہنچتی ہیں اور اصطلاح میں "اخبار احد” کا حصہ سمجھی جاتی ہیں۔

شیخ مفید نے اس طرح کی روایت کی حجیت اور اعتبارکو اس طرح بیان کرتےہیں:

«فأما خبر الواحد القاطع للعذر فهو الّذی یقترن إلیه دلیل یفضی بالناظر فیه إلى العلم بصحة مخبره و ربما کان الدلیل حجة من عقل و ربما کان شاهدا من عرف و ربما کان إجماعا بغیر خلف فمتى خلا خبر الواحد من دلالة یقطع بها على صحة مخبره فإنه کما قدمناه لیس بحجة و لا موجب علما و لا عملا على کل وجه»

البتہ وہ خبر جو عذر کے لیے فیصلہ کن ہے وہ خبر ہے جو اس وجہ کے ساتھ ہو کہ اس پر اجتہاد کرنے والے فقیہ کو اس بات کا علم اور یقین آجائے کہ اس خبر کا مفاد صحیح ہے۔ کبھی یہ استدلال اور قرینه عقلی دلیل ہوتی ہے، کبھی یہ حسب روایت شاهد ہوتی ہے اور کبھی ایسا اجماع ہوتا ہے جس پر کسی کو اعتراض نہیں ہوتا۔ جب بھی ان مفید شواہد میں سے ایک بھی معلومات نامکمل اور علم سے خالی ہو تو وہ ثبوت نہیں ہے اور فقیہ کے لیے علم اور یقین فراہم نہیں کرتا اور اس مفاد کی بنیاد پر کسی بھی طرح عمل نہیں ہو سکتا۔

مفید، محمد بن محمد، نبرد جمل / ترجمه الجمل و النصرة لسید العترة فی حرب البصرة، ص23- تهران، چاپ: اول، 1383 ش.

مندرجہ بالا تمہید کی بنیاد پر شیخ مفید نے تاریخی واقعات پیش کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس کا قاری اس بات کا ثبوت حاصل کر سکتا ہے کہ اہل جمل اور اس کے واقعات کے بارے میں عقیدہ درست ہے اور ان واقعات کو اپنے راستے کے لیے روشنی کے طور پر استعمال کرنے کے قابل ہو۔

نتیجہ: مندرجہ بالا مقدمات کے مطابق یہ بات واضح ہے کہ شیخ مفید نے اپنی کتابوں میں جو روایات اور خبرواحدنقل کی ہیں, اس کے اجراء کے لیے قرینہ موجود ہونے کی وجہ سے علم اور اعتماد اس کے لیے کارآمد رہا ہے۔

1/3۔ عقلی دلیل:

کسی روایت کے مضمون کی عقلی دلیل کے ساتھ مطابقت اس کے جاری کرنے کے لیے ایک اہم دلیل ہے۔ مثال کے طور پر وہ احادیث جو اہل بیت علیہم السلام کی مطلق عصمت پر دلالت کرتی ہیں جو قطعی دلیل کے مطابق ہیں۔ لہٰذا اگر کوئی روایت اس عقلی مفروضے کے مطابق ہو تو وہ صحیح ہے۔ کسی مقدمے میں متواتر روایتوں کا ہونا موضوع کو جاری کرنے کے عقلی دلائل میں سے ایک ہے۔

3/2۔ عقلی اور عرفی دلیل:

عقلی دلیل کے ساتھ مطابقت روایت جاری کرنے کی ایک اور دلیل ہے۔ مثال کے طور پر لوگوں کے درمیان لین دین کے معاملات میں اگر کسی روایت کا مقصد عقلی قانون پر دستخط کرنا تھا تو وہ حجت ہے۔ مثال کے طور پر ایسی روایت جو اس بات پر دلالت کرتی ہو کہ لین دین کا موضوع معلوم ہونا چاہیے یا غبنی لین دین (ایسا سودا جس میں عدل و انصاف نہ پایا جاتا ہو اور فریقین میں سے ایک انتہائی پشیمان ہو) صحیح نہیں ہے۔

3/3۔ اجماع کے ساتھ روایت کے مطابقت کا اصول یا شیعہ علماء کا مشہور قول:

یہ ثبوت شیعہ علماء کے درمیان روایات کی منتقلی کے لیے اہم ترین دلیلوں میں سے ایک ہے۔ شیعہ علماء نے طویل عرصے سے ان روایات کو مستند سمجھا ہے جو ائمہ کے اصحاب کے درمیان مقبول اور عام تھیں اور ہر کوئی ان کی پیروی کرتا تھا۔

/43۔ مشہور اصول اور مشہور روایت کی کتابوں میں روایت کے ذکر کا ثبوت:

یہی وجہ ہے کہ مرحوم کلینی نے اپنی کتاب اصول کافی کے شروع میں صحابہ کرام میں سے مشہور و معروف اصولوں سے روایات جمع کرنے کی بات کی ہے۔ اسی طرح کا دعویٰ شیخ صدوق من لا یحضرہ الفقیہ اور شیخ طوسی اپنی کتاب کے تعارف میں تہذیب الاحکام کے شروع میں بھی کرتے ہیں۔

/53۔ قرینه استفاضه اور طریقوں کی کثرت:

یہ سب سے اہم عرفی اور عقلی دلائل میں سے ایک ہے۔ احتمالات کے حساب کے قانون کی بنیاد پر، عقلا کسی کہانی کے راویوں کی کثرت سے یقین اور عام علم تک پہنچتے ہیں – خواہ ان کی کوئی خاص تصدیق نہ ہو یا بعض راویوں کی ترمیم کی گئی ہو۔ عقلا کے اس طرز عمل کی حکمت یہ ہے کہ ہر طریقہ ہمارے اندر واقعہ کی سچائی کا کوئی نہ کوئی شبہ اور احتمال پیدا کرتا ہے، اس شبہ کی کثرت اور مخالف شواہد کی عدم موجودگی سے عقلا یقین اور صحیح شبہ تک پہنچ جاتے ہیں۔ شارع بھی علم اور یقین کو روایت سمجھنے میں حجت مانتے ہیں۔

نتیجہ: شیخ مفید کے طریقہ اجتہاد میں، اگر کوئی روایت متواترہ نہ ہو، بعض دلائل کے باوجود اس کی سند اور اعتبار متواتر روایت سے مختلف نہیں ہے۔

/63۔ شیخ مفید کی کتابوں کی تالیف کے طریقہ پر اصول کا اطلاق

روایات اور شرعی تجاویز کی توثیق میں جن بنیادی اصولوں اور اجتہاد پر بحث کی گئی ہے اس کا براہ راست اثر شیخ مفید کے علمی، فقہی اور تاریخی کاموں کی تالیف پر پڑاہے۔ یہ متقی عالم اپنی تاریخی کتاب ارشاد کے شروع میں لکھتے ہیں:

«… فإنی مُثْبِتٌ بتوفیق الله و معونته ما سألتَ أیدک الله إثباتَه من أسماء أئمة الهدى علیهم السلام و تاریخ أعمارهم و ذکر مشاهدهم و أسماء أولادهم و طرف من أخبارهم المفیدة لعلم أحوالهم لتقف على ذلک وقوف العارف بهم و یظهر لک الفرق ما بین الدعاوی و الاعتقادات فیهم فتمیز بنظرک فیه ما بین الشبهات منه و البینات …»

مفید، محمد بن محمد، الإرشاد فی معرفة حجج الله على العباد، ج‏1 ؛ ص4، قم، چاپ: اول، 1413 ق.

"…اور پھر، خدا کے فضل اور اس کی مدد سے، میں اس کتاب میں بتاؤں گا کہ آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں، راہنمائی کرنے والے ائمہ کے ناموں، ان کی زندگی کی تاریخیں (اور ان کی زندگی کا دورانیہ)، اوران کی شہادت کامقام، ان کے بچوں کے نام ، ان کی زندگی کے بہاؤ سے، جو ان کے حالات کے بارے میں علم کا سبب بنا ان کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کرنا اور مختلف آراء اور عقائد کے درمیان فرق کرنا۔ ان کے بارے میں اظہار خیال، اور مشکوک مواد کو حقائق سے الگ کرنے کے لیے…»

مفید، محمد بن محمد، الإرشاد للمفید / ترجمه رسولى محلاتى، ج‏1 ؛ ص1، تهران، چاپ: دوم، بى تا.

اس تمہید کی بنا پر شیخ مفید نے تاریخ معصومین سے روایتیں اور نصیحتیں جمع کرنے کی کوشش کی ہے، جو مکلفین اور مخاطبین کے لیے مفید ثابت ہوں گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شیخ مفید کے نزدیک اس کتاب میں روایات اور موضوعات عقلی دلائل، کثرت طریق، مشہور و اجماع وغیرہ کی وجہ سے معتبر رہے ہیں۔

ارشاد کے علاوہ شیخ مفید اپنی اہم ترین فقہی کتاب ’’ مقنعه ‘‘ کے شروع میں لکھتے ہیں:

«جمع مختصر فی الأحکام و فرائض الملة و شرائع الإسلام لیعتمده المرتاد لدینه و یزداد به المستبصر فی معرفته و یقینه و یکون إماما للمسترشدین و دلیلا للطالبین و أمینا للمتعبدین یفزع إلیه فی الدین و یقضى به على المختلفین»

"یہ کتاب واجبات مکلفین اور اسلامی قوانین کے احکام ومسائل کی مختصر تالیف ہے تاکہ دین کے چاہنے والے اس پر اعتماد کر سکیں۔ اور جو دینی معارف کو جاننا چاہتا ہے اور یقین چاہتا ہے اس کتاب پر قائم رہنے سے اس کے یقین اور علم میں اضافہ ہوگا۔ اور یہ کتاب ان لوگوں کی امام اور رہنما ہے جو ترقی اور رہنمائی چاہتے ہیں، مذہبی لوگوں کے متلاشیوں اور معتمدوں کے لیے اس کتاب کی تعلیمات میں پناہ لینے اور متنازعہ امور کو ختم

کرنے کا سبب ہے۔”

بغدادى، مفید، محمّد بن محمد بن نعمان عکبرى، المقنعة (للشیخ المفید)، ص: 27، در یک جلد، کنگره جهانى هزاره شیخ مفید – رحمة الله علیه، قم – ایران، اول، 1413 ه‍ ق

اس انتہائی اہم اور کلیدی تمہید کی بنا پر، جو شیخ مفید کے اجتہاد کی ایک اہم ترین بنیاد پر دلالت کرتا ہے، وہ فتویٰ میں ایسے ذرائع اور روایات کا حوالہ دیتے ہیں جو اعتماد اور علم اور خدائی فرائض کی انجام دہی کے لیے مفید ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شیخ مفید کی رائے میں اس فقہی کتاب کا مواد عقلی، روایتی اور قرآنی دونوں اعتبار سے صحیح دلائل پر مبنی ہے۔ اپنی کتاب کے آغاز میں انہوں نے سامعین سے یہ عہد کیا ہے کہ وہ غیر معتبر ذرائع سے دور رہیں اور ان کی بنیاد پر کوئی رائے قائم نہ کریں۔

اس کی بنیاد شیخ مفید کی تاریخی کتب میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ وہ جمل کتاب کے تعارف میں لکھتے ہیں:

«فقد جمعت لک أیدک الله کل ما صدر عنهم و أثبته‏ فی هذا الکتاب برهانا یفضی الناظر فیه إلى صحة الاعتقاد فی أحکام القوم بأسمائهم بأعمالهم و ما فیها من الکفر و الإیمان و الطاعة و العصیان و التبین و الضلال لتعلم وفقک الله بالنظر و الاعتبار و تخرج بذلک من التقلید الموبق لصاحبه‏ لتظفر بالحق و یزول عنک الاشتباه الذی التبس علیک الأمر فیما کان هناک‏»

مفید، محمد بن محمد، الجمل و النصرة لسید العترة فی حرب البصرة، ص48، 1جلد، دار المفید – قم (ایران)، چاپ: 1، 1413 ه.ق.

"اور اس تالیف میں، میں نے آپ کے لیے فراہم کیا ہے – خدا آپ کو خوش رکھے – جو کہا گیا ہے، اور میں نے ایک دلیل کو ثابت کیا ہے کہ جو بھی اسے دیکھتا ہے وہ ان کے اور ان کے طرز عمل کے بارے میں صحیح عقیدہ تلاش کرسکتا ہے۔ اور وہ سمجھے کہ کفر، ایمان، نافرمانی، اطاعت، گمراہی اور ہدایت کیسی ہے اور مجھے امید ہے کہ آپ اس سے سبق حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے اور گمراہ کن تقلید کی حالت سے نکل کر حق تک پہنچ جائیں گے اور جو گمراہی اور گمراہی کا باعث ہے وہ آپ سے دور ہو جائے گا۔”

مفید، محمد بن محمد، نبرد جمل / ترجمه الجمل و النصرة لسید العترة فی حرب البصرة، ص23- تهران، چاپ: اول، 1383 ش.

مندرجہ بالا مقدمہ کی بنیاد پر شیخ مفید نے کچھ تاریخی واقعات پیش کرنے کی کوشش کی ہے کہ قاری اس بات کا ثبوت حاصل کر سکے کہ افراد اور واقعات کے بارے میں ان کا عقیدہ درست ہے اور وہ ان واقعات کو اپنے راستے کے لیے روشنی کے طور پر استعمال کر سکتا ہے۔

نتیجہ: مندرجہ بالا مقدمہ کے مطابق یہ بات واضح ہے کہ شیخ مفید نے اپنی کتابوں میں جو روایات اور خبریں نقل کی ہیں۔ اس کے اجراء کے لیے دلائل موجود ہونے کی وجہ سے مفید علم اور یقین پیدا ہوا ہے۔

  1. شیخ مفید کا فقہ، حدیث اور تاریخ پر مبنی نقطہ نظر کا اظہار

اجتہاد کے مندرجہ بالا نکتہ کو مدنظر رکھتے ہوئے اب ہم شیخ مفید کی شہادت حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے بارے میں ان کے فقہی، فتاوی، تاریخی اور احادیث مبارکہ کا جائزہ لیں گے:

4/1۔ مقنعه میں شیخ مفید کی رائے:

شیخ مفید نے فقہ و فتاویٰ کے اپنے سب سے اہم اور جامع تصنیف جو کہ مقنعه ہے میں درج ذیل روایت کو بخش زیارت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مختصر زیارت کے باب میں شامل کیا ہے کہ جس کا اظہار ہم اس جملے میں کچھ وضاحت کے ساتھ ذکرکرتے ہیں:

«ثم قف بالروضة و زر فاطمة علیها السلام فإنها هناک مقبورة: پھر قبرستان میں کھڑے ہو کر فاطمہ سلام اللہ علیہا کی زیارت کرو کیونکہ ان کی قبر اسی علاقے میں ہے۔

فإذا أردت زیارتها فتوجه إلى القبلة فی الروضة و قل: اور جب تم اس کی زیارت کرنا چاہو تو روضہ میں قبلہ کی طرف رخ کرو اور کہو:

السلام علیک یا رسول الله: آ پ پر سلام ہو یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

السلام على ابنتک الصدیقة الطاهرة: آ پ کی بیٹی صدیقہ اور طاہرہ کو سلام

السلام علیک یا فاطمة بنت رسول الله: سلام ہو آپ پر اے فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

السلام علیک أیتها البتول الشهیدة الطاهرة: سلام ہو آپ پر اے بتول شاہدہ طاہرہ

مندرجہ بالا جملہ میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت کا حوالہ دیا گیا ہے۔ یہ بات مسلسل زیارت کے حوالے سے مضبوط اور ثابت ہوتی ہے جس میں حقوق غصب کرنے اور صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا پر بہت سی سختیوں کا ذکر ہے۔ شیخ مفید بیان کرتے ہیں:

لعن الله من ظلمک: خدا ہر اس شخص پر لعنت کرے جس نے آپ پر ظلم کیا۔

و منعک حقک: اور اس نے تمہیں تمہارے حق سے منع کیا۔

و دفعک عن إرثک: اور تمہیں تمہاری میراث سے نکال دیا۔

و لعن الله من کذّبک: اور خدا اس پر لعنت کرے جس نے آپ کو جھٹلایا

و أعنَتکِ: اور اس نے آپ کو انتہائی سختی اور مشقت میں موت کے قریب کر دیا۔

و غصّصک بریقک: خدا اس شخص پر لعنت کرے جس نے آپ کو اتنا دکھ پہنچایا

یہ معلوم ہونا چاہیے کہ "غوث” ثلاثی مزید باب تفعیل ریشه «غصص» اس کا مصدر«الغُصّة» ہے۔

فصیح عربی استعمال میں، غم ایک ایسی حالت ہے جس میں کسی شخص کے حلق کے آخر میں ہڈی یا اس جیسی کوئی چیز پھنس جاتی ہے (دھیان دیں: حلق کے اوپر نہیں! کیونکہ اسے برداشت کرنا آسان ہے) جو اسے سانس لینے یا پانی پینے سے روکتا ہے۔ اور اس شخص کو مسلسل تناؤ، تنگی اور انتہائی شدید دباؤ میں ڈالیں – جیسے دم گھٹنے یا مسلسل ڈوبنے کی حالت۔ یہ حالت کسی شخص کی سب سے مشکل ذہنی اور جسمانی حالت کی نشاندہی کرتی ہے۔

فیومى، احمد بن محمد، المصباح المنیر فى غریب الشرح الکبیر للرافعى، ص448، قم، چاپ: دوم، 1414 ه.ق.

فیروز آبادى، محمد بن یعقوب، القاموس المحیط، ج‏2 ؛ ص475، بیروت، چاپ: اول، 1415 ه.ق

موسى، حسین یوسف، الإفصاح ،ج‏1 ؛ ص453، قم، چاپ: چهارم، 1410 ه.ق.

اس تمہید سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ” و غصّصک بریقک ” کا مطلب ہے کہ خدا ان لوگوں پر لعنت کرے جنہوں نے تم میں "غم کی کیفیت” پیدا کی – وہ بھی بڑی شدت کے ساتھ – اس طرح کہ آفت کی شدت کی وجہ سے آپ کا لعاب دہن۔ ہڈی کی طرح ہے حلق میں تھا اور… امیر المومنین علیہ السلام کا بھی وہی حال تھا جو صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا کا تھا۔ اس نے کہا: میں نے کئی سال انتظار کیا جبکہ ” و فی العینِ قذًى و فی‏ الحلقِ‏ شَجاً ” کا مطلب ہے "گلے میں ہڈی اور آنکھ میں کانٹا”:

ابن بابویه، محمد بن على، علل الشرائع، ج‏1 ؛ ص151، قم، چاپ: اول، 1385ش / 1966م.

شیخ مفید ب ادامہ دیتے ہوءےیبان کرتے ہیں:

و أدخل الذل بیتک: اور خدا ان پر لعنت کرے جنہوں نے آپ کی عزت کو پامال کیا اور آپ کے گھر میں ذلت اور بے بسی لائی۔

و لعن الله أشیاعهم و ألحقهم بدرک الجحیم: اور خدا ان کے پیروکاروں پر لعنت کرے اور انہیں جہنم کی سمجھ میں شامل کرے۔

صلى الله علیک یا بنت رسول الله: آپ پر خدا کی رحمتیں ہوں، اے خدا کے رسول کی بیٹی

و على أبیک و بعلک و ولدک الأئمة الراشدین: اور آپ کے والداور بچوں پر خدا کی رحمتیں ہوں، جو صالح امام ہیں۔

علیک و علیهم السلام و رحمة الله و برکاته‌:

بغدادى، مفید، محمّد بن محمد بن نعمان عکبرى، المقنعة (للشیخ المفید)، ص: 459، در یک جلد، کنگره جهانى هزاره شیخ مفید – رحمة الله علیه، قم – ایران، اول، 1413 ه‍ ق

اس گھر میں ذلت و رسوائی لانا جسے آسمانی فرشتے عزیز سمجھتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اہل بیت علیہم السلام کے مصائب کی انتہا کو ظاہر کرتا ہے۔

2/4۔ امالی میں شیخ مفید کا نظریہ

"امالی” میں اسلام کی اخلاقی، مذہبی اور تاریخی روایات شامل ہیں۔ شیخ مفید نے 7 سال کے دوران، رمضان المبارک کے مقدس مہینوں میں اور 42 مجالس میں اس کتاب کےاملاء کیے ہیں۔

مفید، محمد بن محمد، الأمالی (للمفید)، ص1 و ص350، قم، چاپ: اول، 1413ق.

یہ کتاب شیعہ حدیث کی سب سے مستند کتابوں میں سے ایک ہے۔ شیخ مفید نے اس کتاب کی احادیث کو کئی مجالس میں حدیث کے متلاشیوں کو املاءکیاہے۔ یہ کتاب بڑے ذوق و شوق اور لطافت سے ترتیب دی گئی ہے۔

اس نفیس داستانی کتاب کی روایات کا جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ شیخ مفید نے کتاب میں متعدد مقامات پر حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی حقانیت اور مظلومیت سے متعلق روایات پیش کی ہیں جن کا ذکر ہے:

4/2/1. روایت اول:

درج ذیل روایت حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے اس قول سے ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کی سختیوں اور مصائب کا ذکر ہے:

«قَالَ أَخْبَرَنِی أَبُو بَکْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ الْجِعَابِیُّ قَالَ أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرٍ الْحَسَنِیُّ قَالَ حَدَّثَنَا عِیسَى بْنُ مِهْرَانَ عَنْ یُونُسَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ سُلَیْمَانَ الْهَاشِمِیِّ عَنْ أَبِیهِ عَنْ جَدِّهِ عَنْ زَیْنَبَ بِنْتِ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ ع قَالَتْ‏ لَمَّا اجْتَمَعَ رَأَیُ أَبِی بَکْرٍ عَلَى مَنْعِ فَاطِمَةَ ع فَدَکَ‏ وَ الْعَوَالِیَ وَ أَیِسَتْ مِنْ إِجَابَتِهِ لَهَا عَدَلَتْ إِلَى قَبْرِ أَبِیهَا رَسُولِ اللَّهِ ص‏فَأَلْقَتْ نَفْسَهَا عَلَیْهِ وَ شَکَتْ إِلَیْهِ مَا فَعَلَهُ الْقَوْمُ بِهَا وَ بَکَتْ حَتَّى بَلَّتْ تُرْبَتَهُ ع بِدُمُوُعِهَا وَ نَدَبَتْهُ ثُمَّ قَالَتْ فِی آخِرِ نُدْبَتِهَا

قَدْ کَانَ بَعْدَکَ أَنْبَاءٌ وَ هَنْبَثَةٌ

لَوْ کُنْتَ شَاهِدَهَا لَمْ تَکْثُرِ الْخُطَبُ‏

وَ اخْتَلَّ قَوْمُکَ فَاشْهَدْهُمْ فَقَدْ نَکَبُوا

إِنَّا فَقَدْنَاکَ فَقْدَ الْأَرْضِ وَابِلَهَا

قَدْ کَانَ جَبْرَئِیلُ بِالْآیَاتِ یُؤْنِسُنَا

فَغِبْتَ عَنَّا فَکُلُّ الْخَیْرِ مُحْتَجِبٌ‏

فَکُنْتَ بَدْراً وَ نُوراً یُسْتَضَاءُ بِهِ‏

عَلَیْکَ یَنْزِلُ مِنْ ذِی الْعِزَّةِ الْکُتُبُ

تَجَهَّمَتْنَا رِجَالٌ‏ وَ اسْتُخِفَّ بِنَا

بَعْدَ النَّبِیِّ وَ کُلُّ الْخَیْرِ مُغْتَصَبٌ‏

سَیَعْلَمُ الْمُتَوَلِّی ظُلْمَ حَامَّتِنَا

یَوْمَ الْقِیَامَةِ أَنَّى سَوْفَ یَنْقَلِبُ‏

مِنَ الْبَرِیَّةِ لَا عَجَمٌ وَ لَا عَرَبٌ‏

فَقَدْ لَقِینَا الَّذِی لَمْ یَلْقَهُ أَحَدٌ

لَنَا الْعُیُونُ بِتِهْمَالٍ لَهُ سَکَبٌ‏

فَسَوْفَ نَبْکِیکَ مَا عِشْنَا وَ مَا بَقِیَتْ

مفید، محمد بن محمد، الأمالی (للمفید)، ص40، قم، چاپ: اول، 1413ق.

8- "عبداللہ بن محمد بن سلیمان ہاشمی اپنے والد سے اپنے دادا سے حضرت زینب بنت علی سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جب ابوبکر نے فدک اور عوالی سے فاطمہ (سلام اللہ علیہا) پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا اور فاطمہ (س) اس بات سے مایوس ہوئیں کہ ابوبکر فدک واپس دے دیں گے، وہ اپنے والد رسول خدا (ص) کی قبر پر گئیں اور آپ کی قبر پر خود کو گرا دیا اور ان لوگوں کے ساتھ کئے گئے مصیبت کی شکایت کی۔ اور اتنا رویا کہ قبر شریف حضور کے آنسوؤں سے تر ہو گئی۔ اور چیخ ماری اور آخر میں وہ سب کچھ بتایا جو پیش انا تھا: بے شک آپ کے بعد یہ خبریں اور ہنگامہ برپا ہوا کہ اگر آپ ہوتے تو یہ تمام پریشانیاں اور مشکلات پیش نہ آتیں۔

ہم نے آپ کو اس زمین میں کھو دیا ہے جو بارش سے محروم ہے اور آپ کی قوم میں انتشار پیدا ہو گیا ہے اور گواہی دیں کہ وہ اپنا ایمان کھو چکے ہیں۔ جبرائیل مسلسل ہمارے مونس کی آیات لا رہے تھے۔ اور آپ ہم سے چھپ گئے اور آپ کے جانے سے تمام نیکیاں ہم سے چھپ گئیں۔ آپ ایک چمکتا ہوا چاند اور چمکتا ہوا نور تھے جس سے روشنی حاصل ہوئی اور آپ پر خدا کی طرف سے عظمت کے ساتھ کتاب نازل ہوئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد متشدد چہروں والے لوگوں نے ہمارا سامنا کیا اور ہماری توہین اور تحقیر کی اور سارا خیرات ضائع ہو گیا۔ جس نے ہمارے گھر والوں پر ظلم کیا ہے اسے عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ اسے قیامت کے دن کیا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہم نے ایسے مصائب کا سامنا کیا ہے جن کا سامنا کسی بھی مخلوق کو، خواہ عرب ہو یا عجم، نے نہیں کیا۔ جب تک ہم زندہ ہیں اور جب تک ہماری آنکھیں ہیں، ہم تیرے نقصان کی قسم کھاتے ہیں اور اپنی آنکھوں سے غمگین ہیں۔”

مفید، محمد بن محمد، الأمالی (للمفید)، ص52، ترجمه استاد ولى – مشهد، چاپ: اول، 1364ش.

مندرجہ بالا روایت کے بارے میں درج ذیل نکات قابل غور ہیں:

پہلا نکتہ: صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا پر ابوبکر اور ان کی جماعت کے مظالم اتنے زیادہ تھے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر میں پناہ لی۔ اس کے رنج و غم کی شدت ایسی رہی کہ آنسو متواتر بہتے رہےاور ماتم کیا۔

دوسرا نکتہ: حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے اپنے مصائب کے اظہار کے لیے اشعار کا استعمال کیا۔ اس زمانے میں عربوں میں شاعری سب سے مضبوط ذریعہ تھی۔ عرب اہم ترین حقائق و واقعات کو پاکیزہ اور فصیح شاعری سے اگلی نسلوں تک پہنچاتے تھے۔

تیسرا نکتہ: لغت نگاروں نے "هنبثة” کے مندرجہ ذیل معنی بتائے ہیں:

  1. ابن درید لکھتے ہیں:

«و الهَنابِث‏: الدواهی، الواحدة هَنْبَثَة، و هی الداهیة»

هنابث ، جمع مکسر ہے اور اس کا مطلب ہے منشیات اور مشکل امور، جس کا واحد هنبثة ہے، جس کا مطلب ہے مشکل معاملہ۔

ابن درید، محمد بن حسن، جمهرة اللغة، ج‏1 ؛ ص263، بیروت، چاپ: اول، 1988 م.

2.ابن اثیر لکھتے ہیں:

«الْهَنْبَثَةُ: واحدة الْهَنَابِثِ‏، و هى الأمور الشّداد المختلفة»

هنبثة اسکی جمع هنابث ہے، جس کو کہا جاتا ہے کہ وہ شدید امور ہیں جو مسلسل جاری رہتے ہیں۔

ابن اثیر، مبارک بن محمد، النهایة فی غریب الحدیث و الأثر، ج‏5 ؛ ص278، قم، چاپ: چهارم، 1367 ه.ش.

  1. زبیدی تاج العروس میں لکھتے ہیں:

«و الهَنْبَثَةُ: الاخْتِلاطُ فی القَوْلِ. و الهَنَابِثُ‏: الدَّواهِی، و الأُمورُ و الأَخبارُ المُخْتَلِطَة»

هنبثة کا مطلب ہے گفتار میں ملاوٹ اور گڑبڑ۔ هنابث اس کی جمع ہے جس کا مطلب ہے مختلف چیزیں اور خبریں جو حقیقت سے دور ہو۔

مرتضى زبیدى، محمد بن محمد، تاج العروس، ج‏3 ؛ ص280، بیروت، چاپ: اول، 1414 ه.ق.

علمائے لغت کے نزدیک یہ کہا جا سکتا ہے کہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کو سخت مشکلات اور معاملات کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے انسان اپنا سکون اورچین کھو بیٹھتا ہے۔

چوتھا نکتہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں کی تذلیل اوربے حرمتی کے علاوہ،

صدیقہ طاہرہ، خدا کے رسول کی عترت کی طرف ” تَجهمّم قوم "لوگوں کی بغاوت اشاره کیاہے، خدا ان پر اور ان کے اہل خانہ کو سلامت رکھے۔ لفظ تَجهمّمکے مندرجہ ذیل معنی ہیں:

  1. «جهم:‏ الجیم و الهاء و المیم یدلُّ على خلاف البَشاشة و الطَّلاقة. یقال رجلٌ‏ جهمُ‏ الوجهِ أى کریهُهُ. و من … و یقال‏ جَهَمْتُ‏ الرّجل و تجهَّمْتُه‏، إذا استَقْبَلتَه بوجهه‏»

جہم، جم، هاء ، اور میم کی ریشه سے ماخوذ ہے، جو علیحدگی اور طلاقت کے متضاد معنی پر دلالت کرتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جہم الوجہ کے آدمی سے مراد گندا چہرہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جهمت الرجل تجهمته وہ ہے جب تم اس سے بدصورت اور بدصورت چہرے کے ساتھ ملو!

ابن فارس، احمد بن فارس، معجم مقاییس اللغه، ج‏1 ؛ ص490، قم، چاپ: اول، 1404 ه.ق.

  1. «التجهم و العبوس‏ التجهّم‏: جهِمَ‏ فلانا یجهَمه‏ جَهما و تجهّمه‏ و له: استقبله بوجه کریه‏»

بدمزاج ہونے کا مطلب ہے ایک دوسرے کا سامنا ایک بدمزاج اور بدمزاج چہرے کے ساتھ کرنا.

موسى، حسین یوسف، الإفصاح، ج‏2 ؛ ص1305، قم، چاپ: چهارم، 1410 ه.ق.

علمائے کرام کے قول سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے اردگرد کے لوگ بدصورت چہروں والا تھا جن لوگوں نے ان کے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں کے ساتھ ناروا سلوک کرتے تھے۔

پانچواں نکتہ: صدیقہ طاہرہ کے اشعار کے مطابق اللہ تعالیٰ آپ کو سلامت رکھے، ان کے مصائب کی شدت ایسی تھی کہ ایسی تکلیف کسی اور کو نہیں ہوئی۔ اس سانحے کی گہرائی کا براہ راست تعلق اس حق سے ہے جو کھو گیا ہے۔

4/2/2. روایت دوم:

دوسری روایت مروان بن عثمان کی ہے، یہ روایت تلخ حقائق کے بارے میں بتاتی ہے جیسے کہ صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا کے گھر کو آگ لگانے کا حکم خلیفہ ثانی نے دیا تھا:

9 قَالَ أَخْبَرَنِی أَبُو بَکْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ الْجِعَابِیُّ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ الْعَبَّاسُ بْنُ الْمُغِیرَةِ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ أَحْمَدُ بْنُ مَنْصُورٍ الرَّمَادِیُّ قَالَ حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ عُفَیْرٍ قَالَ حَدَّثَنِی ابْنُ لَهِیعَةَ عَنْ خَالِدِ بْنِ یَزِیدَ عَنِ ابْنِ أَبِی هِلَالٍ عَنْ مَرْوَانَ بْنِ عُثْمَانَ قَالَ‏ لَمَّا بَایَعَ النَّاسُ أَبَا بَکْرٍ دَخَلَ عَلِیٌّ ع وَ الزُّبَیْرُ وَ الْمِقْدَادُ بَیْتَ فَاطِمَةَ ع وَ أَبَوْا أَنْ یَخْرُجُوا فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أَضْرِمُوا عَلَیْهِمُ الْبَیْتَ نَاراً فَخَرَجَ الزُّبَیْرُ وَ مَعَهُ سَیْفُهُ فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ عَلَیْکُمْ بِالْکَلْبِ فَقَصَدُوا نَحْوَهُ فَزَلَّتْ قَدَمُهُ وَ سَقَطَ إِلَى الْأَرْضِ وَ وَقَعَ السَّیْفُ مِنْ یَدِهِ فَقَالَ‏ أَبُو بَکْرٍ اضْرِبُوا بِهِ الْحَجَرَ فَضُرِبَ بِسَیْفِهِ الْحَجَرُ حَتَّى انْکَسَرَ وَ خَرَجَ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ ع نَحْوَ الْعَالِیَةِ فَلَقِیَهُ ثَابِتُ بْنُ قَیْسِ بْنِ شَمَّاسٍ‏ فَقَالَ- مَا شَأْنُکَ یَا أَبَا الْحَسَنِ فَقَالَ أَرَادُوا أَنْ یُحْرِقُوا عَلَیَّ بَیْتِی وَ أَبُو بَکْرٍ عَلَى الْمِنْبَرِ یُبَایَعُ لَهُ وَ لَا یَدْفَعُ عَنْ ذَلِکَ وَ لَا یُنْکِرُهُ فَقَالَ لَهُ ثَابِتٌ وَ لَا تُفَارِقُ کَفِّی یَدَکَ حَتَّى أُقْتَلَ دُونَکَ فَانْطَلَقَا جَمِیعاً حَتَّى عَادَا إِلَى الْمَدِینَةِ وَ إِذَا فَاطِمَةُ ع وَاقِفَةٌ عَلَى بَابِهَا وَ قَدْ خَلَتْ دَارُهَا مِنْ أَحَدٍ مِنَ الْقَوْمِ وَ هِیَ تَقُولُ لَا عَهْدَ لِی بِقَوْمٍ أَسْوَأَ مَحْضَراً مِنْکُمْ تَرَکْتُمْ رَسُولَ اللَّهِ ص جِنَازَةً بَیْنَ أَیْدِینَا وَ قَطَعْتُمْ أَمْرَکُمْ بَیْنَکُمْ لَمْ تَسْتَأْمِرُونَا وَ صَنَعْتُمْ بِنَا مَا صَنَعْتُمْ وَ لَمْ تَرَوْا لَنَا حَقّا

مفید، محمد بن محمد، الأمالی (للمفید)، ص ص49، قم، چاپ: اول، 1413ق.

9- مروان بن عثمان کہتے ہیں: جب لوگوں نے ابی بکر، کی بیعت کی تو علی (ع) زبیر اور مقداد حضرت فاطمہ (س) کے گھر میں داخل ہوئے اور باہر آنے سے انکار کردیا۔ عمر بن خطاب نے کہا: ان لوگوں کےساتھ گھر کو آگ لگا دو۔ اس وقت زبیر تلوار لے کر باہر نکلا۔ ابوبکر نے کہا: اس کتے کو لے جاؤ، حملہ آوروں نے حملہ کیا، زبیر کا پاؤں پھسل کر زمین پر گرا، اور اس کے ہاتھ سے تلوار گر گئی۔ ابوبکر نے کہا: اپنی تلوار ایک چٹان پر مارو اور انہوں نے اسے پتھر پر مارا یہاں تک کہ وہ ٹوٹ گئی۔ علی بن ابی طالب (ع) گھر سے نکل کر نجد کے دیہات میں گئے اور راستے میں ثابت بن قیس بن شماس سے ملے۔ ثابت نے کہا: اے ابا الحسن کیا ہوا؟ اس نے کہا: وہ میرے گھر کو آگ لگانا چاہتے ہیں، اور ابوبکر منبر پر بیٹھے ہیں اور لوگوں سے بیعت لینے میں مصروف ہیں، اور ان حملوں کو نہ روکتے ہیں اور نہ مذمت کرتے ہیں۔ ثابت نے کہا: میں آپ سے اس وقت تک دستبردار نہیں ہوں گا جب تک میں آپ کے دفاع کے لیے راستے میں مارا نہ جاؤں۔ چنانچہ وہ ایک ساتھ مدینہ واپس آئے، جب گھر پہنچے تو دیکھا کہ فاطمہ دروازے کے پاس کھڑی ہیں اور گھر حملہ آوروں سے خالی تھا۔ اور آن حضرت نے آواز دی: میں نے تم سے زیادہ بدصورت کسی قوم کو نہیں دیکھا، تم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جسد خاکی کو ہمارے پاس چھوڑ دیا اور آپس میں فیصلہ کیا کہ تم تنہا اس سے حکومت چھین لو گے ۔ اور تم نے ہم میں سے کسی کو اس پر تبصرہ کرنے کے لیے نہیں کہا، اور جو کچھ تم لے کر آئے وہ ہم پر لے آئے، اور تم نے ہمارے لیے کوئی حق نہیں سمجھا!

مفید، محمد بن محمد، الأمالی (للمفید)، ص61، ترجمه استاد ولى – مشهد، چاپ: اول، 1364ش.

مذکورہ بالا روایت حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے ظلم کی انتہا کو ظاہر کرتی ہے جنہیں خلیفہ دوم کی طرف سے گھر کو جلانے کی دھمکی کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ دھمکی اتنی سنگین اور موثر تھی کہ ایسا لگتا ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بچوں کی جان بچانے کے لیے گھر سے نکلے تھے۔ سقیفہ کے سرداروں نے اہل بیت علیہم السلام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے لیے، حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاکیزہ جسم کا بھی خیال نہیں کیا۔ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے رد عمل کے ساتھ ملا۔

4/2/3. روایت سوم

درج ذیل روایت فاطمہ سے متعلق اہم ترین سند میں سے ایک ہے۔ امام حسین علیہ السلام کے کلام سے یہ روایت عترت خاندان کے واقعات سے متعلق ہے:

7 قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ الْحُسَیْنِ قَالَ حَدَّثَنَا أَبِی قَالَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِدْرِیسَ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ الرَّازِیِّ عَنْ عَلِیِّ بْنِ مُحَمَّدٍ الْهُرْمُزَانِیِ‏ عَنْ عَلِیِّ بْنِ الْحُسَیْنِ بْنِ عَلِیٍّ عَنْ أَبِیهِ الْحُسَیْنِ علیهم السلام قَالَ: لَمَّا مَرِضَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ النَّبِیِّ ص وَصَّتْ إِلَى عَلِیٍّ ص أَنْ یَکْتُمَ أَمْرَهَا وَ یُخْفِیَ خَبَرَهَا وَ لَا یُؤْذِنَ أَحَداً بِمَرَضِهَا فَفَعَلَ ذَلِکَ وَ کَانَ یُمَرِّضُهَا بِنَفْسِهِ وَ تُعِینُهُ عَلَى ذَلِکَ أَسْمَاءُ بِنْتُ عُمَیْسٍ رَحِمَهَا اللَّهُ عَلَى اسْتِسْرَارٍ بِذَلِکَ کَمَا وَصَّتْ بِهِ- فَلَمَّا حَضَرَتْهَا الْوَفَاةُ وَصَّتْ أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ع أَنْ یَتَوَلَّى أَمْرَهَا وَ یَدْفِنَهَا لَیْلًا وَ یُعَفِّیَ قَبْرَهَا فَتَوَلَّى ذَلِکَ أَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ ع وَ دَفَنَهَا وَ عَفَّى مَوْضِعَ قَبْرِهَا فَلَمَّا نَفَضَ یَدَهُ مِنْ تُرَابِ الْقَبْرِ هَاجَ بِهِ الْحُزْنُ فَأَرْسَلَ دُمُوعَهُ عَلَى خَدَّیْهِ وَ حَوَّلَ وَجْهَهُ إِلَى قَبْرِ رَسُولِ اللَّهِ ص فَقَالَ السَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُولَ اللَّهِ مِنِّی وَ السَّلَامُ عَلَیْکَ مِنِ ابْنَتِکَ وَ حَبِیبَتِکَ- وَ قُرَّةِ عَیْنِکَ وَ زَائِرَتِکَ وَ الْبَائِتَةِ فِی الثَّرَى بِبُقْعَتِکَ وَ الْمُخْتَارِ لَهَا اللَّهُ سُرْعَةَ اللَّحَاقِ بِکَ قَلَّ یَا رَسُولَ اللَّهِ عَنْ صَفِیَّتِکَ صَبْرِی وَ ضَعُفَ عَنْ سَیِّدَةِ النِّسَاءِ تَجَلُّدِی- إِلَّا أَنَّ فِی التَّأَسِّی لِی بِسُنَّتِکَ وَ الْحُزْنِ الَّذِی حَلَّ بِی بِفِرَاقِکَ مَوْضِعَ التَّعَزِّی فَلَقَدْ وَسَّدْتُکَ فِی مَلْحُودِ قَبْرِکَ بَعْدَ أَنْ فَاضَتْ نَفْسُکَ عَلَى صَدْرِی وَ غَمَّضْتُکَ بِیَدِی‏ وَ تَوَلَّیْتُ أَمْرَکَ بِنَفْسِی نَعَمْ وَ فِی کِتَابِ اللَّهِ أَنْعَمُ الْقَبُولِ‏ – إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَیْهِ راجِعُونَ‏- لَقَدِ اسْتُرْجِعَتِ الْوَدِیعَةُ وَ أُخِذَتِ الرَّهِینَةُ وَ اخْتُلِسَتِ الزَّهْرَاءُ فَمَا أَقْبَحَ الْخَضْرَاءَ وَ الْغَبْرَاءَ یَا رَسُولَ اللَّهِ أَمَّا حُزْنِی فَسَرْمَدٌ وَ أَمَّا لَیْلِی فَمُسَهَّدٌ- لَا یَبْرَحُ الْحُزْنُ مِنْ قَلْبِی أَوْ یَخْتَارَ اللَّهُ لِی دَارَکَ الَّتِی أَنْتَ فِیهَا مُقِیمٌ کَمَدٌ مُقَیِّحٌ وَ هَمٌّ مُهَیِّجٌ سَرْعَانَ مَا فَرَّقَ بَیْنَنَا وَ إِلَى اللَّهِ أَشْکُو- وَ سَتُنَبِّئُکَ ابْنَتُکَ بِتَضَافُرِ أُمَّتِکَ‏ عَلَیَّ وَ عَلَى هَضْمِهَا حَقَّهَا فَاسْتَخْبِرْهَا الْحَالَ فَکَمْ مِنْ غَلِیلٍ مُعْتَلِجٍ بِصَدْرِهَا لَمْ تَجِدْ إِلَى بَثِّهِ سَبِیلًا وَ سَتَقُولُ وَ یَحْکُمُ اللَّهُ‏ وَ هُوَ خَیْرُ الْحاکِمِینَ* سَلَامٌ عَلَیْکَ یَا رَسُولَ اللَّهِ سَلَامَ مُوَدِّعٍ لَا سَئِمٍ وَ لَا قَالٍ فَإِنْ أَنْصَرِفْ فَلَا عَنْ مَلَالَةٍ وَ إِنْ أُقِمْ فَلَا عَنْ سُوءِ ظَنٍّ بِمَا وَعَدَ اللَّهُ الصَّابِرِینَ وَ الصَّبْرُ أَیْمَنُ‏ وَ أَجْمَلُ وَ لَوْ لَا غَلَبَةُ الْمُسْتَوْلِینَ عَلَیْنَا لَجَعَلْتُ الْمُقَامَ‏ عِنْدَ قَبْرِکَ لِزَاماً وَ لَلَبِثْتُ‏ عِنْدَهُ مَعْکُوفاً وَ لَأَعْوَلْتُ إِعْوَالَ الثَّکْلَى عَلَى جَلِیلِ الرَّزِیَّةِ فَبِعَیْنِ اللَّهِ تُدْفَنُ ابْنَتُکَ سِرّاً وَ تُهْتَضَمُ حَقَّهَا قَهْراً وَ تُمْنَعُ إِرْثَهَا جَهْراً وَ لَمْ یَطُلِ الْعَهْدُ وَ لَمْ یَخْلُ‏ مِنْکَ الذِّکْرُ فَإِلَى اللَّهِ یَا رَسُولَ اللَّهِ الْمُشْتَکَى وَ فِیکَ أَجْمَلُ الْعَزَاءِ- وَ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَیْکَ وَ عَلَیْهَا وَ رَحْمَةُ اللَّهِ وَ بَرَکَاتُهُ‏ .

علی بن محمد ہرمزنی نے امام سجاد سےانہونے اپنے والد امام حسین علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی فاطمہ سلام اللہ علیہا بیمار ہوئیں تو انہوں نے علی علیہ السلام کو وصیت کی کہ آپ مرے معاملات کو پوشیدہ رکھیں اور بیماری کی کسی کو اطلاع نہ دیں، آپ نے ایسا ہی کیا۔ اور خود علی علیہ السلام نے ان کی علاج کی اور اسماء بنت عمیس نے بھی خفیہ طور پرجیسا کہ فاطمہ (س) نے وصیت کی تھی اس کام میں ان کی مدد کی۔ چنانچہ جب وہ اپنی موت کے وقریب پہنچے تو اس نے امیر المومنین (علیہ السلام) کو وصیت کی کہ وہ ذاتی طور پر اس کا کام سنبھال لیں، رات کو دفن کریں، اور قبر کو پوشیدہ کر دیں (اس طرح زمین کو برابر کر دیں کہ قبر معلوم نہ ہو)۔ چنانچہ امیر المومنین (علیہ السلام) نے خود اس کام کو انجام دیا اور جناب زہراکو دفن کیا اور ان کی قبر کو پوشیدہ رکھا ۔ جب آپ نے قبر خاک دالنے لگے تو آپ کے دل میں غم و اندوہ کی لہر دوڑ گئی تو آپ کے گال پر آنسوؤں کا سیلاب آ گیا اور زہراکے قبر کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:

"یا رسول اللہ میری طرف سے آپ پر سلام ہو۔ اور سلام ہو آپ پر آپ کی بیٹی کی طرف سے، آپ نے جس نور کو دیکھا، آپ کا زایر، اور وہ جو زمین کے بیچ میں آپ کی قبر میں سو رہا ہے۔اور وہ جس کو خدا نے جلد ہی آپ سے ملایا ہے۔

یا رسول اللہ، آپ کی برگزیدہ بیٹی سے جدائی سے میرا صبر ٹوٹ گیا ہے۔ اور میری قوت و طاقت عورتوں کے سردار کی جدائی میں کمزور ہو گئی ہے، سوائےآپ سنت کے غم میں اور اپ کے جدائی سے مجھ پر جو دکھ ہوا ہے صبر اور تحمل کی گنجائش باقی ہے ۔ درحقیقت، میں نے آپ کو آپ کی قبر میں اس وقت رکھا جب روح القدس میرے سینے پر بہتا تھا (جب آپ کو زندہ کیا گیا تو آپ کا سر میرے سینے سے لگا ہوا تھا) اور میں نے آپ کو اپنے ہاتھ سے زمین کے نیچے چھپا دیا، اور میں نے ذاتی طور پر آپ کے معاملات کی ذمہ داری سنبھالی۔ ہاں، کتاب میں خدا ایک آیت ہے جو ہمیں کھلے بازوؤں سے مصیبت کو قبول کرنے پر مجبور کرتی ہے: ’’ہم سب اللہ کے ہیں اور ہم سب کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔‘‘ البقرۃ: 156۔

سچی بات یہ ہے کہامانت واپس لے لیا گیا، اور یرغمال بنالیا گیا، اور زہرا کومجھ سے بہت جلد چھین لی گئی۔ اے خدا کے رسول، اب میری آنکھوں میں آسمان اور زمین کتنے نیلے اور بدصورت لگ رہے ہیں! لیکن میری اداسی مستقل ہو گئی ہے، اور میری رات بیداری میں گزر رہی ہے، اداسی میرے دل سے کبھی نہیں نکلے گی جب تک کہ خدا میرے لئے وہی گھر منتخب نہ کرے جہاں اپ آباد ہو۔ مجھے ایک دکھ ہے۔ یہ بہت دل دہلا دینے والا ہے، اور مجھے ایک دلچسپ اداسی ہے، کتنی جلدی ہم الگ ہو گئے، میں خدا کی تعریف کرتا ہوں۔

اور عنقریب آپ کی بیٹی آپ کو میرے خلاف آپ کی قوم کی سازش اور اس کے حقوق غصب کرنے کی خبر دے گی، لہٰذا اس سے حالات کے بارے میں پوچھیں، کیونکہ اس کے سینے میں بہت جلتے ہوئے دکھ تھے اور اسے پھیلانے کا کوئی راستہ نہیں ملتا تھا۔ اور وہ جلد ہی آپ کو بتائے گی۔ اور یقیناً اللہ فیصلہ کرتا ہے اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔

اے خدا کے رسول میں آپ کو سلام بھیجتا ہوں، ایسا الوداعی سلام جو نہ غصے کا ہو اور نہ ہی غمگین، پس اگر میں واپس آؤں تو ملامت اور غم سے ہو گا، اور اگر ٹھہروں گا تو اس وعدے کے شک سے باہر ہو گا۔ خدا راہنماؤں کو صبر نہ دے اور یقیناً صبر زیادہ بابرکت اور حسین ہے۔ اور اگر ہم پر غالب آنے والے فاتحین کا خوف نہ ہوتا (کہ وہ مجھ پر الزام لگائیں گے یا فاطمہ کی قبر کھودیں گے) تو میں آپ کی قبر کے پاس رہنا اپنے لیے ضروری بنا دیتا اور میں اس کے پاس ہی اعتکاف کرتا۔ اور اس عظیم آفت پر میں ایک ماں کی طرح رو رہا ہوں جس نے ایک بچہ کھو دیا ہے۔ خدا کی بارگاہ میں آپ کی بیٹی کو خفیہ طور پر خاک کے سپرد کر دیا گیا ہے اور اس کا حق زبردستی چھین لیا گیا ہے اور اسے کھلم کھلا وراثت سے محروم کر دیا گیا ہے۔ تو اے خدا کے رسول میں خدا کی حمد کرتا ہوں۔ اور بہترین صبر آپ کے ماتم پر صبر ہے، اور آپ پر اور ان (فاطمہ) پر خدا کی رحمتیں، رحمتیں اور برکتیں ہوں۔

مفید، محمد بن محمد، الأمالی (للمفید) / ص: 320، ترجمه استاد ولى – مشهد، چاپ: اول، 1364ش.

مذکورہ بالا روایت کا ہر ایک حصہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے مصائب کی تلخ حقیقت کو بیان کرتا ہے۔ اس کی چند صورتیں ذکر کی جاتی ہیں:

پہلا نکتہ: صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا کی وصیت، معاملے کو چھپانے، قبر کی پردہ پوشی، اور خفیہ تدفین کے بارے میں یہ ظاہر کرتی ہے کہ ان کا حاکم حکومت سے شدید اختلاف تھا، اس لیے وہ اس کے مستحق نہیں ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اکلوتی بیٹی کے لیے نماز پڑھیں۔

ان وصیت نے سقیفہ کی پروپیگنڈہ مشین کو جھوٹی خبریں اور جھوٹ پھیلانے سے قاصر کر دیا کہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا ان سے مطمئن تھیں اور ان میں کوئی خاص فرق نہیں تھا۔

دوسرا نکتہ: حضرت علی علیہ السلام پر حضرت زہرا کی حالت زار کی شدت اس قدر شدید تھی کہ غم کی دنیا آپ کے مبارک قلب پر حملہ آور ہوئی اور اپنی زوجہ محترمہ کو الوداع کہتے وقت آپ کی مبارک آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ مصیبت کی شدت سے اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پناہ مانگی۔

تیسرا نکتہ: اس روایت میں حضرت علی علیہ السلام نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے اختلاس کے بارے میں بات کی ہے۔

فصیح عرب لفظ ” اختلاس ” استعمال کرتا ہے جب:

  1. و الخَلْسُ‏: السَّلْبُ‏ و الأَخْذُ فی نُهْزَةٍ و مُخَاتَلَة

محروم کرنا اور موقع لینا اور چالبازی کے ساتھ ہونا چاہیے۔

مرتضى زبیدى، محمد بن محمد، تاج العروس، ج‏8 ؛ ص261، بیروت، چاپ: اول، 1414 ه.ق.

  1. الخَلْسُ‏ و الاخْتِلَاسُ‏: أخذ الشی‏ء مکابرة، تقول: اخْتَلَسْتُهُ‏ اخْتِلَاساً و اجتذابا

زبردستی کچھ لینا جب وہ کہتے ہیں کہ میں نے کوئی چیز اختلاس کی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ میں نے اسے زبردستی لیا اور پھاڑ دیا!

فراهیدى، خلیل بن احمد، کتاب العین، ج‏4 ؛ ص197، قم، چاپ: دوم، 1409 ه.ق.

فیه‏ «أنه نهى عن‏ الْخَلِیسَةِ» و هى ما یستخلص من السّبع فیموت قبل أن یذکّى، من‏ خَلَسْتُ‏ الشى‏ء و اخْتَلَسْتُهُ‏ إذا سلبته، و هى فعیلة بمعنى مفعولة.

روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خلیسہ اور خلیسہ کھانے سے منع فرمایا ہے اس کے لیے بھیڑیوں جیسے شکاری جانوروں کے ہاتھ سے بچنا ہے اور اس کی وجہ سے مذہبی ذبح سے پہلےمرجاتا ہے۔ خلیسہ خلس کی ریشه سے ہے، اگر کوئی چیز نکالی تو چھین لی! اس فعلیہ کا مطلب مفعوله ہے۔

ابن اثیر، مبارک بن محمد، النهایة فی غریب الحدیث و الأثر، ج‏2 ؛ ص61، قم، چاپ: چهارم، 1367 ه.ش.

«وَ اخْتُلِسَتِ‏ الزَّهْرَاء » اس کا مطلب ہے: بھیڑیوں نے چالاکی اور طاقت سے زہرا سلام اللہ علیہا کے جسم مبارک کو اتنا نقصان پہنچایا کہ ان کی زندگی کا کوئی امکان اور امید باقی نہ رہی۔

چوتھا نکتہ: مذکورہ روایت کے مطابق مدینہ منورہ میں موجود صحابہ کی اکثریت نے ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد کیا اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے حقوق کو ہضم کرنے کی کوشش کی! ہضم کا مطلب ہے کسی کو اس کے لائق مقام سے توڑنا اور نیچے کرنا۔

4/3۔ المزار کی رسومات کے بارے میں شیخ مفید کا نقطہ نظر

شیخ مفید کی سب سے اہم داستانی کتاب مناسک المزار ہے۔ شیخ مفید نے یہ کتاب اس مقصد سے لکھی ہے کہ ائمہ معصومین علیہم السلام کی دعاؤں اور زیارتوں کا خلاصہ جمع کیا جائے تاکہ ان کے پیروکاروں کو ایک مربوط اور منظم مجموعہ کا سامنا ہو اور وہ اسے عملی طور پر آسانی سے استعمال کر سکیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کتاب میں موجود تمام دعائیں ایک صحیح اور قابل قبول دلیل ہیں اور سب سے بڑھ کر شیخ کے فتوی کی وجہ مفید ہے اور اگر ایسا نہ ہوتا وہ اسے اپنے پیروکاروں کے لیے تجویز نہ کرتے ۔

اس قیمتی کتاب کے زیارت خطوط کے ایک پیراگراف میں یہ تصریح کی گئی ہے کہ صدیق طاہرہ شہیدہ تھیں۔

«أَیَّتُهَا الْبَتُولُ الشَّهِیدَةُ الطَّاهِرَةُ لَعَنَ اللَّهُ مَانِعَکِ إِرْثَک‏»

اے بتول طاہرہ شہیدہ، خدا کی لعنت ہو اس پر جس نے تجھے میراث سے روکا!

نام کتاب: کتاب المزار- مناسک المزار( للمفید)؛ نویسنده: مفید، محمد بن محمد (تاریخ وفات مؤلف: 413 ق‏)، محقق / مصحح: ابطحى، محمد باقر، ناشر: کنگره جهانى هزاره شیخ مفید- رحمة الله علیه‏، قم‏: 1413 ق، ص179

4/4۔ شیخ مفید کا قول ” الاختصاص ” میں

شیخ مفید سے منسوب سب سے اہم تاریخی کتابوں میں سے ایک الاختصاص ہے۔ اس کتاب کی خصوصیت ائمہ معصومین علیہم السلام سے متعلق واقعات اور تاریخی حقائق کا علمی مجموعہ ہے۔ اس کتاب میں شیخ مفید نے اہل بیت علیہم السلام کے دشمنوں کے مصائب اور حملوں کا بھی ذکر کیا ہے:

«فَدَعَا بِکِتَابٍ فَکَتَبَهُ لَهَا بِرَدِّ فَدَکَ… فَخَرَجَتْ وَ الْکِتَابُ مَعَهَا فَلَقِیَهَا عُمَرُ فَقَالَ یَا بِنْتَ مُحَمَّدٍ مَا هَذَا الْکِتَابُ الَّذِی مَعَکَ فَقَالَتْ کِتَابٌ کَتَبَ لِی أَبُو بَکْرٍ بِرَدِّ فَدَکَ فَقَالَ هَلُمِّیهِ إِلَیَّ فَأَبَتْ أَنْ تَدْفَعَهُ إِلَیْهِ فَرَفَسَهَا بِرِجْلِهِ وَ کَانَتْ حَامِلَةً بِابْنٍ اسْمُهُ الْمُحَسِّنُ فَأَسْقَطَتِ الْمُحَسِّنَ مِنْ بَطْنِهَا ثُمَّ لَطَمَهَا فَکَأَنِّی أَنْظُرُ إِلَى قُرْطٍ فِی أُذُنِهَا حِینَ نُقِفَتْ‌ ثُمَّ أَخَذَ الْکِتَابَ فَخَرَقَهُ فَمَضَتْ وَ مَکَثَتْ خَمْسَةً وَ سَبْعِینَ یَوْماً مَرِیضَةً مِمَّا ضَرَبَهَا عُمَرُ ثُمَّ قُبِضَتْ»

ابوبکر نے فدک کے رد میں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے لیے خط لکھا، زہرا سلام اللہ علیہا خط کو لے ہوئے باہر آئیں۔ راستے میں عمرملا ۔ اس نے کہا: محمد کی بیٹی! یہ آپ کے ہاتھ میں کیا تحریر ہے؟ انہو نے کہا: یہ وہ تحریر ہے جو ابوبکر نے فدک کےرد میں میرے لیے لکھی تھی۔ عمر نے کہا: مجھے دے دو۔ زہرا سلام اللہ علیہا نے اسے تحریر دینے سے انکار کر دیا۔ عمر نے زہرا (علیہ السلام) کو لات مارا جب کے محسن نامی بیٹا حمل میں تھا۔ اس ضرب کے نتیجے میں زہرا (علیہ السلام) کو اسقاط حمل ہوا۔ پھر عمر نے اسے تھپڑ مارا۔ ایسا لگتا ہے جیسے میں اب اس کے کان کی گوشواره‏ کو دیکھ رہا ہوں، جو تھپڑکی وجہ سے ٹوٹ گیا۔ پھر وہ تحریر لے کر پھاڑ ڈالا۔ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا گھر تشریف لے گئیں اور عمر کی ضربت کے نتیجے میں پچھتر دن تک بیمار رہیں یہاں تک کہ ان کا انتقال ہو گیا۔

مفید، محمد بن محمد، الإختصاص، ص185، 1جلد، دار المفید – قم (ایران)، چاپ: 1، 1413 ه.ق.

جیسا کہ مندرجہ بالا رپورٹ کے سند کی بنیاد پر واضح ہے کہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کو دشمنوں کے متعدد حملوں کا نشانہ بنایا گیا ہے اور انہیں شدید جسمانی چوٹیں پہنچائی گئی ہیں جس سے ہر آزاد انسان کے دل کو تکلیف پہنچتی ہے۔ ضربت اتنا شدید تھا کہ اسقاط حمل کا باعث بنا۔ سوگوار خاتون کو حملہ آوروں نے شدید زدوکوب کیا۔

  1. حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت کے بارے میں شیخ مفید کے اجتہاد کی بنیاد پر عمل کرنا

شیخ مفید کے طریقہ کار کو جان کر حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت اور ان سے متعلق واقعات کے بارے میں اب ہم ان کے اجتہاد کا تجزیہ کریں گے۔ وضاحت یہ ہے کہ متعدد شواہد کی بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ شیخ مفید صدیقہ طاہرہ کی شہادت پر قطعی عقیدہ رکھتے تھے۔ اس زمرے کو ثابت کرنے کے لیے ہم ان میں سے چند شواہد کا ذکر کرتے ہیں:

4/1۔ امامیہ کے ذریعے روایت استفاضه:

جیسا کہ اس مضمون کے شروع میں ذکر کیا گیا ہے، روایت کا صحیح ہونا اس کی صداقت کے اہم ترین ثبوتوں میں سے ایک ہے۔ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت کے بارے میں شیخ مفید کے شاگرد شیخ طوسی اپنی کتاب تلخیص الشافی میں لکھتے ہیں:

«وروایه الشیعه مستفیضه به، لا یختلفون فی ذلک»

شیعہ روایت کو بھی اسی تناظر میں قبول کیا جاتا ہے اور کسی شیعہ نے اس میں اختلاف نہیں کیا۔

الطوسی، أبو جعفر محمد بن الحسن (المتوفی 460 ق)، تلخیص الشافی‏، ج3 ص156، لملاحظات: مقدمه و تحقیق از حسین بحر العلوم، دار النشر: انتشارات المحبین – قم، الطبعة: اول‏، سنة الطبع: 1382ش.

اس بنا پر شیخ مفید کی بنیاد کے مطابق حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت سے متعلق جو روایتیں ہیں وہ صدورکے لحاظ سے قطعی اور اصولی ہیں۔

4/2۔ علامہ مجلسی کی نظر میں شہادت کے اوپر متعدد دلیلیں

روایت کے صدور کو ثابت کرنے والا ایک اہم ترین عقلی ثبوت اس کے طریقوں کی تعدد ہے۔ تواتر یقیناً ہر مجتہد اور فقیہ کے لیے مفید ہے۔ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت سے متعلق روایات کے استفہام کو ثابت کرنے کے علاوہ علامہ محمد تقی مجلسی نے اس معاملے میں تعدد کے وجود کا دعویٰ کیا ہے:

اور جہاں تک شیعوں میں "شہیدہ” کا تعلق ہے تو یہ ائمہ اہل بیت علیہم السلام سے بصورت تواتر وارد ہوا ہے۔ عمر نےقنفذ کی مدد سے اپ کے پیٹ پر مارا۔ اور وہ بچہ جسے حضرت المرسلین رحمتہ اللہ علیہ نے محسن کہا تھا، اسقاط حمل ہو گیا اور وہ زہرا بیمار ہو گیی۔

لوامع صاحبقرانى ( شرح الفقیه ) ( فارسی ) – محمد تقی المجلسی ( الأول ) – ج 8 ص 507

نیز ان کے بیٹے علامہ محمد باقر مجلسی، صاحب بہار الانوار کہتے ہیں:

«ثم إن هذا الخبر یدل علی أن فاطمة صلوات الله علیها کانت شهیدة و هو من المتواترات»

یہ خبر اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا شہید ہو چکی ہیں اور یہ بات متواترہ میں سے ہیں۔

مرآة العقول فی شرح أخبار آل الرسول، نویسنده: مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، محقق / مصحح: رسولی محلاتی، سید هاشم، ج 5، ص 318، ح 2

روایات کے صدور کی تصدیق میں شیخ مفید کی بنیاد کے مطابق – جو اس مضمون کے شروع میں بیان کیا گیا ہے – اگر ایک صورت میں متواتر روایتیں ہوں، ایک فقیہ کے لیے اس کے مواد پر ایمان لانے کے لیے دلیل اور حجت مکمل ہے اور وہ اس کی بنیاد پر فتویٰ دے سکتا ہے اور اس پر ایمان لا سکتا ہے۔ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت کا مسئلہ اہل بیت علیہم السلام سے متواتر روایات کے موجود ہونے کی وجہ سے ان واقعات میں سے ایک ہے کہ شیخ مفید کے اجتہاد طریقہ میں حادثے کے بارے میں یقین کرنا مفید ہے۔ 24

4/2۔ یہ روایت اہل سنت میں بھی مشہور ہے۔

روایت کو معتبر بنانے میں سب سے واضح مسئلہ یہ ہے کہ یہ روایت اس قدر مشہور ہے کہ دوستوں، مخالفین اور دشمنوں نے بھی روایت کی ہے۔ اس بنا پر اگر واقعہ – وہ بھی انتہائی سیاسی اہمیت کا حامل – شیعوں کے حق میں ہے اور ان کی فکری بنیادوں اورقطعیات تاریخی سے مطابقت رکھتا ہے تو اگر اسے اہل سنت کی کتابوں میں نقل کیا جائے تو اس کو ثابت کرنے کیلے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ یہ اقتباس اس واقعہ کی عظیم شہرت کو ظاہر کرتا ہے، جسے سنسرشپ اور شدید تصادم کے باوجود دوسرا فریق بھی جھٹلا نہیں سکتا ۔ صدیقہ طاہرہ کے گھر کو آگ لگانے کی دھمکی کی کہانی اور خلیفہ اول سے ان کے شدید اختلافات بھی اہلسنت کے نزدیک مشہور ہیں۔ شیخ مفید کے شاگرد شیخ طوسی اس بارے میں لکھتے ہیں:

ومما أنکر علیه: ضربهم لفاطمه علیها السلام وقد روی: أنهم ضربوها بالسیاط والمشهور الذی لا خلاف فیه بین الشیعه: أن عمر ضرب على بطنها حتى أسقطت فسمی السقط محسنا. والروایه بذلک مشهوره عندهم. وما أرادوا من إحراق البیت علیها حین التجأ إلیها قوم وامتنعوا من بیعته. ولیس لأحد أن ینکر الروایه بذلک، لأنا قد بینا الروایه الوارده من جهه العامه من طریق البلاذری وغیره

ابوبکر کے اس عمل سے جنہیں وہ ناجائز سمجھتے تھے۔ انہوں نے فاطمہ سلام اللہ علیہا کو مارا۔ روایت ہے کہ: انہوں نے فاطمہ کو کوڑے سے مارا۔

اور ایک مشہور روایت میں، جس سے شیعہ اختلاف نہیں کرتے، یہ بیان کیا گیا ہے کہ: عمر نے فاطمہ سلام اللہ علیہا کے پیٹ پر مارا، جس کے نتیجے میں ان کا جنین ساقط ہوگیا۔ اور اس جنین کا نام محسن رکھا گیا تھا۔ اس واقعہ کی روایت شیعوں میں مشہور ہے۔ اور ابوبکر کا ایک عمل جسے وہ ناجائز سمجھتے تھے وہ یہ ہے کہ: جب ایک گروہ نے فاطمہ کے گھر میں پناہ لی اور بیعت کرنے سے انکار کیا تو انہوں نے فاطمہ کے گھر کو آگ لگانے کا منصوبہ بنایا۔ اس واقعہ کی روایات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ کیونکہ ہم نے اس کی احادیث کوبلاذری وغیرہ سے روایت کی ہیں۔

الطوسی، أبو جعفر محمد بن الحسن (المتوفی 460 ق)، تلخیص الشافی‏، ج3 ص156، لملاحظات: مقدمه و تحقیق از حسین بحر العلوم، دار النشر: انتشارات المحبین – قم، الطبعة: اول‏، سنة الطبع: 1382ش.

نیز «مرحوم بیاضی نباطی» متوفای 877 هجری در کتاب «الصراط المستقیم» جلد سوم صفحه 12 می‌نویسد:

«و اشتهر فی الشیعة أنه حصر فاطمة فی الباب حتی أسقطت محسنا»

شیعوں میں مشہور ہے کہ کچھ لوگوں نے حضرت فاطمہ زہرا کے گھر میں حملہ کرکے بے حرمتی کی اور حضرت محسن کو شہید کر دیا ۔

الصراط المستقیم إلی مستحقی التقدیم، نویسنده: عاملی نباطی، علی من محمد بن علی بن محمد بن یونس، محقق / مصحح: رمضان، میخائیل، ج 3، ص 12، باب و منها ما رواه البلاذری و اشتهر فی الشیعة أنه حصر فاطمة فی الباب

شیخ مفید کے اجتہاد کی بنیاد کو مدنظر رکھتے ہوئے – جس کا اس مضمون میں پہلے ذکر کیا گیا ہے – ان کے خیال میں جلانے کی دھمکیوں کا مسئلہ ایک قطعی اور جزمی معاملہ تھا۔ اس طرح سےکہ دشمن بھی اس کا اعتراف اور اظہار کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

4/3۔ مشہور کتابوں اور اصول روایت میں مضمون حدیث کا اخراج اور حوالہ

ایک اہم ترین ثبوت جو روایت کے اجراء کو یقینی بنا سکتا ہے۔ تخریج ایک حدیث ہے یا مشہور روایت کی کتابوں اور اصولوں میں ایک عام موضوع ہے۔ تحقیق کے بعد حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت کا ذکر بہت سی روایتی کتابوں بالخصوص کتب اربعہ اور شیعہ حدیث کے مستند اصولوں میں آیا ہے، مثال کے طور پر درج ذیل کو ذکر کیا جا سکتا ہے:

4/3/1۔ سالم بن قیس ہلالی کی کتاب

سلیم بن قیس ہلالی کی کتاب سب سے قدیم اور مشہور شیعہ روایت کی کتابوں میں سے ایک ہے۔ کلینی مرحوم نے کافی میں کئی جگہوں پر سلیم بن قیس ہلالی سے روایت نقل کی ہے۔ اس کتاب میں سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے گھر پر حملہ اور صدیقہ طاہرہ کا پسلیاں ٹوٹنے اور اسقاط حمل وغیرہ کی واقعہ واضح طور پر پیش کی گئی ہے۔

«وَ قَدْ کَانَ قُنْفُذٌ لَعَنَهُ اللَّهُ ضَرَبَ فَاطِمَةَ علیها السلام بِالسَّوْطِ حِینَ حَالَتْ بَیْنَهُ وَ بَیْنَ زَوْجِهَا وَ أَرْسَلَ إِلَیْهِ عُمَرُ إِنْ حَالَتْ بَیْنَکَ وَ بَیْنَهُ فَاطِمَةُ فَاضْرِبْهَا فَأَلْجَأَهَا قُنْفُذٌ لَعَنَهُ اللَّهُ إِلَى عِضَادَةِ بَابِ بَیْتِهَا وَ دَفَعَهَا فَکَسَرَ ضِلْعَهَا مِنْ جَنْبِهَا فَأَلْقَتْ جَنِیناً مِنْ بَطْنِهَا فَلَمْ تَزَلْ صَاحِبَةَ فِرَاشٍ حَتَّى مَاتَتْ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهَا مِنْ ذَلِکَ شَهِیدَة»

قنفذ – خدا اس پر لعنت کرے – فاطمہ سلام اللہ علیہا کو کوڑے مارے جب اس نے اپنے آپ کو اس کے اور اپنے شوہر کے درمیان رکھا۔ اور عمر نے پیغام بھیجا کہ اگر فاطمہ تمہارے اور علی کے درمیان آجائے تو اسے مارو۔ قنفذ اسے گھسیٹ کر گھر کے دروازے کی چوکھٹ کی طرف لے گیا اور دروازے کو دھکیل دیا جسکی وجہ سےاس کے پہلو کی ایک ہڈی ٹوٹ گئی اور جنین سقط حمل ہو گیا اوراسی زخم کی بنا پر شہید ہونے تک بستر پر ہی لیٹی رہی۔

هلالى، سلیم بن قیس، کتاب سلیم بن قیس الهلالی، ج‏2 ؛ ص588، ایران ؛ قم، چاپ: اول، 1405ق.

4/3/2۔ علی بن جعفر کے مسائل کی کتاب:

علی بن جعفر کے مسائل کی حدیث کی کتاب چار سو شیعوں کے اہم ترین اصولوں میں سے ایک ہے۔ علی بن جعفر امام صادق علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔ انہوں نے اپنے آباء سے بہت سی روایات نقل کی ہیں۔ اس روایت کی کتاب میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ایک صدیقه اور شہیدہ تھیں۔

«811- مُحَمَّدُ بْنُ یَحْیَى عَنِ الْعَمْرَکِیِّ بْنِ عَلِیٍّ عَنْ عَلِیِّ بْنِ جَعْفَرٍ عَنْ أَخِیهِ أَبِی الْحَسَنِ ع قَالَ: إِنَّ فَاطِمَةَ ع صِدِّیقَةٌ شَهِیدَةٌ »

عریضى، على بن جعفر، مسائل علیّ بن جعفر و مستدرکاتها، ص325، قم، چاپ: اول، 1409 ق.

4/3/3. کتاب اصول کافی تالیف کلینی:

بلاشبہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ کتاب اصول کافی شیعوں کی سب سے قیمتی کتاب ہے۔ مرحوم کلینی نے بڑی محنت اور بڑی دقت نظر کے ساتھ اپنی اس عظیم کتاب کو شیعہ روایت کی مشہور کتابوں اور اصولوں سے اس دور میں مرتب کیا جس زمانےمیں معصومین علیہم السلام کاحضور قریب تھے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ شیعہ فقہاء اور علماء کے درمیان اس کتاب میں روایت کا ذکر کرنا اس کے اجراء میں اعتماد کی اہم ترین نشانیوں میں سے ہے۔ اس کام میں مرحوم کلینی نے ان روایات کا تذکرہ کیا ہے جن میں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی صدیقہ اور شہدہ ہونے کا واضح طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے درج ذیل باتیں شامل کی ہیں:

« مُحَمَّدُ بْنُ یَحْیَى عَنِ الْعَمْرَکِیِّ بْنِ عَلِیٍّ عَنْ عَلِیِّ بْنِ جَعْفَرٍ عَنْ أَخِیهِ أَبِی الْحَسَنِ ع قَالَ: إِنَّ فَاطِمَةَ ع صِدِّیقَةٌ شَهِیدَةٌ »

کلینى، محمد بن یعقوب، الکافی (ط – الإسلامیة)، ج‏1 ؛ ص458، تهران، چاپ: چهارم، 1407 ق.

مذکورہ بالا روایت کے علاوہ مرحوم کلینی امام حسین علیہ السلام کی ایک اور روایت میں فرماتے ہیں:

أَحْمَدُ بْنُ مِهْرَانَ رَحِمَهُ اللَّهُ رَفَعَهُ وَ أَحْمَدُ بْنُ إِدْرِیسَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ الشَّیْبَانِیِّ قَالَ حَدَّثَنِی الْقَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ الرَّازِیُّ قَالَ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدٍ الْهُرْمُزَانِیُ‏ عَنْ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ الْحُسَیْنِ بْنِ عَلِیٍّ ع قَالَ: لَمَّا قُبِضَتْ فَاطِمَةُ ع دَفَنَهَا أَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ سِرّاً وَ عَفَا عَلَى مَوْضِعِ قَبْرِهَا ثُمَّ قَامَ فَحَوَّلَ وَجْهَهُ إِلَى قَبْرِ رَسُولِ اللَّهِ ص فَقَالَ السَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُولَ اللَّهِ عَنِّی وَ السَّلَامُ عَلَیْکَ عَنِ ابْنَتِکَ وَ زَائِرَتِکَ وَ الْبَائِتَةِ فِی الثَّرَى بِبُقْعَتِکَ وَ الْمُخْتَارِ اللَّهُ لَهَا سُرْعَةَ اللَّحَاقِ بِکَ قَلَّ یَا رَسُولَ اللَّهِ عَنْ صَفِیَّتِکَ صَبْرِی وَ عَفَا عَنْ سَیِّدَةِ نِسَاءِ الْعَالَمِینَ تَجَلُّدِی إِلَّا أَنَّ لِی فِی التَّأَسِّی بِسُنَّتِکَ فِی فُرْقَتِکَ مَوْضِعَ تَعَزٍّ فَلَقَدْ وَسَّدْتُکَ فِی مَلْحُودَةِ قَبْرِکَ وَ فَاضَتْ نَفْسُکَ بَیْنَ نَحْرِی وَ صَدْرِی بَلَى وَ فِی کِتَابِ اللَّهِ لِی أَنْعَمُ الْقَبُولِ- إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَیْهِ راجِعُونَ‏ قَدِ اسْتُرْجِعَتِ الْوَدِیعَةُ وَ أُخِذَتِ الرَّهِینَةُ وَ أُخْلِسَتِ الزَّهْرَاءُ فَمَا أَقْبَحَ الْخَضْرَاءَ وَ الْغَبْرَاءَ یَا رَسُولَ اللَّهِ أَمَّا حُزْنِی فَسَرْمَدٌ وَ أَمَّا لَیْلِی فَمُسَهَّدٌ وَ هَمٌّ لَا یَبْرَحُ مِنْ قَلْبِی أَوْ یَخْتَارَ اللَّهُ لِی دَارَکَ الَّتِی أَنْتَ فِیهَا مُقِیمٌ کَمَدٌ مُقَیِّحٌ وَ هَمٌّ مُهَیِّجٌ‏ سَرْعَانَ مَا فَرَّقَ بَیْنَنَا وَ إِلَى اللَّهِ أَشْکُو وَ سَتُنْبِئُکَ‏ ابْنَتُکَ‏ بِتَظَافُرِ أُمَّتِکَ عَلَى هَضْمِهَا فَأَحْفِهَا السُّؤَالَ‏وَ اسْتَخْبِرْهَا الْحَالَ فَکَمْ مِنْ غَلِیلٍ مُعْتَلِجٍ بِصَدْرِهَا لَمْ تَجِدْ إِلَى بَثِّهِ سَبِیلًا وَ سَتَقُولُ وَ یَحْکُمُ اللَّهُ‏ وَ هُوَ خَیْرُ الْحاکِمِینَ* سَلَامَ مُوَدِّعٍ لَا قَالٍ وَ لَا سَئِمٍ فَإِنْ أَنْصَرِفْ فَلَا عَنْ مَلَالَةٍ وَ إِنْ أُقِمْ فَلَا عَنْ سُوءِ ظَنٍّ بِمَا وَعَدَ اللَّهُ الصَّابِرِینَ وَاهَ وَاهاً وَ الصَّبْرُ أَیْمَنُ وَ أَجْمَلُ وَ لَوْ لَا غَلَبَةُ الْمُسْتَوْلِینَ لَجَعَلْتُ الْمُقَامَ وَ اللَّبْثَ لِزَاماً مَعْکُوفاً وَ لَأَعْوَلْتُ إِعْوَالَ الثَّکْلَى عَلَى جَلِیلِ الرَّزِیَّةِ فَبِعَیْنِ اللَّهِ تُدْفَنُ ابْنَتُکَ سِرّاً وَ تُهْضَمُ حَقَّهَا وَ تُمْنَعُ إِرْثَهَا وَ لَمْ یَتَبَاعَدِ الْعَهْدُ وَ لَمْ یَخْلَقْ مِنْکَ الذِّکْرُ وَ إِلَى اللَّهِ یَا رَسُولَ اللَّهِ الْمُشْتَکَى وَ فِیکَ یَا رَسُولَ اللَّهِ أَحْسَنُ الْعَزَاءِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْکَ وَ عَلَیْهَا السَّلَامُ وَ الرِّضْوَانُ.

کلینى، محمد بن یعقوب، الکافی (ط – الإسلامیة)، ج‏1 ؛ ص458، تهران، چاپ: چهارم، 1407 ق.

حسین بن علی علیہ السلام نے کہا: جب فاطمہ سلام اللہ علیہا کا انتقال ہوا تو امیر المومنین علیہ السلام نے انہیں خفیہ طور پردفن کر دیا اور قبر کی نشانی مٹادی ۔ پھر وہ اٹھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: سلام ہو آپ پر میری طرف سے اور آپ کی بیٹی کی طرف سے اور آپ کے مہمانوں کی طرف سے اور وہ جو زمین پر گیا اور مجھ سے جدا ہوا اور آپ کی قبر پر آیا اور خدا نے اسے آپ کے پاس جلد آنے کے لیے چن لیا ہے۔ . یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! تیرے محبوب کی جدائی سے ہمارا صبر کم ہو گیا ہے اور ہم دنیا کی عورتوں کے ہاتھوں تباہ ہو گئے ہیں، سوائے اس کے کہ تیری اس روایت پر عمل کرنے میں سکون کی گنجائش باقی ہے جو میں نے تیری جدائی میں کی تھی۔ کیونکہ میں نے آپ کا سر آپ کی قبر میں رکھا تھا اور آپ کی روح میرے حلق اور سینے کے درمیان سے نکلی تھی (یعنی جب اپ کا جان قبض ہورہا تھا اس وقت آپ کا سر میرے سینے سے چپکا ہوا تھا) ہاں کتاب خدا میں بہترین قبولیت ( اور اس آفت پر صبر میرے لیے ہے)، إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَیْهِ راجِعُونَ‏، بے شک امانت واپس لے لی گئی اور یرغمال بنا لی گئی اور زہرا کو میرے ہاتھ سے اغوا کر لیا گیا۔

اے خدا کے رسول یہ نیلا آسمان اور اندھیری زمین مجھے کتنی بدصورت لگتی ہے۔ میری اداسی ابدی رہے اور میری رات بے خوابی میں گزرے، اور میرا غم ہمیشہ میرے دل میں رہے، تاکہ خدا میرے لیے وہ گھر چن لے جہاں تم قیام پذیر ہو۔

(میں مرنا چاہتا ہوں اور آپ کے ساتھ شامل ہونا چاہتا ہوں) مجھے ایک اداسی ہے جس سے میرا دل خون کر رہا ہے اور مجھے ایک دلچسپ اداسی ہے کہ کتنی جلدی ہمارے درمیان جدائی ہو گئی، میں صرف اللہ سے شکایت کرتا ہوں۔

جلد ہی، آپ کی بیٹی آپ کو آپ کی قوم کے ہاضمے میں ملوث ہونے اور شدید اذیتوں اور اپنے حقوق کی پامالی کے بارے میں اطلاع دے گی۔ اس سے اپنی پوری کہانی کے بارے میں پوچھیں اور اس سے رپورٹ طلب کریں کیونکہ شاید اس کے دل کا درد تھا جو اس کے سینے میں آگ کی طرح جل رہا تھا اور اسے دنیا میں بتانے یا سمجھانے کا کوئی راستہ نہیں مل رہا تھا۔ لیکن اب وہ کہتا ہے اور خدا فیصلہ کرتا ہے اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔

سلام ہو آپ پر جو نہ غضبناک ہو اور نہ غمگین، کیونکہ اگر میں یہاں سے واپس آیا تو یہ میرے غم کی وجہ سے نہیں ہو گا اور اگر میں رہوں گا تو اس میں شک نہیں ہو گا جس کا خدا نے صبر کے ذریعہ وعدہ کیا ہے۔ .

پھربھی صبر زیادہ بابرکت اور مشہور ہے۔ اگر دبنگ دشمنوں کی موجودگی نہ ہوتی (جو مجھ پر الزام لگاتے ہیں یا ڈھونڈتے ہیں کہ فاطمہ کی قبرکہاہے تاکہ نبش قبر کرے) تو میں یہاں اپنا قیام کرتا اور میں مردہ بچے والی عورت کی طرح اس عظیم آفت کا انتظار کر تھا۔ خدا کی نظر میں آپ کی بیٹی کو خفیہ طور پر خاک کے سپرد کیا گیا اور اس کا حق پامال کیا گیا اور اس کو وراثت سے روکا گیا۔ اگرچہ زیادہ عرصہ نہ گزرا اور تیری یاد پرانی نہ ہوئی اے خدا کے رسول! میری شکایت صرف خدا سے ہے اور بہترین تسلی آپ کی طرف سے ہے یا رسول اللہ! (کیونکہ میں نے آپ کی وفات پر صبر کیا یا آپ نے صبر کے بارے میں جو کچھ کہا اس پر عمل کیا) آپ پر خدا کی سلامتی اور برکتیں ہوں اور فاطمہ پر سلام ہو۔

کلینى، محمد بن یعقوب، أصول الکافی، ج‏2، ص: 358 ، ترجمه مصطفوى – تهران، چاپ: اول، 1369 ش.

مذکور ہ مستند کے مطابق یہ صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا کے دشمنوں اور حملہ آوروں کے "ہضم” کے بارے میں ہے۔

لغت کے ماہرین کا حوالہ دیتے ہو، ہضم کے مندرجہ ذیل معنی بیان کئےہیں:

هضم‏ الهاء و الضاد و المیم: أَصلٌ صحیح یدلُّ على کَسرٍ و ضَغطٍ و تداخُل و هضَمت‏ الشّى‏ءَ هضماً: کسرتُه‏

ہضم ہا اور ضاد اور میم کے مادہ سے ہوتا ہے۔ در اصل اس سے مراد بہت زور سے توڑنا اور دبانا اور کسی چیز کو ملانا ہے۔ اور کسی چیز کو ہضم کرنے کا مطلب ہے اسے توڑ دینا۔

ابن فارس، أحمد بن فارس، معجم مقاییس اللغة، ج‏6، ص: 55، قم، چاپ: اول، 1404ق.

هضَم‏ الشی‏ءَ الرِّخوَ: شدَخه و کسره. و سقطت الثمرة من الشجرة فانهضمت

کسی چیز کو ہضم کرنے کا مطلب ہے "شدخ” یا خشک اور ٹھوس چیز کو توڑنا۔ جب پھل درخت کے اوپر سے گر کر ریزہ ریزہ ہو جائے تو اسے ہضم کہتے ہیں۔

زمخشرى، محمود بن عمر، أساس البلاغة، ص: 703، بیروت، چاپ: اول، 1979م.

خلیل بن احمد فراہیدی نے شدخ کی تعریف اس طرح کی ہے:

الشَّدْخُ‏: کسر الشی‏ء الأجوف کالرأس و نحوه‏

شدخ کا مطلب ہے انسانی سر کی طرح خشک اور ٹھوس چیز کو توڑنا۔

فراهیدى، خلیل بن أحمد، کتاب العین، ج4، ص: 166، قم، چاپ: دوم، 1409ق.

مندرجہ بالا معانی میں دقت حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے مصائب کی گہرائی اور اس خاتون کے زخموں کی شدت کو ظاہر کرتی ہے۔ کیونکہ صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا کو دشمنوں کے ہاتھوں ہضم کرنے کا مطلب ہڈیوں کا ٹوٹ جانا اور شدید جسمانی اور ذہنی دباؤ اور ان کا ٹوٹ جانا ہے۔

4/3/4۔ مرحوم نعمانی الغیبہ میں فرماتے ہیں:

"مرحوم نعمانی” کا انتقال 360 ہجری میں ہوا اور وہ ممتاز شیعہ علماء میں سے ہیں اور مرحوم کلینی کے عظیم شاگردوں میں سے ہیں۔ انہوں نے اپنی کتاب "الغیبہ” میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو پیش آنے والے مصائب کا ذکر اور روایت کیا ہے۔

«مضت غضبی علی أمة أبیها و دعاها ما فعل بها إلی الوصیة بأن لا یصلی علیها أحد منهم»

ان کا انتقال اس وقت ہوا جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت سے ناراض تھے۔ اور وصیت کی کہ ان میں سے کوئی بھی اپ کے جسد خاکی پر نماز نہ پڑھے۔

الغیبة للنعمانی، نویسنده: ابن أبی زینب، محمد بن ابراهیم، محقق / مصحح: غفاری، علی اکبر، ص 48، ح 2

4/3/5. تفسیر عیاشی

محمد بن مسعود عیاشی (متوفی 320 قمری) امامیہ کے علماء اور مفسرین میں سے ہیں۔ ابن ندیم ان کے مقام کے بارے میں لکھتے ہیں:

أبو النضر محمد بن مسعود العیاشى من أهل سمرقند، و قیل انه من بنى تمیم‏ من فقهاء الشیعة الامامیة، أوحد دهره و زمانه فى غزارة العلم. و لکتبه بنواحى خراسان شأن من الشأن‏

ابو نصر محمد بن مسعود عیاشی سمرقند سے تعلق رکھنے والے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ قبیلہ بنی تمیم سے ہے۔ ان کا شمار امامیہ شیعہ فقہاء میں ہوتا ہے۔ وہ علم کی کثرت میں منفرد تھے۔ ان کی کتابوں کو خراسان میں بہت بلند مقام حاصل ہے۔

ابن ندیم، محمد بن اسحاق، الفهرست (ابن ندیم)، ص274، 1جلد، دار المعرفة – لبنان – بیروت، چاپ: 1.

ابی المقدم کے سند کےمطابق عیاشی اپنے تفسیر میں اپنے والد سے نقل کرتے ہیں جو کہ خود حضرت زہرا کے گھر پر حملے کے وقت موجود تھے، روایت کیاہے:

«… قال عمر: قوموا بنا إلیه، فقام أبو بکر، و عمر، و عثمان و خالد بن الولید و المغیرة بن شعبة، و أبو عبیدة بن الجراح، و سالم مولى أبی حذیفة، و قنفذ، و قمت معهم، فلما انتهینا إلى الباب- فرأتهم فاطمة ص أغلقت الباب فی وجوههم، و هی لا تشک أن لا یدخل علیها إلا بإذنها، فضرب عمر الباب برجله فکسره و کان من سعف‏ ثم دخلوا فأخرجوا علیا ع ملببا فخرجت فاطمة علیها السلام فقالت: یا با بکر أ ترید أن ترملنی من زوجی‏ و الله لئن لم تکف عنه لأنشرن شعری – و لأشقن جیبی و لآتین قبر أبی و لأصیحن‏ إلى ربی، فأخذت بید الحسن و الحسین علیهما السلام، و خرجت ترید قبر النبی صلی الله علیه و آله فقال علی علیه السلام لسلمان: أدرک ابنة محمد صلی الله علیه و آله…»

…عمر نے کہا: تم سب جمع ہو، چلو علی علیہ السلام کے پاس چلتے ہیں! ابوبکر، عمر، عثمان، خالد بن ولید، مغیرہ بن شعبہ، ابو عبیدہ جراح، سالم ابو حذیفہ کے حلیف، قنفذ اور دوسرے گھر کی طرف بڑھے۔ اور میں [ابوالقدم] بھی ان کے ساتھ تھا، جب ہم گھر پہنچے تو فاطمہ نے حملہ آوروں کو دیکھا اور گھر کا دروازہ بند کر دیا۔ انھونے کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ لوگ اس کی اجازت کے بغیر گھر میں داخل ہو گا۔ اس وقت عمر نے دروازے کو لات مار کر دروازہ کو توڑ دیا جو کھجور کی لکڑی سے بنا تھا۔ پھر وہ زبردستی گھر میں داخل ہوئے اور حضرت علی علیہ السلام کو ہاتھ باندھ کر باہر لے گئے اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا بھی باہر نکلی۔ اور فرمایا اے ابوبکر کیا تم میرے شوہر کو قتل کرنا چاہتے ہو؟ خدا کی قسم اگر تم نے اسے جانے نہ دیا تو میں اپنا حجاب اتار کر اپنے بابا کی قبر پر جاؤں گی اور خدا کے پاس تمہارا شکایت کروں گی۔ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا نے امام حسن و حسین علیہما السلام کا ہاتھ پکڑا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر جانے کا ارادہ کرتے ہوئے گھر سے نکلیں۔ حضرت علی نے سلمان سے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کو تلاش کرو! »

عیاشى، محمد بن مسعود، تفسیر العیّاشی، ج‏2، ص:66 الی 68، تهران، چاپ: اول، 1380 ق

یہ واضح ہوگیا کہ؛ مذکورہ بالا روایت صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا پر حملے اور نقصان کے بارے میں ہے۔4/3/6۔ کامل الزیارات ابن قولویه:

عظیم شیعہ عالم اور محدث ابن قولویہ (متوفی 367 ​​قمری) زیارات اہل بیت علیہم السلام کی زیارت کے موضوع پر سب سے مشہور روایتی کتابوں میں سے ایک ہے شیعہ کی نظر میں ۔ علامہ مجلسی نے حدیث کے اس اصول پر بہت زیادہ توجہ دی ہے اور اسے بحار الانوار میں اپنے معتبر ذرائع میں سے ایک کے طور پر ذکر کیا ہے۔ وہ اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں:

و کتاب کامل الزیارة من‏ الأصول‏ المعروفة و أخذ منه الشیخ فی التهذیب و غیره من المحدثین.

کتاب کامل الزیارۃ علماء حدیث میں مشہور اصولوں میں سے ایک ہے جسے شیخ طوسی نے تہذیب اور دیگر محدثین نے اس سے روایت نقل کیا ہے۔

مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى، بحار الأنوار (ط – بیروت)، ج‏1 ؛ ص27، بیروت، چاپ: دوم، 1403 ق.

بہت سے فقہاء اور محدثین کی نظر میں یہ کتاب ان لوگوں کے لیے توثیق کا ذریعہ ہے جن لوگوں نے اس کتاب کو سلسلہ سند قرار دیا ہے۔ کیونکہ ابن قولویہ نے اپنی کتاب کے تعارف میں کہا ہے:

«… وإنّما دعانی إلى تصنیف کتابی هذا مسألتک وتَردادُک القول على مرّة بعد أخرى تسألنی ذلک … فاشغلتُ الفکر فیه وصرفت الهمَّ إلیه وسألت اللَّه- تبارک وتعالى- العون علیه حتى أخرجته وجمعته عن الأئمة- صلوات اللَّه علیهم أجمعین- من أحادیثهم ولم أخرج فیه حدیثاً روى عن غیرهم إذ کان فیما رُوِّینا عنهم من حدیثهم- صلوات اللَّه علیهم- کفایة عن حدیث غیرهم، وقد علمنا إنّا لا نحیط بجمیع ما روى عنهم فی هذا المعنى ولا فی غیره، لکن ما وقع لنا من جهة الثقات من أصحابنا- رحمهم اللَّه [برحمته‏]- ولا أخرجت فیه حدیثاً روى عن الشذاذ من الرجال یؤثر [باثر] ذلک عنهم علیهم السلام المذکورین غیر المعروفین بالروایة، المشهورین بالحدیث والعلم وسمیّته کتاب کامل الزیارات…»

… جس چیز نے مجھے یہ کتاب لکھنے پر مجبور کیا وہ آپ کی مسلسل درخواست اور اصرار تھا… اس لیے میں نے اپنے خیالات کو اس پر مرکوز کیا۔ اور میں نے اس پر سخت محنت کی اور خدا سے مدد طلب کی یہاں تک کہ میں نے اسے مکمل کر لیا اور اسے ہمارے ائمہ معصومین علیہم السلام کی روایات سے بھر دیا۔ اور اس میں ائمہ کے علاوہ کسی دوسرے کے روایت نہیں لایا۔ کیونکہ معصومین علیہم السلام کی روایتیں ہمیں دوسروں کی روایتوں سے بے نیاز کرتی ہیں۔ جب کہ ہم جانتے ہیں کہ ہم ہر اس چیز سے گھرے ہوئے نہیں ہیں جو اس کتاب اور دیگر مضامین میں معصومین علیہم السلام سے نقل ہوئی ہیں۔ تاہم، ہم اس پر بھروسہ کرتے ہیں جو ہمارے قابل اعتماد ساتھیوں سے دستیاب ہے، خدا ان پر رحمت نازل کریں۔ اور اس کتاب میں میں کوئی ایسی حدیث نہیں لایا جو چند احادیث کے ساتھ لوگوں سے روایت کی گئی ہو، اور نہ ہی معصومین کی طرف سے کوئی قول لایا ہوں۔ یعنی وہ لوگ جن کے نام تو بیان کیے گئے ہیں لیکن وہ روایت کرنے میں مشہور نہیں ہیں اور وہ حدیث اور علم کے حوالے سے مشہور نہیں ہیں۔ میں نے اس کتاب کا نام کامل الزیارات رکھا۔

ابن قولویه، جعفر بن محمد، کامل الزیارات،؛ ص3، نجف اشرف، چاپ: اول، 1356ش.

اس مقدمہ کی بنا پر ابن قولویہ نے اپنی کتاب میں شازی کی ایسی کوئی روایت ذکر نہیں کی جس پر مشہور لوگوں نے توجہ نہ دی ہو۔ اس نکتے پر غور کرتے ہوئے حدیث کے اس اہم کام کی روایات کا حوالہ دیتے ہوئے ہمیں درج ذیل روایت ملتی ہے:

حَدَّثَنِی مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ الْحِمْیَرِیُّ عَنْ أَبِیهِ عَنْ عَلِیِّ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ سَالِمٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَمَّادٍ الْبَصْرِیِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَصَمِّ عَنْ حَمَّادِ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: لَمَّا أُسْرِیَ بِالنَّبِیِّ ص إِلَى السَّمَاءِ قِیلَ لَهُ إِنَّ اللَّهَ تَبَارَکَ وَ تَعَالَى یَخْتَبِرُکَ فِی ثَلَاثٍ لِیَنْظُرَ کَیْفَ صَبْرُکَ قَالَ أُسَلِّمُ لِأَمْرِکَ یَا رَبِّ وَ لَا قُوَّةَ لِی عَلَى الصَّبْرِ إِلَّا بِکَ فَمَا هُنَّ قِیلَ لَهُ أَوَّلُهُنَّ الْجُوعُ وَ الْأَثَرَةُ عَلَى نَفْسِکَ وَ عَلَى أَهْلِکَ لِأَهْلِ الْحَاجَةِ قَالَ قَبِلْتُ یَا رَبِّ وَ رَضِیتُ وَ سَلَّمْتُ وَ مِنْکَ التَّوْفِیقُ وَ الصَّبْرُ وَ أَمَّا الثَّانِیَةُ فَالتَّکْذِیبُ وَ الْخَوْفُ الشَّدِیدُ وَ بَذْلُکَ مُهْجَتَکَ فِی مُحَارَبَةِ أَهْلِ الْکُفْرِ بِمَالِکَ وَ نَفْسِکَ وَ الصَّبْرُ عَلَى مَا یُصِیبُکَ مِنْهُمْ مِنَ الْأَذَى وَ مِنْ أَهْلِ النِّفَاقِ وَ الْأَلَمِ فِی الْحَرْبِ وَ الْجِرَاحِ قَالَ‏ قَبِلْتُ یَا رَبِّ وَ رَضِیتُ وَ سَلَّمْتُ وَ مِنْکَ التَّوْفِیقُ وَ الصَّبْرُ وَ أَمَّا الثَّالِثَةُ فَمَا یَلْقَى أَهْلُ بَیْتِکَ مِنْ بَعْدِکَ مِنَ الْقَتْلِ أَمَّا أَخُوکَ عَلِیٌّ فَیَلْقَى مِنْ أُمَّتِکَ الشَّتْمَ وَ التَّعْنِیفَ وَ التَّوْبِیخَ وَ الْحِرْمَانَ وَ الْجَحْدَ [وَ الْجُهْدَ] وَ الظُّلْمَ وَ آخِرُ ذَلِکَ الْقَتْلُ فَقَالَ یَا رَبِّ قَبِلْتُ وَ رَضِیتُ وَ مِنْکَ التَّوْفِیقُ وَ الصَّبْرُ وَ أَمَّا ابْنَتُکَ فَتُظْلَمُ وَ تُحْرَمُ وَ یُؤْخَذُ حَقُّهَا غَصْباً الَّذِی تَجْعَلُهُ لَهَا وَ تُضْرَبُ وَ هِیَ حَامِلٌ وَ یُدْخَلُ عَلَیْهَا وَ عَلَى حَرِیمِهَا وَ مَنْزِلِهَا بِغَیْرِ إِذْنٍ ثُمَّ یَمَسُّهَا هَوَانٌ وَ ذُلٌّ ثُمَّ لَا تَجِدُ مَانِعاً وَ تَطْرَحُ مَا فِی بَطْنِهَامِنَ الضَّرْبِ وَ تَمُوتُ مِنْ ذَلِکَ الضَّرْبِ قُلْتُ إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَیْهِ رَاجِعُونَ- قَبِلْتُ یَا رَبِّ وَ سَلَّمْتُ وَ مِنْکَ التَّوْفِیقُ وَ الصَّبْرُ [لِلصَّبْرِ] وَ یَکُونُ لَهَا مِنْ أَخِیکَ ابْنَانِ یُقْتَلُ أَحَدُهُمَا غَدْراً وَ یُسْلَبُ وَ یُطْعَنُ تَفْعَلُ بِهِ ذَلِکَ أُمَّتُکَ قُلْتُ یَا رَبِّ قَبِلْتُ وَ سَلَّمْتُ- إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَیْهِ راجِعُونَ‏ وَ مِنْکَ التَّوْفِیقُ لِلصَّبْرِ وَ أَمَّا ابْنُهَا الْآخَرُ فَتَدْعُوهُ أُمَّتُکَ لِلْجِهَادِ ثُمَّ یَقْتُلُونَهُ صَبْراً وَ یَقْتُلُونَ وُلْدَهُ وَ مَنْ مَعَهُ مِنْ أَهْلِ بَیْتِهِ ثُمَّ یَسْلُبُونَ حَرَمَهُ فَیَسْتَعِینُ بِی وَ قَدْ مَضَى الْقَضَاءُ مِنِّی فِیهِ بِالشَّهَادَةِ لَهُ وَ لِمَنْ مَعَهُ وَ یَکُونُ قَتْلُهُ حُجَّةً عَلَى مَنْ بَیْنَ قُطْرَیْهَا فَیَبْکِیهِ أَهْلُ السَّمَاوَاتِ وَ أَهْلُ الْأَرَضِینَ جَزَعاً عَلَیْهِ

ابن قولویه، جعفر بن محمد، کامل الزیارات، ص332، نجف اشرف، چاپ: اول، 1356ش.

محمد بن عبداللہ بن جعفر حمیری نے اپنے والد سے، وہ علی بن محمد بن سلیمان سے، وہ محمد بن خالد سے، انہوں نے عبداللہ بن حماد بصری سے، وہ عبداللہ بن عبدالرحمٰن اصم سے، وہ حماد بن عثمان سے، انہوں نے حضرت ابی عبداللہ سے۔ انہوں نے کہا: جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آسمان پر لے جایا گیا تو آپ سے کہا گیا: اللہ تعالیٰ تین چیزوں کے ذریعے آپ کا امتحان لینا چاہتا ہے تاکہ آپ کا صبر دیکھیں۔ حضرت نے عرض کیا: پروردگار میں تیرے حکم کے تابع ہوں، میں تیری مدد کے سوا صبر کرنے کی طاقت نہیں رکھتا، وہ تین چیزیں کیا ہیں؟ تقدس مآب سے کہا گیا: ان میں سے سب سے پہلے اپنے آپ پر اور آپ کے گھر والوں پر بھوک اور مشقت ہے۔ حضرت نے فرمایا: اے رب میں نے اسے قبول کر لیا اور راضی ہو گیا اور سر تسلیم خم کر دیا اور میں تجھ سے کامیابی اور صبر کا سوال کرتا ہوں۔

اور دوسری : وہ جس کی تکذیب کی گئی ہے اور تم پر بڑا خوف طاری ہوگیا ہے، اور اس نے اپنے مال و جان کو اہل کفر سے جنگ میں خرچ کیا ہے، اور ان کی طرف سے تمہیں پہنچنے والی تکلیف کو برداشت کیا ہے۔ حضرت نے فرمایا: اے رب میں نے اسے قبول کر لیا اور راضی ہو گیا اور سر تسلیم خم کر دیا اور میں تجھ سے کامیابی اور صبر کا سوال کرتا ہوں۔

اور تیسرا: یہ اس بات پر مشتمل ہے کہ آپ کے بعد آپ کے گھر والوں کا کیا ہوگا، اور وہ ہے ان کا قتل اور قتل۔ جہاں تک آپ کے بھائی علی کا تعلق ہے: آپ کی امت کی طرف سے توہین، بدتمیزی، طعن و تشنیع، حق کا انکار، تکذیب اور ظلم اس پر ہو گا اور آخر کار اسے قتل کر دیں گے۔ کہا: اے رب، میں نے اسے قبول کر لیا اور راضی ہو گیا اور ہتھیار ڈال دیئے، اور میں تجھ سے کامیابی اور صبر کا سوال کرتا ہوں۔

اور جہاں تک آپ کی بیٹی کا تعلق ہے: اس پر ظلم ہوگا، اس کے حقوق غصب کیا جاےگا،اور حاملہ ہونے کی حالت میں اسے مارا جاےگا، اور لوگ ان کی اجازت کے بغیر گھر میں داخل ہوں گے، اور کم ظرف لوگ اسے تکلیف دیں گے، اور اذیت و ازار کی وجہ سے اسقاط حمل ہو گا اور وہ اسی تکلیف کی وجہ سے جام شہادت نوش کرے گی۔ حضرت نے فرمایا: میں اسے قبول کرتا ہوں اور میں مطمئن اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کرتا ہوں اور میں آپ سے کامیابی اور صبر کا سوال کرتا ہوں، پھر آپ سے فرمایا گیا: آپ کی بیٹی کے دو بیٹے ہوں گے، ان میں سے ایک کو آپ کی امت چال بازی سے قتل کر یگا، وہ لوگ اس کے کپڑے چھین لیں گے اور اسے طعنوں کا نشانہ بنائیں گے۔ حضرت نے فرمایا: اے رب میں نے اسے قبول کیا اور اس کے آگے سر تسلیم خم کر دیا و إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَیْهِ راجِعُونَ اور میں تجھ سے صبر میں کامیابی کا سوال کرتا ہوں۔ اور جہاں تک اس کے دوسرے بیٹے کا تعلق ہے، امت نے اسے جہاد کی دعوت دیگا، پھر وہ لوگ اسے برے اور غیر معمولی طریقے سے قتل کریگا، اس کے بچوں اور اس کے اہل خانہ کو جو اس کے ساتھ ہیں، قتل کریگا، اور پھر اس کے حرم پر قبضہ کریگا۔ پس وہ مجھ سے مدد اور نصرت چاہتا ہے، لیکن میری طرف سے یہ فرمان جاری ہوا کہ وہ اور اس کے ساتھ والے سب شہید ہو جائیں، اس کا قتل زمین کے دونوں کناروں کے درمیان رہنے والوں کے خلاف دلیل ہوگا۔ آسمان والے اور اہل زمین اس کے لیے رویں گے اور جو فرشتے اس کی مدد نہیں کر سکتے وہ اس معاملے میں رویں گے۔

ابن قولویه، جعفر بن محمد، کامل الزیارات، ص999، ترجمه ذهنى تهرانى – تهران، چاپ: اول، 1377 ش.

اوپر کی روایت سے صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا کی شہادت کا مفہوم حملہ آوروں کے زخموں اور ضربوں کی شدت سے واضح ہے۔ یہ روایت تمام اصحاب امامیہ کی مشہور اور معتبر روایتوں میں سے ہے اور اسے جاری کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

4/3/7. من لا یحضره الفقیه شیخ صدوق:

شیخ صدوق شیعہ حدیث کے ستونوں میں سے ایک ہیں۔ آپ کی پرورش مکتب قم میں ہوئی۔ شیخ صدوق نے اپنی مشہور کتاب من لا یحضرہ الفقیہ کے شروع میں کہا ہے کہ وہ اس کتاب میں ایسی روایات شامل کرتے ہیں جو حجت ہے اور ان پر عمل کیا جا سکتا ہے۔اس روایت کی کتاب میں سب سے اہم احادیث جو صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا کے حوادث سے متعلق ہیں۔ مندرجہ ذیل روایت ہے جو صراحت کرتی ہے کہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا صدیقہ اور شہیدہ تھیں:

« السَّلَامُ عَلَیْکِ أَیَّتُهَا الصِّدِّیقَةُ الشَّهِیدَةُ السَّلَامُ عَلَیْکِ أَیَّتُهَا الرَّضِیَّةُ الْمَرْضِیَّة»

ابن بابویه، محمد بن على، من لا یحضره الفقیه، ج‏2 ؛ ص573، قم، چاپ: دوم، 1413 ق.

4/3/8. تهذیب الاحکام شیخ طوسی

شیعوں کی چار سب سے اہم روایتی کتابوں میں سے ایک تہذیب الاحکام ہے۔ اس کتاب کے تعارف میں شیخ طوسی نے اپنی کتاب کے پیروکاروں اور قارئین سے وعدہ کیا ہے کہ وہ اس میں ایسی روایات کو شامل کریں گے جو اصحاب امامیہ کے درمیان مشہور و معروف اور معتبر ہوں۔ اس کتاب کی احادیث میں سے ایک حدیث ہے جو واضح طور پر حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت کے بارے میں بتاتی ہے:

«السَّلَامُ عَلَیْکِ یَا أُمَّ الْحَسَنِ وَ الْحُسَیْنِ سَیِّدَیْ شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ السَّلَامُ عَلَیْکِ أَیَّتُهَا الصِّدِّیقَةُ الشَّهِیدَةُ السَّلَامُ عَلَیْکِ أَیَّتُهَا الرَّضِیَّةُ الْمَرْضِیَّة»

طوسى، محمد بن الحسن، تهذیب الأحکام (تحقیق خرسان)، ج‏6 ؛ ص10، تهران، چاپ: چهارم، 1407 ق.

4/3/9. احتجاج مرحوم طبرسی

شیعہ کی ایک مستند روایتی کتاب جو ہمیشہ امامیہ علماء اور فقہاء کی توجہ کا مرکز رہی ہے، مرحوم طبرسی کی کتاب الاحتجاج ہے۔ اس عظیم کتاب کے مصنف نے اپنی کتاب کے شروع میں یہ شرط رکھی ہے کہ وہ اس کتاب میں ایسی روایات کو شامل کریں گے جو اجراء کے نقطہ نظر سے دلائل کے مشابہ ہوں جیسے عقل قطعی سے اتفاق یا قرآنی موضوعات سے اتفاق۔ اور شیعہ عقیدہ کے اصول قطعی اور…محرزاور مسلم ہوں:

و لا نأتی فی أکثر ما نورده من الأخبار بإسناده إما لوجود الإجماع علیه أو موافقته لما دلت العقول إلیه أو لاشتهاره فی السیر و الکتب بین المخالف و المؤالف‏

میں نے بہت سی خبروں کی سند جیسے اس پر اجماع کا وجود، حدیث کے مواد کے اتفاق یا سیرت کی کتابوں میں روایت کی مقبولیت اور شیعہ و سنی کے درمیان متفق و اختلاف کرنے والی کتابوں کا ذکر نہیں کیا۔

طبرسى، احمد بن على، الإحتجاج على أهل اللجاج (للطبرسی)، ج‏1 ؛ ص14، مشهد، چاپ: اول، 1403 ق.

مرحوم طبرسی نے اپنی روایت کی کتاب کے ایک حصے میں ایک روایت ذکر کی ہے جو صدیقہ طاہرہ کی شہادت کو واضح کرتا ہے:

« ِ ثُمَّ قَالَ لِقُنْفُذٍ إِنْ خَرَجَ وَ إِلَّا فَاقْتَحِمْ عَلَیْهِ فَإِنِ امْتَنَعَ فَأَضْرِمْ عَلَیْهِمْ بَیْتَهُمْ نَاراً فَانْطَلَقَ قُنْفُذٌ فَاقْتَحَمَ هُوَ وَ أَصْحَابُهُ بِغَیْرِ إِذْنٍ وَ بَادَرَ عَلِیٌّ إِلَى سَیْفِهِ لِیَأْخُذَهُ فَسَبَقُوهُ إِلَیْهِ فَتَنَاوَلَ بَعْضَ سُیُوفِهِمْ فَکَثُرُوا عَلَیْهِ فَضَبَطُوهُ وَ أَلْقَوْا فِی عُنُقِهِ حَبْلًا أَسْوَدَ وَ حَالَتْ فَاطِمَةُ ع بَیْنَ زَوْجِهَا وَ بَیْنَهُمْ عِنْدَ بَابِ الْبَیْتِ فَضَرَبَهَا قُنْفُذٌ بِالسَّوْطِ عَلَى عَضُدِهَا فَبَقِیَ أَثَرُهُ فِی عَضُدِهَا مِنْ ذَلِکَ مِثْلُ الدُّمْلُوجِ‏ مِنْ ضَرْبِ قُنْفُذٍ إِیَّاهَا فَأَرْسَلَ أَبُو بَکْرٍ إِلَى قُنْفُذٍ اضْرِبْهَا فَأَلْجَأَهَا إِلَى عِضَادَةِ بَیْتِهَا فَدَفَعَهَا فَکَسَرَ ضِلْعاً مِنْ جَنْبِهَا وَ أَلْقَتْ جَنِیناً مِنْ بَطْنِهَا فَلَمْ تَزَلْ صَاحِبَةَ فِرَاشٍ حَتَّى مَاتَتْ مِنْ ذَلِکَ شَهِیدَةً

پھر قنفذ کو حکم دیا کہ اگر وہ نہ جائے تو اس کی اجازت کے بغیر داخل ہو جاو اور اگر وہ ممانعت کرے تو گھر کو آگ لگا دو۔ قنفذ اپنے ساتھیوں کے ساتھ بغیر اجازت ولی خدا کے گھر پر حملہ کر دیا، اور اپ نے دفاع کے لیے تلوار نکالی لیکن بھیڑ نے اسے گھیر لیا اور تلوار چھین لیا۔ اور چاروں طرف سے گھیر کر ان کی مبارک گردن میں سیاہ رسی ڈال دیا۔ یہ تکلیف دہ صورت حال دیکھ کربنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بے صبر ہو گئے اور اپنے شوہر کو چھوڑانے کی کوشش کی لیکن قنفذ ملعون نے صدیقہ طاہرہ کے مبارک بازو پر اپنا کوڑا مارا!! اس ضرب کا اثر اس کے بازو میں مرتے دم تک باقی رہا۔ اسی دوران ابو بکر نے قنفذ کو پیغام بھیجا کہ علی کو میرے پاس لے آؤ اور اگر فاطمہ انکار کرے تو اسے مارو اور علی سے دور رکھو۔ اس پیغام کے ساتھ ہی یہ ماجرا شدت اختیار کی اور آخر میں دروازے اور دیوار کے دباؤ اور اس کی شدت کے درمیان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری بیٹی پر ظلم و بربریت اور شدت کو دیکھا گیا۔ یہ حملہ اتنا شدید تھا کہ خاتون کی پسلی ٹوٹ گئی اور اسقاط حمل ہو گیا!! اس گھناؤنے فعل کے نتیجے میں وہ محترمہ اپنی زندگی کے آخری دن تک مسلسل زمین گیر رہیں یہاں تک کہ وہ مظلومہ شہید ہو گئیں، خدا کی رحمتیں اس پر نازل ہوں۔

طبرسى، احمد بن على، الإحتجاج على أهل اللجاج (للطبرسی)، ؛ ج‏1 ؛ ص83، مشهد، چاپ: اول، 1403 ق.

4/3/10۔ نتیجہ

مندرجہ بالا واقعات پر غور کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا کی شہادت شیعوں کے اہم ترین اصولوں اور روایتوں کی کتابوں میں ایک یقینی موضوع رہی ہے۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ صحیح کتابوں اور اصول حدیث میں ان روایات کے وجود کی وجہ سے روایات کو معتبر بنانے کی بنیاد شیخ مفید کے نزدیک ان کی رائے میں صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا کی شہادت یقینی تھی۔

4/4۔ شیعہ علماء کے اجماع سے متفق ہونا۔

امامیہ علماء کے اجماع کے ساتھ کسی روایت کے مواد کا متفق ہونا ائمہ علیہم السلام سے روایت جاری کرنے کے لیے اہم ترین دلیل اور علم کا ذریعہ ہے۔ شیخ طوسی (460ھ): حضرت زہرا کے پیٹ پر عمر کے مارنے اور ان کے اسقاط حمل اور اس خاتون کی شہادت پر اجماع ہے اور اختلاف نہیں کیا گیا ہے:

«و المشهور الذی لا خلاف فیه بین الشیعة: أن عمر ضرب علی بطنها حتی اسقطت فسمی السقط محسنا…. لا یختلفون فی ذلک.»

شیعہ روایت کو بھی اسی تناظر میں قبول کیا جاتا ہے اور کسی شیعہ نے اس میں اختلاف نہیں کیا …. کہ عمر نے صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا کے پہلو میں مارا اور اس کے نتیجے میں محسن کا اسقاط حمل ہو گیا۔۔۔ اس معاملے میں شیعہ علماء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔

الطوسی، أبو جعفر محمد بن الحسن (المتوفی 460 ق)، تلخیص الشافی‏، ج3 ص156، لملاحظات: مقدمه و تحقیق از حسین بحر العلوم، دار النشر: انتشارات المحبین – قم، الطبعة: اول‏، سنة الطبع: 1382ش.

شیخ مفید – جنہوں نے اجماع کی روایت کو دلیل مانتے تھے، کی بنیاد کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ شہادت صدیقہ طاہرہ کی مثبت روایتیں اور اس خاتون کے مصائب ان کی نظر میں یقینی اور ناقابل اعتراض ہیں۔ البتہ اس بات کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ متقدمین میں سےصحابہ کرام اور فقہاء امامیہ کا اجماع فقہاء و محدثین کی حضور معصومین کےزمانہ سے قریب ہونےکی وجہ سے معلوم ہوتی ہیں۔ دریافت کا یہ اتفاق اس بات کا بہت مضبوط اور معروف ثبوت ہے کہ صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا نے شہادت پائی۔ اور اس فرض کے بنیاد پر کہ ہمارے زمانے کے روایتی منابع میں کوئی روایت موجود نہیں تھی، یہ اجماع حجت تھا کیونکہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ شیعہ علماء نے اتنے اہم اور حساس مسئلہ پر بغیر ثبوت کے رائے دی ہو، اس لیے ان کے پاس یقینی ثبوت موجود تھا۔ اس لیے بعض لوگوں نے کہا ہے کہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کی صحیح روایت لے کر آئیں، ہم اس قیاس پر کہہ رہے ہیں کہ ایسی کوئی روایت ہرگز نہیں ہے، لیکن شیعوں کے نقطہ نظر سے یہ شہرت اور اجماع صحیح ہے۔

  1. مغالطه اشتراک لفظی شیخ مفید کے نقطہ نظر سے

اب تک محترم قاری شیخ مفید کے اجتہاد کے قطعی اصولوں کی بنیاد پر ان کے خیالات سے واقف ہو چکے ہیں۔ اور وہ بے شمار قطعی دلائل و شواہد کی بنا پر اس نتیجے پر پہنچے کہ شیخ مفید صدیقہ طاہرہ کی شہادت میں فیصلہ کن تھے۔ اس میں بعض منحرف گروہ جن کی حمایت وہابیت بھی کرتی ہے، شیخ مفید کی کتاب ارشاد کا ایک جملہ نقل کر کے یہ حقیقت پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ شیعوں کے درمیان حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت کا تصور یقینی نہیں ہے اور شیعوں کے درمیان اختلافات پائے جاتے ہیں۔

شبہات ایجاد کرنے والوں کےلئے سندشیخ مفید کا ارشاد میں درج ذیل ہے:

«و فی الشیعة من یذکر أن فاطمة سلام الله علیها أسقطت‏ بعد النبی‏ صلی الله علیه و آله ولدا ذکرا کان سماه رسول الله صلی الله علیه و آله و هو حمل محسنا فعلى قول هذه الطائفة أولاد أمیر المؤمنین علیه السلام ثمانیة و عشرون و الله أعلم‏»

یمن میں کچھ شیعہ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ بے شک فاطمہ( سلام اللہ علیہا) کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے بعد ایک بیٹا سقط حمل ہواتھا جس کا نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محسن رکھا تھاجب صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا حاملہ تھیں۔ اس فرقہ شیعہ کے مطابق امیر المومنین کے اٹھائیس بچے ہوتےہیں بحرحال خدا سب کچھ جانتا ہے۔

مفید، محمد بن محمد، الإرشاد فی معرفة حجج الله على العباد، ج‏1 ؛ ص355، قم، چاپ: اول، 1413 ق.

یہ بات بالکل واضح ہے کہ مذکورہ بالا بیان صدیقہ طاہرہ کی شہادت میں شیخ مفید کے اجتہاد فکر سے کوئی متصادم نہیں ہے۔ کیونکہ ان کی شہادت اور اولاد کا مسئلہ دو بالکل الگ الگ معاملات ہیں۔ البتہ شیعہ اور سنی روایات اور احادیث کی کتابوں میں ایسی روایات موجود ہیں کہ شہادت کا سبب وہ ضرب تھی جو قنفد نے صدیقہ طاہرہ کے پہلو پر لگائی تھی، جس کے نتیجے میں محسن کا اسقاط حمل ہوا۔ اور حضرت شدید بیمار رہیں اور آخر کار جام شہادت نوش کی ۔ لیکن یہ جاننا چاہیے کہ شہادت کا مضمون کے یقینی ہونے کے باوجود اس کی بعض تفصیلات کا اختلافی ہونا اس کے واقع ہونے کے اصول کو نقصان نہیں پہنچاتا۔

تاہم یہ معلوم ہونا چاہیے کہ شیخ مفید کا”فی الشیعہ”اس عبارت سے مراد امامیہ شیعہ نہیں ہیں، کیونکہ شیخ مفید کے وقت شیعہ امامیہ نہیں تھے۔ علامہ سید جعفر مرتضیٰ عاملی اس بارے میں لکھتے ہیں:

«العبارة المذکورة لا تدل على مخالفة المفید للطوسی فی هذا الامر؛ لأن کلمة «الشیعة» کانت فی زمن الشیخ المفید تطلق على العدید من الفرق، مثل: الزیدیة، و الاسماعیلیة، و الامامیة، و غیرهم، بل و على المعتزلة أیضا الذین کانوا هم الحاکمین فی بغداد، و هم الذین سمحوا بإقامة مناسبة عاشوراء بالطریقة المعروفة و المتداولة حتى یومنا هذا.و کان یطلق على الشیعة الامامیة من قبل خصومهم اسم: الرافضة»

شیخ مفید کے بیان سے یہ ظاہر نہیں ہوتا ہے کہ شیخ مفید حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت کے بارے میں شیخ طوسی کے اس اتفاق سے متفق نہیں ہیں۔ کیونکہ شیخ مفید کے زمانے میں لفظ شیعہ کا اطلاق کئی فرقوں پر ہوتا تھا جیسے: زیدیہ، اسماعیلیہ، امامیہ وغیرہ۔ یہاں تک کہ یہ لفظ معتزلہ پر بھی لاگو ہوا ہے جو اس وقت بغداد پر حکومت کرتا تھا۔ اور اسی گروہ نے عاشورا کی تقریب کو معمول کے مطابق منعقد کرنے کی اجازت دی جو اب تک جاری ہے۔ شیعوں کے نام کو ان کے دشمنوں نے رافضی سے تعبیر کیا!

عاملى، جعفر مرتضى، مأساة الزهراء علیها السلام، ج‏1 ؛ ص167، 2جلد، دار السیرة – بیروت، چاپ: دوم، 1418 ه.ق.

اس جواب کی تصدیق شیخ مفید کے الارشاد میں درج ذیل قول سے بھی ہوتی ہے: «الشِّیعَةَ رَجُلَانِ: إِمَامِیُ‏ وَ زَیْدِیٌّ»

شیعہ کی دو قسمیں ہیں، امامی اور زیدی!

الإرشاد فی معرفة حجج الله على العباد؛ نویسنده مفید محمد بن محمد (وفات: 413)، محقق/ مصحح: مؤسسة آل البیت علیهم السلام‏، ناشر: دار المفید للطباعة والنشر والتوزیع – بیروت – لبنان، ج2، ص22

اس کے علاوہ امامیہ کے مخالفین کے اعترافات کا تجزیہ کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بارہ امامی شیعہ میں سے جو شیخ مفید کے ماننے والے تھے، صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا کی شہادت پر یقین رکھتے تھے۔ اور یہاں تک کہ انہوں نے اس کے لئے وسیع تقاریب اور ماتم کا انعقاد کیا۔

"قاضی عبدالجبار معتزلی” اپنی کتاب ” تثبیت دلائل النبوة ” میں “ہم عصر شیخ مفید” کہتے ہیں:

« وفی هذا الزمان وابو عبدالله محمد بن نعمان وکل هؤلاء یبکون علی فاطمة وعلی ابنها المحسن ویقیمون المنشدین والمناحات فی ذلک»

اس وقت شیخ مفید ابو عبد اللہ محمد بن نعمان اور یہ تمام شیعہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور ان کے بیٹے محسن کے لیے گریہ و زاری کرتے ہیں اور ان کے لیے ماتم اور نوحہ خوانی و مجلسیں منعقد کرتے ہیں۔

تثبیت دلائل النبوة؛ القاضى عبد الجبار بن أحمد بن عبد الجبار الهمذانی الأسد أبادی، أبو الحسین (متوفای 415هـ)، حققه وقدم له: الدکتور عبد الکریم عثمان، دار النشر: دار العربیة للطباعة والنشر والتوزیع، بیروت – لبنان، ج1، ص594-595

نتیجہ یہ ہے کہ شبہ پیدا کرنے والے نے بعض زیدیوں کی رائے کو غلط فہمی اور لفظ شیعہ میں الفاظ کے اشتراک کی غلط فہمی کے ساتھ شیعہ کی طرف منسوب کیا ہے۔ اور اس کے ذریعے سامعین کو یہ دکھانے کی کوشش کی کہ شیخ مفید صدیقہ طاہرہ کی شہادت پر یقین نہیں رکھتے تھے ۔

6-نتیجہ

شیخ مفید کے اجتہاد کی بنیادوں کے بارے میں تفصیلی تجزیے کے ساتھ تاریخی روایات اور گذارشوں کو صحیح قرار دینے اور اسے ان کے فقہی، احادیث اور تاریخی کاموں پر لاگو کرنے کے حوالے سے وضاحت کی گئی کہ امامیہ کے اس عظیم عالم کی رائے میں صدیقہ طاہرہ کی شہادت متعدد طریقوں، اسباب اور دلائل کی بنا پر یقینی ہے۔ وہ لوگ جو شیخ مفید پر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت کو نہ ماننے کا الزام لگاتے ہیں۔ انہیں اجتہاد کی بنیادوں اور اس کے کاموں کی کوئی سمجھ اور علم نہیں ہے یہ لوگ اور منحرف فرقے وہابی سیاست اور عالمی صیہونیت کے مطابق شیعہ مسلمانوں کے عقائد پر شک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ ان کے شیطانی افکار کے اثر کو بنیاد فراہم کریں۔

Continue Reading

قرآن لائبریری

مصداق شناسی

بسم الله الرحمن الرحیم

خلاصہ

قرآن مجید کی آیات کے سنجیدہ مفہوم اور مثالوں کو سمجھنے کا ایک اہم ترین طریقہ، عقلی اور عقلائی دلائل پر توجہ دینا، آیت میں لفظی اور ضمنی دلائل اور روایتی دلائل آیات کی تفسیر ہے۔ اس مضمون میں ہم نے آیت تطہیر کی شرائط کے ساتھ ہمسران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شامل کرنے کے بارے میں مخالفین امامیہ کے دعووں کا جائزہ لینے کا ارادہ کیا ہے۔ اس تحقیق میں ہمارا طریقہ اجتہاد کے تجزیہ اور وضاحت پر مبنی ہے جو دانشوروں کے قبول کردہ اصولوں اور اہل سنت کے قبول کردہ اجتہاد کے طریقوں پر مبنی ہے۔ ہماری تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ پیش کردہ شواہد اور دلائل بالخصوص روایتی شواہد کی بنا پر، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اس آیت کےمفاد سےجس کی تفسیر خود رسول خدا نےبیان فرمایا ہے واضح طور سے خارج ہے۔ متعدد عقلی دلائل اس حقیقت پر بھی دلالت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کو آیت تطہیر میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ بلاشبہ پیش کیے گئے دلائل کی درستگی ہمیں زیر بحث آیت کی تشریح کرنے اور مذہبی تعصبات میں پھنسنے سے گریز کرکی چاہیے ۔

مقدمه تحقیق

آیه تطهیر ان آیات میں سے ایک اہم ترین آیت ہے جس کے بارے میں شیعہ علماء نے ہمیشہ شیعہ مذہب کے صحیح ہونے کے بارے میں استدلال کرتے ہیں۔ شھید اول کی کتاب "ذکری الشیعہ فی حکم الشریعہ” میں اس طرح کی آیات میں سے ایک آیات جو اہل بیت علیہم السلام کے مذہب سے تمسک کے واجب ہونے پر دلالت کرتی ہیں، وہ آیه تطهیرہے:

«و فیه من المؤکدات و اللطائف ما یعلم من علمی المعانی و البیان، و ذهاب الرجس و وقوع التطهیر یستلزم عدم العصیان و المخالفة لأوامر اللّه و نواهیه. و موردها فی النبی صلّى اللّه علیه و آله و علی (علیه السلام) و فاطمة و الحسن و الحسین، اما عند الإمامیة و سائر الشیعة فظاهر إذ یروون ذلک بالتواتر»

اس آیت میں بہت ساری تاکیدیں اور باریکیاں ہیں جو معانی سے معلوم ہوتی ہیں۔ نجاست کو دور کرنے اور طہارت کے وقوع پذیر ہونے کے لیے لازمہ یہ ہے کہ نافرمانی اور خدا کے احکام کی مخالفت ناکی جاءے۔ اس آیت کی مصداق رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، حضرت علی علیہ السلام، حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا اور امام حسن و حسین علیہما السلام ہیں۔ یہ معاملہ امامیہ اور شیعوں کے دوسرے فرقوں کی نظر میں واضح ہے کیونکہ متواتر روایات اس بات کو ثابت کرتی ہیں۔

عاملى، شهید اول، محمد بن مکى، ذکرى الشیعة فی أحکام الشریعة، ج‌1، ص: 54، 4 جلد، مؤسسه آل البیت علیهم السلام، قم – ایران، اول، 1419 ه‍ ق ق

محقق حلی نے "المعتبر فی شرح المختصر” میں بھی آیه تطهیر کو اہل بیت علیہم السلام کے مذہب کی صداقت کے دلائل میں سے ایک دلیل قرار دیا ہے:

«یدل على ذلک: النقل، و العقل. اما النقل: فمنه قوله تعالى إِنَّما یُرِیدُ اللّهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیراً »

عقلی اور نقلی دونوں دلیل اس امر پر دلالت کرتی ہے۔ لیکن نقلی دلیل: ان دلائل میں سے ایک آیت ” إنما یرید الله…” ہے۔

حلّى، محقق، نجم الدین، جعفر بن حسن، المعتبر فی شرح المختصر، ج‌1، ص: 22‌، 2 جلد، مؤسسه سید الشهداء علیه السلام، قم – ایران، اول، 1407 ه‍ ق

علامہ مظفر نے "دلائل الصدق لنھج الحق” میں تشیع کی صداقت پر آیت تطہیر کے معنی پر تفصیلی بحث کی ہے اور مخالفین کے شکوک و شبہات کا جواب دیا ہے۔ اس عظیم عالم نے اپنی کتاب کی چوتھی جلد میں صفحہ 351 سے 381 تک آیت تطہیر کو خاص طور سے بیان کیا ہے۔

یہ بات بالکل واضح ہے کہ اس آیت میں طھارت کا لفظی معنی ہے نظافت اور نزاھت کے۔ محقق عاملی آیت میں مذکور طہارت کی وضاحت میں لکھتے ہیں:

«ذکر المفسرون: أن الطهارة هنا تأکید للمعنى المستفاد من ذهاب الرجس، و مبالغة فی زوال أثره بالکلیة و الرجس فی الآیة مستعار للذنوب، کما أنّ الطهارة مستعارة للعصمة منها.»

مفسرین نے طہارت کی تشریح میں کہا ہے: درحقیقت اس آیت میں طہارت سے مراد رجس سے دور ہونا ہے یہ معنی مبالغہ آرائی اور تاکیدہے رجس کے آثارکا مطلقا دور ہونا اور آیت میں جو رجس استعمال ہوا ہے اس سے مراد مطلق گناہ ہے اور جو طھارت ذکر ہوا ہے اس سے مراد عصمت ہے۔

عاملى، محمد بن على موسوى، مدارک الأحکام فی شرح عبادات شرائع الإسلام، ج‌1، ص: 6، 8 جلد، مؤسسه آل البیت علیهم السلام، بیروت – لبنان، اول، 1411 ه‍ ق

بیان مسئله

قرآنی آیات کی تفسیر کے میدان میں امامیہ اور اہل سنت کے درمیان ایک اہم ترین اختلاف یہ دعویٰ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کو اس آیت میں شامل کیا گیا ہے جس میں مطلق پاکیزگی کی نشاندہی ہوتی ہے وہ آیت ” آیه تطهیر ” ہے۔ اہلسنت کا دعویٰ ہے کہ قطعی نصوص، عقلی اور عقلایی شواہد اور آیت میں متنازع عبارت کے مخصوص سیاق و سباق کے برخلاف، وہ تمام لوگ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات ہیں، سب کے سب اس آیت میں شامل ہے۔ اس مضمون میں ہم اہل سنت کے معتبر شواہد کی بنا پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ دعویٰ صحیح نہیں ہے اور آیت کی تفسیر( جو خود رسول نے بیان فرمایا ہے) اور بہت سے صحابہ کے فہم کے خلاف ہے۔

پہلے مرحلے میں اس مسئلے کا جائزہ لینے کے لیے ہم ان عقلی اور عقلایی شواہد کی طرف رجوع کرتے ہیں جو اہل بیت کے عنوان سے زوجیت کی جدائی کو ثابت کرتے ہیں اور پھر ہم آیت میں موجود قرائن کا حوالہ دیں گے اور تیسرے مقام پر ہم ان روایات کا تفصیل سے حوالہ دیں گے جو ہمارے دعوے کی تائید کرتی ہیں:

  1. عقلی اور عقلایی قرائن

عقلی اور عقلایی دلائل بشمول رضائے الٰہی میں تناقض کی بحث اور اس آیت میں رضائے الٰہی کی تکوینی قراین کا ثبوت اور ازواج مطہرات کی آیه تطهیر پر کوئی اعتراض نا کرنا اور بار بار خلاف ورزیاں ان کے(معصوم) عصمت نا ہونےکا دلیل ہے:

1/1۔ خدا کی مرضی میں تناقض اور تهافت

مقدمه اول: کلامی اور عقلی اصولوں کی بنا پر مولی اور شارع حکیم سے دو متضاد اور متناقض چیزیں جاری کرنا حرام اور ناممکن ہے۔ مثال کے طور پر خدا کے لیے ایک ہی چیز سے خوش اور ناخوش ہونا محال ہے۔

مقدمه دوم: ایک طرف سورہ تحریم کی آیت نمبر 10 کے تحت شیعہ اور سنی کی قطعی روایات کے مطابق عائشہ اور حفصہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف متحد ہونے کا ڈرامہ کرنا، غداری، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے راز افشا کرنا، خدا کی طرف سے ملامت کا شکار ہوئے ہیں:

(66) التحریم : 10 ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلاً لِلَّذینَ کَفَرُوا امْرَأَتَ نُوحٍ وَ امْرَأَتَ لُوطٍ کانَتا تَحْتَ عَبْدَیْنِ مِنْ عِبادِنا صالِحَیْنِ فَخانَتاهُما فَلَمْ یُغْنِیا عَنْهُما مِنَ اللَّهِ شَیْئاً وَ قیلَ ادْخُلاَ النَّارَ مَعَ الدَّاخِلین‏

بخاری اپنی صحیح میں خلیفہ دوم عمر بن خطاب سے نقل کرتے ہیں:

«… فقلت یا أمیر المؤمنین من اللتان تظاهرتا على النبی صلى الله علیه و سلم من أزواجه فقال تلک حفصة وعائشة…»

عبداللہ بن عباس کہتے ہیں کہ میں نے کہا اے امیر المومنین (یعنی عمر بن خطاب) ان کی ازواجوں میں سے وہ کون سی دو زوجہ تھیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بہانہ بنایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعاون کیا؟ عمر بن خطاب نے جواب دیا: حفصہ اور عائشہ تھیں!

بخاری جعفی، محمد بن اسماعیل، الجامع الصحیح المختصر، ج4، ص: 1866، دار ابن کثیر ، الیمامة – بیروت، الطبعة الثالثة ، 1407 – 1987، تحقیق : د. مصطفى دیب البغا أستاذ الحدیث وعلومه فی کلیة الشریعة – جامعة دمشق، عدد الأجزاء : 6

دوسری طرف اہل سنت کا دعویٰ ہے کہ آیه تطهیر سے مراد اہل بیت ہیں اور اس میں ازواج رسول خدا بھی شامل ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ تمام ازواج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طھارت مطلق ہے۔ ایسا شخص جو طھارت مطلق ہو اور وہ تمام رجس سے دور ہو وہ کبھی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیانت اور مخالفت نہیں کریگا۔

نتیجہ: سورہ تحریم کی آیات پر غور کرتے ہوئے ازواج کا آیه تطهیر میں داخل ہونے کا دعویٰ متضاد اور ناممکن ہے۔

کیونکہ یہ سب حکیم خدا کے لیے ناممکن ہے کہ ایک طرف، وہ ازواج رسول خدا کی مکمل طھارت چاہتا ہے اور دوسری طرف ان کی خیانت اور ناپاکی کی خبریں دیں۔ کیونکہ خدا کی مرضی کے لیے دو متضاد چیزیں شامل کرنا ناممکن ہے۔

جمع بندی: ایک قطعی عقلی دلیل کی بنا پر، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کو آیت تطھیر کی مصداق میں کسی بھی طرح سے شامل نہیں کیا جا سکتا ۔

.2/1ارادہ الھی کا قرینہ تکوینی ہونا

آیت تطھیر میں جس ارادہ کا ذکر ہے وہ تکوینی کی یقینی اور حقیقی ارادہ ہے۔ توضیح یہ ہے کہ ارادہ الھی ممکن ہے تشریعی صورت میں ہو یا تکوینی، ارادہ تشریعی میں اللہ تعالیٰ اپنے احکام و ممنوعات سے نجات اور مصائب پیدا کرکے اپنے تمام بندوں کی پاکیزگی چاہتا ہے۔ خدا اپنے اوامرسے حکم دیتا ہے کہ مناسب ہے کہ وضو کرو تاکہ پاک و پاکیزہ رہویامناسب نہیں ہے کہ شراب پیو نجس ہونے کیلیے۔ بحرحال یہ ارادہ تمام افراد اور ذمہ داران کے لیے ہے، نہ کہ کسی خاص شخص یا افراد کے لیے، اور یہ ارادہ واجبات کے لیے کوئی فضیلت پیدا نہیں کرتی ہے۔ ایسے ہی آیت تطھیرمیں ہے۔

اول: آیت کا خطاب بعض لوگوں سے ہے، تمام مکلفین سے نہیں۔

دوم: تمام مسلمان اہل بیت کے لیے آیت تطھیرمیں بیان کردہ طہارت کو بہت بڑی فضیلت اور مدح عظیم سمجھتے ہیں۔ اس صورت میں، اگر ارادہ تشریعی ہے، اس کی تعریف مخصوص لوگوں کے لیے نہیں کی جائے گی اور آیت میں ہی محدود رہے گی، اور آیت میں بیان کردہ طہارت کو مخصوص لوگوں کے لیے تفویض کرنے کی حکمت بے معنی اور غیر معقول ہوگی۔ یہاں تک کہ اگر ہم اس حقیقت کو شامل کریں کہ اہل بیت علیہم السلام کے علاوہ کسی اور نے بھی، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دیگر صحابہ کرام اور ازواج نے عصمت کا دعویٰ نہیں کیا ہے۔ آیت تطہیر سے واضح ہو جاتا ہے کہ آیت صرف ان کے لیے ہے اور آیت کے احکام میں دوسروں کے داخل ہونے کا امکان نہیں ہے۔

ایک اور دلیل یہ ہو سکتی ہے کہ آیت میں جس ارادہ کا اظہار کیا گیا ہے وہ حقیقی اور تکوینی ہے اوررجس سے دوری آیت میں جو ذکر ہوا ہے اس کا تعلق خدا کے فعل سے ہے۔ اوراس کے علاوہ ہم واضح طور پر عقل اور قرآن کی واضح آیات سے جانتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا اور عمل کیا تو وہ عمل لامحالہ اور یقینی طور پر پورا ہو گا جیسا کہ اس نے سورہ یاسین کی آخری آیت میں کہا۔ :

(36) یس : 82 إِنَّما أَمْرُهُ إِذا أَرادَ شَیْئاً أَنْ یَقُولَ لَهُ کُنْ فَیَکُون‏

یہ اس کے حکم اورارادہ کے سوا کچھ نہیں کہ وہ جب کسی چیز کو چاہے گا کہ ہوجا تو وہ فوراً ہو جائے گا۔

یہ اس وقت ہے کہ جب ارادہ تشریعی، ارادہ الٰہی کا محقق ہونا – مثلاً نماز پڑھنا یا وضو کے ذریعے طہارت حاصل کرنا وغیرہ – دوسروں کے اعمال پر منحصر ہے اور اس کے ذریعہ سے مکلفین کی نافرمانی محقق نہیں ہوتا۔ دوسرے لفظوں میں، اگر اس کا تعلق خدائی عمل کی ارادہ سے ہے، تو ارادہ حقیقی، حقیقی اورتکوینی ہوگی، اس صورت میں ارادہ کبھی بھی مقصد کی خلاف ورزی نہیں کرے گی۔ کیونکہ اگر وہ تخلف کرتا ہے توایسی صورت میں ہم نے عاجزی کو خدائے بزرگ و برتر کی طرف منسوب کر دیا ہے اور خدا ہر قسم کی عاجزی سے پاک ہے۔ زیر نظر آیت میں خدا نے اپنے تکوینی ارادے سے "اہل بیت” کو جو خاص لوگ ہیں، مطلق طھارت اور نجاست سے دوری جانا ہے۔ اور بلا شبہ یہ ارادہ الٰہی محقق ہونی چاہیے ورنہ خدا اپنی ارادہ کرنے سے قاصر رہے گا۔

مندرجہ بالا دلیل میں یہ اضافہ کرنا چاہیے کہ آیت تطھیر میں اللہ تعالیٰ نے تاکید کے بہت سے ذرائع استعمال کیے ہیں تاکہ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی طہارت کی عظمت کو ظاہر کیا جا سکے۔ مثال کے طور پرمفعول مطلق تاکیدی «تطهیرا» ایک بہت ہی اعلیٰ اور مکمل پاکیزگی کی طرف اشارہ کرتی ہے، جو صرف مخصوص لوگوں کے لیے ہو سکتی ہے۔ اس لیے اس کی اہمیت کے پیش نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کے مفسر کی حیثیت سے اس آیت کے حقیقی مخاطبین اور ان لوگوں کا تعارف کرایا ہے جن پر یہ عظیم احسان ہوا ہے۔

1/3۔ ازواج بالخصوص عائشہ کا آیت تطھیر پر کوئی اعتراض نہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے بارے میں ہے کہ آیت تطھیرمیں ان لوگوں کا شامل نہ ہونا عقلی دلیلوں میں سے ایک یہ ہے کہ اعتراض نہ کرنا ضرورت کے وقت آیت کے مطابق میاں بیوی بشمول اپنے آپ کا عدم احتجاج دوسروں کے ساتھ جھگڑا اور جنگ کے مترادف ہے۔ مثال کے طور پر تاریخی اور روایتی منابع میں ایسی کوئی صورت نہیں ملتی کہ عائشہ نے جنگِ جمال وغیرہ کے نازک لمحات میں اپنی اس قطعی فضیلت کا ذکر کیا ہو۔ اور اسے اپنے حریفوں کا مقابلہ کرنے کے لیے استعمال کی ہو، جب کہ جمال جنگ کی مہم جوئی میں اس نے بارہا ام مومنین ہونے کی فضیلت کا ذکر کیا ہے۔

اسی طرح یزید کی جانشینی کے مسلہ تھا جس کے بارے میں عائشہ اور اس کے بھائی سخت خلاف تھے اور مدینہ کے شہر میں مروان کے ساتھ شدید لڑائی ہوئی تھی۔ مروان ان کا مقابلہ کرنے کے لیے اس نے دعویٰ کیا کہ ابوبکر کے خاندان کے بارے میں آیت افک کے علاوہ کوئی آیت نازل نہیں ہوئی:

4550 – حدثنا موسى بن إسماعیل حدثنا أبو عوانة عن أبی بشر عن یوسف بن ماهک قال: کان مروان على الحجاز استعمله معاویة فخطب فجعل یذکر یزید بن معاویة لکی یبایع له بعد أبیه فقال له عبد الرحمن بن أبی بکر شیئا فقال خذوه فدخل بیت عائشة فلم یقدروا فقال مروان إن هذا الذی أنزل الله فیه { والذی قال لوالدیه أف لکما أتعداننی }. فقالت عائشة من وراء الحجاب ما أنزل الله فینا شیئا من القرآن إلا أن الله أنزل عذری»

یوسف بن ماہک روایت کرتے ہیں: مروان حجاز کا حاکم تھا جسے معاویہ نے مقرر کیا تھا۔ ایک دن اس نے مدینہ کی مسجد میں خطبہ دیا اور یزید کے بارے میں باتیں کرنے لگے تا کہ لوگ اس کے والد کے بعد خلافت کیلیے بیعت کرے۔ عبدالرحمٰن بن ابی بکر نے مروان سے کچھ کہا [بخاری نے عبدالرحمٰن کی بات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے] مروان نے کہا: اس شخص کو گرفتار کرو! وہ عائشہ کے گھر میں داخل ہوا اور اس وجہ سے گرفتار نہ کرسکا۔ مروان نے کہا کہ یہ وہ شخص ہے جس کے بارے میں یہ آیت « … و الذی قال لوالدیه اف لکما …» نازل ہوئی ہے۔عائشہ نے حجاب کے پیچھے سے مروان کو جواب دیا اور کہا: ہمارے بارے میں قرآن میں کوئی آیت نازل نہیں ہوئی سوائے(آیات افک) کے۔

بخاری جعفی، محمد بن اسماعیل، الجامع الصحیح المختصر، ج4، ص: 1827، دار ابن کثیر ، الیمامة – بیروت، الطبعة الثالثة ، 1407 – 1987، تحقیق : د. مصطفى دیب البغا أستاذ الحدیث وعلومه فی کلیة الشریعة – جامعة دمشق، عدد الأجزاء : 6

یہ بات بالکل واضح ہے کہ اگر عائشہ آیت تطھیرکی نزول کو اپنی طرف نسبت دیتی تو وہ سورہ توبہ میں اپنی عذر آیات کے ساتھ تطھیر کی آیت کو بھی ذکر کرتی۔

اشکال:

آپ نے صحیح بخاری میں جو روایت نقل کی ہے وہ اس مسئلہ کے لیے ہے جہاں عائشہ نے ابوبکر کے خاندان کا دفاع کیا تھا۔ جبکہ تطھیر کی آیت کا حوالہ ایک ایسا معاملہ ہے جو عائشہ کے لیے مخصوص ہے اور اس کا ان کے اہل خانہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

جواب:

اولا: بہت عظیم فضائل میں جیسے آیت تطھیر، روایتی نقطہ نظر سے اگر عائشہ کو شامل کیا جائے، تو یہ ان کے گھر والوں کے لیے بھی بڑی فضیلت سمجھی جائے گی۔ لہٰذا ایسا نہیں ہے کہ یہ فضیلت صرف عائشہ کو اپنے گھر والوں کا خیال کیے بغیر شامل ہو۔

دوم: آیت افک کی فضیلت جسے عائشہ نے اپنے دعوے میں نقل کیا ہے، اس کا اپنے بھائی اور خاندان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ عائشہ نے خود وضاحت کی ہے کہ افک کے معاملے میں جو آیات استدلال کی گئی ہیں وہ "عذری” آیات ہیں جن کا مطلب صرف اس کے لیے افک کے لوگوں کے لیے عذر اور جواب ہے۔ لہٰذا آیت تطھیر کو بھی اگر اس سے شامل کیا جاتا تو اسے استثناء کے طور پر ذکر کرنا چاہیے تھا، خاص طور پر وہ طہارت جو عائشہ کے لیے آیت تطھیر سے ثابت ہے۔ حاصل شدہ طھارت سے بہت زیادہ عام اور زیادہ قیمتی [یقیناً، مخالفین اور سنیوں کے نقطہ نظر سے] یہ آیات افک میں تھا کیونکہ افک کی آیات صرف عائشہ کے لیے زنا سے پاک ہونے کو ثابت کرتی ہیں۔

1/4۔ عکرمہ جیسے نواصب کی طرف سےازواج کو آیات میں اختصاص دینے کا دعویٰ

ایک اور عقلی دلیل جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کو خارج کرنے پر دلالت کرتی ہے، وہ ہے اہل بیت علیہم السلام کے بعض دشمنوں کی طرف سے اہل بیت علیہم السلام کو آیت کے دائرہ سے خارج کرنے کا الزام عکرمہ کے مترادف ہے۔

توضیح یہ ہے کہ متعدد تاریخی شواہد کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں نے ہمیشہ اہل بیت علیہم السلام سے متعلق بعض حقائق اور فضائل کو جھٹلانے کی کوشش کی ہے۔ بات یہاں تک پہنچی کہ عبداللہ بن شداد جیسے حدیث کے راویوں نے صبح سے دوپہر تک ایک دن تک سر قلم کرنے کی قیمت پر بھی ان حضرت کے فضائل کو نقل کرنا چاہا۔

قَالَ عَطَاءُ بنُ السَّائِبِ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللهِ بنَ شَدَّادٍ یَقُوْلُ: وَدِدْتُ أَنِّی قُمْتُ عَلَى المِنْبَرِ مِنْ غُدْوَةٍ إِلَى الظُّهْرِ، فَأَذْکُرُ فَضَائِلَ عَلِیِّ بنِ أَبِی طَالِبٍ -رَضِیَ اللهُ عَنْهُ – ثُمَّ أَنْزِلُ، فَیُضْرَبُ عُنُقِی.

عطاء بن سائب کہتے ہیں: میں نے عبداللہ بن شداد کو کہتے سنا: میں صبح سے دوپہر تک منبر پر علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے فضائل پڑھنا چاہتا ہواور پھر میں منبر سے نیچے آؤں گا اور میری گردن ماری جائے گی۔

ذهبی، شمس الدین أبو عبد الله محمد بن أحمد، سیر أعلام النبلاء، ج5، ص: 486، محقق : مجموعة محققین بإشراف شعیب الأرناؤوط، مؤسسة الرسالة، طبعة : غیر متوفر، عدد الأجزاء : 23

اسی طرح سے بنی امیہ کے زمانے میں بھی اسلامی معاشرہ کی حالت ایسی ہو گئی تھی کہ معاشرے کے حکمرانوں اور زمامداروں نے خود ان واضح ترین اسلامی سچائیوں کو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فائدے کے لیے تھیں ان کا انکار کرنے کی اجازت دے دی۔ اور انہوں نے ان علماء و محدثین کو قتل کرنے کی سخت دھمکی دی جو اس معاملے کے خلاف تھے! حکیم نیشابوری نے ایک عجیب حقیقت بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزندوں کو بھی بنی امیہ نے جھٹلایا:

«4772 – حدثنا أبو سهل أحمد بن محمد بن عبد الله بن زیاد النحوی ببغداد ثنا جعفر بن محمد بن شاکر ثنا بشر بن مهران ثنا شریک عن عبد الملک بن عمیر قال : دخل یحیى بن یعمر على الحجاج و حدثنا إسحاق بن محمد بن علی بن خالد الهاشمی بالکوفة ثنا أحمد بن موسى بن إسحاق التمیمی ثنا محمد بن عبید النحاس ثنا صالح بن موسى الطلحی ثنا عاصم بن بهدلة قال : اجتمعوا عند الحجاج فذکر الحسین بن علی فقال الحجاج : لم یکن من ذریة النبی صلى الله علیه و سلم و عنده یحیى بن یعمر فقال له : کذبت أیها الأمیر فقال : لتأتینی على ما قالت ببینة و مصداق من کتاب الله عز و جل أو لأقتلنک قتلا فقال : { و من ذریته داود و سلیمان و أیوب و یوسف و موسى } إلى قوله عز و جل: { و زکریا و یحیى و عیسى و إلیاس } فأخبر الله عز و جل أن عیسى من ذریة آدم بأمه و الحسین بن علی من ذریة محمد صلى الله علیه و سلم بأمه قال صدقت فما حملک على تکذیبی فی مجلس قال : ما أخذ الله على الأنبیاء لیبیننه للناس و لا یکتمونه قال الله عز و جل: { فنبذوه وراء ظهورهم و اشتروا به ثمنا قلیلا } قال : فنفاه إلى خراسان»

ایک دن حجاج بن یوسف ثقفی کی مجلس میں علماء اور بزرگوں کی ایک جماعت موجود تھی۔ یہ نشست امام حسین علیہ السلام کے بارے میں تھا۔ حجاج نے کہا: وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد میں سے نہیں تھا! یحییٰ بن یعمر نے حجاج سے کہا: تم نے جھوٹ بولا، اے امیر! حسین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد میں سے ہیں۔

حجاج نے کہا: تم نے جو دعویٰ کیا ہے اسے ثابت کرنے کے لیے یا تو تم قرآن سے ثبوت لے کر آؤ یا میں تمہیں بدترین طریقے سے قتل کر دوں گا!

یحییٰ نے حجاج سے اس آیت سے بحث کرتے ہوئے کہا: «و من ذریته داود و سلیمان … و زکریا و یحیى و عیسى و إلیاس» (انعام کی 84 اور 85): خدا نے فرمایا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام اپنی والدہ کے ذریعے آدم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔

اور امام حسین علیہ السلام بھی اپنی والدہ کی ذریعے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد میں سے ہیں۔ حجاج نے کہا: تم ٹھیک کہتے ہو! کون سی ایسی چیز مانع ہوا جوتم نے مجھے اپنے مجلیس میں جھوتلایا؟

یحییٰ نے جواب دیا: یہ اس عہد کی وجہ سے ہے جو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں انبیاء علیہم السلام سے کیا تھا کہ وہ لوگوں کے سامنے حق بیان کریں اور دنیا کے قلیل مال کی خاطر اسے نہ چھپائیں (187 آل عمران) راوی کہتا ہے: حجاج نے یحییٰ کو خراسان میں جلاوطن کیا۔

حاکم نیشابوری، محمد بن عبدالله أبو عبدالله، المستدرک على الصحیحین، ج3، ص: 180، دار الکتب العلمیة – بیروت، چاپ اول، 1411 – 1990

اسی طرح واضح قرآنی اور تاریخی امور کی تکذیب اور اہل بیت علیہم السلام کی مخالفت کی شدت پر توجہ دینے سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے محدثین اور سنی علماء نے اہل بیت علیہم السلام کی حقیقتوں اور فضائل کو بیان کرنے سے انکار کیا۔ اور اگر اس نے کسی خاص معاملہ میں مقابلہ کرنے کی کوشش کی تو اسے اپنی جان اور جلاوطنی کا خطرہ تھا! ذہبی اس روایت کی طرف آتے ہوئے کہتے ہیں:

« … قلت وکان عبد الرزاق یعرف الامور فما جسر یحدث بهذا (حدیث مرتبط با فضائل حضرت علی علیه السلام) الا سرا لاحمد بن الازهر ولغیره»

"… (زہبی) میں کہتا ہوں: عبدالرزاق صنعانی صورتحال اور رائے عامہ سے پوری طرح باخبر تھے، اور احمد بن ازھر اور دوسرے لوگوں کو چھپ کربھی اس کو نقل کرنے کی جرأت نہیں ہوتی تھی۔”

ذهبی، شمس الدین،میزان الاعتدال فی نقد الرجال، ج1، ص: 213، بیروت، دار الکتب العلمیة، 1995، 8 جلد

جیسا کہ واضح ہے کہ عبد الرزاق جیسے عظیم علماء میں بھی اہل بیت علیہم السلام کے فضائل کو کھلے عام بیان کرنے کی ہمت نہیں تھی۔ اس کا مذہبی اور تاریخی حقائق کی آزادانہ منتقلی اور فطری اشاعت پر بہت زیادہ اثر پڑتا ہے جسے ہر روایت کے اجراء کا جائزہ لیتے وقت مدنظر رکھا جانا چاہیے۔ انہی دشمنیوں کا تسلسل تھا کہ عکرمہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مسلم روایات پر غور کیے بغیر آیت تطھیر کو ازواج سے مخصوص کیا۔

وَقَوْله تَعَالَى: «إِنَّمَا یُرِید اللَّه لِیُذْهِب عَنْکُمْ الرِّجْس أَهْل الْبَیْت وَیُطَهِّرکُمْ تَطْهِیرًا وَهَذَا نَصّ فِی دُخُول أَزْوَاج النَّبِیّ صَلَّى اللَّه عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی أَهْل الْبَیْت هَهُنَا لِأَنَّهُنَّ سَبَب نُزُول هَذِهِ الْآیَة وَسَبَب النُّزُول دَاخِل فِیهِ قَوْلًا وَاحِدًا إِمَّا وَحْده عَلَى قَوْل أَوْ مَعَ غَیْره عَلَى الصَّحِیح وَرَوَى اِبْن جَرِیر عَنْ عِکْرِمَة أَنَّهُ کَانَ یُنَادِی فِی السُّوق «إِنَّمَا یُرِید اللَّه لِیُذْهِب عَنْکُمْ الرِّجْس أَهْل الْبَیْت وَیُطَهِّرکُمْ تَطْهِیرًا » نَزَلَتْ فِی نِسَاء النَّبِیّ صَلَّى اللَّه عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَاصَّة

قول خداوند تبارک و تعالی آیه تطهیر میں «انما …» یہ آیت دلیل ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کا اہل بیت میں داخل ہونے کا ۔ کیونکہ یہ عورتیں آیت کے نزول کا سبب ہیں اورایک قول کے بنا پر نزول کی وجہ صرف یہی لوگ ہیں۔ ایک اور صحیح قول کے مطابق بیویاں دوسرے لوگوں کے ساتھ اہل بیت میں داخل ہوتی ہیں۔ ابن جریر نے عکرمہ سے روایت کیا کہ وہ بازار میں شور مچا رہا تھا کہ آیت "انما یرید اللہ …” صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج پر نازل ہوئی تھی۔

ابن کثیر دمشقی، عماد الدین ابوافداء، تقسیر القرآن العظیم، ج 11، ص: 152، دار النشر: مؤسسة قرطبة + مکتبة أولاد الشیخ للتراث، البلد: الجیزة، الطبعة: الأولى، سنة الطبع: 1412 هـ، 2000 م، عدد الأجزاء: 14

علماءاہل سنت نے عکرمہ کے بارے میں لکھتے ہیں:

«وقد تکلم فیه بأنه على رأى الخوارج ومن ثم اعرض عنه مالک الإمام ومسلم»

ان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ خوارج کو مانتے تھے اور یہی وجہ تھی کہ امام مالک اور مسلم نے ان سے روایت نہیں کی۔

ذهبی، محمد بن احمد، تذکرة الحفاظ، ج1، ص: 74، دراسة وتحقیق: زکریا عمیرات، ناشر: دار الکتب العلمیة بیروت-لبنان، الطبعة الأولى 1419هـ- 1998م، عدد المجلدات: [ 4 ]

اس کے علاوہ، عقیلی نے ان کے بارے میں ایک عجیب حقیقت بیان کی ہے:

«على علی بن عبد الله بن عباس فإذا عکرمة فی وثاق عند باب الحسن فقلت له ألا تتقی الله قال فإن هذا الخبیث یکذب على أبی»

علی بن عبداللہ بن عباس نے ایک مرتبہ عکرمہ کو حسن کے گھر کے سامنے رسی سے باندھ دیا! میں نے اس سے کہا: کیا تم اللہ سے نہیں ڈرتے؟ جواب میں اس نے کہا: یہ خبیث میرے والد کے بارے میں جھوٹ بول رہا ہے!

عقیلی، ابوجعفر محمد بن عمر، الضعفاء الکبیر، ج3، ص: 374، ناشر : دار المکتبة العلمیة – بیروت، الطبعة الأولى ، 1404هـ – 1984م، تحقیق : عبد المعطی أمین قلعجی، عدد الأجزاء : 4

مندرجہ بالا نکات پر غور کرنے سے عکرمہ کی دشمنی اور اہل بیت علیہم السلام کے خلاف جھوٹ کے سلسلے میں کوئی شک نہیں باقی نہیں رہتی۔ تاریخی اور تجرباتی طور پر جب کسی شخص کا دشمن کسی ایسی حقیقت کا انکار کرتا ہے جس کی تصدیق متعدد قرآنی ایات اور روایات سے ہوتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل علم اور عوام کے درمیان جھٹلایا جانے والا حق ایک خاص چیز تھی اور اس کے لیے اس کے مالک کے سیاسی مفادات تھے اور اس حد تک کہ بعض ان مفادات کو نقصان پہنچانے کے ارادے سے اسے تباہ و برباد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

مذکورہ بالا نکتہ کے علاوہ آیت تطہیر کے حوالے سے عکرمہ کے اہل بیت علیہم السلام کو شامل کرنے کی نفی کرنے کے دعوے کی درستگی سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے دعوے میں کوئی دلیل پیش نہیں کی۔ اور اس سے ہماری دلیل مضبوط ہوتی ہے۔

1/5۔ مکرر خلاف ورزیاں خلاف طھارت پر دلالت کرتی ہے

ایک اور عقلی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کا خارج ہونا مطلق طھارت پر دلالت کرتا ہے۔ اور بار بار خلاف ورزی ان کی عدم طھارت کی نشاندہی کرتی ہے۔ ان میں سے ہم ان کے کثرت حیض کا ذکر کر سکتے ہیں، خاص طور پر عائشہ کے سلسلے میں، اور ان ہی میں سے بعض کا مذہب میں بدعت پیدا کرنے کا اعتراف کرنا، خاص طور سے عائشہ کے سلسلے میں جنگ جمال میں جو واقعہ پیش ایا۔ اس کے علاوہ سورہ تحریم میں مذکور آیات حفصہ اور عائشہ کی خیانت پر دلالت کرتی ہیں اور…

  1. قرآنی دلیل

قرآنی دلیلوں میں آیت کے لہجے اور خطاب کو سرزنش سے شکر میں تبدیل کرنے کی بحث شامل ہے اور ضمیروں کے سیاق میں تبدیلی اور ارادہ کا تکوینی ہونے کو ایہ تطھیر سے اخذ کیا گیا ہے:

2/1۔ لہجہ اور خطاب کو سرزنش سے شکر میں تبدیل کرنا:

دوسری آیات کے ساتھ اس آیت کے لہجے اور مخاطب کی تبدیلی بالکل واضح ہے۔ کیونکہ ان سات آیات کے دوسرے پیراگراف میں تمام مکتوبات ازواج رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہیں، جن میں طلاق، سزا، ملامت، وغیرہ کی دھمکی بھی شامل ہے۔ لیکن اس آیت کا لہجہ اور الفاظ، جو "اہل بیت” کے بارے میں ہے، یہ احترام اور شکر گزار لہجہ ہے۔

2/2۔ سیاق ضمیرکو تانیث سے تذکیر میں تبدیلی کرنا:

ایہ تطھیر سے پہلے اور بعد کی سات آیات میں کل 24 ضمیرجمع استعمال ہوئے ہیں۔ فراز تطہیر میں مذکر جمع کے لیے صرف دو ضمیر استعمال کیے گئے ہیں اورجمع مؤنث کے لیے 22 دیگر ضمیر! اس فرق کی وجہ کیا ہے؟ اگر اس عبارت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کو شامل کیا جانا چاہیے تھا تو یہ دو مونث ضمیر کیوں استعمال نہیں کیے گئے؟

شیعہ برزگ فقیہ شہید اول ان لوگوں پر تنقید کرتے ہوئے جو آیت کے ضمیرمونث پر اصرار کرتے ہوئے ازواج کو شامل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں لکھتے ہیں:

لا یقال: صدر الآیة و عجزها فی النساء فتکون فیهن. قلنا: یأباه الضمیر و هذا النقل الصحیح، و الخروج من حکم الى آخر فی القرآن کثیر جدا.

یہ نہیں کہا گیا ہے: آیت کا آغاز اور نیچے کا حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے بارے میں ہے، لہٰذا آیت کا درمیانی حصہ جس کا تعلق طہارت اور رجس سے دور، انہیں بھی شامل کرنا چاہیے۔ کیونکہ ہم جواب میں کہتے ہیں: یہ استدلال ضمیر کے سیاق و سباق کے خلاف ہے اور ضمیر کا سیاق اس طرح کے فہم کو روکتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ نتیجہ لینا صحیح روایت کے خلاف ہے [جن میں سے اکثر کا تذکرہ قراین روایت کے حصے میں کیا گیا ہے]، اور قرآن کی آیات میں ایک حکم سے ہٹ کر دوسرے حکم میں داخل ہونے کے کئی واقعات آئے ہیں۔

عاملى، شهید اول، محمد بن مکى، ذکرى الشیعة فی أحکام الشریعة، ج‌1، ص: 56، 4 جلد، مؤسسه آل البیت علیهم السلام، قم – ایران، اول، 1419 ه‍ ق

2/3۔ ارادہ الھی کا تکونی ہونا

تطھیر کی آیت سے ازواج کو خارج کرنے کے لیے ایک اہم ترین قرآنی دلائل شیعہ علماء کی طرف سے نقل کی گئی آیت میں حاصل کردہ ارادہ تکوینی ہے۔ یعنی یہ "انما یرید اللہ…” کے برابر ہے، جب کہ اس سے پہلے اور بعد میں ارادہ الٰہی تشریعی ہوتی ہے۔ ہمارے ایک عظیم فقہا نے اس بات کو ثابت کرنے کے لیے درج ذیل استدلال پیش کیا ہے:

«و الإرادة المتعلقة بإذهاب الرجس عن أهل البیت و تطهیرهم إرادة تکوینیة، لأن متعلق الإرادة التشریعیة هو فعل الغیر المورد للتشریع و الأمر و النهى، و متعلق الإرادة فی الآیة فعل اللّه.

و توهّم کونها إرادة تشریعیة مستلزم لأن یکون اللّه سبحانه آمرا و مأمورا و مریدا و مرادا منه، و أن یکون أفعاله موردا للتشریع و التکلیف! و أن یکون إذهاب الرجس و التطهیر فعل أهل البیت، مع أنهما مستندان إلى اللّه بهیئة الإفعال و التفعیل، و غیر ذلک من التوالى الفاسدة عقلا و نقلا.

و ثانیا: أن الإرادة التشریعیة بتطهیر النفوس بالإتیان بالواجبات و ترک المحرمات إرادة عامة لقاطبة الناس، لا معنى لحصرها ب‍ (انّما) فی أهل البیت، فی الکتاب الحکیم.

و ثالثا: التخصیص و الاختصاص مقتضى الروایات الکثیرة الواردة فی أصحاب الکساء و نقتصر على واحدة منها:

«أن النبی صلّى اللّه علیه و آله و سلّم جلّل فاطمة و زوجها و ابنیهما بکساء و قال: اللّهم هؤلاء أهل بیتی، اللّهم فأذهب عنهم الرجس و طهّرهم تطهیرا»

و قد اعترف بصحة هذه الروایة من دأبه المناقشة بالوجوه الضعیفة فیما ورد فی فضائل اهل البیت علیهم السّلام

و لو کانت الإرادة فی الآیة تشریعیة مع أنها محققة بتشریع الشریعة بالبعث الى ما ینبغی و الزجر عمّا لا ینبغی، و تکون باقیة ببقاء الأوامر و النواهی إلى یوم القیمة کان الدعاء من النبیّ صلّى اللّه علیه و آله و سلّم لأصحاب الکساء طلب للحاصل و تخصیص بلا مخصص.»

اہل بیت علیہم السلام سے نجاست کو دور کرنا اور ان کو پاک کرنا ارادہ تکوینی ہے

کیونکہ اراده تشریعیه صرف دوسروں کے وہ اعمال ہو سکتے ہیں جن کا حکم اور منع کرنے والے نے قانون سازی کی ہے، جب کہ آیت تطهیر میں ارادہ کی ملکیت اللہ تعالیٰ کا فعل ہے جو کہ اس سے بلند و بالا ہے۔

یہ وہم کہ آیت تطهیر میں اراده تشریعیه جو کہ باطل ہے، کیونکہ اس کا تقاضا یہ ہے کہ خدائے بزرگ و برتر، امت اور مامور اور مرید اورمراد ہو، اور معنی طہارت و نجاست کا دور ہونا حکم کے مطابق ہو۔ اور یہ ناممکن اور غیر عقلی ہے۔

اس کے علاوہ، ارادہ کا تشریعی ہونا تقاضا کرتا ہے کہ خدائے بزرگ و برتر کے اعمال کو تشریع اور تکلیف قرار دیا جائےاور یہ بات بالکل واضح ہے کہ فعل الھی اور ارادہ کبھی بھی دوسروں کیلے تشریع اور تکلیف نہیں ہو سکتا۔

تطھیر کی آیت میں ارادہ کا تشریعی ہونا کہ رجس سے دور اور تطھیر جو ایت میں ذکر کیا گیا ہے وہ اہل بیت علیہم السلام کا فعل ہے۔ (یعنی اھلبیت علیھم السلام کو طھارت حاصل کرنا ضروری ہے اور یہ پاکیزگی ان کے فعل سے ثابت ہے)۔ آیت مقدسہ میں نجاستوں سے دوری و تطھیر کو اعمال وصیغہ افعال اور تفعیل کی ساخت اور شکل کے ساتھ خدا کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ بدعنوانوں کی اس فہرست کے علاوہ آیت تطھیر میں ارادہ تشریعی ہونے کے حوالے سے دیگر مسائل بھی ہیں۔

دوم: ارادہ تشریعی مرتبط ہے لوگوں کی جان کی پاکیزگی سے جو فرائض کی ادائیگی اور ممنوعات کو ترک کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ ہر ایک کے لیے ایک عمومی ارادہ ہے اور یہ حکیمانہ اور فصیح کتاب قرآن میں لفظ "انما” کے مخصوص معنی یعنی اہل بیت کہلانے والوں کے لیے پاکیزگی کی خصوصیت کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتی۔

سوم: مخصوص لوگوں کے لیے تطھیر کو مختص کرنا بہت سی احادیث سے مطلوب ہے جو اصحاب کساء کے شان میں بیان ہوا ہے اور ہم ان میں سے ایک کا ذکر کرتے ہیں: بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ، ان کا شوھر اور بچے کو کساء سے ڈھانپ دیا اور فرمایا: اے اللہ یہ میرے اہل بیت ہیں، ان سے نجاست اور رجس کو دور فرما، انہیں پاک فرما!

اور اگرارادہ آیت میں تشریعی ہو، اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ ارادہ تشریعی شرعی قانون اور احکام کے نفاذ کے ساتھ ان چیزوں کا حکم دینے کی صورت میں جو ضروری ہیں اور جن چیزوں کو ترک کیا جانا چاہیے ان سے منع کرنے کی صورت میں حاصل ہوتی ہے۔

اور یہ قیامت تک احکام و ممنوعات کی بقا کے ساتھ رہے گا۔ اس صورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحاب کساء پر رحمت نازل ہونے والی دعا باطل ہو جائے گی۔ کیونکہ مطالبہ وہ چیز ہے جو شریعت کی مرضی کی پابندی سے حاصل کی گئی ہے اور یہ بھی شریعت کی یہ ارادہ بغیر تخصیص کے ہے کیونکہ اہل بیت کے لیے خاص ہونے کا ثبوت قائم نہیں کیا گیا۔

خراسانى، حسین وحید، منهاج الصالحین (للوحید)، ج‌1، ص: 250، 3 جلد، مدرسه امام باقر علیه السلام، قم – ایران، پنجم، 1428 ه‍ ق

  1. روایی قرائن

بلاشبہ آیت تطھیر میں ازواج کو مطلق طہارت میں شامل کرنے سے خارج کرنے کی سب سے بڑی وجہ متعدد فرقوں میں متعدد روایات ہیں۔ جو لوگ ان روایات کے مزید مکمل مطالعہ میں دلچسپی رکھتے ہیں وہ سید علی موحد ابطحی کی لکھی ہوئی کتاب "آیة التطهیر فی احادیث الفریقین” کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔

تحقیق کے اس حصے میں ہم ان میں سے بعض احادیث کا حوالہ دیتے ہیں جو اہل سنت کے مستند حدیثی منابع میں شامل ہیں اور بحث کے مطابق ان سے متعلق دلالی اورسندی مسائل کا بھی حوالہ دیتے ہیں۔ بحث کے آغاز میں قرآن کی آیات کی نبوی تفسیر کی اہمیت اور مقام کے بارے میں ایک نہایت کلیدی تعارف کا ذکر ضروری ہے:

3/1۔ قرآنی آیات کے ظہور میں نبوی تفسیر کی اہمیت؛

قرآن مجید کی آیات کی تفسیر اور تفہیم کے لیے سب سے اہم بنیاد قرآن کی آیات کو سمجھنے میں حجیت تبیین اور بیان نبوی اہم ہے۔ قرآن کی صریح آیات کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہم ترین فرائض میں سے ایک، مسلمانوں کو قرآن کی آیات کی وضاحت کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ سورہ نحل کی آیات 44 اور 64 میں فرماتا ہے:

(16) النحل : 44 بِالْبَیِّناتِ وَ الزُّبُرِ وَ أَنْزَلْنا إِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَیْهِمْ وَ لَعَلَّهُمْ یَتَفَکَّرُونَ‏

ترجمہ: اور ہم نے آپ پر الذکر (قرآن مجید) اس لئے نازل کیا ہے کہ آپ لوگوں کے لئے (وہ معارف و احکام) کھول کر بیان کریں جو ان کی طرف نازل کئے گئے ہیں تاکہ وہ غور و فکر کریں۔ (44)

(16) النحل : 64 وَ ما أَنْزَلْنا عَلَیْکَ الْکِتابَ إِلاَّ لِتُبَیِّنَ لَهُمُ الَّذِی اخْتَلَفُوا فیهِ وَ هُدىً وَ رَحْمَةً لِقَوْمٍ یُؤْمِنُون‏

ترجمہ: اور ہم نے آپ پر یہ کتاب نہیں اتاری مگر اس لئے کہ آپ ان باتوں کو کھول کر بیان کر دیں جن میں وہ اختلاف کر رہے ہیں اور یہ (کتاب) ایمان لانے والوں کے لئے سراسر ہدایت اور رحمت ہے۔ (64)

مندرجہ بالا آیات کے مطابق قرآنی آیات کی تفسیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی آیت کی تفسیر میں کوئی نکتہ بیان کیا ہے تو تمام مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اس پر عمل کریں اور ان کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس آیت کے خلاف دعویٰ کریں۔ قرآن کو سمجھنے کے اس طریقے کی واضح مثال سفر کے دوران نماز قصرسے متعلق آیت میں دیکھی جا سکتی ہے۔ خدا اس آیت میں فرماتا ہے:

«وَ إِذا ضَرَبْتُمْ فِی الْأَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُناحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَنْ یَفْتِنَکُمُ الَّذینَ کَفَرُوا إِنَّ الْکافِرینَ کانُوا لَکُمْ عَدُوًّا مُبینا»

ترجمہ: اور جب تم زمین میں سفر کرو۔ تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے (بلکہ واجب ہے کہ) نماز میں قصر کر دو۔ (بالخصوص) جب تمہیں خوف ہو کہ کافر لوگ تمہیں کوئی تکلیف پہنچائیں گے۔ بے شک کافر تمہارے کھلے ہوئے دشمن ہیں۔ (101)

حالانکہ اس آیت کے ظہور نے نماز قصرکے واجب ہونے کو خوف سے مقید کر دیا ہے۔ البتہ مسلمانوں کا اجماع نبوی بیان اور تفسیر پر مبنی ہے، مسافر کے لیے نماز قصر کرنے کے فرض کو مطلق سمجھتے ہیں اور خوف کو کوئی چیز نہیں سمجھتے۔ یہی وجہ ہے کہ عبداللہ بن عمر قصر یا کامل نماز سے متعلق سوالات کے جواب میں کہتے ہیں:

«4861 – حدثنا عبد الله حدثنی أبی ثنا یزید أنا إسماعیل عن أبی حنظلة قال : سألت بن عمر عن الصلاة فی السفر فقال الصلاة فی السفر رکعتین فقال إنا آمنون لا نخاف أحدا قال سنة النبی صلى الله علیه و سلم. تعلیق شعیب الأرنؤوط : صحیح لغیره وهذا إسناد محتمل للتحسین»

ابی حنظلہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمر سے سفر میں نماز کے بارے میں پوچھا۔ فرمایا: سفر میں نماز دو رکعت ہے۔ سائل نے کہا: ہم سفر کرنے والے محفوظ ہیں اور کسی سے خوف نہیں رکھتے! ابن عمر نے جواب دیا: یہ ایک نبوی حکم ہے!

ابن حنبل، أبو عبدالله الشیبانی، مسند الإمام أحمد بن حنبل، ج2، ص: 31، مؤسسة قرطبة – القاهرة، شش جلد، به همراه تعلیقات، شعیب الأرنؤوط

اس قصر والی فتوے کے مطابق نماز پڑھنے کو عبداللہ بن عمر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرض قرار دیا ہے اور خوف کے ہونے یا نہ ہونے میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ان کی دوسری روایتوں سے اس نظریہ کو تقویت ملتی ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں وہ اس روایت کی مخالفت کو توہین رسالت سمجھتے ہیں:

«5202 – أخبرنا أبو بکر بن الحارث الفقیه أنبأ أبو محمد بن حیان الأصبهانی ثنا بن منیع ثنا أبو الربیع الزهرانی ثنا عبد الوارث ثنا أبو التیاح عن مورق العجلی عن صفوان بن محرز قال : سألت بن عمر عن صلاة السفر قال رکعتان من خالف السنة کفر»

صفوان بن محریز کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمر سے سفر میں نماز کے بارے میں پوچھا۔ فرمایا: یہ دو رکعت ہے اور جو اس سنت سے اختلاف کرے وہ کافر ہے!

بیهقی، أحمد بن الحسین بن علی، سنن البیهقی الکبرى، ج3، ص: 140، مکتبة دار الباز – مکة المکرمة ، 1414 – 1994، تحقیق : محمد عبد القادر عطا، 10 جلد

عبداللہ بن عمر کا یہ فتوی اہل سنت کے پیروکاروں اور بزرگوں میں بہت مشہور ہے۔ ابن تیمیہ حرانی اس بارے میں لکھتے ہیں:

«… أبو التیاح عن مورق العجل عنه وهو مشهور فی کتب الآثار، وفی لفظ صلاة السفر رکعتان ومن خالف السنة کفر وبعضهم رفعه إلى النبی صلى الله علیه وسلم، فبین أن صلاة السفر رکعتان وأن ذلک من السنة التی خالفها فاعتقد خلافها فقد کفر…»

ابن تیمیة الحرانی، تقی الدین أبو العباس أحمد بن عبد الحلیم، مجموعة الرسائل والمسائل لابن تیمیة، ج2، ص: 59، لجنة التراث العربی، دو جلدی

"… مورق العقل نے یہ فتویٰ عبداللہ بن عمر سے نقل کیا ہے۔ اور یہ فتویٰ فقہ و حدیث کی کتابوں میں مشہور ہے۔ اور ایک حدیث میں ہے کہ: سفر میں نماز دو رکعت ہے اور یہ سنت ہے اور جو سنت کی مخالفت کرے وہ کافر ہے۔ عبداللہ بن عمر نے سفر میں دو رکعت نماز پڑھنے کی مخالفت کرنے والےکو کافر قرار دیا ہے”۔

جمع بندی: یہ بات بالکل واضح ہے کہ صحابہ کرام اور علماء اسلام نے مذکورہ آیت کی نبوی تفسیر کی بنیاد پر قرآنی آیت کے ظاہور پر اعتراض کیا ہے اور کہا کہ اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

نتیجہ: اگر کسی آیت میں ہمیں آیت کے مفہوم یا اس کی مثالوں کے تعین کے سلسلے میں تبیین نبوی اور تفسیر میں اور وضاحت کا سامنا ہو، صحابہ کرام اور تمام علماء کا اجتہاد کا طریقہ یہ رہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعبیر پر عمل کیا جائے، خواہ ہم یہ سمجھتے ہوں کہ نبی کی تفسیر قرآن کے ظہور کے خلاف ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے: قرآنی آیات کے سنجیدہ مفہوم کو سمجھنے کے لیے نبوی تفسیر سب سے اہم دلیل ہے۔ یہ قرینه متصل قرینه لفظی کی طرح کام کرتی ہے، اس پر غور کیے بغیر آیت کی تفسیر کہیں بھی نہیں پہنچتی، اور آیت کے نیچے دی روایت نبوی پر غور کرنے سے ہی آیت کے حقیقی معنی کو پہچانا جا سکتا ہے۔

یہ بھی واضح رہے کہ پیش کردہ شواہد بالخصوص عبداللہ بن عمر کی نقل کردہ روایات کی بنیاد پر تفسیر اور تبیین خلاف کوئی بھی تاویل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت اور کفر کے مترادف ہے۔ اگر یہ ثابت ہو کہ آیت تطہیر کے نزول کی مثالوں میں اپ کے خاندان کے صرف پانچ افراد شامل ہیں اور ان لوگوں کے علاوہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسروں کو داخل ہونے سے روکا تھا۔ دوسرے لوگوں کو اندر لانا ان کی رائے اورنظریہ کے خلاف ہے۔

اس اہم نکتے پر غور کرتے ہوئے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے آیت تطہیر کی تفسیر سے متعلق روایات پر بحث کریں گے۔

تحقیق کی بنیاد پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کا خارج ہونا اور اس پر دلالت کرنے والی روایات کو چھ قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے کہ صحیح مسلم میں عائشہ کی روایت، زید بن ارقم کی روایت، ام سلمہ کی متعدد روایات، قصہ مباہلہ سے متعلق روایات، آیت تطہیر کے 5 لوگوں پر نازل ہونے پر دلالت کرنے والی روایات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی آل، اہل بیت علیہم السلام پر درود بھیجنے کی روایتیں اسی تسلسل میں ہیں۔ مضمون میں ہم ان روایات کے شواہد اور سند کا ذکر اور تجزیہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

3/2. صحیح مسلم میں عائشه کی روایت

ایک اہم ترین روایت جو ال کساء کے پانچ افراد میں "اہل بیت” کی اجارہ داری پر دلالت کرتی ہے، صحیح مسلم میں عائشہ کی روایت ہے۔ صفیہ عائشہ سے روایت کرتی ہیں:

61 – ( 2424 ) حدثنا أبو بکر بن أبی شیبة ومحمد بن عبدالله بن نمیر ( واللفظ لأبی بکر ) قالا حدثنا محمد بن بشر عن زکریاء عن مصعب بن شیبة عن صفیة بنت شیبة قالت قالت عائشة: خرج النبی صلى الله علیه و سلم غداة وعلیه مرط مرحل من شعر أسود فجاء الحسن بن علی فأدخله ثم جاء الحسین فدخل معه ثم جاءت فاطمة فأدخلها ثم جاء علی فأدخله ثم قال إنما یرید الله لیذهب عنکم الرجس أهل البیت ویطهرکم تطهیرا [ 33 / الأحزاب / 33 ]

عائشہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صبح کے وقت نکلے جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیاہ چادر دوش پررکھے ہوئے تھے۔ پھر حسن آئے تو اسے اندر لے آئے۔ پھر حسین آیا اور اسے بھی چادر کے اندرلے لیے۔ پھر فاطمہ آئی، اسے بھی چادر کے اندرلے لیے۔ پھر علی آیا، اسے بھی چادر کے اندرلے لیے۔ پھر فرمایا: خدا چاہتا ہے کہ تم (پیغمبر کے) خاندان سے آلودگی کو دور کرے اور تمہیں پاک و پاکیزہ بنائے۔

مسلم بن الحجاج أبو الحسین، القشیری النیسابوری، صحیح مسلم، ج 4، ص:1883، ناشر: دار إحیاء التراث العربی، بیروت، تحقیق: محمد فؤاد عبد الباقی، عدد الأجزاء: 5

علامہ شرف الدین مذکورہ روایت کا دلیل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

«و قد أجمعت کلمة أهل القبلة من أهل المذاهب الإسلامیة کلّها على أنّه لمّا نزل الوحی بها علیه‏ضمّ سبطیه وأباهما وامّهما إلیه، ثمّ غشّاهم ونفسه بذلک الکساء؛ تمییزا لهم عن سائر الأبناء و الأنفس و النساء. فلمّا انفردوا تحته عن کافّة اسرته واحتجبوا به عن بقیّة امّته، بلّغهم الآیة وهم على تلک الحال حرصا على أن لایطمع بمشارکتهم فیها أحد من الصحابة و الآل، فقال- مخاطبا لهم وهم معه فی معزل عن کافّة الناس-: «إِنَّما یُرِیدُ اللَّهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیراً» فأزاح بحجبهم فی کسائه حینئذ حجب الریب وهتک سدف‏ الشبهات، فبرح الخفاء بحکمته البالغة، وسطعت أشعّة الظهور ببلاغه المبین، و الحمد للّه ربّ العالمین. ومع ذلک لم یقتصر على هذا المقدار من توضیح اختصاص الآیة بهم علیهم‏السلام، حتّى أخرج یده من تحت الکساء، فألوى بها إلى السماء، فقال: «اللهمّ هؤلاء أهل بیتی‏»

اور اہل قبلہ میں سے تمام مسلمانوں اور تمام اسلامی فرقوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تطھیر کی آیت نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں نواسوں اور ان کے والدین کو لے آئے اور پھر انہیں اپنے ساتھ لے گئے، ایک یمانی چادر میں ڈھانپ لیئے۔ یہ اس لیے کیا گیا تاکہ انھیں دوسری روحوں اور بچوں اور عورتوں سے الگ کیا جا سکے اور یہ ظاہر کیا جا سکے کہ یہ لوگ دوسروں سے الگ ہیں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنے خاندان کے باقی افراد سے الگ کر دیا اور صرف ان کو چادر میں ڈھانپ لیا اور ان کیلئے تطھیر کی آیت نازل ہوئی، جبکہ صرف یہی لوگ کساء میں تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید فرمائی کہ آپ کے صحابہ اور اہل و عیال میں سے کسی کو بھی اس اجتماع میں شرکت کا لالچ نہ ہو۔ آن حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ان لوگوں کو مخاطب کیا جو آپ کے ساتھ تھے اور جو باقی لوگوں سے الگ تھے آیت "انما یرید اللہ لزھب عنکم الراجس…” کے ساتھ اور اس طرح مثالوں کے مسئلہ میں موجود تمام ابہام اور شکوک و شبہات کو دور کر دیا۔ اور اس نے اپنے واضح فیصلے سے تمام شکوک و شبہات کو ختم کر دیا۔ اور ایک نورانی اور روشن بیان کے ساتھ ظھور آیت بالکل واضح ہو گیا۔ و الحمد لله رب العالمین. اور ان تاکیدوں اور اہل بیت علیہم السلام کو کساء سے الگ کرنے کے باوجود ان لوگوں کے لیے آیت اہل بیت کی حصر کے لیے عملی وضاحت کافی نہیں تھا۔ یہاں تک کہ اس نے کساء سے ہاتھ نکال کر آسمان کی طرف اشارہ کیا۔ اور فرمایا: اے اللہ یہ لوگ صرف میرے اہل بیت ہیں۔

شرف الدین، عبد الحسین، موسوعة الإمام السید عبدالحسین شرف الدین، ج‏5(الکلمةالغراء) ؛ ص16 11جلد، دار المؤرخ العربی – بیروت – لبنان، چاپ: 2، 1431 ه.ق.

اس حدیث کے بارے میں درج ذیل نکات کی طرف توجہ ضروری ہے۔

اول: مذکورہ روایت کو اہل سنت نے سند اور صدور کے اعتبار سے قبول کیا ہے کیونکہ یہ روایت صحیح مسلم میں ایا ہے۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایات کی صحیح ہونے پر اہل سنت کا اجماع ہے۔

دوم: آیت تطہیر سے ازواج کے حارج ہونے کے بارے میں علامہ شرف الدین کے استدلال کا بنیادی نکتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل اور موجودہ مشابہت ہے کہ بعض خاص لوگوں پر چادر ڈالنا اور ان حضرت کی دعا کرنا ایت تطھیر کی تفسیر ہے۔ اس تشبیہ کی وضاحت اور اس کا مفہوم بہت واضح ہے۔

مندرجہ بالا شواہد کے علاوہ مذکورہ حدیث میں مذکور لوگوں کے مقام کی طرف توجہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آیت تطھیر ان لوگوں کے لیے بہت خاص ہے جن کے درمیان فضیلت اور عظمت میں ایک قسم کا تناسب پایا جاتا ہے۔ علامہ شرف الدین اس نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

«الفصل الثانی: فی آیة التطهیر و هی قوله- جلّ وعلا- فی سورة الأحزاب: «إِنَّما یُرِیدُ اللَّهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیراً لا ریب فی أنّ أهل البیت الذین أذهب اللّه عنهم الرجس وطهّرهم فی هذه الآیة، إنّما هم الخمسة أصحاب الکساء، وکفاک هذا برهانا على أنّهم أفضل من أقلّته الأرض یومئذ ومن أظلّته السماء. ألا وهم: رسول اللّه صلى الله علیه و آله و سلم، وصنوه الجاری بنصّ الذکر مجرى نفسه، وبضعته التی یغضب اللّه لغضبها ویرضى لرضاها، وریحانتاه من الدنیا سبطاه الشهیدان سیّدا شباب أهل الجنّة، فهؤلاء هم أصحاب هذه الآیة البیّنة بحکم الأدلّة القاطعة و الحجج الساطعة، لم یشارکهم فیها أحد من بنی آدم، ولا زاحمهم تحت کسائها واحد من هذا العالم.»

آیت تطهیر کا دوسرا باب جو سورہ احزاب کی یہ آیت ہے، یہ ہے کہ خدا فرماتا ہے کہ « انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهرکم تطهیرا» اس میں کوئی شک نہیں کہ اہل بیت علیہم السلام جن سے خدا نے تمام غلاظت کو دور کیا اور انہیں پاک کیا، صرف پانچ افراد آل کساء ہیں اور آپ کے لیے یہی ثبوت کافی ہے کہ وہ بہترین لوگ تھے جنہیں زمین نے اٹھایا اور وہ بہترین مخلوق تھے کہ آسمان ان کے اوپر تھا! بے شک یہ لوگ رسول خدا اور ان کے داماد جن کا ذکر قرآن میں سورہ مباہلہ میں ان کی جان ونفس کے طور پر کیا گیا ہے، ان کے جگرکے ٹکڑے جن کے ناراضگی سے خدا ناراض ہوتا ہے اور ان کے رضایت سے راضی ہوتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو خوشبودار پھول اس دنیا میں اور دو شہداء اور جنت کے جوانوں کے سردار۔ یہ پانچوں صحابہ اور اس آیت کا مفہوم پختہ دلائل اور واضح دلائل پر مبنی ہے کہ بنی آدم میں سے کوئی بھی یہ فضیلت نہیں رکھتا اور دنیا میں کوئی بھی ان کو لوگوں سے نیچے نہیں رکھتا اور نہ ہی ان کو کساء سے الگ کرسکتا ہے۔

شرف الدین، عبد الحسین، موسوعة الإمام السید عبدالحسین شرف الدین، ج‏5(الکلمةالغراء) ؛ ص14، 11جلد، دار المؤرخ العربی – بیروت – لبنان، چاپ: 2، 1431 ه.ق.

3/3۔ صحیح مسلم میں زید بن ارقم سے روایت ہے۔

اہل سنت کی رائے میں صحابہ کرام کا فہم – خاص طور پر بزرگان دین اور فقہاء صحابہ جیسے خلفائے راشدین اور زید ابن ارقم جیسی متعدد روایات کے حامل مشہور صحابہ کا فہم دریافت کرنے والا ہو سکتا ہے سنت نبوی اور ان کی تفسیر ان کے مراعات یافتہ مقام اور روایتوں کے اجراء کے عہد سے ان کی قربت کی وجہ سے دوسروں کی تفسیروں پر برتر اور مقدم ہے۔

مندرجہ بالا نکتہ کے مطابق؛ آیت تطهیر کے دائرہ سے ازواج کو خارج کرنے کے لیے نقل کی گئی ایک اور روایت وہ روایات ہیں جن کو زید بن ارقم نے "اہل بیت” کے معنی قرار دیا ہے۔ ان روایات میں سے صحیح مسلم کی دو روایتیں بہت اہم اور نمایاں ہیں۔ پہلی روایت درج ذیل ہے:

«36 – ( 2408 ) حدثنی زهیر بن حرب وشجاع بن مخلد جمیعا عن ابن علیة قال زهیر حدثنا إسماعیل بن إبراهیم حدثنی أبو حیان حدثنی یزید بن حیان قال: انطلقت أنا وحصین بن سبرة وعمر بن مسلم إلى زید بن أرقم فلما جلسنا إلیه قال له حصین لقد لقیت یا زید خیرا کثیرا رأیت رسول الله صلى الله علیه و سلم وسمعت حدیثه وغزوت معه وصلیت خلفه لقد لقیت یا زید خیرا کثیرا حدثنا یا زید ما سمعت من رسول الله صلى الله علیه و سلم قال یا ابن أخی والله لقد کبرت سنی وقدم عهدی ونسیت بعض الذی کنت أعی من رسول الله صلى الله علیه و سلم فما حدثتکم فاقبلوا وما لا فلا تکلفونیه ثم قال قام رسول الله صلى الله علیه و سلم یوما فینا خطیبا بماء یدعى خما بین مکة والمدینة فحمد الله وأثنى علیه ووعظ وذکر ثم قال أما بعد ألا أیها الناس فإنما أنا بشر یوشک أن یأتی رسول ربی فأجیب وأنا تارک فیکم ثقلین أولهما کتاب الله فیه الهدى والنور فخذوا بکتاب الله واستمسکوا به فحث على کتاب الله ورغب فیه ثم قال وأهل بیتی أذکرکم الله فی أهل بیتی أذکرکم الله فی أهل بیتی أذکرکم الله فی أهل بیتی فقال له حصین ومن أهل بیته؟ یا زید ألیس نساؤه من أهل بیته؟ قال نساؤه من أهل بیته ولکن أهل بیته من حرم الصدقة بعده قال وهم؟ قال هم آل علی وآل عقیل وآل جعفر وآل عباس قال کل هؤلاء حرم الصدقة؟ قال نعم»

ابوحیان یزید بن حیان سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: میں اور حصین بن سبرہ، عمر بن مسلم، زید بن ارقم کے پاس گئے، جب ہم ان کے پاس بیٹھے تو حصین نے ان سے کہا: اے زید تم نے بہت خوبیاں دیکھی ہیں! آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث سنی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ جنگ کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی۔ اے زید ہمیں ان الفاظ کے بارے میں بتاؤ جو تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہیں!

زید نے کہا: اے میرے بھائی کے بیٹے، میری عمرہوچکی ہے اور میں نے جو واقعات اور نذریں مانیں تھیں ان سے بہت دور نکل گیا ہے اور میں ان میں سے بعض کو بھول گیا اور بعض اب بھی یاد ہے جو میں نے ان حضرت سے سنا اور یاد رکھا۔ جو کچھ ہم نے آپ سے کہا ہے اسے قبول کریں اور مجھے ہر وہ بات کہنے پر مجبور نہ کریں جو ہم نے نہیں کہا۔ زید نے آگے کہا: ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ پر اور آپ کے اہل و عیال کو مکہ اور مدینہ کے درمیان خم نامی چشمے کے کنارے ایک خطبہ دیا اور اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا۔ : بے شک میرے پاس تمہارے درمیان دو قیمتی چیزیں ہیں پہلی اللہ کی کتاب ہے۔

اس کتاب میں ہدایت اور نور ہے۔ خدا کی کتاب لے لو اور اس پر قائم رہو۔ ان حضرت نے خدا کی کتاب کی بہت تشویق اور ترغیب کی۔ پھر میں نے کہا: دوسرا میرے اہل بیت ثقلین ہیں۔ میں آپ کو اپنے اہل و عیال پر خدا سے سفارش کرتا ہوں۔ میں آپ کو اپنے اہل و عیال پر خدا سے سفارش کرتا ہوں۔ میں آپ کو اپنے اہل و عیال پر خدا سے سفارش کرتا ہوں۔ حصین نے زید سے پوچھا: اے زید ان کے اہل بیت کون لوگ ہیں؟ کیا ان کی عورتیں اس کے اہل بیت ہیں؟ زید نے کہا: ان کی ازواج اہل بیت میں سے ہیں [اہل بیت کا مطلب ایک چھت کے نیچے گھر کے اندر ہے]، لیکن اہل بیت [قرآن کے ساتھ ثقلین میں سے ایک کے طور پر تجویز کردہ] وہ ہیں جن کے لیے صدقہ حرام ہے. حصین نے کہا: وہ کون ہیں؟ زید نے کہا: آل علی علیه السلام، آل عقیل، آل جعفر و آل عباس. حصین نے کہا: کیا ان سب کے اوپر صدقہ حرام ہے؟ زید نے کہا: ہاں، حرام ہے۔

مسلم بن الحجاج أبو الحسین، القشیری النیسابوری، صحیح مسلم، ج 4، ص:1873، ناشر: دار إحیاء التراث العربی، بیروت، تحقیق: محمد فؤاد عبد الباقی، عدد الأجزاء: 5

دلیل کا تخمینہ: مندرجہ بالا روایت کی درستگی سے معلوم ہوتا ہے کہ زید بن ارقم کی رائے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج "اہل بیت” کے جس تصور پر ہم بحث کر رہے ہیں، اس میں شامل نہیں ہیں۔ کیونکہ زید نے حصین کی وضاحت کی درخواست کے جواب میں کہا:

«… فقال له حصین ومن أهل بیته؟ یا زید ألیس نساؤه من أهل بیته؟ قال نساؤه من أهل بیته ولکن أهل بیته من حرم الصدقة بعده»

یہ عبارت ظاہر کرتا ہے کہ زید ابن ارقم کے نزدیک "اہل بیت” کی دو بالکل مختلف مثالیں ہیں۔

پہلی مثال اہل بیت کی ہے، جس میں ایک ہی گھر میں موجود اور ایک ہی چھت کے نیچے رہنے والے تمام افراد شامل ہیں، جن میں میاں بیوی اور کوئی دوسری مخلوق، حتیٰ کہ گھریلو بلیاں بھی شامل ہیں۔ تاہم دوسری مثال جو کہ قرآن کی مصداق میں "اہل بیت” ہے، اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کو شامل نہیں کیا گیا، کیونکہ اس لقب میں خاص لوگ شامل ہیں کہ جن کے اوپر صدقہ حرام ہے۔

دوسرے لفظوں میں زید بن ارقم کی رائے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کسی بھی طرح سے حدیث ثقلین میں مذکور "اہل بیت” میں شامل نہیں ہیں، درحالانکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے افراد ہیں۔ اس نکتے کی طرف توجہ دینا ضروری ہے کہ زید کی تفسیر اور اہل بیت کی تفسیر سے ازواج متفرع کا اخراج قرآن کے متوازی حدیث ثقلین میں ہے۔

حدیث ثقلین بھی اہل بیت علیہم السلام کی عصمت اور قیامت تک ان کے قرآن سے علیحدگی نہ ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ مذکورہ دونوں وزنوں کے درمیان اس مماثلت کی طرف توجہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ صرف ۵ ال کساء کے لوگوں کے ساتھ فٹ بیٹھتا ہے، ان کے علاوہ کسی نے بھی مطلق عصمت کا دعویٰ نہیں کیا۔ دوسری روایت "اہل بیت” کے لقب سے ازواج کی جدائی میں زیادہ واضح معنی رکھتی ہے۔ کیونکہ زید ہمارے مسئلہ سے متعلق سوال کے جواب میں واضح طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کو اہل بیت کے عنوان سے نہیں مانتے:

37 – ( 2408 ) حدثنا محمد بن بکار بن الریان حدثنا حسان ( یعنی ابن إبراهیم ) عن سعید ( وهو ابن مسروق ) عن یزید بن حیان عن زید بن أرقم قال: دخلنا علیه فقلنا له قد رأیت خیرا لقد صاحبت رسول الله صلى الله علیه و سلم وصلیت خلفه وساق الحدیث بنحو حدیث أبی حیان غیر أنه قال ألا وإنی تارک فیکم ثقلین أحدهما کتاب الله عز و جل هو حبل الله من اتبعه کان على الهدى ومن ترکه کان على ضلالة وفیه فقلنا من أهل بیته ؟ نساؤه ؟ قال لا وایم الله إن المرأة تکون مع الرجل العصر من الدهر ثم یطلقها فترجع إلى أبیها وقومها أهل بیته أصله وعصبته الذین حرموا الصدقة بعده

یزید بن حیان زید بن ارقم سے روایت کرتے ہیں کہ ہم زید کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ اے زید تم نے خیر اور بھلائی دیکھی ہے! آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور آپ نے آپ کے پیچھے نماز پڑھی، حدیث ابو حیان کی حدیث جیسی ہے، سوائے اس کے کہ جاری ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آگاہ رہو کہ میں تمہارے درمیان دو قیمتی چیزیں رکھ رہا ہوں: ان میں سے ایک اللہ کی کتاب ہے جو آسمانی دھاگہ ہے کہ جو اس کی پیروی کرے گا وہ ہدایت یافتہ ہے اور جو اسے چھوڑ دے گا وہ گمراہ ہو جائے گا۔ اور اس روایت میں ہے کہ: ہم نے زید سے کہا: وہ کون لوگ ہیں؟ کیا ان کی بیویاں اہلبیت میں سے ہیں؟ زید نے کہا: خدا کی قسم، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج آپ کے اہلبیت میں سے نہیں ہیں! درحقیقت ایک عورت اپنی زندگی کی صرف ایک شام کسی مرد کے ساتھ رہ سکتی ہے اور پھر اسے طلاق دے دیتی ہے اور وہ عورت اپنے باپ اور اپنے لوگوں کے پاس لوٹ جاتی ہے۔ ان کے اہل بیت وہ رشتہ دار ہیں جن کے لیے صدقہ حرام ہے۔

مسلم بن الحجاج أبو الحسین، القشیری النیسابوری، صحیح مسلم، ج 4، ص:1873، ناشر: دار إحیاء التراث العربی، بیروت، تحقیق: محمد فؤاد عبد الباقی، عدد الأجزاء: 5

آیت تطهیر کے دائرہ سے ازواج کے اخراج کے بارے میں مزید واضح طور پر سمجھنے کے لیے درج ذیل نکات پر توجہ دینا ضروری ہے:

پہلا نکتہ: سنی فکر بالخصوص وہابیت اور سلفیت کے بنیادی اصولوں پر مبنی قرآنی آیات کے اصحاب کا فہم دوسروں کے فہم سے افضل اور بہتر ہے کیونکہ قاعده عدالت صحابه کے علاوہ وہ ہم عصر تھے اور قرآنی آیات کے دلائل تک رسائی رکھتے ہیں۔ اس لیے زید بن ارقم نے "اہل بیت” کی مثالوں کی جو تشریح پیش کی ہے وہ بہت مددگار ثابت ہوگی۔

دوسرا نکتہ: صحیح مسلم میں زیر بحث روایت نے واضح طور پر اور بغیر کسی ابہام کے ازواج کو اہل بیت سے خارج کر دیا ہے۔ روایت میں ہے کہ "…فقلنا من أهل بیته ؟ نساؤه ؟ قل لا ویم اللہ…” راوی نے اہل بیت میں ازواج کو شامل کرنے کے بارے میں سوال کیا ہے جس کا زید بن ارقم نے واضح طور پر اس سے انکار کیا ہے۔ اپنی بات پر زور دینے کے لیے اس نے یہ قسم بھی کھائی ہے کہ یہ اہل بیت سے ازواج کو واپس لینے پر زور ہے۔

تیسرا نکتہ: اوپر کی حدیث میں”اہل بیت” ذکر، ثقلین کی حدیث میں اہل بیت قرین قرآن ہیں۔ دوسرے الفاظ میں، زید بن ارقم نے اہل بیت میں ازواج کے داخلے کو قرآن کے مطابق رد کیا ہے جس میں اطاعت و فرمانبرداری کی ضرورت ہے۔ زید نے اہل بیت میں بیویوں کے داخلے سے انکار کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ لوگ جو ایک ہی گھر میں رہتے ہیں۔

چوتھا نکتہ: زید ابن ارقم نے احادیث میں زیر بحث اہل بیت سے ازواج کی رخصتی کی ایک وضاحت بیان کی ہے جو توجہ طلب ہے۔ اس تعلیل کے مطابق جو بیان ہوا ہے ایک شخص کیلیے "اہل بیت” کا عنوان، اس میں وہ لوگ شامل ہیں جو اسی خاندان کے فرد ہیں۔ اس میں وہ لوگ شامل نہیں ہیں جن کا کسی شخص سے بہت کم تعلق ہے اور کسی بھی وقت یہ رشتہ طلاق وغیرہ جیسے عوامل کی وجہ سے ختم ہو سکتا ہے۔

دوسرے لفظوں میں یہ تجزیہ کیا جا سکتا ہے کہ زید ابن ارقم کی رائے میں "اہل بیت” کی تعریف میں ہمیں نفی کرنے والا فعل اور ایک اثبات والا فعل شامل کرنا چاہیے۔ یہ دونوں چیزیں ایک مشترکہ عنوان اور سچائی کا حوالہ دیتی ہیں۔ وہ فعل جو عنوان "اہل بیت” کی نفی کرتا ہے، ازواج کا اہلبیت کے عنوان سے خارج ہونا ثقلین کی حدیث میں تصریح ہے۔ اور جو فعل ثابت ہوتا ہے اس سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ دار ہیں جو اہل بیت میں شامل ہیں۔

3/4. ام سلمه سے متعدد روایاتیں

آیت تطهیر میں ازواج کا "اہل بیت” سے خارج ہونا ایک اہم ترین دلیل جو ام سلمہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔ یہ روایت نو طریقوں سے درج کی گئی ہے، اس لیے اس میں کسی سند کی جانچ پڑتال کی ضرورت نہیں ہے، اس کے علاوہ اس کے بعض طریقے سنی علماء کے نزدیک سند کے اعتبار سے صحیح اور مستند ہیں۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس حصے کی تمام روایات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے موجودہ طرز عمل کا موازنہ کیا جا سکتا ہے کہ خاص لوگوں پر چادر اڑھا کر نبی کا دعا کرنا آیت تطھیر کی تفسیر کے موقف میں – وہی جو عائشہ کے ذریعے ہوا – انہوں نے تطھیر کی آیت کے معنی سے ازواج کے خارج ہونے کی دلیل دی ہے۔

اس کے علاوہ درج ذیل روایات میں اور بھی احادیث ہیں، جن سے آیت تطہیر سے ازواج کے خارج ہونے پر اعتراض کیا جا سکتا ہے، جن کا ہم ذیل میں حوالہ دیں گے۔

  1. ام سلمہ سے عمر بن ابی سلمہ کی روایت

ام سلمہ کے طریق کی روایتوں میں سے ایک روایت عمر بن ابی سلمہ کی روایت ہے۔ یہ روایت صحیح اور صحیح سند کے ساتھ سنن ترمذی میں موجود ہے:

3205 – حدثنا قتیبة حدثنا محمد بن سلیمان بن الأصبهانی عن یحیى بن عبید عن عطاء بن أبی رباح عن عمر بن أبی سلمة ربیب النبی صلى الله علیه و سلم قال: لما نزلت هذه الآیة على النبی صلى الله علیه و سلم { إنما یرید الله لیذهب عنکم الرجس أهل البیت ویطهرکم تطهیرا } فی بیت أم سلمة فدعا فاطمة و حسنا و حسینا فجللهم بکساء و علی خلف ظهره فجللهم بکساء ثم قال اللهم هؤلاء أهل بیتی فأذهب عنهم الرجس وطهرهم تطهیرا قالت أم سلمة وأنا معهم یا نبی الله؟ قال أنت على مکانک وأنت على خیر. قال هذا حدیث غریب من حدیث عطاء عن عمر بن أبی سلمة. قال الشیخ الألبانی: صحیح

"عمر بن ابی سلمہ، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ ام سلمہ کے بیٹے ہیں، ان حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر آیت تطھیر ام سلمہ کے گھر میں نازل ہوئی تو فرمایا: "اللہ صرف یہ چاہتا ہے کہ آپ [پیغمبر کے] خاندان سے آلودگی کو دور کرے اور آپ کو پاک و پاکیزہ بنائے (احزاب/33)؛ آپ نے حضرت فاطمہ، حسن اور حسین علیہما السلام کو بلایا اور انہیں اپنے کپڑے سے ڈھانپ لیا جبکہ علی علیہ السلام آپ کے پیچھے تھے۔ اور اُن کو بھی چادر میں ڈھانپ لیا۔ پھر فرمایا: اے اللہ یہ میرے اہل بیت ہیں، ان سے تمام گندگی اور نجاست دور فرما اور انہیں پاک و پاکیزہ بنا دے۔ ام سلمہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا میں ان کے ساتھ ہوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنی جگہ پر ہو اور تم اچھے اور [عاقبت بخیر اور خوشبختی] پر رہو گے۔

ترمذی السلمی، محمد بن عیسی، الجامع الصحیح سنن الترمذی، ج 5، ص: 351، دار إحیاء التراث العربی – بیروت، تحقیق: أحمد محمد شاکر وآخرون، عدد الأجزاء: 5

مندرجہ بالا روایت کو طبرانی نے مجمع الکبیر میں بھی بیان کیا ہے:

8295 – حدثنا عبد الله بن أحمد بن حنبل ثنا محمد بن أبان الواسطی ( ح ) وحدثنا أحمد بن النضر العسکری ثنا أحمد بن النعمان الفراء المصیصی قالا ثنا محمد بن سلیمان بن الأصبهانی عن یحیى بن عبید المکی عن عطاء بن أبی رباح عن عمر بن أبی سلمة قال: نزلت هذه الآیة على رسول الله صلى الله علیه و سلم وهو فی بیت أم سلمة { إنما یرید الله لیذهب عنکم الرجس أهل البیت ویطهرکم تطهیرا } فدعا الحسن و الحسین و فاطمة فأجلسهم بین یدیه ودعا علیا فأجلسه خلف ظهره وتجلل هو وهم بالکساء ثم قال: اللهم هؤلاء أهل بیتی فأذهب عنهم الرجس وطهرهم تطهیرا فقال أم سلمة: وأنا معهم یا رسول الله؟ فقال: وأنت مکانک وأنت على خیر

عمر بن ابی سلمہ بیان کرتے ہیں کہ یہ آیت ہے: "اللہ صرف یہ چاہتا ہے کہ آپ (پیغمبر کے) خاندان سے آلودگی کو دور کرے اور آپ کو پاک و پاکیزہ بنائے” (الاحزاب: 33) یہ اس وقت نازل ہوئی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام سلمہ کے گھر میں تھے۔ اور امام حسن، حسین اور فاطمہ علیہم السلام کو بلایا اور انہیں اپنے سامنے کھڑا کیا اور علی علیہ السلام کو بلایا اور انہیں اپنے پیچھے بٹھایا اور چادر سے ڈھانپ دیا۔ اور فرمایا: خدا کی قسم یہ صرف میرے اہل بیت ہیں، ان سے رجس اور پلیدی کو دور کر کے انہیں پاک و پاکیزہ بنا دے۔ اس وقت ام سلمہ نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، کیا میں بھی ان کے ساتھ ہوں؟حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنے مقام پر ہو اور تم خیر پر ہو اورعاقبت اچھا ہے۔

طبرانی، سلیمان بن احمد، المعجم الکبیر، ج 9، ص: 25، مکتبة العلوم والحکم – الموصل، الطبعة الثانیة، 1404 – 1983، تحقیق: حمدی بن عبدالمجید السلفی، عدد الأجزاء:

تطہیر والی آیت سے ازواج کے خارج ہونے کے بارے میں مذکورہ بالا دونوں روایتوں کا اندازہ لگانے کے لیے یہ کہنا چاہیے:

ایک طرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ام سلمہ کی درخواست کو قبول کرنے سے انکارکرنا مبنی ہے "اہل بیت” میں اور ال عباء میں ان کے شامل نہ ہونے کی، دوسری طرف اصل مقام کو سامنے لانا اور ان کی اچھی زندگی کے اختتام کی طرف اشارہ کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ ام سلمہ "اہل بیت” کے عنوان میں نہیں ہیں جن پر ہم بحث کر رہے ہیں۔ ورنہ اگر ام سلمہ اہل بیت کے احکام کے اندر ہوتیں، تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی بیوی کو مثبت جواب دینا چاہیے تھا اور اسے بھی کساء میں موجود لوگوں میں شامل کرنا چاہیے تھا۔ اور اس کے علاوہ، اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی اور مقام کی طرف اشارہ کیا ہے – جس کا مطلب دوسری روایات کے مطابق بیوی کا مقام ہے – اس کے علاوہ جس کی ام سلمہ کو تلاش تھی۔

  1. ام سلمہ سے ابو سعید الخدری کی روایت

دوسری روایت ابو سعید خدری نے ام سلمہ سے روایت کی ہے۔ ابو سعید خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشہور اصحاب میں سے ہیں۔ وہ زیر بحث کہانی کو یوں بیان کرتا ہے:

6888 – حدثنا محمد بن إسماعیل بن أبی سمینة حدثنا عبد الله بن داود عن فضیل عن عطیة عن أبی سعید عن أم سلمة: أن النبی – صلى الله علیه و سلم – غطى على علی و فاطمة و حسن و حسین کساء ثم قال: هؤلاء أهل بیتی إلیک لا إلى النار قالت أم سلمة: فقلت: یا رسول الله وأنا منهم؟ قال: لا وأنت على خیر.

ابو سعید ام سلمہ سے روایت کرتے ہیں: بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادرکو حضرت علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیہم السلام پر ڈال دیں اور کہا: اے اللہ، یہ میرے اہلبیت ہیں، میں نے انہیں تیرے پاس چھوڑا، اتش جہنم نہیں! ام سلمہ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا:کیا میں ان لوگوں میں سے ایک ہوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ نہیں! اور آپ آخر میں ٹھیک ہو جائیں گے!

ابویعلی موصلی، احمد بن علی، مسند أبی یعلى، ج 12، ص: 313، دار المأمون للتراث – دمشق، الطبعة الأولى، 1404 – 1984، تحقیق: حسین سلیم أسد، عدد الأجزاء: 13

ازواج کا خارج ہونا مذکورہ بالا روایت کے مضمرات کا اندازہ بالکل واضح ہے۔ کیونکہ اس روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صریح طور پر ام سلمہ کی طرف سے آل عبا میں انے کی درخواست کی مخالفت کی ہے۔ طحاوی نےمشکل الآثارمیں مذکورہ بالا روایت کو تھوڑے فرق کے ساتھ بیان کیا ہے:

«حدثنا فَهْدٌ حدثنا أبو غَسَّانَ حدثنا فُضَیْلُ بن مَرْزُوقٍ عن عَطِیَّةَ عن أبی سَعِیدٍ عن أُمِّ سَلَمَةَ قالت نَزَلَتْ هذه الآیَةُ فی بَیْتِی إنَّمَا یُرِیدُ اللَّهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیرًا فَقُلْت یا رَسُولَ اللهِ أَلَسْتُ من أَهْلِ الْبَیْتِ فقال أَنْتِ على خَیْرٍ إنَّکِ من أَزْوَاجِ النبی صلى الله علیه وسلم وفی الْبَیْتِ عَلِیٌّ وَفَاطِمَةُ وَالْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ»

ابو سعید خدری ام سلمہ سے روایت کرتے ہیں کہ یہ آیت ’’انما یرید اللہ…‘‘ میرے گھر میں نازل ہوئی۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: کیا میں اہل بیت میں سے نہیں ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا: تم خیر پر ہو! تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں سے ہو، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں سے ایک! یہ اس وقت کی بات ہے جب علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیہما السلام (البیت) میں تھے۔

طحاوی، ابوجعفر، احمد بن محمد، شرح مشکل الآثار،ج2، ص: 241، سنة الولادة 239هـ/ سنة الوفاة 321هـ، تحقیق شعیب الأرنؤوط، الناشر مؤسسة الرسالة، سنة النشر 1408هـ – 1987م، مکان النشر لبنان/ بیروت، عدد الأجزاء 15

"اہل بیت” سے ازواج کے خارج ہونے کے سلسلے پر مذکورہ بالا روایت کی دلیل واضح ہے۔

اس لیے کہ ام سلمہ کی مقام زوجیت کا ذکر کرنا اور ان کے لیے تطھیر کی آیت میں "اہل بیت” کی حیثیت کے ثبوت کو رد کرنا اس بات کی علامت ہے کہ زیر بحث موضوع میں ام سلمہ کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ کیونکہ ایک بے ربط مقام کو ثابت کرنا ام سلمہ کے سوال اور درخواست کے ساتھ، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی درخواست پر اتفاق نہیں کیا گیا تھا۔

اس کے علاوہ، یہ بھی واضح رہے کہ یہ دونوں روایتیں ایک دوسرے کے معانی کی تصدیق کرتی ہیں۔ ابو یعلی کی مسند سے پہلی روایت آیت تطھیرمیں اہل بیت سے ازواج کو خارج کرنے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح جواب اور نص کے ساتھ دوسری حدیث کا مفہوم ظاہر ہوتا ہے۔

  1. ام سلمہ سے شہر بن حوشب کی روایت

تیسری سند ام سلمہ کی ہے جسے شہر بن حوشب نے روایت کیا ہے۔ احمد بن حنبل نے اس روایت کو اپنی مسند اور اپنے فضائل الصحابه میں نقل کیا ہے جو مسند کتاب کے علماء جیسے شعیب ارناؤط وغیرہ کے نزدیک زیر بحث روایت صدور کے لحاظ سے صحیح اور معتبر ہے۔ مسند میں یہ روایت درج ذیل ہے:

« 26789 – حدثنا عبد الله حدثنی أبى ثنا عفان ثنا حماد بن سلمة قال ثنا على بن زید عن شهر بن حوشب عن أم سلمة ان رسول الله صلى الله علیه و سلم قال لفاطمة: ائتینی بزوجک وابنیک فجاءت بهم فألقى علیهم کساء فدکیا قال ثم وضع یده علیهم ثم قال اللهم ان هؤلاء آل محمد فاجعل صلواتک وبرکاتک على محمد وعلى آل محمد انک حمید مجید قالت أم سلمة فرفعت الکساء لأدخل معهم فجذبه من یدی وقال انک على خیر. تعلیق شعیب الأرنؤوط: حدیث صحیح وهذا إسناد ضعیف لضعف علی بن زید وهو ابن جدعان وشهر بن حوشب»

شہر بن حوشب ام سلمہ سے روایت کرتے ہیں: بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ سے فرمایا: اپنی شوہر اور دو بچوں کو میرے پاس لے آؤ! حضرت فاطمہ ان کے ساتھ تشریف لائی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر اپنا چادر فدکی کو اڑھا دیا۔ اور پھر ان پر ہاتھ رکھ کر فرمایا: خدا، یہ آل محمد ہیں، ان سب پر خدا کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں، محمد اور آل محمد پر درود و سلام بھیج، بے شک تو رحم کرنے والا اور مجید ہے۔ ام سلمہ نے کہا: میں نے فدکی چادرکے اندر جانے کے لیے اٹھایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ہاتھ سے چادر کھیچ لیا اور فرمایا: بے شک تمہاری قسمت میں بھلائی ہے۔

الشیبانی، احمد بن حنبل، مسند الإمام أحمد بن حنبل، ج 6، ص: 323، مؤسسة قرطبة – القاهرة، بی تا 6 جلد

فضائل الصحابه میں زیر بحث روایت شہر بن حوشب سے درج ذیل سند سے نقل ہوئی ہے:

« 1029 – حدثنا عبد الله قال حدثنی أبی قثنا عفان نا حماد بن سلمة قال انا علی بن زید عن شهر بن حوشب عن أم سلمة ان رسول الله صلى الله علیه و سلم قال لفاطمة: ائتینی بزوجک وابنیک فجاءت بهم فألقى علیهم کساء فدکیا قالت ثم وضع یده علیه ثم قال اللهم ان هؤلاء آل محمد فاجعل صلواتک وبرکاتک على محمد وعلى آل محمد انک حمید مجید قالت أم سلمة فرفعت الکساء لأدخل معهم فجذبه من یدی وقال انک على خیر»

"… شہر بن حوشب ام سلمہ سے روایت کرتے ہیں: بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ سے فرمایا: اپنی شوہر اور دو بچوں کو میرے پاس لے آؤ! حضرت فاطمہ ان لوگوں کے ساتھ آئیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر طادر اڑھایا پھر ان پر ہاتھ رکھا اور فرمایا: خدا، یہ آل محمد ہیں، ان سب پر خدا کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں، محمد اور آل محمد پر درود و سلام بھیج، بے شک تو رحم کرنے والا اور مجید ہے۔ ام سلمہ نے کہا: میں نے اس میں داخل ہونے کے لیے چادر فدکی کو اٹھایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ہاتھ کو چادر سے کھیچ لیا اور فرمایا: بے شک، آپ خیر پر ہیں”

أحمد بن حنبل أبو عبد الله الشیبانی، فضائل الصحابة، ج 2، ص: 602، مؤسسة الرسالة – بیروت، الطبعة الأولى، 1403 – 1983، تحقیق: د. وصی الله محمد عباس، عدد الأجزاء: 2

ابوجعفر طحاوی نے اس روایت کو اس طرح روایت کیا ہے:

649 – وما قد حدثنا الحسین، أیضا حدثنا أبو غسان مالک بن إسماعیل حدثنا جعفر الأحمر، عن الأجلح، عن شهر بن حوشب، عن أم سلمة، وعبد الملک، عن عطاء، عن أم سلمة قالت: جاءت فاطمة بطعام لها إلى أبیها، وهو على منازله فقال: «أی بنیة، ائتینی بأولادی وابنی وابن عمک » قالت: ثم جللهم أو قالت: حوى علیهم الکساء، فقال: «هؤلاء أهل بیتی وحامتی فأذهب عنهم الرجس وطهرهم تطهیرا » قالت أم سلمة: یا رسول الله، وأنا معهم قال: «أنت من أزواج النبی علیه السلام وأنت على خیر »، أو «إلى خیر »

شہر بن حوشب اور عطا ام سلمہ سے روایت کرتے ہیں: حضرت فاطمہ زہرا اپنے والد گرامی کے پاس کھانا لے کر آئیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں میں سے ایک بیوی کے گھر تشریف فرما تھے۔ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ سے فرمایا: اے میری پیاری بیٹی! میرے بچوں اور میرے بیٹوں اور اپنے چچا زاد کو میرے پاس لاؤ! راوی کہتے ہیں: پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں چادر میں ڈھانپ لیا۔ یا کہتا ہے: چادر کو ان لوگوں کے او پر پھینک دیا اور پھر کہا: اے اللہ یہ میرے اہل بیت اور میرے نہایت مہربان رشتہ دار ہیں، ان سے رجس اور پلیدی کو دور فرما اور ان کو پاک فرما۔ ام سلمہ نے کہا: کیا میں ان میں سے ہوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازدواج میں سے ہو، اور تمھارا عاقبت بخیر ہے.

طحاوی، ابوجعفر احمد بن محمد، مشکل الاثار، ج 2، ص: 239، تحقیق: شعیب الأرنؤوط، مؤسسة الرسالة، چاپ اول، 1415 هـ، 16 جلد

واضح رہے کہ طحاوی کا اپنی کتاب "مشکل الاثار” میں احادیث اخذ کرنے کا طریقہ ایسا تھا کہ اس نے منقول اور صحیح احادیث کو ذکر کرنے کا عھد کیا ہے۔ شریف العونی نے اس کتاب کا تذکرہ زیر بحث کتب میں کیا ہے:

«إن من الکتب التی اشترطت الصحة کتاب … 3- الکتاب الآخر : بیان مشکل أحادیث رسول الله – صلى الله علیه وسلم – واستخراج ما فیها من الأحکام ونفی التضاد عنها وهو الکتاب الشهیر بـ «شرح مشکل الآثار» لأبی جعفر الطحاوی»

"یہ ان کتابوں سے ہے جو انہوں نے صحیح روایات کو ذکر کرنے کی شرط رکھی ہے، درج ذیل کتابیں ہیں… دوسری کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے بیان اور احکام کے اخراج اور ان کے درمیان تضادات کی نفی پر مشتمل کتاب ہے۔ اور اس موضوع پر مشہور کتاب ابو جعفر طحاوی کی کتاب شرح مشکل الآثار ہے۔

العونی، شریف بن حاتم، مصادر السنة ومناهج مصنفیها، ج1، ص: 4

شہر بن حوشب کی روایت کو طبرانی نے بھی معجم الکبیر میں ذکر کیا ہے:

« 779 – حدثنا علی بن عبد العزیز ثنا حجاج ثنا حماد عن علی بن زید عن شهر بن حوشب عن أم سلمة: أن رسول الله صلى الله علیه و سلم قال لفاطمة: (ائتینی بزوجک وابنیه) فجاءت بهم فألقى رسول الله صلى الله علیه و سلم کساء فدکیا ثم وضع یده علیهم فقال: (اللهم إن هؤلاء آل محمد فاجعل صلواتک وبرکاتک على آل محمد فإنک حمید مجید) قالت أم سلمة فرفعت الکساء لأدخل معهم فجبذه من یدی وقال: (إنک على خیر)»

شہر بن حوشب ام سلمہ سے روایت کرتے ہیں: بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ سے فرمایا: اپنے شوہر اور دو بچوں کو میرے پاس لے آؤ! حضرت فاطمہ زہرا ان لوگوں کے ساتھ آئیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر چادر اڑھایا، پھر ان پر ہاتھ رکھا اور فرمایا: خدا، یہ آل محمد ہیں، ان سب پر خدا کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں، محمد اور آل محمد پر درود و سلام بھیج، بے شک تو رحم کرنے والا اور مجید ہے۔ ام سلمہ نے کہا: میں نے فدکی چادر کے اندر جانے کے لیے اٹھایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ہاتھ سے چادر کھیچ لیا اور فرمایا: بے شک، آپ بخیر ہیں!

طبرانی، سلیمان بن احمد، المعجم الکبیر، ج 23، ص: 336، مکتبة العلوم والحکم – الموصل، الطبعة الثانیة، 1404 – 1983، تحقیق: حمدی بن عبدالمجید السلفی، عدد الأجزاء: 20

ابو یعلی موصلی نے بھی اس روایت کو اپنی مسند میں ذکر کیا ہے لیکن کتاب کے بعض محققین نے اس کی سند کو ضعیف قرار دیا ہے۔ لیکن دیگر طریقوں اور سابقہ ​​سندوں میں بیان کیا گیا مسائل کے مطابق یہ بات واضح ہے کہ یہ روایت صدوری کے لحاظ سے کویی نہیں ہے:

7026 – حدثنا أبو خیثمة حدثنا عفان حدثنا حماد بن سلمة أخبرنا علی بن زید عن شهر بن حوشب عن أم سلمة: أن رسول الله – صلى الله علیه و سلم – قال لفاطمة: ائتنی بزوجک وبابنتیک قالت: فجاءت بهم فألقى علیهم کساء فدکیا ثم وضع یده علیهم فقال: اللهم إن هؤلاء آل محمد فاجعل صلواتک وبرکاتک على محمد وعلى آل محمد إنک حمید مجید قالت أم سلمة: فرفعت الکساء لأدخل فیه فجذبه من یدی وقال: إنک على خیر.

شہر بن حوشب ام سلمہ سے روایت کرتے ہیں: بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ سے فرمایا: اپنے شوہر اور دو بچوں کو میرے پاس لے آؤ! حضرت فاطمہ زہرا ان لوگوں کے ساتھ آئیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر چادر اڑھایا، پھر ان پر ہاتھ رکھا اور فرمایا: خدا، یہ آل محمد ہیں، ان سب پر خدا کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں، محمد اور آل محمد پر درود و سلام بھیج، بے شک تو رحم کرنے والا اور مجید ہے۔ ام سلمہ نے کہا: میں نےفدکی چادر کے اندر جانے کے لیے اٹھایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ہاتھ سے چادر کھیچ لیا اور فرمایا: بے شک، آپ خیر پر ہیں!

ابویعلی موصلی، احمد بن علی، مسند أبی یعلى، ج 12، ص: 455، دار المأمون للتراث – دمشق، الطبعة الأولى، 1404 – 1984، تحقیق: حسین سلیم أسد، عدد الأجزاء: 13

آیت تطھیر کی مفاد سے ازواج کو اخراج کرنے کی دلیل:

پہلا تقریب: مندرجہ بالا روایتوں کے مفاد کے مطابق، ام سلمہ نے « …فرفعت الکساء لأدخل فیه فجذبه من یدی وقال: إنک على خیر» حریم اہل بیت میں داخل ہونے کے لیے فدکی چادر کو اٹھایا۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ہاتھ سے چادر کھینچ کر اس حصہ کو کاٹ دیا اور اس طرز عمل سے آپ نے ام سلمہ کو آل عبا میں داخل ہونے سے روک دیا۔ "جذب” کے معنی پر پوری توجہ دینے سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل کساء کی حدود و قیود کے تعین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنجیدگی کس قدر تھی۔ اور باوجود اس کے کہ ام سلمہ ان حضرت کے نزدیک بہت زیادہ محبوب تھیں اور یہاں تک کہ تصریح کی کہ ان کےعاقبت با خیر ہوگا۔ لیکن کسی مسامحه کے بغیر رسول خدا(صلی) نے اس کے ہاتھ سے چادر کاٹ کر کھینچ لی تاکہ وہ اہل بیت اطہار کے خاص حریم میں داخل نہ ہو۔ صاحب اطراز جبذ یا جذب کی تفسیر میں یوں لکھتے ہیں:

«و الجَبَذُ، کقَصَبٍ: لغةٌ فی الجَذَبِ أَو مقلوبُهُ؛ … و جَبَذَ النَّخلةَ: جَذَبَها، أَی قطع جَذَبَها»

جبذ اور جذب یہ دولفظ لغت میں ایک دوسرے کے ساتھ استعمال ہوتے ہیں، کھجور کے درخت کو قطع کرنا اور اسے کاٹنے کے معنی میں ہے۔

مدنى، على خان بن احمد، الطراز الأول، ج‏6؛ ص 379، مشهد مقدس، چاپ: اول، 1384 ه.ش.

ابن فارس نے بھی معجم المقیاس میں "جذب” کے معنی اس طرح بیان کیے ہیں:

«جذب‏ الجیم و الذال و الباء أصلٌ واحدٌ یدلُّ على بَتْرِ الشَّئ»‏

جذب کا ایک بہتر معنی ہے جس کا مطلب ہے کسی چیز کا گوشہ لے کر اسے کاٹ دینا۔

ابن فارس، احمد بن فارس، معجم مقاییس اللغه، ج‏1؛ ص 440- قم، چاپ: اول، 1404 ه.ق.

کاٹنا اور الگ کرنا، جو جذب کے معنی میں آیا ہے، پر توجہ دینا اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام سلمہ کے ہاتھ کو کساء فدکیہ سے سنجیدگی کے ساتھ الگ کیا اور ام سلمہ کو اس خاص جگہ میں جانے کی اجازت نہیں دی۔

دوسرا تقریب: مذکورہ بالا روایت کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیہم السلام کو لانے کے بعد ان پر ہاتھ رکھا اور ان خاص لوگوں کی طرف اشارہ کیا اور کہا:«اللهم إن هؤلاء آل محمد فاجعل صلواتک وبرکاتک على آل محمد فإنک حمید مجید» اس دعا کے بارے میں کہا جائے:

پہلا: "انّ” کے ساتھ لفظ کے اثباتی تاکید کے علاوہ، خدا کے رسول نے کساء کے اندر کچھ لوگوں کی طرف اشارہ کرنا، اور انہیں اپنے آل اور اهل ہونے کا لوگوں سے متعارف کرایا ہے. کساء کے اندر مخصوص لوگوں پر ہاتھ رکھنے کے موجودہ تناظر میں اس قسم کی احتیاط سے اشارہ کرنا، یہ ان لوگوں پر اہل بیت کی قید کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

دوسرا: ضمیر اشارہ کے ساتھ معرفی کرنے اور ہاتھ ڈالنے اور چادر میں ڈھانپنے کے بعد، وہ اہل بیت علیہم السلام کے لیے بہت خاص اور بہترین موضوعات کے ساتھ دعا کرتا ہے! یہ دعا بہت سی احادیث سے مطابقت رکھتی ہے جو آیت صلوات کے تحت درج کی گئی ہیں۔

نکته

(11) هود : 73 قالُوا أَ تَعْجَبینَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ رَحْمَتُ اللَّهِ وَ بَرَکاتُهُ عَلَیْکُمْ أَهْلَ الْبَیْتِ إِنَّهُ حَمیدٌ مَجید

انہوں (فرشتوں) نے کہا کیا تم اللہ کے کام پر تعجب کرتی ہو؟ اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں تم پر اے (ابراہیم(ع) کے) گھر والو بے شک وہ بڑا ستائش کیا ہوا ہے، بڑی شان والا ہے۔ (73)

  1. عطیہ کی روایت ان کے والد ام سلمہ سے

ام سلمہ کے طریقہ سے متعلق ایک اور سند ایک روایت ہے جسے عطیہ طفاوی نے اپنے والد سے ام سلمہ کے بارے میں ذکر کیا ہے۔ احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں مندرجہ بالا روایت کو رد کیا ہے:

26582 – حدثنا عبد الله حدثنی أبى ثنا محمد بن جعفر قال ثنا عوف عن أبى المعدل عطیة الطفاوی عن أبیه ان أم سلمة حدثته قالت: بینما رسول الله صلى الله علیه و سلم فی بیتی یوما إذ قالت الخادم ان علیا وفاطمة بالسدة قالت فقال لی قومی فتنحى لی عن أهل بیتی قالت فقمت فتنحیت فی البیت قریبا فدخل علی وفاطمة ومعهما الحسن والحسین وهما صبیان صغیران فأخذ الصبیین فوضعهما فی حجره فقبلهما قال واعتنق علیا بإحدى یدیه وفاطمة بالید الأخرى فقبل فاطمة وقبل علیا فأغدف علیهم خمیصة سوداء فقال اللهم إلیک لا إلى النار أنا وأهل بیتی قالت فقلت وأنا یا رسول الله فقال وأنت. »

عطیہ طفاوی اپنے والد سے ام سلمہ سے روایت کرتی ہیں: ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں تھے، خادم نے کہا: حضرت علی اور فاطمہ سلام اللہ علیہا دروازے کے پیچھے ہیں۔ ام سلمہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: اٹھو اور میرے گھر والوں سے دوری اختیار کرو۔ میں اٹھا اور گھر سے دوسری قریبی جگہ چلا گیا اور خود کو دور کر لیا! پھر علی و فاطمہ سلام اللہ علیہا ان کے ساتھ داخل ہوئے اور حسن و حسین علیہما السلام ان کے ساتھ جو چھوٹے بچے تھے داخل ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن و حسین کو اپنے زانو پر بٹھایا اور بوسہ دیا۔ ام سلمہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہاتھ سے علی کو اور دوسرے ہاتھ سے فاطمہ کو گلے لگایا اور حضرت فاطمہ کو بوسہ دیا اور حضرت علی کو بھی بوسہ دیا۔ اور انہیں سیاہ لباس سے ڈھانپ دیا جو اس نے پہن رکھا تھا۔ خدارا! میں اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو تیرے سپرد کرتا ہوں، جہنم کا عذاب نہیں! میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مجھ پر بھی درود و سلام ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں تم بھی [یعنی میں تمہیں خدا کے سپرد کرتا ہوں تاکہ تم جہنم کے عذاب سے بچ جاؤ!]

أحمد بن حنبل، أبو عبدالله الشیبانی، مسند الإمام أحمد بن حنبل، ج 6، ص: 296، مؤسسة قرطبة، القاهرة، عدد الأجزاء: 6، الأحادیث مذیلة بأحکام شعیب الأرنؤوط علیها

الاسماء اور الکانی میں دولابی نے بھی مندرجہ بالا روایت کو یوں بیان کیا ہے:

قال: أنبأ النضر، قال: حدثنا عوف، عن أبی المعذل عطیة الطفاوی، عن أبیه، أن أم سلمة حدثته، قالت: بینا رسول الله [ صلى الله علیه وسلم ] فی بیته یوماً إذ قال لی الخادم أن علیا وفاطمة بالسدة، فقال لی قومی: فتنحى لی عن أهل بیتی فقمت فتنحیت فی البیت قریباً، فدخل علی وفاطمة ومعهما الحسن والحسین، وهما صغیران فأخذ الصبیین فوضعهما فی حجرة واعتق علیا بإحدى یدیه وفاطمة بالأخرى، فقبلهما وأغدف علیهم خمیصة سوداء، وقال: اللهم إلیک لا إلى النار أنا وأهل بیتی، قالت: قلت: وأنا یا رسول الله، قال: وأنت.

عطیہ طفاوی اپنے والد سے ام سلمہ سے روایت کرتی ہیں: ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں تھے، خادم نے کہا: حضرت علی اور فاطمہ سلام اللہ علیہا دروازے کے پیچھے ہیں۔ ام سلمہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: اٹھو اور میرے گھر والوں سے دوری اختیار کرو۔ میں اٹھا اور گھر سے دوسری قریبی جگہ چلا گیا اور خود کو دور کر لیا! پھر علی و فاطمہ سلام اللہ علیہا ان کے ساتھ داخل ہوئے اور حسن و حسین علیہما السلام ان کے ساتھ جو چھوٹے بچے تھے داخل ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن و حسین کو اپنے زانو پر بٹھایا اور بوسہ دیا۔ ام سلمہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہاتھ سے علی کو اور دوسرے ہاتھ سے فاطمہ کو گلے لگایا اور حضرت فاطمہ کو بوسہ دیا اور حضرت علی کو بھی بوسہ دیا۔ اور انہیں سیاہ لباس سے ڈھانپ دیا جو اس نے پہن رکھا تھا۔ خدارا! میں اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو تیرے سپرد کرتا ہوں، جہنم کا عذاب نہیں! میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مجھ پر بھی درود و سلام ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں تم بھی [یعنی میں تمہیں خدا کے سپرد کرتا ہوں تاکہ تم جہنم کے عذاب سے بچ جاؤ!]

دولابی، ابوبشر محمد بن حماد، الکنى والأسماء، ج 3، ص: 1036، سنة الولادة 224 هـ / سنة الوفاة 310 هـ، تحقیق أبو قتیبة نظر محمد الفاریابی، الناشر دار ابن حزم، سنة النشر 1421 هـ – 2000 م، مکان النشر بیروت/ لبنان، عدد الأجزاء 3

آیت تطہیر کے مفاد سے ازواج کو خارج کرنے کا دلیل ام سلمہ سے عطیہ کے طریقہ پر مبنی ہے:

سند بعنوان "فقال لی قومی: فتنہٰی لی عن اہل البیتی فقمت فتنہیت فی البیت قریبہ، فضل علی و فاطمہ اور محمد الحسن و حسین” مذکورہ بالا روایت سے حضرت علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیہما السلام کی آمد پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر ام سلمہ کو حکم دیا کہ ان کے خاص "اہل بیت” سے خود کو دور کرنا چاہئے اور ان سے دور رہنا چاہئے۔ اس وجہ سے ام سلمہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود کو وہاں سے لگ کیا اور گھر کے دوسرے حصہ میں چلی گئیں۔ معتبر لغات میں "تنحی” کا مطلب دور جانا ہے:

«نَحَّیْته‏ فتَنَحَّى‏… أی: باعدته»

تنحی یعنی میں نے اسے ہٹا دیا اس کا مطلب اسے ہٹانا ہے۔

فراهیدى، خلیل بن احمد، کتاب العین، ج‏3 ؛ ص303 ، قم، چاپ: دوم، 1409 ه.ق.

مذکورہ بالا روایت سے اس عبارت کا مفہوم آیت تطھیر سے ازواج کا خارج ہونے کے بارے میں بالکل واضح ہے۔

قابل غور بات یہ ہے کہ مذکورہ بالا روایت کا آخری پیراگراف ہےیعنی « اللهم إلیک لا إلى النار أنا وأهل بیتی، قالت: قلت: وأنا یا رسول الله، قال: وأنت»

اس کا کسی بھی طرح سے یہ مطلب نہیں ہے کہ ام سلمہ کو اہل بیت میں شامل کیا گیا ہے کیونکہ: اول: اگر ہم یہ کہیں کہ ام سلمہ اہل بیت کے عنوان کے اندر موجود ہیں دعا میں ہے، تو ایسی صورت میں اوپر اور نیچے کے حدیث کے درمیان تضاد اور شدید اضطراب لازم ایےگا اور یہ حکمت نبوی سے مطابقت نہیں رکھتی۔

دوم: حدیث ظهور کا درج ذیل جملہ یہ ہے کہ ام سلمہ کی درخواست، اس میں صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا شامل ہے، جہنم کی آگ سے دور رہنے کے لیے، اس عنوان میں داخل نہ ہونا جو حدیث کے شروع میں صراحت کے ساتھ خارج کیا گیا ہے۔

  1. عطا بن یسار ام سلمہ سے روایت نقل کی ہے

ازواج کا خارج ہونا زیر بحث ایک اور روایت یہ ہے کہ عطاء بن یسار نے ام سلمہ سے روایت کی۔ حکیم نیشابوری اپنی صحیح میں موجود قطعی شرط کی بنا پر مذکورہ روایت کو صحیح سمجھتے ہیں:

3558 – حدثنا أبو العباس محمد بن یعقوب ثنا العبا س بن محمد بن الدوری ثنا عثمان بن عمر ثنا عبد الرحمن بن عبد الله بن دینار ثنا شریک بن أبی نمر عن عطاء بن یسار عن أم سلمة رضی الله عنها أنها قالت: فی بیتی نزلت هذه الآیة { إنما یرید الله لیذهب عنکم الرجس أهل البیت } قالت: فأرسل رسول الله صلى الله علیه و سلم إلى علی و فاطمة و الحسن و الحسین رضوان الله علیهم أجمعین فقال: اللهم هؤلاء أهل بیتی قالت أم سلمة: یا رسول الله ما أنا من أهل البیت؟ قال: إنک أهلی خیر و هؤلاء أهل بیتی اللهم أهلی أحق. هذا حدیث صحیح على شرط البخاری و لم یخرجاه. تعلیق الذهبی قی التلخیص: على شرط مسلم»

عطاء بن یسار ام سلمہ سے روایت کرتے ہیں: میرے گھر میں تطھیر کی آیت نازل ہوئی۔ ام سلمہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی، فاطمہ، حسن اور حسین کو اپنے پاس بلایا اور فرمایا: بارالها! یہ صرف میرے اهل بیت ہیں۔ ام سلمہ نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، کیا میں بھی اہل بیت میں سے ہوں؟ ان حضرت نے کہا: تم میری امت میں سے ہو! اور یہ میرے اهل بیت ہیں۔ خدارا میرے اهل بیت احق ہیں۔

حاکم نشابوری، محمد بن عبدالله، المستدرک على الصحیحین، ج 2، ص: 451، دار الکتب العلمیة – بیروت، الطبعة الأولى، 1411 – 1990، تحقیق: مصطفى عبد القادر عطا، عدد الأجزاء: 4

آیت تطھیر میں اہل بیت سے ازواج کا خارج ہونے پر دلیل:

مندرجہ بالا روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام سلمہ کی درخواست کہ انہیں اہل بیت کساء میں شامل کیا جائے کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے۔ اور ان حضرت ان کے سلسلے میں حقیقی مقام کو ثابت کرتے ہوئے – جو کہ ایک بیوی اور ایک ہی گھر کا فرد ہونے کے برابر ہے – عنوان اہل بیت سے اس کی نفی کرتا ہے۔

مندرجہ بالا قرینہ کے علاوہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ” آیت تطھیر کے تحت اہل بیت کساء میں داخل ہوئے” کے عنوان اور عنوان "اپنا خاندان، جس میں اس کی بیویاں شامل ہیں” کے درمیان ایک تضاد پیدا کیا ہے۔ جس میں ان کی بیویاں بھی شامل ہیں، جو ان دونوں تصورات کے درمیان فرق کو ظاہر کرتی ہے۔ اس بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عنوان اول کو ام سلمہ سے نفی کیا اور دوسرے عنوان کو ثابت کیا۔

واضح رہے کہ حدیث کے تحت "اللهم اهلی احق” کی دعا کا میاں بیوی سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ: اول: اگر اس دعا میں ام سلمہ بھی شامل ہو تو وہ آیت کے تحت اہل بیت میں شامل ہو جائیں گی، حالانکہ پچھلے جملے میں انہیں آیت کے تحت اہل بیت کے عنوان سے واضح طور پر خارج کر دیا گیا تھا اور یہ نبی کے قول میں تضاد اور اضطراب کی علامت ہے اور اس مسئلہ سے بچنے کے لیے اور اس نبی کی طرف لغو باتوں کو منسوب کرنے سے ہم کوئی تاثر نہیں دے سکتے۔

دوم: دوسری روایات کے مطابق – جن میں سے اکثر کا اس مضمون میں ذکر ہے- اس دعا میں آیت کےذیل میں اہل بیت شامل ہیں۔ اور ان کی احق سے مراد رجس سے دوری اور مطلق پاکیزگی ہے۔ جیسا کہ عمر بن ابی سلمہ کی سند میں ہے۔

«… فأذهب عنهم الرجس وطهرهم تطهیرا» کا ذکر ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ اہل بیت سے مطلق نجاست سے دور رہنے اور مکمل پاکیزگی ثابت کرنے کی درخواست ہے۔

اسی طرح شہر بن حوشب میں بھی پایا جاتا ہے۔ « اللهم ان هؤلاء آل محمد فاجعل صلواتک وبرکاتک على محمد وعلى آل محمد انک حمید مجید»

یہ دعا بھی اہل بیت کے لیے خدا سے حفاظت اور برکت کی درخواست ہے جس کے گھر کے یہ لوگ دوسروں کے مقابلے میں حقدار ہیں۔ مذکورہ بالا سند جو کہ عطاء بن ابی رباح کی ام سلمہ سے روایت ہے، احمد بن حنبل کی مسند میں بھی متعدد صحیح اورمعتبر سند کے ساتھ مختلف بیان کے ساتھ ذکرکیا ہے:

« 26551 – حدثنا عبد الله حدثنی أبى ثنا عبد الله بن نمیر قال ثنا عبد الملک یعنى بن أبى سلیمان عن عطاء بن أبى رباح قال حدثنی من سمع أم سلمة تذکر: أن النبی صلى الله علیه و سلم کان فی بیتها فأتته فاطمة ببرمة فیها خزیرة فدخلت علیه فقال لها ادعى زوجک وابنیک قالت فجاء على والحسین والحسن فدخلوا علیه فجلسوا یأکلون من تلک الخزیرة وهو على منامة على دکان تحته کساء له خیبری قالت وأنا أصلی فی الحجرة فانزل الله عز و جل هذه الآیة { إنما یرید الله لیذهب عنکم الرجس أهل البیت ویطهرکم تطهیرا } قالت فأخذ فضل الکساء فغشاهم به ثم أخرج یده فألوى بها إلى السماء ثم قال اللهم هؤلاء أهل بیتی وخاصتی فاذهب عنهم الرجس وطهرهم تطهیرا اللهم هؤلاء أهل بیتی وخاصتی فاذهب عنهم الرجس وطهرهم تطهیرا قالت فأدخلت رأسی البیت فقلت وأنا معکم یا رسول الله قال انک إلى خیر إنک إلى خیر قال عبد الملک وحدثنی أبو لیلى عن أم سلمة مثل حدیث عطاء سواء قال عبد الملک وحدثنی داود بن أبى عوف الحجاف عن حوشب عن أم سلمة بمثله سواء. تعلیق شعیب الأرنؤوط: حدیث صحیح. وله ثلاثة أسانید: الأول: ضعیف لإبهام الراوی عن أم سلمة والثانی: إسناده صحیح»

عطاء بن ابی رباح ام سلمہ سے روایت کرتے ہیں: کہ اسے وہ دن یاد ہے جب وہ اپنے گھر میں تھا۔ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ہاتھ میں شوربے کا پیالہ لیے ان کے پاس آئیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی شوہر اور بچوں کو اطلاع دیں۔ حضرت علی (علیہ السلام) اور حسن و حسین (علیہما السلام) آکر بیٹھ گئے اور وہ کھانا کھانے لگے جب کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خیبری کے بستر پر سو رہے تھے اور میں [ام سلمہ] بھی کمرے میں نماز میں مصروف تھی۔ کہ اللہ تعالیٰ نے آیت « انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس …» نازل کی۔

ام سلمہ بیان کرتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چادر کا ایک کونا پکڑا اور انہیں ڈھانپ دیا، پھر آپ نے اپنا ہاتھ چادر کے نیچے سے نکالا اور فرمایا: اے اللہ یہ میرے اہل و عیال اور خاص رشتہ دارہیں! ان میں سے تمام رجس کو دور کر کے انہیں بالکل پاکیزہ بنا دے! ام سلمہ کہتی ہیں: میں نے اپنا سر کمرے کے اندر رکھا اور کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا میں آپ کے ساتھ ہوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم خیرپر ہو، تم خیرپر ہو!

أحمد بن حنبل، أبو عبدالله الشیبانی، مسند الإمام أحمد بن حنبل، ج 6، ص: 292، مؤسسة قرطبة، القاهرة، عدد الأجزاء: 6، الأحادیث مذیلة بأحکام شعیب الأرنؤوط علیها

آیت تطھیرسے ازواج کا خارج ہونے کی دلیل کا اندازہ مذکورہ بالا روایت کی بنا پر:

فراز کی دلیل کے علاوہ «قالت فأدخلت رأسی البیت فقلت وأنا معکم یا رسول الله قال انک إلى خیر إنک إلى خیر» جس کا ذکر پچھلے بیانات میں کیا گیا تھا کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے بارے میں بھی بحث کر سکتا ہے، جو الکساء کے تحت بعض لوگوں سے متعلق ہے «هؤلاء أهل بیتی وخاصتی» اور استدلال بھی کرسکتا ہے۔ اس لیے کہ حضرت اہل بیت مشار الیه کو چادر کے نیچے ایک خاص "قید” کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ یہ فعل ایک خاص خصوصیت کا اظہار کرتا ہے جو کہ انہی لوگوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وابستگی اور رشتہ داروں میں سے کوئی بھی موجود نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ ازواج کو اس آیات کے مفاد سے خارج کیا ہے۔ کیونکہ وہ "خاصّتی” عنوان میں شامل نہیں ہیں۔

  1. ابی ہریرہ الدوسی

ام سلمہ کی طریق کی ایک اور سند ابوہریرہ کی روایت ہے۔ یہ ایک صحابی کی دوسرے صحابی سے روایت ہے۔ طبری نے اپنی تفسیر میں اس روایت کو یوں نقل کیا ہے:

حدثنا أَبو کریب، قال: ثنا مصعب بن المقدام، قال: ثنا سعید بن زربی، عن محمد بن سیرین، عن أَبی هریرة، عن أم سلمة قالت: جاءت فاطمة إلى رسول الله صَلَّى الله عَلَیْهِ وَسَلَّم ببرمة لها قد صنعت فیها عصیدة تحلها على طبق، فوضعته بین یدیه، فقال: "أَیْنَ ابْنُ عَمِّکِ وَابْنَاک؟” فقالت: فی البیت، فقال: "ادْعِیهِمْ ". فجاءت إلى علی فقالت: أجب النبی صَلَّى الله عَلَیْهِ وَسَلَّم أنت وابناک، قالت أم سلمة: فلما رآهم مقبلین مد یده إلى کساء کان على المنامة فمده وبسطه وأجلسهم علیه، ثم أخذ بأطراف الکساء الأربعة بشماله فضمه فوق رءوسهم وأومأ بیده الیمنى إلى ربه، فقال: «هَؤُلاءِ أَهْلُ الْبَیْتِ، فَأَذْهِبْ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَطَهِّرْهُمْ تَطْهِیرًا»

ابوہریرہ ام سلمہ سے روایت کرتے ہیں: حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئیں اور شوربے کا ایک برتن لے کر آپ کے سامنے رکھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تمھارے شوہراور بچے کہاں ہیں؟ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے جواب دیا: گھر پر! فرمایا: انہیں بلاؤ۔ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا حضرت علی کے پاس گئیں اور فرمایا: آپ اور آپ کے بچےکو نبی صلی اللہ علیہ وسلم بلا رہے ہیں، ام سلمہ بیان کرتی ہیں: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ وہ لوگ آپ کی طرف جا رہے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا کساء جو آپ کی آرام گاہ میں تھا لے لیا اور اسے پھیلا دیا اور انہیں اس کساء پربٹھایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کساء کے چاروں کونے کو اپنے سر پر جمع کیا اور اپنے دائیں ہاتھ سے اپنے رب کی طرف اشارہ کیا۔ اور فرمایا: یہ اہل بیت ہیں، ان سے تمام نجاست دور کر اور انہیں پاک کر!

أبو جعفر الطبری، محمد بن جریر بن یزید، جامع البیان فی تأویل القرآن، ج20، ص: 265، محقق : أحمد محمد شاکر، مؤسسة الرسالة، چاپ اول، 1420 هـ – 2000 م، عدد الأجزاء : 24

آیت تطهیر سے ازواج کو خارج کیے جانے کی روایت پر مبنی استدلال کا اندازہ وہی ہے جو صحیح مسلم میں عائشہ کے ذریعے پیش کیا گیا ہے جو پہلے پیش کیا گیا تھا۔ لیکن واضح رہے کہ زیر بحث روایت کی تفصیلات کے بیانات میں اختلاف یا تو حدیث کے راویوں کے معنی بیان کرنے کی وجہ سے ہے یا پھر یہ واقعہ دہرائے جانے کی وجہ سے ہے۔

  1. عبداللہ بن وہب بن زمعہ

ام سلمہ کی طرف سے ایک اور سند عبداللہ بن وہب بن زمعہ کی روایت ہے۔ طبری نے اپنی تفسیر میں اس روایت کو یوں درج کیا ہے:

28731- حَدَّثَنَا أَبُو کُرَیْبٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ یَعْقُوبَ ، قَالَ : حَدَّثَنِی هَاشِمُ بْنُ هَاشِمِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ أَبِی وَقَّاصٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ وَهْبِ بْنِ زَمْعَةَ ، قَالَ: أَخْبَرَتْنِی أُمُّ سَلَمَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ جَمَعَ عَلِیًّا وَالْحَسَنَیْنِ، ثُمَّ أَدْخَلَهُمْ تَحْتَ ثَوْبِهِ، ثُمَّ جَأَرَ إِلَى اللَّهِ ، ثُمَّ قَالَ : هَؤُلاَءِ أَهْلُ بَیْتِی فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ : یَا رَسُولَ اللَّهِ أَدْخِلْنِی مَعَهُمْ، قَالَ : إِنَّکِ مِنْ أَهْلِی»

عبداللہ بن وہب بن زمعہ نے بیان کیا کہ مجھے ام سلمہ نے خبر دی کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی، حسن، حسین اور فاطمہ کو جمع کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے چادر میں لیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے دعا کی اور فرمایا: یہ میرے اھلبیت ہیں! ام سلمہ کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ مجھے بھی ان میں شامل کر لیں۔ انہوں نے کہا: بے شک تم میرے اہل میں سے ہو (دار قصہ کے اندر اہل بیت نہیں)۔

أبو جعفر محمد بن جریر الطبری، جامع البیان فی تفسیر القرآن للطبری، ج19، ص: 105، مکتب التحقیق بدار هجر، ناشر : دار هجر، چاپ اول، 26 جلد

ازواج کو خارج کیے جانے کے لیے مذکورہ بالا روایت کی دلیل کا وہی ہے جو ام سلمہ کی روایت میں ہے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام سلمہ کو کساء کے اندر لینے سے پرہیز کیا اور صرف اس کا اصل مقام یہ ہے کہ وہ اھل ہے اور یہ کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ ہیں۔

ایک دلچسپ نکتہ جو غور طلب ہے وہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت تطھیر مصادیق کو معین کرنے کے لیے آواز بلند فرمائی تاکہ آیت تطھیر کی مثالیں معلوم ہو سکے! اس معاملے کی حکمت واضح ہے کیونکہ بات کی تاکید کے ساتھ ساتھ یہ بات دوسروں کی آگاہی کے لیے تھی، خاص طور پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کی کہ اس منصب میں خاص اور خاص لوگ شامل ہیں اور دوسرے لوگ اس میں شامل نہیں ہوسکتے۔

  1. حکیم بن سعد

ام سلمہ کی طرف سے زیر بحث روایات کی آٹھویں سند حکیم بن سعد کی روایت ہے۔ ابن عساکر نے اس روایت کو اس طرح شامل کیا ہے:

أخبرنا أبو القاسم بن السمرقندی أنا أبو الحسین بن النقور أنا محمد بن عبد الله بن الحسین الدقاق نا عبد الله بن محمد بن عبد العزیز نا عثمان بن أبی شیبة نا جریر بن عبد الحمید عن الأعمش عن جعفر بن عبد الرحمن البجلی عن حکیم بن سعد عن أم سلمة تقول أنزلت هذه الآیة فی النبی صلى الله علیه وسلم وعلی وفاطمة والحسن والحسین { إنما یرید الله لیذهب عنکم الرجس أهل البیت ویطهرکم تطهیرا }

حکیم بن سعد ام سلمہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: یہ آیت "انما یرید اللہ…” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور حضرت علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیہم السلام پر نازل ہوئی۔

ابن عساکر، أبی القاسم علی بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله الشافعی، تاریخ مدینة دمشق، ج14، ص: 143، دار الفکر، بیروت

اس روایت کی تشریح میں یہ کہنا چاہیے کہ اس کا مفہوم تطھیر کی آیت سے ازواج کا نکل جانا ہے جیسا کہ پچھلی روایتوں میں آیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی واضح رہے کہ اگر اس آیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کو شامل کیا جاتا تو ام سلمہ کو بھی ان کی اس منفرد فضیلت کا ذکر کرنا چاہیے تھا۔ لیکن باوجود اس کے کہ وہ آیت کی تفسیر اورتبیین کرنے کی پوزیشن میں تھے۔ اس نے آیت کی دفعات میں اپنے اور دوسری ازواج کے داخل ہونے کے بارے میں کچھ ذکر نہیں کیا اور اس نے خصوصی طور پر صرف پانچ آل عبا کا ذکر کیا۔

  1. عمرہ بنت عفیٰ ام سلمہ سے روایت کرتی ہے

ام سلمہ کے طریقہ کے جیسا ایک اور سند وہ روایت ہے جسے حافظ ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں عمرہ بن عفی سے ذکر کیا ہے:

«عمرة هذه لیست بنت عبد الرحمن إنما هی عمرة بنت أفعى کوفیة أخبرنا بحدیثها أبو طالب علی بن عبد الرحمن أنا أبو الحسن الخلعی أنا أبو محمد بن النحاس أنا أبو سعید بن الأعرابی نا الحسین بن جعید بن الربیع أبو عبد الله نا مخول بن إبراهیم أبو عبد الله نا عبد الجبار بن عباس الشیبانی عن عمار الدهنی عن عمرة بنت أفعى قالت سمعت أم سلمة تقول نزلت هذه الآیة فی بیتی { إنما یرید الله لیذهب عنکم الرجس أهل البیت ویطهرکم تطهیرا } وفی البیت سبعة جبریل ومیکائیل ورسول الله صلى الله علیه وسلم وعلی وفاطمة والحسن والحسین قالت وأنا على باب البیت فقلت یا رسول الله ألست من أهل البیت قال إنک على خیر إنک من أزواج النبی صلى الله علیه وسلم وما قال إنک من أهل البیت

عمرہ بنت افعی کہتی ہیں کہ میں نے ام سلمہ کو یہ کہتے ہوئے سنا: یہ آیت «انما یرید الله لیذهب …» میرے گھر میں نازل ہوئی۔ اور ہمارے گھر میں سات لوگ تھے۔ جبرائیل، میکائیل، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیہم السلام۔ ام سلمہ بیان کرتی ہیں کہ میں گھر کے دروازے کے پاس کھڑی تھی، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا میں بھی اہل بیت میں سے ہوں؟ انہوں نے کہا: تم خیر پر ہو! آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات میں سے ہیں۔ اور یہ کہ ان حضرت نے یہ نہیں کہا کہ تم اہل بیت میں سے ہو!

تاریخ مدینة دمشق وذکر فضل‌ها وتسمیة من حلها من الأماثل، اسم المؤلف: أبی القاسم علی بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله الشافعی، دار النشر: دار الفکر – بیروت – 1995، تحقیق: محب الدین أبی سعید عمر بن غرامة العمری، ج 14، ص 145، باب آخر الجزء الحادی والسبعین بعد المائة

آیت تطھیر سے ازواج کے خارج کیے جانے پر مذکورہ بالا روایت کا مفہوم بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ روایت کے ذیل میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ «وما قال إنک من أهل البیت» رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام سلمہ کی طرف سے داخل ہونے کی درخواست کی مخالفت کی۔ اور دیگر روایات کی طرح اس میں بھی صرف بیوی کے مقام پر زور دیا ہے اور آیت تطھیر میں بیوی اور اہل بیت کے مقام کے درمیان دوئیت اور مخالفت پیدا کی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کی نفی ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی واضح رہے کہ جبرائیل اور میکائیل جو آسمانی عظمت کے فرشتوں میں سے ہیں، اہل کساء میں بھی موجود ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آیت تطھیر میں اہل بیت کا مقام عرش کا مقام ہے کہ صرف وہی لوگ شامل کیے جاسکتے ہیں جو آسمانی فرشتوں کے نورانی مخلوقات کی سنخ کے ہوں۔ اس بنا پر جو لوگ شرک یا خیانت اور دشمنی کی سابقہ رکھتے ہیں وہ اس حریم میں داخل ہونے کے اہل نہیں ہیں۔

  1. عمرة همدانیه

عمرہ ہمدانی بھی ان دوسرے راویوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے ام سلمہ سے نقل کیا ہے۔ طحاوی جو کہ اہل سنت کے بڑے محدثین اور فقہاء میں سے ہیں، نے اس روایت کو مشکل الآثارکی شرح میں اس طرح نقل کیا ہے:

772 – وَمَا قَدْ حَدَّثَنَا فَهْدٌ، حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ کَثِیرِ بْنِ عُفَیْرٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِیعَةَ، عَنْ أَبِی صَخْرٍ، عَنْ أَبِی مُعَاوِیَةَ الْبَجَلِیِّ، عَنْ عَمْرَةَ الْهَمْدَانِیَّةِ قَالتْ: أَتَیْتُ أُمَّ سَلَمَةَ فَسَلَّمْتُ عَلَیْهَا فَقَالَتْ: مَنْ أَنْتِ؟ فَقُلْتُ: عَمْرَةُ الْهَمْدَانِیَّةُ فَقَالَتْ عَمْرَةُ: یَا أُمَّ الْمُؤْمِنِینَ أَخْبِرِینِی عَنْ هَذَا الرَّجُلِ الَّذِی قُتِلَ بَیْنَ أَظْهُرِنَا فَمُحِبٌّ وَمُبْغِضٌ تُرِیدُ عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ قَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ أَتُحِبِّینَهُ أَمْ تُبْغِضِینَهُ؟ قَالَتْ: مَا أُحِبُّهُ وَلَا أُبْغِضُهُ، فَقَالَتْ: أَنْزَلَ اللهُ هَذِهِ الْآیَةَ: { إنَّمَا یُرِیدُ اللهُ } إلَى آخِرِهَا وَمَا فِی الْبَیْتِ إلَّا جِبْرِیلُ وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَعَلِیٌّ، وَفَاطِمَةُ، وَحَسَنٌ، وَحُسَیْنٌ عَلَیْهِمُ السَّلَامُ، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، أَنَا مِنْ أَهْلِ الْبَیْتِ؟ فَقَالَ: «إنَّ لَکِ عِنْدَ اللهِ خَیْرًا » فَوَدِدْتُ أَنَّهُ قَالَ: نَعَمْ، فَکَانَ أَحَبَّ إلَیَّ مِمَّا تَطْلُعُ عَلَیْهِ الشَّمْسُ وَتَغْرُبُ. فَدَلَّ مَا رَوَیْنَا فِی هَذِهِ الْآثَارِ مِمَّا کَانَ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إلَى أُمِّ سَلَمَةَ مِمَّا ذَکَرَ فِیهَا لَمْ یُرِدْ بِهِ أَنَّهَا کَانَتْ مِمَّنْ أُرِیدَ بِهِ مِمَّا فِی الْآیَةِ الْمَتْلُوَّةِ فِی هَذَا الْبَابِ، وَأَنَّ الْمُرَادِینَ بِمَا فِیهَا هُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَعَلِیٌّ، وَفَاطِمَةُ، وَحَسَنٌ، وَحُسَیْنٌ عَلَیْهِمُ السَّلَامُ دُونَ مَنْ سِوَاهُم»

عمرہ ہمدانیہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے ام سلمہ سے کہا کہ مجھے اس شخص کے بارے میں بتائیے جو ہمارے درمیان مارا گیا، آیا وہ اس کا محبوب تھا یا اس سے نفرت کرتا تھا۔ اس شخص سے مراد حضرت علی علیہ السلام تھے۔ ام سلمہ نے کہا: تم اس سے محبت کرتے ہو یا اس سے نفرت کرتے ہو؟ اس نے کہا: میں نہ اس سے محبت کرتا ہوں اور نہ ہی دل میں اس سے نفرت کرتا ہوں۔ ام سلمہ کہتی ہیں: آیت «انما یرید الله لیذهب…» اس وقت نازل ہوئی جب جبرائیل اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور علی، فاطمہ، حسن، اور حسین اس گھر میں تھے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا میں بھی اہل بیت میں سے ہوں؟ انہوں نے کہا: خدا کی نظر میں تمہارے لیے اچھا اجر ہے! ام سلمہ کہتی ہیں: میں نے چاہا کہ وہ ہاں کہے اور میں بھی اہل بیت کے اندر ہوں! یہ معاملہ مجھے سورج کے طلوع و غروب ہونے سے زیادہ محبوب تھا! طحاوی کہتے ہیں: یہ احادیث جو ہم نے بیان کی ہیں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ام سلمہ سے مروی ہیں۔ وہاں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ ام سلمہ کا ارادہ نہیں تھا کہ وہ آیت تطہیر کے معنی میں شامل ہوں، جس پر ہم نے اس باب میں بحث کی ہے۔ اور ان روایات کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیہم السلام کے علاوہ آیت میں سنجیدہ معنی ہیں، اور اس کے معنی میں کوئی اور نہیں ہے ان لوگوں کے علاوہ ۔

شرح مشکل الآثار، أبو جعفر أحمد بن محمد بن سلامة الطحاوی، مؤسسة الرسالة – لبنان/ بیروت – 1408 هـ – 1987 م، الطبعة: الأولی، تحقیق: شعیب الأرنؤوط، ج 2، ص 244، بَابٌ بَیانُ مُشْکلِ ما رُوِی عن رسول اللهِ علیه السلام فی الْمُرَادِ بِقَوْلِهِ تَعَالَی إنَّمَا یرِیدُ اللَّهُ لِیذْهِبَ عَنْکمْ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیتِ وَیطَهِّرَکمْ تَطْهِیرًا من هُمْ

مذکورہ بالا روایت کا مفہوم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب، ام سلمہ اور ان کے اقرار پر مبنی ہے «… فَوَدِدْتُ أَنَّهُ قَالَ: نَعَمْ، فَکَانَ أَحَبَّ إلَیَّ مِمَّا تَطْلُعُ عَلَیْهِ الشَّمْسُ وَتَغْرُبُ….» اس نے خواہش کی کہ خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، کساء میں داخل ہونے کی درخواست کا مثبت جواب دیں گے۔

اس کے علاوہ یہ بھی واضح رہے کہ طحاوی نے مشکل الآثار میں زیر بحث سند کے تحت اعتراف کیا ہے۔ ام سلمہ سے منقول روایات کے مطابق، ان میں سے صرف پانچ ہیں اور کوئی اور نہیں، "خاص طور پر ازواج” اہل بیت کے عنوان میں شامل نہیں ہیں۔

جمع بندی: آیت تطھیر سے ازواج کے نکلنے کی سب سے اہم دلیل ام سلمہ کی روایت ہے۔ یہ روایت متعدد طریقوں سے اور مختلف فقروں کے ساتھ درج کی گئی ہے، جن میں سے سبھی اس حقیقت کو بیان کرتے ہیں کہ وہ "اہل بیت” کے عنوان میں شامل نہیں ہیں۔

3/5۔ مباہلہ سے متعلق روایت اور اہل بیت علیہم السلام کا تعارف۔

آیت تطھیر سے ازواج کے اخراج کیے جانے کا ایک اور سندی ثبوت آیت مباہلہ سے متعلق روایات ہیں۔ اس آیت میں خداوند نجران کے عیسائیوں کے ساتھ مباہلہ کے معاملہ میں بعض خاص لوگوں کی موجودگی کا حکم دیتا ہے:

(3) آل‏عمران : 61 فَمَنْ حَاجَّکَ فیهِ مِنْ بَعْدِ ما جاءَکَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعالَوْا نَدْعُ أَبْناءَنا وَ أَبْناءَکُمْ وَ نِساءَنا وَ نِساءَکُمْ وَ أَنْفُسَنا وَ أَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْکاذِبین‏

(اے پیغمبر(ص)) اس معاملہ میں تمہارے پاس صحیح علم آجانے کے بعد جو آپ سے حجت بازی کرے تو آپ ان سے کہیں کہ آؤ ہم اپنے اپنے بیٹوں، اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر مباہلہ کریں (بارگاہِ خدا میں دعا و التجا کریں) اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں۔ (یعنی ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں تم اپنے بیٹوں کو، ہم اپنی عورتوں کو بلائیں تم اپنی عورتوں کو اور ہم اپنے نفسوں کو بلائیں تم اپنے نفسوں کو پھر اللہ کے سامنے گڑگڑائیں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت کریں)۔ (61)

حکم الٰہی کی پیروی کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تقریب میں شرکت کے لیے اپنے خاص اور لائق اہل بیت کا تعارف کرایا۔ یہ قصہ نیشابوری مستدرک حاکم میں مکمل مستند اور معتبر کے ساتھ درج ذیل ہے:

« 4719 – أخبرنی جعفر بن محمد بن نصیر الخلدی ببغداد ثنا موسى بن هارون ثنا قتیبة بن سعید ثنا حاتم بن إسماعیل عن بکیر بن مسمار عن عامر بن سعد عن أبیه قال: لما نزلت هذه الآیة { ندع أبناءنا و أبناءکم و نساءنا و نساءکم و أنفسنا و أنفسکم } دعا رسول الله صلى الله علیه و سلم علیا و فاطمة و حسنا و حسینا رضی الله عنهم فقال: اللهم هؤلاء أهلی. هذا حدیث صحیح على شرط الشیخین و لم یخرجاه. تعلیق الذهبی قی التلخیص: على شرط البخاری ومسلم»

سعد بن ابی وقاص کہتا ہیں: جب مباہلہ کی آیت « یعنی فقل تعالوا ندع ابناءنا و ابناءکم …» نازل ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی، فاطمہ، حسن اور حسین کو بلایا اور فرمایا: اے اللہ یہ میری اهل ہیں۔

حاکم نشابوری، محمد بن عبدالله، المستدرک على الصحیحین، ج 3، ص: 163، دار الکتب العلمیة – بیروت، الطبعة الأولى، 1411 – 1990، تحقیق: مصطفى عبد القادر عطا، عدد الأجزاء: 4

مندرجہ بالا سند کے علاوہ سنن الترمذی نے بھی اس حقیقت کو اس طرح شامل کیا ہے:

2999 – حدثنا قتیبة حدثنا حاتم بن إسماعیل عن بکیر بن مسمار هو مدنی ثقة عن عامر بن سعید بن أبی وقاص عن أبیه قال: لما أنزل الله هذه الآیة { ندع أبناءنا وأبناءکم } دعا رسول الله صلى الله علیه و سلم علیا و فاطمة و حسنا و حسینا فقال اللهم هؤلاء أهلی. قال أبو عیسى هذا حدیث حسن صحیح. قال الشیخ الألبانی: صحیح الإسناد

سعد بن ابی وقاص کہتا ہیں: جب مباہلہ کی آیت نازل ہوئی:« یعنی فقل تعالوا ندع ابناءنا و ابناءکم …» رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی، فاطمہ، حسن اور حسین کو بلایا اور فرمایا: اے اللہ یہ میری اهل ہیں۔

ترمذی سلمی، محمد بن عیسی، الجامع الصحیح سنن الترمذی، ج 5، ص: 225، دار إحیاء التراث العربی – بیروت، تحقیق: أحمد محمد شاکر وآخرون، عدد الأجزاء: 5، الأحادیث مذیلة بأحکام الألبانی علیها

مباہلہ میں اہل بیت بالخصوص حضرت علی علیہ السلام کی موجودگی صحابہ کے درمیان اس طرح یقینی رہی ہے کہ ان میں سے بعض نے بنی امیہ کی دشمنی کی مخالفت میں اس منفرد فضیلت پر استدلال کیا۔ صحیح مسلم میں حضرت علی علیہ السلام اور سعد بن ابی وقاص پر لعنت کرنے کے حکم کا قصہ یوں درج ہے:

« 32 – ( 2404 ) حدثنا قتیبة بن سعید ومحمد بن عباد ( وتقاربا فی اللفظ ) قالا حدثنا حاتم (وهو ابن إسماعیل ) عن بکیر بن مسمار عن عامر بن سعد بن أبی وقاص عن أبیه قال: أمر معاویة بن أبی سفیان سعدا فقال ما منعک أن تسب أبا التراب؟ فقال أما ذکرت ثلاثا قالهن له رسول الله صلى الله علیه و سلم فلن أسبه لأن تکون لی واحدة منهن أحب إلی من حمر النعم سمعت رسول الله صلى الله علیه و سلم یقول له خلفه فی بعض مغازیه فقال له علی یا رسول الله خلفتنی مع النساء والصبیان؟ فقال له رسول الله صلى الله علیه و سلم أما ترضى أن تکون منی بمنزلة هارون من موسى إلا أنه لا نبوة بعدی وسمعته یقول یوم خیبر لأعطین الرایة رجلا یحب الله ورسوله ویحبه الله ورسوله قال فتطاولنا لها فقال ادعوا لی علیا فأتى به أرمد فبصق فی عینه ودفع الرایة إلیه ففتح الله علیه ولما نزلت هذه الآیة فقل تعالوا ندع أبناءنا وأبنائکم [ 3 / آل عمران / 61 ] دعا رسول الله صلى الله علیه و سلم علیا وفاطمة وحسنا وحسینا فقال اللهم هؤلاء أهلی»

سعد بن ابی وقاص بیان کرتا ہیں: معاویہ نے سعد کو حکم دیا کہ حضرت علی علیہ السلام کو تلوار سے قتل کر دو! تمہیں ابو تراب کو برا بھلا کہنے سے کس چیز نے روکا؟ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت علی کے بارے میں جو تین فضیلتیں سنی ہیں، انہوں نے مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرنے سے روکا ہے اور میں کبھی آپ کی توہین نہیں کروں گا۔ اگر ان میں سے ایک میرے لیے ہوتا تو یہ سرخ بالوں والے اونٹ سے زیادہ مقبول ہوتا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی بعض لڑائیوں میں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ آپ نے انہیں اپنا جانشین مقرر کیا تھا: کیا آپ اس بات پر مطمئن نہیں ہیں کہ میری نسبت آپ کی عزت و مرتبہ وہی ہے جو ہارون علیہ السلام کا موسیٰ علیہ السلام کے لیے ہے، سوائے اس کے کہ اس میں کوئی نبوت شامل نہیں؟ اور میں نے فتح خبیر کے دن یہ کہتے ہوئے سنا: کل میں علم کسی ایسے شخص کو دوں گا جو خدا اور رسول خدا سے محبت کرتا ہے، اور خدا اور رسول خدا بھی اس سے محبت کرے! ہم سب اپنے جھنڈے آگے بڑھا رہے تھے یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: علی علیہ السلام کہاں ہیں؟ وہ علی (علیہ السلام) کو اس وقت لائے جب وہ آنکھ کی تکلیف میں مبتلا تھے۔ آپ نے اپنا لعاب دہن آپ کی آنکھوں پر چھڑک دیا اور آپ کی آنکھیں ٹھیک ہوگئیں، پھر آپ نے جھنڈا آپ کو دے دیا اور خدا نے علی علیہ السلام کے ہاتھوں فتح حاصل کی۔ جب مباہلہ کی آیت نازل ہوئی « یعنی فقل تعالوا ندع ابناءنا و ابناءکم …» رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی، فاطمہ، حسن اور حسین کو بلایا اور فرمایا: "اے اللہ، یہ میری اهل ہیں۔”

مسلم بن الحجاج أبو الحسین، القشیری النیسابوری، صحیح مسلم، ج 4، ص:1870، ناشر: دار إحیاء التراث العربی، بیروت، تحقیق: محمد فؤاد عبد الباقی، عدد الأجزاء: 5

دلیل کا تخمینہ:

مقدمه اول: مباہلہ کی آیت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مباہلہ میں اپنی عورتوں کو پیش کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔

مقدمه دوم: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی حکم الٰہی کی خلاف ورزی نہیں کی۔ مباہلہ میں شرکت کے لیے آنے کے لیے آپ نے اپنے اہل بیت کا تعارف کرایا جس میں "انفس”، "ابنا” اور "نساء” شامل ہیں، جن میں خصوصی طور پر حضرت علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیہما السلام شامل تھے۔

مقدمه سوم: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی دوسرے صحابہ کو ” انفس کے عنوان میں” "اہل بیت” کے لقب میں شامل نہیں کیا۔ اس کے علاوہ، اس نے اپنی ازواج اور بیویوں میں سے کسی کو "نساء” میں اور اس بنا پر اہل بیت کے عنوان میں بھی شامل نہیں کیا۔ نیز امام حسن اور حسین علیہما السلام کے علاوہ کوئی بھی اولاد – جیسا کہ امامہ اور… – ” ابناء” اور اس کے مطابق اہل بیت میں شامل نہیں تھا۔

نتیجہ: آیت مباہلہ سے متعلق اہل بیت کے تعارف میں حکم الٰہی اور پیغمبرانہ تشریح پر توجہ دینے سے معلوم ہوتا ہے کہ مباہلہ اور آیت تطھیر میں ازواج کی کوئی موجودگی نہیں ہے۔

3/6۔ روایت جو«نزلت فی خمسة» کے اوپر دلالت کرتا ہے

ایک اور حدیث جو آیت تطہیر سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کی رخصتی پر دلالت کرتی ہے۔ یہ ابو سعید خدری کی روایت ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشہور صحابیوں میں سے ایک ہیں۔ طبرانی آیت تطہیر کی تفسیر میں اس عظیم صحابی کے بارے میں نقل کرتے ہیں:

3456 – حدثنا الحسن بن أحمد بن حبیب الکرمانی الطرسوسی نا أبو الربیع الزهرانی نا عمار بن محمد عن سفیان الثوری عن داود أبی الجحاف عن عطیة العوفی عن أبی سعید الخدری فی قوله إنما یرید الله لیذهب عنکم الرجس أهل البیت قال نزلت فی خمسة فی رسول الله وعلی وفاطمة والحسن والحسین لم یرو هذا الحدیث عن سفیان الثوری إلا عمار بن محمد ولم یروه عن عمار بن محمد إلا أبو الربیع الزهرانی وسلیمان الشاذکونی

عطیہ عوفی ابو سعید خدری سے روایت کرتی ہیں کہ آیت "انما یرید اللہ…” پانچ لوگوں پر نازل ہوئی ہے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، حضرت علی، فاطمہ، حسن، حسین، سلام اللہ علیہا!

طبرانی، سلیمان بن احمد، المعجم الأوسط، ج3، ص:380، دار الحرمین – القاهرة ، 1415، تحقیق : طارق بن عوض الله بن محمد , عبد المحسن بن إبراهیم الحسینی، عدد الأجزاء : 10

اندلس ابوحیان بھی مذکورہ بالا روایت کو یوں بیان کرتا ہے:

وقال أبو سعید الخدری: هو خاص برسول الله وعلی وفاطمة والحسن والحسین. وروی نحوه عن أنس وعائشة وأم سلمة

ابو سعید خدری آیت تطہیر کی تفسیر میں کہتے ہیں: یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیہم السلامکے لیے مخصوص ہے ۔ اس کو انس بن مالک، عائشہ اور ام سلمہ نے بھی روایت کیا ہے۔

ابوحیان اندلسی، محمد بن یوسف، تفسیر البحر المحیط، ج7، ص: 224، دار الکتب العلمیة – لبنان/ بیروت – 1422 هـ – 2001 م، الطبعة: الأولى، عدد الأجزاء / 8

مذکورہ بالا روایت کا مفہوم ازواج کو خارج کیے جانے کے بارے میں واضح ہے۔

کیونکہ اول: لفظ "نزلت فی خمسة” آیت کے نزول کی محدودیت کی طرف اشارہ کرتا ہے پانچوں لوگوں پر۔

دوم: عبارت "رسول خدا، علی، فاطمہ، الحسین اور حسین علیہم السلام کے لیے مخصوص” کا جملہ ان خاص لوگوں کے لیے آیت کی خصوصیت اور خاصیت پر دلالت کرتا ہے۔

واضح رہے کہ اس موضوع کو انس بن مالک، عائشہ اور ام سلمہ نے بھی روایت کیا ہے، اس کثرت کے باوجود نقل شدہ روایات کی سند کی جانچ پڑتال کی ضرورت نہیں۔

3/7۔ "الصلاة یا اهل البیت” کے معنی کے ساتھ روایات

ایک اور دلیل جو آیت تطہیر میں حضرت علی علیہ السلام، حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا اور امام حسن و حسین علیہما السلام پر اہل بیت کی اجارہ داری پر دلالت کرتی ہے۔ ایسی روایات موجود ہیں جو آیت تطھیر کی مثالوں کی وضاحت میں خدا کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خصوصی سلوک کو ظاہر کرتی ہیں۔ حکیم نیشابوری اپنی صحیح میں نیشابوری کے مسلمان مردوں کے حالات پر مبنی ایک مستند دستاویز کے ساتھ انس بن مالک سے نقل کرتے ہیں:

«4748 – حدثنا أبو بکر محمد بن عبد الله الحفید ثنا الحسین بن الفضل البجلی ثنا عفان بن مسلم ثنا حماد بن سلمة أخبرنی حمید و علی بن زید عن أنس بن مالک رضی الله عنه : أن رسول الله صلى الله علیه و سلم کان یمر بباب فاطمة رضی الله عنها ستة أشهر إذا خرج لصلاة الفجر یقول الصلاة یا أهل البیت إنما یرید الله لیذهب عنکم الرجس أهل البیت و یطهرکم تطهیرا هذا حدیث صحیح على شرط مسلم و لم یخرجاه تعلیق الذهبی قی التلخیص : سکت عنه الذهبی فی التلخیص»

علی بن زید انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں کہ: بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چھ مہنہ تک ہر روز صبح کی نماز کے وقت ۔ آپ فاطمہ زہرا کے گھر کے پاس سے گزرتے تھے اور فرماتے تھے: نماز کا وقت ہو گیا اے اہل بیت! درحقیقت خدا نے تم سے تمام نجاستوں کو دور کرنے اور تمہیں پاک کرنے کا ارادہ کیا ہے۔

حاکم نشابوری، محمد بن عبدالله، المستدرک على الصحیحین، ج 3، ص: 172، دار الکتب العلمیة – بیروت، الطبعة الأولى، 1411 – 1990، تحقیق: مصطفى عبد القادر عطا، عدد الأجزاء: 4

اس کے علاوہ ترمذی نے بھی مذکورہ روایت کو اپنی سنن میں نقل کیا ہے اور اس کی سند کی تصریح کی ہے:

3206 – حدثنا عبد بن حمید حدثنا عفان بن مسلم حدثنا حماد بن سلمة أخبرنا علی بن زید عن أنس بن مالک : أن رسول الله صلى الله علیه و سلم کان یمر بباب فاطمة ستة أشهر إذا خرج إلى صلاة الفجر یقول الصلاة یا أهل البیت { إنما یرید الله لیذهب عنکم الرجس أهل البیت ویطهرکم تطهیرا } قال هذا حدیث حسن غریب من هذا الوجه إنما نعرفه من حدیث حماد بن سلمة. قال وفی الباب عن أبی الحمراء و معقل بن یسار و أم سلمة

علی بن زید انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں کہ: بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چھ مہنہ تک ہر روز صبح کی نماز کے وقت ، آپ فاطمہ زہرا کے گھر کے پاس سے گزرتے تھے اور فرماتے تھے: نماز کا وقت ہو گیا اے اہل بیت! درحقیقت، خدا نے تم سے تمام نجاست کو دور کرنے اور تمہیں پاک و پاکیزہ بنانے کا ارادہ کیا ہے۔

ترمذی سلمی، محمد بن عیسی، الجامع الصحیح سنن الترمذی، ج 5، ص: 352، دار إحیاء التراث العربی – بیروت، تحقیق: أحمد محمد شاکر وآخرون، عدد الأجزاء: 5، الأحادیث مذیلة بأحکام الألبانی علیها

یہ روایت احمد بن حنبل کی مسند میں بھی موجود ہے:

13754 – حدثنا عبد الله حدثنی أبی ثنا أسود بن عامر ثنا حماد بن سلمه عن علی بن زید عن أنس بن مالک : أن النبی صلى الله علیه و سلم کان یمر ببیت فاطمة ستة أشهر إذا خرج إلى الفجر فیقول الصلاة یا أهل البیت { إنما یرید الله لیذهب عنکم الرجس أهل البیت ویطهرکم تطهیرا } تعلیق شعیب الأرنؤوط : إسناده ضعیف لضعف علی بن زید : وهو ابن جدعان

علی بن زید انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں کہ: بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چھ مہنہ تک ہر روز صبح کی نماز کے وقت، آپ فاطمہ زہرا کے گھر کے پاس سے گزرتے تھے اور فرماتے تھے: نماز کا وقت ہو گیا اے اہل بیت! درحقیقت خدا نے تم سے تمام نجاستوں کو دور کرنے اور تمہیں پاک کرنے کا ارادہ کیا ہے۔

أحمد بن حنبل، أبو عبدالله الشیبانی، مسند الإمام أحمد بن حنبل، ج 3 ص: 259، مؤسسة قرطبة، القاهرة، عدد الأجزاء: 6، الأحادیث مذیلة بأحکام شعیب الأرنؤوط علیها

واضح رہے کہ مستدرک الحاکم اور ترمذی کی روایات میں روایت کی تصحیح کے مطابق ابن جدعان کی سند کی وجہ سے روایت میں ترمیم کی کوئی وجہ نہیں ہے اور اس سے روایت کی سند باطل نہیں ہوتی۔

مذکورہ بالا روایت اہل سنت کے پرانے تفسیری منابع میں بھی شامل ہے۔ ابن ابی زمنین ابی الحمرا سے روایت کرتے ہیں:

«یحیى : عن یونس بن أبی إسحاق ، عن أبی داود ، عن أبی الحمراء ، قال: رابطت المدینة سبعة أشهر مع النبی علیه السلام ، وسمعت النبی إذا طلع الفجر جاء إلى باب علی وفاطمة فقال : الصلاة ثلاثا إنما یرید الله لیذهب عنکم الرجس أهل البیت ویطهرکم تطهیرا»

ابی حمرہ کہتے ہیں کہ میں نے مدینہ میں سات مہینے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لشکر میں گزارے اور جب بھی صبح کی نماز کا وقت ہوتا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی اور فاطمہ سلام اللہ علیہا کے دروازے پر تشریف لاتے اور تین مرتبہ فرماتے: نماز کا وقت ہے، بے شک خدا نے چاہا ہے کہ آپ اہل بیت سے تمام نجاستیں دور کرے اور آپ کو پاک کرے۔

ابن ابی زمنین، محمد بن عبدالله، تفسیر القرآن العزیز، ج3، ص: 399، سنة الولادة 324هـ/ سنة الوفاة 399ه ، تحقیق، أبو عبد الله حسین بن عکاشة – محمد بن مصطفى الکنز، الناشر الفاروق الحدیثة، سنة النشر 1423هـ – 2002م، مکان النشر مصر/ القاهرة، عدد الأجزاء 5

دلیل کا تخمینہ:

پہلا نکتہ: مندرجہ بالا روایتوں کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل، اہل بیت علیہم السلام کا تعارف کروانے میں مسلسل تھا اور اس میں چھ مہینے سے زیادہ عرصہ شامل تھا۔ یہ تکرار اور تعارف کی قسم جو بعض لوگوں کے لیے منفرد تھی، اس بات کی علامت ہے کہ اہل بیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں صرف یہی خاص لوگ ہیں۔

دوسرا نکتہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اہل بیت کا عملی تعارف، آیت تطھیر کی ان کی عملی تفسیر سے متعلق ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ آیت کریمہ میں اہل بیت کی خصوصی وضاحت اور مثالوں کے مقام پر ہے۔

تیسرا نکتہ: اس قسم کا عملی تعارف جو مندرجہ بالا مخصوص لوگوں کے لیے تجویز کیا گیا ہے، ازواج میں سے کسی کے لیے ایک بار بھی نہیں بتایا گیا۔ اگر آیت تطھیر میں اس نبی کی ازواج اہل بیت کی مثال کے اندر ہوتیں تو ان کے ساتھ ایسا سلوک کیا جانا چاہیے تھا اور اس کی اطلاع دی جانی چاہیے تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار، ازواج کے جھگڑے کی جگہ سے نکل جانے کی علامت ہے۔

3/8۔ . "اہل بیت” کی تفسیر "عترت” سے

زیر بحث مسئلہ کا ایک اور مثبت ثبوت وہ روایت ہے جو اہل بیت کو عترت کے فعل کے ساتھ بیان کرتی ہے۔ شہر بن حوشب ام سلمہ سے روایت کرتے ہیں:

947 – حدثنا علان بن عبد الصمد حدثنا القاسم بن دینار ثنا عبید الله بن موسى ثنا إسماعیل بن نشیط قال سمعت شهر بن حوشب قال : أتیت أم سلمة أعرفها على الحسین فقالت لی فیما حدثتنی : أن رسول الله صلى الله علیه و سلم کان فی بیتی یوما وأن فاطمة جاءته بسخیة فقال : ( انطلقی فجیئی بزوجک أو ابن عمک وابنیک ) فانطلقت فجاءت بعلی و حسن و حسین فأکلوا من ذلک الطعام ورسول الله صلى الله علیه و سلم على منامة لنا وتحته کساء خیبری فأخذ الکساء فجللهم إیاه ثم رفع یدیه إلى السماء ثم قال : ( اللهم هؤلاء عترتی وأهلی فأذهب عنهم الرجس وطهرهم تطهیرا ) فقالت أم سلمة : وأنا من أهل بیتک ؟ فقال : ( وأنت إلی خیر )

شہر بن حوشب بیان کرتے ہیں کہ میں ام سلمہ کے پاس امام حسین علیہ السلام کے بارے میں جاننے کے لیے گیا۔ اس نے مجھے اپنی حدیث کے ایک حصے میں بتایا: درحقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن میرے گھر میں تشریف فرما تھے، حضرت فاطمہ گرم کھانا لے کر آپ کے پاس آئیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جاؤ اور اپنے شوہراور اپنے دو بچوں کے ساتھ میرے پاس آؤ! وہ گیا اور امام علی، امام حسن اور حسین علیہما السلام کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور سب نے اس کھانے میں سے کھایا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری آرام گاہ میں تھے اور خیبری کے کمبل کے نیچے تھے، آپ نے ان کمبلوں کو لے کر اس سے ڈھانپ لیا، پھر اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے اور فرمایا: اے اللہ یہ میری امت اور میرے اہل و عترت ہیں، ان سے ہر قسم کی نجاست دور کر اور انہیں پاک کر! ام سلمہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ آپ کے اہل بیت کون ہیں؟ اس نے کہا: تم خیر پر ہو!

طبرانی، سلیمان بن احمد، المعجم الکبیر، ج23، ص: 396، مکتبة العلوم والحکم – الموصل، الطبعة الثانیة ، 1404 – 1983، تحقیق : حمدی بن عبدالمجید السلفی

عربی لفظ اور استعمال میں عترت کے معنی بالکل واضح ہیں۔ ابن فارس معجم المقایس اللغة میں لکھتے ہیں:

« العین و التاء و الراء … هم أقرباؤه، مِن ولدِه و ولدِ ولده و بنى عمِّه. هذا قولُ الخلیل فى اشتقاق‏ العِتْرَة …»

اس کا ایک مفہوم یہ ہے کہ کسی شخص کے رشتہ داروں کو اس کے بچے، اولاد، اور چچازاد کہا جاتا ہے اورخلیل کا یہ الفاظ اشتقاق عترت ہیں۔

ابن فارس، احمد بن فارس، معجم مقاییس اللغه، ج‏4 ؛ ص217، قم، چاپ: اول، 1404 ه.ق.

خلیل بن احمد فراہیدی نے العین میں بھی اسی معنی کو ذکر کیا ہے جیسا کہ اوپر ہے:

«و عِتْرَة الرجل: أصله. و عِتْرَة الرجل أقرباؤه من ولده‏ و ولد ولده و بنی عمه دِنْیا.»

عترت انسان کا اصلا اور اس کی ریشہ ہے اور آدمی کے رشتہ دار اس کے بچوں سے ہوتے ہیں اور اس کے بچوں کے بچے اور اس کے چچازاد نیچے ہوتے ہیں۔

فراهیدى، خلیل بن احمد، کتاب العین، ج‏2 ؛ ص66، قم، چاپ: دوم، 1409 ه.ق.

عترت کے معنی کے اعتبار سے یہ واضح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج عترت کے معنی میں شامل نہیں ہیں۔ عربی فصیح استعمال میں سے کسی شخص کی شریک حیات کے لیے عترت کا استعمال عام نہیں رہا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اس قید سے معلوم ہوتا ہے کہ آیت تطھیر کے سنجیدہ معنی میں بیویاں شامل نہیں ہیں۔

نتیجہ

اس مضمون کے عقلی دلائل پر توجہ دینے سے قرآن اور بالخصوص روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات کسی بھی اعتبار سے قبول نہیں کی جا سکتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ازواج ایت تطھیر میں داخل ہے۔

کیونکہ بہت سے عقلی دلائل موجود ہیں جیسے کہ منشائے الٰہی میں تضاد اور تھافت، رضائے الٰہی کا تکوینی ہونا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کو آیت کے مفاد پر کوئی اعتراض نہیں ہے اور نواصب کی طرف سے ازواج کو اختصاص دینا دلالت کرتا ہے کہ ازواج ایت تطھیر میں شامل نہیں ہے۔

عقلی شواہد کے علاوہ بے شمار قرآنی شواہد موجود ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ازواج رسول خدا ایت تطھیر سے خارج ہے۔ آیت تطهیر کے دائرہ سے ازواج کو خارج کرنے کی شاید سب سے اہم اور مضبوط وجہ آیت شریفہ کی نبوی تفسیر ہے۔

اس مضمون میں ہم نے مستند اور صحیح سنی روایات کے سات فرقوں کا حوالہ دیا ہے جو تطھیر کی معزز آیت سے واضح طور پر ازواج کی رخصتی پر دلالت کرتی ہیں۔

تمام عقلی شواہد، قرآنی دلائل اور بالخصوص روایتی شواہد پر دھیان دینا ایک محقق کو فکری تعصب کے بغیر اس نتیجے پر پہنچاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کسی بھی صورت میں آیت تطهیر میں شامل نہیں ہے۔

Continue Reading

Newsletter

Get the best tech deals, reviews, product advice, competitions, unmissable tech news and more!

زیادہ پڑھے جانے والی پوسٹس